کیا قرآن کا واقعہ نوح علیہ السلام اور طوفان نوح بابل کی قدیم تہذیب اور بائیبل سے لیا گیا ہے؟قرآن پر ملحدین و مستشرقین کے ایک سنگین اعتراض کا جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
مستشرقین و ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دنیاوی عمر یہودی و عیسائی بائبل سے مستعار لی گئی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کا یہ کشتی نوح والاواقعہ یہودی بائبل میں قدیم سمیری یعنی تہذیب بابل کی ایک نظم "رزمیہ گلگامش" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اسمیں اور ابراہیمی ادیان (یہودیت، عیسائیت، اسلام) والے طوفان نوح میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے نیز ابراہیمی ادیان کے علاوہ دیگر قدیم مذاہب، تہذیبوں، علاقوں میں بھی طوفان نوح اور کشتی نوح سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں نعوذ بااللہ۔یہ بات ایک انتہائ اہم حقیقت سے نابلد ہونے کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔اگر کوئ حقیقت عالمگیر ہو تو اس کا بیان بھی عالمگیر ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں کر لیتے ہیں لوگ۔یہی کچھ واقعہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب نسل انسانی میں سے صرف چند انسان اس طوفان سے محفوظ رہے تو انہوں نے یہ کہانی اپنی اولادوں کو سنائ۔اس طرح ان کی نسل جیسے جیسے پوری دنیا میں پھیلی یہ کہانی بھی ان نسلوں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے تبدیلی کر لی لیکن ان سب واقعات میں ہمیں ایک مشابہت ملتی ہے۔ایک بہت بڑے عالمی سیلاب کی کہانی جس میں خدا سزا کے طور پر ایک تہذیب کو سیلاب سے تباہ کر دیتا ہے،ہمیں دنیا کی اکثر تہذیبوں میں ملتی ہے۔یہ کہانی کچھ فرق کے ساتھ مغربی ایشیا،یورپ ،افریقہ،یہاں تک کہ یورپ اور قدیم براعظم امریکہ کی تہذیبوں میں بھی ہمیں ملتی ہے۔یہ کہانی پتھر کے زمانے یا Neolithic periodکے آثار میں بھی ماہرین آثار قدیمہ کو ملی ہے جس کا عرصہ 10200 سے 4500 یا 2000 قبل مسیح تک کا ہے۔مزید برآں اس طرح کی کہانی ہمیں کانسی کے زمانے یعنی 3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح کے زمانے کے آثار قدیمہ میں بھی ملتی ہے۔
ایک عظیم سیلاب کی کہانی ہمیں افلاطون کی بک lll, تائیمیس..Timaeus اور کریٹاس...Critias... میں بھی ملتی ہے۔
اس طرح کی ایک کہانی ہمیں 1600 اور 2100_2000قبل مسیح کی سمیری یا قدیم بابلی زبان میں لکھی گئی تختیوں میں بھی ملتی ہے۔ماہرین کے مطابق خود رزم گلگامش بابل نے قدیم سمیری تحریر سے اخذ کی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ و یورپ میں مقیم لوگوں نے بھی یہ کہانی بابل سے لی تو ایک صاحب دانش انسان اس کو کیسے قبول کرے گا جب کہ بابل کی واقعہ نوح کے بیان کی تاریخ محض تین سے پانچ ہزار سال پرانی ہے جب کہ امریکہ میں آبنائے بیرنگ کے راستے سے انسان آج سے دس سے پندرہ ہزار سال پہلے پہنچ چکے تھے۔اس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں قوم و مذہب نے یہ کہانی فلاں قوم سے لی۔یہ سب کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ نوح علیہ السلام کے نام سے موجود ایک انسان حقیقی طور پر زمین پر موجود تھے اور یہ واقعہ ایک ہی ماخذ سے لیا گیا ہے یعنی ان لوگوں سے جو نوح علیہ السلام پر ایمان لائے اور اس کے عینی شاہد تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق نوح علیہ السلام بابل کے قدیم بادشاہوں میں سے تھے جن کا زمانہ آج سے 18 ہزار سے 65 ہزار سال پہلے تھا جب کہ کچھ لوگ اور عرصہ بتلاتے ہیں۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوحؑ ؑکی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آ رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی بنا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر، ہندوستان کی ہندو تہذیب اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھا دیا۔
اور اگر یہ محض ایک علاقائی طوفان کا بیان ہے تو یہ کہانی انسانیت کی تمام بڑی نسلوں میں کچھ فرق کے ساتھ کیوں پائ جاتی ہے۔اگر کوئ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ باقی انبیاء کی اقوام کو بھی طوفان کی سزا ملی ہو تو وہ اندازے لگانے کی بجائے اس کا ثبوت پیش کرے۔
کچھ مسلمان اور اکثر منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ طوفان علاقائی تھاکیا منکرین حدیث قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہا ہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ منکرین حدیث اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو پرویزی یعنی نام نہاد قرآنسٹ اور حقیقت میں منکرین حدیث مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
(مہوش علی mohaddisforum.com)
اگر طوفان نوح مقامی تھا تو سب جانداروں کے جوڑے کیوں سوار کیے گئے نسل مٹنے سے بچانے کے لیے کیوں کہ جاندار تو پوری زمین پر جاندار تو اور جگہ بھی تھے۔اور ایک کشتی بنانے کی کیا ضرورت تھی اگر طوفان نوح مقامی تھا۔اور حضرت نوح علیہ السلام باقی انبیاء کی طرح عذاب والے علاقے سے ہجرت کر جاتے اگر یہ طوفان محض مقامی تھا۔اور نوح علیہ السلام نے قرآن کے مطابق یہ کہا کہ یا اللٰہ تعالٰی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑ۔اس کا مطلب ہے کہ پوری زمیں پر تھا۔صرف اسی انسان اگر بچے جو ایمان لائے تو ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ اس زمانے میں انسان صرف موجودہ عراق کے علاقے میں آباد تھے جہاں نوح علیہ السلام نے تبلیغ کی اور زمین پر کوئ انسان نہیں تھا۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Sumerian_creation_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Gilgamesh_flood_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Genesis_flood_narrative
https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ancient_Greek_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Noah_in_Islam
http://www.inzaar.org/2015-سوال-و-جواب-جولائی-abu-yahya-ابویحییٰ/
(طوفان نوح کے سائنسی شواہد پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں کروں گا)
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
مستشرقین و ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دنیاوی عمر یہودی و عیسائی بائبل سے مستعار لی گئی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کا یہ کشتی نوح والاواقعہ یہودی بائبل میں قدیم سمیری یعنی تہذیب بابل کی ایک نظم "رزمیہ گلگامش" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اسمیں اور ابراہیمی ادیان (یہودیت، عیسائیت، اسلام) والے طوفان نوح میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے نیز ابراہیمی ادیان کے علاوہ دیگر قدیم مذاہب، تہذیبوں، علاقوں میں بھی طوفان نوح اور کشتی نوح سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں نعوذ بااللہ۔یہ بات ایک انتہائ اہم حقیقت سے نابلد ہونے کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔اگر کوئ حقیقت عالمگیر ہو تو اس کا بیان بھی عالمگیر ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں کر لیتے ہیں لوگ۔یہی کچھ واقعہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب نسل انسانی میں سے صرف چند انسان اس طوفان سے محفوظ رہے تو انہوں نے یہ کہانی اپنی اولادوں کو سنائ۔اس طرح ان کی نسل جیسے جیسے پوری دنیا میں پھیلی یہ کہانی بھی ان نسلوں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے تبدیلی کر لی لیکن ان سب واقعات میں ہمیں ایک مشابہت ملتی ہے۔ایک بہت بڑے عالمی سیلاب کی کہانی جس میں خدا سزا کے طور پر ایک تہذیب کو سیلاب سے تباہ کر دیتا ہے،ہمیں دنیا کی اکثر تہذیبوں میں ملتی ہے۔یہ کہانی کچھ فرق کے ساتھ مغربی ایشیا،یورپ ،افریقہ،یہاں تک کہ یورپ اور قدیم براعظم امریکہ کی تہذیبوں میں بھی ہمیں ملتی ہے۔یہ کہانی پتھر کے زمانے یا Neolithic periodکے آثار میں بھی ماہرین آثار قدیمہ کو ملی ہے جس کا عرصہ 10200 سے 4500 یا 2000 قبل مسیح تک کا ہے۔مزید برآں اس طرح کی کہانی ہمیں کانسی کے زمانے یعنی 3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح کے زمانے کے آثار قدیمہ میں بھی ملتی ہے۔
ایک عظیم سیلاب کی کہانی ہمیں افلاطون کی بک lll, تائیمیس..Timaeus اور کریٹاس...Critias... میں بھی ملتی ہے۔
اس طرح کی ایک کہانی ہمیں 1600 اور 2100_2000قبل مسیح کی سمیری یا قدیم بابلی زبان میں لکھی گئی تختیوں میں بھی ملتی ہے۔ماہرین کے مطابق خود رزم گلگامش بابل نے قدیم سمیری تحریر سے اخذ کی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ و یورپ میں مقیم لوگوں نے بھی یہ کہانی بابل سے لی تو ایک صاحب دانش انسان اس کو کیسے قبول کرے گا جب کہ بابل کی واقعہ نوح کے بیان کی تاریخ محض تین سے پانچ ہزار سال پرانی ہے جب کہ امریکہ میں آبنائے بیرنگ کے راستے سے انسان آج سے دس سے پندرہ ہزار سال پہلے پہنچ چکے تھے۔اس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں قوم و مذہب نے یہ کہانی فلاں قوم سے لی۔یہ سب کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ نوح علیہ السلام کے نام سے موجود ایک انسان حقیقی طور پر زمین پر موجود تھے اور یہ واقعہ ایک ہی ماخذ سے لیا گیا ہے یعنی ان لوگوں سے جو نوح علیہ السلام پر ایمان لائے اور اس کے عینی شاہد تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق نوح علیہ السلام بابل کے قدیم بادشاہوں میں سے تھے جن کا زمانہ آج سے 18 ہزار سے 65 ہزار سال پہلے تھا جب کہ کچھ لوگ اور عرصہ بتلاتے ہیں۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوحؑ ؑکی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آ رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی بنا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر، ہندوستان کی ہندو تہذیب اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھا دیا۔
اور اگر یہ محض ایک علاقائی طوفان کا بیان ہے تو یہ کہانی انسانیت کی تمام بڑی نسلوں میں کچھ فرق کے ساتھ کیوں پائ جاتی ہے۔اگر کوئ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ باقی انبیاء کی اقوام کو بھی طوفان کی سزا ملی ہو تو وہ اندازے لگانے کی بجائے اس کا ثبوت پیش کرے۔
کچھ مسلمان اور اکثر منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ طوفان علاقائی تھاکیا منکرین حدیث قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہا ہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ منکرین حدیث اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو پرویزی یعنی نام نہاد قرآنسٹ اور حقیقت میں منکرین حدیث مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
(مہوش علی mohaddisforum.com)
اگر طوفان نوح مقامی تھا تو سب جانداروں کے جوڑے کیوں سوار کیے گئے نسل مٹنے سے بچانے کے لیے کیوں کہ جاندار تو پوری زمین پر جاندار تو اور جگہ بھی تھے۔اور ایک کشتی بنانے کی کیا ضرورت تھی اگر طوفان نوح مقامی تھا۔اور حضرت نوح علیہ السلام باقی انبیاء کی طرح عذاب والے علاقے سے ہجرت کر جاتے اگر یہ طوفان محض مقامی تھا۔اور نوح علیہ السلام نے قرآن کے مطابق یہ کہا کہ یا اللٰہ تعالٰی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑ۔اس کا مطلب ہے کہ پوری زمیں پر تھا۔صرف اسی انسان اگر بچے جو ایمان لائے تو ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ اس زمانے میں انسان صرف موجودہ عراق کے علاقے میں آباد تھے جہاں نوح علیہ السلام نے تبلیغ کی اور زمین پر کوئ انسان نہیں تھا۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Sumerian_creation_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Gilgamesh_flood_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Genesis_flood_narrative
https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ancient_Greek_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Noah_in_Islam
http://www.inzaar.org/2015-سوال-و-جواب-جولائی-abu-yahya-ابویحییٰ/
(طوفان نوح کے سائنسی شواہد پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں کروں گا)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔