پہلا سوال. کہ ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے. لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟
اگر بالفرض ھم کھیں ،اللہ تعالی کو ایک اور اللہ نے پیداکیا ھے تو سوال واپس آئیگا انکو کس نے پیدا کیا لامحالہ کھنا پڑے گا ایک اور نے تو یہ نہ ختم ھونے والاسلسہ چل پڑھے گا آخر کھیں تو رکنالازمی ھے اسلیے اسی پر اکتفاء کر لیں کہ اللہ کو کسی نے پیدا نھیں کیا.
الہیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے - ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر مذہبی عقیدے کے مطابق ، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا - مگر یہ سوال مکمل طور پر ایک غیر منطقی(illogical) سوال ہے - یہ منطق کی نفی ہے - مزید یہ کہ مزکوره اعتراض ایک کهلی تضاد فکری پر قائم ہے - یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں ، مگر خالق کو ماننے کے لیے وه ایک خالق خالق کا مطالبہ کرتے ہیں - حالانکہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بهی بغیر خالق کے ممکن هونا چاہئے-
لم یلد و لم یُولد۔۔۔!
پیدا کیے جانے کا سوال اس سے ہوتا ہے جو پیدا ہوا ہو۔جو کسی سے پیدا ہی نہیں ہوا،اس اللٰہ تعالٰی کی پیدائش کا سوال کیوں۔جو ہمیشہ سے ہو اسے پیدا کس نے کیا یہ سوال غیر منطقی ہے۔
کیونکہ اگر بالفرض میں کہہ دوں کہ اللہ کو فلاں نے پیدا کیا تو پھر سوال ہوگا اس فلاں کو کس نے پیدا کیا ؟ یہ سلسلہ چلتا ہی جائے گا کہیں نہیں رکے گا
اور یہ تسلسل کہلائے گا جو کہ باطل ہے
لہذا یہ سوال بھی باطل ہے
آپ الٹا سوال کر سکتے ہیں کہ "مادے "کو کس نے پیدا کیا ؟
ملحد یہی کہے گا کہ توانائی نا پیدا ہو سکتی ہے نا ہی فنا
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ توانائی کے بجائے
خدا نا تو پیدا ہو سکتا ہے نا فنا
وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا
عجیب بات ہے کہ اللہ تعالی کو نہ ماننے والے سائنس کے اس قانون پہ تو یقین کر لیتے ہیں کہ توانائی بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہمیشہ موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی لیکن خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔
اگر بالفرض ھم کھیں ،اللہ تعالی کو ایک اور اللہ نے پیداکیا ھے تو سوال واپس آئیگا انکو کس نے پیدا کیا لامحالہ کھنا پڑے گا ایک اور نے تو یہ نہ ختم ھونے والاسلسہ چل پڑھے گا آخر کھیں تو رکنالازمی ھے اسلیے اسی پر اکتفاء کر لیں کہ اللہ کو کسی نے پیدا نھیں کیا.
الہیات کے معاملے میں جدید ذہن سخت کنفیوژن کا شکار ہے - ملحد فلاسفہ اکثر یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر مذہبی عقیدے کے مطابق ، خدا نے کائنات کو بنایا تو خود خدا کو کس نے بنایا - مگر یہ سوال مکمل طور پر ایک غیر منطقی(illogical) سوال ہے - یہ منطق کی نفی ہے - مزید یہ کہ مزکوره اعتراض ایک کهلی تضاد فکری پر قائم ہے - یہ لوگ خود تو کائنات کو بغیر خالق کے مان رہے ہیں ، مگر خالق کو ماننے کے لیے وه ایک خالق خالق کا مطالبہ کرتے ہیں - حالانکہ کائنات کا وجود اگر بغیر خالق کے ممکن ہے تو خالق کا وجود بهی بغیر خالق کے ممکن هونا چاہئے-
لم یلد و لم یُولد۔۔۔!
پیدا کیے جانے کا سوال اس سے ہوتا ہے جو پیدا ہوا ہو۔جو کسی سے پیدا ہی نہیں ہوا،اس اللٰہ تعالٰی کی پیدائش کا سوال کیوں۔جو ہمیشہ سے ہو اسے پیدا کس نے کیا یہ سوال غیر منطقی ہے۔
کیونکہ اگر بالفرض میں کہہ دوں کہ اللہ کو فلاں نے پیدا کیا تو پھر سوال ہوگا اس فلاں کو کس نے پیدا کیا ؟ یہ سلسلہ چلتا ہی جائے گا کہیں نہیں رکے گا
اور یہ تسلسل کہلائے گا جو کہ باطل ہے
لہذا یہ سوال بھی باطل ہے
آپ الٹا سوال کر سکتے ہیں کہ "مادے "کو کس نے پیدا کیا ؟
ملحد یہی کہے گا کہ توانائی نا پیدا ہو سکتی ہے نا ہی فنا
تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ توانائی کے بجائے
خدا نا تو پیدا ہو سکتا ہے نا فنا
وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا
عجیب بات ہے کہ اللہ تعالی کو نہ ماننے والے سائنس کے اس قانون پہ تو یقین کر لیتے ہیں کہ توانائی بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہمیشہ موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی لیکن خدا کے وجود سے انکاری ہیں۔
دلیل کسی چیز کی ابتدا ہو تو اس کے لیے سوال
ہوتا ہے کہ اس کی ابتدا کس نے کی؟ اس کی علت کیا ہے یہ چیز کہاں سے آئ۔
کیونکہ وہ چیز خود سے پہلے موجود نہیں تھی۔۔۔! دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شروع
سے موجود تھی اور اسے کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ دائمی تھی۔
ہمیں پتا ہے کہ کائنات دائمی نہیں اس کا ایک آغاز ہوا ہے تو اس کو پیدا کرنے والا کوئ ہونا چاہئیے۔ اس کی علت کوئ ہونی چاہئیے۔ اب وہ علت یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی وقت پر پیدا ہوئ ہو کیونکہ اس کی پھر علت چاہئیے ہو گی۔۔۔! یہ انفنٹ ریگریشن ممکن نہیں۔ اس لئے ایک واجب الوجود کا وجود ضروری ہے جو شروع سے ہو ہمیشہ سے تاکہ وہ ہر چیز کو پیدا کرے۔ یہ واجب الوجود خدا ہے۔
دوسری بات انسان کو جو عقل دی گئ ہے وہ محدود ہے... اور انسان کی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر چیز پیدا ہوتی. ہے...............
1. علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔
2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔
3۔ جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
اگر کوئی موجود کسی دوسری موجود کا محتاج ہو، اور اس کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہو تو اسے فلسفہ کی اصطلاح میں محتاج موجود کو "معلول"اور دوسرے کو "علت"کہا جاتا ہے.
سب سے پہلے ارسطو نے علل اربعہ (علت فاعلیہ, علت مادیہ, علت صوریہ, علت غائیہ) کا فلسفہ پیش کیا تها اور آج تک اسی فلسفہ کا دنیا پر راج ہے حتی کہ کتاب و سنت پر بلاواسطہ عمل پیرا ہونے والوں کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ جدید سائنس بهی اسی علل اربعہ کے فلسفہ کی ہی معتقد ہے.
اسی فلسفہ کی بنیاد پر ملاحدہ و مادہ پرستوں کا کہنا ہے کہ "اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟"
چونکہ ممکن الوجود کا وجود خود سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے متحقق ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کا محتاج ہے، اس لئے کہ یہ قضیہ بدیہی اور آشکار ہے کہ ہر وہ محمول جسے موضوع کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے یا تو وہ خود بخود (بالذات) ثابت ہے، یا کسی دوسرے کی وجہ سے (بالغیر) اس کا ثبوت ہے.
پس ایک موضوع کے لئے وجود کا ثابت ہونا یا تو بالذات ہے یا بالغیر، اگر بالذات نہیں ہے تو ضرور بالغیر ہے، لہٰذا ہر ممکن الوجود جو خود بخود وجود سے متصف نہیں ہوا ہے وہ حتماً دوسری شئی کے ذریعہ فیض وجود سے مستفیض ہوگا, پس ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصل علیت کا معنی یہ ہے کہ ہر موجود علت کا محتاج ہے لہٰذا ان لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ پھر خدا کے لئے بھی علت ہونی چاہیے. لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اصل علیت (موجود) بطور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا مو ضوع ممکن الوجود اور معلول ہے یا دوسری تعبیر کے مطابق ہر موجود محتاج علت کا محتاج ہے نہ ہر موجود.
علتوں کا سلسلہ ایک ایسے موجود پر تمام ہو جو خود کسی کا معلول نہ ہو اس لئے کہ علتوں کا یہ نہایت تسلسل محال ہے اور اس طرح واجب الوجود کا وجود ثابت ہو جاتا ہے علت خود بخود موجود ہے اور کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں. فلاسفہ نے تسلسل کو باطل کرنے کے لئے متعدد دلیلیں پیش کی ہیں لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ علتوں کے سلسلہ میں تسلسل کا باطل ہونا آشکار ہے جو ایک معمولی تفکر سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی چونکہ وجود معلول علت سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہے، اگر یہ فرض کر لیں کہ اس کی معلولیّت عمومی ہے تو اس صورت میں کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا ،اس لئے کہ چند وابستہ موجودات کا ان کے مقابل موجود کے وجود ہونے کے بغیر فرض کرنا معقول نہیں ہے.
ہر وہ چیز جسے موجود کہا جاسکتا ہو وہ دو حال سے خارج نہیں، یا تو اس کے لئے وجود ضروری ہے یعنی وہ خودبخود موجود ہے کہ جسے اصطلاح میں واجب الوجود کہا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے وجود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وجود کی برکت سے عالم وجود میں آیا ہے تو اسے اصطلاح میں ممکن الوجود کہا جاتا ہے اور یہ بات روشن ہے کہ جس چیز کا وجود محال ہو اس کا موجود ہونا غیرممکن اور کسی بھی صورت میں اسے موجود کا نام نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ہر موجود یا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود.
مفہوم ممکن الوجود میں غور و فکر کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شئی بھی اس مفہوم کی مصداق بنے وہ علت کی محتاج ہوگی، اس لئے کہ جب کوئی موجود خود بخود موجود میں نہ آیا ہو تو مجبوراً کسی دوسرے موجود کے ذریعہ وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر وہ وصف جو بالذات نہ ہو تو اس کا بالغیر ہونا ضروری ہے اور قانون علیّت کا مفاد بھی یہی ہے کہ ہر وابستہ اور ممکن الوجود، کسی نہ کسی علت کا محتاج ہے, اور اگر ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہو تو کسی بھی حال میں کوئی موجود محقق نہیں ہوسکتا، یہ فرض بالکل اسی طرح ہے جسمیں ہر فرد اگر اپنے اقدام کو دوسرے کے آغاز پر مشروط کردے تو پھر کسی قسم کا کوئی اقدام وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا خارجی موجودات کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی واجب الوجود موجود ہے.
خلاصہ کلام:
ھر موجود جس کا پھلے کوئی وجود نھیں تھا، اسے بعد میں وجود حاصل ھوا اور ھر وہ مخلوق جس کی ھستی اس کی اپنی ذاتی نہ ھو اس کے وجود کے لئے کسی علت و سبب اور ایک خالق کا ھونا لازمی ھے ۔
یہ اصول نہ صرف یہ کہ کائنات کے اصل سر چشمے اور تمام مخلوقات کے وجود اور پیدائش کی اصل علت کی جانب ھماری رھنمائی کرتا ھے، بلکہ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا ھے کہ اس اصل منبع اور علت کو کسی دوسرے منبع اور علت کی حاجت نہ ھو ، کیونکہ اس کی ھستی خود اس کی اپنی ذاتی ھے اور وہ مخلوق نھیں ھے ۔
بزرگ فلاسفہ نے اس مفھوم کو اس مختصر سے فقرے میں سمو دیا ھے ۔ وہ کھتے ھیں : ” کلّ ما بالعرض ینتھی الی ما بالذّات “
ھر عرضی وجود ، یعنی غیر ذاتی وجود ، بالآخر کسی وجود ذاتی کی طرف لوٹتا ھے اور اسی پر منتھیٰ ھوتا ھے.
ایک یھودی نے حضرت علی رضی اللہ سے دریافت کیا کہ خدا کب سے موجود ھے ؟
آپ نے جواب میں فرمایا : ” کب سے موجود ھے کا سوال تم اس کے بارے میں اٹھا سکتے ھو جو موجو د نہ رھا ھو. اس طرح کا سوال ھر جگہ با معنی نھیں ھو سکتا ، صرف اس چیز کے بارے میں یہ با معنی ھو سکتا ھے جو پھلے موجود نہ رھی ھو اور بعد میں نمودار ھوئی ھو ۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے ۔ وہ ھر آغاز سے پھلے رھا ھے اور ھر انجام کے بعد بھی رھے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال صحیح نھیں ھے ۔ “
ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ خدا کس زمان و مکان میں ہے۔خدا خود ہمیشہ سے موجود ہے تو وقت کی قید اس کے لیے کہاں رہی،مکان بھی اس نے پیدا کیا تو پھر وہ پیدا کرنے والا اس مکان کا پابند کیسے ہوگیا جس کو اس نے خود پیدا کیا۔
کاجان کاکڑ
پیدا ہونا اس کا ضروری ہوتا ہے جو پہلے سے موجود نہ ہو۔
اس لیے کسی بھی چیز کے کیے دو ممکنات ہو سکتی ہیں۔
۱۔ وہ ایک وقت پر وجود میں آئ ہو پھر اس کے لیے سوال ہو گا کہ اس کو وجود کس نے دیا اور یہ کہاں سے آئ اس کو کس نے پیدا کیا۔
۲۔ یا وہ چیز ہمیشہ سے ہو گی دائمی ہو گی اور اسے پیدا کرنے والا کوئ نہیں ہو گا۔
اب ملحدین یہ مانتے ہیں کہ کائنات کا وجود دائمی ہے اور کائنات کو بنانے والا کوئ نہیں۔
اور ہم یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک خاص وقت پر پیدا ہوئ ہے اور یہ وقت اور کائنات اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ اوّل و آخر ہے۔ ہر چیز اس کی پیدا کردا ہے۔
اب ملحدین کائنات کو تو بنانے والی کے بغیر مانتے ہیں مگر اس کے خالق کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اسے کس نے بنایا۔
الله ہر چیز کا خالق ہے اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا اور نہ اسے کسی نے پیدا کیا۔ وہ ہمیشہ سے ہے۔ جب کوئ چیز کہ تھی نہ زماں نہ مکاں نہ مادہ نہ انرجی تب بھی اللہ موجود تھا اور اس نے ہر چیز کو وجود بخشا۔
اگر ہم کہیں کہ کائنات کو ایک ایسے خالق نے بنایا ہے جو خود خلق ہوا ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ اس خالق کو کس نے بنایا پھر اس خالق کے خالق کو کس نے بنایا ۔۔۔ اس طرح یہ لامحدودیت تک چلا جاۓ گا اور کائنات کا وجود ہی نہیں ہو گا کیونکہ کائنات کو بنانے کے لیے اس کا خالق چاہئے اس خالق کو بنانے کے لیے اس کا اور اس کے لیے کسی دوسرے کا۔ ہمیں لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ ایک خالق ضروری ہے جو ہمیشہ سے ہو اور اس کا خالق کوئ نہ ہو تاکہ وہ ہر چیز کو وجود بخشے۔ اس کے علاوہ آپ کائنات کی کوئ تشریح نہیں کر سکتے۔آخر میں پھر بھی خدا کے وجود کا اقرار کرنا پڑے گا۔
یہ ایک بہت فرسودہ سوال ہوچکا ہے کہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی علت کیا ہے؟ یا ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا؟ پہلی تو بات یہ طے کی جائے گی کہ کائنات کے اصول کا اطلاق خدا پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ تو جواب یہی ہے کہ ظاہر ہے جب کائنات کو بنانے والا خدا ہے تو خدا پر مادی کائنات کے اصولوں کا اطلاق ممکن نہیں۔ کیونکہ خدا پر نہ تو کوئی زمانے کی پابندی ہے نہ کوئی مکان (بشمول خود مکمل کائنات) خدا کو اپنے آپ میں سما سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی موجودگی کائنات کے اندر ہی نہیں بلکہ اسکی سرحدوں سے بہت ماورا ہے جس پر کائنات کے اصول کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ جبکہ علت و معلول کے رشتے کی پابندی کا ماخذ ضروری ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بائیولوجیکل سائنس میں مائٹوکونڈریل ایو(Mitochondrial Eve) کا جو وجود ہے وہ انسانیت کی پہلی ماں ہے۔ ہم یہاں علت و معلول کے رشتے کے مقابلے پر ماں اور اولاد کے رشتے کو بطورِ مفروضہ مانتے ہیں۔ لیکن جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ایو(Eve) جب تک اکیلی تھی اس وقت تک نوعِ انسان میں ماں اور اولاد کے رشتے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایو نے پہلے انسان کو جنم دیا تو اب وہ ماں بنی اور اس نے یہ اصول تخلیق کردیا کہ نوعِ انسان میں جو بھی عورت بچے کو جنے گی وہ انسان ہی ہوگا۔اب اگر آج کوئی یہ سوال کرے کہ جب انسان ماں ہمیشہ انسان بچے کو جنم دیتی ہے تو پہلا انسان بچہ کہاں سے آیا؟ تو اس کا معلوم جواب یہی ہے کہ پہلے انسان بچے کو کسی انسان ماں کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ انسان ماں سے انسان بچے کا اصول تو اس ایو کے بعد تخلیق ہوا ہے۔ اس سے ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ انسان اس وقت بھی تھا جب نوعِ انسان میں انسان ماں اور انسان اولاد کا اصول قائم نہیں ہوا تھا۔ جب یہ اصول ہی موجود نہیں تھا اس وقت ایو کو کہاں ضرورت تھی کہ وہ بھی اس اصول پر پوری اترے؟اسی مفروضے کا اگر علت و معلول کے رشتے پر اطلاق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ:
1۔ علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔
2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔
3۔ جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
یہ سوال ایک کیٹیگری مسٹیک(category mistake) ھے۔ تفصیل اسکی یہ کہ ھر وجود کو “ڈیفائن کرنے والی صفات” اس سے متعلق بعض ایسے سوالات کو غیر متعلق(irrelevant) کردیتی ھیں جو کسی دوسری صفات کے حامل وجود کے لئے متعلق ھوتے ھیں۔ مثلا اگر آپ کمرے میں قلم رکھ کر باھر جائیں اور واپس آنے پر اس قلم کی جگہ تبدیل پائیں تو آپ کے ذھن میں “کیسے” کا سوال آئے گا (یعنی اسکی جگہ کیسے تبدیل ھوئی)۔ لیکن اگر قلم کی جگہ آپ کا دوست کمرے میں بیٹھا ھو اور واپس آنے پر اسکی جگہ تبدیل ھوجائے تو آپ کا ذھن اس کیسے کے سوال کی طرف متوجہ نھیں ھوگا۔ چنانچہ انسان کی “متحرک بالارادہ” ھونے کی صفت نے اس سے متعلق “کیسے” کے سوال کو غیر متعلق کردیا؛ اسکے بارے میں “کیسے یھاں سے وھاں چلا گیا” کا سوال کیٹیگری مسٹیک ھے۔
انسان کے بارے میں یہ سوال کہ “اسے کس نے پیدا کیا” ایک متعلق سوال ھے کہ خود ھمارا مشاھدہ و علمی اثار یہ بتا رھے ھیں کہ انسان ھمیشہ سے موجود نھیں؛ تو اس صورت میں یہ سوال منطقی طور پر درست ھے۔ مگر خدا کو ڈیفائن کرنے والی بنیادی صفت “الصمد” (قائم بالذات ھونا) ھے۔ اس صفت کے تناظر میں “خدا کو کس نے پیدا کیا” بالکل اسی طرح غیر منطقی ھے جیسے درج بالا مثال میں انسان کی بابت کیسے کا سوال غلط تھا۔ ظاھر ھے، اگر خدا کو کسی نے پیدا کیا ھے تو وہ الصمد نھیں لھذا خدا نھیں۔ اگر کھا جائے کہ موجودہ خدا کو اس سے قبل خدا نے پیدا کیا تو اس صورت میں جسے موجودہ خدا کہا جارھا ھے وہ خدا نھیں کہ وہ الصمد نھیں (یعنی اپنے ھونے کے لئے وہ اپنے سے قبل کسی کا محتاج ھے)۔ الغرض خدا کے بارے میں یہ سوال کہ “اسے کس نے پیدا کیا” بذات خود ایک غیر منطقی سوال ھے کہ یہ خدا کی تعریف ھی کو نہ سمجھنے کی بنا پر پیدا ھوتا ھے۔
ہمیں پتا ہے کہ کائنات دائمی نہیں اس کا ایک آغاز ہوا ہے تو اس کو پیدا کرنے والا کوئ ہونا چاہئیے۔ اس کی علت کوئ ہونی چاہئیے۔ اب وہ علت یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی وقت پر پیدا ہوئ ہو کیونکہ اس کی پھر علت چاہئیے ہو گی۔۔۔! یہ انفنٹ ریگریشن ممکن نہیں۔ اس لئے ایک واجب الوجود کا وجود ضروری ہے جو شروع سے ہو ہمیشہ سے تاکہ وہ ہر چیز کو پیدا کرے۔ یہ واجب الوجود خدا ہے۔
دوسری بات انسان کو جو عقل دی گئ ہے وہ محدود ہے... اور انسان کی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ہر چیز پیدا ہوتی. ہے...............
1. علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔
2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔
3۔ جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
اگر کوئی موجود کسی دوسری موجود کا محتاج ہو، اور اس کا وجود دوسرے کے وجود پر منحصر ہو تو اسے فلسفہ کی اصطلاح میں محتاج موجود کو "معلول"اور دوسرے کو "علت"کہا جاتا ہے.
سب سے پہلے ارسطو نے علل اربعہ (علت فاعلیہ, علت مادیہ, علت صوریہ, علت غائیہ) کا فلسفہ پیش کیا تها اور آج تک اسی فلسفہ کا دنیا پر راج ہے حتی کہ کتاب و سنت پر بلاواسطہ عمل پیرا ہونے والوں کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب بلکہ جدید سائنس بهی اسی علل اربعہ کے فلسفہ کی ہی معتقد ہے.
اسی فلسفہ کی بنیاد پر ملاحدہ و مادہ پرستوں کا کہنا ہے کہ "اگر ہر وجود کی کوئی نہ کوئی علت ہے تو پھر خدا کی کیا علت ہے؟"
چونکہ ممکن الوجود کا وجود خود سے نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے متحقق ہونے کے لئے کسی دوسرے موجود کا محتاج ہے، اس لئے کہ یہ قضیہ بدیہی اور آشکار ہے کہ ہر وہ محمول جسے موضوع کے لئے انتخاب کیا جاتا ہے یا تو وہ خود بخود (بالذات) ثابت ہے، یا کسی دوسرے کی وجہ سے (بالغیر) اس کا ثبوت ہے.
پس ایک موضوع کے لئے وجود کا ثابت ہونا یا تو بالذات ہے یا بالغیر، اگر بالذات نہیں ہے تو ضرور بالغیر ہے، لہٰذا ہر ممکن الوجود جو خود بخود وجود سے متصف نہیں ہوا ہے وہ حتماً دوسری شئی کے ذریعہ فیض وجود سے مستفیض ہوگا, پس ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے لیکن بعض لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصل علیت کا معنی یہ ہے کہ ہر موجود علت کا محتاج ہے لہٰذا ان لوگوں نے یہ اشکال کیا ہے کہ پھر خدا کے لئے بھی علت ہونی چاہیے. لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہیں کہ اصل علیت (موجود) بطور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کا مو ضوع ممکن الوجود اور معلول ہے یا دوسری تعبیر کے مطابق ہر موجود محتاج علت کا محتاج ہے نہ ہر موجود.
علتوں کا سلسلہ ایک ایسے موجود پر تمام ہو جو خود کسی کا معلول نہ ہو اس لئے کہ علتوں کا یہ نہایت تسلسل محال ہے اور اس طرح واجب الوجود کا وجود ثابت ہو جاتا ہے علت خود بخود موجود ہے اور کسی دوسرے وجود کی محتاج نہیں. فلاسفہ نے تسلسل کو باطل کرنے کے لئے متعدد دلیلیں پیش کی ہیں لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ علتوں کے سلسلہ میں تسلسل کا باطل ہونا آشکار ہے جو ایک معمولی تفکر سے سمجھ میں آجاتا ہے، یعنی چونکہ وجود معلول علت سے وابستہ اور اسی کے ذریعہ قائم ہے، اگر یہ فرض کر لیں کہ اس کی معلولیّت عمومی ہے تو اس صورت میں کوئی موجود وجود میں نہیں آسکتا ،اس لئے کہ چند وابستہ موجودات کا ان کے مقابل موجود کے وجود ہونے کے بغیر فرض کرنا معقول نہیں ہے.
ہر وہ چیز جسے موجود کہا جاسکتا ہو وہ دو حال سے خارج نہیں، یا تو اس کے لئے وجود ضروری ہے یعنی وہ خودبخود موجود ہے کہ جسے اصطلاح میں واجب الوجود کہا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے وجود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی دوسرے وجود کی برکت سے عالم وجود میں آیا ہے تو اسے اصطلاح میں ممکن الوجود کہا جاتا ہے اور یہ بات روشن ہے کہ جس چیز کا وجود محال ہو اس کا موجود ہونا غیرممکن اور کسی بھی صورت میں اسے موجود کا نام نہیں دیا جاسکتا لہٰذا ہر موجود یا واجب الوجود ہے یا ممکن الوجود.
مفہوم ممکن الوجود میں غور و فکر کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شئی بھی اس مفہوم کی مصداق بنے وہ علت کی محتاج ہوگی، اس لئے کہ جب کوئی موجود خود بخود موجود میں نہ آیا ہو تو مجبوراً کسی دوسرے موجود کے ذریعہ وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر وہ وصف جو بالذات نہ ہو تو اس کا بالغیر ہونا ضروری ہے اور قانون علیّت کا مفاد بھی یہی ہے کہ ہر وابستہ اور ممکن الوجود، کسی نہ کسی علت کا محتاج ہے, اور اگر ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہو تو کسی بھی حال میں کوئی موجود محقق نہیں ہوسکتا، یہ فرض بالکل اسی طرح ہے جسمیں ہر فرد اگر اپنے اقدام کو دوسرے کے آغاز پر مشروط کردے تو پھر کسی قسم کا کوئی اقدام وقوع پذیر نہیں ہوسکتا، لہذا خارجی موجودات کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی واجب الوجود موجود ہے.
خلاصہ کلام:
ھر موجود جس کا پھلے کوئی وجود نھیں تھا، اسے بعد میں وجود حاصل ھوا اور ھر وہ مخلوق جس کی ھستی اس کی اپنی ذاتی نہ ھو اس کے وجود کے لئے کسی علت و سبب اور ایک خالق کا ھونا لازمی ھے ۔
یہ اصول نہ صرف یہ کہ کائنات کے اصل سر چشمے اور تمام مخلوقات کے وجود اور پیدائش کی اصل علت کی جانب ھماری رھنمائی کرتا ھے، بلکہ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا ھے کہ اس اصل منبع اور علت کو کسی دوسرے منبع اور علت کی حاجت نہ ھو ، کیونکہ اس کی ھستی خود اس کی اپنی ذاتی ھے اور وہ مخلوق نھیں ھے ۔
بزرگ فلاسفہ نے اس مفھوم کو اس مختصر سے فقرے میں سمو دیا ھے ۔ وہ کھتے ھیں : ” کلّ ما بالعرض ینتھی الی ما بالذّات “
ھر عرضی وجود ، یعنی غیر ذاتی وجود ، بالآخر کسی وجود ذاتی کی طرف لوٹتا ھے اور اسی پر منتھیٰ ھوتا ھے.
ایک یھودی نے حضرت علی رضی اللہ سے دریافت کیا کہ خدا کب سے موجود ھے ؟
آپ نے جواب میں فرمایا : ” کب سے موجود ھے کا سوال تم اس کے بارے میں اٹھا سکتے ھو جو موجو د نہ رھا ھو. اس طرح کا سوال ھر جگہ با معنی نھیں ھو سکتا ، صرف اس چیز کے بارے میں یہ با معنی ھو سکتا ھے جو پھلے موجود نہ رھی ھو اور بعد میں نمودار ھوئی ھو ۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے ۔ وہ ھر آغاز سے پھلے رھا ھے اور ھر انجام کے بعد بھی رھے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال صحیح نھیں ھے ۔ “
ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ خدا کس زمان و مکان میں ہے۔خدا خود ہمیشہ سے موجود ہے تو وقت کی قید اس کے لیے کہاں رہی،مکان بھی اس نے پیدا کیا تو پھر وہ پیدا کرنے والا اس مکان کا پابند کیسے ہوگیا جس کو اس نے خود پیدا کیا۔
کاجان کاکڑ
پیدا ہونا اس کا ضروری ہوتا ہے جو پہلے سے موجود نہ ہو۔
اس لیے کسی بھی چیز کے کیے دو ممکنات ہو سکتی ہیں۔
۱۔ وہ ایک وقت پر وجود میں آئ ہو پھر اس کے لیے سوال ہو گا کہ اس کو وجود کس نے دیا اور یہ کہاں سے آئ اس کو کس نے پیدا کیا۔
۲۔ یا وہ چیز ہمیشہ سے ہو گی دائمی ہو گی اور اسے پیدا کرنے والا کوئ نہیں ہو گا۔
اب ملحدین یہ مانتے ہیں کہ کائنات کا وجود دائمی ہے اور کائنات کو بنانے والا کوئ نہیں۔
اور ہم یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک خاص وقت پر پیدا ہوئ ہے اور یہ وقت اور کائنات اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ اوّل و آخر ہے۔ ہر چیز اس کی پیدا کردا ہے۔
اب ملحدین کائنات کو تو بنانے والی کے بغیر مانتے ہیں مگر اس کے خالق کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اسے کس نے بنایا۔
الله ہر چیز کا خالق ہے اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا اور نہ اسے کسی نے پیدا کیا۔ وہ ہمیشہ سے ہے۔ جب کوئ چیز کہ تھی نہ زماں نہ مکاں نہ مادہ نہ انرجی تب بھی اللہ موجود تھا اور اس نے ہر چیز کو وجود بخشا۔
اگر ہم کہیں کہ کائنات کو ایک ایسے خالق نے بنایا ہے جو خود خلق ہوا ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ اس خالق کو کس نے بنایا پھر اس خالق کے خالق کو کس نے بنایا ۔۔۔ اس طرح یہ لامحدودیت تک چلا جاۓ گا اور کائنات کا وجود ہی نہیں ہو گا کیونکہ کائنات کو بنانے کے لیے اس کا خالق چاہئے اس خالق کو بنانے کے لیے اس کا اور اس کے لیے کسی دوسرے کا۔ ہمیں لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ ایک خالق ضروری ہے جو ہمیشہ سے ہو اور اس کا خالق کوئ نہ ہو تاکہ وہ ہر چیز کو وجود بخشے۔ اس کے علاوہ آپ کائنات کی کوئ تشریح نہیں کر سکتے۔آخر میں پھر بھی خدا کے وجود کا اقرار کرنا پڑے گا۔
یہ ایک بہت فرسودہ سوال ہوچکا ہے کہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی علت کیا ہے؟ یا ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا؟ پہلی تو بات یہ طے کی جائے گی کہ کائنات کے اصول کا اطلاق خدا پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ تو جواب یہی ہے کہ ظاہر ہے جب کائنات کو بنانے والا خدا ہے تو خدا پر مادی کائنات کے اصولوں کا اطلاق ممکن نہیں۔ کیونکہ خدا پر نہ تو کوئی زمانے کی پابندی ہے نہ کوئی مکان (بشمول خود مکمل کائنات) خدا کو اپنے آپ میں سما سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی موجودگی کائنات کے اندر ہی نہیں بلکہ اسکی سرحدوں سے بہت ماورا ہے جس پر کائنات کے اصول کا اطلاق یقینی طور پر نہیں ہوگا۔ جبکہ علت و معلول کے رشتے کی پابندی کا ماخذ ضروری ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیں۔
ہم جانتے ہیں کہ بائیولوجیکل سائنس میں مائٹوکونڈریل ایو(Mitochondrial Eve) کا جو وجود ہے وہ انسانیت کی پہلی ماں ہے۔ ہم یہاں علت و معلول کے رشتے کے مقابلے پر ماں اور اولاد کے رشتے کو بطورِ مفروضہ مانتے ہیں۔ لیکن جو اہم بات ہے وہ یہ کہ ایو(Eve) جب تک اکیلی تھی اس وقت تک نوعِ انسان میں ماں اور اولاد کے رشتے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ایو نے پہلے انسان کو جنم دیا تو اب وہ ماں بنی اور اس نے یہ اصول تخلیق کردیا کہ نوعِ انسان میں جو بھی عورت بچے کو جنے گی وہ انسان ہی ہوگا۔اب اگر آج کوئی یہ سوال کرے کہ جب انسان ماں ہمیشہ انسان بچے کو جنم دیتی ہے تو پہلا انسان بچہ کہاں سے آیا؟ تو اس کا معلوم جواب یہی ہے کہ پہلے انسان بچے کو کسی انسان ماں کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ انسان ماں سے انسان بچے کا اصول تو اس ایو کے بعد تخلیق ہوا ہے۔ اس سے ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ انسان اس وقت بھی تھا جب نوعِ انسان میں انسان ماں اور انسان اولاد کا اصول قائم نہیں ہوا تھا۔ جب یہ اصول ہی موجود نہیں تھا اس وقت ایو کو کہاں ضرورت تھی کہ وہ بھی اس اصول پر پوری اترے؟اسی مفروضے کا اگر علت و معلول کے رشتے پر اطلاق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ:
1۔ علت و معلول کا رشتہ جہاں سے شروع ہوا ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس سے قدیم کوئی ہے ہی نہیں۔
2۔ علت و معلول کا رشتہ اس قدیم ہستی کے پہلی بار کسی معلول کو وجود میں لانے سے وجود میں آیا۔
3۔ جب اس قدیم ہستی نے پہلی بار کسی معلول کو وجود دیا تو ہر شے علت و معلول کی ڈور میں بندھ گئی۔
یہ سوال ایک کیٹیگری مسٹیک(category mistake) ھے۔ تفصیل اسکی یہ کہ ھر وجود کو “ڈیفائن کرنے والی صفات” اس سے متعلق بعض ایسے سوالات کو غیر متعلق(irrelevant) کردیتی ھیں جو کسی دوسری صفات کے حامل وجود کے لئے متعلق ھوتے ھیں۔ مثلا اگر آپ کمرے میں قلم رکھ کر باھر جائیں اور واپس آنے پر اس قلم کی جگہ تبدیل پائیں تو آپ کے ذھن میں “کیسے” کا سوال آئے گا (یعنی اسکی جگہ کیسے تبدیل ھوئی)۔ لیکن اگر قلم کی جگہ آپ کا دوست کمرے میں بیٹھا ھو اور واپس آنے پر اسکی جگہ تبدیل ھوجائے تو آپ کا ذھن اس کیسے کے سوال کی طرف متوجہ نھیں ھوگا۔ چنانچہ انسان کی “متحرک بالارادہ” ھونے کی صفت نے اس سے متعلق “کیسے” کے سوال کو غیر متعلق کردیا؛ اسکے بارے میں “کیسے یھاں سے وھاں چلا گیا” کا سوال کیٹیگری مسٹیک ھے۔
انسان کے بارے میں یہ سوال کہ “اسے کس نے پیدا کیا” ایک متعلق سوال ھے کہ خود ھمارا مشاھدہ و علمی اثار یہ بتا رھے ھیں کہ انسان ھمیشہ سے موجود نھیں؛ تو اس صورت میں یہ سوال منطقی طور پر درست ھے۔ مگر خدا کو ڈیفائن کرنے والی بنیادی صفت “الصمد” (قائم بالذات ھونا) ھے۔ اس صفت کے تناظر میں “خدا کو کس نے پیدا کیا” بالکل اسی طرح غیر منطقی ھے جیسے درج بالا مثال میں انسان کی بابت کیسے کا سوال غلط تھا۔ ظاھر ھے، اگر خدا کو کسی نے پیدا کیا ھے تو وہ الصمد نھیں لھذا خدا نھیں۔ اگر کھا جائے کہ موجودہ خدا کو اس سے قبل خدا نے پیدا کیا تو اس صورت میں جسے موجودہ خدا کہا جارھا ھے وہ خدا نھیں کہ وہ الصمد نھیں (یعنی اپنے ھونے کے لئے وہ اپنے سے قبل کسی کا محتاج ھے)۔ الغرض خدا کے بارے میں یہ سوال کہ “اسے کس نے پیدا کیا” بذات خود ایک غیر منطقی سوال ھے کہ یہ خدا کی تعریف ھی کو نہ سمجھنے کی بنا پر پیدا ھوتا ھے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔