ملحد ننگا پیر سرمد کاشانی کا قتل اور اس حوالے سے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر پہ الزام کی اصل حقیقت
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرمد کاشانی( 1590_1661ء) ایک فارسی شاعر اور ظاہری صوفی اور خفیہ ملحد تھا۔ وہ بنیادی طور پہ آرمینیا کا باشندہ تھا اور ایک تاجر فارسی یہودی خاندان میں پیدا ہوا۔1
اور کاشان میں مقیم رہا۔ نسلاً یہودی تھا اور اسرائیلی زبانوں اور علوم کا ماہر تھا۔اس کی مادری زبان فارسی اور پیشہ ورانہ زبان پیشہ ورانہ زبان فارسی، عبرانی، ہندی-اردو، عربی تھی۔ اس نے یہودیوں کی مذہبی کتاب تورات کا فارسی میں ترجمہ کیا۔2
مشہور حکماء ملا صدرا شیرازی اور ابو القاسم فندرسکی کا شاگرد تھا۔ اسے پتہ چلا کہ مغل برصغیر میں قیمتی چیزوں اور ادب کے شاہکاروں کی بڑی قدر ہے اور وہاں یہ چیزیں بھاری داموں لی جاتی ہیں۔ اس لیے اس نے برصغیر کا قصد کیا ۔ہندوستان آکر حیدرآباد میں مقیم رہا۔ عبد اللہ قطب شاہ نے اسے خوش آمدید کہا۔وہ اپنے ٹھٹھہ کے قیام 1042ھ / 1632ء کے دوران میں ایک ہندو لڑکے ابھی چند پر ایسا عاشق ہوا کہ وہ اسی کا ہو کر رہ گیا۔3
اسے کئی زبانیں سکھائیں۔ اس ہندو لڑکے نے اس کی نگرانی میں توریت کے ابتدائی حصے کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔4
مغربی مورخہ پگارینا نطالیا کے مطابق ہوسکتا ہے اس نے اسلام قبول کر لیا ہو 5
لیکن خود اسے اور دیگر مورخین کو آج تک اس کے قبول اسلام پہ شک ہے۔لیکن اس کے عقائد و افکار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ اس کی حرکات سے معلوم پرتا ہے کہ وہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہاں آیا تھا، اسے اورنگزیب عالمگیر کے ہندو نواز اور مذہب بیزار بھائی دارا شکوہ کا سہارا ملا تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔دبستان مذاہب کا مولف سرمد سے 1042ھ / 1632ء میں حیدر آباد میں ملا تھا اور اس سے کئی اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ اس کے اشعار و اقوال سے بیان ہوتا ہے کہ وہ وحدت ادیان کا قائل تھا۔ اس کا ایک شعر ہے
در کعبہ و بت خانہ سنگ اوشد وچوب اوشد ۔۔۔۔۔ یکجا حجرا لاسود و یکجا بت ہندو شد۔
یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ اس اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اس کے عقائد و افکار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ اس کی حرکات سے معلوم پرتا ہے کہ وہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہاں آیا تھا، اسے دارا شکوہ کا سہارا ملا تو یہیں کا ہو کر رہ گیا۔6
سرمد کو مراۃ الخیال میں شیر خان لودھی نے،مجمع النفع میں سراج الدین علی خان نے ریاض العارفین میں ریاض علی قلی خان نے ذکر کیا ہے ۔لکھ پت خان ریاضِ مشاعرہ اور دبستان مذاہب کو مستند کتب میں شمار کرتا ہے۔ اس کا تذکرہ کرنے والے ڈاکٹر مبارک علی اکیلے نہیں ہیں۔
وہ اپنی شاعری میں اعلانیہ کہتا تھا کہ نہ وہ ہندو ہے نہ مسلم نہ یہودی۔7
اس نے ناخن اور بال کاٹنا چھوڑ دیے، لباس پہننا بند کر دیا اور ایک ننگے فقیر کے روپ میں گلیوں اور بادشاہوں کے درباروں میں گھومنا شروع کر دیا۔8
اس کے بارے میں مورخین کا خیال ہے کہ وہ خفیہ یہودی یا ملحد تھا جو برصغیر کے مسلمانوں کے ایمان پہ ڈاکہ ڈالنے اور مغل حکمرانوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ایران سے برصغیر میں آیا تھا۔
اس دوران اس کی شہرت ایک صوفی اور شاعر کے طور پہ ہوگئی جس پہ اورنگزیب عالمگیر کے بھائی اور اس سے مذہبی نظریات میں بالکل مخالف مغل شہزادے دارا شکوہ نے اسے اپنے والد شاہ جہان کے دربار میں دعوت دی۔اسی حالت میں وہ اسی ہندو لڑکے کے ساتھ پہلے لاہور اور پھر دہلی پہنچ گیا۔اس نے مغل شہزادے دارا شکوہ کو اپنے اسلام دشمن اور متضاد نظریات سے بہت متاثر کیا اور وہ اس کا شاگرد بن گیا۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس سے راسخ العقیدہ سنی مسلمان اورنگزیب عالمگیر کا اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ اور اس ننگے فقیر سرمد سے اختلاف شروع ہوا جو درحقیقت ایک ننگے فقیر کا روپ دھارے ایک خفیہ یہودی یا ملحد کے طور پہ اسلام اور مغل شاہی خاندان کے شہزادوں کے مذہبی نظریات کی جڑیں کاٹ رہا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اورنگزیب اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ کی مغل تحت پہ بادشاہی کے خلاف تھا اور اس کے خلاف جنگ کرکے خود بادشاہ کے طور پہ تخت نشین ہوا۔جب دارا شکوہ کو جنگ تخت نشینی میں شکست ہوئی اور اورنگزیب عالمگیر نے حکومت سنبھالی تو جہاں اس نے بہت سے غیر شرعی صوفیا کا احتساب کیا وہاں سرمد پر بھی گرفت ہوئی۔ اسے دربار میں طلب کیا گیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے اعتماد خان ملا عبد القوی کو حکم دیا کہ وہ سرمد کو حاضر کرے، اس نے دربار میں سوال و جواب کے دوران میں بھی اسلام کے خلاف توہین ٓآمیز کلمات کہے اور اس کی انہی حرکات اور الحاد کے فروغ کے جرم کی بدولت علما کے فتوی سے قتل کر دیا گیا۔9،10
اس کے قتل کی وجہ عوام اور مغل شاہی خاندان میں خلاف اسلام نظریات اور الحاد کی ترویج تھا۔12
اورنگزیب نے اسے توبہ کی دعوت دی لیکن وہ بار بار کہتا رہا کہ کوئی خدا نہیں ہے، کوئی خدا نہیں ہے، اورنگزیب نے اسے کہا کہ کہو صرف ایک اللٰہ ہے لیکن اس نے جواب دیا کہ میرا دماغ نفی پہ جم چکا ہے تو،مثبت کیوں کہوں۔12
اس طرح اس نے خود ہی اپنی موت کا انتخاب کیا۔ اورنگزیب نے اسے کہا کہ وہ الحاد اور اپنے اسلام دشمن نظریات سے توبہ کرے لیکن الٹا بجائے توبہ کے اس نے اسلام کے خلاف مزید نفرت آمیز الفاظ کہے جس پہ اورنگزیب عالمگیر نے اس کو فوری سر قلم کراکے قتل کرا دیا۔
اور دوسری بات یہ کہ اسلام میں صوفی پن اور تصوف کے غلبے میں بھی ننگے پن کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ عمل ہندو ننگے سادھو اپناتے ہیں جس کو ہمارے کچھ نام نہاد صوفیوں نے ہندوؤں سے متاثر ہوکر اسلامی تصوف میں شامل کرکے اس کا بیڑہ غرق کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا اس کے غیر اسلامی نظریات اور غیر اسلامی شرع اور اس کی ترویج بلکہ خدا کے انکار تک پہ اورنگزیب عالمگیر کی طرف سے اس کا قتل ٹھیک تھا۔ ایک بادشاہ اپنی ساری رعایا کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر اورنگزیب ایسا نہ کرتا تو آج تصوف کے نام پہ یہودی اور ہندو نظریات سے متاثر ایک گمراہ فرقہ پیدا ہو چکا ہوتا۔ اورنگزیب نے اس فتنے کے ابھرنے سے پہلے اس کا خاتمہ کیا۔
اس کے نظریات اتنے متنازعہ تھے کہ اورنگزیب کے دربار میں موجود یورپی بھی برداشت نہ کر سکے۔ اورنگزیب کا ذاتی طبیب فرانسس برنیئر کہتا ہے کہ مجھے اس کے ننگے پن سے سخت نفرت ہے۔ ان دنوں دہلی میں مقیم اٹلی کے ڈپلومیٹ نکولو مینوسی نے بھی دارا شکوہ اور سرمد دونوں کو ملحد قرار دیا ہے جو اپنے نظریات کی ترویج تیزی سے کر رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اورنگزیب نے سرمد اور اپنے بڑے بھائی دارا شکوہ دونوں کو قتل کرایا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یی تخت نشینی کی سیاسی جنگ تھی۔
منصور نے خدا کا انکار نہیں کیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ سرمد کاشانی کی طرح آزادانہ خیالات نہیں رکھتا تھا جو بالکل خلاف اسلام تھے۔ سرمد کاشانی کے آزادانہ اور اسلام متضاد نظریات مورخین کے نزدیک بالکل متفق ہیں اور اس کو ڈاکٹر مبارک علی جیسے مفکرین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
سرمد کے قتل کے اسباب تذکرہ نویسوں نے کئی بتلائے ہیں۔ سرمد کی ایک رباعی پر مفتیانِ وقت نے اسے منکرِ دین قرار دیا۔ سرمد پر دربارِ عالمگیری میں عائد کی گئی فردِ جرم میں ایک جرم اس کی بے لباسی بھی تھی اور ملحدانہ خیالات بھی۔
اور یہ بھی نہیں تھا کہ اورنگزیب نے سعید سرمد کاشانی کو اندھا دھند جذبات میں قتل کرایا بلکہ پہلے اسے دربار میں بلا کر اپنے نظریات بیان کرنے کو کہا گیا۔علما و فضلا کو جمع کیا گیا، اس سے سوال و جواب کئے گئے۔ سرمد جھوٹ کیسے بولتا؟ اس نے اعلانیہ اپنے اسلام سے متضاد نظریات کا اظہار کیا۔ لیکن پھر بھی اسے قتل نہیں کیا گیا بلکہ اسے توبہ کرنے کو کہا گیا جس پہ اس نے کہا کہ کوئی خدا نہیں ہے بلکہ مراۃ الخیال اور ماثر الامراء کے مصنف کے مطابق الٹا اس نے اسلام کے خلاف توہین آمیز الفاظ کہے جس پہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا
اپنے برصغیر کے سفر کے دوران سرمد ٹھٹھہ میں ایک ہندو لڑکے ابھے چند کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ٹھٹھہ میں محفلِ موسیقی کے انعقاد کے دوران ابھے جیت کی آواز سُن ۔ اس کی آواز کے سُروں نے اس کے دل کے ساز کے سُروں کو وہ جِلا دی کہ سرمد ایک طرف شعر کہتا ، دوسری طرف ابھے جیت اسی عرفانی شاعری کو گاتا ، اور سرمد اسکی آواز میں دھمال ڈالتا ۔ اسی کیف و مستی میں اُس نے ابھے جیت کو "خدا" کہنا شروع کردیا ،سرمد کو اس میں اپنے خُدا کا جلوہ نظر آتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ خدا دنیا کے ہر مظہر میں دکھتا ہے اور اس کو
ابھے میں خدا دکھتا ہے۔اس کی یہ رُباعی اس کے جذبات کی ترجمان ہے
ایک لڑکے کو معشوق بنا کر اسے خدا قرار دینا کونسا تصوف ہے۔
اس کا ایک شعر ہے جس کا ترجمہ ہے
میں نہیں جانتا اس دنیا میں خدا کو
میرا خُدا ابھے چند ہے یا کوئی اور
ایک لڑکے کو معشوق بنا کر اسے خدا کا درجہ دینا کونسا تصوف ہے۔
قتل کے وقت سرمد کا ساتھی اسداللہ شاہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ابھی بھی موقع ہے ۔تم کلمہ پڑھ لو ، اپنے عقائد درست کرلو
اور اس سزا سے بچ جاؤ۔اس پر اس نے جواب دیا:
عمریست کہ آوازہِ منصور کہن شد
من از سرنو جلوہ دھم دار ورسن را
منصور کا قصہ پرانا ہوچکا ہے اب میں پھر سے دار پر چڑھوں گا اور رسی کھینچی جائے گی ۔ بجائے اس کے کہ وہ کلمہ پڑھتا مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے بھی انکار کر دیا۔ اورنگزیب کے سامنے خدا کے وجود کا بھی انکار کیا۔ اب اس کو تصوف کہا جائے یا الحاد۔ ایسا کوئی تصوف نہیں اسلام میں۔
کہا جاتا ہے کہ جب سرمد کا سر بدن سے جُدا کردیا گیا۔جب اس کے سر کو تن سے علیحدہ کیا گیا تو اک عجب معجزہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ سرمد کا وجود حرکت میں آگیا اور الہ اللہ کا رقص شُروع کردیا ۔اس کے ساتھ سرمد کے سر نے لاالہ الا اللہ کا کلمہ کئی مرتبہ ادا کیا۔ اگر یہ واقعہ سچ بھی مان لیا جائے تو بھی اورنگزیب نے جو کیا وہ غلط نہیں تھا کیوں کہ اورنگزیب نے اس کے ظاہر کے مطابق وہ کیا جو اس کا حکمران بطور فرض تھا۔ باطن کا حساب اللٰہ تعالٰی کے ذمے ہے۔
جب وہ خود اپنی شاعری میں کہتا ہے کہ نہ میں مسلم ہوں، نہ ہندو ہوں، نہ یہودی ہوں تو پھر الحاد کے سوا کیا بچتا ہے۔ معشوق لڑکےکو خدا قرار دینا، تمام مذاہب سمیت اسلام کی نفی کرنا الحاد نہیں تو اور کیا ہے۔
در حقیقت اس نے مسلم، یہودی اور ہندو نظریات کے ملاپ سے ایک دوسرا مذہب یا الحاد پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ اپنے نظریات کی ترویج تیزی سے کر رہا تھااور اس کے پیروکاروں میں اورنگزیب کا بھائی دارا شکوہ بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اورنگزیب نے دارا شکوہ سے جنگ کی اور سرمد کو قتل کیا۔ دارا شکوہ سے جنگ محض تخت نشینی کی جنگ نہیں تھی بلکہ اورنگزیب اسے اس کے اسلام دشمن نظریات کی وجہ سے حکومت کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔
اور اس کے انارکی پہ مبنی نظریات کی مخالفت کرنے والے صرف مسلمان نہیں بلکہ وہ عیسائی بھی تھے جو ان دنوں دہلی میں مقیم تھے۔۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک یہودی فلسفی اسحاق لوریا( 1534_1572ء) کی تعلیمات سے متاثر تھا جس کے مطابق کائنات خدا کی لطافت کے کثافت میں تبدیل ہونے سے وجود میں آئی ہے۔اس نے کہا کہ پوشاک بد صورتی کو چھپاتی ہے اور بے عیب لوگوں کو لباس پہننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لیے اس نے ننگے ہندو سادھوؤں کی طرح خود کو ننگا کر لیا اور ننگا رہنا شروع کر دیا۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا اور کچھ کہتے ہیں کہ ہندو۔ لیکن اس کی شاعری میں اسلام اور ہندو مت دونوں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ایک جگہ وہ کہتا ہے کہ کعبے میں اندھیرا ہے اور مندر صرف ایک رنگ کے ہیں۔ اس نے دنیا کے کئ مذاہب میں دلچسپی لی اور کوئی مذہب اس کی تنقید سے نہ بچ سکا۔لہٰذا کئ مورخین کا خیال ہے کہ وہ ملحد تھا اور اپنے انہی نظریات اور ان کی ترویج کی وجہ سے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں قتل ہوا
حقیقت یہ ہے کہ سرمد پہلا الومیناتی الحادی سمجھا جا سکتا ہے جس کے تصوف کا مرکز یہودیت اور اسحاق لوریا کے یہودی علم کبالہ پہ مبنی تھا اور یہی موجودہ اکثر محققین کی رائے ہے اور اس کی تصدیق فارسی زبان میں تصنیف کردہ عالمی انسائیکلو پیڈیا دبستان مذاہب سے ہوتی ہے جس کو 1650ء میں تصنیف کیا گیا تھا اور اس میں وہ دنیا کی تخلیق کا جو بیان کرتا ہے وہ کبالہ پہ مبنی ہے
یہ ساری تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ سرمد کوئی مسلم صوفی نہیں بلکہ یا اسلام، یہودیت، ، ہندو مت کے ملاپ سے کوئی نیا مذہب پیش کر رہا تھا یا ملحد تھا۔ اس کے نظریات اسے تصوف کے نام پہ ایک نئے مذہب کا خالق اور اس کے مرتے وقت خدا کا انکار اسے ملحد ثابت کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ بات ایک نئے مذہب یا الحاد کی ترویج کر رہی تھی اور اورنگزیب نے اسے قتل کرکے اس فتنے کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔ اس صورت میں اورنگزیب کا عمل بالکل ٹھیک تھا۔14
اس کی قبر بھارت میں جامع مسجد دہلی کے قریب واقع ہے۔ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک قائد اپنے آزاد خیالات کی وجہ سے خود کو سرمد کے مشابہ قرار دیتے۔13
حوالہ جات:
1:See mainly: Katz (2000) 148-151. But also: Sarmad the Armenian and Dara Shikoh; Khaleej Times Online - The Armenian Diaspora: History as horror and survival
2:Fishel, Walter. "Jews and Judaism at the Court of the Mugal Emperors in Medieval India," Islamic Culture, 25:105-31.
3:V. N. Datta, Maulana Abul Kalam Azad and Sarman, Walderman Hansen doubts whether sensual passions played any part in their love [sic]; puri doubts about their homosexual relationship
4:دبستان مذاہب ص95
5:Prigarina, Natalia. "SARMAD: LIFE AND DEATH OF A SUFI" (PDF). (Institute of Oriental Studies, Russia. Retrieved 24 May 2016.
6:دبستان مذاہب ص96
7:For some examples of his poetry, see: Poetry Chaikhana Sarmad: Poems and Biography.
8:http://www.poetry-chaikhana.com/S/Sarmad/index.htm
11:"Votary of freedom: Maulana Abul Kalam Azad and Sarmad". Tribune India. 7 October 2007
9:مراۃ الخیال، شیر خان لودھی، طبع کول 1848ء ص154
10:مآثر الامراء، ص225/1-224
12:"Votary of freedom: Maulana Abul Kalam Azad and Sarmad". Tribune India. 7 October 2007
12:Najmuddin, Shahzad Z. (2005). Armenia: a Resumé: with Notes on Seth's Armenians in India. Trafford Publishing. ISBN 978-1-4120-4039-6.
13:Votary of freedom - Maulana Abul Kalam Azad and Sarmad by V. N. Datta, Tribune India, 7 October 2007
14:http://sheppartoninterfaith.org.au/?p=2077
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔