طوفان نوح پر ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات (قسط نمبر ایک)
طوفان نوح کی سائنسی وضاحت
ملحدین کے پیشوا ارشد محمود اور دانیال تیموری کو جواب
ترتیب و تحریر۔۔۔ احید حسن
************************************************
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
قرآن پاک کا متن بالکل واضح ہے کہ یہ پوری دنیا طوفان سے آنے والے سیلاب میں ڈوب گئی تھی، اور دنیا میں کوئی انسان اور کوئی جانور زندہ نہیں بچا تھا سوائے ان انسانوں اور جانوروں کے جو کہ کشتی میں سوار تھے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
سورۃ الشعراء، آیت 119 اور 120:
پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی. پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا۔
(سورۃ ہود، آیات 40 اور 41):
یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے ابلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جانور میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو)
سورۃ یونس، آیت 73:
انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
(سورۃ الصافات، آیات 75 تا 82) : اور بیشک ہمیں نوح نے پکارا تو ہم کتنے اچھے فریاد رَس ہیں۔ اور ہم نے اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو سخت تکلیف سے بچا لیا۔ اور ہم نے فقط اُن ہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔ اور پیچھے آنے والوں (یعنی انبیاء و اُمم) میں ہم نے ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں۔ بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کردیا۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر القرآن (7/22) میں لکھتے ہیں: "علی ابن ابی طلحہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ: سوائے نوح کی نسل کے اور کوئی باقی نہ بچا۔ اور قتادہ نے بھی یہی بیان دیا ہے کہ آج تمام لوگ صرف نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔"
۔۔۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے نقل کیا ہے: " اور نوح علیہ السلام کے ساتھ جتنے مسلمان سوار تھے، اللہ نے ان میں سے کسی کی نسل کو بھی آگے نہیں بڑھایا اور صرف نوح کی نسل آگے بڑھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ (اور اس (نوح) کی نسل کو ہم نے بچا لیا۔ سورۃ الصافات 77)۔
چنانچہ روئے زمین پر آج جتنے بھی انسان بس رہے ہیں، وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث کی نسل سے ہیں۔"
بہت سی آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کسی خاص علاقے کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری زمین پر رونماہوا تھا کیونکہ لفظ ”ارض“ (زمین) مطلق طور پر آیا ہے:
رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا
خداوندا! روئے زمین پر ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دے کہ جن کے بارے میں اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے ۔ (نوح: ۲۶)
اسی طرح ہود کی آیہ ۴۴ میں یوں ہے:
وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ۔۔۔۔
اے زمین اپنا پانی نگل لے
بہت سی تواریخ سے بھی طوفان نوح کے عالمگیر ہونے کی خبر ملتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ تمام نسلیں حضرت نوح (علیه السلام)کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولادمیں سے ہیں جو کہ زندہ رہے تھے ۔
طبیعی تاریخ میں سیلابی بارشوں کے نام سے ایک دور کا پتہ چلتا ہے، اس دور کو اگر لازمی طورپر جانداروں کی پیدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھے تو وہ بھی طوفان نوح پر منطبق ہوسکتا ہے ۔
جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) کوفہ میں رہتے تھے دوسری طرف بعض روایات کے مطابق طوفان مکہ اور خانہ کعبہ تک پھیلا ہوا تھا تو یہ صورت بھی اس بات کی موید ہے کہ طوفان عالمگیر تھا۔
سیلاب کا مقصد نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق زمین کے تمام کفار کا خاتمہ تھا لہذا یہ سیلاب عالمی تھا۔اگر یہ مقامی تھا تو زمین کے اور مقامات کے کفار یا نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ بھاگ کر کہیں اور جان بچا لیتے۔مزید برآں کشتی نوح کی اتنی بڑی جسامت جس پر زمین کے سب جانداروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرنا ہو،ایک مقامی طوفان کی بجائے ایک عالمی طوفان کے لیے ہی ہوگی۔کشتی کا مقصد مستقبل میں جانوروں کی بڑھوتری اور حوا کے لیے کچھ جانور محفوظ کرنا تھا،یہ تب ہی ممکن ہے جب سیلاب پوری دنیا میں ہو۔یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پوری زمین کے جانور نوح علیہ السلام کے علاقے یعنی قدیم میسوپوٹیمیا اور موجودہ عراق میں تھے جن کو بچانے کے لیے انہیں کشتی پر سوار کیا گیا۔اگر سیلاب مقامی تھا تو جانوروں کو کشتی پر سوار کرنے کی بجائے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جا سکتا تھا۔اگر یہ سیلاب مقامی تھا تو نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والے بجائے ایک کشتی پر سوار ہونے کے کسی محفوظ علاقے کی طرف ہجرت کر سکتے تھے جیسا کہ باقی انبیاء کو عذاب سے پہلے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے علاقہ چھوڑ دینے کا حکم ہوتا تھا۔پھر کیوں کئ سالوں کی محنت سے یہ کشتی تعمیر کرائ گئ۔یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سیلاب مقامی نہیں بلکہ عالمی تھا۔
دنیا کے کئ علاقوں کے لوگوں میں ایک عالمی سیلاب کی کہانی ہزاروں سال سے نسل در نسل چلی آرہی ہے جو کہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہوا تھا۔جدید علم آثار قدیمہ یا آرکیالوجی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تہذیب کی ابتدا کوہ اراراط اور بابل یعنی موجودہ عراق کے آس پاس ہوئ۔یورپ کے کئ بادشاہوں کی نسل نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث سے ملتی ہے۔انسانی آبادی میں اضافے کے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آج سے پانچ سے سات ہزار سال قبل انسانی نسل مٹنے کے دہانے پر آگئ تھی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کچھ انسانوں یعنی نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے سوا سارے انسان فنا ہوگئے تھے۔
تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ ارضیاتی رسوب کی تہیں یا Sediment beds میں کوئ تغلیظی شکستگی یا Compression fracture نہیں ہے جس کا مطلب ہے یہ تب اپنی شکل میں آئیں جب یہ نرم اور گیلی تھیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ بالکل ممکن ہے۔
مختلف ارضیاتی عرصوں یا جیالوجیکل ایجز کی چٹانوں کی طبعی خصوصیات ایک جیسی ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک عالمی وقوعے جیسا کہ ایک عالمی سیلاب سے ہوئ۔رسوبی چٹانیں کم عرصے میں بنی جو کہ ایک عالمی سیلاب سے بالکل ممکن ہے۔
ہر طرح چٹانیں تمام ارضیاتی عرصوں میں پائ جاتی ہیں جو کہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ عالمی سطح پر اکٹھے بنی اور ان کا اکٹھے تشکیل پانا ایک عالمی سیلاب میں رسوبی امتزاج سے ہوسکتا ہے۔
زمینی چٹانوں کے اشعاع پیمایانہ عرصوں یا Radiometric ages اور رکازی عرصوں یا Palaoentological ages میں ٹھیک تعلق نہیں پایا جاتا جو کہ ایک عالمی طوفان سے ممکن ہے۔
زمین کے کئ مقامات پر فوسل یا رکاز کی مجموعی اور کثیر تعداد میں موجودگی ان جانوروں کے ایک عالمی آفت میں اکٹھے ہلاک ہونے کی دلالت کر سکتی ہے۔
سمندری فوسل بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی پائے گئے ہیں جس کا واضح مطلب ایک عالمی سیلاب کے ذریعے ان جانوروں کا وہاں پہنچنا ہے۔
مختلف عرصوں کے رکاز یا فوسل یعنی ماضی کے مردہ جانوروں کے آثار اکثر اکٹھے ملتے ہیں جس کی وجہ ایک عالمی سیلاب ہو سکتا ہے۔
کئ تہوں میں پائے جانے والے فوسل یا رکاز جو کہ پوری زمین پر پائے جاتے ہیں،ایک عالمی واقعے جیسا کہ سیلاب کی وجہ سے بے ہنگم مدفن کو ظاہر کرتے ہیں۔یہ تب بھی بن سکتے ہیں جب آب زدہ لکڑی پانی کے بہت بڑے ذخیرے میں ڈوبتی ہے جو کہ ایک عالمی سیلاب سے ممکن ہے۔
ارضیاتی کالم سے شہابیے غیر موجود ہیں۔اگر یہ ہر سال زمین پر بہت تعداد میں گریں تو یہ سب رسوبی چٹانوں میں موجود ہوں جب کہ کچھ چٹانوں میں ان کی غیر موجودگی کا مطلب کسی چٹانی سطح کا ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ایک ہی وقت میں بنیاد پانا ہوسکتا ہے۔
کچھ صحرائی علاقوں میں جدید آبی ذخائر کی موجودگی ایک عالمی سیلاب کی علامت ہوسکتی ہے جہاں سے پانی ابھی مکمل طور پر خشک نہیں ہوا۔
پوری دنیا میں پہاڑوں پر بلندی تک موجود پانی کے نشانات ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
آبی شہادت یا Hydrological Evidenceرسوبی چٹانوں کی تیزی سے بنیاد پزیری کو ظاہر کرتی ہے۔لہذا یہ تیزی سے بنیاد پزیری ان کی ایک عالمی سیلاب سے بنیاد کو ظاہر کر سکتی ہے۔
آبی تجربات یا Hydrological Experiments کہ بہتے ہوئے رسوب خود بخود مختلف تہوں میں بیٹھ جاتے ہیں لہذا ان چٹانی سطحوں کی وضاحت ایک عالمی سیلاب سے آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
پوری دنیا میں سیلابی مٹی کے گہرے مجموعے اور رسوبی چٹانیں ایک عالمی سیلاب کے عین مطابق ہیں۔
زمین میں کہیں بھی پورا ارضیاتی کالم ایک واحد ساخت کے طور پر ملنا ناممکن ہے بلکہ یہ ٹکڑوں میں ملتا ہے جس کے کئ ٹکڑے مسنگ ہوتے ہیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ عین ممکن ہے۔
درج بالا مذہبی،منطقی و سائنسی دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پر ایک عالمی سیلاب کسی طرح بھی منطق اور عقل کے خلاف نہیں۔اس طرح ملحدین کا قرآن پاک و مذاہب پر اعتراض درحقیقت سائنسی شواہد و امکانات کو جھٹلانے کی کوشش ہے۔ملحدین جس سائنس سے طوفان نوح اور دیگر مذہبی احکامات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں،بعد میں وہی سائنس انہی احکامات و واقعات کو ممکن مانتی ہے۔درج بالا سائنسی شواہد طوفان نوح کو سائنسی طور پر بالکل ممکن ثابت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
حوالہ جات۔۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Flood_geology
www.islamqa.com
http://unmaskingevolution.com/18-flood.htm
ملحدین کے پیشوا ارشد محمود اور دانیال تیموری کو جواب
ترتیب و تحریر۔۔۔ احید حسن
************************************************
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
قرآن پاک کا متن بالکل واضح ہے کہ یہ پوری دنیا طوفان سے آنے والے سیلاب میں ڈوب گئی تھی، اور دنیا میں کوئی انسان اور کوئی جانور زندہ نہیں بچا تھا سوائے ان انسانوں اور جانوروں کے جو کہ کشتی میں سوار تھے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
سورۃ الشعراء، آیت 119 اور 120:
پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی. پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا۔
(سورۃ ہود، آیات 40 اور 41):
یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے ابلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جانور میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو)
سورۃ یونس، آیت 73:
انہوں نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
(سورۃ الصافات، آیات 75 تا 82) : اور بیشک ہمیں نوح نے پکارا تو ہم کتنے اچھے فریاد رَس ہیں۔ اور ہم نے اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو سخت تکلیف سے بچا لیا۔ اور ہم نے فقط اُن ہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔ اور پیچھے آنے والوں (یعنی انبیاء و اُمم) میں ہم نے ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں۔ بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کردیا۔
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر القرآن (7/22) میں لکھتے ہیں: "علی ابن ابی طلحہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ: سوائے نوح کی نسل کے اور کوئی باقی نہ بچا۔ اور قتادہ نے بھی یہی بیان دیا ہے کہ آج تمام لوگ صرف نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔"
۔۔۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے نقل کیا ہے: " اور نوح علیہ السلام کے ساتھ جتنے مسلمان سوار تھے، اللہ نے ان میں سے کسی کی نسل کو بھی آگے نہیں بڑھایا اور صرف نوح کی نسل آگے بڑھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ (اور اس (نوح) کی نسل کو ہم نے بچا لیا۔ سورۃ الصافات 77)۔
چنانچہ روئے زمین پر آج جتنے بھی انسان بس رہے ہیں، وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث کی نسل سے ہیں۔"
بہت سی آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کسی خاص علاقے کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری زمین پر رونماہوا تھا کیونکہ لفظ ”ارض“ (زمین) مطلق طور پر آیا ہے:
رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا
خداوندا! روئے زمین پر ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دے کہ جن کے بارے میں اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے ۔ (نوح: ۲۶)
اسی طرح ہود کی آیہ ۴۴ میں یوں ہے:
وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ۔۔۔۔
اے زمین اپنا پانی نگل لے
بہت سی تواریخ سے بھی طوفان نوح کے عالمگیر ہونے کی خبر ملتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ تمام نسلیں حضرت نوح (علیه السلام)کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولادمیں سے ہیں جو کہ زندہ رہے تھے ۔
طبیعی تاریخ میں سیلابی بارشوں کے نام سے ایک دور کا پتہ چلتا ہے، اس دور کو اگر لازمی طورپر جانداروں کی پیدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھے تو وہ بھی طوفان نوح پر منطبق ہوسکتا ہے ۔
جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) کوفہ میں رہتے تھے دوسری طرف بعض روایات کے مطابق طوفان مکہ اور خانہ کعبہ تک پھیلا ہوا تھا تو یہ صورت بھی اس بات کی موید ہے کہ طوفان عالمگیر تھا۔
سیلاب کا مقصد نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق زمین کے تمام کفار کا خاتمہ تھا لہذا یہ سیلاب عالمی تھا۔اگر یہ مقامی تھا تو زمین کے اور مقامات کے کفار یا نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ بھاگ کر کہیں اور جان بچا لیتے۔مزید برآں کشتی نوح کی اتنی بڑی جسامت جس پر زمین کے سب جانداروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرنا ہو،ایک مقامی طوفان کی بجائے ایک عالمی طوفان کے لیے ہی ہوگی۔کشتی کا مقصد مستقبل میں جانوروں کی بڑھوتری اور حوا کے لیے کچھ جانور محفوظ کرنا تھا،یہ تب ہی ممکن ہے جب سیلاب پوری دنیا میں ہو۔یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پوری زمین کے جانور نوح علیہ السلام کے علاقے یعنی قدیم میسوپوٹیمیا اور موجودہ عراق میں تھے جن کو بچانے کے لیے انہیں کشتی پر سوار کیا گیا۔اگر سیلاب مقامی تھا تو جانوروں کو کشتی پر سوار کرنے کی بجائے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جا سکتا تھا۔اگر یہ سیلاب مقامی تھا تو نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والے بجائے ایک کشتی پر سوار ہونے کے کسی محفوظ علاقے کی طرف ہجرت کر سکتے تھے جیسا کہ باقی انبیاء کو عذاب سے پہلے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے علاقہ چھوڑ دینے کا حکم ہوتا تھا۔پھر کیوں کئ سالوں کی محنت سے یہ کشتی تعمیر کرائ گئ۔یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سیلاب مقامی نہیں بلکہ عالمی تھا۔
دنیا کے کئ علاقوں کے لوگوں میں ایک عالمی سیلاب کی کہانی ہزاروں سال سے نسل در نسل چلی آرہی ہے جو کہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہوا تھا۔جدید علم آثار قدیمہ یا آرکیالوجی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تہذیب کی ابتدا کوہ اراراط اور بابل یعنی موجودہ عراق کے آس پاس ہوئ۔یورپ کے کئ بادشاہوں کی نسل نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث سے ملتی ہے۔انسانی آبادی میں اضافے کے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آج سے پانچ سے سات ہزار سال قبل انسانی نسل مٹنے کے دہانے پر آگئ تھی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کچھ انسانوں یعنی نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے سوا سارے انسان فنا ہوگئے تھے۔
تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ ارضیاتی رسوب کی تہیں یا Sediment beds میں کوئ تغلیظی شکستگی یا Compression fracture نہیں ہے جس کا مطلب ہے یہ تب اپنی شکل میں آئیں جب یہ نرم اور گیلی تھیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ بالکل ممکن ہے۔
مختلف ارضیاتی عرصوں یا جیالوجیکل ایجز کی چٹانوں کی طبعی خصوصیات ایک جیسی ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک عالمی وقوعے جیسا کہ ایک عالمی سیلاب سے ہوئ۔رسوبی چٹانیں کم عرصے میں بنی جو کہ ایک عالمی سیلاب سے بالکل ممکن ہے۔
ہر طرح چٹانیں تمام ارضیاتی عرصوں میں پائ جاتی ہیں جو کہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ عالمی سطح پر اکٹھے بنی اور ان کا اکٹھے تشکیل پانا ایک عالمی سیلاب میں رسوبی امتزاج سے ہوسکتا ہے۔
زمینی چٹانوں کے اشعاع پیمایانہ عرصوں یا Radiometric ages اور رکازی عرصوں یا Palaoentological ages میں ٹھیک تعلق نہیں پایا جاتا جو کہ ایک عالمی طوفان سے ممکن ہے۔
زمین کے کئ مقامات پر فوسل یا رکاز کی مجموعی اور کثیر تعداد میں موجودگی ان جانوروں کے ایک عالمی آفت میں اکٹھے ہلاک ہونے کی دلالت کر سکتی ہے۔
سمندری فوسل بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی پائے گئے ہیں جس کا واضح مطلب ایک عالمی سیلاب کے ذریعے ان جانوروں کا وہاں پہنچنا ہے۔
مختلف عرصوں کے رکاز یا فوسل یعنی ماضی کے مردہ جانوروں کے آثار اکثر اکٹھے ملتے ہیں جس کی وجہ ایک عالمی سیلاب ہو سکتا ہے۔
کئ تہوں میں پائے جانے والے فوسل یا رکاز جو کہ پوری زمین پر پائے جاتے ہیں،ایک عالمی واقعے جیسا کہ سیلاب کی وجہ سے بے ہنگم مدفن کو ظاہر کرتے ہیں۔یہ تب بھی بن سکتے ہیں جب آب زدہ لکڑی پانی کے بہت بڑے ذخیرے میں ڈوبتی ہے جو کہ ایک عالمی سیلاب سے ممکن ہے۔
ارضیاتی کالم سے شہابیے غیر موجود ہیں۔اگر یہ ہر سال زمین پر بہت تعداد میں گریں تو یہ سب رسوبی چٹانوں میں موجود ہوں جب کہ کچھ چٹانوں میں ان کی غیر موجودگی کا مطلب کسی چٹانی سطح کا ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ایک ہی وقت میں بنیاد پانا ہوسکتا ہے۔
کچھ صحرائی علاقوں میں جدید آبی ذخائر کی موجودگی ایک عالمی سیلاب کی علامت ہوسکتی ہے جہاں سے پانی ابھی مکمل طور پر خشک نہیں ہوا۔
پوری دنیا میں پہاڑوں پر بلندی تک موجود پانی کے نشانات ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
آبی شہادت یا Hydrological Evidenceرسوبی چٹانوں کی تیزی سے بنیاد پزیری کو ظاہر کرتی ہے۔لہذا یہ تیزی سے بنیاد پزیری ان کی ایک عالمی سیلاب سے بنیاد کو ظاہر کر سکتی ہے۔
آبی تجربات یا Hydrological Experiments کہ بہتے ہوئے رسوب خود بخود مختلف تہوں میں بیٹھ جاتے ہیں لہذا ان چٹانی سطحوں کی وضاحت ایک عالمی سیلاب سے آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
پوری دنیا میں سیلابی مٹی کے گہرے مجموعے اور رسوبی چٹانیں ایک عالمی سیلاب کے عین مطابق ہیں۔
زمین میں کہیں بھی پورا ارضیاتی کالم ایک واحد ساخت کے طور پر ملنا ناممکن ہے بلکہ یہ ٹکڑوں میں ملتا ہے جس کے کئ ٹکڑے مسنگ ہوتے ہیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ عین ممکن ہے۔
درج بالا مذہبی،منطقی و سائنسی دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پر ایک عالمی سیلاب کسی طرح بھی منطق اور عقل کے خلاف نہیں۔اس طرح ملحدین کا قرآن پاک و مذاہب پر اعتراض درحقیقت سائنسی شواہد و امکانات کو جھٹلانے کی کوشش ہے۔ملحدین جس سائنس سے طوفان نوح اور دیگر مذہبی احکامات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں،بعد میں وہی سائنس انہی احکامات و واقعات کو ممکن مانتی ہے۔درج بالا سائنسی شواہد طوفان نوح کو سائنسی طور پر بالکل ممکن ثابت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
حوالہ جات۔۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Flood_geology
www.islamqa.com
http://unmaskingevolution.com/18-flood.htm
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔