نعوذ
باللٰہ کیا قرآن نازل کرنے والا خدا مریخ نام کے کسی سیارے سے واقف نہیں
تھا؟ قرآن میں مریخ پہ جانے کی پیشین گوئی کیوں موجود نہیں؟
ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملحدین کہتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب میں مریخ پر جانے کی کوئی پیش گوئی موجود نہیں اور نہ ہی چاند پر جانے کا کوئی اشارہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم انسان نظام شمسی سے متعلق جتنا جانتا تھا اتنا اس نے نعوذ باللٰہ "الہام و وحی" کی اختراع کرکے اپنے شخصی تصور خدا کے ساتھ جوڑ دیا۔یہ بالکل غلط ہے۔ ان کے مطابق نظام شمسی ہی مذہبی لوگوں کی کل کائنات ہے کیونکہ جن لوگوں نے ان کتابوں کو نعوذ باللٰہ گھڑا وہ نظام شمسی کے کچھ زمین سے نظر آنے والے سیاروں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملحدین کا یہ اعتراض انتہائی جہالت اور قرآن کے سائنسی انکشافات سے ناواقفیت کی بنیاد پہ ہے۔
قرآن رہنمائی کی کتاب ہے اور اس نے اپنے مخاطب کے حوالے سے اس انداز میں بات کی جتنا ان کو علم تھا تاکہ وہ لوگ آسانی سے قرآن کے بیان کو سمجھ سکیں۔ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات ایسے ہیں جو اس زمانے کے عربوں کیا، ایرانیوں،یونانیوں اور رومیوں تک کو معلوم نہیں تھے جن کے بارے میں قرآن پہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ قرآن نعوذ باللٰہ ان قدیم تہذیبوں سے اخذ کیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کو اس کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا جو زمانہ جاہلیت کے عرب جانتے تھے۔
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ ارشاد ہوتاہے:
” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے۔ غور فرمائیے کہ قرآن پاک نے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا اور قرآن کا یہ انکشاف وہ ہے جس سے انسان قرآن کے نزول کے تیرہ سو سال بعد آج واقف ہوا ہے۔
پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔
وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی
ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن
ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔
اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار ان کے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔
وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتے ّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔
وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے۔ ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ
حَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ
ترجمہ:سلمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔
١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔
٢) ان میں کار کنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران،نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
٣) کھبی کھبار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگوبھی کرتی ہیں۔
٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے 1400 سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔
یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ئُ لِّلنَّا سِ ط
ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔
علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پھپھوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کانام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جرا ثیموں کوروکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:
اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ
ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ
ترجمہ:۔پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں، زنانہ تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو( pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید(inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:
اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُذْ جِیْ سَحَبًا ثُمَّ یُئَو لِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَا مًا فَتَرَ ی الْوَ دْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ وَ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مِنْ جِبَا لٍٍ فِیْھَا مِنْ بَرَ دٍٍ فَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ وَ یَصْرِ فُہ عَنْ مَّنْ یَّشَا ئُ ط یَکَا دُ سَنَا بَرْ قِہ یَذْ ھَبُ بِا لْاَ بْصَا رِ ہ
ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدً ا ہ وَّالْجِبَا لَ اَوْ تَا دً ا
ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔
یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) جو 12سال تک امریکا اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدرجمی کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشرارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں:
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَ رْضِ رَوَسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِم
ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔
اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ار ضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ خون ان مادوں کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے ) غدود بھی شامل ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہ مِنْ م بََیْنَ فَرْ ثٍ وَّ دَ مٍٍ لَّبَنًا خَا لِصًا سَآ ئِغًا لِّلشّّٰرِ بِیْنَ ہ
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوا رہے۔
1400 سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جوگائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ان بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے عروج پر تھے ۔پھر قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کس طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔
اوپر بیان کردہ سائنسی انکشافات ان کئ انکشافات میں سے محض چند ہیں جن کو قرآن نے پیش کیا ہے۔اوپر بیان کردہ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات وہ تھے جن کو ہزار سال تک انسان دریافت نہیں کر سکا لیکن قرآن نے ان کو چودہ سو سال پہلے پیش کیا۔ قرآن نازل کرنے والے جس خدا نے یہ حیرتناک سائنسی انکشافات بیان کیے وہ مریخ پہ جانے سے آگاہ کیوں نہیں ہو سکتا تھا جب کہ وہ خدا قرآن میں خود فرما چکا ہے کہ تم نہیں نکل سکتے زمین و آسمان کے کناروں سے مگر بہت قوت کے ساتھ اور آج یہی وہ قوت ہے جس سے انسان کائنات کی مختلف سمتوں کی طرف اپنے خلائی جہاز بھیج رہا ہے۔ ان سب انکشافات کے تناظر میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ قرآن نازل کرنے والے خدا نے فلاں فلاں سائنسی حقائق کیوں بیان نہیں کیے جب کہ اس کی نازل کردہ کتاب وہ حقائق پیش کر چکی ہے جو انسان نے اس کے نزول کے ہزار سال بعد دریافت کئے۔ یہ قرآن نعوذ باللٰہ کس طرح بابل، ایران، یونان، مصر، روم، یہودیت یا عیسائیت سے نقل ہوسکتا تھا جب کہ اس قرآن کے بیان کردہ بیشمار سائنسی حقائق نہ بابلی جانتے تھے، نہ ایرانی، نہ رومی، نہ یونانی، نہ مصری، نہ عیسائی اور نہ یہودی اور انسان ان حقائق سے آج ہی واقف ہوسکا ہے۔جو کتاب اپنے انکشافات میں انسانی عقل اور سائنس سے ہزار سال آگے ہو اس پہ نہ جاننے اور نعوذ باللٰہ کسی عام انسان کی طرف سے گھڑے جانے کا اعتراض جہالت کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے ؟
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں اردو آزاد دائرۃ المعروف کے مضمون قرآن اور جدید سائنس سے مدد لی گئی ہے اور راقم اس کے لیے مضمون کے مصنف کا شکرگزار ہے۔
ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملحدین کہتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب میں مریخ پر جانے کی کوئی پیش گوئی موجود نہیں اور نہ ہی چاند پر جانے کا کوئی اشارہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم انسان نظام شمسی سے متعلق جتنا جانتا تھا اتنا اس نے نعوذ باللٰہ "الہام و وحی" کی اختراع کرکے اپنے شخصی تصور خدا کے ساتھ جوڑ دیا۔یہ بالکل غلط ہے۔ ان کے مطابق نظام شمسی ہی مذہبی لوگوں کی کل کائنات ہے کیونکہ جن لوگوں نے ان کتابوں کو نعوذ باللٰہ گھڑا وہ نظام شمسی کے کچھ زمین سے نظر آنے والے سیاروں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملحدین کا یہ اعتراض انتہائی جہالت اور قرآن کے سائنسی انکشافات سے ناواقفیت کی بنیاد پہ ہے۔
قرآن رہنمائی کی کتاب ہے اور اس نے اپنے مخاطب کے حوالے سے اس انداز میں بات کی جتنا ان کو علم تھا تاکہ وہ لوگ آسانی سے قرآن کے بیان کو سمجھ سکیں۔ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات ایسے ہیں جو اس زمانے کے عربوں کیا، ایرانیوں،یونانیوں اور رومیوں تک کو معلوم نہیں تھے جن کے بارے میں قرآن پہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ قرآن نعوذ باللٰہ ان قدیم تہذیبوں سے اخذ کیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کو اس کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا جو زمانہ جاہلیت کے عرب جانتے تھے۔
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ ارشاد ہوتاہے:
” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے۔ غور فرمائیے کہ قرآن پاک نے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا اور قرآن کا یہ انکشاف وہ ہے جس سے انسان قرآن کے نزول کے تیرہ سو سال بعد آج واقف ہوا ہے۔
پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔
وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی
ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن
ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔
اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار ان کے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔
وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتے ّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔
وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے۔ ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ
حَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ
ترجمہ:سلمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔
١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔
٢) ان میں کار کنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران،نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
٣) کھبی کھبار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگوبھی کرتی ہیں۔
٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے 1400 سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔
یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ئُ لِّلنَّا سِ ط
ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔
علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پھپھوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کانام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جرا ثیموں کوروکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:
اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ
ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ
ترجمہ:۔پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں، زنانہ تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو( pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید(inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:
اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُذْ جِیْ سَحَبًا ثُمَّ یُئَو لِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَا مًا فَتَرَ ی الْوَ دْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ وَ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مِنْ جِبَا لٍٍ فِیْھَا مِنْ بَرَ دٍٍ فَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ وَ یَصْرِ فُہ عَنْ مَّنْ یَّشَا ئُ ط یَکَا دُ سَنَا بَرْ قِہ یَذْ ھَبُ بِا لْاَ بْصَا رِ ہ
ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدً ا ہ وَّالْجِبَا لَ اَوْ تَا دً ا
ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔
یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) جو 12سال تک امریکا اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدرجمی کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشرارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں:
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَ رْضِ رَوَسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِم
ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔
اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ار ضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ خون ان مادوں کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے ) غدود بھی شامل ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہ مِنْ م بََیْنَ فَرْ ثٍ وَّ دَ مٍٍ لَّبَنًا خَا لِصًا سَآ ئِغًا لِّلشّّٰرِ بِیْنَ ہ
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوا رہے۔
1400 سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جوگائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ان بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے عروج پر تھے ۔پھر قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کس طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔
اوپر بیان کردہ سائنسی انکشافات ان کئ انکشافات میں سے محض چند ہیں جن کو قرآن نے پیش کیا ہے۔اوپر بیان کردہ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات وہ تھے جن کو ہزار سال تک انسان دریافت نہیں کر سکا لیکن قرآن نے ان کو چودہ سو سال پہلے پیش کیا۔ قرآن نازل کرنے والے جس خدا نے یہ حیرتناک سائنسی انکشافات بیان کیے وہ مریخ پہ جانے سے آگاہ کیوں نہیں ہو سکتا تھا جب کہ وہ خدا قرآن میں خود فرما چکا ہے کہ تم نہیں نکل سکتے زمین و آسمان کے کناروں سے مگر بہت قوت کے ساتھ اور آج یہی وہ قوت ہے جس سے انسان کائنات کی مختلف سمتوں کی طرف اپنے خلائی جہاز بھیج رہا ہے۔ ان سب انکشافات کے تناظر میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ قرآن نازل کرنے والے خدا نے فلاں فلاں سائنسی حقائق کیوں بیان نہیں کیے جب کہ اس کی نازل کردہ کتاب وہ حقائق پیش کر چکی ہے جو انسان نے اس کے نزول کے ہزار سال بعد دریافت کئے۔ یہ قرآن نعوذ باللٰہ کس طرح بابل، ایران، یونان، مصر، روم، یہودیت یا عیسائیت سے نقل ہوسکتا تھا جب کہ اس قرآن کے بیان کردہ بیشمار سائنسی حقائق نہ بابلی جانتے تھے، نہ ایرانی، نہ رومی، نہ یونانی، نہ مصری، نہ عیسائی اور نہ یہودی اور انسان ان حقائق سے آج ہی واقف ہوسکا ہے۔جو کتاب اپنے انکشافات میں انسانی عقل اور سائنس سے ہزار سال آگے ہو اس پہ نہ جاننے اور نعوذ باللٰہ کسی عام انسان کی طرف سے گھڑے جانے کا اعتراض جہالت کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے ؟
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں اردو آزاد دائرۃ المعروف کے مضمون قرآن اور جدید سائنس سے مدد لی گئی ہے اور راقم اس کے لیے مضمون کے مصنف کا شکرگزار ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔