کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو قتل کرایا؟ کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی قتل کرایا؟کیا بنو قریظہ کے مردوں کے کپڑے اتار کر ان کی بلوغت چیک کی گئ؟جنگ میں درخت اور باغات کٹوائے؟اگر ہاں تو کیوں؟
ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ سوم(آخری حصہ)
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
یہود اسلام اور مسلمانو ں سے جلتے بھنتے تھے۔ مگر چونکہ وہ مرد میدان نہ تھے ،سازشی اور دسیسہ کار تھے۔ اس لئے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتےتھے اور مسلمانوں کو عہد و پیمان کے باوجود اذیت دینے کےلئے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔۔البتہ بنو قنیقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے ۔ اور انہوں نے خو فزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کرلیا،لیکن غزوہ احد کے بعد ان کی جرات پھر پلٹ آئی ، انہوں نے کھلم کھلا عداوت و بعد عہدی کی ۔مدینہ کے منافقین اور انکے مشرکین سے پس پردہ ساز باز کی اور مسلمانوں کے خلاف مشر کین کی حمایت میں کام کیا ۔(سنن ابی دداؤد باب خبر النضیر کی روایت سے یہ بات مستفاد ہے ۔دیکھئے ،سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود 3۔116 تا 118)
رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد یہود کی جرات و جسارت حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے نبی ﷺ ہی کے خاتمے کا پروگرام بنا لیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کرام کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اوران سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کےلئے بات چیت کی (جنہیں حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا)ان پر معاہدے کی رو سے یہ اعانت واجب تھی ۔انہوں نے کہا ابوالقاسم! ہم ایسا ہی کریں گے ۔ آپ یہاں تشریف رکھئے ہم آپ کی ضرورت پور ی کئے دیتے ہیں ۔آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے ۔آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی۔ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہو گیا اور جو بد بختی ان کا نوشتہ تقدری بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کیا ۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبی ﷺ ہی کو قتل کر دیا جائے ۔چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گرا کر کچل دے۔ اس پرا یک بد بخت یہودی عمر و بن حجاش نے کہا ،میں ۔۔۔ ان لوگوں سےسلام بن مشکن نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ خدا کی قسم انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دیدی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد و پیماں ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے ۔لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور پانے منصوبے کو رو بہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔ادھر رب العلمین کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے اور آپﷺ کو یہود کے ارادے کی خبر دی ۔آپ ﷺ تیزی سے اٹھے اور مدینے کےلئے چل پڑے بعدمیں صحابہ کرام بھی آپ ﷺ سے آن ملے اور کہنےلگے، آپﷺ اٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے ۔آپﷺ نے بتلا دیا کہ یہو د کا کیا ارادہ تھا۔ مدینہ واپس آ کر آپ ﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینہ سے نکل جاؤ ۔اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے تمہیں دس دن کی مہلت دی جائی ہے اس کے بعدجو شخص پایا جائے گا اس کی گرد ن مار دی جائے گی۔اس نوٹس کے بعد یہود کو جلا وطنی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا چانچہ وہ چنددن سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔ لیکن اسی دوران عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ پر بر قراررہو،ڈٹ جاؤ،اور گھر بار نہ چھوڑو ۔میرے پاس دو ہزار مردان جنگی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارئے قلعے میں داخل ہو کر تماری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارئے ساتھ نکل جایں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگزنہیں دبیں گے۔اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور بنو غطفان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی مدد کریں گے۔یہ پیغام سن کے یہود کی خود اعتما دی پلٹ آءی اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ان کے سردار حئی بن اخطب کو توقع تھی کہ رئیس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لئے اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ اہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے آپ ﷺ کو کرنا ہے کر لیں۔اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی۔ کیونکہ ان کے لئے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ مفید و مناسب نہ تھا۔ انجام خطرناک ہو سکتا تھا۔آپﷺ دیکھ ہی رہے ہیں کہ سار اعرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود بھی نہایت بے دردی سےتہ تیغ کیے جاچکے تھے۔ پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے ۔مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات نے جو نئی کر وٹ لی تھی۔ اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلہ میں زیادہ حساس ہوگئے تھے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ فزوں ترہو گیا تھا۔ لہذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کا پروگرام بنا یاتھا اس لئے ان سے بہر حال لڑنا ہے ۔خواہ اس کےنتائج جو بھی ہوں چنانچہ جب رسو ل اللہ ﷺ کوحی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپﷺ نے اور صحابہ کرام نےکہا "اللہ اکبر" اور پھر لڑائی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنو نضیر کے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں علم تھا بنو نضیر کے علاقہ میں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا گیا۔ادھر بنو نضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی اور قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغا ت ان کے لئے سپر کا کام دے رہے تھے۔ اس لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے ۔بعد میں اسی طرف اشارہ کرکے حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا۔
[font="al_mushaf"]وھان علی سراۃ بن لؤئ۔۔۔۔۔۔۔حریق بالبویرۃ مستطیر
بنی لؤی کے سرداوروں کےلئے یہ معمولی بات ھی کہ بیرہ میں آگ کے شعلے بلند ہو ں۔(بویرہ ۔۔بنو نضیرے کے نخلستان کا نام تھا) اور اسی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا۔
[font="al_mushaf"]مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ(الحشر:5)[/font]
تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذ ن سے تھا ۔اور ایسا اس لئے کیا گیا تھا تاکہ ان فاسقوں کو رسوا رکرے۔
بہرحال جب ان کا محاصرہ کر لیا گیا تو بنو قریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبد اللہ بن ابی نے بھی خیانت کی اور ان کے حلیف غطفان بھی مدد کو نہ آئے ۔غرض یہ کہ کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہو ااسی لئے اللہ تعا لیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی:
[font="al_mushaf"]كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ۔(الحشر:16)[/font]
جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کر و اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہےمیں تم سے بری ہوں"،محاصرےنے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا بلکہ صرف چھ رات ۔یا بقول بعض پندرہ رات۔ جاری رہا کہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔ ان کےحوصلے ٹوٹ گئے وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے،اور رسول اللہ ﷺکو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں ۔ آپ نے ان کی جلا وطنی کی پیش کش قبول کی اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ اسلحہ کے سوا باقی سازو سامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیئے اوراپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لےجا ئیں۔ بلکہ بعض نے تو چھت کی کھڑکیاں اور دیوارں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں ۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا اور چھ سو اونٹوں پر لد لدا کر روانہ ہو گئے ۔بیشتر یہود اور ان کے بڑے مثلاحی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے خیبر کا رخ کیا ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صر ف دوآدمیوں یعنی یامین رضی اللہ تعالی عنہ بن عمر اور ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بن وہب نے اسلام قبول کیا لہذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے شرط کے مطابق بنو نضیر کے ہتھیار ، زمین،گھراور باغات اپنے قبضے میں لے لئے ہتھیا ر میں پچاس زرہیں، پچاس خوداور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔ بنو نضیر کے یہ باغات زمین اور مکانات خالص رسول اللہ ﷺ کا حق تھا ۔ آپ ﷺ کو اختیار تھا کہ آپﷺ اسے اپنے لئے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔چنانچہ آپ نے (مال غنیمت کی طرح) ان اموال کا خمس (پانچواں حصہ)نہیں نکالا کیونکہ اسے اللہ نے آپ ﷺکو بطور فے دیا تھا ۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر اسے (بزور شمشیر) فتح نہیں کیا تھا۔ لہذا آپﷺ نے اپنے اس اختاری خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا ۔البتہ دو انصار ی صحابہ کرام یعنی ابو دجانہ اور سہل رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا ۔ اس کے علاوہ آ پ ﷺنے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لئے محفوظ رکھاجس میں سے آپ) اپنی ازادج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کےلئے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرا دیتے تھے۔ غزوہ بنی نضیر ربیع الاول 4 ہجری بمطابق اگست 625 ء میں پیش آیا ، اور اللہ تعالی نے اس تعلق سے پور ی سور ۃ حشر نازل کر دی ۔جس میں یہود کی جلا وطنی کا نقشہ کھنچتے ہوئے منافقین کے طرز عمل کا پرد ہ فاش کیا گیا ۔ اور مال فے کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین اور انصار کی مدح و ستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن درخت کاٹے جاسکتے ہیں ۔اور ان میں آگ لگائی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارضی اللہ تعالی عنہ نہیں ہے ، پھر اہل ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد و ثناء فرماتے ہوئے اور پانے اسماء و صفات کو بیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرما دی
اس صورت میں درخت کاٹنا ایک جنگی حکمت عملی تھی کیونکہ یہ درخت ان کے لیے ایک ڈھال کا کام کر رہے تھے۔اگر یہ درخت غصے اور نعوذ بااللہ فساد کی نیت سے کاٹے گئے تو سارے کیوں نہیں کاٹے گئے۔جب کہ سارے نہیں کاٹے گئے۔
http://www.urdumajlis.net/threads/غزوہ-بنو-نضیر.28314/
بنو نضیر نے اپنے قلعوں اور گھڑھیوں میں پناہ لے لی اور قلعہ بند ہو کر وہ فیصلوں سے تیر اور پتھر برسانے لگے ۔ چونہ وہاں کھجوروں کے باغات بکثرت تھے اور وہ دشمنان اسلام کے لیے ڈھال اور سپر کا کام دے رہے تھے۔ اس لیے پیغمبر اسلام، رسول جہاد، نبی رحمت جناب محمد رسول اللہ(ص) نے ان درختوں میں جو مسلمانوں کے قریب تھے۔ ان کو کاٹنے اور جو فاصلے پر تھے ان کو جلانے اور جو بے ضررتھے ان کو جوں کا توں چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ جس سے مسلمانوں کے لیے دشمنان اسلام پر کاروای کرنا آسان ہو گیا۔
http://www.siratulhuda.com/forum/threads/قبیلہ-بنی-نضیر-کے-درخت-کاٹنے-کا-حکم-قرآن-مجید-میں-کہاں-ہے؟.165/
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیاکیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔ ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعدیہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈکو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے،لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے
https://free.facebook.com/naat786/photos/a.581010048650683.1073741832.577645752320446/617533858331635/?type=3&_ft_=top_level_post_id.958164340935250:tl_objid.958164340935250:thid.577645752320446&__tn__=C&_rdr
مسلمانوں نے جب ان کی آبادی کا محاصرہ کرلیا تو اس کے اردگرد کا علاقہ کھجور کے باغات سے پٹا پڑا تھا۔ ان کے قلعوں کے نزدیک ایس کھلی جگہ نہ تھی جہاں مسلمان صفیں آراستہ کر کے ان پر حملہ کرسکیں۔ اس لیے بعض مقامات پر کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے اور جو درخت لڑائی میں حارج نہ تھے ان کو باقی رہنے دیا گیا۔ منافقین اور یہودیوں نے بات کا بتنگڑ بنادیا کہ دیکھو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ہیں اور خود ہرے بھرے پھلدار درختوں کو اس بےدردی سے کاٹ رہے ہیں۔ مسلمانون کو بھی تشویش ہوئی کہ کہیں ان کا یہ فعل فساد فی الارض میں تو داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن درختوں کو تم نے کاٹا ہے اور جن کو باقی رہنے دیا ہے تم پر کوئی گرفت نہیں تمہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے ۔
اس آیت سے فقہاء نے یہ مسئلے اخذ کیے ہیں: مسلمانوں کا لشکر اگ رکفار کے علاقہ میں داخل ہوا اور انہیں اپنی جنگی ضروریات کے لیے درختوں کو کاٹنا پڑے یا کوئی مکان گرانا پڑے یا کوئی پل توڑنا پڑے یا کسی نہر کو کاٹنا پڑے تو انہیں شرعاً اس کی اجازت ہے۔ لیکن بلا ضرورت توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں۔ ایسا کرنا فساد فی الارض میں داخل ہے۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے جب اسلامی لاشکر کو غزوۂ موتہ کی طرف روانہ کیا تو انہیں ہدایت فرمائی کہ پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں ک وخراب نہ کرنا اور بستیوں کو نہ اجاڑنا۔ انتہائی جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
http://myonlinequran.com/surah-59/surah59-page-1-ipp-86.html
ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ سوم(آخری حصہ)
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
یہود اسلام اور مسلمانو ں سے جلتے بھنتے تھے۔ مگر چونکہ وہ مرد میدان نہ تھے ،سازشی اور دسیسہ کار تھے۔ اس لئے جنگ کے بجائے کینے اور عداوت کا مظاہرہ کرتےتھے اور مسلمانوں کو عہد و پیمان کے باوجود اذیت دینے کےلئے طرح طرح کے حیلے اور تدبیریں کرتے تھے۔۔البتہ بنو قنیقاع کی جلاوطنی اور کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ پیش آیا تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے ۔ اور انہوں نے خو فزدہ ہو کر خاموشی اور سکون اختیار کرلیا،لیکن غزوہ احد کے بعد ان کی جرات پھر پلٹ آئی ، انہوں نے کھلم کھلا عداوت و بعد عہدی کی ۔مدینہ کے منافقین اور انکے مشرکین سے پس پردہ ساز باز کی اور مسلمانوں کے خلاف مشر کین کی حمایت میں کام کیا ۔(سنن ابی دداؤد باب خبر النضیر کی روایت سے یہ بات مستفاد ہے ۔دیکھئے ،سنن ابی داؤد مع شرح عون المعبود 3۔116 تا 118)
رسول اللہ ﷺ نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی صبر سے کام لیا لیکن رجیع اور معونہ کے حادثات کے بعد یہود کی جرات و جسارت حد سے بڑھ گئی اور انہوں نے نبی ﷺ ہی کے خاتمے کا پروگرام بنا لیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبیﷺ اپنے چند صحابہ کرام کے ہمراہ یہود کے پاس تشریف لے گئے اوران سے بنو کلاب کے ان دونوں مقتولین کی دیت میں اعانت کےلئے بات چیت کی (جنہیں حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا)ان پر معاہدے کی رو سے یہ اعانت واجب تھی ۔انہوں نے کہا ابوالقاسم! ہم ایسا ہی کریں گے ۔ آپ یہاں تشریف رکھئے ہم آپ کی ضرورت پور ی کئے دیتے ہیں ۔آپﷺ ان کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کے وعدے کی تکمیل کا انتظار کرنے لگے ۔آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت بھی تشریف فرما تھی۔ادھر یہود تنہائی میں جمع ہوئے تو ان پر شیطان سوار ہو گیا اور جو بد بختی ان کا نوشتہ تقدری بن چکی تھی اسے شیطان نے خوشنما بنا کر پیش کیا ۔ یعنی ان یہود نے باہم مشورہ کیا کہ کیوں نہ نبی ﷺ ہی کو قتل کر دیا جائے ۔چنانچہ انہوں نے کہا : کون ہے جو اس چکی کو لے کر اوپر جائے اور آپﷺ کے سر پر گرا کر کچل دے۔ اس پرا یک بد بخت یہودی عمر و بن حجاش نے کہا ،میں ۔۔۔ ان لوگوں سےسلام بن مشکن نے کہا بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ خدا کی قسم انہیں تمہارے ارادوں کی خبر دیدی جائے گی اور پھر ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد و پیماں ہے یہ اس کی خلاف ورزی بھی ہے ۔لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور پانے منصوبے کو رو بہ عمل لانے کے عزم پر برقرار رہے۔ادھر رب العلمین کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لائے اور آپﷺ کو یہود کے ارادے کی خبر دی ۔آپ ﷺ تیزی سے اٹھے اور مدینے کےلئے چل پڑے بعدمیں صحابہ کرام بھی آپ ﷺ سے آن ملے اور کہنےلگے، آپﷺ اٹھ آئے اور ہم سمجھ نہ سکے ۔آپﷺ نے بتلا دیا کہ یہو د کا کیا ارادہ تھا۔ مدینہ واپس آ کر آپ ﷺ نے فوراً ہی محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس روانہ فرمایا اور انہیں یہ نوٹس دیا کہ تم لوگ مدینہ سے نکل جاؤ ۔اب یہاں میرے ساتھ نہیں رہ سکتے تمہیں دس دن کی مہلت دی جائی ہے اس کے بعدجو شخص پایا جائے گا اس کی گرد ن مار دی جائے گی۔اس نوٹس کے بعد یہود کو جلا وطنی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا چانچہ وہ چنددن سفر کی تیاریاں کرتے رہے۔ لیکن اسی دوران عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین نے کہلا بھیجا کہ اپنی جگہ پر بر قراررہو،ڈٹ جاؤ،اور گھر بار نہ چھوڑو ۔میرے پاس دو ہزار مردان جنگی ہیں جو تمہارے ساتھ تمہارئے قلعے میں داخل ہو کر تماری حفاظت میں جان دے دیں گے۔ اور اگر تمہیں نکالا ہی گیا تو ہم بھی تمہارئے ساتھ نکل جایں گے اور تمہارے بارے میں کسی سے ہرگزنہیں دبیں گے۔اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ اور بنو قریظہ اور بنو غطفان جو تمہارے حلیف ہیں وہ بھی مدد کریں گے۔یہ پیغام سن کے یہود کی خود اعتما دی پلٹ آءی اور انہوں نے طے کرلیا کہ جلاوطن ہونے کے بجائے ٹکر لی جائے گی۔ان کے سردار حئی بن اخطب کو توقع تھی کہ رئیس المنافقین نے جو کچھ کہا ہے وہ پورا کرے گا۔ اس لئے اس نے رسول اللہ ﷺ کے پاس جوابی پیغام بھیج دیا کہ اہم اپنے دیار سے نہیں نکلتے آپ ﷺ کو کرنا ہے کر لیں۔اس میں شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے لحاظ سے یہ صورت حال نازک تھی۔ کیونکہ ان کے لئے اپنی تاریخ کے اس نازک اور پیچدہ موڑ پر دشمنوں سے ٹکراؤ کچھ زیادہ مفید و مناسب نہ تھا۔ انجام خطرناک ہو سکتا تھا۔آپﷺ دیکھ ہی رہے ہیں کہ سار اعرب مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اور مسلمانوں کے دو تبلیغی وفود بھی نہایت بے دردی سےتہ تیغ کیے جاچکے تھے۔ پھر بنی نضیر کے یہود اتنے طاقتور تھے کہ ان کا ہتھیار ڈالنا آسان نہ تھا۔اور ان سے جنگ مول لینے میں طرح طرح کے خدشات تھے ۔مگر بئر معونہ کے المیے سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات نے جو نئی کر وٹ لی تھی۔ اس کی وجہ سے مسلمان قتل اور بد عہدی جیسے جرائم کے سلسلہ میں زیادہ حساس ہوگئے تھے اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کا جذبہ فزوں ترہو گیا تھا۔ لہذا انہوں نے طے کرلیا کہ چونکہ بنو نضیر نے رسول اللہ ﷺ کے قتل کا پروگرام بنا یاتھا اس لئے ان سے بہر حال لڑنا ہے ۔خواہ اس کےنتائج جو بھی ہوں چنانچہ جب رسو ل اللہ ﷺ کوحی بن اخطب کا جوابی پیغام ملا تو آپﷺ نے اور صحابہ کرام نےکہا "اللہ اکبر" اور پھر لڑائی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ کا انتظام سونپ کر بنو نضیر کے علاقے کی طرف روانہ ہوگئے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں علم تھا بنو نضیر کے علاقہ میں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا گیا۔ادھر بنو نضیر نے اپنے قلعوں اور گڑھیوں میں پناہ لی اور قلعہ بند رہ کر فصیل سے تیر اور پتھر برساتے رہے چونکہ کھجور کے باغا ت ان کے لئے سپر کا کام دے رہے تھے۔ اس لئے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ان درختوں کو کاٹ کر جلا دیا جائے ۔بعد میں اسی طرف اشارہ کرکے حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا۔
[font="al_mushaf"]وھان علی سراۃ بن لؤئ۔۔۔۔۔۔۔حریق بالبویرۃ مستطیر
بنی لؤی کے سرداوروں کےلئے یہ معمولی بات ھی کہ بیرہ میں آگ کے شعلے بلند ہو ں۔(بویرہ ۔۔بنو نضیرے کے نخلستان کا نام تھا) اور اسی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نازل ہوا۔
[font="al_mushaf"]مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ(الحشر:5)[/font]
تم نے کھجور کے جو درخت کاٹے یا جنہیں اپنے تنوں پر کھڑا رہنے دیا وہ سب اللہ ہی کے اذ ن سے تھا ۔اور ایسا اس لئے کیا گیا تھا تاکہ ان فاسقوں کو رسوا رکرے۔
بہرحال جب ان کا محاصرہ کر لیا گیا تو بنو قریظہ ان سے الگ تھلگ رہے۔ عبد اللہ بن ابی نے بھی خیانت کی اور ان کے حلیف غطفان بھی مدد کو نہ آئے ۔غرض یہ کہ کوئی بھی انہیں مدد دینے یا ان کی مصیبت ٹالنے پر آمادہ نہ ہو ااسی لئے اللہ تعا لیٰ نے ان کے واقعے کی مثال یوں بیان فرمائی:
[font="al_mushaf"]كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ۔(الحشر:16)[/font]
جیسے شیطان انسان سے کہتا ہے کفر کر و اور جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو شیطان کہتا ہےمیں تم سے بری ہوں"،محاصرےنے کچھ زیادہ طول نہیں پکڑا بلکہ صرف چھ رات ۔یا بقول بعض پندرہ رات۔ جاری رہا کہ اس دوران اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔ ان کےحوصلے ٹوٹ گئے وہ ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے،اور رسول اللہ ﷺکو کہلوا بھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کو تیار ہیں ۔ آپ نے ان کی جلا وطنی کی پیش کش قبول کی اور یہ بھی منظور فرمالیا کہ وہ اسلحہ کے سوا باقی سازو سامان اونٹوں پر لاد سکتے ہوں سب لے کر بال بچوں سمیت چلے جائیں۔بنو نضیر نے اس منظوری کے بعد ہتھیار ڈال دیئے اوراپنے ہاتھوں اپنے مکانات اجاڑ ڈالے تاکہ دروازے اور کھڑکیاں بھی لاد لےجا ئیں۔ بلکہ بعض نے تو چھت کی کھڑکیاں اور دیوارں کی کھونٹیاں بھی لاد لیں ۔ پھر عورتوں اور بچوں کو سوار کیا اور چھ سو اونٹوں پر لد لدا کر روانہ ہو گئے ۔بیشتر یہود اور ان کے بڑے مثلاحی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے خیبر کا رخ کیا ایک جماعت ملک شام روانہ ہوئی صر ف دوآدمیوں یعنی یامین رضی اللہ تعالی عنہ بن عمر اور ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ بن وہب نے اسلام قبول کیا لہذا ان کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے شرط کے مطابق بنو نضیر کے ہتھیار ، زمین،گھراور باغات اپنے قبضے میں لے لئے ہتھیا ر میں پچاس زرہیں، پچاس خوداور تین سو چالیس تلواریں تھیں۔ بنو نضیر کے یہ باغات زمین اور مکانات خالص رسول اللہ ﷺ کا حق تھا ۔ آپ ﷺ کو اختیار تھا کہ آپﷺ اسے اپنے لئے محفوظ رکھیں یا جسے چاہیں دیں۔چنانچہ آپ نے (مال غنیمت کی طرح) ان اموال کا خمس (پانچواں حصہ)نہیں نکالا کیونکہ اسے اللہ نے آپ ﷺکو بطور فے دیا تھا ۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر اسے (بزور شمشیر) فتح نہیں کیا تھا۔ لہذا آپﷺ نے اپنے اس اختاری خصوصی کے تحت اس پورے مال کو صرف مہاجرین اولین پر تقسیم فرمایا ۔البتہ دو انصار ی صحابہ کرام یعنی ابو دجانہ اور سہل رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے فقر کے سبب اس میں سے کچھ عطافرمایا ۔ اس کے علاوہ آ پ ﷺنے (ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے لئے محفوظ رکھاجس میں سے آپ) اپنی ازادج مطہرات کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے اور اس کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے جہاد کی تیاری کےلئے ہتھیار اور گھوڑوں کی فراہمی میں صرف فرا دیتے تھے۔ غزوہ بنی نضیر ربیع الاول 4 ہجری بمطابق اگست 625 ء میں پیش آیا ، اور اللہ تعالی نے اس تعلق سے پور ی سور ۃ حشر نازل کر دی ۔جس میں یہود کی جلا وطنی کا نقشہ کھنچتے ہوئے منافقین کے طرز عمل کا پرد ہ فاش کیا گیا ۔ اور مال فے کے احکام بیان فرماتے ہوئے مہاجرین اور انصار کی مدح و ستائش کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگی مصالح کے پیش نظر دشمن درخت کاٹے جاسکتے ہیں ۔اور ان میں آگ لگائی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنا فساد فی الارضی اللہ تعالی عنہ نہیں ہے ، پھر اہل ایمان کو تقویٰ کے التزام اور آخرت کی تیاری کی تاکید کی گئی ہے۔ ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد و ثناء فرماتے ہوئے اور پانے اسماء و صفات کو بیان کرتے ہوئے سورۃ ختم فرما دی
اس صورت میں درخت کاٹنا ایک جنگی حکمت عملی تھی کیونکہ یہ درخت ان کے لیے ایک ڈھال کا کام کر رہے تھے۔اگر یہ درخت غصے اور نعوذ بااللہ فساد کی نیت سے کاٹے گئے تو سارے کیوں نہیں کاٹے گئے۔جب کہ سارے نہیں کاٹے گئے۔
http://www.urdumajlis.net/threads/غزوہ-بنو-نضیر.28314/
بنو نضیر نے اپنے قلعوں اور گھڑھیوں میں پناہ لے لی اور قلعہ بند ہو کر وہ فیصلوں سے تیر اور پتھر برسانے لگے ۔ چونہ وہاں کھجوروں کے باغات بکثرت تھے اور وہ دشمنان اسلام کے لیے ڈھال اور سپر کا کام دے رہے تھے۔ اس لیے پیغمبر اسلام، رسول جہاد، نبی رحمت جناب محمد رسول اللہ(ص) نے ان درختوں میں جو مسلمانوں کے قریب تھے۔ ان کو کاٹنے اور جو فاصلے پر تھے ان کو جلانے اور جو بے ضررتھے ان کو جوں کا توں چھوڑ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ جس سے مسلمانوں کے لیے دشمنان اسلام پر کاروای کرنا آسان ہو گیا۔
http://www.siratulhuda.com/forum/threads/قبیلہ-بنی-نضیر-کے-درخت-کاٹنے-کا-حکم-قرآن-مجید-میں-کہاں-ہے؟.165/
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قلعہ کے محاصرہ کے ساتھ قلعہ کے آس پاس کھجوروں کے کچھ درختوں کو بھی کٹوا دیاکیونکہ ممکن تھا کہ درختوں کے جھنڈ میں یہودی چھپ کر اسلامی لشکر پر چھاپا مارتے اور جنگ میں مسلمانوں کو دشواری ہو جاتی۔ ان درختوں کو کاٹنے کے بارے میں مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ درخت نہ کاٹے جائیں کیونکہ فتح کے بعدیہ سب درخت مالِ غنیمت بن جائیں گے اور مسلمان ان سے نفع اٹھائیں گے اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ درختوں کے جھنڈکو کاٹ کر صاف کر دینے سے یہودیوں کی کمین گاہوں کو برباد کرنا اور ان کو نقصان پہنچا کر غیظ و غضب میں ڈالنا مقصود ہے،لہٰذا ان درختوں کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے
https://free.facebook.com/naat786/photos/a.581010048650683.1073741832.577645752320446/617533858331635/?type=3&_ft_=top_level_post_id.958164340935250:tl_objid.958164340935250:thid.577645752320446&__tn__=C&_rdr
مسلمانوں نے جب ان کی آبادی کا محاصرہ کرلیا تو اس کے اردگرد کا علاقہ کھجور کے باغات سے پٹا پڑا تھا۔ ان کے قلعوں کے نزدیک ایس کھلی جگہ نہ تھی جہاں مسلمان صفیں آراستہ کر کے ان پر حملہ کرسکیں۔ اس لیے بعض مقامات پر کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے اور جو درخت لڑائی میں حارج نہ تھے ان کو باقی رہنے دیا گیا۔ منافقین اور یہودیوں نے بات کا بتنگڑ بنادیا کہ دیکھو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے ہیں اور خود ہرے بھرے پھلدار درختوں کو اس بےدردی سے کاٹ رہے ہیں۔ مسلمانون کو بھی تشویش ہوئی کہ کہیں ان کا یہ فعل فساد فی الارض میں تو داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن درختوں کو تم نے کاٹا ہے اور جن کو باقی رہنے دیا ہے تم پر کوئی گرفت نہیں تمہیں ایسا کرنے کی اجازت ہے ۔
اس آیت سے فقہاء نے یہ مسئلے اخذ کیے ہیں: مسلمانوں کا لشکر اگ رکفار کے علاقہ میں داخل ہوا اور انہیں اپنی جنگی ضروریات کے لیے درختوں کو کاٹنا پڑے یا کوئی مکان گرانا پڑے یا کوئی پل توڑنا پڑے یا کسی نہر کو کاٹنا پڑے تو انہیں شرعاً اس کی اجازت ہے۔ لیکن بلا ضرورت توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں۔ ایسا کرنا فساد فی الارض میں داخل ہے۔ حضرت صدیق اکبر (رض) نے جب اسلامی لاشکر کو غزوۂ موتہ کی طرف روانہ کیا تو انہیں ہدایت فرمائی کہ پھلدار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں ک وخراب نہ کرنا اور بستیوں کو نہ اجاڑنا۔ انتہائی جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
http://myonlinequran.com/surah-59/surah59-page-1-ipp-86.html
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔