ایک معصومانہ سوال۔ کیا مسمان عورتیں لونڈی بننا چاہیں گی؟
اس معصومیت پہ کون نہ مر جائے اے خدا !!!
کیا کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام سنا ہے ؟ نہیں سنا تو میں سنا دیتا ہوں ۔ ان کو چالیس سال کی عمر میں بیاسی سال کی قید کی سزا امریکہ بہادر نے سنائی ہے ۔ یعنی اگر انہوں نے معجزانہ طور پر 122 سال کی عمر پالی تو آزاد ہو کر موج کریں گی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے ۔
معصومانہ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ طویل سزا سنانے سے پہلے آپ جیسے کسی بے وقوف نے نہیں پوچھا کہ آپ لونڈی بننا پسند کریں گی یا نہیں ۔
امریکہ سمجھتا ہے وہ ان کی مجرم ہیں انہوں نے لونڈی بنا لیا ۔ عافیہ کو یہ سزا پسند آئی یا نہیں آئی امریکہ کی جانے جوتی ۔
جو مسلمانوں کے خلاف مخاذ آرائی کرتے پکڑی جائیں گی انہیں اسلام میں لونڈی بنانے کا حکم ہے چاہے وہ کسی ملحد کی ماں ہو بہن ہو یا بیوی ہو ۔ اس کو اپنا لونڈی بننا پسند آئے یا نہ آئے ۔ ہماری جانے جوتی ۔
میں تو انتظار میں ہوں کہ دنیا کے کسی خطے میں ملحدوں کی حکومت آئے ۔ قسم سے بڑی مضحکہ خیز سچویشن ہو گی ۔ جس طرح بچے سے قلفی چھین لی جاتی ہے اس طرح حکومت چھن جائے گی ان سے ۔ کوئی مذہبی چکو دکھا کو حکمران کو نیچے اتار دے گا اور سارے ملحد امن کی بانسری بجاتے موم بتیاں جلاتے احتجاج کرتے رہ جائیں گے کہ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔
کیا لونڈی سے ہم بستری کے لئے اس سے اجازت لینی چاہے ؟
اگر کوئ مسلمان ہے تو جواب ایک لائن کا بنتا ہے کہ یہ اجازت ﷲ اور ﷲ کے رسول نے دی ہے ۔
رہا سوال اجازت کا تو ہمبستری کے لئے تو بیوی کی اجازت بھی ضروری نہیں کجا یہ کہ لونڈی کی لی جائے ۔
مرد اپنی بیوی سے مباشرت سے پہلے اس کی اجازت لے گا ؟
جی مگر یہ رضا صرف ایک بار قاضی کے سامنے لی جاتی ہے ۔ بیوی ایک ہی بار قبول ہے کہہ کر تاحیات اس کی اجازت دیتی ہے ۔
اس اصول کو سمجھیں کہ جو بیوی ملکیت میں نہیں اسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تو جس لونڈی کا انسان مالک ہو اس کی اجازت کی ضرورت کیوں ہو گی ۔ جس وقت آپ اس کے مالک بنو گے وہ سمجھیں کہ آپ کے حرم میں ویسے ہی آگئی جیسے بیوی آتی ہے ۔
فرق یہ ہے کہ بیوی اختیار کرتی ہے اپنی منشاء سے جبکہ لونڈی کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ۔
لونڈی کیوں اپنے آقا کو پسند کرنے لگی ۔
قتل کے جرم میں جس کی گردن کاٹنی ہو اس سے کبھی پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سے جلاد سے گردن کٹوانا پسند کرو گے ؟
لونڈی سے بغیر نکاح کے ہمبستری اس کی سزا ہے جو ﷲ نے طے کی ہے ۔اس سے نہیں پوچھا جائے گا ۔ یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ قتل ہونے سے بچ گئی ۔ کیوں کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے آئی تھی ۔
پکڑی گئی تو غلام بن گئی ۔
مسلمانوں کو یہاں تک حق حاصل ہے کہ اسے قتل کر دیں مگر اس پر رحم کیا جاتا ہے ۔ اور اسے کسی ایک مسلمان کی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان چاہے تو اس سے نکاح کر لے چاہے تو بطور لونڈی اس سے ہمبستری کرے ۔
ڈیل محض یہ ہے کہ اس کی جان بچ گئی ۔
اس کی اصل سزا قتل ہے کیوں کہ وہ جنگ میں مسلمانوں کی عورتوں بچوں اور مردوں کے قتل کو آنے والی قوم کی معاونت کرتے پکڑی گئی ہے اورﷲ کے دین کی مخالفت اور مسلمانوں کے قتل کی سازش میں حصے دار تھی مگر چونکہ اس قوم کو نشان عبرت بنانا ہے لہٰذا ﷲ کا حکم ہے کہ اس کو زندہ رکھا جائے اور اس سے مسلمان بچے پیدا کیئے جائیں ۔ اور وہ بچے نہ صرف حلال ہوں گے بلکہ باپ کی جائداد میں حصے دار بھی ہوں گے ۔
تحریر۔
Mohammad Saleem
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔