کیا مال غنیمت لوٹ مار کا مال ہے؟مال غنیمت کے حوالے سے اسلام پر ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
************************************************
جنگوں کے دوران دشمن کا چھوڑا ہوا ساز و سامان اگر سرکاری خزانے میں جمع ہو تو اس کو لوٹ مار کیسے کہا جاسکتا ہے وہ مال غنیمت کہا جاتا ہے۔مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔
مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہےجبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔
پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔
غنيمت سے مراد اورمقصود وہ نقدى اور بعينہ مال وغيرہ ہے جس سے نفع حاصل كيا جائے، اور اسے مجاہدين اللہ تعالى كے راستے ميں كفار سے لڑائى كرتے ہوئے حاصل كرتے ہيں، يہ حاصل كردہ مال كئى ايك وجوہات كى بنا پر چورى اور لوٹ مار ميں شامل نہيں ہوتا:
1 - چورى يہ ہے كہ محفوظ جگہ سے بغير كسى حق كے خفيہ طريقہ سے مال اڑايا جائے، اور يہ تو اس چورى كے بالكل مخالف ہے، جب كہ جہاد كا مال غنيمت اور فئ كے طور پر كفار سے حق كے ساتھ ليا جاتا ہے، اور اس ميں ہمارے ليے شرعى طور پر اجازت ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{لھذا جو كچھ حلال اور پاكيزہ غنيمت تم نے حاصل كى ہے خوب كھاؤ پيو}.
2 - چورى تو معصوم اور محترم مال ميں ہوتى ہے، اور لڑنے والے كفار كا مال معصوم اور محترم نہيں ہے۔
3 - اس ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ يہ برابرى كے باب ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے كہ مسلمانوں كے مال سلب كيے گئے اور ان كے حقوق غصب ہوئے اوران كے گھر چھين ليے گئے، تو يہ ان كے حقوق كى واپسى ہے، اور جو كچھ ان كے ہاتھوں سے چھينا گيا ہے اسے واپس لينا ہے، لھذا يہ ان كے حقوق كى واپسى ميں شامل ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے كے بعد ( برابر كا ) بدلہ لے لے تو ايسے لوگوں پر ( الزام كا ) كوئى راستہ نہيں} الشورى ( 41 ).
يعنى كوئى گناہ وغيرہ نہيں.
اور اس كے بعد فرمايا:
{راستہ تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ناحق ظلم و ستم كرتے ہيں}.الشورى ( 42 )
ملحدین کا اعتراض ہے کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔
اور یہ مال صرف ان کفار سے حاصل کیا جا سکتا ہے جواور جنگ کرنے آئے ہون نہ کہ گھر گھر لوٹ مار سے۔
مسلم فوج کو بلااجازت دشمنوں کے گھروں میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی گئی. حالتِ جنگ میں بھی اسلام نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ پر زور دیا، عورتوں اور بچوں کو مارنے پیٹنے کی بھی اجازت نہیں اور بلاقیمت کوئی چیز لے کر کھانا بھی ممنوع ہے.
1. سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مقام پر اترے اور کتنے ہی صحابہ کرام ث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے. خیبر کا سردار ایک مغرور اور سرکش آدمی تھا. اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا: کیا آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں، ہمارے پھلوں کو کھائیں اور ہماری عورتوں کو پیٹیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منادی کردو کہ جنت حلال نہیں ہے مگر ایمان والے کے لیے اور نماز کے لیے جمع ہوجاؤ. راوی کا بیان ہے کہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اَيَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی اَرِيکَتِهِ قَدْ يَظُنُّ اَنَّ اﷲَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ؟ اَلَا وَإِنِّي وَاﷲِ قَدْ وَعَظْتُ وَاَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ اَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ اَوْ اَکْثَرُ. وَإِنَّ اﷲَ لَمْ يُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ اَهْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلَا اَکْلَ ثِمَارِهِمْ.
’’کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے. آگاہ ہوجاؤ، خدا کی قسم، میں نے نصیحت کرتے ہوئے، حکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآن کی طرح ہے بلکہ ان کی تعداد قرآنی امور سے زیادہ ہے. اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں رکھا ہے کہ اہلِ کتاب کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل ہو، نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور ان کے پھلوں کو کھانا بھی حلال نہیں ہے.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيء، باب في تعشير اهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3: 170، رقم: 3050
بيهقي، السنن الکبري، 9: 204، رقم: 18508
ابن عبد البر، التمهيد، 1: 149
2. اسلام سے قبل دورِ کفر و جاہلیت میں محض مال و دولت کے حصول کے لئے بھی عرب جنگجو لڑائی چھیڑ دیا کرتے تھے. تجارتی قافلوں کو لوٹنا بعض قبائل کا معمول بن چکا تھا لیکن اسلام نے اس زیادتی کو سختی سے ختم کر دیا. ایک غزوہ میں چند لوگوں نے مسافروں کو لوٹنا چاہا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سختی سے منع کر دیا.
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی. بعض لوگوں نے دوسروں کے راستے کو تنگ کیا اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا. آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیج کر اعلان کروایا:
اَنَّ مَنْ ضَيَقَ مَنْزِلًا اَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَـلَا جِهَادَ لَهُ.
’’جو شخص دوسروں کو گھروں میں گھس کر تنگ کرے یا راستوں میں لوٹ مار کرے اس کا یہ (دہشت گردانہ) عمل جہاد نہیں کہلائے گا.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ مَا يوْمَرُ مِنْ انْضِمَامِ الْعَسْکَرِ وَسَعَتِه، 3: 41، رقم: 2629
گویا اﷲ کی راہ میں لڑنے والے اگر لوٹ مار کرنے اور گھروں میں گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنے لگیں، عوام الناس کے لئے ان کا عمل باعثِ آزار بننے لگے تو راهِ حق میں جانیں قربان کرنے کا عظیم جذبہ بھی بارگاھِ خداوندی میں مسترد کر دیا جائے گا اور یہ عمل جہاد نہیں بلکہ فعلِ حرام قرار پائے گا.
عاصم بن کلیب نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری نے بیان کیا: ہم ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے تو لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی ضرورت پیش آئی اور دقت کا سامنا کرنا پڑا. پس انہیں بکریاں ملیں تو انہیں لوٹ کر ذبح کر لیا. کھانے کی ہانڈیوں میں ابال آرہا تھا کہ کمان سے ٹیک لگائے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور اپنی کمان سے ہماری ہانڈیوں کو الٹنا شروع کر دیا اور گوشت کو مٹی میں ملانا شروع کر دیا. پھر فرمایا:
إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِاَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ.
’’لوٹ مار (کا کھانا) مردار جانوروں کے گوشت سے زیادہ حلال نہیں ہے.‘‘
أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ فِي النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَي إِذَا کَانَ فِي الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِي اَرْضِ الْعَدُو، 3: 66، رقم: 2705 2 بيهقي، السنن الکبریٰ، 9: 61، رقم: 17789
کس قدر احتیاط، اصول پسندی اور اعلی سیرت و کردار کا مظاہرہ ہو رہا تھا. محاذِ جنگ تھا یا طویل سفر کے دوران بھوک کی شدت کی حالت، دنیا کا کوئی بھی عسکری قائد، مذہبی رہنما یا روحانی مربی اتنے صاف ستھرے، مضبوط اور پاکیزہ کردار کا یہ نمونہ پیش نہیں کرسکتا. اسی تربیت کا اثر تھا کہ بھوک سے نڈھال صحابہ ث کے سامنے گوشت سے اُبلتی ہوئی ہانڈیاں مٹی پر الٹا دی گئیں اور پیکرانِ صبر و رضا نے خاموشی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھا.
سریہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا واقعہ معروف ہے۔ ایک شخص کو کافر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا اور اس کا مال لوٹ لیا گیا تھا حالانکہ وہ اسلام کا اظہار کر رہا تھا۔ وہ مال غنیمت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے، مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیااور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہء اعمال اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے انھیں اس پر داد دی ہو۔
طائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑائی کا مالِ غنیمت محفوظ کردیاگیاتھا، وہاں آپﷺ کئی روز تک مالِ غنیمت تقسیم کئے بغیر ٹھہرے رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کا مال اور قیدی واپس کئے جائیں ؛لیکن تاخیر کے باوجود آپﷺ کے پاس کوئی نہ آیاتو آپﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم شروع کردی جس میں چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی تھے، حضور اکرم ﷺنے اسلامی قانون کے مطابق کل مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے لڑنے والوں میں بانٹ دئیے اور ایک حصہ بیت المال کے لئے روک لیا، اس پانچویں حصہ میں سے آپﷺ نے مکّہ اور دوسرے مقامات کے نو مسلموں کو دل کھول کر حصے دئیے، اپنے پاس کچھ نہیں رکھا جو پانچوان حصہ آپ کا تھا وہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔یہ ہے وہ نبی جس کو لوٹ مار کا الزام دیا جاتا ہے۔اپنا حصہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے۔وفات کے وقت گھر میں جلانے کے لیے تیل نہیں۔
ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ عطاکئے، اس نے کہا ! میرا بیٹا یزید؟ آپﷺ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا، اس نے کہا! اورمیرا بیٹا معاویہ؟ آپﷺ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا(یعنی تنہا ابوسفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی)
حطیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اسی طرح صفوان بن اُمیہ کو سو اونٹ ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دئیے گئے
(الرحیق المختوم)
حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دئیے گئے اور کچھ مزید قرشی اور غیر قرشی روساء کو سو سو اونٹ دئیے گئے ، کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دئیے گئے یہاں تک کہ لوگوںمیں مشہور ہوگیا کہ محمدﷺ اسی طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انھیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں ، چنانچہ مال کی طلب میں بدّو آپﷺ پر ٹوٹ پڑے اور آپﷺ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کردیا، اتفاق سے آپﷺ کی چادر درخت میں پھنس گئی، آپﷺ نے فرمایا! " لوگو میری چادر دے دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوں گا، پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے نہ بزدل نہ چھوٹا " ۔
اس کے بعد آپﷺ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لئے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا! " لوگو ! واﷲ میرے لئے تمہارے مال فیٔ میں سے کچھ بھی نہیں حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں ، صرف خمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے ،
حضور اکرم ﷺ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو حکم دیا کہ لوگوں پر مالِ غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں، انھوں نے ایسا کیا تو ایک فوجی کے حصے میں چار چار اونٹ اور چالیس چالیس بکریاں آئیں، جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں(علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ سواروں کو تگنا حصہ ملتا تھا اس لئے ہر سوار کے حصے میں بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں آئیں)
یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راستہ سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں ، اس قسم کے انسانوں کے لئے مختلف ڈھنگ کے اسبابِ کشش کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایمان سے مانوس ہوکر اس کے لئے پر جوش بن جائیں
(الرحیق المختوم)
ایک مرد مومن کی زندگی غنیمت کی خواہش کی کثافتوں سے بالکل شفاف اور پاک ہوتی ہے ۔ یہاں تاریخ اسلام کے عہد زریں سے ایمانی زندگی کے اسی پہلو کی چند مثالیں پیش ہیں ۔
سن 16 ہجری ہے مسلمانوں نے مدائن فتح کیا ۔ غنائم کا مال اکٹھا کیا گیا اتنے میں ایک نقاب پوش نوجوان نے جواہرات سے بھری ہوئی تھیلی لا کر مال غنیمت میں جمع کروائی ۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر قیمتی جواہرات اس غریب سپاہی کی نیت خراب نہ ہوئی ۔ پوچھا گیا ، آپ نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ جواب آیا : اگر خوف خدا نہ ہوتا تو یہ قیمتی تھیلی تمہارے پاس میں لاتا بھی نہ ۔ پوچھا گیا ، آپ کا تعارف ؟ فرمانے لگے میں اپنا تعارف نہیں کرواتا کہ کہیں آپ لوگ میری تعریف و مدح نہ کرنا شروع کر دیں تعریف کی مستحق صرف اللہ کی شان اقدس ہے اور وہی میرے اس بہتر عمل کا بہترین اجر عطاءکرے گا ۔ یہ کہہ کر چل دیا ۔ بعض مجاہدین نے اس کے ٹھکانے کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ عامر بن عبد ہیں ۔ عامر بن عبد مشہور اور جلیل القدر تابعی ہیں جو زاہد شب زندہ دار بھی تھے اور محاذ جنگ کے مجاہد اور غازی صف سکن بھی ۔ ( تاریخ طبری ج 4 ص 186 )
فتح مدائن کے اسی معرکہ میں ایک اور نقاب پوش سپاہی قیمتی جواہرات سے مرصع کسریٰ کا تاج زریں لے آیا تو وہ اسے اپنے دامن میں چھپا کر امیر فوج اسلامی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس لا کر عرض کرنے لگا : ( ایھا الامیر ) یہ کوئی بہت قیمتی چیز ہے ، میں آپ کے حوالے کرتا ہوں کہ بیت المال میں جمع ہو جائے ۔ مسلمان امیر دریائے حیرت میں ڈوب گئے ۔ پوچھا کہ آپ کا نام ؟ اس نے دروازہ کی طرف منہ کر کے اور امیر کی طرف پشت کر کے کہا جس کے لیے میں نے یہ کام کیا وہ میرا نام جانتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا ۔ جب اموی سردار مسلمہ بن عبدالملک کو ایک قلعہ کا محاصرہ کےے کافی عرصہ گزر گیا اور کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اس قلعہ پر دھاوا بولنے کیلئے چند جانبازوں کا انتخاب کیا ۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ ایک جوان تیروں کی بارش اور دشمن کی صفوں سے آگ کے برستے شعلوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کے دیوانہ وار قلعہ کی دیوار کی طرف بڑھا جا رہا ہے اور بالآخر قلعے کی دیوار کے قریب آ کر نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا اور قلعہ فتح ہو گیا ۔
اب ہر نگاہ اس سرفروش مجاہد کو تلاش کر رہی تھی جس کے سر اس فتح کا سہرا تھا مگر کوئی اسے پہنچانتا نہ تھا ۔ مسلمہ کے سوال پر سب نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ اس نے پورے لشکر کو جمع کیا اور کہا نقب لگانے والا جانباز کہاں ہے ؟ پورے لشکر پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن کوئی سامنے نہ آیا ۔ مسلمہ بن عبدالملک نے دوبارہ کہا میں اس کو اس کے رب کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ سامنے آئے اچانک ایک نقاب پوش بڑھا اس کی صرف آنکھیں ظاہر تھیں مسلمہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا :
میں ہوں نقب لگانے والا اگر آپ مجھے میرے رب کی قسم نہ دیتے تو میں کبھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتا اب میں بھی آپ کو آپ کے رب کا واسطہ دیتا ہوں مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال نہ کرنا اور اگر آپ جان بھی لیں تو کسی سے ذکر نہ کرنا اس لیے کہ میں نے یہ عمل اس ذات کیلئے کیا ہے جو مجھے آپ سے زیادہ عطاءکرنے پر قادر ہے ۔
مسلمہ بن عبدالملک بعد میں جب بھی دعا کرتے تو ضرور کہتے اللھم اجعلنی مع صاحب النقب ” اے اللہ مجھے نقب والے کے ساتھ کر دے ۔ “
اسی طرح ایک اور روح پرور واقع ہے کہ ابوعمر بن نجید چوتھی صدی ہجری کے مشہور بزرگوں میں سے ہیں ۔ ایک دفعہ سرحدوں کی حفاظت کیلئے رقوم ختم ہو گئی ۔ امیر شہر نے اہل ثروت کو ترغیب دی اور سر مجلس روپڑے ۔ ابو عمر بن نجید نے دو لاکھ درہم کی ایک خطیر رقم آ کر انہیں دے دی ۔ امیر نے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا اور تعاون کرنے والے ابو عمر کی تعریف کی ، لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، جب ابو عمر بن نجید اسی مجلس میں کھڑے ہو کر فرمانے لگے وہ رقم میری والدہ کی تھی میں نے دیتے وقت ان سے پوچھا نہیں تھا جبکہ اب وہ راضی نہیں ہیں لہٰذا یہ رقم واپس کر دی جائے ۔ امیر شہر نے واپس کر دی ۔ اگلی رات ابو عمر وہ دوبارہ رقم لے کر حاضر ہوئے اور کہا یہ رقم لے لیں لیکن اس شرط پر کہ آپ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ کس نے دی ہے ۔ امیر کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور کہا ابو عمر تم اخلاص کی کس قدر بلندی پر ہو ۔
یہ ہے وہ نمونے جو ان تفوس مذکیہ نے ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت سے چھوڑے ہیں ۔ ذرا آگے آئیں آخر میں ایک اور واقع سے اپنے دلوں کو ایمان کی چاشنی سے محظوظ کر لیں ۔
یہ دور بادشاہ معتصم باللہ عباسی کا ہے ۔ بادشاہ وقت بڑے جاہ و جلال والا بڑا رعب و دبدبہ رکھنے والا شہر عموریہ کا محاصرہ کرتے ہیں ۔ اس شہر کے قلعہ کی دیوار پر کھڑا ہو کر ایک بدبخت شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ بولتا ہے مسلمانوں کیلئے اس سے بڑھ کر تکلیف کی بات اور کیا ہو سکتی تھی ہر مجاہد کی خواہش تھی کہ اس منحوس کے ہلاک کرنے کی سعادت اس کے حصہ میں آئے لیکن وہ تیروں اور حملوں کی زد سے محفوظ ایک ایسی جگہ پر کھڑا ہوتا جہاں سے اس کی آواز تو سنائی دیتی تھی لیکن اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ یعقوب بن جعفر نامی ایک شخص لشکر اسلام میں ایک بہترین تیر انداز تھا اس ملعون نے جب ایک بار دیوار پر چڑھ کر شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کیلئے منہ کھولا یعقوب گھات میں تھا اس نے تیر پھینکا جو سیدھا اس کے سینے میں جا لگا اور گر کر ہلاک ہوا تو فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی ۔ یہ مسلمانوں کیلئے بڑی خوشی کا واقعہ تھا ۔ معتصم نے اس تیر انداز کو بلایا اور کہا آپ اپنے اس تیر کا ثواب مجھے فروخت کر دو ۔
مجاہد نے کہا ثواب بیچا نہیں جاتا ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں ترغیب دیتا ہوں اور ایک لاکھ درہم دیتا ہوں مگر مجاہد نے انکار کر دیا ۔ اب بادشاہ معتصم باللہ نے پانچ لاکھ درہم دئیے لیکن مجاہد نے کہا کہ ” مجھے ساری دنیا دے دی جائے تو بھی اس کے عوض اس تیر کا ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ اس کا آدھا ثواب بغیر کسی عوض کے میں آپ کو ہبہ کر دیتا ہوں ۔ “ معتصم اس قدر خوش ہوا گویا اسے سارا جہاں مل گیا ہو ۔ معتصم باللہ نے پھر پوچھا تم نے یہ تیر اندازی کہاں سے سیکھی ہے ؟ فرمایا بصرہ میں واقع اپنے گھر میں ۔ معتصم نے کہا وہ گھر مجھے فروخت کر دو ۔ جواب دیا وہ رمی اور تیر اندازی کرنے والے مجاہدوں کیلئے وقف ہے ۔
ذرا سوچئے انداز حکمران پر ۔ معتصم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو قتل کرنا اپنی حکومت مال و دولت اور جاہ و جلال کے لٹا دینے سے بہتر سمجھا ۔ آج بھی شہیدان راہ وفا اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر مرنے اور کٹنے والے شہبازوں کا درجہ اور قیمت ساری کائنات سے زیادہ ہے ۔ یاد رکھو ساری کائنات ، اس کی مال و متاع ، اس کے اہل جان ، مملکتیں اور سیاستیں اور تخت و تاج سب لٹ جائیں مگر میرے دوست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پر کوئی ہاتھ نہ ڈالنے پائے ۔
یہ مال صرف جنگ کرنے والے کفار سے حاصل کیا جاتا ہےہے لیکن جنگ نہ کرنے والے اور گھر بیٹھے کفار کے گھروں پر لوٹ مار سے نہیں۔وہ کافر مسلمانوں سے آئے ہی جنگ کرنے ہیں۔جب جنگ میں ان کا قتل ناجائز نہیں ہے تو بھلا ان کا مال کیونکر ناجائز ہوگا جو جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگے گا۔اگر ان کو یا ان کے حامی ملحدین کو ان سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر ان سے گزارش کرا کے یہ جنگیں ہی رکوا دیتے کہ نہ وہ کفار جنگ میں قتل ہوتے نہ ان کا چھوڑا ہوا غنیمت کے طور پر جنگ کے بعد مسلمانوں کے حوالے ہوتا۔لیکن ملحدین چاہتے ہیں کہ کفار مسلمانوں سے جنگ بھی کرتے رہیں اور مسلمان بدلے میں ان کے چھوڑے گئے مال پر قبضے اور ان کی گردن مارنے کی بجائے انہیں انعام کے طور پر ہار پہنا کر عزت سے رخصت کر دیں۔کیا منطق ہے ملحدین کی۔سبحان اللٰہ۔مسلمان اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ لوڈ پر حملہ آور دشمن کو سازو سامان سمیت واپس رخصت کر دیں تاکہ وہ دوبارہ اسی مال اور سازو سامان سمیت ان کی پھر گردن مارنے اور قتل و غارت کرنے آئے۔محترم جنگ میں قتل و کامیابی ہی ہوتی ہے خواہ جیت کی صورت میں ہو یا مال غنیمت کے حصول کی صورت میں۔اگر ملحدین کے ہاں جنگ میں قتل اور مال غنیمت کے حصول کی بجائے دشمن کو ہار پہنا کر دولہا بنا کر دلہن کے ساتھ کسی سٹیج پر بٹھایا جاتا ہے تو اور بات ہے۔
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
************************************************
جنگوں کے دوران دشمن کا چھوڑا ہوا ساز و سامان اگر سرکاری خزانے میں جمع ہو تو اس کو لوٹ مار کیسے کہا جاسکتا ہے وہ مال غنیمت کہا جاتا ہے۔مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔
مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہےجبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔
پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔
غنيمت سے مراد اورمقصود وہ نقدى اور بعينہ مال وغيرہ ہے جس سے نفع حاصل كيا جائے، اور اسے مجاہدين اللہ تعالى كے راستے ميں كفار سے لڑائى كرتے ہوئے حاصل كرتے ہيں، يہ حاصل كردہ مال كئى ايك وجوہات كى بنا پر چورى اور لوٹ مار ميں شامل نہيں ہوتا:
1 - چورى يہ ہے كہ محفوظ جگہ سے بغير كسى حق كے خفيہ طريقہ سے مال اڑايا جائے، اور يہ تو اس چورى كے بالكل مخالف ہے، جب كہ جہاد كا مال غنيمت اور فئ كے طور پر كفار سے حق كے ساتھ ليا جاتا ہے، اور اس ميں ہمارے ليے شرعى طور پر اجازت ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{لھذا جو كچھ حلال اور پاكيزہ غنيمت تم نے حاصل كى ہے خوب كھاؤ پيو}.
2 - چورى تو معصوم اور محترم مال ميں ہوتى ہے، اور لڑنے والے كفار كا مال معصوم اور محترم نہيں ہے۔
3 - اس ميں كم از كم يہ كہا جا سكتا ہے كہ يہ برابرى كے باب ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے كہ مسلمانوں كے مال سلب كيے گئے اور ان كے حقوق غصب ہوئے اوران كے گھر چھين ليے گئے، تو يہ ان كے حقوق كى واپسى ہے، اور جو كچھ ان كے ہاتھوں سے چھينا گيا ہے اسے واپس لينا ہے، لھذا يہ ان كے حقوق كى واپسى ميں شامل ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
{اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے كے بعد ( برابر كا ) بدلہ لے لے تو ايسے لوگوں پر ( الزام كا ) كوئى راستہ نہيں} الشورى ( 41 ).
يعنى كوئى گناہ وغيرہ نہيں.
اور اس كے بعد فرمايا:
{راستہ تو صرف ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ناحق ظلم و ستم كرتے ہيں}.الشورى ( 42 )
ملحدین کا اعتراض ہے کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔
اور یہ مال صرف ان کفار سے حاصل کیا جا سکتا ہے جواور جنگ کرنے آئے ہون نہ کہ گھر گھر لوٹ مار سے۔
مسلم فوج کو بلااجازت دشمنوں کے گھروں میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی گئی. حالتِ جنگ میں بھی اسلام نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ پر زور دیا، عورتوں اور بچوں کو مارنے پیٹنے کی بھی اجازت نہیں اور بلاقیمت کوئی چیز لے کر کھانا بھی ممنوع ہے.
1. سنن ابی داؤد میں مروی ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خیبر کے مقام پر اترے اور کتنے ہی صحابہ کرام ث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے. خیبر کا سردار ایک مغرور اور سرکش آدمی تھا. اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہا: کیا آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ ہمارے گدھوں کو ذبح کریں، ہمارے پھلوں کو کھائیں اور ہماری عورتوں کو پیٹیں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: اے ابن عوف! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر یہ منادی کردو کہ جنت حلال نہیں ہے مگر ایمان والے کے لیے اور نماز کے لیے جمع ہوجاؤ. راوی کا بیان ہے کہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا:
اَيَحْسَبُ اَحَدُکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی اَرِيکَتِهِ قَدْ يَظُنُّ اَنَّ اﷲَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ؟ اَلَا وَإِنِّي وَاﷲِ قَدْ وَعَظْتُ وَاَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ اَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ اَوْ اَکْثَرُ. وَإِنَّ اﷲَ لَمْ يُحِلَّ لَکُمْ اَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ اَهْلِ الْکِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ، وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ، وَلَا اَکْلَ ثِمَارِهِمْ.
’’کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حرام قرار نہیں دی مگر وہی جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے. آگاہ ہوجاؤ، خدا کی قسم، میں نے نصیحت کرتے ہوئے، حکم دیتے ہوئے اور بعض چیزوں سے منع کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآن کی طرح ہے بلکہ ان کی تعداد قرآنی امور سے زیادہ ہے. اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ جائز نہیں رکھا ہے کہ اہلِ کتاب کی اجازت کے بغیر ان کے گھروں میں داخل ہو، نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور ان کے پھلوں کو کھانا بھی حلال نہیں ہے.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيء، باب في تعشير اهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3: 170، رقم: 3050
بيهقي، السنن الکبري، 9: 204، رقم: 18508
ابن عبد البر، التمهيد، 1: 149
2. اسلام سے قبل دورِ کفر و جاہلیت میں محض مال و دولت کے حصول کے لئے بھی عرب جنگجو لڑائی چھیڑ دیا کرتے تھے. تجارتی قافلوں کو لوٹنا بعض قبائل کا معمول بن چکا تھا لیکن اسلام نے اس زیادتی کو سختی سے ختم کر دیا. ایک غزوہ میں چند لوگوں نے مسافروں کو لوٹنا چاہا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سختی سے منع کر دیا.
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوہ میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی. بعض لوگوں نے دوسروں کے راستے کو تنگ کیا اور راہ چلتے مسافروں کو لوٹنا شروع کر دیا. آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیج کر اعلان کروایا:
اَنَّ مَنْ ضَيَقَ مَنْزِلًا اَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَـلَا جِهَادَ لَهُ.
’’جو شخص دوسروں کو گھروں میں گھس کر تنگ کرے یا راستوں میں لوٹ مار کرے اس کا یہ (دہشت گردانہ) عمل جہاد نہیں کہلائے گا.‘‘
ابو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ مَا يوْمَرُ مِنْ انْضِمَامِ الْعَسْکَرِ وَسَعَتِه، 3: 41، رقم: 2629
گویا اﷲ کی راہ میں لڑنے والے اگر لوٹ مار کرنے اور گھروں میں گھس کر لوگوں کو ہراساں کرنے لگیں، عوام الناس کے لئے ان کا عمل باعثِ آزار بننے لگے تو راهِ حق میں جانیں قربان کرنے کا عظیم جذبہ بھی بارگاھِ خداوندی میں مسترد کر دیا جائے گا اور یہ عمل جہاد نہیں بلکہ فعلِ حرام قرار پائے گا.
عاصم بن کلیب نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری نے بیان کیا: ہم ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے تو لوگوں کو کھانے پینے کی بڑی ضرورت پیش آئی اور دقت کا سامنا کرنا پڑا. پس انہیں بکریاں ملیں تو انہیں لوٹ کر ذبح کر لیا. کھانے کی ہانڈیوں میں ابال آرہا تھا کہ کمان سے ٹیک لگائے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور اپنی کمان سے ہماری ہانڈیوں کو الٹنا شروع کر دیا اور گوشت کو مٹی میں ملانا شروع کر دیا. پھر فرمایا:
إِنَّ النُّهْبَةَ لَيْسَتْ بِاَحَلَّ مِنَ الْمَيْتَةِ.
’’لوٹ مار (کا کھانا) مردار جانوروں کے گوشت سے زیادہ حلال نہیں ہے.‘‘
أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، بَابُ فِي النَّهْيِ عَنِ النُّهْبَي إِذَا کَانَ فِي الطَّعَامِ قِلَّةٌ فِي اَرْضِ الْعَدُو، 3: 66، رقم: 2705 2 بيهقي، السنن الکبریٰ، 9: 61، رقم: 17789
کس قدر احتیاط، اصول پسندی اور اعلی سیرت و کردار کا مظاہرہ ہو رہا تھا. محاذِ جنگ تھا یا طویل سفر کے دوران بھوک کی شدت کی حالت، دنیا کا کوئی بھی عسکری قائد، مذہبی رہنما یا روحانی مربی اتنے صاف ستھرے، مضبوط اور پاکیزہ کردار کا یہ نمونہ پیش نہیں کرسکتا. اسی تربیت کا اثر تھا کہ بھوک سے نڈھال صحابہ ث کے سامنے گوشت سے اُبلتی ہوئی ہانڈیاں مٹی پر الٹا دی گئیں اور پیکرانِ صبر و رضا نے خاموشی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھا.
سریہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا واقعہ معروف ہے۔ ایک شخص کو کافر قرار دے کر قتل کر دیا گیا تھا اور اس کا مال لوٹ لیا گیا تھا حالانکہ وہ اسلام کا اظہار کر رہا تھا۔ وہ مال غنیمت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے، مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیااور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہء اعمال اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔
اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے انھیں اس پر داد دی ہو۔
طائف سے واپس ہوتے ہوئے حضور اکرم ﷺ مقام جعرانہ میں رکے جہاں حنین کی لڑائی کا مالِ غنیمت محفوظ کردیاگیاتھا، وہاں آپﷺ کئی روز تک مالِ غنیمت تقسیم کئے بغیر ٹھہرے رہے جس کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپﷺ کی خدمت میں آئے تو ان کا مال اور قیدی واپس کئے جائیں ؛لیکن تاخیر کے باوجود آپﷺ کے پاس کوئی نہ آیاتو آپﷺ نے مالِ غنیمت کی تقسیم شروع کردی جس میں چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی تھے، حضور اکرم ﷺنے اسلامی قانون کے مطابق کل مال کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا، چار حصے لڑنے والوں میں بانٹ دئیے اور ایک حصہ بیت المال کے لئے روک لیا، اس پانچویں حصہ میں سے آپﷺ نے مکّہ اور دوسرے مقامات کے نو مسلموں کو دل کھول کر حصے دئیے، اپنے پاس کچھ نہیں رکھا جو پانچوان حصہ آپ کا تھا وہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔یہ ہے وہ نبی جس کو لوٹ مار کا الزام دیا جاتا ہے۔اپنا حصہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے۔وفات کے وقت گھر میں جلانے کے لیے تیل نہیں۔
ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ چاندی اور ایک سو اونٹ عطاکئے، اس نے کہا ! میرا بیٹا یزید؟ آپﷺ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا، اس نے کہا! اورمیرا بیٹا معاویہ؟ آپﷺ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا(یعنی تنہا ابوسفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تین سو اونٹ اور ایک سو بیس اوقیہ چاندی ملی)
حطیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دئیے گئے ، اسی طرح صفوان بن اُمیہ کو سو اونٹ ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دئیے گئے
(الرحیق المختوم)
حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دئیے گئے اور کچھ مزید قرشی اور غیر قرشی روساء کو سو سو اونٹ دئیے گئے ، کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دئیے گئے یہاں تک کہ لوگوںمیں مشہور ہوگیا کہ محمدﷺ اسی طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انھیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں ، چنانچہ مال کی طلب میں بدّو آپﷺ پر ٹوٹ پڑے اور آپﷺ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کردیا، اتفاق سے آپﷺ کی چادر درخت میں پھنس گئی، آپﷺ نے فرمایا! " لوگو میری چادر دے دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوں گا، پھر تم مجھے نہ بخیل پاؤ گے نہ بزدل نہ چھوٹا " ۔
اس کے بعد آپﷺ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہوکر اس کی کوہان سے کچھ بال لئے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا! " لوگو ! واﷲ میرے لئے تمہارے مال فیٔ میں سے کچھ بھی نہیں حتیٰ کہ اتنا بال بھی نہیں ، صرف خمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹا دیا جاتا ہے ،
حضور اکرم ﷺ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو حکم دیا کہ لوگوں پر مالِ غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں، انھوں نے ایسا کیا تو ایک فوجی کے حصے میں چار چار اونٹ اور چالیس چالیس بکریاں آئیں، جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں(علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ سواروں کو تگنا حصہ ملتا تھا اس لئے ہر سوار کے حصے میں بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں آئیں)
یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راستہ سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں ، اس قسم کے انسانوں کے لئے مختلف ڈھنگ کے اسبابِ کشش کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایمان سے مانوس ہوکر اس کے لئے پر جوش بن جائیں
(الرحیق المختوم)
ایک مرد مومن کی زندگی غنیمت کی خواہش کی کثافتوں سے بالکل شفاف اور پاک ہوتی ہے ۔ یہاں تاریخ اسلام کے عہد زریں سے ایمانی زندگی کے اسی پہلو کی چند مثالیں پیش ہیں ۔
سن 16 ہجری ہے مسلمانوں نے مدائن فتح کیا ۔ غنائم کا مال اکٹھا کیا گیا اتنے میں ایک نقاب پوش نوجوان نے جواہرات سے بھری ہوئی تھیلی لا کر مال غنیمت میں جمع کروائی ۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر قیمتی جواہرات اس غریب سپاہی کی نیت خراب نہ ہوئی ۔ پوچھا گیا ، آپ نے اس سے کچھ لیا ہے ؟ جواب آیا : اگر خوف خدا نہ ہوتا تو یہ قیمتی تھیلی تمہارے پاس میں لاتا بھی نہ ۔ پوچھا گیا ، آپ کا تعارف ؟ فرمانے لگے میں اپنا تعارف نہیں کرواتا کہ کہیں آپ لوگ میری تعریف و مدح نہ کرنا شروع کر دیں تعریف کی مستحق صرف اللہ کی شان اقدس ہے اور وہی میرے اس بہتر عمل کا بہترین اجر عطاءکرے گا ۔ یہ کہہ کر چل دیا ۔ بعض مجاہدین نے اس کے ٹھکانے کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ عامر بن عبد ہیں ۔ عامر بن عبد مشہور اور جلیل القدر تابعی ہیں جو زاہد شب زندہ دار بھی تھے اور محاذ جنگ کے مجاہد اور غازی صف سکن بھی ۔ ( تاریخ طبری ج 4 ص 186 )
فتح مدائن کے اسی معرکہ میں ایک اور نقاب پوش سپاہی قیمتی جواہرات سے مرصع کسریٰ کا تاج زریں لے آیا تو وہ اسے اپنے دامن میں چھپا کر امیر فوج اسلامی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس لا کر عرض کرنے لگا : ( ایھا الامیر ) یہ کوئی بہت قیمتی چیز ہے ، میں آپ کے حوالے کرتا ہوں کہ بیت المال میں جمع ہو جائے ۔ مسلمان امیر دریائے حیرت میں ڈوب گئے ۔ پوچھا کہ آپ کا نام ؟ اس نے دروازہ کی طرف منہ کر کے اور امیر کی طرف پشت کر کے کہا جس کے لیے میں نے یہ کام کیا وہ میرا نام جانتا ہے ۔ یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا ۔ جب اموی سردار مسلمہ بن عبدالملک کو ایک قلعہ کا محاصرہ کےے کافی عرصہ گزر گیا اور کامیابی کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو اس قلعہ پر دھاوا بولنے کیلئے چند جانبازوں کا انتخاب کیا ۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ ایک جوان تیروں کی بارش اور دشمن کی صفوں سے آگ کے برستے شعلوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کے دیوانہ وار قلعہ کی دیوار کی طرف بڑھا جا رہا ہے اور بالآخر قلعے کی دیوار کے قریب آ کر نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا اسلامی لشکر قلعہ میں داخل ہوا اور قلعہ فتح ہو گیا ۔
اب ہر نگاہ اس سرفروش مجاہد کو تلاش کر رہی تھی جس کے سر اس فتح کا سہرا تھا مگر کوئی اسے پہنچانتا نہ تھا ۔ مسلمہ کے سوال پر سب نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ اس نے پورے لشکر کو جمع کیا اور کہا نقب لگانے والا جانباز کہاں ہے ؟ پورے لشکر پر سناٹا طاری ہو گیا لیکن کوئی سامنے نہ آیا ۔ مسلمہ بن عبدالملک نے دوبارہ کہا میں اس کو اس کے رب کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ سامنے آئے اچانک ایک نقاب پوش بڑھا اس کی صرف آنکھیں ظاہر تھیں مسلمہ کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور کہا :
میں ہوں نقب لگانے والا اگر آپ مجھے میرے رب کی قسم نہ دیتے تو میں کبھی اپنے آپ کو ظاہر نہ کرتا اب میں بھی آپ کو آپ کے رب کا واسطہ دیتا ہوں مجھ سے میرے نام کے بارے میں سوال نہ کرنا اور اگر آپ جان بھی لیں تو کسی سے ذکر نہ کرنا اس لیے کہ میں نے یہ عمل اس ذات کیلئے کیا ہے جو مجھے آپ سے زیادہ عطاءکرنے پر قادر ہے ۔
مسلمہ بن عبدالملک بعد میں جب بھی دعا کرتے تو ضرور کہتے اللھم اجعلنی مع صاحب النقب ” اے اللہ مجھے نقب والے کے ساتھ کر دے ۔ “
اسی طرح ایک اور روح پرور واقع ہے کہ ابوعمر بن نجید چوتھی صدی ہجری کے مشہور بزرگوں میں سے ہیں ۔ ایک دفعہ سرحدوں کی حفاظت کیلئے رقوم ختم ہو گئی ۔ امیر شہر نے اہل ثروت کو ترغیب دی اور سر مجلس روپڑے ۔ ابو عمر بن نجید نے دو لاکھ درہم کی ایک خطیر رقم آ کر انہیں دے دی ۔ امیر نے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا اور تعاون کرنے والے ابو عمر کی تعریف کی ، لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، جب ابو عمر بن نجید اسی مجلس میں کھڑے ہو کر فرمانے لگے وہ رقم میری والدہ کی تھی میں نے دیتے وقت ان سے پوچھا نہیں تھا جبکہ اب وہ راضی نہیں ہیں لہٰذا یہ رقم واپس کر دی جائے ۔ امیر شہر نے واپس کر دی ۔ اگلی رات ابو عمر وہ دوبارہ رقم لے کر حاضر ہوئے اور کہا یہ رقم لے لیں لیکن اس شرط پر کہ آپ کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ یہ کس نے دی ہے ۔ امیر کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور کہا ابو عمر تم اخلاص کی کس قدر بلندی پر ہو ۔
یہ ہے وہ نمونے جو ان تفوس مذکیہ نے ہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت سے چھوڑے ہیں ۔ ذرا آگے آئیں آخر میں ایک اور واقع سے اپنے دلوں کو ایمان کی چاشنی سے محظوظ کر لیں ۔
یہ دور بادشاہ معتصم باللہ عباسی کا ہے ۔ بادشاہ وقت بڑے جاہ و جلال والا بڑا رعب و دبدبہ رکھنے والا شہر عموریہ کا محاصرہ کرتے ہیں ۔ اس شہر کے قلعہ کی دیوار پر کھڑا ہو کر ایک بدبخت شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ بولتا ہے مسلمانوں کیلئے اس سے بڑھ کر تکلیف کی بات اور کیا ہو سکتی تھی ہر مجاہد کی خواہش تھی کہ اس منحوس کے ہلاک کرنے کی سعادت اس کے حصہ میں آئے لیکن وہ تیروں اور حملوں کی زد سے محفوظ ایک ایسی جگہ پر کھڑا ہوتا جہاں سے اس کی آواز تو سنائی دیتی تھی لیکن اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ یعقوب بن جعفر نامی ایک شخص لشکر اسلام میں ایک بہترین تیر انداز تھا اس ملعون نے جب ایک بار دیوار پر چڑھ کر شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کیلئے منہ کھولا یعقوب گھات میں تھا اس نے تیر پھینکا جو سیدھا اس کے سینے میں جا لگا اور گر کر ہلاک ہوا تو فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی ۔ یہ مسلمانوں کیلئے بڑی خوشی کا واقعہ تھا ۔ معتصم نے اس تیر انداز کو بلایا اور کہا آپ اپنے اس تیر کا ثواب مجھے فروخت کر دو ۔
مجاہد نے کہا ثواب بیچا نہیں جاتا ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں ترغیب دیتا ہوں اور ایک لاکھ درہم دیتا ہوں مگر مجاہد نے انکار کر دیا ۔ اب بادشاہ معتصم باللہ نے پانچ لاکھ درہم دئیے لیکن مجاہد نے کہا کہ ” مجھے ساری دنیا دے دی جائے تو بھی اس کے عوض اس تیر کا ثواب فروخت نہیں کروں گا البتہ اس کا آدھا ثواب بغیر کسی عوض کے میں آپ کو ہبہ کر دیتا ہوں ۔ “ معتصم اس قدر خوش ہوا گویا اسے سارا جہاں مل گیا ہو ۔ معتصم باللہ نے پھر پوچھا تم نے یہ تیر اندازی کہاں سے سیکھی ہے ؟ فرمایا بصرہ میں واقع اپنے گھر میں ۔ معتصم نے کہا وہ گھر مجھے فروخت کر دو ۔ جواب دیا وہ رمی اور تیر اندازی کرنے والے مجاہدوں کیلئے وقف ہے ۔
ذرا سوچئے انداز حکمران پر ۔ معتصم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو قتل کرنا اپنی حکومت مال و دولت اور جاہ و جلال کے لٹا دینے سے بہتر سمجھا ۔ آج بھی شہیدان راہ وفا اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر مرنے اور کٹنے والے شہبازوں کا درجہ اور قیمت ساری کائنات سے زیادہ ہے ۔ یاد رکھو ساری کائنات ، اس کی مال و متاع ، اس کے اہل جان ، مملکتیں اور سیاستیں اور تخت و تاج سب لٹ جائیں مگر میرے دوست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر پر کوئی ہاتھ نہ ڈالنے پائے ۔
یہ مال صرف جنگ کرنے والے کفار سے حاصل کیا جاتا ہےہے لیکن جنگ نہ کرنے والے اور گھر بیٹھے کفار کے گھروں پر لوٹ مار سے نہیں۔وہ کافر مسلمانوں سے آئے ہی جنگ کرنے ہیں۔جب جنگ میں ان کا قتل ناجائز نہیں ہے تو بھلا ان کا مال کیونکر ناجائز ہوگا جو جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگے گا۔اگر ان کو یا ان کے حامی ملحدین کو ان سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو پھر ان سے گزارش کرا کے یہ جنگیں ہی رکوا دیتے کہ نہ وہ کفار جنگ میں قتل ہوتے نہ ان کا چھوڑا ہوا غنیمت کے طور پر جنگ کے بعد مسلمانوں کے حوالے ہوتا۔لیکن ملحدین چاہتے ہیں کہ کفار مسلمانوں سے جنگ بھی کرتے رہیں اور مسلمان بدلے میں ان کے چھوڑے گئے مال پر قبضے اور ان کی گردن مارنے کی بجائے انہیں انعام کے طور پر ہار پہنا کر عزت سے رخصت کر دیں۔کیا منطق ہے ملحدین کی۔سبحان اللٰہ۔مسلمان اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ لوڈ پر حملہ آور دشمن کو سازو سامان سمیت واپس رخصت کر دیں تاکہ وہ دوبارہ اسی مال اور سازو سامان سمیت ان کی پھر گردن مارنے اور قتل و غارت کرنے آئے۔محترم جنگ میں قتل و کامیابی ہی ہوتی ہے خواہ جیت کی صورت میں ہو یا مال غنیمت کے حصول کی صورت میں۔اگر ملحدین کے ہاں جنگ میں قتل اور مال غنیمت کے حصول کی بجائے دشمن کو ہار پہنا کر دولہا بنا کر دلہن کے ساتھ کسی سٹیج پر بٹھایا جاتا ہے تو اور بات ہے۔
لیکن ملحدین کبھی کفار کی جارحیت پر تنقید نہیں کریں گے۔کریں گے تو صرف اس پر کہ ان کو جنگ کے بدلے میں مارا کیوں گیا۔ان کے مال پر قبضہ کیوں گیا۔لیکن ملحدین چاہتے ہیں کہ مسلمان وہ مال ٹرکوں پر لاد کرواپس انہی کفار کی طرف بھیج دیں جس مال سے وہ کافر مسلمانوں کی گردنیں اڑانے آئے تھے۔سبحان اللٰہ۔سلامت رہے ایسی عقل ملحدین کی۔
حوالہ جات۔۔۔
http://www.alqalamonline.com/index.php/assalam-o-alaikum-talha-us-saif/5447-535-assalam-o-alaikum-jihad-ka-biyana-5
http://tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/002/B2_232.html
https://islamqa.info/ur/175176
http://www.minhajbooks.com/urdu/btext/cid/12/bid/385/btid/2187/read/txt/دوران-جنگ-غیر-مسلموں-کے-قتل-عام-کی-ممانعت-اسلامی-ریاست-میں-غیر-مسلم-کے-جان-و-مال-کا-تحفظ.html
https://daleel.pk/2016/09/12/7499
حوالہ جات۔۔۔
http://www.alqalamonline.com/index.php/assalam-o-alaikum-talha-us-saif/5447-535-assalam-o-alaikum-jihad-ka-biyana-5
http://tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/002/B2_232.html
https://islamqa.info/ur/175176
http://www.minhajbooks.com/urdu/btext/cid/12/bid/385/btid/2187/read/txt/دوران-جنگ-غیر-مسلموں-کے-قتل-عام-کی-ممانعت-اسلامی-ریاست-میں-غیر-مسلم-کے-جان-و-مال-کا-تحفظ.html
https://daleel.pk/2016/09/12/7499
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔