Tuesday 19 March 2019

اللہ تعالٰی اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصول سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں۔

اللہ تعالٰی اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصول سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں۔ کسی مسلمان کے برے اعمال کی وجہ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غلط نہیں کیا جا سکتا۔البتہ اس مسلمان کے عمل کو غلط قرار لازمی دیا جانا چاہیے جس نے یہ غلط عمل کیا یا اسلام کے نام پہ کسی پہ ظلم کیا۔اسلامی تاریخ میں کئ ایسی مثالیں موجود ہیں جب کفار کے ساتھ بھی عدل ہوا اور مسلمان کو سزا ملی۔ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ظاہری مسلمان کے مقابلے میں ایک یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا اور وہ یہودی یہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔دوسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا جب انہوں نے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم قبطی سے زیادتی کرنے پر سزا دی اور کہا کہ تم لوگوں نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد بنا تھا،مذہبی رواداری کی اور مثال یہ کہ خلافت عباس میں عیسائ و یہودی کئ اعلٰی عہدوں پہ فائز رہے،خلافت عثمانیہ میں باقاعدہ غیر مسلم بچوں کی کفالت کر کے انہیں سرکاری ملازمت دی جاتی،اور یہودی اس سلطنت میں سکون سے رہ رہے تھے جب کہ یورپ میں ان پہ ظلم پہ ظلم ہو رہے تھے جس کی خود یورپی تاریخ گواہ ہے۔البتہ کچھ ہر وقتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی غیر مسلم سے زیادتی کریں۔اس صورت میں اس مسلمان کو اس کے ظلم کی پوری سزا ملنی چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جائے۔غیر مسلم عورت کی عزت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کہ ایہ مسلمان عورت کی۔یہی وجہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی عورتوں کی بیحرمتی سے منع کیا گیا ہے۔اگر کوئ زیادتی کرے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔قرآن و حدیث کا طالبعلم ایک مدرسے کا مسلمان ہو خواہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم نوجوان،جب بھی وہ کسی غیر مسلم سے زیادتی کرے اسے پوری سزا ملنی چاہیے لیکن کسی کے برے عمل سے اسلام کی تعلیمات کو نہیں جھٹلایا جائے گا کیونکہ ہمارے لیے نمونہ کوئ عالم کوئ مدرس کوئ پروفیسر نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ساتھ کام کرنے والے غیر مسلموں کو بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔خود ہمارے ساتھ کئ عیسائ ماتحت کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری بول چال عام مسلمانوں سے تعلق سے مختلف نہیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔انڈیا کے ایک بزرگ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ایک سکھ بیت الخلا میں گیا مگر وہاں گندگی بھری ہونے کی وجہ سے واپس چلا آیا۔اس پہ وہ بزرگ گئے،بیت الخلا خود صاف کیا،جسے پھر اس سکھ نے استعمال کیا،یہ سلوک دیکھ کر وہ سکھ مسلمان ہو گیا۔
جس قدر مذہبی تعصب مسلمان ممالک میں کفار کے خلاف پایا جاتا ہے،اگرچہ اس کی بنیاد پہ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانا یا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ظلم ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ  بغض یورپ و امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس کی مثال حجاب والی عورتوں کا حجاب کھینچ لینا،مسجدوں پہ حملے کرنا،زبردستی سور کا گوشت کھانے پہ مجبور کرنا جس پہ ایک پاکستانی سائنسدان امریکہ چھوڑ کر واپس آچکے ہیں،اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے والوں کو ہراساں کرنا،پردہ جو کہ ایک مسلمان عورت کا ذاتی و شرعی فعل ہے اس پہ پابندی لگانا،افغانستان میں دس لاکھ مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کے سروں میں کیل ٹھوکنا،بند کنٹینر میں سانس بند کر کے قتل کرنا،نہتی عورت کو چھیاسی سال قید کی سزا سنانا،ڈرون حملوں میں ناجائز بیگناہ عوام کا قتل کرنا،عراق میں سنی شیعہ تفریق پیدا کرا کے وہاں پانچ لاکھ سنی مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کو زندہ جلانا،مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹنا کونسا جائز کام ہے اور بد قسمتی سے یہ ظلم کفار کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ہو رہا ہے اور اس کی تصدیق خود منصف یورپی صحافی جیسا کہ میری یوان ریڈلی کر چکے ہیں۔جب کہ عالم اسلام میں رواداری کی شرح خود بین الااقوامی سروے کے مطابق باقی ممالک سے زیادہ ہے۔
جہاں تک مشرق وسطی کی بات ہے وہاں مقیم ملازم حضرات سے خفیہ اور اس طرح کی کچھ زیادتیاں کی جاتی ہیں لیکن اس زیادتی سے اسلام کا انکار اور کفر کا رحم ثابت نہیں کیاجا سکتا کیونکہ جو ظلم عراق، افغانستان،کشمیر،برما،چیچنیا،مشرقی تیمور،الجزائر،لیبیا،فلسطین،شام میں مسلمانوں سے روا رکھا جارہا ہے وہ ان غیر مسلم کی مذہبی رواداری ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔جو  صحافی صاحبان   مسلمانوں کے ظلم  پہ مضمون لکھتے ہیں، ساتھ میں اگر ان ممالک کے مظلوم مسلمانوں اور عافیہ صدیقی کا تذکرہ بھی کر لیں  تو مضمون اور جاندار ہو جائے کیونکہ موازنہ تب موثر ہوتا ہے جب ایمانداری پہ مبنی ہو۔باقی ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ کافر مسلمان سے کرے یا مسلمان کافر سے اور ظلم کی سزا ظالم کو لازمی ملنی چاہئے اس سے پہلے کہ مظلوم کی آہ عرش پہ پہنچ کے ظالم کی دین و دنیا برباد کر ڈالے۔
مکمل تحریر >>

کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایلومیناتی یعنی شیطان کا پجاری ہے؟

 کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایلومیناتی یعنی شیطان کا پجاری ہے؟
یہ شبہ اس وقت تقویت پکڑ گیا جب نو منتخب امریکی صدر کی اس قسم کی تصاویر منظرِ عام پہ آئیں جنمیں وہ ایلومیناتی گروہ کے مخصوص نشان اور انداز اپنائے ہوئے تھا...
اسطرح کی کہانیاں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ گردش کرنے لگیں جن میں  ڈونلڈ ٹرمپ کے صیہونی تنظیم فری میسنز ہونے کا قیاس ظاہر کیا گیا..

ماضی میں  کئی ممالک کے سربراہان کو ایلومیناتی تنظیموں سے متعلق ہونے کی خبریں گردش کرتی رہیں
جیسے ایران کے صدر احمدی نژاد کو انگلیوں سے مخصوص نشان بنانے پہ ایلومیناتی ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا
اسی طرح ایک  خلیجی ملک کی  افواج میں ایک نشان ایلومیناتی علامت آنکھ سے مشابہ ہے
اسی طرح بعض نیوز چینلز کسی واقعے کو رپورٹ کرتے وقت کسی جگہ کو نقشے پہ دکھانے کے لئیے مخصوص تکونی آنکھ کو زوم اِن میں دکھاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ چینلز بھی دجالی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں
پاکستان میں بھی 70کی دہائی میں فری میسنز کی سرگرمیاں عروج پہ تھیں کئی بڑے شہروں میں انکی خفیہ عبادت گاییں قائم. تھیں..
فوجی حکمران ضیاءالحق مرحوم نے فری میسنز کے خلاف سخت کارروائی کی اور تقریباً ان کا خاتمہ کر دیا
مگر اب اخبارات میں کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ پاکستان میں دوبارہ ان ایلومیناتی قوت نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں..
ایلومیناتی شیطان کے پجاری کہا جاتا ہے یہ سب مفروضے  ہیں مگر صاحبِ علم لوگ ان معاملات پی گہری نظر رکھے ہیں اور  اس پہ مسلسل تحقیق کر رہے ہیں
آئییے جائزہ لیتے ہیں ایلومینیاتی دراصل ہیں کون!!!!

فری میسنز ، لا دین ملحد، دہرئییے  شیطان پرست، صیہونی، روزی کروشن، یوگی مہاراج  ایلومیناتی  شیطانی قوتوں کے پیروکار گروہ ہیں
ان گروہوں کے ارکان بظاہر ایک خدا کو مانتے کی مگر درونِ خانہ براہِ راست یا بالواسطہ شیطان کے پجاری ہیں اور اس شیطان کو بیفومت کے نام سے پکارتے ہیں
اس کی تصویر اور بت کی تخلیق بھی کرتے ہیں بظاہر خدا کا نام لیتے ہیں مگر یہ صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئیے ہے
یہ مختلف فلسفیانہ تاویلات کا سہارا لے کر خدا کے بارے میں  مختلف توجیہات و نظریات پیش کرتے ہیں
کبھی خدا کو ارتقاء کا نام دیتے ہیں
کبھی وقت کو ہی خدا کے مماثل قرار دیتے ہیں تو کبھی خدا کی سائنٹیفک تعریف کرتے ہیں کہ خدا  مادے اور توانائی پر مشتمل ہے
کائنات کی تخلیق کو بِگ بینگ کا کرشمہ کہتے ہیں
خدا کو ایسے مادے سے تشکیل شدہ سمجھتے ہیں جس میں روح ذہانت اور عقل خودبخود محفوظ ہے
خدا کو انسانی ارتقاء کی معراج  قرار دیتے ہیں
اور اس معراج کو کسبی سمجھتے ہیں کہ انسان ایک خاص مقام اور ایک خاص منزل پہ پہنچ کے خدا کے درجے پہ پہنچ سکتا ہے
ان گروہوں میں مختلف درجات ہیں  عموماً ان مدارج کے حامل افراد کے مختلف فرائض ہیں
عام ارکان کو انکی اصل حقیقت سے جانکاری نہیں ہوتی
عام لوگوں کو یہ بہترین اخلاقی روایات و اقدار پی مشتمل رویہ پیش کرتے ہیں
صبر برداشت امن محبت انسانی اخوت، بھائی چارہ، آزادی مذہب سے بالا تر انسانیت، سائنسی ترقی، انسانی ارتقاء، تہزیب ، گلوبل ثقافت ،  انٹریکشن مابین اقومِ عالم وغیرہ وغیرہ یہ اصطلاحات انکے ہتھیار ہیں
ان گروپس کے ارکان عام طور پہ اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھتے ہیں
شروعات میں اپنے اپنے مذہب کی مقدس کتابوں اور پیغمبروں کے نام پہ حلف لیتے ہیں کہ وہ تنظیمی معاملات میں حد درجہ رازداری برتیں گے حتیٰ کہ اپنی اولاد سے بھی چھپائیں گے
نئے ارکان کی  اسطرح سے برین واشنگ کی جاتی ہے کہ اسے علم بھی نہیں  ہوتا اور وہ دھیرے دھیرے مذہب سے برگشتہ ہوتا چلا جاتا الحاد اور دہریت کی طرف چل نکلتا ہے
یہی ارکان جب اس فرقےکی  تعلمیات و افکار پہ ایمان لے آتے ہیں تب وہ آخری مدارج پہ پہنچ کے واضح طور پہ شیطان کے پجاری بن جاتے ہیں
اعلیٰ درجے پہ پہنچنے والے افراد خفیہ عبادت گاہوں میں سفلی عملیات کے ذریعے خود کو پرسرار قوتوں کا حامل بنا لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک پروسیجر اپنا کہ اپنے جسم میں  شیطان کو حلول کر لیتے ہیں اور اس سے رہنمائی لے کر اپنی پالیسیاں بناتے ہیں
یہ لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں  مگر آپس میں  مختلف کوڈ ورڈز اور پرسرار اشاراتی زبان میں  گفتگو کرتے ہیں
اسکے لئیے یہ مختلف علامات  جیسے انگلیوں کو ایک خاص طریقے سے بائینٍڈ کر کے مخصوص نشان بنانا استعمال کرتے ہیں
ان گروہوں کی چند شناختی علامات بھی ہیں جیسے
ڈیوڈ سٹار(چھ نوک والا ستارہ)اور تکون  اہرام نما عمارت ایک آنکھ اور چند جانور جیسے الو اور کتا وغیرہ
انکا مقصد دنیا پہ حکومت کرنا اور شیطانی نظام نافذ کرنا ہے اس سلسلے میں یہ سائنسی ایجادات سے بھر ہور استفادہ کرتے ہیں انٹرنیٹ سوشل میڈیا اور مختلف تفریحی ویب سائٹس کے ذریعے یہ دنیا کے تمام لوگوں کی دلچسیاں انکے مزاج مذہبی نفسیاتی رحجان کے متعلق معلومات جمع کرتے ہیں ...تاکہ بوقتِ ضرورت ان معلومات کو اہنے مقصد کی تکمیل میں استعمال کیا جا سکے...
گرچہ انکے متعلق مبالغے سے کام لیا جاتا ہے اور
عموماً لوگ ان چیزوں کو لا یعنی اور من گھڑت اور توہم پرستی سے تعبیر کرتے ہیں
مگر اس حقیقت کو  جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا اس میں  سچائی ضرور ہے
مکمل تحریر >>

جزیہ اور اسکے احکامات

سوال
جزیہ کیا ہے؟
جواب ؛
یہ ایک فارسی لفظ "گزیہ"کا عربی روپ ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے دفاعی ٹیکس، ہر زمانہ میں فاتح قومیں مفتوح قوموں سے تاوان جنگ جزیہ اور دوسرے ناموں سے لوٹ کھسوٹ کرتی رہی ہیں، اپنے زیر حکومت آباد دوسری قوموں کے لوگوں پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرتی رہی ہیں، اسلام نے ہمیشہ اپنی حکومت کے ذمہ داروں کو ظلم و ستم سے باز رہنے کی ہدایت، تاکید کی ہے اس نے زیر اقتدار علاقوں میں آباد غیر مسلموں پر ان کے دفاع اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک معمولی ٹیکس جزیہ کے نام پر لگایا ہے جو ان کے ماتحتی قبول کر لینے کی محض ایک علامت ہوتا ہے جو غیر مسلم کسی اسلامی حکومت سے لڑ کر شکست کھا جائیں اور پھر اسلامی حکومت کے شہری بننا قبول کر لیں، ان سے یہ ٹیکس لیا جاتا ہے.

سوال:
صرف غیر مسلموں سے ہی کیوں جزیہ لیا جاتا ہے؟
جواب:
کیونکہ ایک اسلامی حکومت میں غیر مسلموں پر فوجی ذمہ داریاں نہیں ڈالی جاتیں، اسلامی حکومت انہیں مجبور نہیں کرتی کہ مختلف نظریات رکھتے ہوئے بھی وہ اسلامی حکومت کے عقیدے اور نظریہ کا بار اٹھائیں. یہ ذمہ داری وہ صرف مسلمانوں پر ڈالتی ہے کہ وہ ریاست کا تحفظ کریں. ریاست کے عوام کا تحفظ کریں، اس ذمہ داری میں غیر مسلموں کے مذہب، عبارت گاہیں، عزت، آبرو، جان اور مال کا تحفظ بھی شامل ہے.
سوال:
کیا مسلمانوں سے بھی کوئی رقم وصول کی جاتی ہے؟
جواب:
ان سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے جس کی رقم جزیہ سے بہت زیادہ ہوتی ،مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود فوجی خدمات بھی پیش کرنا ہوتی ہیں. اس لئے مسلمانوں پر ٹیکس بھی زیادہ ہوا اور فوجی خدمت سے بھی انہیں مستثنٰی نہیں کیا گیا.

سوال:
کیا جزیہ اسلامی حکومت کے ہر غیر مسلم شہری پر عائد ہوتا ہے؟
جواب:
نہیں! جن غير مسلموں سے معاہدہ ہو گیا ہو، ان پر جزیہ نہیں ہے، جو غیر مسلم جزیہ دینا پسند نہ کرتے ہوں، وہ کوئی اور صورت اپنا سکتے ہیں.
سوال:
اگر اسلامی حکومت غیر مسلموں کا تحفظ کرنے کی اہل نہ رہے تو کیا اسے جزیہ کی یہ رقم واپس کرنی ہوگی؟
11/13/16, 2:28 PM - Soldier of peace: جواب:
یقیناً یہ رقم اس سے واپس لی جا سکے گی.
سوال:
اگر غیر مسلم اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونا چاہیں تو کیا انہیں یہ موقع دیا جائے گا اور ایسی شکل میں کیا جزیہ ختم ہو جائے گا؟
جواب:
انہیں اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا اور ایسی صورت میں ان سے جزیہ کی رقم نہیں لی جائے گی.
سوال:
کیا جزیہ مذہبی بنیاد پر امتیاز ظاہر نہیں کرتا؟ کیا یہ غیر مسلموں سے اسلام قبول کروانے کی کوشش نہیں ہے؟
جواب:
نہیں! کیونکہ جزیہ غیر مسلموں کے مذہبی لوگوں، سادھوؤں، سنتوں اور پادریوں وغیرہ پر سرے سے عائد ہی نہیں ہوتا. وہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور معذوروں پر بھی عائد نہیں ہوتا. وہ صرف خدمت کے قابل ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جنہیں اسلامی فوج میں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتے.
سوال:
کیا ہر غیر مسلم جوان کو جزیہ دینا ہوتا ہے اور کیا جزیہ کی شرح سب کے لیے یکساں ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں! جزیہ کی رقم ہر ایک کی اقتصادی حالت سامنے رکھ کر طے کی جاتی ہے، اور صرف
ضرورت سے زائد آمدنی میں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے. بالکل نادار غیر مسلم نوجوانوں کے لئے سرے سے جزیہ معاف ہوتا ہے بلکہ ان کو اسلامی بیت المال سے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے.
سوال:
کیا جزیہ دینے والے غیر مسلموں کے دھرم میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی؟
جواب:
قطعاً نہیں.
سوال:
کیا ان کے حقوق اور فرائض اور ان کا شہری درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے؟
جواب:
یقیناً ان کے شہری حقوق اور درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے.
سوال:
تو کیا یہ کوئی عام اسلامی حکم نہیں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جزیہ کا مطلب مذہبی اختلاف کی بنا پر غیر مسلموں کی توہین ہے؟
جواب:
اگر یہ کوئی عام اسلامی حکم ہے تو بتائیے دنیا میں آج کس اسلامی ملک میں کس غیر مسلم سے جزیہ لیا جا رہا ہے؟ اسلام کے خلاف اس طرح کی جو بے سروپا اور جھوٹی باتیں کہی پھیلائی جاتی ہیں، ان کے پیچھے کچھ دوسرے مقاصد کار فرما ہوتے ہیں
مکمل تحریر >>

علامات قیامت فحاشى كا عام هونا

علامات قیامت
فحاشى كا عام هونا

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَظْهَرَ الْفُحْشُ
رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم نے فرمایا:
اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى الله عليه وسلم كى جان هے _ قيامت اس وقت تك قائم نهيں هوگى جب تك فحاشى عام نا هو جائے
مستدرك حاكم: 253

آج فحاشی و عریانی کا سیلاب کس طرح امڈ آیا ہے ہم سے ہر کوئی اپنی آنکھوں سے اسکا مشاہدہ کر رہا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گھر کے مرد بھی دیوث { بیغیرت} ہوگئے ہیں گو کہ یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہی ہے کر مرد دیوث { بیغیرت} ہوجائے گا، اسکی ماں بہن بیوی بیٹی بے حیائی کا ارتکاب کرتی پھرتی ہے اتنے چست اور بیہودہ کپڑے کے دیکھنے والا شرما جائے لیکن انکو پہننے میں غیرت نہیں آتی اور اس مرد میں اتنی غیرت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں روک پائے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بھی وہی سب دوسری عورتوں میں دیکھنے کا شوقین ہوتا ہے جو اسکی گھر کی عورتیں دوسروں کا دیکھا رہی ہوتی ہیں،
بائیکوں اور رکشوں پر بیٹھنے کا اسٹائل بھی کم بیہودہ نہیں ہوتا، پھر اسکے ساتھ ساتھ کریم، اوبر اور بائیکیا والوں کی بائیک سواری جس میں لڑکیاں نا محرموں کیساتھ آزادانہ سفر کرتی ہیں اور اس بے حیائی کو مشتہر کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیرت ستو پی کر سو رہی ہے
اگر آپ اسلام کے نفاذ کے لئے کوئی بینر لگائیں تو فورا کرائم ونگ حرکت میں آجاتا ہے، لیکن کریم والوں کا دعوت گناہ پر لگا بل بورڈ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہے
اسکے ساتھ ساتھ پہلے مخلوط سفر کا مسئلہ صرف پنجاب میں تھا کراچی اس سے پاک تھا لیکن جب سے چنگچی رکشوں کی آمد ہوئی ہے تب سے یہ وباء کراچی میں بھی پھیل گئی ہے چنگچی رکشوں میں لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ بیٹھایا جاتا ہے اورسیٹوں میں فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ٹانگوں کا آپس میں ٹکرانا لازمی ہے
ارباب اختیار اور عوام کو اسکی طرف بھی توجہ دینا چاہئے

اسرار احمد صدیقی

مکمل تحریر >>

Sunday 24 February 2019

عجائبات کائنات ۔۔۔۔ دوسرا حصہ اور آخری حصہ

عجائبات کائنات ۔۔۔۔ دوسرا حصہ اور آخری حصہ
محمد یاسر فروری 23, 2019

۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج ۔۔۔۔۔۔
ہماری زمین پر روشنی اور حرارت کا ذریعہ، بہتی اور بھڑکتی گیسوں کا اُبلتا ہوا سمندر، مُحققینِ فلکیات کی تحقیق و محتاط اندازے کے مطابق ایک سو بیس کھرب میل کی وسیع و عریض مسافتوں تک اپنی کششِ ثقل سے خلائی اجسام کو گرفت میں رکھنے والا ہمارا سورج۔سب سے پہلے یہ سمجھا جائے کہ ہمارا سورج ایک ستارہ ہے۔

نہایت اہم معلومات
“زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں، ایک عام ستارے کی عمر چند ارب سال ہوتی ہے۔ستارہ جتنا بڑا ہوگا اس کی عمر اسی قدر کم ہوگی اور سائز میں جتنا چھوٹا ہوگا ایندھن کم استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی عمر اسی قدر زیادہ ہوگی۔ستارے گیس اور گرد کے ان بادلوں میں جنم لیتے ہیں جنہیں ہم نیبیولا کہتے ہیں۔نیبیولا یا سحابیہ کے اندر گرد اور گیس کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس ٹکراؤ کی وجہ سے گرد اور گیس سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں یوں ایک ستارے کا بچہ پیدا ہوتا ہے جسے پروٹوسٹار کہا جاتا ہے۔۔۔اب یہ پروٹو سٹار “نیم ستارہ” اپنے اندر کے دباؤ کی وجہ سے بہت زیادہ کثیف اور لامنتہا درجہ حرارت کو پہنچ جاتا ہے۔بالآخر اس نیم ستارے کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر خود کار ایٹمی دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔جب کسی بھی پروٹوسٹار کے اندر خود کار دھماکے شروع ہو جائیں تو اس وقت وہ ایک مکمل ستارہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ پا لیتا ہے۔جیسا کہ ہم نے اوپر یہ پڑھا کہ زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ہر ستارے کے اندر ارتقائی مراحل چل رہے ہوتے ہیں ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، درجہ حرارت اور کثافت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن سے تبدیل ہوئی ہیلئم بھی ہائیڈروجن کے ساتھ جلنے لگ جاتی ہے، جس سے ستارے کی گرمی اور حدت مزید بڑھ جاتی ہے، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جلی ہوئی ہیلئم کی راکھ کاربن کی صورت میں ستارے کے مرکز میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ہیلئم سے بنی راکھ یعنی کاربن جب ستارے کے مرکز میں ایک خاص مقدار سے تجاوز کرتی ہے تو ستارہ ایک دھماکے سے پھول کر بہت بڑا “red giant” یعنی سرخ دیو کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اپنی جسامت سے کئی گنا تک بڑا ہو جاتا ہے۔اگر ستارہ ہمارے سورج جیسا ہو تو سکڑنے لگتا ہے اور سفید بونا سیارہ بن جاتا ہے، جس کے ایک چائے کے چمچ کے برابر مادے کا وزن کئی ٹن تک ہو سکتا ہے۔۔اس کے بر عکس اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑا ہو تو ایک اور دھماکہ ہوتا ہے یہ دھماکہ کائنات کے دور دراز تک کے علاقوں کو روشن کر دیتا ہے اسے “سُپر نووا” Super nova کہا جاتا ہے۔سپرنووا کا شکار ستارہ اپنی موت کے وقت ہمارے سورج سے ایک سو ارب گنا زیادہ روشنی اور توانائی خارج کرتے ہیں۔اس دھماکے کے بعد وہ ستارہ ایک “سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔جی ہاں آپ درست ہیں سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول۔۔۔وہی بلیک ہول جو انسانی سوچ اور سمجھ کا اختتام ہے۔مزید یہ بھی جانتے چلیں کہ جو ستارہ اپنی موت کے قریب ہے اگر وہ ہمارے سورج سے ڈیڑھ سو گنا بڑا ہو تو دھماکہ سُپر نووا سے بھی بڑا ہوتا ہے، جسے ہائپر نووا Hyper nova کہا جاتا ہے۔ہائپر نووا اس قدر قیامت خیز دھماکہ ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں ہائپر نووا اتنی توانائی خارج کرتا ہے جتنی توانائی ہمارا سورج ساٹھ ارب سالوں میں خارج کرے، ہائپر نووا سے اس قدر خطرناک اور طاقتور شعائیں نکلتی ہیں جو کہ ساڑھے سات ہزار نوری سال دور سے ہی ہماری زمین پر زندگی کا صفایا کر سکتی ہیں۔یعنی اگر ہماری زمین سے ساڑھے سات ہزار نوری سال کی دوری پر کقئی ہائپر نووا کا دھماکہ ہوتا ہے تو سورج سے زیادہ روشنی اس دھماکے کی ہو سکتی ہے یہاں اور اس کی مہلک شعائیں جنہیں Gama ray bursts کہا جاتا ہے زمین پر قیامت برپا کر دیں۔
ایک ہزار برس قبل ہوئے ایک سپر نووا کا مشاہدہ آپ اپنی چھت سے کم از کم چھتیس انچ “36inchs” فوکل لینتھ والی دوربین سے کر سکتے ہیں۔جس جگہ سپرنونوا کا وہ دھماکہ ہوا تھا آج وہاں کھربوں میلوں پر پھیلے رنگ برنگی گیسوں کے عظیم بادل دکھائے دیتے ہیں، جن کو “Messier 1” یا “Crabe nebula” کا نام دیا گیا ہے۔

میرا خیال ہے اب ہم کافی حد تک ستاروں کی تخلیق و تباہی کو سمجھ چکے ہیں۔حال ہی میں کچھ برس پہلے پلوٹو سے بھی دور ایک اور سیارہ دریافت ہوا جسے سیڈنا کا نام دیا گیا۔بہت زیادہ دوری کے سبب اس سیارے کے بارے میں کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ہو سکیں تاہم جس قدر ہوئیں وہ انسانی عقل کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہیں۔زمین کا تین سو پینسٹھ دن کا ایک سال آپ کے ذہن میں ہوگا ۔۔۔لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں اس سیارے کا ایک سال کتنے عرصے میں پورا ہوتا ہے؟ سیڈنا گیارہ ہزار کم و بیش سال میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے، یعنی زمین پر گیارہ ہزار سال گزرنے کے بعد اس سیارے پر ایک سال مکمل ہوتا ہے۔اس کا مدار سورج کے گرد نہایت عجیب ہے۔۔۔سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کا سورج سے کم سے کم فاصلہ دو سو ایسٹرونومیکل یونٹ 200AU ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹ 1200AU تک پھیل جاتا ہے.یہ بات علم میں رہے کہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ میں پندرہ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ہے(زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ کہلاتا ہے) اردو میں ایسٹرونومیکل یونٹ کو فلکیاتی اکائی بولا جاتا ہے۔اب آپ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹس 1200AU کو پندرہ کروڑ کلومیٹر سے ملٹی پلائی یعنی ضرب دیں تو جواب کچھ یوں آئے گا کہ ایک سو اسی ارب کلومیٹر دور تک سورج اس سیارے کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے اور یہ صرف پلوٹو سے تھوڑا پرے کا علاقہ ہے۔۔۔اس سے آگے سورج کی گرفت میں کئی ایک برفانی دنیائیں خلاء میں گھوم رہی ہیں جن تک سورج کی روشنی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں، جب کہ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔روشنی اور حرارت کا یہ منبع ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس سے ڈھکا ہوا ہے۔سورج کے قبضہ میں یعنی حجم کے اعتبار سے اس قدر بڑا علاقہ ہے کہ اگر نظام شمسی کے تمام سیارے، ڈیڑھ سو سے زائد معلوم چاند، دُمدار ستارے اور باقی کے سب خلائی اجسام “جو سورج کی کششِ ثقل کے تابع ہیں” کو اکٹھا کیا جائے۔۔۔تو سورج کی طرف سے گھیرے میں لیا گیا علاقہ ان سب کے مقابلے میں 99.86 % ہے۔سورج ایک سیکنڈ میں لاکھوں ٹن مادے کو توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے، اس دنیا میں سائنسی عروج سے لے کر آج تک جتنے بھی کیمیائی و ایٹمی ہتھیار بنے ہیں۔۔۔سورج ایک سیکنڈ میں اس سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر کے روشنی اور حرارت کی شکل میں خلاء میں بکھیر دیتا ہے۔سورج کی کششِ ثقل اس قدر طاقت ور ہے کہ زمین پر آپ کھڑے ہوں اور سورج پر آپ کی ایک عام کپڑے والی شرٹ رکھ دی جائے تو آپ سے زیادہ آپ کی شرٹ کا وزن ہوگا۔

سورج کی سطح سے سورج کا مرکز تقریباً چھ لاکھ پچانوے ہزار سات سو کلومیٹر ہے، زمین کے مرکز کا درجہ حرارت پانچ ہزار چار سو 5400 سینٹی گریڈ ہے اور سورج کی سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہے، سورج کا مرکز کتنا گرم ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سورج کے مرکز کا درجہ حرارت ایک سو پچاس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے، یعنی پندرہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ!۔۔۔سورج کی عمر یہی کوئی چار سو ساٹھ کروڑ سال بتائی جاتی ہے، مطلب ساڑھے چار ارب سال کے لگ بھگ۔ہماری زمین سمیت نظام شمسی کا ہر سیارہ، ہر چاند، ہر دمدار ستارہ اور ہر خلائی جسم سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج ایک جگہ پر کھڑا ہوا ہے، ساکت ہے۔۔۔ایسا بالکل نہیں! بلکہ سورج بھی ہر وقت ان تمام objects کو لئے ایک لمبے سفر پر روان دواں رہتا ہے۔

گلیسٹِک سینٹر جسے انگلش میں “GC” لکھا جاتا ہے۔۔۔یہ وہ جگہ ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہے۔اس جگہ ایک بہت بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی کششِ ثقل ہماری پوری کہکشاں کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ہمارے نظام شمسی جیسے چالیس لاکھ سے بھی زیادہ نظام شمسی اس بلیک ہول میں سما سکتے ہیں۔۔۔ہمارا سورج اور ہمارے سورج سے چھوٹے بڑے کئی کروڑ ستارے، ان ستاروں کے اپنے سیارے اور چاند، گیسوں کے عظیم الشان بادل nebulas غرض ہماری کہکشاں کے کئی ہزار کھربوں میل کے وسیع علاقے میں پھیلی کروڑوں دنیائیں اسی بلیک ہول کے کی کششِ ثقل کے کنٹرول میں ہیں۔ایک نئی اور محتاط تحقیق کے مطابق سورج ایک سیکنڈ میں دو سو اکیاون کلومیٹر “251km” کی رفتار کے ساتھ اس بلیک ہول سے پچیس ہزار چھ سو”25600″ نوری سال کے فاصلے پر رہتے ہوئے ملکی وے کہکشاں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔اگر اس رفتار سے کسی سواری پر سورج کی طرف جائیں تو صرف دو ہفتوں میں ہم زمین سے سورج پر پہنچ کر پھر واپس زمین پر آ جائیں گے۔اس رفتار سے سورج تقریباً بارہ “12” صدیوں میں ایک نوری سال “lightyear” کے برابر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے، یعنی ساٹھ کھرب میل۔

سورج چلتا رہتا ہے۔۔۔رکتا نہیں، جلتا رہتا ہے بجھتا بھی نہیں۔جہاں عقل و سائنس کے حقائق ماننے لازم ہیں وہیں انسان کی محدود عقل یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ کسی محدود وُسعت و طاقت والی عام ذات کا کام نہیں ہے، یہ ضرور اس ذات کی طرف سے بچھائی ہوئی، سجائی ہوئی کائنات ہے جو خود میں یکتا ہے، بے مثال ہے، لاجواب ہے جب چودہ سو سال پہلے نا سائنس تھی نا یورپی ترقی و ناسا کا وجود تھا، نا روس کی ٹیکنالوجی تھی نا جاپان کے ایجاد کردہ خلائی اجسام کی حرکات و سکنات کو جانچنے والے سینسرز ایجاد ہوئے تھے۔۔۔تب عرب کے صحرا میں، ایک چھوٹی سی بستی میں محمد صل اللہ علیہ وسلم پر سورج، چاند زمین اور پوری کائنات کے راز بذریعہ وحی کھولے جا رہے تھے۔جی ہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ “کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار میں چکر لگا رہی ہے” القرآن.قرآن پاک نے بتایا کہ سورج اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے، چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔یہ بات گلیلیو گلیلی نے چار سو سال پہلے کہی لیکن قرآن نے یہی بات چودہ سو سال قبل بتا دی تھی۔
سورج ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر کم و بیش پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ایک ہفتے میں ایک فلکیاتی اکائی “پندرہ کروڑ کلومیٹر” کا فاصلہ طے کرنے والا سورج پچیس کروڑ سال میں کتنا سفر طے کرتا ہوگا۔ایک صدی “سو سال” میں سورج پانچ سو ارب میل سے کچھ زائد کا فاصلہ طے کرتا ہے۔پچیس کروڑ سالوں میں پچیس لاکھ صدیاں بنتی ہیں۔۔۔مطلب آپ پانچ کھرب میل کا فاصلہ “پچیس لاکھ” بار کریں تو اسی کے برابر سورج ملکی وے کے گرد گھوم کر ایک “کہکشانی سال” مکمل کرتا ہے۔جسے انگلش میں “Galactic year” یا “Cosmic year” بھی کہا جاتا ہے۔سورج کی عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو اس اعداد و شمار کے مطابق سورج نے اپنی پیدائش سے لے کر ابھی تک کہکشاں ملکی وے کے صرف اٹھارہ چکر ہی لگائے ہیں اور انیسواں چکر نصف ہونے میں یہی کوئی پندرہ کروڑ سال باقی ہیں۔۔۔اگر ابتداء سے سورج کی یہی رفتار رہی ہے تو۔

اس سے بھی دلچسپ اعداد و شمار بتاتا چلوں کہ سورج اپنے مدار پر چکر لگاتے ہوئے پچیس لاکھ صدیوں میں لگ بھگ دو ہزار ایک سو نوری سال “light year” کا فاصلہ طے کرتا ہے۔۔۔مطلب دو سو اکیاون “251” کلومیٹر فی سیکنڈ یا نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتار سے سفر کرتے ہوئے سورج پچیس کروڑ سالوں میں دو ہزار ایک سو “2100” نوری سال کا فاصلہ طے کرتا ہے۔
ان اعداد و شمار کے بعد محدود انسانی عقل شکست خوردہ حالت میں ہتھیار پھینک چکی ہے اور ہاتھ اٹھائے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہے۔۔۔کہ بالفرض اگر ہم سورج جتنی رفتار سے سفر کر سکیں تو پچیس کروڑ سال میں نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر کے ہم صرف دو ہزار نوری سال کے لگ بھگ کا فاصلہ طے کریں گے۔۔۔اور ابھی تک کی درفایت شدہ کائنات کتنے نوری سال تک پھیلی ہوئی ہے، معلوم ہے آپ کو؟
جس جگہ آپ کھڑے ہو کر اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔چاروں اطراف آپ کی نظر جہاں جہاں تک جاتی ہے وہ اپ کا مشاہداتی علاقہ کہلائے گا۔۔۔ہم اس کائنات میں زمین اور زمین کے گرد و نواح سے جھانکتے ہیں تو آپ زمین کو مرکز بنا کر چاروں اطراف کے مشاہداتی کائنات کا علاقہ نوری سال میں بیان کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔۔۔ترانوے “93” ارب نوری سال تک کے فلکیاتی جنگل میں انسان کی نظریں پہنچ چکی ہیں۔ہے نا حیران کن بات کہ کہاں پچیس کروڑ سالوں میں سورج نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دو ہزار ایک سو نوری سال کا سفر طے کرتا ہے۔۔۔اور کہاں ترانوے ارب نوری سال کے دنگ کر دینے والے فاصلے جن کو انسان صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔اور یہ کائنات کا صرف وہ حصہ جہاں تک انسانی دور بینوں کی نگاہیں پہنچی ہیں۔مزید کائنات کیا ہے؟ کہاں تک ہے؟ محدود ہے یا لا محدود ہے؟ جواب ندارد
صرف سورج ہی نہیں بلکہ سورج کے کنٹرول میں ہر چیز سورج کے ساتھ اربوں سالوں سے انجان راستوں کی مسافر بنی ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کسی پُرسکون جگہ پر لیٹ کر ان ستاروں سے باتیں کیجئے گا، ان کو اپنا دوست سمجھ کر چند لمحے ان کے لئے نکالئے گا۔۔۔پھر دیکھئے گا کہ لامُنتہاء مسافتوں کے یہ مسافر سیارے، سیارچے، ستارے اور کہکشائیں آسمان پر رات کے وقت چمکتے، دمکتے اور اپنی منزل کی جانب آگے بڑھتے ہوئے آپ کو اپنی رودادِ سفر بھی سنائیں گے اور عجائباتِ کائنات کی حیرانگیوں سے آپ کے دل و دماغ کو بھی جھنجھوڑیں گے۔اگر کبھی موقع ملے اور آپ مصنوعی روشنیوں سے دور کہیں پہاڑی وادیوں میں رات گزاریں تو غور کیجئے گا کہ چاند سے خالی راتوں میں آپ ہزاروں ستاروں کو کسی دور بین کا سہارا لئے بغیر اپنی آنکھ سے دیکھ سکیں گے اور ہزاروں لاکھوں نوری سال کے فاصلے ہونے کے باوجود ان ستاروں کی دودھیا سفید، نیلی، نارنجی، سرخ اور سنہری روشنیاں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا جلوہ بکھیرتے ہوئے آپ کو دنیا وما فیہا سے غافل کر دیں گی۔آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کائنات صرف عجائب خانہ ہی نہیں بلکہ تصویرِ فنکار بھی ہے! رنگوں بھرے گیسی بادلوں یعنی نیبیولاز میں ٹِمٹماتے ستارے تو کہیں روشنیاں بکھیرتی دلکش کہکشائیں۔
کائنات کے جو مظاہر ہم نے دیکھے ہیں یا دیکھیں گے، یہ کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ کائنات کس قدر وسیع و عریض ہے، حسین و جمیل ہے اور عجیب و غریب ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور سوچ بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ اس کائنات کو بنانے والا اپنی ذات میں اکیلا ہے، اپنی صفات میں اکیلا ہے۔۔۔جس طرح اس کی بادشاہت کی کوئی حد نہیں، جس طرح ہمارے لئے اس کی ذات کو مکمل طور پہ سمجھنا ممکن نہیں بالکل اسی طرح ہمارے لئے عجائبات و تخلیقاتِ کائنات کو بھی مکمل طور پہ سمجھنا ناممکنات میں سے ہے۔لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اس راستے پر آگے بڑھنا چھوڑ دیں۔۔ہمیں اپنے اندر کے تجسس کو سواری بنا کر بہت آگے بڑھنا ہے۔۔۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ “یہ کائنات بنائی ہی اس لئے گئی ہے کہ اس کو کھوجا جائے۔انسان ہونے کا حق بھی اسی سے ادا ہوگا کہ ہم عقل سے بالاتر اس کی تخلیقات دیکھ کر بول اٹھیں کہ بے شک وہ لفظ جو ہم بار بار اس کے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، اس کی ذات اس لائق ہے کہ اس کے لئے ایسے الفاظ بولے جائیں۔۔۔اور وہ لفظ “تعالی” ہے، جس کا معنی ہے وہ بلند و بالا ہے…!

مکمل تحریر >>

عجائب کائنات ۔۔۔۔ پہلا حصہ


عجائب کائنات ۔۔۔۔ پہلا حصہ
محمد یاسر فروری 23, 2019

ہم اس تحریر میں سورج چاند اور زمین کے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ ان کے مدار، محوری گردشوں، ان کی عمر اور کیفیت کے متعلق پڑھیں گے۔

اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں بڑے ہی ادب و احترام کے ساتھ یہاں مختصرًا دو باتیں دو عظیم طبقہ کے لوگوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
1-نمبر ایک سائنسی و دنیاوی علوم کے ماہر حضرات سے
2-نمبر دو دینی علوم کے جاننے والے دوست و احباب سے
ان سے گزارش یہ ہے کہ
اگر آپ کو سائنس اور مذہبی علوم میں تضاد نظر آتا ہے تو اپنا مطالعہ بڑھائیے۔۔۔مکمل تحقیق کیجئیے، تحقیق کے بعد بھی اگر سائنس مذہب سے ٹکرا رہی ہے یا مذہب سائنس سے ٹکراتا نظر آ رہا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اور ہماری سائنس وہاں تک ابھی پہنچے ہی نہیں، اس بات کو سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہوئے جو بات قرآن پاک یا حدیث نے ہمیں بتائی ہے۔یعنی ہم محدود ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنس اور مذہب کو غلط کہنے لگ جائیں۔دوسری گزارش ان دوستوں سے ہے “جو کسی بھی سائنسی مضمون میں مذہبی ریفرنسسز اور آیات قرآنی وغیرہ کو قبول نہیں کرتے” کہ میرے بھائی دنیا کی کوئی ایسی کتاب یا علم کا مجموعہ دکھا دیں جس میں اس احسن انداز میں فلکیات پر بات کی گئی ہو جیسے قرآن نے کی ہے، یقیناً ایسا فلکیاتی علم قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے انسان کو عطا نہیں کیا گیا تو کیا پھر مضامینِ فلکیات میں قرآن میں بیان کردہ فلکیاتی علوم کو جگہ نا دینا ناانصافی نہیں ٹھہرتا ہے؟ ہر تخلیق اور ایجاد کے تذکرے میں اس کے خالق اور موجد کا تذکرہ جب تک نا کیا جائے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ تذکرہ انصاف پر مبنی نہیں ہوتا تو بحیثیت مسلمان ہم یہ بات مانتے کہ سورج چاند سیارے ستارے اور تمام کے تمام فلکیاتی اجسام کا خالق اللہ ہے تو پھر اس تخلیق میں اس کے خالق تذکرہ کیوں نہیں آنا چاہئیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرمیوں کی رات میں کھلے آسمان تلے لیٹ کر بے پناہ وسعتوں کے حامل خلاء Space میں کبھی جھانکنے کی کوشش کریں تو بے شمار اَن گِنت جگمگاتے چھوٹے بڑے ستارے آپس میں سرگوشیاں کرتے نظر آتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جب چاندنی راتیں آتی ہیں تو زیادہ چھوٹے اور دوری والے ستارے چاند کی چاندنی میں اپنا جلوہ حسن دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو یوں لگتا ہے گویا یہ چھوٹے مہمان کائنات کی سیر کو نکل گئے ہیں اور اب چاند کے جانے پر ہی واپس اپنے اپنے گھر کا راستہ دیکھیں گے۔غروب آفتاب کے کچھ ہی دیر بعد جو ستارہ آپ کو مشرق کے کناروں پر ملے گا، رات کے دوسرے پہر وہ ستارہ آپ کے سر پہ پہنچا ہوگا اور رات کے اختتام پر اندھیرا غائب ہونے سے پہلے آپ کو وہی ستارہ مغرب کے کناروں سے الوداع کہتا ہوا نظر آئے گا، مطلب آسمانِ دنیا پر موجود تمام ستارے بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر آتے جاتے ہیں بالکل چاند اور سورج کے آنے جانے کی طرح۔جس طرح چاند ہماری زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور ہماری زمین سورج کے گرد اور ہمارا سورج ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد، ایسے ہی کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار orbit پر چکر لگا رہی ہے۔سائنسی ترقی کے بعد سے ابھی تک کے مشاہدات اور فلکیاتی تحقیقات کے مطابق جو اعداد و شمار حاصل ہوئے ہیں، ان کے مطابق کائنات Univers میں اربوں کہکشائیں galaxies ہیں، ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں اور ان ستاروں کے ہمارے ستارے سورج کی طرح اپنے اپنے سیارے بھی ہوں گے پھر ان سیاروں کے اپنے چاند، یہ تمام کے تمام اپنے اپنے مدار میں چکر لگا رہے ہیں۔اس قدر مُنظَّم اور ریاضی کے قوانین کے عین مطابق کائنات کا یہ اربوں نوری سال “مُشاہداتی احاطہ” کی مسافتوں پر بچھا ہوا جال یقینا اپنے بنانے والے کی لامحدود علمی وسعتوں اور طاقتوں کی گواہی کے لئے کافی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمین
سب سے پہلے ہمارے علم میں یہ بات ہونی چاہئیے کہ زمین ایک سیارہ ہے، ستارے اور سیارے میں یہ فرق ہوتا ہے کہ ستارہ اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے جب کہ سیارہ ستارے کی روشنی سے روشن رہتا ہے۔مزید یہ کہ سیارہ ستارے کی کشش ثقل کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے کسی اور اوبجیکٹ کے مدار میں دخل اندازی نہیں کرتا۔زمین حیاتِ انسانی کا واحد مَسکن اور ضروریاتِ زندگی سے مالا مال، کائنات کے اس وسیع و عریض فلکیاتی جنگل میں زندگی کی گہما گہمی سے بارونق اور مُزیّن، لاکھوں کھرب میلوں پر پھیلی اس کائنات میں لگ بھگ بارہ ہزار سات سو بیالیس کلومیٹر ڈائی میٹر رکھنے والا ہمارا سر سبز و شاداب اور پانی سے بھرپور سیارہ ہے۔
جس طرح زمین پر بعض علاقے تمام موسموں اور درجہ حرارت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں اسی طرح نظام شمسی کے تمام سیاروں میں زمین بھی ایک خاص مقام رکھتی ہے۔۔۔مثلا زمین سے سورج کی طرف نظر ڈالیں تو عطارد اور زہرہ جل رہے ہیں، اور دوسری طرف کے سیارے دیکھیں تو اس قدر ٹھنڈے ہیں کہ انسان کا ان سیاروں پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے پاس وہ معتدل و سنہری علاقہ ہے جو پورے نظام شمسی میں کسی اور سیارے کے پاس نہیں ہے۔

ہمارے سیارے یعنی زمین کا ہمارے ستارے سورج سے اوسط فاصلہ چودہ کروڑ چھیانوے لاکھ کلومیٹر ہے۔۔۔زمین سورج کے گرد ہی چکر لگاتی ہے ایسا بالکل نہیں، بلکہ زمین سورج کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے محور کے گرد بھی گھومتی ہے۔سورج کے گردایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک چکر پورا کرنے میں زمین کو تین سو پینسٹھ دن لگتے ہیں۔اب ہمارے ورطہ حیرت میں مبتلا ہونے کا وقت ہے، جب تین سو پینسٹھ 365 کو ملٹی پلائی کریں گے چوبیس کے ساتھ، ایک دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور سال میں تین سو پینسٹھ دن ہیں۔زمین ایک گھنٹے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر کا سفر کرتی ہے اور ایک سال میں آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے ہیں۔اب ہم زمین کے ایک گھنٹے میں طے کئے ہوئے فاصلے کو ضرب دیں گے ایک سال میں موجود 8760 گھنٹوں سے۔
108000×8760=946000000
زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر چورانوے کروڑ ساٹھ لاکھ کلومیٹر ایک سال میں سفر طے کرتی ہے۔کیا سمندر، کیا پہاڑ، کیا دریا، جھیلیں اور جنگل صحرا۔غرض زمین پر موجود ہر ہر چیز زمین کے ساتھ ہر وقت ایک مسافر کی حالت میں رہتی ہے۔گویا زمین ایک بہت بڑے خلائی جہاز کی مانند ہمیں بشمول ہر چھوٹی بڑی چیز کے ہر وقت خلاء کی لامحدود وسعتوں میں لئے پھرتی ہے مگر شُتر بے مہار کی طرح نہیں بلکہ ایک خاص متعین کئے ہوئے اپنے مخصوص راستے پر۔تخلیقِ زمین کے دن سے لے کر زمین کا یہ سفر جاری ہے اور زمین کے فنا تک یہ سلسہ یونہی بغیر رکے، بغیر تھمے جاری و ساری رہے گا۔

زمین کا سورج کے گرد مدار ہر طرف سے ایک جیسا نہیں ہے۔۔۔بلکہ ایک طرف سے نزدیک اور دوسری طرف سے کم ہے۔ زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ پچاس لاکھ کلومیٹر تک بڑھتا گھٹتا ہے۔اب ہم آتے ہیں زمین کی محوری گردش کی طرف، رات اور دن کا آنا جانا صبح کے وقت سورج کے طلوع ہونے کا دلفریب نظارہ اور شام کے وقت غروب آفتاب کا حسین منظر، دوپہر کے وقت آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی اور زمین کے باسیوں کو تڑپا دینے والی حدت و شدت سے بھرپور دھوپ۔یہ سب کچھ یونہی نہی، بلکہ ایک مکمل منظم شدہ نظام کے تحت ہوتا ہے۔زمین اپنے محور پر چار سو ساٹھ 460 میٹر پر سیکنڈ یا ایک ہزار 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتے ہوئے تقریبا چوبیس 24 گھنٹے میں ایک چکر پورا کرتی ہے۔اس دوران زمین اپنے مدار پرکم و بیش چھبیس لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتی ہے۔زمین کا اپنے محور کے گرد گھومنا ہمیں اس لئے معلوم نہیں ہوتا کہ ہم بذات خود زمین کے اوپر رہتے ہوئے اس کی ہر ہر حرکت کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔فرض کیجیئے آپ ایک آرام دہ گاڑی پر ہیں، ایسی گاڑی کہ جو ایک سو بیس 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے اور وہ اس قدر آرام دہ ہے کہ اتنی زیادہ رفتار کے باوجود اس کے اندر رکھا ہوا پانی سے بھرا گلاس بھی حرکت نا کرے تو مسافر کو کیا معلوم ہو گا اس گاڑی کا تیز رفتار چلنا اور حرکت کرنا۔زمین اس گاڑی سے بھی زیادہ آرام دہ یے کیوں کہ آج کی سائنسی اور اسلامی دونوں علوم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لئے پہاڑوں کو میخوں کے قائم مقام زمین پر لگا دیا گیا ہے۔قدرت کی طرف سے کششِ ثقل کی لہروں اور موجوں کو اس قدر مُنَظَّم بنایا گیا ہے کہ زمین کیا۔۔۔کائنات کی ہر چیز کشش ثقل کی بدولت ہی اپنے اپنے مدار پر نہایت ہی منظم طریقے سے چکر لگا رہی ہے، کوئی اوبجیکٹ کسی دوسرے اوبجیکٹ سے نا ٹکراتا ہے نا ڈولتا ہے اور نا ہی خلاء کی بے پناہ گہری کھائیوں میں گرتا ہے۔

زمین کی محوری گردش معلوم کرنی ہو تو رات آسمان پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے رہیئے، چند لمحوں میں سر پر موجود مشکل سے نظر آنے والا ستارہ مغرب کی طرف دو قدم آگے بڑھ چکا ہو گا۔آپ کسی ویران جگہ میں پھنسے ہیں، جنگل صحرا یا تا حد نگاہ پھیلے کسی برفانی علاقے میں اور آپ کے پاس راستہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔۔۔ایسے میں زمین کا شمالی قطب معلوم کرنا ہو تو آسمان کے چاروں کناروں پر نظر ڈالئے، ذرا اوپر نظر کر کے دیکھئے، درمیانے درجے کی روشنی رکھنے والا ستارہ اپنی جگہ سے بالکل بھی ادھر ادھر نہیں ہو رہا ہے تو سمجھ لیجیئے کہ یہی زمین کا شمالی حصہ ہے اور جو ستارہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہا وہ قطب ستارہ ہے جسے انگلش میںPolaris سٹار کہتے ہیں۔زمانہ قدیم کے لوگ اور اب بھی صحراؤں، جنگلوں میں رہنے والے لوگ اسی سے راستہ معلوم کرتے ہیں۔زمین کے قطبین کے علاقوں میں بعض خطے ایسے بھی ہیں کہ جن میں چھ مہینے دن بسیرا کئے رکھتا ہے اور چھ مہینے تک رات کسی رانی کی طرح برف پوش علاقوں پر حکمرانی کرتی ہے۔۔۔ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ زمین اپنے محور کے گردصرف دائیں سے بائیں گھومتی ہے، اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کی طرف نہیں۔سورج کے سامنے بالکل سیدھی بھی نہیں بلکہ ترچھی حالت میں، اسی لئے چھ چھ ماہ بعد قطبین پر رات اور دن جلوہ افروز ہوتے ہیں۔چھ ماہ کے دن بھی کچھ خاصے گرم اور دھوپ والے نہیں ہوتے، دور کنارے کی طرف سے سورج کی روشنی اور حرارت ایٹمو سفیئر (atmosphere) سے لڑتے ہوئے قطبین کے اُن برفانی اور یخ بستہ علاقوں کو گرم کرنے کی اپنی سی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔قطبین کے علاقوں میں انٹارکٹکا، آرکٹک، گرین لینڈ، ناروے، کینڈا، ارجنٹائن اور الاسکا وغیرہ کے علاقے شامل ہیں۔محوری گردش کے دوران زمین کے جو علاقے مکمل طور پر سورج کے سامنے رہتے ہیں ان کا درجہ حرارت بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے، جیسا کہ افریقہ، جنوبی ایشیا اور امریکہ کے کچھ خطے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاند
زمین کا واحد قدرتی سیارچہ
سیارچہ اس خلائی جسم کو کہتے ہیں جو کسی سیارے کے تابع ہو جیسے چاند ہماری زمین کے تابع ہے اور ہماری زمین ایک سیارہ ہے۔مصنوعی سیارچے ان اجسام کو کہتے ہیں جو انسان نے زمین کے مدار میں چھوڑے ہیں جنہیں سیٹلائٹس بھی کہا جاتا ہے۔زمین سے تین لاکھ چوراسی ہزار کلومیٹر دور رہ کر زمین کے گرد گھومنے والاچاند بھی زمین ہی کی طرح اپنے مدار پر بھی چکر لگاتا ہے اور اپنے محور پر بھی لیکن اس کا مدار اور محوری گردش زمین سے کچھ مختلف ہے۔چاند کی کشش ثقل زمین کی کشش ثقل سے چھ گنا کم ہے۔تقریبا ایک کلومیٹر سے کچھ زیادہ فی سیکنڈ کی رفتار سے چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر ستائیس اعشاریہ تیس27.30 دنوں میں پورا کر لیتا ہے۔ہم زمین سے چاند کا صرف ایک ہی رخ کیوں دیکھ پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں چاند کے متعلق آپ کو حیرت ناک معلومات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چاند کا orbital period اور rotational period برابر ہے۔یعنی جس طرح چاند زمین کے گرد ستائیس اعشاریہ تیس دن میں ایک چکر پورا کرتا ہے بالکل ایسے ہی اپنے محور کے گرد بھی ستائیس اعشاریہ تیس دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔زمین کی نہایت طاقت ور کششِ ثقل نے چاند کو جکڑ کے اس کی محوری گردش کو نہایت سست رفتار کر دیا ہے، مطلب چاند کی سپننگ رفتار نہایت سست ہے، اسی سست رفتاری کی بدولت زمین سے چاند کا ایک ہی رخ ہم دیکھ سکتے ہیں۔اس کی محوری سست رفتاری کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب چاند پر دن چڑھتا ہے اور دھوپ اپنا آپ دکھانا شروع کرتی ہے تو پھر آئندہ پندرہ دن تک وہاں رات نہیں آتی، پندرہ دن تک مسلسل دھوپ میں رہنے کے باعث چاند کی اناستھرو سائٹ نامی چمکیلے پتھر سے بنی پرت ایک سو بیس ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کو چھونے لگ جاتی ہے۔جب کہ پندرہ دن کی رات کے دوران یہی تپتا ہوا چاند کا چہرہ مائنس ایک سو تہتر “-173” ڈگری سینٹی گریڈ کی یخ بستہ ٹھنڈ میں ڈوب جاتا ہے۔

نا جانے کیا کیا راز ہوں گے چاند کی ان یخ بستہ ویران راتوں میں، تیرہ تیرہ ہزار فٹ گہرے اور تا حدِ نگاہ پھیلے بڑے بڑے گڑھوں میں یہ راتیں اور بھی خوفناک ہوتی ہوں گی۔زندگی کی رونق اور شور و غل سے خالی چاند کی گہری اندھیری وادیاں کسی ڈراؤنی فلم کے منظر سے کم نہیں ہوں گی۔یاد رہے چاند پر شہابیوں کے گرنے کی وجہ سے جو گڑھے موجود ہیں ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔۔۔یہ گڑھے عام چھوٹی دوربین سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ان گڑھوں کے قطر “Diameter” کا سائز ایک کلومیٹر سے لے کر کئی سو کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔ابھی تک چاند پر معلوم کئے گئے گڑھوں میں سب سے بڑا گڑھا جنوب قطب کی طرف دیکھا گیا ہے، جو دو ہزار پانچ سو کلومیٹر وسیع اور تیرہ کلومیٹر بیالیس ہزار فٹ سے زیادہ گہرا ہے۔
“کراچی اور لاہور کے آنے اور جانے کے سفر والے راستے کو اگر اس گڑھے کے درمیان میں بچھا دیا جائے تو یہ گڑھا اس سے بھی بڑا ہے
اور گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کو اس گڑھے میں رکھ دیا جائے تو ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے اوپر کی جانب نہیں بلکہ چاند کی سطح سے تقریباً چودہ ہزار فٹ نیچے کی طرف سفر کرنا پڑے گا”
ابھی تک کی تحقیقات کے مطابق یہ چاند پر سب سے پرانا، بڑا اور گہرا گڑھا ہے۔

چاند پر دن اور رات کا یہ لمبا دورانیہ چاند کی سست رفتار محوری گردش کی وجہ سے ہے۔چاند کی روشنی میں نہائی ہوئی رات ملکہ قلوپطرہ کے حسن سے کچھ کم حسین نہیں ہوتی، زمانہ قدیم سے محبوب کا حسن چاند کی تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اور ایسا کرنے والے حق بجانب تھے، چودھویں رات کا پورا چاند اور پہاڑی منظر ہو، ایسی خوبصورت جگہ پر درختوں کے درمیان میں سے شفاف پانی کا چشمہ بہہ رہا ہو، چشمے کے صاف پانی پر چاند کی چاندنی رقص کر رہی ہو اور بہتا ہوا پانی جھنکار کی آواز دے رہا ہو تو ایسے میں محبوب کا حسن یاد آنا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔چاند صرف ہماری راتوں کو روشن کرتا ہے ایسا بالکل نہیں، بلکہ چاند کی منزلیں مقرر ہیں، ان منزلوں سے مہینوں اور دنوں کا حساب زمانہ قدیم سے لگایا جاتا رہا ہے۔اس کے علاوہ چاند کی کشش ثقل کی وجہ سے ہی زمین کے سمندروں کی تازگی برقرار رہتی ہے، مد و جزر بھی اسی نظام کے تحت قائم رہتا ہے۔۔۔اگر یہ نظام نا ہو تو سمندر کا پانی ایک جگہ کھڑے کھڑے کسی جوہڑ کی طرح باسا ہو جائے گا اور تمام آبی حیات و جاندار ختم ہو جائیں گی۔مُحققینِ فلکیات کے مطابق چاند کی کشش ثقل سمندروں میں طغیانی پیدا کرتی ہے اور پھر سمندروں کی یہ طغیانی چاند پر اپنی زور آزمائی کرتی ہے جس کے نتیجے میں ہر سال چاند زمین سے تین اعشاریہ آٹھ “3.8” سینٹی میٹر دور ہو جاتا ہے۔اگر یہ سلسہ جاری رہا تو ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے بشرطیکہ تب تک زمین اور اس کے باسی زندہ رہے تو جب زمین سے مکمل سورج گرہن کا نظارہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔وہ اس طرح کے ابھی چاند زمین کے نزدیک ہے تو یہ سورج کو گرہن کے وقت چھپا لیتا ہے ورنہ اس قدر بڑے سورج کو چھپانا چاند جیسے چھوٹے سے سیارچے کے بس میں کہاں! عطارد کو ہی لے لیجیئے، طلوع شمس کے وقت ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کے آگے عطارد ہوتا ہے۔۔۔سورج کو چھپانا تودور کی بات ٹیلی سکوپ کے بغیر عطارد اپنا وجود تک ثابت نہیں کروا سکتا۔
ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کائنات شُتر بے مہار کی طرح بالکل نہیں ہے اور نا ہی خود بخود وجود میں آئی بلکہ کوئی ایک ایسی ہستی ہے جس نے یہ خوبصورت اور وسیع و عریض کائنات کو بنایا ہے۔کائنات کی ہر ہر چیز ایک منظم اور باضابطہ نظام میں جکڑے ہوئے اپنی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہے۔یہ کائنات عقل و شعور سے بالاتر ہے مگر اس کی وسعتوں، پچیدگیوں اور اعداد و شمار کو دیکھنے والا اس کے بنانے والے کی مہارت اور کاریگری سے انکار نہیں کر سکتا۔زمین اور چاند کے مدار، محوری گردشیں اور لمبے چوڑے فاصلے خود میں ایک بڑا پن رکھتے ہیں، لیکن اب ذرا اپنی عقل و خرد کے تمام دروازے کھول لیجئے۔۔۔کیوں کہ اب ہم جن فاصلوں اور دوریوں کی بات کرنے لگے ہیں ان کے سامنے اوپر مذکور فاصلے اور مدار نہایت چھوٹے فاصلے لگیں گے۔
جاری ہے ۔۔۔

مکمل تحریر >>