امریکہ کولمبس نے نہیں دریافت کیا بلکہ شمالی افریقہ کے مسلم لوگ وہاں پہلے پہنچ چکے تھے۔اصل ساڑھے سات کروڑ امریکیوں کی نسل یورپ نے کیسے مٹا کر وہاں اپنا قبضہ جمایا۔ایک نام نہاد فیس بکی ملحدہ سائنسدان کے نام ایک مضمون جو کہتی ہے کہ اسلام نے آج تک کتنی جانیں بچائیں جب کہ یورپ نے اپنی تہذیب و ترقی کے ذریعے کروڑوں جانیں بچائیں۔یورپ کی خون آشامی اور کروڑوں انسانوں کے قتل کی ایک عبرتناک اور دردناک داستان جو اس فیس بکی ملحدہ کو بتائے گی کہ یورپ نے کروڑوں جانیں بچائی ہی نہیں بلکہ کروڑوں جانیں موت کے گھاٹ اتار کر نسلیں بھی مٹائ ہیں۔جب کہ اسلام نے آج تک ایسا نہیں کیا۔درج ذیل مضمون پڑھیں۔
ریڈین انڈین کہاں گئے
تحریر۔۔اسد عادل
آج دنیا میں امریکہ سماج اور معاشرہ کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے، اور قبائل کو ختم کرکے اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے، دنیا کی تاریخ میں قدامت پسند قبائل کا کلچر اپنی جداگانہ حیثیت رکھتا ہے، امریکہ جو افغانستان اور پاکستان کے قبائل اور ان کی روایات کے خلاف انھیں سرنگوں کرنے کی مہم میں مصروف ہے، آج تک اپنے ملک سے قبائیلی رویات کو ختم نہ کرسکا، امریکی ریڈ انڈین باشندے آج بھی اپنی روایات پر قائم ہیں، ان کی بستیوں میں جدید ساز و سامان اور ترقی بھی مفتود ہے او وہ اپنے قدیم رسوم رواج پر قائم ہیں۔ ریڈ انڈین ( سرخ ہندی) امریکہ کے اصل باشندے ہیں ، جو تقریباً پندرہ تا بیس ہزار سال قبل ، آبنائے بیرنگ عبور کرکے ، شمال مشرقی ایشیاء سے براعظم شمالی امریکہ پہنچے تھے۔ زیادہ تر لوگ منگول نسل کے ہیں۔ اگرچہ دیگر اقوام کے ساتھ اختلاط سے ان کی کئی قسمیں ہو گئی ہیں تاہم اب بھی بھوری جلد ، سیدھے ، کھردرے ، سیاہ بالوں اور بھوری آنکھوں کی وجہ سے ان میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ زراعت پیشہ تھے۔ مٹر ، تربوز ، آلو اور تمباکو کاشت کرتے ، پتھر کے اوزار بناتے اور آگ سے واقف تھے۔ کچھ عرصے بعد ان میں سے بعض قبائل وسطی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں میں جا کر آباد ہوگئے۔
جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس مغربی نصف کرہ ارض پر بعض روایات کے مطابق 80 لاکھ اور بعض روایات کے بموجب سات کروڑ انڈین آباد تھے۔ مؤرخین کی اکثریت دو کروڑ پر متفق ہے۔ چونکہ کولمبس کے خیال کے مطابق وہ انڈیا پہنچ گیا تھا اس نے ان لوگوں کو انڈین کا نام دیا۔ بعد میں ہندوستان سے تمیز کرنے کے لیے انھیں ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہا جانے لگا۔ بعد میں وسطی امریکہ اور جنوبی امریکا کے انڈین بعد میں آنے والے لوگوں میں گھل مل گئے جس سے ایک نئی نسل وجود میں آئی۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ریڈ انڈین کی تعداد میں کمی کے اسباب میں آب و ہوا کی تبدیلی اور وبائی امراض بتائے جاتے ہیں لیکن مورخین کے بقول اس کا اصل سبب سفید فام آباد کاروں کے ہاتھوں ان کی نسل کشی ہے۔ ایک محقق مولانا محمد عیسیٰ منصوری (لندن ) کا کہنا ہے کہ برِ اعظم امریکہ کی دریافت مغربی دنیا ایک یہودی نائٹس ( فری میسن ) کولمبس سے منسوب کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ برِاعظم حضرت مسیح علیہ السلام سے ۵۲ہزار سال پہلے آباد تھا اور مختلف زمانوں میں یہاں انسانی قافلے آتے جاتے رہے۔ کولمبس جس بحری جہاز کے ذریعہ امریکہ پہنچا۔ اس کا ملاح بھی ایک عرب جہاز راں تھا اور کولمبس کے پاس بحری راستوں کے عربوں کے تیار کردہ نقشے تھے لیکن مغربی انا پرستی کسی مسئلہ میں کسی غیر یورپی کی برتری تسلیم نہیں کر سکتی۔ کولمبس سے پہلے وہاں متمدن آبادیاں تھیں جو منضبط قوانین و ضابطوں کے تحت زندگی گزارتی تھی۔ امریکہ کی آبادی افریقہ اور یورپ کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ شمالی امریکہ دنیا کے 7 براعظموں میں سے ایک براعظم ہے۔ اس براعظم میں کینیڈا اور امریکہ اہم ممالک ہیں۔ اس براعظم کے قدیم باشندوں کو سرخ ہندی ریڈ انڈین قوم کے نام سے پکارا جاتا ہے 1492 میں کولمبس اور اس کے ساتھ آنے والے اور بعد میں آنے والے نوآباد کار یوروپین کی دہشت ناک خونی سرگرمیوں کے نتیجے میں ریڈ انڈینز کا تقریبا خاتمہ ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں اب اس وقت دونوں امریکی بر آعظموں میں ریڈ انڈینز نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں -
آج مغربی دنیا میں کولمبس کو ایک عظیم ہیرو کی حیثیت حاصل ہے جس نے یورپ کو لوٹ مار کے لیے ایک وسیع و عظیم شکار گاہ فراہم کی۔ اس لیے نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ میں سب سے زیادہ اس دیوتا کے مجسمہ نظر آئیں گے۔ کولمبس کے امریکہ پہنچنے کے صرف ۱۳سالوں میں اسی لاکھ ریڈ انڈین کا قتل عام کیا گیا اورپھر پندرہویں صدی کے اختتام تک امریکہ کی ریڈ انڈین آبادی جو ساڑھے نو کروڑ کے لگ بھگ تھی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے مشہور پروفیسر مائیکل مین کی معروف تحقیقی کتاب THE DARK SIDE OF DEMOCRACYکے مطابق صرف دو صدیوں کے بعد ان کی آبادی بڑھنے کے بجائے صرف پچاس لاکھ رہ گئی۔ باقی نو(۹) کروڑ ریڈ انڈین سفید فام انساینت کے ٹھیکیداروں کے مطالم کا شکار ہوکر نابود ہوگئے۔
ریڈ انڈین ( سرخ ہندی ) ہزاروں سال قبل مسیح سے امریکہ میں متمدن اور پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اصل مرکز ’’ اوکلاہوما ‘‘ تھا۔ جہاں آج صرف چند ہزار ریڈ انڈین بچے ہیں اور ان کی پچاس زبانوں میں صرف اپاچی باقی ہے۔ یورپ کے مہذب مداخلت کاروں نے اعلان کیا کہ مغربی تہذیب کے لیے ریڈ انڈین قبائل کا خاتمہ ضروری ہے۔ نعرہ دیا گیا کہ ریڈ انڈین ( سرخ ہندی) کو شہر بدر یا ختم کرد و۔ ۱۷۸۱ء میں دو سفید گھوڑے چوری کرنے کے جرم میں جنرل ٹوسن (Tosan) کی سربراہی میں ریڈ انڈین قبیلے کی اپاچی پر حملہ کر کے ۸ مرد اور۶۳۱عورتیں قتل کی گئیں۔ مرد بڑی تعداد میں پہلے ہی قتل کیے جا چکے تھے۔ عورتوں کے قتل سے پہلے اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس کارنامے پر مقامی اخبارDENVER NEWS نے قاتلوں کو مبارک باد دی اور اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ مرنے والوں کی تعداد کم ہے دوگنی ہو سکتی تھی۔
قاتلوں پر مقدمہ کا ڈھونگ رچایا گیا۔ مقدمہ چلا۔ عدالت نے ان مجرموں کو بری کرنے میں صرف نو منٹ لگائے کیونکہ مہذب عدالتیں گورے کے خلاف کسی ریڈ انڈین کی گواہی قبول نہیں کرتی تھیں۔ اگر کبھی ریڈ انڈین گورے کو قتل کر دیتے تو آج کی طرح ساری گوری نسلیں جمع ہو کر ان پر حملہ کرتیں۔ یورپین نسلیں ایک ہو کر ان پر حملہ کر دیتی اور غیر یورپین کے مقابلہ میں اپنے باہمی اختلافات بھلا دیتیں۔ MOCDOCریڈ انڈین قبیلے نے کیلی فورنیا کی سرحد پر جنرل کیبی کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا کہ جنرل شرمان کا حکم صادر ہوا کہ سوائی قبیلے کی عورتیں ، بچوں ،مردوں کے مکمل خاتمہ تک ہمیں نہایت سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے ان کے خلاف لڑنا ہوگا۔ غرض اس قبیلے کی مکمل نسل کشی اور ان کی زمینوں پر قبضہ کے بعد یہ جنگ ختم ہوئی۔ جارج واشنگٹن جیسا ہیرو اپنے جنرل کو ہدایت دیتا ہے کہ اِرکو قبیلے کی تمام باقیات کے خاتمہ تک امن کا کوئی نغمہ سننے کی ضرورت نہیں۔ تمام سرخ بھیڑیوں کو ختم کر دو۔ صدر واشنگٹن اور جیفر سن خود بہت سے غلام رکھتے تھے اور صدر انڈریو جیکسن جو ریڈ انڈین کا ہمدرد مشہور کیا گیا۔ اس کے دور میں ووٹ ڈالنے کا حق صرف گوروں کو حاصل تھا۔ اس نے صرف ایک گوری عورت یرغمال بنانے پر ریڈ انڈین کے ’’کریک ‘‘ قبیلے کی بستیوں کو تباہ کرنے اور ان کی بیوی بچوں کو قبضہ کر لینے کا حکم صادر کر دیا۔ چنانچہ 1803ء میں جو رحم دلانہ آپریشن کیا گیا اس میں کریک قبیلے کے دس ہزار، چیرو قبیلے کے چار ہزار، چاکٹ قبیلے کے چار ہزار باشندے ہلاک کیے گئے۔ امریکہ کے پانچویں عظیم ترین جمہوریت پسند صدر تھیوئرز روز ویلٹ کا ارشاد ہے کہ تمام جنگوں میں سب سے عظیم جنگ وہ ہے جو ریڈ انڈین وحشیوں کے خلاف لڑی گئی ( چونکہ براعظم امریکہ پر غاصبانہ قبضے نے یورپ کی گوری نسلوں کو دنیا بھر کی اقوام پر حملہ کرنے کے قابل بنا دیا )۔
کیلی فورنیا میں لاکھوں مردوں اور عورتوں کو جبراً علاحدہ کیا گیا۔ان میں بھیانک بیماریاں عام کی گئیں۔ لڑکیوں کو طوائف بننے پر مجبور کیا گیا۔ چنانچہ1860 سے1884 ۲۱سال کی مدت میں صرف کیلی فورنیا میں ریڈ انڈین کی آبادی ۵۱ لاکھ سے کم ہو کر صرف ۱۳ہزار رہ گئی۔ قانوناً ریڈ انڈین کوقتل کرنے کی پوری آزادی تھی اس پر کوئی سزا نہیں تھی۔ ریڈ انڈین جہاں چلتے پھرتے نظر آتے گولیوں سے اڑا دیے جاتے۔ قتل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ انھیں ہیرو کا درجہ دیا جاتا۔ عورتوں بچوں تک کے قتل کی کھلی آزادی تھی۔ ریڈ انڈین جہاں چلتے پھرتے نظر آتے، ان کو پکڑ کر زنجیروں میں جکڑ کر جبری مزدور بنا لیا جاتا۔ اس کام کے لیے ہر جگہ لاکھوں ڈالر مختص کیے جاتے۔۔ یورپین غاصب ان بے چاروں سے آئے دن معاہدے کرتے پھر معاہدے توڑ کر ان پر حملہ کر دیا جاتا۔ یہی یورپین فطرت اورثقافت آج بھی ہے۔ ریڈ انڈین کو جن دشوار گزار خطرناک علاقوں میں دھکیلا گیا۔ وہ اتنے تنگ اور سنگلاخ تھے کہ وہاں اتنے لوگ سما نہیں سکتے تھے۔ اس طرح وہ خود بخود موت کے منہ میں چلے جاتے۔ کروڑوں ریڈ انڈین کے قتل عام کے علاوہ ان میں بیماریاں پھیلانے کے لیے مخصوص چیچک زدہ کمبل دیے گئے کہ چیچک کی وبا عام ہو۔ تا کہ ان کی موت کا ذمہ دار گردشِ آسمانی کو ٹھہرایا جا سکے اور گورے قاتل ہر الزام سے بری ہو کر انسانیت و تہذیب کے معلم بنے رہیں۔ غرض اسی فیصد براہِ راست قتل نہیں کیے گئے بلکہ بالواسطہ ان کے مرنے کے لیے حالات پیدا کیے گئے۔یورپین نوآبادکار امریکہ کے اصل باشندوں کو کرسچن بنانا بھی نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے جملہ وسائل اور ہزار ہا سال کی دولت ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے ان کا وجود ختم کرنا ضروری تھا۔ یورپ اور امریکہ نے اپنے ان قدیم باشندوں کو برابری کے حقوق نہیں دیئے، اس لیے جن ریڈانڈین نے عیسائیت قبول کی اور یورپی کلچر اورتمدن کو اختیار کیا، ان کو بھی کبھی مغربی گورے معاشرہ نے دل سے قبول نہیں کیا۔2006میں امریکہ میں سونامی کے سمندری طوفان میں دیکھا گیا۔ہسپتالوں اور اولڈہومز (بوڑھوں کے گھروں )تک سے چن چن کر گورے مریضوں اور بوڑھوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیااور کالے عیسائی مریضوں اور بوڑھوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہی عیسائیت قبو ل کرنے والے ریڈ انڈین کے ساتھ ہوا۔ بے رحمانہ قتل کے ساتھ ان کی جلاوطنی کا عمل ایسی بے رحمی اور شقاوتِ قلبی سے کیاگیا۔ان غریبوں کو خطرناک دشوار گزار غیر آباد علاقوں میں بندوق کے زور پر ہانک دیا جاتا کہ ہزارہا بوڑھے عورتیں بچے بھوک ،پیاس، خطرناک سفر کی صعوبتوں اور بیماریوں سے لقمہ اجل بن جاتے۔ Hoxicکی مشہور کتاب KILL THE INDIAN SPARE THE MEN میں لرزہ خیزتفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں کہ یورپین جلادوں نے امریکی باشندوں پر اورغیر یورپین نسل پر دنیا بھر میں ہرہردور میں کیسے بھیانک مظالم ڈھائے۔ آج بھی کسی گوری چمڑی والے کو کالے کرسچین کا اپنے چرچ میں آنا پسند نہیں۔ پوپ کی نجی فوج آج تک سویٹزر لینڈ کی گوری نسل ہی سے رہی ہے۔ مغرب کی پوری تاریخ نسل پرستی اور انسانیت دشمنی کا شاہکار ہے۔رومن امپائر نے عیسائیت قبول کرنے کے بعد یورپ اوراطراف کے ممالک کے80 فی صد قبیلوں کا قتل عام کیا اور 20فیصد کوکرسچن بنا کرغلامی میں لیا۔ یورپ کی اڑھائی سو سالہ مقدس مذہبی صلیبی جنگوں میں روم سے لے کر فلسطین تک راستے کے تمام شہروں کو ملاکر خاکستر کیا گیا اور شہریوں کا قتل عام ہوا۔ ان میں مشرقی رومن امپائر کے کئی ملکوں کے کرسچن شہری بھی تھے۔ یورپ کی یہ ذہنیت ہمیشہ سے رہی ہے۔گزشتہ سالوں میں عراق اورافغانستان میں30 لاکھ سے زیادہ بے قصور عوام فضائی بمباری سے قتل کیے گئے۔بش ،ڈک چینی ،رمزفیلڈ جیسے’’ مہذب ‘‘لوگوں نے کبھی اس درندگی پر ایک لفط کی بھی معذرت نہیں کی۔ البتہ سفاک امریکی فوجیوں کوہر جگہ ہیروبتا کر خراج تحسین پیش کرتے نظرآتے ہیں۔یورپ کے ذہن ،فکر ونفسیات میں یہ بات داخل ہے کہ ساری انسانیت (غیر یورپی) ان کی اطاعت یا ان کے ہاتھوں سزا پانے کے لیے خدا نے پیدا کی ہے۔ جدید تحقیقات کے لیے دیکھیے: انسائیکلوپیڈیا آف وائلنس یا کیلی فورنیا کے سوشیالوجی یونیورسٹی کے معروف پروفیسر مائیکل مین کی کتب۔ مائیکل مین کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ یورپ کی اس مہذب نسل نے صرف بیسویں صدی میں ۳۳کروڑ انسانوں کا دنیا بھر میں قتل عام کیا اور 17کروڑ بے قصور انسانوں کو بھیانک اذیت ناک سزائیں دیں۔ باقی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں جو انسانیت کا قتل عام ہے ان میں بھی زیادہ تر چینی شہنشاہوں، تاتاریوں اور بھارت کے منووادیوں (برہمن) نے کروڑوں بھارت کے اصل باشندوں اوربدھوں کا قتل عام شامل ہے۔ پروفیسر مائیکل مین کی یورپین اقوام کے ہاتھوں انسانیت کی نسل کشی پر کئی تحقیقی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں 2005 میں دی ڈارک سائڈ آف ڈیموکریسی اور2004 جمہوریت اورنسل کشی میں فطری تعلق خاص طور پر اہم ہیں ان کے بعض اہم مضامین لندن سے ہونے والے رسالے ’’نیو لائف ایویو‘‘ میں بھی چھپ چکے ہیں۔ (انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس بیس کنسلٹنگ۳حصے) اکیڈمی پریس1997 کے مطابق گذشتہ تین ہزار سالوں میں یعنی ۱۲۲ قبل مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک تقریباً تیس کروڑ چالیس لاکھ افراد قتل ہوئے اوریورپین غلبہ کے بعد صرف افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑکر جہاز بھر بھر کر غلام بنا کر لانے کے سلسلہ میں ایک کروڑستر لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ حیوانیت ودرندگی کا یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہیمت وبے رحمی کے ساتھ بر اعظم آسٹریلیا میں دہرایا گیا۔ جدید تحقیقات کے مطابق برّاعظم آسٹریلیا کے باشندوں کی خاصی تعداد مسلمان تھی اور ان کا عرب جہاز رانوں کے ذریعہ باقی دنیا سے رابطہ تھا۔ وہ اسلام کی درخشان مہذب عالمی تہذیب کا حصہ تھے۔ یورپ کی سفیدچمڑی والی حیوانی نسل نے اس بری طرح اس پورے برّاعظم میں نسل کشی کی کہ پورے برّاعظم میں ایک بچہ تک زندہ نہیں چھوڑا جودنیا کو یورپی درندگی کی کہانی سنا سکے۔ بیسویں صدی میں یہی دہشت گردی اور درندگی کا عمل باقی دنیا کی اقوام وتہذیبوں کے ساتھ دہرایا جارہا ہے۔
امریکہ کے اپنے جاری کردہ جرائم کے مطابق امریکی مسلح افواج نے 1776 عیسوی سے لیکر اب تک دو سو بیس مرتبہ مختلف ممالک کے خلاف جنگیں کی ہیں۔گویا دو سو چونتیس سالوں میں دو سو بیس جنگیں۔ تاکہ اقتصادی اور سیاسی دباؤ سے دوسرے ممالک میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لئی جائے۔ ہلاکو،چنگیز،تیمور اور ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی کل تعداد تقریبا" تہتر ملین بنتی ہے جبکہ اکیلا امریکہ ایک سو ستر ملین سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا باعث بن چکا ہے۔امریکہ نے ایک سو ملین ریڈ انڈین،ساٹھ ملین افریقی،دس ملین ویت نامی ایک ملین عراقی اور تقریبا" نصف ملین افغانیوں کو موت کی گھاٹ اتارا ہے۔ان سب کو ملایا جائے تو 171.5 ملین انسان بنتے ہیں جنہیں بلاواسطہ امریکی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا۔کولمبس نے 1492ء میں جب امریکہ دریافت کیا تو اس کی اس مہم میں کئی مسلمان جہاز راں بھی شامل تھے۔ اور کولمبس کے بیٹے فرنانڈو کولون نے اپنی کتاب تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے جینووا کے مسلمان جہاز رانوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سفر کر کے متبادل راستے کے ذریعے ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی ‘‘دریافت’’ کے اس تاریخی سفر میں دو ایسے جہاز راں بھی کولمبس کے ہمراہ تھے جن کے اجداد مسلمان تھے۔ ان جہاز رانوں کے نام مارٹن الونسو پنزون Martin Alonso Pinzon اور ویسنٹ یانیز پنزون Vicente Yanex Pinzon تھے جو بالترتیب PINTA اور NINA جہازوں کے کپتان اور آپس میں بھائی تھے۔ یہ دونوں امیر کبیر اور ماہر کاریگر تھے اور سفر کے دوران انہوں نے پرچم بردار جہاز SANTA MARIA کی مرمت بھی کی تھی۔ پنزون خاندان کا تعلق مرینی خاندان کے سلطان ابو زیان محمد ثالث (1362ء تا 1366ء ) سے تھا۔
کولمبس کا بیٹا فرنانڈو کولون یہ بھی لکھتا ہے کہ پوائنٹ کاویناس کے مشرقی علاقوں میں رہنے والی آبادی سیاہ فام تھی اور اسی علاقے میں ایک مسلم نسل کا قبیلہ ‘‘المامی’’ بھی آباد تھا۔ مینڈینکا اور عربی زبان میں المامی ‘‘الامام’’ یا ‘‘الامامو’’ سے مشتق لگتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی یا قبائلی یا برادری کی سطح پر اعلٰی حیثیت کے حامل تھے۔
حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار سب سے پہلے برطانیہ اور امریکہ نے تیار کیے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے تھے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلا گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے جا سکتے ہوں یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں۔ 1756-1763 میں فرانسیسیوں نے امریکہ کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈین) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے یعنی انھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جن کو خسرہ تھی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے پہلے یورپی بیماریاں نہیں تھیں اور مقامی باشندے آسانی سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ھنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر بیچے۔ بیسویں صدی میں امریکہ میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے-
ایڈز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی طور پر تیار کردہ جراثیموں کی مدد سے پھیلی۔ اور یہ امریکہ نے اپنی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے تھے۔ یہ فوجی تجربہ گاہ فورٹ ڈسٹرکٹ، میری لینڈ، امریکہ میں واقع ہے۔ اور USAMRIID کہلاتی ہے۔ امریکی کی خوبصورتی میں بھی اصل حصہ ریڈ انڈین کا ہے، جن کے علاقوں پر قبضہ کر کرکے انھیں بے دخل کردیا گیا۔ جھیل مشی گن شمالی امریکہ میں 5 عظیم جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ اس سلسلے کی واحد جھیل ہے جو مکمل طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں واقع ہے۔ اس کے گرد امریکہ کی ریاستیں انڈیانا، الینوائے، وسکونسن اور مشی گن واقع ہیں۔ اس کا نام قدیم ریڈ انڈین باشندوں کی زبان کے لفظ مشیگامی سے نکلا ہے جس کا مطلب "عظیم پانی" ہے۔ مشی گن ریاست کا نام اسی جھیل سے نکلا ہے۔ یہ جھیل رقبے میں کروشیا سے تھوڑی سی بڑی ہے۔
جھیل مشی گن کے کنارے آباد قدیم ترین لوگوں میں ہوپ ویل انڈین بھی تھے۔ ان کی ثقافت 800 عیسوی میں زوال پذیر ہوئی اور اگلے کئی سو سال تک اس علاقے پر لیٹ وڈ لینڈانڈین لوگوں کا قبضہ رہا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں یہاں مغربی یورپ سے مہم جو آئے جن کا سامنا لیٹ وڈ انڈین قبائل سے ہوا۔ سمجھا جاتا ہے کہ فرانسیسی مہم جو جین نکولٹ وہ پہلا غیر امریکی تھا جس نے 1634 یا 1638 میں جھیل مشی گن دریافت کی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں فرانسیسیوں نے اس جھیل کے کنارے چھوٹی چھوٹی بندرگاہیں بنائیں۔جھیل مشی گن کے ساحل پر پہلی بار 1779 میں آباد کاری شروع ہوئی۔ یہ آج کے شکاگو شہر کی جگہ تھی۔جھیل مشی گن عظیم جھیلوں میں سے واحد جھیل ہے جو مکمل طور پر امریکہ کے ملک میں موجود ہے۔ باقی تمام جھیلیں امریکہ اور کینیڈا کے مابین مشترک ہیں۔ اس جھیل کا کل رقبہ 22400 مربع میل ہے۔ یہ جھیل رقبے کے اعتبار سے کسی ایک ملک میں موجود سب سے بڑی جھیل ہے۔جھیل مشی گن کے کنارے پر ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ لیکن شائد ہی کسی کو یہاں کے قدیم باشندوں ریڈ انڈین کا خیال آتا ہوگا۔
یہ ہے وہ قتل جو یورپ نے کروڑوں انسانوں کی نسل مٹا کر کیا لیکن ملحد کہتے ہیں کہ یورپ نے سائنس کے ذریعے جانیں بچائیں۔اس قتل پر ملحد خاموش ہیں۔ان کی ساری بکواس صرف اسلام کےخلاف ہوتی ہے۔
حوالہ۔۔۔۔
http://appkiawaz.blogspot.com/2015/07/blog-post_65.html?m=1
ریڈین انڈین کہاں گئے
تحریر۔۔اسد عادل
آج دنیا میں امریکہ سماج اور معاشرہ کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے، اور قبائل کو ختم کرکے اپنا کلچر مسلط کرنا چاہتا ہے، دنیا کی تاریخ میں قدامت پسند قبائل کا کلچر اپنی جداگانہ حیثیت رکھتا ہے، امریکہ جو افغانستان اور پاکستان کے قبائل اور ان کی روایات کے خلاف انھیں سرنگوں کرنے کی مہم میں مصروف ہے، آج تک اپنے ملک سے قبائیلی رویات کو ختم نہ کرسکا، امریکی ریڈ انڈین باشندے آج بھی اپنی روایات پر قائم ہیں، ان کی بستیوں میں جدید ساز و سامان اور ترقی بھی مفتود ہے او وہ اپنے قدیم رسوم رواج پر قائم ہیں۔ ریڈ انڈین ( سرخ ہندی) امریکہ کے اصل باشندے ہیں ، جو تقریباً پندرہ تا بیس ہزار سال قبل ، آبنائے بیرنگ عبور کرکے ، شمال مشرقی ایشیاء سے براعظم شمالی امریکہ پہنچے تھے۔ زیادہ تر لوگ منگول نسل کے ہیں۔ اگرچہ دیگر اقوام کے ساتھ اختلاط سے ان کی کئی قسمیں ہو گئی ہیں تاہم اب بھی بھوری جلد ، سیدھے ، کھردرے ، سیاہ بالوں اور بھوری آنکھوں کی وجہ سے ان میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ زراعت پیشہ تھے۔ مٹر ، تربوز ، آلو اور تمباکو کاشت کرتے ، پتھر کے اوزار بناتے اور آگ سے واقف تھے۔ کچھ عرصے بعد ان میں سے بعض قبائل وسطی اور جنوبی امریکہ کے علاقوں میں جا کر آباد ہوگئے۔
جب کولمبس امریکا پہنچا تو اس مغربی نصف کرہ ارض پر بعض روایات کے مطابق 80 لاکھ اور بعض روایات کے بموجب سات کروڑ انڈین آباد تھے۔ مؤرخین کی اکثریت دو کروڑ پر متفق ہے۔ چونکہ کولمبس کے خیال کے مطابق وہ انڈیا پہنچ گیا تھا اس نے ان لوگوں کو انڈین کا نام دیا۔ بعد میں ہندوستان سے تمیز کرنے کے لیے انھیں ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی کہا جانے لگا۔ بعد میں وسطی امریکہ اور جنوبی امریکا کے انڈین بعد میں آنے والے لوگوں میں گھل مل گئے جس سے ایک نئی نسل وجود میں آئی۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ریڈ انڈین کی تعداد میں کمی کے اسباب میں آب و ہوا کی تبدیلی اور وبائی امراض بتائے جاتے ہیں لیکن مورخین کے بقول اس کا اصل سبب سفید فام آباد کاروں کے ہاتھوں ان کی نسل کشی ہے۔ ایک محقق مولانا محمد عیسیٰ منصوری (لندن ) کا کہنا ہے کہ برِ اعظم امریکہ کی دریافت مغربی دنیا ایک یہودی نائٹس ( فری میسن ) کولمبس سے منسوب کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ برِاعظم حضرت مسیح علیہ السلام سے ۵۲ہزار سال پہلے آباد تھا اور مختلف زمانوں میں یہاں انسانی قافلے آتے جاتے رہے۔ کولمبس جس بحری جہاز کے ذریعہ امریکہ پہنچا۔ اس کا ملاح بھی ایک عرب جہاز راں تھا اور کولمبس کے پاس بحری راستوں کے عربوں کے تیار کردہ نقشے تھے لیکن مغربی انا پرستی کسی مسئلہ میں کسی غیر یورپی کی برتری تسلیم نہیں کر سکتی۔ کولمبس سے پہلے وہاں متمدن آبادیاں تھیں جو منضبط قوانین و ضابطوں کے تحت زندگی گزارتی تھی۔ امریکہ کی آبادی افریقہ اور یورپ کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔ شمالی امریکہ دنیا کے 7 براعظموں میں سے ایک براعظم ہے۔ اس براعظم میں کینیڈا اور امریکہ اہم ممالک ہیں۔ اس براعظم کے قدیم باشندوں کو سرخ ہندی ریڈ انڈین قوم کے نام سے پکارا جاتا ہے 1492 میں کولمبس اور اس کے ساتھ آنے والے اور بعد میں آنے والے نوآباد کار یوروپین کی دہشت ناک خونی سرگرمیوں کے نتیجے میں ریڈ انڈینز کا تقریبا خاتمہ ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں اب اس وقت دونوں امریکی بر آعظموں میں ریڈ انڈینز نہ ہونے کے برابر ہو گئے ہیں -
آج مغربی دنیا میں کولمبس کو ایک عظیم ہیرو کی حیثیت حاصل ہے جس نے یورپ کو لوٹ مار کے لیے ایک وسیع و عظیم شکار گاہ فراہم کی۔ اس لیے نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ میں سب سے زیادہ اس دیوتا کے مجسمہ نظر آئیں گے۔ کولمبس کے امریکہ پہنچنے کے صرف ۱۳سالوں میں اسی لاکھ ریڈ انڈین کا قتل عام کیا گیا اورپھر پندرہویں صدی کے اختتام تک امریکہ کی ریڈ انڈین آبادی جو ساڑھے نو کروڑ کے لگ بھگ تھی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے مشہور پروفیسر مائیکل مین کی معروف تحقیقی کتاب THE DARK SIDE OF DEMOCRACYکے مطابق صرف دو صدیوں کے بعد ان کی آبادی بڑھنے کے بجائے صرف پچاس لاکھ رہ گئی۔ باقی نو(۹) کروڑ ریڈ انڈین سفید فام انساینت کے ٹھیکیداروں کے مطالم کا شکار ہوکر نابود ہوگئے۔
ریڈ انڈین ( سرخ ہندی ) ہزاروں سال قبل مسیح سے امریکہ میں متمدن اور پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اصل مرکز ’’ اوکلاہوما ‘‘ تھا۔ جہاں آج صرف چند ہزار ریڈ انڈین بچے ہیں اور ان کی پچاس زبانوں میں صرف اپاچی باقی ہے۔ یورپ کے مہذب مداخلت کاروں نے اعلان کیا کہ مغربی تہذیب کے لیے ریڈ انڈین قبائل کا خاتمہ ضروری ہے۔ نعرہ دیا گیا کہ ریڈ انڈین ( سرخ ہندی) کو شہر بدر یا ختم کرد و۔ ۱۷۸۱ء میں دو سفید گھوڑے چوری کرنے کے جرم میں جنرل ٹوسن (Tosan) کی سربراہی میں ریڈ انڈین قبیلے کی اپاچی پر حملہ کر کے ۸ مرد اور۶۳۱عورتیں قتل کی گئیں۔ مرد بڑی تعداد میں پہلے ہی قتل کیے جا چکے تھے۔ عورتوں کے قتل سے پہلے اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس کارنامے پر مقامی اخبارDENVER NEWS نے قاتلوں کو مبارک باد دی اور اس پر افسوس کا اظہار کیاکہ مرنے والوں کی تعداد کم ہے دوگنی ہو سکتی تھی۔
قاتلوں پر مقدمہ کا ڈھونگ رچایا گیا۔ مقدمہ چلا۔ عدالت نے ان مجرموں کو بری کرنے میں صرف نو منٹ لگائے کیونکہ مہذب عدالتیں گورے کے خلاف کسی ریڈ انڈین کی گواہی قبول نہیں کرتی تھیں۔ اگر کبھی ریڈ انڈین گورے کو قتل کر دیتے تو آج کی طرح ساری گوری نسلیں جمع ہو کر ان پر حملہ کرتیں۔ یورپین نسلیں ایک ہو کر ان پر حملہ کر دیتی اور غیر یورپین کے مقابلہ میں اپنے باہمی اختلافات بھلا دیتیں۔ MOCDOCریڈ انڈین قبیلے نے کیلی فورنیا کی سرحد پر جنرل کیبی کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا کہ جنرل شرمان کا حکم صادر ہوا کہ سوائی قبیلے کی عورتیں ، بچوں ،مردوں کے مکمل خاتمہ تک ہمیں نہایت سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے ان کے خلاف لڑنا ہوگا۔ غرض اس قبیلے کی مکمل نسل کشی اور ان کی زمینوں پر قبضہ کے بعد یہ جنگ ختم ہوئی۔ جارج واشنگٹن جیسا ہیرو اپنے جنرل کو ہدایت دیتا ہے کہ اِرکو قبیلے کی تمام باقیات کے خاتمہ تک امن کا کوئی نغمہ سننے کی ضرورت نہیں۔ تمام سرخ بھیڑیوں کو ختم کر دو۔ صدر واشنگٹن اور جیفر سن خود بہت سے غلام رکھتے تھے اور صدر انڈریو جیکسن جو ریڈ انڈین کا ہمدرد مشہور کیا گیا۔ اس کے دور میں ووٹ ڈالنے کا حق صرف گوروں کو حاصل تھا۔ اس نے صرف ایک گوری عورت یرغمال بنانے پر ریڈ انڈین کے ’’کریک ‘‘ قبیلے کی بستیوں کو تباہ کرنے اور ان کی بیوی بچوں کو قبضہ کر لینے کا حکم صادر کر دیا۔ چنانچہ 1803ء میں جو رحم دلانہ آپریشن کیا گیا اس میں کریک قبیلے کے دس ہزار، چیرو قبیلے کے چار ہزار، چاکٹ قبیلے کے چار ہزار باشندے ہلاک کیے گئے۔ امریکہ کے پانچویں عظیم ترین جمہوریت پسند صدر تھیوئرز روز ویلٹ کا ارشاد ہے کہ تمام جنگوں میں سب سے عظیم جنگ وہ ہے جو ریڈ انڈین وحشیوں کے خلاف لڑی گئی ( چونکہ براعظم امریکہ پر غاصبانہ قبضے نے یورپ کی گوری نسلوں کو دنیا بھر کی اقوام پر حملہ کرنے کے قابل بنا دیا )۔
کیلی فورنیا میں لاکھوں مردوں اور عورتوں کو جبراً علاحدہ کیا گیا۔ان میں بھیانک بیماریاں عام کی گئیں۔ لڑکیوں کو طوائف بننے پر مجبور کیا گیا۔ چنانچہ1860 سے1884 ۲۱سال کی مدت میں صرف کیلی فورنیا میں ریڈ انڈین کی آبادی ۵۱ لاکھ سے کم ہو کر صرف ۱۳ہزار رہ گئی۔ قانوناً ریڈ انڈین کوقتل کرنے کی پوری آزادی تھی اس پر کوئی سزا نہیں تھی۔ ریڈ انڈین جہاں چلتے پھرتے نظر آتے گولیوں سے اڑا دیے جاتے۔ قتل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ انھیں ہیرو کا درجہ دیا جاتا۔ عورتوں بچوں تک کے قتل کی کھلی آزادی تھی۔ ریڈ انڈین جہاں چلتے پھرتے نظر آتے، ان کو پکڑ کر زنجیروں میں جکڑ کر جبری مزدور بنا لیا جاتا۔ اس کام کے لیے ہر جگہ لاکھوں ڈالر مختص کیے جاتے۔۔ یورپین غاصب ان بے چاروں سے آئے دن معاہدے کرتے پھر معاہدے توڑ کر ان پر حملہ کر دیا جاتا۔ یہی یورپین فطرت اورثقافت آج بھی ہے۔ ریڈ انڈین کو جن دشوار گزار خطرناک علاقوں میں دھکیلا گیا۔ وہ اتنے تنگ اور سنگلاخ تھے کہ وہاں اتنے لوگ سما نہیں سکتے تھے۔ اس طرح وہ خود بخود موت کے منہ میں چلے جاتے۔ کروڑوں ریڈ انڈین کے قتل عام کے علاوہ ان میں بیماریاں پھیلانے کے لیے مخصوص چیچک زدہ کمبل دیے گئے کہ چیچک کی وبا عام ہو۔ تا کہ ان کی موت کا ذمہ دار گردشِ آسمانی کو ٹھہرایا جا سکے اور گورے قاتل ہر الزام سے بری ہو کر انسانیت و تہذیب کے معلم بنے رہیں۔ غرض اسی فیصد براہِ راست قتل نہیں کیے گئے بلکہ بالواسطہ ان کے مرنے کے لیے حالات پیدا کیے گئے۔یورپین نوآبادکار امریکہ کے اصل باشندوں کو کرسچن بنانا بھی نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے جملہ وسائل اور ہزار ہا سال کی دولت ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے ان کا وجود ختم کرنا ضروری تھا۔ یورپ اور امریکہ نے اپنے ان قدیم باشندوں کو برابری کے حقوق نہیں دیئے، اس لیے جن ریڈانڈین نے عیسائیت قبول کی اور یورپی کلچر اورتمدن کو اختیار کیا، ان کو بھی کبھی مغربی گورے معاشرہ نے دل سے قبول نہیں کیا۔2006میں امریکہ میں سونامی کے سمندری طوفان میں دیکھا گیا۔ہسپتالوں اور اولڈہومز (بوڑھوں کے گھروں )تک سے چن چن کر گورے مریضوں اور بوڑھوں کو نکال کر محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیااور کالے عیسائی مریضوں اور بوڑھوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ یہی عیسائیت قبو ل کرنے والے ریڈ انڈین کے ساتھ ہوا۔ بے رحمانہ قتل کے ساتھ ان کی جلاوطنی کا عمل ایسی بے رحمی اور شقاوتِ قلبی سے کیاگیا۔ان غریبوں کو خطرناک دشوار گزار غیر آباد علاقوں میں بندوق کے زور پر ہانک دیا جاتا کہ ہزارہا بوڑھے عورتیں بچے بھوک ،پیاس، خطرناک سفر کی صعوبتوں اور بیماریوں سے لقمہ اجل بن جاتے۔ Hoxicکی مشہور کتاب KILL THE INDIAN SPARE THE MEN میں لرزہ خیزتفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں کہ یورپین جلادوں نے امریکی باشندوں پر اورغیر یورپین نسل پر دنیا بھر میں ہرہردور میں کیسے بھیانک مظالم ڈھائے۔ آج بھی کسی گوری چمڑی والے کو کالے کرسچین کا اپنے چرچ میں آنا پسند نہیں۔ پوپ کی نجی فوج آج تک سویٹزر لینڈ کی گوری نسل ہی سے رہی ہے۔ مغرب کی پوری تاریخ نسل پرستی اور انسانیت دشمنی کا شاہکار ہے۔رومن امپائر نے عیسائیت قبول کرنے کے بعد یورپ اوراطراف کے ممالک کے80 فی صد قبیلوں کا قتل عام کیا اور 20فیصد کوکرسچن بنا کرغلامی میں لیا۔ یورپ کی اڑھائی سو سالہ مقدس مذہبی صلیبی جنگوں میں روم سے لے کر فلسطین تک راستے کے تمام شہروں کو ملاکر خاکستر کیا گیا اور شہریوں کا قتل عام ہوا۔ ان میں مشرقی رومن امپائر کے کئی ملکوں کے کرسچن شہری بھی تھے۔ یورپ کی یہ ذہنیت ہمیشہ سے رہی ہے۔گزشتہ سالوں میں عراق اورافغانستان میں30 لاکھ سے زیادہ بے قصور عوام فضائی بمباری سے قتل کیے گئے۔بش ،ڈک چینی ،رمزفیلڈ جیسے’’ مہذب ‘‘لوگوں نے کبھی اس درندگی پر ایک لفط کی بھی معذرت نہیں کی۔ البتہ سفاک امریکی فوجیوں کوہر جگہ ہیروبتا کر خراج تحسین پیش کرتے نظرآتے ہیں۔یورپ کے ذہن ،فکر ونفسیات میں یہ بات داخل ہے کہ ساری انسانیت (غیر یورپی) ان کی اطاعت یا ان کے ہاتھوں سزا پانے کے لیے خدا نے پیدا کی ہے۔ جدید تحقیقات کے لیے دیکھیے: انسائیکلوپیڈیا آف وائلنس یا کیلی فورنیا کے سوشیالوجی یونیورسٹی کے معروف پروفیسر مائیکل مین کی کتب۔ مائیکل مین کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ یورپ کی اس مہذب نسل نے صرف بیسویں صدی میں ۳۳کروڑ انسانوں کا دنیا بھر میں قتل عام کیا اور 17کروڑ بے قصور انسانوں کو بھیانک اذیت ناک سزائیں دیں۔ باقی پانچ ہزار سالہ معلوم تاریخ میں جو انسانیت کا قتل عام ہے ان میں بھی زیادہ تر چینی شہنشاہوں، تاتاریوں اور بھارت کے منووادیوں (برہمن) نے کروڑوں بھارت کے اصل باشندوں اوربدھوں کا قتل عام شامل ہے۔ پروفیسر مائیکل مین کی یورپین اقوام کے ہاتھوں انسانیت کی نسل کشی پر کئی تحقیقی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں 2005 میں دی ڈارک سائڈ آف ڈیموکریسی اور2004 جمہوریت اورنسل کشی میں فطری تعلق خاص طور پر اہم ہیں ان کے بعض اہم مضامین لندن سے ہونے والے رسالے ’’نیو لائف ایویو‘‘ میں بھی چھپ چکے ہیں۔ (انسائیکلو پیڈیا آف وائلنس بیس کنسلٹنگ۳حصے) اکیڈمی پریس1997 کے مطابق گذشتہ تین ہزار سالوں میں یعنی ۱۲۲ قبل مسیح سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام تک تقریباً تیس کروڑ چالیس لاکھ افراد قتل ہوئے اوریورپین غلبہ کے بعد صرف افریقی باشندوں کو پکڑ پکڑکر جہاز بھر بھر کر غلام بنا کر لانے کے سلسلہ میں ایک کروڑستر لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ حیوانیت ودرندگی کا یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہیمت وبے رحمی کے ساتھ بر اعظم آسٹریلیا میں دہرایا گیا۔ جدید تحقیقات کے مطابق برّاعظم آسٹریلیا کے باشندوں کی خاصی تعداد مسلمان تھی اور ان کا عرب جہاز رانوں کے ذریعہ باقی دنیا سے رابطہ تھا۔ وہ اسلام کی درخشان مہذب عالمی تہذیب کا حصہ تھے۔ یورپ کی سفیدچمڑی والی حیوانی نسل نے اس بری طرح اس پورے برّاعظم میں نسل کشی کی کہ پورے برّاعظم میں ایک بچہ تک زندہ نہیں چھوڑا جودنیا کو یورپی درندگی کی کہانی سنا سکے۔ بیسویں صدی میں یہی دہشت گردی اور درندگی کا عمل باقی دنیا کی اقوام وتہذیبوں کے ساتھ دہرایا جارہا ہے۔
امریکہ کے اپنے جاری کردہ جرائم کے مطابق امریکی مسلح افواج نے 1776 عیسوی سے لیکر اب تک دو سو بیس مرتبہ مختلف ممالک کے خلاف جنگیں کی ہیں۔گویا دو سو چونتیس سالوں میں دو سو بیس جنگیں۔ تاکہ اقتصادی اور سیاسی دباؤ سے دوسرے ممالک میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لئی جائے۔ ہلاکو،چنگیز،تیمور اور ہٹلر کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی کل تعداد تقریبا" تہتر ملین بنتی ہے جبکہ اکیلا امریکہ ایک سو ستر ملین سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا باعث بن چکا ہے۔امریکہ نے ایک سو ملین ریڈ انڈین،ساٹھ ملین افریقی،دس ملین ویت نامی ایک ملین عراقی اور تقریبا" نصف ملین افغانیوں کو موت کی گھاٹ اتارا ہے۔ان سب کو ملایا جائے تو 171.5 ملین انسان بنتے ہیں جنہیں بلاواسطہ امریکی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا۔کولمبس نے 1492ء میں جب امریکہ دریافت کیا تو اس کی اس مہم میں کئی مسلمان جہاز راں بھی شامل تھے۔ اور کولمبس کے بیٹے فرنانڈو کولون نے اپنی کتاب تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے جینووا کے مسلمان جہاز رانوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سفر کر کے متبادل راستے کے ذریعے ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی ‘‘دریافت’’ کے اس تاریخی سفر میں دو ایسے جہاز راں بھی کولمبس کے ہمراہ تھے جن کے اجداد مسلمان تھے۔ ان جہاز رانوں کے نام مارٹن الونسو پنزون Martin Alonso Pinzon اور ویسنٹ یانیز پنزون Vicente Yanex Pinzon تھے جو بالترتیب PINTA اور NINA جہازوں کے کپتان اور آپس میں بھائی تھے۔ یہ دونوں امیر کبیر اور ماہر کاریگر تھے اور سفر کے دوران انہوں نے پرچم بردار جہاز SANTA MARIA کی مرمت بھی کی تھی۔ پنزون خاندان کا تعلق مرینی خاندان کے سلطان ابو زیان محمد ثالث (1362ء تا 1366ء ) سے تھا۔
کولمبس کا بیٹا فرنانڈو کولون یہ بھی لکھتا ہے کہ پوائنٹ کاویناس کے مشرقی علاقوں میں رہنے والی آبادی سیاہ فام تھی اور اسی علاقے میں ایک مسلم نسل کا قبیلہ ‘‘المامی’’ بھی آباد تھا۔ مینڈینکا اور عربی زبان میں المامی ‘‘الامام’’ یا ‘‘الامامو’’ سے مشتق لگتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی یا قبائلی یا برادری کی سطح پر اعلٰی حیثیت کے حامل تھے۔
حیاتیاتی یا جراثیمی ہتھیار سب سے پہلے برطانیہ اور امریکہ نے تیار کیے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے ایسے ہتھیار بھی تیار کیے تھے جو زراعت کو نقصان پہنچاتے ہوں مثلا گندم اور چاول کی فصلوں کے مخصوص جراثیم جو کلسٹر بم کے ذریعے سے دشمن کے علاقے میں پھینکے جا سکتے ہوں یا ہوا میں چھڑکاؤ کیے جا سکتے ہوں۔ 1756-1763 میں فرانسیسیوں نے امریکہ کے قدیمی باشندوں (ریڈ انڈین) میں ایسے کمبل تقسیم کیے جن میں خسرہ کے جراثیم تھے یعنی انھیں ایسے لوگوں نے استعمال کیا تھا جن کو خسرہ تھی۔ یاد رہے کہ امریکہ میں اس سے پہلے یورپی بیماریاں نہیں تھیں اور مقامی باشندے آسانی سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ ایسے ہی کمبل 1834 میں رچرڈ ھنری نے سان فرانسسکو میں تقسیم کیے اور کئی مقامات پر بیچے۔ بیسویں صدی میں امریکہ میں باقاعدہ طور پر فورٹ ڈسٹرکٹ کی تجربہ گاہ میں کئی جراثیم جنگی نقطہ نظر سے تیار کیے گئے-
ایڈز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی طور پر تیار کردہ جراثیموں کی مدد سے پھیلی۔ اور یہ امریکہ نے اپنی ایک فوجی تجربہ گاہ میں تیار کیے تھے۔ یہ فوجی تجربہ گاہ فورٹ ڈسٹرکٹ، میری لینڈ، امریکہ میں واقع ہے۔ اور USAMRIID کہلاتی ہے۔ امریکی کی خوبصورتی میں بھی اصل حصہ ریڈ انڈین کا ہے، جن کے علاقوں پر قبضہ کر کرکے انھیں بے دخل کردیا گیا۔ جھیل مشی گن شمالی امریکہ میں 5 عظیم جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ اس سلسلے کی واحد جھیل ہے جو مکمل طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں واقع ہے۔ اس کے گرد امریکہ کی ریاستیں انڈیانا، الینوائے، وسکونسن اور مشی گن واقع ہیں۔ اس کا نام قدیم ریڈ انڈین باشندوں کی زبان کے لفظ مشیگامی سے نکلا ہے جس کا مطلب "عظیم پانی" ہے۔ مشی گن ریاست کا نام اسی جھیل سے نکلا ہے۔ یہ جھیل رقبے میں کروشیا سے تھوڑی سی بڑی ہے۔
جھیل مشی گن کے کنارے آباد قدیم ترین لوگوں میں ہوپ ویل انڈین بھی تھے۔ ان کی ثقافت 800 عیسوی میں زوال پذیر ہوئی اور اگلے کئی سو سال تک اس علاقے پر لیٹ وڈ لینڈانڈین لوگوں کا قبضہ رہا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں یہاں مغربی یورپ سے مہم جو آئے جن کا سامنا لیٹ وڈ انڈین قبائل سے ہوا۔ سمجھا جاتا ہے کہ فرانسیسی مہم جو جین نکولٹ وہ پہلا غیر امریکی تھا جس نے 1634 یا 1638 میں جھیل مشی گن دریافت کی۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں فرانسیسیوں نے اس جھیل کے کنارے چھوٹی چھوٹی بندرگاہیں بنائیں۔جھیل مشی گن کے ساحل پر پہلی بار 1779 میں آباد کاری شروع ہوئی۔ یہ آج کے شکاگو شہر کی جگہ تھی۔جھیل مشی گن عظیم جھیلوں میں سے واحد جھیل ہے جو مکمل طور پر امریکہ کے ملک میں موجود ہے۔ باقی تمام جھیلیں امریکہ اور کینیڈا کے مابین مشترک ہیں۔ اس جھیل کا کل رقبہ 22400 مربع میل ہے۔ یہ جھیل رقبے کے اعتبار سے کسی ایک ملک میں موجود سب سے بڑی جھیل ہے۔جھیل مشی گن کے کنارے پر ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ لیکن شائد ہی کسی کو یہاں کے قدیم باشندوں ریڈ انڈین کا خیال آتا ہوگا۔
یہ ہے وہ قتل جو یورپ نے کروڑوں انسانوں کی نسل مٹا کر کیا لیکن ملحد کہتے ہیں کہ یورپ نے سائنس کے ذریعے جانیں بچائیں۔اس قتل پر ملحد خاموش ہیں۔ان کی ساری بکواس صرف اسلام کےخلاف ہوتی ہے۔
حوالہ۔۔۔۔
http://appkiawaz.blogspot.com/2015/07/blog-post_65.html?m=1
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔