Monday 28 August 2017

فرعون کی لاش کے حوالے سے قرآنی بیان پر ملحدین کے اعتراضات کے جوابات- قسط دوئم

فرعون کی قوم پہ نازل ہونے والے قرآن کے بیان کردہ عذابات اور رعمسس دوم کے فرعون موسی ہونے کا تاریخی،سائنسی و آرکیالوجیکل ثبوت

بائیبل نے حضرت ابراہیم،حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سب کے ادوار کے مصری حکمرانوں کو فرعون کے نام سے پکارا ہے جب کہ قرآن کا بیان اس سے مختلف ہے۔قرآن نے حضرت یوسف علیہ السلام کے مصری بادشاہ کو ملک یعنی بادشاہ اور عزیز مصر کے نام سے پکارا ہے۔اور مصر کی دریافت ہونے والی تاریخ اور آثار قدیمہ قرآن کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور قرآن کو تاریخی طور پہ بائبل سے زیادہ درست قرار دیتے ہیں۔مشہور برطانوی ماہر مصریات سر ایلن گارڈینر اور دیگر جدید لسانی اور مصری تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ فرعون کے لفظ کا مصری تاریخ میں پہلا استعمال امینو فس چہارم(Amenophis iv) کے لیے ہوا جس کا زمانہ 1336-1353 قبل مسیح یعنی اج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا ہے۔یہ ریکارڈ نرسل کي قسم کے ايک پودے یعنی Papyrus کی چھال پہ لکھی ہوئی پائی گئی۔جب کہ مصریات کے ماہر گارڈنر کے مطابق اس بات کی شہادت موجود ہے کہ قدیم مصری حکمرانوں تھٹموسس سوم( Thutmosis iii) جس کا زمانہ 1425-1475 قبل مسیح کا ہے اور تھٹموسس چہارم جس کا زمانہ 1390_1400 قبل مسیح کا ہے،کے لیے بھی فرعون کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا جب کہ ہیز( Hayes) کے مطابق فرعون کا لفظ قدیم مصری حکمران ہیتشپست( Hatshepsut)کے لیے بھی ہوچکا ہے جس کا زمانہ 1458-1479 قبل مسیح کا ہے۔لہذا قرآن کے واقعہ فرعون و موسی علیہ السلام کا تعلق اس زمانے سے ہے جب یہ لفظ مصر کے حکمرانوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا یعنی 1539 قبل مسیح تا 1077 قبل مسیح۔چونکہ ان زمانوں کی مکمل تفصیل ہمارے پاس نہیں ہے لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن کے واقعہ فرعون و موسی کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں۔شہادت کا موجود یا دریافت شدہ نہ ہونا شہادت کا بالکل موجود نہ ہونا نہیں ہوتا کیوں کہ انسانی تاریخ اور خصوصا مصر کے بہت سے پہلو ابھی تک غیر دریافت شدہ ہیں۔بدقسمتی سے قدیم مصری تاریخ کے بہت سے حقائق نظر سے پوشیدہ ہیں لہذا ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ کون سا فرعون،فرعون موسی تھا۔یہاں تک کہ یہ ایسا فرعون بھی ہوسکتا ہے جس کی یادداشت تاریخ میں مکمل طور پہ مٹ چکی ہو اور اس کی تاریخ یا آثار معدوم ہوچکے ہوں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے یہ بات دیکھی ہے کہ مصری تاریخ بہت بے ربط اور بدنامی کی حد تک ناقابل اعتماد ہے۔ان کے مطابق مصری تاریخ کے کئی ریکارڈ ایک دوسرے میں خلط ملط ہیں،کئی ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور کئ انتہائ اہم تاریخی واقعات کا تو اس میں تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔لہذا اس تناظر میں یہ کہنا غلط ہے کہ فرعون موسی کی ساری تاریخ کیوں میسر نہیں اور یہ واقعہ نعوذ بااللہ ناقابل اعتماد ہے۔اس بے ربط اور مکمل طور پہ غیر دستیاب مصری تاریخ کی وجہ سے اج تک فرعون موسی علیہ السلام کی حقیقت کا تعین نہیں ہوسکا۔کچھ کے نزدیک سیتی اول(Seti I),کچھ کے نزدیک رعمسس دوم(Ramses ii),کچھ کے نزدیک اس کا بیٹا مرنفتاح(Mernephtah),کچھ کے نزدیک دودی موس یا طوطی موس اول(Dudimose or Tutimaos I)،کچھ کے نزدیک امنہوتپ دوم(Amenhotep ii)،کچھ کے نزدیک اخنطاطن( Akhentaten)،کچھ کے نزدیک طوطن خامن،کچھ کے نزدیک نیفرہی تپ اول(Nefehitep I) اور کچھ کے نزدیک اہموز اول(Ahmose I) فرعون موسی علیہ السلام ہیں۔یہ وہ بہت زبردست اختلاف ہے جو فرعون موسی کی اصل شناخت کے حوالے سے انتہائ بے ربط اور نامکمل طور پہ دستیاب قدیم مصری تاریخ کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔
اب ہم ان تمام فراعین موسی علیہ السلام کہے جانے والے فرعونوں کے دور کے دستیاب حالات سے اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون فرعون موسی علیہ السلام تھا۔تفصیل درج ذیل ہے
1:جو لوگ امنہوتپ دوم کو فرعون موسی علیہ السلام کہتے ہیں ان کے مطابق اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اس کے سوا مصر کی اٹھارہویں سلطنت(18th Dynasty)کے سب فرعونوں نے اپنی بنیادی رہائش ثیبس( Thebes) کے مقام یعنی بنی اسرائیل سے بہت دوردریائے نیل کے ڈیلٹا میں رکھی جب کہ امنہوتپ دوم نے اپنی رہائش گاہ ممفس میں رکھی اور اکثر طور پہ وہاں سے حکومت کرتا رہا یعنی وہ موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے علاقوں کے قریب تھا۔ہمیں اس شہادت پہ یہ اعتراض ہے کہ محض حضرت موسی علیہ السلام کے علاقوں کے قریب کسی فرعون مصر کا دارالحکومت ہونے کی بنیاد پہ اسے فرعون موسی علیہ السلام کہنا بہت مشکل ہے جب تک ہمیں اس فرعون کے دور کے حوالے سے مصر کے وہ حالات نہ مل جائیں جو قرآن بیان کرتا ہے۔لہذا ہم امنہوتپ دوم کو فرعون موسی قرار نہیں دے سکتے لیکن اس کے امکان کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔
2:عیسائی حضرات کا خیال ہے کہ بائبل میں باب خروج یعنی Exodusکے مطابق بنی اسرائیل کا مصر سے خروج اور فرعون سے نجات یروشلم یعنی بیت المقدس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہیکل سلیمانی کی 966 قبل مسیح میں تعمیر سے 430 سال پہلے یعنی تھٹموسس سوم یا اس کے بیٹے امنہوتپ دوم کے دور میں ہوا۔لیکن اس تاریخ کے ساتھ بھی ایک مسئلہ ہے۔ کیونکہ اس بیان سے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کی جو تاریخ بنتی ہے وہ 1400 سے 1300 قبل مسیح ہے۔بائیبل کے مطابق اس دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام زندہ تھے۔جب کہ حضرت موسی علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دو یا تین ہزار سال بعد تشریف لائے۔اس طرح بائیبل میں تضاد ہے اور بائیبل کا اپنا بیان اس کے اپنے دوسرے بیان سے متضاد ہے۔مزید براں ہمارے پاس تھٹموسس سوم کے دور کی مکمل تاریخ میسر نہیں اور نہ ہی تاریخی طور پہ مصر میں اس وقت ان حالات کے موجود ہونے کا ثبوت ہے جو قرآن نے پیش کیے ہیں۔لہذا تھٹموسس سوم کو بھی فرعون موسی علیہ السلام نہیں کہا جاسکتا۔اور قرآن نے تو ویسے بھی اس بات کی تفصیل بیان نہیں کی کہ فرعون موسی علیہ السلام کونسا فرعون مصر تھا۔
3:کچھ عیسائی لوگ کہتے ہیں کہ خروج کے زمانے کا فرعون مینیرا دوم(Menera 2) یا مینیرا اول یا پیپی دوم ہیں۔ان فرعونوں کے دور کی بھی مکمل تفصیل میسر نہیں اور نہ ہی ان کے دور میں مصر کے ان حالات کا تاریخ سے ثبوت ہے جو قرآن نے پیش کیے۔لہذا یہ فرعون بھی نامکمل تاریخ کی بنیاد پہ فرعون موسی علیہ السلام قرار نہیں دیے جا سکتے۔
4:مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں میں کچھ افراد کے نزدیک واقعہ فرعون میں مصر کے دو فرعون شامل ہیں۔ایک وہ فرعون جو بنی اسرائیل پہ ظلم کرتا تھا اور ایک وہ فرعون جو حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا تھا جب کہ عالم اسلام کی اکثریت اس بات پہ متفق ہے کہ اس پورے واقعے میں صرف ایک ہی فرعون تھا اور اس کی تائید میں اس نظریے کے قائل اہل علم حضرات سورہ القصص پارہ بیس کی درج ذیل آیات پیش کرتے ہیں
وَاَوْحَيْنَـآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۖ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَاَلْقِيْهِ فِى الْيَـمِّ وَلَا تَخَافِىْ وَلَا تَحْزَنِىْ ۖ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (7)
اور ہم نے موسٰی کی ماں کو حکم بھیجا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کا خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔
فَالْتَقَطَهٝٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُـوْنَ لَـهُـمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ۗ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُـوْدَهُمَا كَانُـوْا خَاطِئِيْنَ (8)
پھر اسے فرعون کے گھر والوں نے اٹھا لیا تاکہ بالآخر وہ ان کا دشمن اور غم کا باعث بنے، بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے۔
وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّـىْ وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوْهُۖ عَسٰٓى اَنْ يَّنْفَعَنَـآ اَوْ نَتَّخِذَهٝ وَلَـدًا وَّهُـمْ لَا يَشْعُرُوْنَ (9)
اور فرعون کی عورت نے کہا یہ تو میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنالیں، اور انہیں کچھ خبر نہ تھی۔
مزید جو آیات پیش کی جاتی ہیں وہ سورہ الشعراء پارہ انیس کی یہ ہیں
"کہا کیا ہم نےتمہیں بچپن میں پرورش نہیں کیا اورتو نے ہم میں اپنی عمر کے کئی سال گزارے (۱۸) اور تو اپنا وہ کرتوت کر گیا جوکر گیا اور تو ناشکروں میں سے ہے (۱۹) کہا جب میں نے وہ کام کیا تھاتو میں بےخبر تھا (۲۰) پھر میں تم سے تمہارے ڈر کے مارے بھاگ گیا تب مجھے میرے رب نے دانائی عطا کی اور مجھے رسول بنایا (۲۱) اور یہ احسان جو تو مجھ پر رکھتا ہے اسی لیے تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے (۲۲) "
ان کا کہنا ہے کہ قرآن کی آیات پہ غور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام سے بحث کرنے والا یہ فرعون وہی تھا جس کے محل میں حضرت موسی علیہ السلام نے پرورش پائی تھی کیوں کہ اس میں فرعون موسی علیہ السلام کو وہ وقت یاد دلا رہا ہے جب انہوں نے فرعون کے دربار میں پرورش پائی تھی اور بعد میں غلطی سے ان سے ایک مصری قتل ہوگیا تھا جس کے بعد وہ فرعون کے خوف سے مدین کی طرف چلے گئے۔اس میں حضرت موسی علیہ السلام واضح طور پہ فرعون سے کہ رہے ہیں کہ کیا تو نے میری پرورش کا احسان مجھ پہ اس لیے کیا کہ بدلے میں تو بنی اسرائیل کو غلام بنا لے؟۔ان آیات سے کچھ افراد نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا،ان کا پیچھا کرنے والا فرعون لازمی وہی ہوگا جس کے دور میں نہ صرف موسی علیہ السلام پیدا ہوئے بلکہ نبوت سے سرفراز بھی کیے گئے بلکہ وہ فرعون ان کا پیچھا کرتے ہوئے غرق بھی ہوا۔ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی فرعون جو اتنا طاقتور تھا اور جس نے اتنا عرصہ یعنی مسلسل 66 سال حکومت کی وہ رعمسس دوم تھااور لہذا فرعون موسی رعمسس دوم ہی ہے۔ان کے مطابق قرآن میں بیان کردہ ذوالاوتاد فرعون رعمسس دوم ہے کیونکہ دریافت ہونے والے کئی ریکارڈز میں اسے دو علاقوں اور دو معبدوں کا حکمران بتایا گیا ہے۔لہذا قرآن میں بیان ذوالاوتاد فرعون رعمسس دوم ہے۔ان کے مطابق یہ فرعون تمام فرعونوں میں سب طاقتور تھا اور ابو سمبل کے عظیم معبد میں اسے خدا قرار دیا گیا ہے اور فرعون موسی علیہ السلام اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔اس کے اعزاز میں اس کے بعد آنے والے نو فرعونوں نے رعمسس کا لقب اختیار کیا۔لیکن یہ بھی کوئی پکا ثبوت نہیں۔کیوں کہ قرآن کے بیان سے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا فرعون اور ہو جو فرعون حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا احسان بتا رہا ہے وہ حقیقت میں اپنی سلطنت یعنی ایک دوسرے فرعون کا احسان بتا رہا ہو۔کیوں کہ الحمد ایک ہی تھی۔ایک ہی سلطنت کے احسان کے بیان سے لازمی طور پہ یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ حضرت موسی علیہ السلام کی پرورش کرنے والا اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہونے والا فرعون ایک تھے۔یہ بھی ممکن ہے رعمسس دوم سے پہلے کوئی اس سے بھی زیا دہ طاقتور فرعون گزرا ہو جس کی مکمل تاریخ معدوم ہوچکی ہے یا نامکمل تفصیل میسر ہے کیوں کہ نہ صرف حالات زمانہ بلکہ فرعون خود بعض اوقات اپنے سے پہلے فرعون کی یادگاروں کو خود ہی مٹا دیتے تھے۔
وہ اہل علم حضرات جن کی نظر میں رعمسس دوم فرعون موسی ہے وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ قرآن نے کہا کہ فرعون غرق کر دیا گیا اور اس کی بلند عمارات جو وہ بناتا تھا تباہ کر دی گئی۔یہ دلیل بھی رعمسس دوم کو فرعون موسی قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔کیوں کہ بہت سے فرعون ایسے گزرے ہیں جن کی بلندو بالا عمارات اج تباہ ہو چکی ہیں۔
اب اگر اس کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ رعمسس دوم کو لازمی طور پہ دو علاقوں یعنی مصر بالا اور مصر زیریں کا حکمران قرار دے کر ذوالاوتاد فرعون قرار نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ اکثر فرعون مصر بالا اور مصر زیریں دونوں کے حکمران تھے لیکن یہ بات مکمل طور پہ مسترد نہیں کی جا سکتی۔رعمسس دوم کا خود کو خدا قرار دینا قرآن کے مطابق ہے جس میں فرعون خود خدا کہتا تھا لیکن یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ کسی اور فرعون نے خدا ہونے کا دعوی کیا ہو لیکن اس کا ثبوت نہیں ملا۔لیکن ایک اور بات ہے وہ یہ کہ فرعون رعمسس دوم نے ستونوں والے دو معبد تعمیر کیے جن میں سے ایک نوبیا میں واقع ابوسمبل اور دوسرا بیس میٹر بلند معبد جسے عظیم معبد کہا جاتا تھا لیکن اس کے علاوہ بھی اس نے ایک اور معبد تعمیر کیا۔لہذا قرآن میں بیان کردہ ذوالاوتاد یعنی ستونوں یا میخوں والا فرعون یہی رعمسس دوم ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اپنے نافرمانوں کے جسم میں میخیں یا کیل ڈلوا کر انہیں سزا دیتا تھا۔
لہذا یہ ممکن ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہو۔
اگرچہ فراعین مصر اور فرعون موسی علیہ السلام قرار دیے جانے والے فرعونوں میں سے کسی کی بھی موت کی صحیح وجہ معلوم نہیں لہذا اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رعمسس دوم یا کوئ بھی دوسرا فرعون جو فرعون موسی علیہ السلام تھا،غرق ہوکر نہیں مرا۔لہذا اس بنیاد پہ قرآن پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ جب حقیقی وجہ ہی معلوم نہیں تو پھر قرآن پہ اعتراض کیوں کہ فرعون ڈوب کر نہیں مرا۔عین ممکن ہے کہ وہ ڈوب کر مرا ہو اور اس کی لاش کو سمندر سے نکالے جانے کے بعد ممی کی صورت دی گئی ہو۔اگرچہ فرعون موسی مصر کے وقت نوے سال کا تھا اور جوڑوں کے کئ امراض میں مبتلا تھا لیکن اس کے باوجود وہ سلطنت کے امور اچھی طرح چلا رہا تھا اور عین ممکن ہے کہ یہ فرعون موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہو گیا۔جب اس کا بیٹا مرنفتاح تخت نشین ہوا تب اس کے بارہ بھائی مر چکے تھے۔یہ بات عین ممکن ہے کہ اسکے بارہ بھا ئی اپنے والد رعمسس دوم کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے بحیرہ احمر میں غرق ہوئے ہوں کیوں کہ بارہ بھائیوں کی وفات ایک حیران کن امر ہے جن کی وفات کی حقیقی وجہ بھی معلوم نہیں۔اگر قرآنی آیات کی تشریح میں فرعون موسی دو کی بجائے ایک تصور کیے جائے تو رعمسس دوم فراعین مصر میں 66 سال حکومت کرنے والا سب سے بڑا حکمران تھا اور یہ بات عین ممکن ہے کہ اسی کے دور میں موسی علیہ السلام پلے بڑھے ہوں اور نبوت کا اعلان کیا ہو اور اسی فرعون کے دور میں بنی اسرائیل کا مصر سے خروج وقوع پذیر ہوا ہو۔اس فرعون کی ممی اج بھی قاہرہ میں محفوظ ہے۔ہو سکتا ہے یہی وہ فرعون ہو جس کے جسم کو قرآن نے محفوظ کرکے دنیا کے لیے عبرت کا نشان بنانے کی بات کی ہے۔اس فرعون کے بارے میں ایک ہی تفصیل ایسی ہے جو قرآن نے پیش کی ہے لیکن ابھی تک وہ پردہ تاریکی میں ہے اور اس کی ابھی دریافت نہیں ہوسکی۔یہ بات فرعون کی قوم پہ آنے والے طاعون،مینڈک، خون اور قحط کے وہ عذاب ہیں جن کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے۔
5: کچھ عیسائی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نیفرہی تپ اول (Niferhitep I) فرعون موسی علیہ السلام تھا۔ان کے بقول اس کے پیشرو کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اس کی بیٹی سوبیکنفیرو بے اولاد تھی اور اس نے حضرت موسی علیہ السلام کو دریائے نیل سے نکال کر اپنی پرورش میں لیا لیکن سوبنکییفیرو کے بارے میں فرعون کی بیوی یا آسیہ علیہ السلام ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں۔قرآن مجید میں بیان کردہ آسیہ علیہ السلام اور خاتون ہیں۔
عیسائی دعوی کرتے ہیں کہ نیفر ہوتیپ کے دور کی نرسل کي قسم کے ايک پودے کی چھال پہ تحریر شدہ ایک واقعہ ملا ہے جس کے مطابق
" ملک مصر میں ہر طرف مصیبت و بربادی ہے۔ہر طرف خون ہے یہاں تک کہ دریا بھی سرخ ہوگیا ہے،دروازے،ستون اور دیواریں آگ کی لپیٹ میں ہیں۔مصر سے باہر کے کچھ عجیب لوگ مصر میں گھس آئے ہیں۔مکئی کے سوا ہر چیز تباہ و برباد ہو گئی ہے۔"
اس کے علاوہ تیرہویں صدی قبل مسیح یعنی فرعون رعمسس دوم کے زمانے کے قرآن کی طرف سے بیان کردہ حالات کی ایک بڑی تفصیل ایک نظم کی صورت میں ایک درخت کی چھال پہ لکھی ملی ہے جس کے مطابق مصر میں مصائب،قحط،سیلاب،ہر طرف خون،مویشیوں کی ہلاکت اور افراتفری کی کیفیت ہے اور مصر سے کئ غلام مصر سے بھاگ گئے ہیں۔واضح رہے کہ یہ تاریخی ریکارڈ ثابت کر رہا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل فرعون کے ظلم کی مصر سے خروج کرکے کنعان یعنی قدیم فلسطین چلی گئی تھی۔
واضح رہے کہ قدیم مصر کا یہ دریافت ہونے والا تاریخی ریکارڈ قرآن میں بیان کیے گئے ان عذابات کا بیان کر رہا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کے انکار اور اللٰہ تعالٰی کی نافرمانی پہ فرعون اور اس کی قوم پہ نازل کیے گئے۔واضح رہے کہ ان واقعات کا نیفر ہوتیپ کے دور میں وقوع پذیر ہونا تاریخی طور پہ ثابت نہیں اور نہ ہی ہمیں اس کا کوئی حوالہ ملا ہے نہ ہی نیفر ہوتیپ کی کوئ ممی محفوظ ہے لہذا نیفر ہوتیپ فرعون موسی علیہ السلام نہیں ہوسکتا۔البتہ یہ سب واقعات اور عذابات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت میں تاریخی طور پہ ثابت ہوچکے ہیں اور اس کی ممی بھی اج تک دنیا کی عبرت کے لیے محفوظ ہے لہذا ہماری نظر میں رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے۔لہذا ہماری تحقیق کے مطابق رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور ہماری یہ بات تاریخی،آرکیالوجیکل اور سائنسی حقائق سے ثابت ہے۔ قرآن نے جو چودہ سو سال پہلے بیان کیا اج سائنس اس کی تصدیق کر چکی ہے جب کہ بائبل کا بیان تاریخ کے مطابق غلط ہے اور یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ قرآن کلام الہی ہے کیوں کہ یہ حقائق کسی انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے یہاں تک کہ ماہرین آثار قدیمہ نے ان کو دریافت کیا۔
لاش کو ممی بنانے کا عمل بذات خود اکثر کی حقیقی وجہ چھپا دیتا ہے لہذا ماہرین کو موت کی وجہ تلاش کرنے کے لیے تاریخی ریکارڈ پہ انحصار کرنا پڑتا ہے جو اکثر صورتوں میں مکمل دستیاب نہیں ہوتا۔لہذا عین ممکن ہے کہ رعمسس دوم ہی فرعون موسی علیہ السلام ہے اور باقی سب تاریخی و آرکیالوجیکل حقائق قرآن کے بیان کی تصدیق کر چکے ہیں
قرآن مجید اور بائیبل میں بیان کردہ وہ عذاب جو فرعون اور اس کی قوم پہ آئے،سائنسدان نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ عذابات گلوبل وارمنگ اور آتش فشانی عمل کا نتیجہ تھے۔سائنسدانوں کے مطابق یہ قدرتی عذاب بالکل حقیقی تھے جن کی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو مصر سے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔لیکن ضد بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے نا۔بائبل اور قرآن کے بیان کی سائنسی تصدیق کے باوجود کچھ ملحد سائنسدان ان عذابات کو خدائی حکم کی بجائے آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جو سینکڑوں میل دور واقع ہوئے اور جن کا اثر مصر پہ پڑا۔ان عذابات اور قدرتی آفات کی تفصیل 2010ء کے ایسٹر سنڈے پہ نیشنل جیو گرافک پہ پیش کی جانی تھی۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ عذابات فرعون رعمسس دوم کے قدیم شہر پی رعمسس( Pi-Ramses) میں وقوع پذیر ہوئے جو کہ اس وقت رعمسس دوم کا دارالحکومت تھا۔یہ واقعات و عذابات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت یعنی 1279 سے 1213 قبل مسیح کے درمیان یعنی اج سے لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال پہلے وقوع پذیر ہوئے اور ان آفات کی وجہ سے یہ شہر ترک کر دیا گیا اور بعد ازاں کھنڈر بن گیا اور قرآن نے بھی کہا ہے کہ ہم نے فرعون کے شہر کو زمین کے برابر کر دیا۔ماہرین کے مطابق یہ عذابات و واقعات فرعون رعمسس دوم کے دور حکومت کے آخر میں وقوع پذیر ہوئے اور یہ بات قرآن کے بیان کو ثابت کر رہی ہے کہ اس کے بعد فرعون رعمسس دوم کو اللٰہ تعالٰی نے غرق کرکے ہلاک کر دیا۔
مصری غاروں میں رسوب کلسی فرش یعنی Stalagmitesپہ تحقیقات کرکے ماہرین نےان میں موجود ریڈیو ایکٹو عناصر کے ذریعے اس زمانے کے موسم کا ریکارڈ مرتب کیا اور یہ دریافت کیا کہ پہلے مصر کا موسم گرم مرطوب تھا اور پھر خشک گرم ہوگیا۔قدیم موسم کے ماہر یعنی Paleoclimatologist پروفیسر آگسٹو میگینی نے ہیڈلبرگ یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی فزکس میں کہا کہ فرعون رعمسس دوم نے انتہائی مناسب آب و ہوا میں حکومت کی جہاں بارش زیادہ ہوتی تھی اور اس کے ملک نے ترقی کی لیکن صرف چند ہی عشروں بعد اسی فرعون کے دور حکومت میں موسم خشک ہوگیا جس کے شدید برے اثرات مرتب ہوئے۔
ماہرین کے مطابق یہی وہ تبدیلی تھی جس سے مصر پہ مصائب ٹوٹ پڑے،دریائے نیل خشک ہوگیا اور گارے کی کیفیت اختیار کر گیا اور اس کا پانی خون کی طرح سرخ ہوگیا۔
ڈاکٹر سٹیفن پیفگلومیچر(Dr Stephen Pfglumacher) نے جو برلن جرمنی میں لیبنز انسٹٹیوٹ فار واٹر ایکالوجی اینڈ ان لینڈ فشریز کے ماہر بیالوجی ہیں کے مطابق دریا کا پانی خون بن گیا۔واضح رہے کہ قرآن نے فرعون اور اس کی قوم پہ خون کے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں ان کا قابل استعمال اور پینے کا سارا پانی خون بن گیا۔ماہرین کے مطابق یہ ایک زہریلی الجی کی وجہ سے ہوا۔اس کے مطابق ایک بیکٹیریا Burgundy Blood algae or Oscillatoria rubescens سائنس کے مطابق تین ہزار سال یعنی فرعون کے دور سے موجود چلا آرہا ہے اور اج تک ایسا کر سکتا ہے۔ان کے مطابق یہ سست چلنے والے گرم پانی میں تیزی سے پرورش پاتا ہے اور جب یہ مرتا ہے تو پانی کا رنگ خون کی طرح سرخ کر دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق اس الجی کی وجہ سے قرآن اور بائبل میں بیان کیے گئے اور عذابات فرعون کی قوم پہ ٹوٹ پڑے جن میں مینڈک،جوئیں، اور مکھیوں کے عذاب شامل تھے۔سائنسدانوں کے مطابق ان سخت موسمی تبدیلیوں اور زہریلی الجی سے مینڈک کے ٹیڈ پول یعنی بچے مینڈکوں میں تبدیل ہوگئے اور پورے شہر میں گھس گئے۔اس طرح یہ بات قرآن کے بیان کردہ فرعون کی قوم پہ مینڈکوں کے عذاب کی تصدیق کر رہی ہے۔لیکن جب یہ مینڈک مرے تو ان پہ مچھر،مکھیوں اور دوسرے کیڑوں مکوڑوں نے حملہ کر دیا،مویشی بیمار پڑ گئے اور لوگوں کے جسموں پہ پیپ دار دانے نکل آئے۔
پروفیسر ورنر کلوآس کے مطابق یہ حشرات الارض ملیریا اور دیگر کئی قسم کی وباؤں کے مصر میں پھیلنے کا سبب بنے جس سے اکثر آبادی بیمار پڑ گئ۔ایک اور مصیبت تب ٹوٹی جب چار سو میل دور بحیرہ روم میں موجود جزیرہ کریٹ میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے سے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے آتش فشانی واقعات میں سے ایک ہوا جس سے نکلنے والی کئی ارب ٹن راکھ فضا میں پھیل گئی جس نے سورج کی روشنی کو روک دیا اور مصر پہ تاریکی کا عذاب ٹوٹ پڑا اور انسٹٹیوٹ فار ایٹما سفیئر فزکس کے نیڈین وان بلوہم کے مطابق اس راکھ نے مصر پہ موجود بادلوں سے تعامل کیا جس سے مصر پہ اولوں کا عذاب ٹوٹ پڑا اور فصلیں تباہ ہوگئی۔
کینیڈا کے ایک ماہر حیاتیات ڈاکٹر سیرو ٹریوی سینٹو کے مطابق اس راکھ سے موسمی تبدیلیاں ہوئ اور مصر پہ ٹڈیوں کا عذاب ٹوٹ پڑا اور سائنسدانوں نے مصر میں موجود چٹانوں کے تجزیے سے اس سارے عمل کی تصدیق کر دی ہے۔
اس کے علاوہ مصر میں ایک زہریلی پھپھوندی نے غلے کو آلودہ کر دیا جس سے ان کےپیدا ہونے والے پہلے نر بچے متاثر ہوئے اور ان کی موت واقع ہوگئ۔یہ اس بات کی سزا تھی کہ فرعون بنی اسرائیل کے نر بچوں کا کئی سال قتل کرتا رہا۔
خلاصہ یہ کہ اج چودہ سو سال بعد حیرت انگیز طور پہ سائنس نے قرآن میں بیان کردہ ان عذابات کی تصدیق کردی ہے جو فرعون کی قوم نازل کئے گئے۔میں بحیثیت مصنف اس ساری تفصیل پہ حیران ہوں۔اب کوئی کیسے کہ سکتا ہے کہ قرآن خالق کا کلام نہیں۔کیا ایک انسانی کلام ایسی بات کر سکتا ہے جو سائنس چودہ سو سال بعد ہو بہو ثابت کرے۔کیا اب بھی کوئی کہ سکتا ہے کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کا کلام نہیں؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔