کیا آسیہ مسیح بے گناہ ہے؟؟؟
کچھ سال پہلے جب سیشن عدالت نے ملعونہ آسیہ مسیح کو تعزیرات پاکستان زیر دفع 295c کے تحت مجرمہ قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تو مسلمانوں کے بھیس میں چھپے بہت سے قادیانی اور ملحد تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے آسیہ مسیح کو مظلوم ثابت کرنے میدان میں اتر آئے۔ ہر کوئی یہ تاثر عام کرنے میں کوشاں تھا کہ مانو معزز عدالت نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور گواہ کے صرف تعصب کی بناء پر یہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس قانون پر بھی کھل کے تنقید کی گئی اور قانون کو بدلنے کا مطالبہ بھی زور و شور سے کیا جانے لگا۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے ایک پمفلٹ کی شکل میں 295c کے تحت اس وقت تک درج ہونے والے تمام مقدمات کی تفصیلات چھاپ کر ان سب کے منہ کالے کردیئے۔ تفصلات کچھ یوں ہیں:
1986 سے لیکر 2009تک اس قانون کے حوالہ سے پاکستان میں کل 964مقدمات زیرِ سماعت آئے جن میں 479کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ 340کا تعلق احمدیوں سے، 119کا تعلق عیسائیوں سے، 14کا تعلق ہندوؤں سے اور 12کا تعلق دیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں سے ہے۔ ان تمام مقدمات میں اس قانون کے تحت عملا کسی کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ سوائے ایک آسیہ مسیح کے۔
کیونکہ آسیہ مسیح سے ہی تو سیشن کورٹ کی ذاتی دشمنی تھی۔ اور صرف سیشن ہی نہیں ہائی کورٹ کی بھی، کیونکہ اس سزا کو عدالت عالیہ نے بھی برقرار ہی رکھا۔
اسے غیر مسلموں کے خلاف استعمال ہونے والا قانون کہنے والو دیکھو 964میں سے 479مقدمات تو مسلمانوں کے خلاف ہی درج ہوئے۔
آسیہ مسیح کے ارتکاب و اقبال جرم کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:
آسیہ نامی مذکورہ عیسائی عورت نے 14جون 2009ء بروز اتوار شانِ رسالت مآبﷺ میں گستاخی کی تھی۔ مذکورہ ملعونہ ننکانہ صاحب کے نواحی گائوں اٹانوالی چک نمبر 3گ ب تھانہ صدر ننکانہ صاحب کی رہائشی تھی۔ اس کا کردار پورے گائوں میں قابل اعتراض مشہور تھا۔ مادر پدر آزادی کی دلدادہ، سرعام قابل اعتراض گفتگو کرنے والی تھی۔ اس کی بڑی بہن کی شادی اس کے نام نہاد خاوند عاشق کے ساتھ ہوئی تھی۔ جس سے اس کے خاوند کے تین بچے موجود ہیں۔ جب اس کی بڑی بہن کو بچے کی امیدواری ہوئی اور زچگی کے دن قریب آئے تو آسیہ اپنی بہن کے گھر کا کام کاج کرنے اس کے گھر آگئی۔ اپنی بہن کے گھر چند دن رہائش کے دوران اس کے خاوند (جوکہ اب آسیہ کا بھی خاوند بن چکا ہے) سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے اور حاملہ ہوگئی۔ والدین نے حمل چھپانے کی غرض سے شادی کرنا چاہی تو اس نے اپنی بہن کے خاوند عاشق مسیح کے سوا کسی اور سے شادی کروانے سے انکار کردیا بلکہ بغاوت کرکے زبردستی عاشق کے گھر رہنے لگی اور عاشق اپنی بیوی کے گھر موجود ہونے کے باوجود راتیں آسیہ کے ساتھ بسر کرنے لگا۔ اس پر بیوی نے سخت احتجاج کیا تو عاشق نے مار پیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب اصل بیوی، بے گھر اور سالی گھر والی بن کر زندگی گزارنے لگی۔ عیسائی مذہب میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں، لیکن آسیہ نے اہل دیہات اور برادری والوں کے اصرار کے باوجود عاشق کے گھر سے جانے سے انکار کردیا۔ آسیہ اور عاشق کے اس خلاف مذہب اقدام پر عیسائی برادری نے بھی سخت احتجاج کیا اور ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرنے کی دھمکیاں دیں لیکن عاشق مسیح نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور مذہبی روایات کے برعکس نام نہاد شادی کرلی اور دونوں بہنوں کو اکھٹا اپنے گھر آباد کرلیا۔ آسیہ قدرے پڑھی لکھی اور ’’روشن خیال‘‘ عورت تھی۔ اسی روشن خیالی کی وجہ سے این جی اوز کی آنکھ کا تارا بن گئی اور علاقے میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرنے لگی۔ دیہات میں چونکہ عورتیں کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں، لہٰذا آسیہ نے خواتین کے اس اجتماع سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ طریقہ اپنایا کہ عورتوں کے ساتھ مزدوری کے بہانے چلی جاتی اور اپنے ساتھ کام کرتی عورتوں کو باتوں باتوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرتی۔
اسی معمول کے مطابق 2009- 6- 14کو گائوں کی عورتیں ادریس نامی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرنے گئیں تو آسیہ بھی ان عورتوں میں موجود تھی۔ عورتیں عام طور پر دوپہر کا کھانا ساتھ ہی کھیتوں میں لے جاتی تھیں۔ جب عورتیں دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھیں تو آسیہ نے مافیہ بی بی اور آسیہ بی بی دختران عبدالستار کے گلاس میں پانی پی لیا۔ انہوں نے اس کے جھوٹے گلاس میں پانی پینے کی بجائے اپنا سالن والا برتن خالی کرکے اس میں پانی پی لیا۔ اس بات کو آسیہ نے اپنی توہین سمجھ کر دونوں بچیوں کے ساتھ تُو تکار کرکے مذہبی گفتگو شروع کردی۔ دوران گفتگو آسیہ نے نبی اکرمﷺ اور قرآن مجید کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ بعد میں مشنری پشت پناہی کے زعم میں مسلمان و عیسائی پنچائیت، پولیس اور سیشن عدالت کے سامنے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا اعتراف کیا۔ اور جب فاضل عدالت نے کسی بھی بیرونی طاقت کے رعب میں نہ آتے ہوئے موت کی سزا سنا دی تو موصوفہ کے چودہ طبق روشن ہوئے اور لگیں اپنے بیان سے مکرنے۔
فاضل عدالت نے تو غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے جتنی غیرت ہم میں ہے یا سارےچوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں۔
آخر میں اس کیس اور قانون سے جڑے دو اعتراضات کی دوائی بھی نوٹ فرما لیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو بھی اس قانون کے تحت سزا نہیں ہوئی تو یقیناً آج تک درج کیے جانے والے تمام مقدمات ہی جھوٹے تھے۔ اب ایسے میں مقدمے کی کارروائی کے دوران جتنا عرصہ ان بے گناہوں کو جیل میں رہنا پڑا، اس کا کون ذمے دار ہے؟ لہٰذا اس قانون میں ترمیم لانی چاہیے۔ اور جب تک جرم پوری طرح ثابت نہ ہو جائے، کسی کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔
تو عرض یہ ہے کہ مقدمہ چاہے جو بھی ہو، ملزم کو اس کی کارروائی کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی ہی پڑتی ہیں۔ لہٰذا اس بناء پر اگر تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہو تو پھر ہر قانون میں اسی تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ اور صرف پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کے ہر قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہوگا، کیونکہ حال ہی میں ایک کالا انگریز غالباً بیس سال قید رہنے کے بعد امریکی عدالت سے بے گناہ ثابت ہوا ہے۔
اور رہی بات گستاخ رسول ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں تمام لوگوں کے بے گناہ ثابت ہونے کی تو بے گناہ ثابت ہونے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ ملزم نے جرم کیا ہی نہیں۔ گواہ دبائو میں آجاتے ہیں۔ ثبوت بدل دیئے جاتے ہیں۔ مجسٹریٹ بک جاتے ہیں۔ کیا ہے جو ہماری عدالتوں میں نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مذکورہ قانون میں درکار گواہان اور ثبوتوں کا معیار اتنا بلند ہے کہ عام طور پر اس درجے کے ثبوت اور گواہ پیش کر پانا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ آسیہ ملعونہ تو یورپ اور پوپ کی پشت پناہی کے بھرم میں اعتراف گناہ کرکے ماری گئی۔ اور ان شاء اللہ یہی حال ملحدوں کا بھی ہوگا۔
اور اب سب سے آخری اعتراض کہ گستاخ نبی کی سزا موت ہے بھی کہ نہیں۔ تو جواب پیش خدمت ہے حدیث مبارکہ سے:
عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل و من سب اصحابہ جلد(الصارم المسلول صفحہ۹۲،۲۹۹)
ترجمہ:
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو برا کہے اسکو کوڑے لگادئے جائیں۔
اسے کہتے ہیں رحمت اللعالمین۔ صرف زندوں کے لیے نہیں، پردہ فرما چکے انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی رحمت تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم۔ انبیاء کی عصمتوں و عظمتوں کی تعلیم ہی نہیں دی، پاسبانی بھی فرض فرما دی سب مسلمانوں پہ۔ اگر 295c میں تمام انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کی سزا موت نہیں تو یہ قانون ہرگز اسلامی نہیں ہے۔ میں تو کہتی ہوں انبیاء علیہم السلام کے غلاموں کی بے ادبی کی سزا بھی عبرت ناک موت ہونی چاہیے۔ کوئی ہوتا کون ہے ان مقدس ہستیوں پر بھونکنے والا، جنہوں نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں، جنگیں لڑیں، فاقے کیے اور اپنے جان و مال سب کچھ لٹائے۔ تمہاری کم علمی کی سزا ہم اپنے پیارے انبیاء علیہم السلام کو اذیت دے کر کیوں دیں بھئی؟ تمہیں ہی واصل جہنم کیوں نا کر دیں بے دلیل بھونکنے پر؟
میرا عنوان تھا "کیا آسیہ ملعونہ بے گناہ ہے؟؟"تو صرف عیسائی، ملحد بھائی بھائی گروپس میں ایک بار جھانک کے دیکھ لیں، سینکڑوں آسیائیں آپ کو آسے پاسے نظر آئیں گے اور گی۔burn quran لکھ کر یوٹیوب پہ سرچ کروا لیں، ہزاروں عیسائی، ملحد دنیا کے ہر کونے میں قرآن جلاتے مل جائیں گے۔ یہ غیر مسلموں کا عام وطیرہ ہے۔ یہ سب کے سب نہ سہی، لیکن ان کی اکثریت گستاخانہ حرکات کرتی ہی ہے۔ اور آسیہ ملعونہ انہی میں سے ایک گستاخ ہے۔
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔