کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف عرب کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے؟
ملحدین کے اعتراض کا جواب
از طرف اسرار احمد صدیقی
ملحدین کا اعتراض:-
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {سورہ ابراہیم آیت 4}
اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: اور ہم نے جو بھی پیغمبر بھیجا وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
ملحدین اس آیات کی بناء پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیونکہ اس آیت میں کہا گیا ہےکے ہم نے جس قوم میں بھی نبی بھیجا تو انہی کی زبان میں بھیجا اب چونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم عربی دان تھیں تو آپکی نبوت بھی صرف عربوں کے لئے ہے ناکہ ہندوستان پاکستان اور دیگر غیر عربی زبان والوں کے لئے،
ملحدین کے اعتراض کا جواب
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کے ملحدین دماغ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے سوچتے ہیں
یعنی قومی زبان میں رسول کی بعثت کا مقصد اولین مخاطبین کو دین کے متعلق شرعی مسائل و احکام کھول کھول کر بیان کرنا تھا تاکہ جو اولین مخاطبین ہیں کسی ابہام کا شکار نہ رہیں اور وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرلیں تاکے جب وہ آگے لوگوں تک دین پہنچائیں تو انکو خود بھی اس دین کے کسی مسئلے میں کوئی ابھام نہ رہے، کیونکہ جس نے آگے دین پھیلانا ہے اگر غیر زبان ہونے کی وجہ سے اسے ہی دینی احکام سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے تو وہ آگے لوگوں تک اس دین کو کیسے پہنچا سکتا ہے جبکہ اس نے خود صحیح طور پر دین سمجھا ہی نہیں؟ کیونکہ دین کا مقصد محض ہدایات دینا ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو بندے اور خدا کا تعلق قائم کرنے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اگر خدا کی کتاب کو اسپرانتو ٹائپ کی کسی زبان میں نازل کر بھی دیا جاتا تو یہ کبھی اپنے مخاطبین میں جوش، جذبہ اور خدا سے تعلق پیدا نہ کر سکتی۔ اس معاملے میں فطری طریقہ یہی ہے کہ اس پیغام کو اولین مخاطبین کی زبان میں نازل کر دیا جائے اور وہ لوگ دوسروں تک یہ پیغام ترجمہ کر کے یا ان لوگوں کو یہ زبان سکھا کر پہنچائیں۔ اسلام کی تاریخ میں یہی فطری اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تورات کو عبرانی، انجیل کو سریانی اور قرآن کو عربی میں نازل کیا گیا کیونکہ یہ ان کے اولین مخاطین کی زبانیں تھیں۔
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اور موجودہ مفکرین کی رائے:
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو موجودہ دور کے مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں جسکے لئے کچھ لنکس بطور دلیل پیش کر رہا ہوں
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت
http://niazamana.com/…/why-eduction-is-necessary-in-mother…/
ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی کیوں؟
https://blog.jasarat.com/2017/12/11/farooq-tahir-3/
http://dailyazadiquetta.com/2016/03/02/httpwp-mep3wa3i-8dy/
مادری زبان میں تعلیم دیئے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں
https://www.express.pk/story/333897/
زبان اور مادری زبان: ہر ایک کا اپنا ستارہ
http://www.humsub.com.pk/5820/abid-mir-4/
مادری زبان کی اہمیت
http://mazameen.com/misc/society/مادری-زبان-کی-اہمیت.html
لہذا مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت جو قرآن نے بتایا آج کے جدید دور کے مفکرین نے بھی مادری زبان کی تعلیم کی اہمیت کو جان لیا ہے
مادری زبان میں تعلیم نہ دینے کا نقصان
ولو جعلناه أعجمياً لقالوا: لولا فُصِّلت آياته، أعجمي وعربي؟
اگر ہم اس قرآن کو کسی عجمی زبان میں نازل کر دیتے تو یہ لوگ کہتے، "اس کی آیات کو واضح طور پر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟" یہ عجیب بات ہے کہ کلام عجمی زبان میں ہے اور مخاطب عرب لوگ۔ (حم سجدہ 41:44)
قرآن نے دیگر مقامات پر بھی مادری زبان میں تعلیم کا مقصد کچھ اس طرح بیان کیا ہے
وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ۔ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ۔ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ۔
یہ تمام جہانوں کے رب کی نازل کردہ چیز ہے۔ اسے آپ کے دل کی طرف امانت دار روح نے اتارا ہے تاکہ آپ اس سے انہیں خبردار کریں۔ صاف صاف عربی زبان میں۔ (الشعرا 26:192-195)
وكذلك أوحينا إليك قرآناً عربياً لتنذر أم القرى، ومَن حولها ۔
اسی طرح ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم مرکزی شہر اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو خبردار کرو۔ (الشوری42:7 )
اس آیت میں ام القری، یعنی شہروں کی ماں یا مرکزی شہر سے مراد مکہ ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کی قوم کا شہر تھا۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کی اس خصوصی اہمیت کو بیان کیا اور ان کے ساتھ دوسرے عام لوگوں میں کیا جنہیں (اس کتاب کے ذریعے دین اور آخرت سے) خبردار کیا گیا۔ خبردار کرنے کی یہ دعوت عربی زبان میں تھی جو کہ خاص حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قوم کی زبان تھی۔
حم. والكتاب المبين. إنا جعلناه قرآناً عربياً لعلكم تعقلون ۔
قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے یہ عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم {مخاطبین} لوگ اسے سمجھو۔ (الزخرف 43:1-3)
قرآناً عربياً غيرَ ذي عِوَجٍ لعلهم يتقون ۔
ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے تا کہ یہ {اول مخاطبین} ڈرنے والے بنیں۔ (الزمر 39:28 )
انبیاء کا اپنی زبان والوں ہی میں بعثت کی وجہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس اولین مخاطب کی طرف نبی کو بھیجا گیا ہے وہ اللہ کا پیغام درست طریقے سے سمجھ کر اپنے اعمال و کردار کو ایسا بنانے والے بن جائیں تاکہ جب وہ غیر قوم کی طرف دعوت دین کے لئے جائیں تو وہ انکو دیکھ کر متاثر ہوئے بناء نہ رہ سکیں یعنی جس بات کی یہ دعوت دوسروں کو دے رہے ہیں یہ خود بھی اسکو سمجھتےاور اس پر عمل کرتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمی نبی ہونے کی دلیل:-
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ {سورہ سبا آیت 28}
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
تمام انبیاء و رسل میں یہ اعزاز صرف محمد ٌرسول اللہ کے حصے میں آیا کہ آپؐ کو تمام بنی نوع انسانی کی طرف رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔
لہذا ملحدین سے کہتا ہوں سوچو سوچو اور پورا سوچو، سوچنے کے پیسے نہیں لگتے
ملحدین کے اعتراض کا جواب
از طرف اسرار احمد صدیقی
ملحدین کا اعتراض:-
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {سورہ ابراہیم آیت 4}
اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں: اور ہم نے جو بھی پیغمبر بھیجا وہ اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے۔
ملحدین اس آیات کی بناء پر اعتراض کرتے ہیں کہ کیونکہ اس آیت میں کہا گیا ہےکے ہم نے جس قوم میں بھی نبی بھیجا تو انہی کی زبان میں بھیجا اب چونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم عربی دان تھیں تو آپکی نبوت بھی صرف عربوں کے لئے ہے ناکہ ہندوستان پاکستان اور دیگر غیر عربی زبان والوں کے لئے،
ملحدین کے اعتراض کا جواب
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کے ملحدین دماغ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے سوچتے ہیں
یعنی قومی زبان میں رسول کی بعثت کا مقصد اولین مخاطبین کو دین کے متعلق شرعی مسائل و احکام کھول کھول کر بیان کرنا تھا تاکہ جو اولین مخاطبین ہیں کسی ابہام کا شکار نہ رہیں اور وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرلیں تاکے جب وہ آگے لوگوں تک دین پہنچائیں تو انکو خود بھی اس دین کے کسی مسئلے میں کوئی ابھام نہ رہے، کیونکہ جس نے آگے دین پھیلانا ہے اگر غیر زبان ہونے کی وجہ سے اسے ہی دینی احکام سمجھنے میں دشواری پیش آرہی ہے تو وہ آگے لوگوں تک اس دین کو کیسے پہنچا سکتا ہے جبکہ اس نے خود صحیح طور پر دین سمجھا ہی نہیں؟ کیونکہ دین کا مقصد محض ہدایات دینا ہی نہیں ہے بلکہ یہ تو بندے اور خدا کا تعلق قائم کرنے کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ اگر خدا کی کتاب کو اسپرانتو ٹائپ کی کسی زبان میں نازل کر بھی دیا جاتا تو یہ کبھی اپنے مخاطبین میں جوش، جذبہ اور خدا سے تعلق پیدا نہ کر سکتی۔ اس معاملے میں فطری طریقہ یہی ہے کہ اس پیغام کو اولین مخاطبین کی زبان میں نازل کر دیا جائے اور وہ لوگ دوسروں تک یہ پیغام ترجمہ کر کے یا ان لوگوں کو یہ زبان سکھا کر پہنچائیں۔ اسلام کی تاریخ میں یہی فطری اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تورات کو عبرانی، انجیل کو سریانی اور قرآن کو عربی میں نازل کیا گیا کیونکہ یہ ان کے اولین مخاطین کی زبانیں تھیں۔
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت اور موجودہ مفکرین کی رائے:
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو موجودہ دور کے مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں جسکے لئے کچھ لنکس بطور دلیل پیش کر رہا ہوں
مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت
http://niazamana.com/…/why-eduction-is-necessary-in-mother…/
ذریعہ تعلیم مادری زبان ہی کیوں؟
https://blog.jasarat.com/2017/12/11/farooq-tahir-3/
http://dailyazadiquetta.com/2016/03/02/httpwp-mep3wa3i-8dy/
مادری زبان میں تعلیم دیئے بغیر ملکی ترقی ممکن نہیں
https://www.express.pk/story/333897/
زبان اور مادری زبان: ہر ایک کا اپنا ستارہ
http://www.humsub.com.pk/5820/abid-mir-4/
مادری زبان کی اہمیت
http://mazameen.com/misc/society/مادری-زبان-کی-اہمیت.html
لہذا مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت جو قرآن نے بتایا آج کے جدید دور کے مفکرین نے بھی مادری زبان کی تعلیم کی اہمیت کو جان لیا ہے
مادری زبان میں تعلیم نہ دینے کا نقصان
ولو جعلناه أعجمياً لقالوا: لولا فُصِّلت آياته، أعجمي وعربي؟
اگر ہم اس قرآن کو کسی عجمی زبان میں نازل کر دیتے تو یہ لوگ کہتے، "اس کی آیات کو واضح طور پر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟" یہ عجیب بات ہے کہ کلام عجمی زبان میں ہے اور مخاطب عرب لوگ۔ (حم سجدہ 41:44)
قرآن نے دیگر مقامات پر بھی مادری زبان میں تعلیم کا مقصد کچھ اس طرح بیان کیا ہے
وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ۔ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ۔ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ ۔
یہ تمام جہانوں کے رب کی نازل کردہ چیز ہے۔ اسے آپ کے دل کی طرف امانت دار روح نے اتارا ہے تاکہ آپ اس سے انہیں خبردار کریں۔ صاف صاف عربی زبان میں۔ (الشعرا 26:192-195)
وكذلك أوحينا إليك قرآناً عربياً لتنذر أم القرى، ومَن حولها ۔
اسی طرح ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم مرکزی شہر اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں کو خبردار کرو۔ (الشوری42:7 )
اس آیت میں ام القری، یعنی شہروں کی ماں یا مرکزی شہر سے مراد مکہ ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کی قوم کا شہر تھا۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کی اس خصوصی اہمیت کو بیان کیا اور ان کے ساتھ دوسرے عام لوگوں میں کیا جنہیں (اس کتاب کے ذریعے دین اور آخرت سے) خبردار کیا گیا۔ خبردار کرنے کی یہ دعوت عربی زبان میں تھی جو کہ خاص حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی قوم کی زبان تھی۔
حم. والكتاب المبين. إنا جعلناه قرآناً عربياً لعلكم تعقلون ۔
قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے یہ عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم {مخاطبین} لوگ اسے سمجھو۔ (الزخرف 43:1-3)
قرآناً عربياً غيرَ ذي عِوَجٍ لعلهم يتقون ۔
ایسا قرآن جو عربی زبان میں ہے اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے تا کہ یہ {اول مخاطبین} ڈرنے والے بنیں۔ (الزمر 39:28 )
انبیاء کا اپنی زبان والوں ہی میں بعثت کی وجہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس اولین مخاطب کی طرف نبی کو بھیجا گیا ہے وہ اللہ کا پیغام درست طریقے سے سمجھ کر اپنے اعمال و کردار کو ایسا بنانے والے بن جائیں تاکہ جب وہ غیر قوم کی طرف دعوت دین کے لئے جائیں تو وہ انکو دیکھ کر متاثر ہوئے بناء نہ رہ سکیں یعنی جس بات کی یہ دعوت دوسروں کو دے رہے ہیں یہ خود بھی اسکو سمجھتےاور اس پر عمل کرتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمی نبی ہونے کی دلیل:-
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ {سورہ سبا آیت 28}
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
تمام انبیاء و رسل میں یہ اعزاز صرف محمد ٌرسول اللہ کے حصے میں آیا کہ آپؐ کو تمام بنی نوع انسانی کی طرف رسولؐ بنا کر بھیجا گیا۔
لہذا ملحدین سے کہتا ہوں سوچو سوچو اور پورا سوچو، سوچنے کے پیسے نہیں لگتے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔