Monday 5 November 2018

میرے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب(حصہ چہارم)

میرے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب(حصہ چہارم)
************************************************
 آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
//اگر الیکٹرانز اور الیکٹرک فورس ہر جگہ موجود ہے اور خدا کی صفات ہوتے ہوے خدا بھی ہر جگہ موجود ہے تو اسکا مطلب ہے کہ یہ انسان میں بھی موجود ہے ...
اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ خدا کی صفات کو بھوک بھی لگتی ہے
خدا کی صفات کو نیند بھی آتی ہے
خدا کی صفات کو نقصان بھی پنھچتا ہے
خدا کی صفات جنتی بھی ہے اور جنی بھی جاتی ہے
خدا کی صفات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور احید صاحب کا یہ دعوی غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ سب سے طاقتور ہے ...
یہ مختصر سی خصوصیت بیان کی ہیں ، تفصیل میں جاؤں گا تو خدا کی صفات یا دوسرے لفظوں میں خدا ایسے ایسے ہوشربا کام کرتا ہوا نظر آئے گا جس پر مومنین کو بہت شرمندگی ہوگی .... اب خدا کی ان صفات کے افعال کی بنیاد پر آپ کو قران میں بہت ساری تبدیلیاں کرنی پڑیں گی جن سے ثابت ہو کہ خدا کی صفات کو نیند بھی آتی ہے اور بھوک بھی لگتی ہے وغیرہ وغیرہ ...
یہی دلائل تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ویکیوم انرجی پر بھی لاگو ہوتے ہیں ...//
یہاں عزازی صاحب خدا کی تخلیق یعنی الیکٹران اور الیکٹرک فورس کو خدا کی صفت قرار دے رہے ہیں جب کہ الیکٹران ویکیوم انرجی سے پیدا کیے۔ گئے جو کہ خدا کی ذات کی ایک نشانی ہے اور الیکٹرک فورس ان الیکٹران سے۔اور جو مخلوق ہے وہ خالق نہیں ہوسکتی۔اس طرح نہ ہی الیکٹران خدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس۔الیکٹران ایک مادہ ہیں اور تمام زندہ مردہ اشیاء میں موجود اور یہ پیدا کیے گئے۔اس لیے خدا نہیں ہوسکتے اور نہ ہی خدا کی صفت بلکہ خدا کی تخلیق ہیں اور ان کو رکھنے والے ایک زندہ وجود کی  ساری صفات یعنی نیند آنا،بھوک لگنا،بچے جننا کسی طرح بھی خالق کا مرتبہ کم نہیں کرتے کیوں کہ یہ تو خالق ہیں ہی نہیں بلکہ خالق کی مخلوق ہیں جو کہ ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے۔اس طرح عزازی صاحب کی ساری منطق جو الیکٹران اور الیکٹرک فورس کو خدا اور خدا کی صفت قرار دے کر نعوذ بااللہ قرآن کو غلط قرار دینے کے لیے استعمال کی گئ ہے،یہ منطق ساری کی ساری غلط ہے خود سائنس کے مطابق۔کیونکہ نیند،بھوک،بچے جننا خالق کی اس مخلوق کی صفت ہے جو مادہ رکھتی ہے اور یہ خصوصیات رکھنے والا مادہ پیدا کیا گیا لہذا یہ خدا نہیں ہوسکتا۔
 آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
//اگر وہ یہ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے کہ ان تینوں میں سے کوئی چیز بھی سائنسی موقف کے مطابق خدا نہیں ہے تو پھر قران کی اس آیت کو جھوٹا / غلط ماننا پڑے گا جس میں خدا کہتا ہے کہ اسکی مثل کوئی نہیں ....
ویکیوم انرجی ، الیکٹرانز یا الیکٹرک فورس کسی کو بھی خدا کی طرح فنا نہیں ہے ...
تینوں چیزیں خدا کی طرح ہر جگہ موجود ہیں ...
تینوں چیزیں خدا کی طرح وقت سے متاثر نہ ہونے والی ہیں
تینوں چیزیں ہر جگہ موجود ہوتے ہوے سب کچھ جانتی ہیں ...
گویا خدا کے مقابلے میں اس جیسی خصوصیات رکھنے والی مزید چیزیں بھی ہیں ...//
یہاں عزازی صاحب پھر سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔الیکٹران خدا نہیں کیوں کہ یہ پیدا کیا گیا اور یہ خود ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے اور جو پیدا کیا جائے وہ خدا نہیں ہوسکتا،الیکٹرک فورس چونکہ الیکٹران کی وجہ سے ہے جو ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے ہیں اس طرح ہی الیکٹرک فورس ایک وجہ یعنی الیکٹران پر منحصر ہونے کی وجہ سے خدا نہیں کیوں کہ خدا کسی پر منحصر نہیں ہوتا۔اب الیکٹران اور الیکٹرک فورس دونوں پیدا ہونے اور ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے خدا نہیں۔الیکٹران کا اثر ایک پروٹان ختم کر سکتا ہے الیکٹرک فورس کا اثر ایک مخالف سمت والی الیکٹرک فورس ختم کر سکتی ہے اور جس کا اثر فانی ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا۔قس طرح نہ الیکٹران خدا والی خصوصیات رکھتے ہیں اور نہ ہی الیکٹرک فورس۔باقی ویکیوم انرجی بچتی ہے جو کہ خدا کی ذات کا ثبوت پیش کر رہی ہے کہ ایسی ہستی کائنات میں موجود ہے جو ہمیشہ سے تھی کیوں کہ یہ ویکیوم انرجی کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے سے ہے،ہر جگہ موجود پوری کائنات اس کے زیر اثر کوئ اور چیز اس کے مثل نہیں لہذا یہ ویکیوم انرجی ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی صفات کا مثل کوئ نہیں۔
 اور یہ ویکیوم انرجی سب سے  پہلے موجود تھی،مادہ اس سے پیدا کیا گیا،اس کے زیر اثر تو کس طرح مادہ خود خدا ہوسکتا ہے۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
//اگر احید صاحب کو یاد ہو تو میں نے پہلی پوسٹ جس میں ہماری بحث شروع ہوئی تھی میں کہا تھا کہ توانائی اور مادہ اصل میں ایک ہی چیز ہیں اور مادہ بھی توانائی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے.....
احید صاحب نے خدا کے ہونے کی جو اوپر سائنسی دلیل دی ہے یہ دراصل ملاحدہ کا نظریہ ہے کہ کائنات ازلی و ابدی ہے ... نہ یہ پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی فنا ہوگی (سائنسی ثبوت یہ ہے کہ انرجی نہ پیدا ہو سکتی ہے اور نہ ہی فنا ) - مادہ انرجی کی ہی ایک انتہائی مجتمع شکل ہے - ثبوت کے لیے درج ذیل لنک ملاحضہ کریں
http://www.wakingtimes.com/2014/04/11/vacuum-energy-proof-free-energy-space-around-us/
، کائنات تغیر پذیر ہے - مجھے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ احید صاحب نے ملاحدہ کے اس نظریے کو تسلیم کر لیا ہے //
یہاں عزازی صاحب پھر سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔ویکیوم انرجی کائنات میں سب سے پہلے موجود تھی اور کوانٹم فلکچویشن سے اس انرجی سے ورچول پارٹیکلز پیدا کیے گئے جن سے الیکٹران پروٹان ایٹم سب مالیکیول اور پوری کائنات بنی۔یعنی کہ یہ ویکیوم انرجی پہلے تھی مادہ اس سے تخلیق ہوا۔اب مادہ تخلیق کیا گیا یعنی ہمیشہ سے موجود نہیں تھا اور جو مادہ ہمیشہ سے موجود نہ ہو اور تخلیق کیا جائے تو وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔یہ مادہ اپنی پیدائش کے بعد بھی اسی ویکیوم انرجی کے زیر اثر ہے جس سے یہ پیدا کیا گیا لہذا یہ مادہ اور کائنات خدا نہیں بلکہ خدا وہ ہے جس نے اپنی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے اس کو پیدا کیا۔اب یہ مادہ پیدا کیا گیا۔اس کا الگ کوئ وجود ہے ہی نہیں۔یہ جس توانائ سے پیدا کیا گیا یا تو واپس اسی توانائ میں تبدیل ہوگا یا اس توانائ کے زیر اثر رہے گا۔اب مادہ محتاج ہے اپنی تخلیق،اپنے وجود اپنی تبدیلی کے لیے ویکیوم انرجی کا اور جو مادہ تخلیق ہو،زیر اثر ہو،اپنا وجود اس توانائ سے الگ نہ رکھ سکتا ہو وہ مادہ اور اس مادے پر مشتمل کائنات خدا کیسے ہوسکتی ہے۔یہاں تک کہ ویکیوم انرجی سے پیدا ہونے کے بعد بھی یہ مادہ کنٹرول میں ہے،خود سے کچھ نہیں کر سکتا تو یہ مخلوق ہوا نہ کہ خدا۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ کائنات ابدی ہے۔عزازی صاحب میرے حملوں سے غلط استدلال کر رہے ہیں۔کائنات ابدی و ازلی ہے ہی نہیں۔خود سائنس مانتی ہے۔ایک سائنسدان سر آرتھر ایڈنگٹن کے مطابق تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون یہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات میں  بے ترتیبی وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کبھی کائنات میں یہ بے ترتیبی نہیں تھی اور یہ پیدا کی گئ اور اس کا ایک آغاز ہے۔مزید یہ کہ تمام کہکشائیں ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کا ایک نقطہ آغاز تھا۔لہذا یہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہے بلکہ یہ ایک خالق نے پیدا کی۔یہ پڑھ لیحیے مزید سائنسی تفصیل حوالے کے ساتھ۔
The cosmologist, Sir Arthur Eddington, once said, 'Don't worry if your theory doesn't agree with the observations, because they are probably wrong.' But if your theory disagrees with the Second Law of Thermodynamics, it is in bad trouble. In fact, the theory that the universe has existed forever is in serious difficulty with the Second Law of Thermodynamics. The Second Law, states that disorder always increases with time. Like the argument about human progress, it indicates that there must have been a beginning. Otherwise, the universe would be in a state of complete disorder by now, and everything would be at the same temperature. In an infinite and everlasting universe, every line of sight would end on the surface of a star. This would mean that the night sky would have been as bright as the surface of the Sun. The only way of avoiding this problem would be if, for some reason, the stars did not shine before a certain time.
In a universe that was essentially static, there would not have been any dynamical reason, why the stars should have suddenly turned on, at some time. Any such "lighting up time" would have to be imposed by an intervention from outside the universe. The situation was different, however, when it was realised that the universe is not static, but expanding. Galaxies are moving steadily apart from each other. This means that they were closer together in the past. One can plot the separation of two galaxies, as a function of time. If there were no acceleration due to gravity, the graph would be a straight line. It would go down to zero separation, about twenty billion years ago. One would expect gravity, to cause the galaxies to accelerate towards each other. This will mean that the graph of the separation of two galaxies will bend downwards, below the straight line. So the time of zero separation, would have been less than twenty billion years ago.
http://www.hawking.org.uk/the-beginning-of-time.html
اس پر مزید کئ سائنسی دلائل میں پیش کرسکتا ہوں لیکن بات لمبی ہوجائے گی۔
مزید یہ کہ کائنات ابدی بھی نہیں ہے۔خود سائنس کہتی ہے کہ کائنات ایک دن فنا ہوجائے گی اور یہ تباہی ایک vacuum decay سے وقوع پذیر ہوگی۔جس سے ایک سائنسی مظہر کوانٹم ٹنلنگ پیدا ہوگا اور کائنات چند لمحوں میں تباہ ہوجائے گی اس کو سائنس وہی کہتی ہے جو ہم کہتے یعنی کہ univese dooms day یا قیامت کا دن۔یہ بات خود دنیا کا ذہین ترین انسان سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے۔یہ پڑھیں
Hawking is not the only scientist who thinks so. The theory of a Higgs boson doomsday, where a quantum fluctuation creates a vacuum "bubble" that expands through space and wipes out the universe, has existed for a while

https://www.google.com.pk/amp/amp.livescience.com/47737-stephen-hawking-higgs-boson-universe-doomsday.html
اس کی مزید تفصیل آپ اسی لنک پر پڑھ سکتے ہیں خود ہاکنگ کے مطابق۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
//اسکے مقابلے میں سائنس ملٹی یونیورس کی تھیوری پیش کرتی ہے جسکا ذکر اسٹیفن ہالکنگ نے بھی اپنی کتاب دی گرانڈ ڈیزائن کے صفحہ نمبر 8 پر کیا ہے ... اسٹیفن ہالکنگ کیا کہتا ہے ، احید صاحب کی خدمت میں اسکی دو لائنیں پیش کرتا ہوں
We will describe how M Theory may offer answers to the question of creation . According to M Theory, ours is not the only universe. //
عزازی صاحب یہاں پھر ایک سائنسی غلطی کر رہے ہیں۔کثیر الکائناتی مفروضہ یا Multiverse theory پیش کر رہے ہیں۔عزازی صاحب یہ ایک سائنسی مفروضہ ہے جو آج تک ثابت نہیں ہوسکا۔اس کو فزکس کے اکثر سائنسدان خود نہیں مانتے۔اس کی کوئ سائنسی گواہی نہیں ہے۔ دنیا کے نمایاں ترین سائنسدان اس پر یقین نہیں رکھتے۔وہ اسے ایک سائنسی نہیں بلکہ ایک خیالی فلسفیانہ مفروضہ تسلیم کرتے ہیں۔یہ پڑھ لیں کہ سائنسدان خود اس مفروضے پر یقین نہیں رکھتے۔
The multiverse (or meta-universe) is the hypothetical set of possible universes, including the universe in which we live. Together, these universes comprise everything that exists: the entirety of space, time, matter, energy, and the physical laws and constants that describe them.

The various universes within the multiverse are called "parallel universes", "other universes" or "alternative universes".
The physics community continues to debate the multiverse hypothesis. Prominent physicists disagree about whether the multiverse exists.
Some physicists say the multiverse is not a legitimate topic of scientific inquiry. Concerns have been raised about whether attempts to exempt the multiverse from experimental verification could erode public confidence in science and ultimately damage the study of fundamental physics. Some have argued that the multiverse is a philosophical rather than a scientific hypothesis because it cannot be falsified. The ability to disprove a theory by means of scientific experiment has always been part of the accepted scientific method.Paul Steinhardt has famously argued that no experiment can rule out a theory if the theory provides for all possible outcomes.
Around 2010, scientists such as Stephen M. Feeney analyzed Wilkinson Microwave Anisotropy Probe (WMAP) data and claimed to find evidence suggesting that our universe collided with other (parallel) universes in the distace.However, a more thorough analysis of data from the WMAP and from the Planck satellite, which has a resolution 3 times higher than WMAP, did not reveal any statistically significant evidence of such a bubble . In addition, there was no evidence of any gravitational pull of other universes on ours.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Multiverse
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
//اگر انرجی خدا یا خدا کی صفت ہے تو اسکا مطلب ہے کہ سب کچھ خدا ہے یا خدا کی صفت ہے ... کیونکہ ہم سب انرجی کی ڈینس فارم ہیں ...
اگر ایسا ہے تو انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) بچہ بھی جنتی ہے اور خود بھی جنی جاتی ہے
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) کو بھوک بھی لگتی ہے
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) کو نیند بھی آتی ہے
انرجی کو (خدا یا خدا کی صفت ) تکلیف بھی ہوتی ہے
انرجی (خدا یا خدا کی صفت ) جب تغیر پذیر ہوتی ہے تو خدا کی زبان میں وہ فنا بھی ہوتی ہے جب وہ کہتا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے
گویا قران کی جن جن آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا میں یہ خامیاں موجود نہیں وہ سب آیات غلط ثابت ہوتی ہیں -
اگر انرجی خدا کی صفت ہے تو صفت وجود کے اندر ہوتی ہے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ ہم سب انرجی (خدا کی صفت ) ہیں تو اسکے وجود کے اندر ہیں اور نتیجتہ اسکے وجود کا حصہ ہوتے ہوے ہم سب خدا ہیں ...//
عزازی صاحب سبحان اللہ۔تواڈی منطق نوں سلام۔محترم ہم مادہ ہیں اور ویکیوم انرجی سے تخلیق شدہ جو کہ خدا کی ذات کی ایک نشانی ہے اور پیدا شدہ چیز کس طرح خود خدا ہوسکتی ہے اور ہم سب ویکیوم انرجی کے زیر اثر تو جو زیر اثر ہوا یعنی ہم اور تمام مادہ وہ خدا کیسے ہوا۔لہذا ہم نہ خدا کی صفت ہیں اور نہ ہی خدا بلکہ خدا کی تخلیق ہیں اور سونا،بھوک لگنا،بچے جننا،یہ سب خصوصیات اس مخلوق کی ہیں جو ویکیوم انرجی سے پیدا کی گئ اور اس کے زیر اثر ہے یعنی یہ صفات ایک مخلوق کی ہیں جو خدا ہے نہ خدا کی صفت تو پھر آپ کی بیان کردہ منطق سے کس طرح خدا کی ذات اور خدا کی صفات کا انکار سامنے آتا ہے اور کس طرح قرآن پاک کا انکار سامنے آتا ہے۔آپ نے انتہائ غلط منطق پیش کی ہے۔ہم خدا کی صفت نہیں بلکہ اس کی تخلیق ہیں کیوں کہ اس کی قدرت یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کیے گئے اور یہ تخلیق خدا کے زیر اثر ہے اور جو پیدا کیا جائے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔یہ بات اوپر کئ بار کی جا چکی۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
// انرجی خدا کی صفت ہوتے ہوے اس نوعیت کی ہے جو وجود سے باہر ہوتی ہے جیسا کہ سورج اور دھوپ کی مثال لی جا سکتی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ خدا کہیں نہیں ہے کیونکہ انرجی کی کوئی حدود نہیں ہیں اور لاجک کے مطابق ایک ہی وقت میں دو لامحدود چیزیں نہیں ہو سکتیں یعنی خدا بھی اور انرجی بھی ...
احید صاحب کے دو متضاد موقف ہمارے سامنے آتے ہیں ... پہلا وہ ہے جب ہماری گوفتگو کی ابتدا ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ ہم کائنات کو خدا نہیں کہہ سکتے ...( یاد رکھئے کہ پوری کائنات انرجی ہے بشمول انسان )
دوسرا موقف انکا اوپر والا کومنٹ ہے جس میں وہ انرجی کا ہر جگہہ ہونا مان کر اسکو خدا کی صفت کہتے ہیں اور پھر صفت کے ہر جگہہ ہونے سے خدا کا ہر جگہہ ہونا استدلال کرتے ہیں ...//
عزازی صاحب یہاں پھر غلطی کر رہے ہیں۔خدا کی ۔صفت کو آپ نے تشبیہ دی سورج اور دھوپ سے۔اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کی مثال گدھے سے دی جائے۔آپ ایک انسان ہیں اور گدھا ایک حیوان۔آپ کی خصوصیات کا بھلا گدھے کی خصوصیات سے کیا موازنہ۔سورج کی روشنی ایک خاص حد تک ہوتی ہے، اور جس کی ایک حد ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا جب کہ میں نے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل کے لیے ویکیوم انرجی کی سائنسی دلیل دی جو پوری کائنات میں موجود ہے جس کی کوئ حد نہیں جو پورے مادے کو کنٹرول کرتی ہے اور یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا اور اس کو کنٹرول کر رہی ہے۔آپ نے ایک جزو یعنی سورج کو ایک کل یعنی خدا سے موازنے کے لیے استعمال کیا۔آپ کا موازنہ ہی غلط ہے۔سورج محدود اس کی دھوپ محدود جب کہ خدا کی ذات کی نشانی یعنی ویکیوم انرجی پوری کائنات میں موجود۔یہ انرجی اس خدا سے الگ نہیں ہے کیوں کہ یہ اس خدا کی ایک نشانی ہے،لہذا یہ لامحدود صفت اسی خدا کی ہی ہے جس کی یہ نشانی ہے تو پھر یہ انرجی خدا سے کیسے الگ ٹھہری۔اس کا لامحدود ہونا خدا کی ذات کی قدرت کے لامحدود ہونے کو ہی ظاہر کر رہا ہے کیوں کہ یہ خدا کی قدرت کی ایک سائنسی دلیل ہے۔پھر آپ کیسے اسے خدا سے الگ جان کر ایک الگ لا محدود چیز قرار دے سکتے ہیں جب کہ یہ خود ایک لامحدود کی نشانی ہے۔اور کائنات ایک انرجی یعنی ویکیوم انرجی سے پیدا کی گئ یہ اسی انرجی میں واپس تبدیل ہوسکتی ہے یعنی اس کا خالق اس سے اس کی مادی خصوصیات چھین کر اسے واپس اسی توانائ میں تبدیل کر سکتا ہے جس سے یہ پیدا کی گئ۔اب یہ کائنات پیدا کی گئ اور اس کے زیر اثر ہے تو زیر اثر رہنے والی چیز خدا نہیں بلکہ مخلوق کہلائے گی۔کیوں کہ خدا نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کے زیر اثر۔بیشک ہم ایک توانائ سے تخلیق کئے گئے لیکن اس توانائ کی خصوصیات یعنی کسی سے پیدا نہ ہونا اور کسی کے زیر اثر نہ ہونا،نہیں رکھتے لہذا ہم یا یہ کائنات خدا نہیں ہے۔باقی ایک ہی چیز رہتی ہے جو نہ کسی سے پیدا کی گئ ،نہ کسی کے زیر اثر ہے،نہ فنا کی جا سکتی ہے یعنی ویکیوم انرجی جو کہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک ایسی طاقت کائنات میں موجود ہے جو بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی اور یہ بات تھرمو ڈائنامکس کے پہلے قانون کے مطابق خدا کے بغیر کسی پیدا۔ کرنے والے کے ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ موجود رہنے کا سائنسی ثبوت ہے۔اب تک کی بحث میں ہم نے ثابت کر دیا کہ نہ الیکٹران خدا ہیں،نہ الیکٹرک فورس خدا ہے،نہ کائنات خدا ہے،باقی ایک ہی چیز بچتی ہے یعنی ویکیوم انرجی جو کہ خدا کی ذات کی نشانی ہے۔یعنی ہر جگہ اس کی قدرت ویکیوم انرجی کی صورت میں موحود،اسی سے پوری کائنات کی تخلیق،اس کی صورت میں پوری کائنات اس کے زیر اثر۔یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ کائنات میں ایک ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ موجود رہنے والی،سب پیدا کرنے والی اور پوری کائنات کو کنٹرول کرنے والی ایسی ہستی موجود ہے جسے ہم اللٰہ تعالٰی کہتے ہیں۔اور یہ بات ہم ان تک کی ساری بحث میں سائنسی طور پر ثابت کر چکے ہیں الحمداللہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔