Monday 4 February 2019

تاریخ کشمیر

تاریخ کشمیر:
از قلم اسرار احمد صدیقی

جب ہندوستان کی تقسیم اور پاکستا ن کا قیام یقینی ہو گیا تو کانگریس اور مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خدشہ لاحق ہوگیا۔ریاست کشمیر کو ہاتھوں سے نکلنے سے بچانے کے لئے مہاراجہ نے ایک طرف پاکستان سے معاہدہ کیا اور دوسری طرف ریاست جموں وکشمیرمیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنا اسلحہ، چاہے وہ لائسنس یافتہ ہی کیوں نہ ہو، بحق سرکار جمع کروادیں۔ مہاراجہ کے ایما پر ہندو جنونی تنظیموں کے تقریباََ پچاس ہزار رضاکار ریاست پہنچے، جنہوں نے جموں کو اپنا ہیڈکوارٹر بناکر پوری ریاست میں کارروائیاں شروع کر دیں۔ مہاراجہ کی فوج کے افسران بلوائیوں، قاتلوں اور حملہ آوروں کوہتھیار بنانے اورچلانے، مسلمانوں کے قتل عام ،عصمتوں کی آبروریزی،آگ لگانے اور املاک لوٹنے کی تربیت دینے لگے۔یوں سکھ اور ہندو بلوائیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہیدکیا ،مسجدیں جلادیں، گھر لوٹ لئے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی اوربچے ذبح کئے۔ دوسری طرف 27اکتوبر کو انگریز اور بھارتی فوج کا ریاست پر بھر پور حملہ تھا۔گویا مسلمانوں کے لئے کوئی دوہری افتاد تھی۔ وہ ریاست کے اندر محفوظ تھے اور نہ باہر ان کے لئے جائے پناہ تھی۔ڈوگرہ حکمران ہندو تھے ،اس لئے اسلام اور مسلمان دشمنی ان کی رگ رگ میں شامل تھی۔ بھارت سرکار کی جانب سے اس کی فوج کی آمد کو اگرچہ مہاراجہ ہری سنگھ کی درخواست کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وہ آئینی طور پر ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے بے دخل ہوچکے تھے۔ لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر رکھی تھی، دوسرا یہ کہ ایک فردِ واحد کو کسی طرح بھی یہ حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ لاکھوں کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کی رائے جاننے کے بغیر ازخودکرتا اور ان کے حقِ خودارادیت کو کالعدم کرتا۔اس لئے بھارت کے اس فوجی قبضے کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں تھا۔

دوسری طرف پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے بھی پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی (Douglas Gracey) کو کشمیر کی طرف فوج کشی کا حکم دیا تاکہ اہل کشمیر کو بھارتی مظالم سے بچایا جائے پر جنرل ڈگلس گریسی نے کشمیر میں فوج داخل کرنے سے انکار کردیا اور محمد علی جناح کا یہ پیغام بھارت و پاکستان کے مشترکہ سپریم کمانڈر جنرل آکن لیک  (Auchinleck) کو پہنچادیا جس نے اگلے ہی روز آکر محمد علی جناح سے آرڈر واپس کروالیا ( بحوالہ میجر جنرل شاہد حامد پرائیویٹ سیکرٹری جنرل آکن لیک)
اسکے بعد وزیرستان اور دیگر قبائل کے غیور مسلمانوں نے کشمیر پر حملہ کرکے تقریباً نصف کشمیر آزاد کروالیا جسے آج ہم آزاد کشمیر کے نام سے جانتے ہیں باقی کشمیر جو کہ جموں ، کشمیر اور لداخ پر مشتمل ہے ابتک ہندوستان کے قبضے میں ہے اور شمالی علاقوں کا کچھ حصہ چین کے قبضے میں ہے۔
(کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ ریاست کشمیر میں پاکستانی کنٹرولڈ کشمیر کے علاقے پونچھ، مظفرآباد، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے بھی شامل ہیں۔گلگت اور بلتستان پر 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے فتح کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔
اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہیں۔

بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔

آزاد کشمیر کا 13،350 مربع کلومیٹر (5134 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے جبکہ شمالی علاقہ جات کا رقبہ 72،496 مربع کلومیٹر (27،991 مربع میل ) ہے جو گلگت اور بلتستان پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند سے قبل بلتستان صوبہ لداخ کا حصہ تھا اور اس کا دار الحکومت اسکردو لداخ کا سرمائی دار الحکومت تھا۔)

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آج بھی آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے اور اللہ کی ذات سے امید ہے ان شاءاللہ باقی کشمیر بھی جلد ہی بھارت اور چین کے قبضے سے آزاد ہوکر سکون کی زندگی گزارے گا

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔