Thursday 18 October 2018

ارتقا کا دھوکا قسط نمبر دوم تحریر۔۔۔ ہارون یحییٰ

ارتقا کا دھوکا
قسط نمبر دوم
تحریر۔۔۔ ہارون یحییٰ
====================================
وہ اتفاق کی کڑیاں جن کے اوپر یہ ممتاز پروفیسران یقین رکھتے ہیں اسقدر غیر منطقی دلیلیں ہیں کہ جن کو سن کر دوسرے لوگ حیرت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان پروفیسران کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ سادہ کیمیائی اجزاءکے ملنے سے نامیات وجود میں آئے۔ یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ الفاظ خود بہ خود کہیں سے جمع ہوکر ایک نظم کی شکل اختیار کرگئے۔ پھر پے در پے دوسرے اتفاقات سے دوسرے نامیات وجود میں آئے۔ یہ تمام نامیات اس طرح منظم طریقے سے ملتے گئے کہ انہوں نے کروموسوم، رائیبونیوکلیک ایسڈ، خامرہ، ہارمون اور خلیوں جیسی پیچیدہ اشکال اختےار کر لےں۔ ان پیچیدہ اشکال نے مزید اندھے اور معجزاتی اتفاقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خلیئے کو تشکیل کردیا۔ یہ اندھا اتفاق یہاں پر نہیں رکا بلکہ یہ خلیئے پھر خود بہ خود ہی ضرب ہوتے ہوتے پہلے جاندار کی شکل اختیار کرگئے۔ اس ایک جاندار کی صرف ایک آنکھ کے وجو میں آنے کے لئے کروڑوں ناممکن واقعات کا پیش آنا لازمی تھا۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہاں پر بھی اندھے اتفاقات کا پورا پورا ہاتھ ہے مثلاََ اس ایک آنکھ کا سر کے چوکھٹے میں مناسب جگہ پر فٹ ہونا اور پھر کھوپڑی میں دو صحیح پیمائش کے سوراخوں کی موجودگی جس میں آنکھیں بہترین طریقے سماجائیں وغےرہ وغےرو۔ ےہ تمام اندھے اتفاقات تھک سکتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جانداروں سے متعلق کسی حوصلہ افزا وجوہات کو پیش نہیں کرسکتے۔

اتفاقات صرف ان چیزوں کو بنانے میں پیش آسکتے ہیں جن کے بارے میں وہ جواب دہ ہوں۔ اتفاق کو کیسے پتہ تھا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا اور سانس لینا کیا ہوتا ہے جب کہ اس وقت زمین پر کوئی جاندار ان حرکات کے عملی ثبوت کے طور پر موجود ہی نہیں تھا؟لےکن اتفاق نے روئے زمین پر کسی جاندار کے نہ ہونے کے باوجودزندگی کے بارے میں مکمل علم اور دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جانداروں کے متعلق ہر عمل اور قدم کو نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھایا۔ یہ ساری دلیلیں اور جانداروں کے متعلق منظر کشی مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ اس منظر کشی میں نامور اساتذہ، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ناموں کا شامل ہونا ان کی عزت کو گھٹادیتا ہے جوکہ ایک بچکانہ ضد کی طرح ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ان کی رام کہانیوں پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں اور الٹا ان ہی لوگوں پر غیر سائنسی اور متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے درمیان اور ان کٹر، شدت پسند اور جاہل قرونِ وسطیٰ ذہنیت رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو اپنے دور میں لوگوں کو صرف اس لئے سزا کا مستحق ٹھہراتے تھے کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ مزےد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءپر یقین رکھنے والے لاتعداد لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ پر یقین کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ’ اﷲ نے تمام زندگی تخلیق کی ہے‘

ایک غیر سائنسی فقرہ ہے اور اس کے برعکس وہ اس بات پر زیادہ آسانی سے یقین کرلیتے ہیں کہ جاندار نسلیں ہوش و حواس سے بیگانہ ایک ایسے طریقے کار سے وجود میں آئیں جوکہ کروڑوں اندھے اتفاقات کا مرکز ہے۔ ےہ دوسری صورتحال ان کے نزدیک زیادہ سائنسی اور جدید ہے۔اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک لکڑی کا بت رکھ دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس بت نے کمرے میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا ہے تو وہ اس بات کو صریحاً فضول قراردیتے ہوئے اس پر یقین کرنے سے مطلق انکار کردیں گے ۔لیکن افسوس کہ یہ لوگ اس دعوے کو ایک زبردست سائنسی جواز سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں جاندار نسلیں جو کہ شاندار اور غیر معمولی نقشوں کا نشان دیتی ہیں وہ دراصل اتفاق جیسے بے شعور عمل کا نتیجہ ہیں۔

یہ لوگ اتفاق کو خد اکا درجہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشمند ‘ باشعور اور اتنا طاقتور واقعہ ہے کہ یہ کائنات کے نازک توازن اور اس میں موجود ہر جاندار کو وجود میں لانے کا اہل ہے۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ دراصل اﷲ نے اپنی وسعت ِعلم و فراست، طاقت اور مرضی سے تمام کائنات اور اس میں موجود جانداروں کو پیدا کیا ہے تو یہ ارتقائی پروفیسران اس حقیقت کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ بے شعور، بے عقل اور بے جان اتفاقات ہی اس کائنات اور جانداروں کے پےچھے تخلیقی طاقت ہیں۔ ان پڑھے لکھے ٬ ہوشمند اور عقلمند لوگوں کا اس طرح کے غیر منطقی دعوے کرنا ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح ایک خلیہ سے پیدا ہوا جاندار اﷲ کا معجزہ ہے اسی طرح ان لوگوں کا اس معجزے سے ہٹ دھرم انہراف بھی ایک طرح کا معجزہ ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی شان ہے کہ جس بات کو چھوٹے چھوٹے بچے بھی درست ماننے سے انکار کردیں اور مذاق میں اڑادیں اس کو ارتقائی پیروکار ایک دین اور خدائی کا درجہ دینے پر مصر ہیں۔یہ کتاب اس معجزے سے پردے اٹھانے کی کاوش ہے۔یہ نظریہ¿ ارتقاءکو اس کی اصلیت میں پیش کرتی ہے اور وہ اصلیت یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات کی رو میں یہ نظریہ¿ مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا ہے۔ نظریہ ڈارون ایک عظیم دھوکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کی منطق اور جواز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو اپنے تمام ہٹ دھرم حمایتیوں کو بے عزت کردیتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔