ملحدین کا قرآن پہ اعتراض کہ قرآن کبھی کہتا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے کائنات کو چھ دن میں بنایا اور کبھی کہتا ہے کہ پہلے چھ دن اور دو دن اور یعنی آٹھ دن میں بنایا۔اس بات پہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ قرآن نعوذ بااللہ شکوک و شبہات کی کتاب ہے جب کہ یہ صرف ملحدین کی جہالت ہے اور کچھ نہیں۔اس کا جواب یہ ہے
قرآن کریم کی جتنی بھی آیات میں زمین و آسمان کو تخلیق کرنے کی کل مدت ﷲ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ چھ دن ہی ہے ۔ مگر سورہ فصلت میں ﷲ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دو ایام اور ان میں موجود باقی تمام چیزوں کی پیدائش کے چار ایام کو الگ الگ بیان کیا جس پر ملحدین کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کو ٹوٹل کیا جائے تو آٹھ دن بنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو کچھ چیزوں کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔
سورہ یاسین 36۔ آیت 82
اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ ﴿۸۲﴾
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ﴿۸۲﴾
اور یہی بات ﷲ نے سورہ فصلت کی آیت 11میں بیان فرمائی کہ
ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ ﴿۱۱﴾
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں ﴿۱۱﴾
اب یہاں واضح طور پہ آسمان کے ساتھ ہی زمین کو وجود میں لانے کا بھی ذکر ہو رہا ہے ۔ یعنی جو دو دن سورہ فصلت کی آیت نمبر 9میں بیان کئے گئے آیت نمبر 11میں انہی کا اعادہ کیا گیا ۔ یعنی دو دن زمین اور آسمان کی تخلیق کے اور چار دن ان کی تزین و آرائش کے ۔
قصور ملحدین کا نہیں ہے ۔ ان آیات سے بعض مسلمان مفسرین نے بھی دھوکا کھایا ہے ۔ کسی نے ان آیات کی تفسیر میں چار دن میں زمین اور اس کی باقی آرائش کو اور دو دن میں سات آسمان کی تخلیق کو بیان کیا ہے ۔ اور بعض نے دو دن میں زمین و آسمان اور چار دن میں تزین و آرائش کو بیان کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان مفسرین نے صرف ترتیب میں دھوکہ کھایا ہے تعداد میں نہیں ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا بیان اتنے زیادہ تواتر سے قران میں آیا ہے کہ اس کے بعد سورہ فصلت کی ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہی نہیں جا سکتی کہ یہاں چھ دن آٹھ دنوں میں بدل گئے ہوں گے جبکہ یہاں صرف دنوں میں بنانے والی چیزوں کا ذکر ہو رہا ہے نا کہ کل تعداد بتائی جا رہی ہے کہ زمین و آسمان آٹھ دن میں بنے ۔
اس تضاد کو صرف ایک ہی صورت میں تضاد سمجھا جا سکتا تھا کہ ایک آیت میں قرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت بتاتا اور کسی اور آیت میں آٹھ بتا دیتا ۔
مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت تو سات مختلف جگہوں پہ قرآن خود بتا رہا ہے مگر سورہ فصلت سے آٹھ دن کی مدت قران نہیں بتا رہا بلکہ ملحد خود یہ حساب کتاب لگا رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ قرآن پہلے دن سے ہی سینوں میں محفوظ ہوتا چلا گیا اور آج تک دنیا میں جتنے اس کتاب کے حفاظ ہیں اتنے کسی اور کتاب کے نہیں ۔ پھر اگر یہ غلطی ہوتی تو فوراً عیاں ہو جاتی کہ پہلے چھ فرماتے رہے اب تعداد گن رہے ہیں تو آٹھ آرہی ہے ۔ جی نہیں ۔ اس کو کسی بھی دور میں غلطی سمجھا ہی نہیں گیا ۔ نہ ہی یہ غلطی ہے ۔ یہ غلطی صرف اس ملحد کی ہے جس نے حساب کرتے وقت قران کی گزشتہ سات آیات کو قطعاً نظر انداز کر دیا اور زمین کے دو دن الگ گنے اور آسمان کے دو دن الگ ۔ جبکہ حقیقت میں زمین اور آسمان کی پیدائش کے لئے دو دن کا ذکر کیا گیا ہے ۔
یعنی صورت حال یوں ہے کہ سات مختلف مقامات پہ قران زمین و آسمان کی پیدائش کی مدت چھ دن بتاتا ہے اور سورہ فصلت میں تین باتیں سامنے آتی ہیں ۔
١ ۔ زمین دو دنوں کی مدت میں تخلیق ہوئی ۔
٢ ۔ زمین میں موجود چیزیں چار دن کی مدت میں تخلیق ہوئیں ۔
٣ ۔ زمین و آسمان دو دن کی مدت میں تخلیق ہوئے ۔
اب یہاں سے یہ منطقی مغالطہ جنم لیتا ہے کہ جن دو دنوں کی مدت میں زمین تخلیق ہوئی ان میں کچھ اور تخلیق نہ ہوا ہو گا جبکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ﷲ کی تخلیق کے عمل سے مراد بس ایک لفظ "کن"ہے ۔ ﷲ صرف ارادہ کرتا ہے مشقت نہیں کرتا ۔ اور جب اسی کی اگلی آیات میں یہ بات واضح ہو چکی کہ زمین و آسمان ایک ساتھ تخلیق ہوئے تو سمجھنے والے کو کم از کم اتنی سمجھداری کا ثبوت ضرور دینا چاہئے کہ یہ دو دن پچھلی آیات میں زمین کے لئے بیان کردہ دو دنوں سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ آپ کے پاس چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی سات مختلف آیات بھی موجود ہوں ؟
اس منطقی مغالطے کی ایک وجہ یہاں استعمال ہونے والا لفظ "ثم"بھی ہے جو عربی میں زیادہ تر "پھر"کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی "اس کے بعد"۔ مگر یہاں اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ صرف عربی کا لفظ "ثم"بلکہ اردو کا لفظ "پھر"یہ دونوں لفظ مزید یا انگریزی کے لفظ"further"کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔
مثلاً
"میں صبح نو بجے آفس جاتا ہوں اور شام چھ بجے واپس آتا ہوں پھر میں بیچ میں دو وقفے بھی لے لیتا ہوں پھر جو لنچ کا وقفہ ہے سو وہ الگ ۔"
اس جملے میں لفظ "پھر"اگر آپ ترتیبی معنوں میں یا "اس کے بعد"کے معنوں میں استعمال کریں گے تو الجھ جائیں گے ۔ لہٰذا یہاں اس کا ترجمہ "مزید"کے معنوں میں کیا جائے گا ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن عقل والوں کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔ تو جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کی ان آیات سے کیا مراد ہے ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں ۔ اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو سمجھنے کے باوجود بھولے بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو خبط العقل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ﷲ سب کو عقل و ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حق کی تلاش نہیں تھی کیونکہ نبی بچپن سے ہی شرک اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ وسلم ان بیان کی گئ مثالوں کے ذریعے لوگوں کو دعوت حق دے رہے تھے کہ اتنی بڑی بڑی اشیاء کو بھی زوال ہے اور جس کو زوال ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔لیکن ملحدین کو چونکہ اسلام کی ہر بات میں کیڑے نکالنے کی عادت ہے۔اس لیے انہوں نے اس بات کو بھی بنیاد بنا کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
یہاں سورج،چاند،تاروں سب کو عوام کا خدا کہلوا کے پھر انہی سے ہی تردید کرائ گئ کیونکہ اصول ہے کہ تردید تب زیادہ موثر ہوتی ہے جب تردید کی گئ چیز کو پہلے سے تسلیم کیا گیا ہو۔پہلے تسلیم کر کے اس کی حقیقت بیان کرائ گئ جیسا کہ سائنس میں کہا جاتا ہے کہ فرض کریں کہ ایک جسم خلا سے گرتا ہے تو اسپہ کونسی قوت عمل کرتی ہے۔ظاہر ہے یہ ایک مثال ہوتی ہے کیونکہ خلا میں تو کشش ثقل ہوتی ہی نہیں۔ملحدین و خدا کے منکر سائنس کی ان مثالوں کو بڑے شوق سے مانتے ہیں اور قرآن میں نقائص ڈھونڈتے رہتے ہیں
قرآن کریم کی جتنی بھی آیات میں زمین و آسمان کو تخلیق کرنے کی کل مدت ﷲ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ چھ دن ہی ہے ۔ مگر سورہ فصلت میں ﷲ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دو ایام اور ان میں موجود باقی تمام چیزوں کی پیدائش کے چار ایام کو الگ الگ بیان کیا جس پر ملحدین کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کو ٹوٹل کیا جائے تو آٹھ دن بنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے جو کچھ چیزوں کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔
سورہ یاسین 36۔ آیت 82
اِنَّمَاۤ اَمۡرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْـًٔـا اَنۡ يَّقُوۡلَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ ﴿۸۲﴾
اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ﴿۸۲﴾
اور یہی بات ﷲ نے سورہ فصلت کی آیت 11میں بیان فرمائی کہ
ثُمَّ اسۡتَـوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلۡاَرۡضِ ائۡتِيَا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَيۡنَا طَآٮِٕعِيۡنَ ﴿۱۱﴾
پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں ﴿۱۱﴾
اب یہاں واضح طور پہ آسمان کے ساتھ ہی زمین کو وجود میں لانے کا بھی ذکر ہو رہا ہے ۔ یعنی جو دو دن سورہ فصلت کی آیت نمبر 9میں بیان کئے گئے آیت نمبر 11میں انہی کا اعادہ کیا گیا ۔ یعنی دو دن زمین اور آسمان کی تخلیق کے اور چار دن ان کی تزین و آرائش کے ۔
قصور ملحدین کا نہیں ہے ۔ ان آیات سے بعض مسلمان مفسرین نے بھی دھوکا کھایا ہے ۔ کسی نے ان آیات کی تفسیر میں چار دن میں زمین اور اس کی باقی آرائش کو اور دو دن میں سات آسمان کی تخلیق کو بیان کیا ہے ۔ اور بعض نے دو دن میں زمین و آسمان اور چار دن میں تزین و آرائش کو بیان کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمان مفسرین نے صرف ترتیب میں دھوکہ کھایا ہے تعداد میں نہیں ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا بیان اتنے زیادہ تواتر سے قران میں آیا ہے کہ اس کے بعد سورہ فصلت کی ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہی نہیں جا سکتی کہ یہاں چھ دن آٹھ دنوں میں بدل گئے ہوں گے جبکہ یہاں صرف دنوں میں بنانے والی چیزوں کا ذکر ہو رہا ہے نا کہ کل تعداد بتائی جا رہی ہے کہ زمین و آسمان آٹھ دن میں بنے ۔
اس تضاد کو صرف ایک ہی صورت میں تضاد سمجھا جا سکتا تھا کہ ایک آیت میں قرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت بتاتا اور کسی اور آیت میں آٹھ بتا دیتا ۔
مگر یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کے لئے چھ دن کی مدت تو سات مختلف جگہوں پہ قرآن خود بتا رہا ہے مگر سورہ فصلت سے آٹھ دن کی مدت قران نہیں بتا رہا بلکہ ملحد خود یہ حساب کتاب لگا رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ قرآن پہلے دن سے ہی سینوں میں محفوظ ہوتا چلا گیا اور آج تک دنیا میں جتنے اس کتاب کے حفاظ ہیں اتنے کسی اور کتاب کے نہیں ۔ پھر اگر یہ غلطی ہوتی تو فوراً عیاں ہو جاتی کہ پہلے چھ فرماتے رہے اب تعداد گن رہے ہیں تو آٹھ آرہی ہے ۔ جی نہیں ۔ اس کو کسی بھی دور میں غلطی سمجھا ہی نہیں گیا ۔ نہ ہی یہ غلطی ہے ۔ یہ غلطی صرف اس ملحد کی ہے جس نے حساب کرتے وقت قران کی گزشتہ سات آیات کو قطعاً نظر انداز کر دیا اور زمین کے دو دن الگ گنے اور آسمان کے دو دن الگ ۔ جبکہ حقیقت میں زمین اور آسمان کی پیدائش کے لئے دو دن کا ذکر کیا گیا ہے ۔
یعنی صورت حال یوں ہے کہ سات مختلف مقامات پہ قران زمین و آسمان کی پیدائش کی مدت چھ دن بتاتا ہے اور سورہ فصلت میں تین باتیں سامنے آتی ہیں ۔
١ ۔ زمین دو دنوں کی مدت میں تخلیق ہوئی ۔
٢ ۔ زمین میں موجود چیزیں چار دن کی مدت میں تخلیق ہوئیں ۔
٣ ۔ زمین و آسمان دو دن کی مدت میں تخلیق ہوئے ۔
اب یہاں سے یہ منطقی مغالطہ جنم لیتا ہے کہ جن دو دنوں کی مدت میں زمین تخلیق ہوئی ان میں کچھ اور تخلیق نہ ہوا ہو گا جبکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ﷲ کی تخلیق کے عمل سے مراد بس ایک لفظ "کن"ہے ۔ ﷲ صرف ارادہ کرتا ہے مشقت نہیں کرتا ۔ اور جب اسی کی اگلی آیات میں یہ بات واضح ہو چکی کہ زمین و آسمان ایک ساتھ تخلیق ہوئے تو سمجھنے والے کو کم از کم اتنی سمجھداری کا ثبوت ضرور دینا چاہئے کہ یہ دو دن پچھلی آیات میں زمین کے لئے بیان کردہ دو دنوں سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ آپ کے پاس چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی سات مختلف آیات بھی موجود ہوں ؟
اس منطقی مغالطے کی ایک وجہ یہاں استعمال ہونے والا لفظ "ثم"بھی ہے جو عربی میں زیادہ تر "پھر"کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی "اس کے بعد"۔ مگر یہاں اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ صرف عربی کا لفظ "ثم"بلکہ اردو کا لفظ "پھر"یہ دونوں لفظ مزید یا انگریزی کے لفظ"further"کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔
مثلاً
"میں صبح نو بجے آفس جاتا ہوں اور شام چھ بجے واپس آتا ہوں پھر میں بیچ میں دو وقفے بھی لے لیتا ہوں پھر جو لنچ کا وقفہ ہے سو وہ الگ ۔"
اس جملے میں لفظ "پھر"اگر آپ ترتیبی معنوں میں یا "اس کے بعد"کے معنوں میں استعمال کریں گے تو الجھ جائیں گے ۔ لہٰذا یہاں اس کا ترجمہ "مزید"کے معنوں میں کیا جائے گا ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن عقل والوں کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔ تو جو لوگ عقل رکھتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ کی ان آیات سے کیا مراد ہے ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھانے سے سمجھ جاتے ہیں ۔ اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو سمجھنے کے باوجود بھولے بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو خبط العقل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ﷲ سب کو عقل و ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حق کی تلاش نہیں تھی کیونکہ نبی بچپن سے ہی شرک اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ وسلم ان بیان کی گئ مثالوں کے ذریعے لوگوں کو دعوت حق دے رہے تھے کہ اتنی بڑی بڑی اشیاء کو بھی زوال ہے اور جس کو زوال ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔لیکن ملحدین کو چونکہ اسلام کی ہر بات میں کیڑے نکالنے کی عادت ہے۔اس لیے انہوں نے اس بات کو بھی بنیاد بنا کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
یہاں سورج،چاند،تاروں سب کو عوام کا خدا کہلوا کے پھر انہی سے ہی تردید کرائ گئ کیونکہ اصول ہے کہ تردید تب زیادہ موثر ہوتی ہے جب تردید کی گئ چیز کو پہلے سے تسلیم کیا گیا ہو۔پہلے تسلیم کر کے اس کی حقیقت بیان کرائ گئ جیسا کہ سائنس میں کہا جاتا ہے کہ فرض کریں کہ ایک جسم خلا سے گرتا ہے تو اسپہ کونسی قوت عمل کرتی ہے۔ظاہر ہے یہ ایک مثال ہوتی ہے کیونکہ خلا میں تو کشش ثقل ہوتی ہی نہیں۔ملحدین و خدا کے منکر سائنس کی ان مثالوں کو بڑے شوق سے مانتے ہیں اور قرآن میں نقائص ڈھونڈتے رہتے ہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔