فلسفہ زمان و مکان، واجب الوجود، ممکن الوجوداور کوانٹم فزکس پر ایک ملحدہ کے اعتراض کا جواب
/////////////////////////////////////////
واجب الوجود۔۔۔۔!
واجب الوجود اس چیز کو کہتے ہیں جس کا وجود اس کا زاتی ہو اور اس کا عدم وجود محال ہو۔ ہر وہ چیز جو پہلے موجود نہ تھی اسے بعد میں وجود حاصل ہوا اس کا وجود کسی علت کا محتاج ہو گا کیونکہ وہ پہلے نہیں تھا بعد میں موجود ہوا۔ اس لیے کائنات جو حادث ہے ایک وقت پر پیدا ہوئ ہے وہ ممکن الوجود ہو گی واجب الوجود نہیں ہو سکتی۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ واجب الوجود خدا ہے جس کا وجود کسی چیز کا محتاج نہیں اور وہ ہمیشہ سے ہے اور اس کا وجود زاتی ۔ یعنی اس کا وجود بالذات ثابت ہے۔ جبکہ باقی تمام چیزیں ممکن الوجود ہیں جن کا وجود بالغیر اور واجب الوجود خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
مگر اس منطق میں مسلہ یہ ہے کہ اس سے ایک واجب الوجود چیز تو ثابت ہوتی ہے خدا ثابت نہیں ہوتا۔
۱۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واجب الوجود کوئ مادی وجود ہو؟
۲۔ یا کوئ اور علت ہو جو اب بھی ویسے ہی موجود ہو۔
۳۔ زمان و مکاں واجب الوجود ہو سکتے ہیں۔
زمان کے واجب الوجود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم زمان کو رفع کریں تو اس سے وجود لازم آۓ گا۔ اور جس کے رفع سے وجود لازم آۓ اس کا حد رفع ممکن نہ ہو گا۔ پس جس کا حد رفع ممکن نہ ہو وہ واجب الوجود ہو گا۔
اس لئیے زمان و مکان ہی واجب الوجود ہیں۔ جو ہمیشہ سے ہیں ان میں کوانٹم فلکچوایشنز نے کائنات کو پیدا کیا جو ممکن الوجود ہے۔
مسلمانوں کی اس بارے میں کیا راۓ ہے؟
/////////////////////////////////////////
جواب۔۔۔۔
جو وجود یعنی خدا اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے کیا وہ اپنے وجود کے لیے ایک جگہ پیدا نہیں کر سکتا؟اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو اس کی پیدا کی گئ جگہ کیسے موجود ہوتی۔جگہ کا بیان وجود کے لیے ہوتا ہے۔جہاں کوئ وجود ہی نہ ہو وہ جگہ جگہ کیسے کہلائے گی۔پھر اب کیا مطلق و حتمی ہوا؟جگہ یا جگہ کا پیدا کرنے والا وجود یعنی خدا؟ظاہر ہے جس وجود کے بغیر جگہ کا بیان ممکن نہیں اور جس کے وجود کے لیے اس کی موجودگی کے مکان کو جگہ کا نام دیا جاتا ہے وہ وجود ہی حتمی ہوگا نہ کہ جگہ جس کی اس وجود کے بغیر کوئ حیثیت نہیں۔اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ تھی ہی بے معنی ۔جگہ کا تو لفظ ہی ایک موجود یعنی خدا کا محتاج ہے۔اور اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ یعنی کائنات کیسے پیدا ہوتی۔ظاہر ہوا کہ جگہ حتمی یا مطلق نہیں بلکہ جگہ کا وجود بذات خود ایک وجود یعنی خدا کا محتاج ہے جس کی موجودگی سے اس مقام یعنی کائنات کو جگہ کا نام دیا گیا۔جگہ بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ ایک وجود یعنی خدا کی پیدا کردہ اور اپنے بیان کے لیے اس کے وجود کی محتاج ہے۔
کیا آپ نے آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی پڑھی ہے؟اس کے مطابق زمان و مکان حتمی یا absolute نہیں بلکہ فرضی یا relative ہیں جو محض ایک وجود کے بیان اور اس کی کائنات میں سرگرمی کو استعمال کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اب پہلے وجود آیا یعنی خدا پھر اس خدا کے بیان اور اس کی تخلیق کردہ کائنات کے لیے مکان یعنی space اور اس کی اس کائنات میں سرگرمی کو ظاہر کرنے کے لیے زمان یعنی وقت کا لفظ استعمال کیا گیا۔اب اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس بھی نہ ہوتے۔کیونکہ یہ تو محض ایک وجود کے بیان کے الفاظ ہیں۔بذات خود ان کا بیان ایک وجود کا محتاج ہے۔لہذا جو پہلے آیا جس کی موجودگی اس زمان و مکان کے بیان کی وجہ بنی وہی خدا حتمی و مطلق ہے نہ کہ یہ زمان و مکان۔
جب وجود یعنی خدا نہ ہو تو زمان یعنی وقت یا ٹائم رفع ہوگا کیونکہ یہ زمان یا وقت تو محض ایک وجود یعنی خدا کی کائنات میں سرگرمی کو بیان کرتا ہے اور اس وجود کے نہ ہونے سے مکان بھی رفع ہوگا کیونکہ یہ مکان یا جگہ محض ایک موجود کی موجودگی کا بیان کرتا ہے۔یہ الفاظ یعنی زمان و مکان بذات خود اپنے بیان کے لیے ایک موجود کے محتاج ہیں۔لہذا وہ وجود یعنی خدا ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ زمان و مکان جو کہ محض اس وجود کے بیان کے لیے ہیں اور اس وجود یعنی خدا کے بغیر وہ ہوتے ہی نہ۔خود آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی کا نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس اضافہ و فرضی ہیں لیکن حتمی و مطلق یعنی absolute نہیں۔پھر زمان و مکان کیسے واجب الوجود ہوگئے جب کہ فلسفہ سے زیادہ مستند علم یعنی فزکس خود تصدیق کر رہی ہے کہ زمان و مکان یا ٹائم اینڈ سپیس اضافی یا relative ہیں۔
کیا واجب الوجود کے مادی وجود ہونے سے اس کے وجود یا اس کی قدرت کا انکار ہوجائے گا؟بالکل نہیں۔wave particle duality کوانٹم فزکس کا مشہور تصور ہے جس کے مطابق تمام اجسام موجی یا کوانٹم اور مادی دونوں خصوصیات رکھتے ہیں۔اور کسی ایک خصوصیت کے بیان سے دوسری خصوصیت کا انکار بالکل نہیں سامنے آتا۔دونوں پہلو کسی بھی وجود کے بیان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔میں نہیں کہتا سائنس کہتی ہے۔خدا قادر و مطلق ہے۔وہ اپنے لیے جو وجود بھی پسند کرے اس سے کسی طرح اس کی خدائ کا انکار سامنے نہیں آتا۔کیونکہ جب سائنس میں ہم کوانٹم پہلو لیں یا پارٹیکل پہلو کسی طرح بھی اس وجود کی خصوصیات کا انکار سامنے نہیں آتا۔
کونسی اور علت۔علت خدا کو ماننے والے سب لوگوں کے مطابق خدا ہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ مختلف مذاہب میں خدا کا تصور مختلف ہے۔لیکن جس علت کو ہم خدا کہیں گے اس میں خدائ قدرت کا ثبوت بھی لازمی دینا ہوگا ورنہ وہ علت خدا نہیں کہلائے گی۔میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میرا خدا اس کائنات کی بنیادی علت کی سب خصوصیات رکھتا ہے۔لہذا وہی ہی اس کائنات کی علت ہے اور کوئ نہیں۔
مکان حتمی نہیں ہے یہ محض ایک وجود کے مقام کے بیان کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔خود سائنس کے مطابق مکان اسپیس حتمی نہیں۔اب جو حتمی ہے ہی نہیں وہ وجود بالزات کیسے ہوسکتا ہے۔
ملحد نے کوانٹم ۔سٹیٹ کو ایک جگہ تصور کیا جب کہ کوانٹم سٹیٹ ایک مکان یا جگہ نہیں بلکہ کسی کوانٹم سسٹم کی حالت کا نام ہے جسمیں وہ موجود ہوتا ہے۔یعنی یہ ایک condition کس نام ہے اور کنڈیشن سپیس نہیں ہوتی بلکہ کسی نظام کی حالت ہوتی ہے لیکن ملحد نے کنڈیشن کو سٹیٹ بنا دیا جو کہ غلط ہے۔کوانٹم سٹیٹ ایک پیمائش ہے ایک سپیس نہیں اور یہ کوانٹم فیلڈ کی پیمائش ہے جس میں توانائ موجود ہے اور یہ توانائ مادے کے مساوی ہے۔لہذا ایک حالت کو ایک مکان نہیں کہا جا سکتا۔یہ تعریف پڑھیں
the condition in which a physical system exists, usually described by a wave function or a set of quantum numbers.
یہ تعریف پڑھیں
In the mathematical formulation of quantum mechanics, pure quantum states correspond to vectors in a Hilbert space, while each observable quantity (such as the energy or momentum of a particle) is associated with a mathematical operator
یہ تعریف بھی ایک کوانٹم نظام کا ویکتر کے ذریعے بیان بتا رہی ہے۔یہ پڑھیں
any of various states of a physical system (such as an electron) that are specified by particular values of attributes .
یہ بذات خود ایک فزیکل سسٹم کا بیان ہے۔
ملحدہ نے کہاکہ اس،کو زیرو پوائنٹ فیلڈ بھی کہتے ہیں۔یہ بھی غلط کہا اس نے۔زیرو پوائنٹ فیلڈ کوانٹم سٹیٹ سے باکل الگ ہے۔اس کی تعریف یہ ہے
Zero-point energy (ZPE) or ground state energy is the lowest possible energy that a quantum mechanical system may have, i.e. it is the energy of the system's ground state.
یہ کسی نظام کی توانائ کی کم سے کم سطح ہے۔اور اس نظام کی جو حالت یا پیمائش ہوگی اس کو کوانٹم سٹیٹ کہا جائے گا۔ملحدہ نے ساری کوانٹم فزکس غلط بیان کی۔اور زیرو پوائنٹ فیلڈ میں بھی مکمل سپیس نہیں ہوتا۔یہ زیرو پوائنٹ فیلڈ زیرو پوائنٹ انرجی رکھتا ہے جو کی کوانٹم انرجی کی ایک قسم ہے جس میں سے ہمیشہ ورچول پارٹیکل بنتے رہتے ہیں اور یہاں بھی خلا نہیں۔ملحدہ کی یہ وضاحت بھی غلط ہے۔
اور میں نے اوپر بیان کردیا کہ نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان حتمی نہیں ہیں اور جو حتمی نہ ہو وہ وجود بالذات کیسے ہوسکتا ہے۔آپ کا سارا فلسفہ غلط ہے۔
اور ویکیوم سٹیٹ بھی مکمل ویکیوم نہیں۔خود سائنس کہتی ہے کہ اسے ویکیوم کہنا غلط یے۔یہ پڑھیں
In quantum field theory, the vacuum state (also called the vacuum) is the quantum state with the lowest possible energy. Generally, it contains no physical particles. Zero-point field is sometimes used as a synonym for the vacuum state of an individual quantized field.
According to present-day understanding of what is called the vacuum state or the quantum vacuum, it is "by no means a simple empty space"
میں نے نہیں کہا کہ وقت حرکت ہے۔میں نے تو حرکت کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا۔یہاں آپ پھر غلطی کر رہی ہیں۔وقت کی تعریف کیا ہے۔یہ پڑھیں
the indefinite continued progress of existence and events in the past, present, and future regarded as a whole.
یہ کسی وجود کے لامحدود وجود کے قدیم ہونے اور ماضی حال مستقبل کے واقعات کا بیان ہے۔اب یہ بھی اپنے بیان کے لیے ایک وجور کے بیان دیے گئے واقعات و وجود پر انحصار کر رہا ہے۔چونکہ یہ اور چیزپر انحصار کر رہا ہے۔اس لیے یہ بھی حتمی اور وجود بالزات نہیں۔نظریہ اضافت بھی یہی کہتا ہے۔
جب سائنس خود مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز مادی و غیر مادی خصوصیات رکھتی ہے تو اب اگر کسی چیز کو مادی یا غیر مادی جو بھی تسلیم کر لیا جائے اس سے اس چیز کا وجود کس طرح غلط ثابت ہوتا ہے۔اب خدا جو ہر وجود کاس خالق ہے اس کی مرضی جس وجود مینی بھی رہے اس سے اس کا انکار کہاں سامنے آتا ہے۔
وہ علت خدا ہے اور جو سب اشیاء کو مادی و غیر مادی خصوصیات دے سکتا ہے خود اگر دونوں خصوصیات رکھ لے تو کہاں اس کا انکار ہوتا ہے۔وہ جو بھی وجود رکھے وہ علت خدا ہی ہے۔
میں نہیں کہتا کہ خدا مادی ہے لیکن وہ جس وجود میں چاہے آسکتا ہے۔وہ قادر ہے خود سائنس مان رہی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کے دو پہلو ہیں۔مادی و غیر مادی۔کسی صورت خدا کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کی ایک طاقت اور اس کی قدرت ہے تو ثابت ہوجائے گا کہ یہ جس خدا کے وجود کی نشانی ہے۔ وہی خدا ہی وجود بالزات ہے جس کی قدرت کی یہ علامت اور اس کے وجود کی دلیل ہے۔جی بتائے۔پھر اور بات نہیں چلے گی۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کے وجود کی دلیل اور اس کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ وہ خدا ہی موجود بالذات ہے جس کی ایک قدرت اور اس کا اظہار یہ ویکیوم انرجی ہے۔تفصیل کے لیے میرا ویکیوم انرجی پر تفصیلی مضمون پڑھیں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=396218204055311&id=100010014035463
فلسفہ اسلامی میں اثبات وجود خدا کے لیے بہت سی عقلی دلیلیں دی جاتی ہیں۔۔ جن میں سے اک انتہائی اہم دلیل برہان امکان ووجوب کے نام سے ہے۔ اس دلیل کو بو علی سینا نے اپنی کتاب الاشارات وال تنبیھات کی نمط رابع میں ذکر کیا ہے اور اس کے برہان صدیقین میں سے ہونے کا دعوی کیا ہے۔
اس دلیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف "وجود" میں غور اور فکر کے بعد خدا کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر ہم اس کائنات کی تمام موجودات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں غور وفکر کریں
تو یہ موجودات اپنے وجود کے حوالے سے (ان میں صرف دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں)
1۔ یا تو وجود ان کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح سے کہ وجود کو ان سے سلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو واجب الوجودکہا جاتا ہے۔
یا
2۔ وہ موجود تو ہیں لیکن وجود ان کے لیے ضروری نہیں، بلکہ وجود کو ان سے سلب بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان کا وجود۔ اس کو ممکن الوجود کہا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ موجود ہو بھی اور وجود اس کے لیے ممتنع ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو موجود ہی نہ ہوتا۔
پس اگر کسی واجب الوجود کو مانتا ہے تو فبہا۔ کہ وہ خداوند متعال کی ذات ہے۔
اور اگر نہیں مانتا۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ ممکنات کیسے وجود میں آئے؟
واجب الوجود یعنی جس کا وجود باقی تمام موجودات کے لیے واجب ہو،جو تمام موجودات کا خالق ہو جس کے بغیر کوئ وجود ممکن نہ ہو یعنی وہ سب ممکن الوجود کا خالق ہو تو اب جس کا وجود سب موجودات کی تخلیق کے لیے لازم ہے وہی خدا ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ کوئ اور۔یہ بات نو علی سینا ثابت کر چکے ہیں۔
باقی جو موجود ہے لیکن عدم اور فنا یا موت سے آزاد نہیں بلکہ اس کی ایک تخلیق ہے جو ہمیشہ سے موجود نہیں تھا بلکہ واجب الوجود خدا کی طرف سے وجود میں لایا گیا وہ ممکن الوجود ہے۔اس کی ذات میں عدم اور وجود دونوں ممکن ہیں۔لہذا جو وجہ موجودگی رکھتا ہو،ایک ابتدا رکھتا ہو،عدم یعنی فنا اور موت سے آزاد نہ ہو وہ ممکن الوجود ہوگا۔جو اس ممکن الوجود کی وجہ ہوگا،اس کے وجود اور اس کے عدم یعنی فنا کی وجہ ہوگا وہ واجب الوجود خدا ہے۔یہ موجود ایک بیرونی طاقت یعنی واجب الوجود کا اپنی تخلیق و وجود اور بقا کے لیے محتاج ہے۔یہ وجود عدم و وجود کے درمیان ایک مساوی حالت میں ہے اور ایسے واجب الوجود کا محتاج ہے جو اس کو عدم و وجود کی مساوی کیفیت سے نکال کر اسے وجود بخشے۔
اب اس سارے فلسفے کے مطابق جو خود بخود موجود،اپنے وجود کے لیے کسی وجود کے اثر سے آزاد،کسی وجود کی طرف سے فنا کے خطرے سے آزاد،سب موجودات کی وجہ تخلیق اور ان کے وجود کے لیے ایک لازمی وجود تو وہ وجود بالذات خدا ہی ہوسکتا ہے اور کوئ نہیں۔
دوسرے لفظوں میں واجب الوجود وجود مطلق ہے جس کے بغیر سب موجودات یعنی تمام ممکن الوجود بے وجود ہوتے،جو وجود ان کی وجہ بقا ہے،جو ان کی وجہ عدم ہے تو وہ وجود مطلق یا وجود بالذات خدا ہی ہے اور کوئ نہیں۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1046802335426161
دین سے دوری اور سب حرام کاموں اور حرام اشیاء کے استعمال کے یورپی اور غیر مسلم معاشرہ کیوں ترقی کر رہا ہے؟کیا مذہب ترقی کے لیے لازمی نہیں ہے؟اگر لازمی ہے تو کافر ترقی پر کیوں اور مسلمان زوال میں کیوں؟
جہاں تک شراب ’جوئے ’زنا ’خنزیر اور سور وغیرہ کے حرام ہونے کی وجہ اور سبب کا تعلق ہے تو اس بارے میں دوباتوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہر انسان کے لئے یہ معلوم کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ فلاں چیز کیوں حرام ٹھہرائی گئی اور کس وجہ سے اس کا استعمال کرنا ممنوع ٹھہرایا گیا ۔ کیونکہ جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان کی خباثتیں یا نقصانات کا معلوم کرلینا یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی اپنے علم اور تجربے سے معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں اور پھر ایک حرام کردہ چیز کی خباثت ایک زمانے میں ظاہر نہیں ہوتی جب کہ دوسرے زمانے میں وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔
مثلاً سور کے گوشت کی مثال ہی لیجئے کہ جب یہ حرام کیا گیا تو اس وقت شاید ہی کسی کو اس کی حرمت کا سبب یا علت معلوم تھی لیکن سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انکشافات ہوتے گئے کہ اس میں ایسے مہلک جراثیم اور کیڑے ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں بہرحال کوئی انکشاف ہو یا نہ ہو مسلمان اس عقیدے پر قائم رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور حکیم و خبیر ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال ٹھہرائے اور جسے چاہے حرام قرار دے دے اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ خلق خدا کے سامنے ان محرمات کے نقصانات اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں تا کہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب ہرانسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں ہے تو پھر آخر اسے کس چیز پر انحصار کرناہوگا؟ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الہٰی ہے مگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی و رسول ہیں تو پھر اسے چیزوں کی حلت و حرمت کا اختیار اللہ وحدہ لاشریک ہی کو دینا ہوگا ’کسی عالم’درویش ’ بادشاہ یا حکمران کو یہ اختیار دینے کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا خدا اور قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی چیز کی حرمت و حلت کے بارے میں شک ہے تو پہلے اسے قرآن و اسلام کے بارے میں اپنے عقیدے کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان ہے تو پھر خالق کائنات کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا چاہے اس کی حکمت یا فلسفہ اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے (یہ ضروری نہیں)
شراب: اب شراب کو ہی لیجئے اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ اور سبب تو یہ ہے کہ اسے اس ذات نے حرام ٹھہرایا ہے جو چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی خوبیوں اور مضرتوں کا صحیح علم رکھنے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اسے کیوں حرام ٹھہرایا ؟ا س کا کیا نقصان ہے؟ اس بارے میں موجودہ دور میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہوچکی ہے کہ شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کے بے شمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں جس سے انسان کی صحت اور اخلاق دونوں پر اثر پڑتا ہے اور آج ان کی بہتات اور کثرت استعمال دنیا بھر کے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ شراب کے کچھ فوائد بھی ہیں تو قرآن نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کے نقصانات منافع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا یہ حرام ہے اور جدید تحقیق نے اس کے نقصانات واضح کردیئے ہیں۔
جوا: قرآن نے شراب کے ساتھ ہی جوئے کاذکر بھی کیا ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ایک بیماری کا شکار ہونے والا دوسری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہارے ہوئے جواری اکثر شراب کے ذریعے ہی عارضی اور مصنوعی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ جوئے کے نقصانات فرد اور معاشرے دونوں کے لئے بالکل واضح ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں اس کھیل میں محنت اور وقت دونوں کی بربادی ہے ۔ جواریوں کے درمیان بغض و عداوت اکثر قتل وغارت تک پہنچتی ہے اور اس مرض میں مبتلا عیاش لوگ خاندان کا کاروبار اور معاشرتی روایات سب کو تباہ کرنے پر تیاہ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ محض آرزوؤں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ محنت اور اسباب کی تلاش کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ صرف بازی جیتنے کے لئے بسا اوقات دین ’عزت اور وطن کو بھی داؤ پر لگا دیتےہیں اسی لئے قرآن نے انہیں رجس من عمل الشیطان کہا کہ گندے شیطان کام ہیں ’ان سے بچ کررہو۔
خنزیر: جدید طب نے خنزیر کے گوشت کے نقصانات واضح کردیئے ہیں کہ اس کا کھانا ہر خطے خصوصاً گرم ممالک میں انتہائی نقصان دہ ہے ۔ بعض سائنس دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے کھانے سے جسم میں خطرناک قسم کے کیڑے پیدا ہوجاتےہیں۔ مسلم ماہرین نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق خنزیر کے گوشت کے زیادہ استعمال سے غیرت کم ہوجاتی ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتےہیں کہ اگر اتنا ہی نقصان دہ ہے تو انگریز اور دوسرے غیر مسلم اتنی کثرت سے استعمال کیوں کرتےہیں۔ تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ مغربی ممالک کے لوگ یا دوسرے غیر مسلم ہر اس چیز سے دور رہتے ہوں جو نقصان دہ ہو۔ سگریٹ کے استعمال سے جو خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور سرطان کے اسباب میں بھی اب سگریٹ نوشی کو شامل کرلیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد یورپ والوں نے سگریٹ نوشی چھوڑدی ہے؟ اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ شراب اور خنزیر کے نقصان سے یہ بچے ہوئے ہیں بلکہ ان ساری بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ ان گند گیوں کے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیز ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گی۔
زنا: اسلام دین فطرت ہے اس لئے ا س نے فطری خواہشات کی بھی حدود مقرر کردی ہیں۔ اگر انسان کو جنسی خواہشات کے لئے آزاد چھوڑدیا جائے اور زنا کوجائز قرار دے دیا جائے تو خاندانی اور عائلی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ حسب و نسب اور حقوق و فرائض کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے نہ تو یہ کیا کہ اس کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرلے اور کوئی دینی یا اخلاقی رکاوٹ بھی اس کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی اس سے ٹکرانے کی اجازت دی کہ گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے اور شادی بیاہ اور دوسری دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرکے رہبانیت اختیار کرلی جائے ۔ بلکہ اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے کہ کچھ حدود مقرر کی ہیں جن کے اندر رہ کر نکاح کی شکل میں خواہش پورا کرنے کی اجازت دی اور ان حدود سے باہر زنا کی شکل کو حرام و بے غیرتی قرار دیا اور صرف اسلام ہی کا نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب ہا یہی موقف ہے۔
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جس قوم میں یہ بیماریاں آجائیں وہ ترقی کرسکتی ہے یا نہیں اور یورپ والوں میں یہ بیماریان پائی بھی جاتی ہیں پھر بھی وہ ترقی کررہے ہیں؟
یہ بڑا نازک سوال ہے اور اکثر لوگ اس شبہ میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھاجاتےہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ترقی صرف مادی وسائل کی بہتات کا نام نہیں کہ جس قوم کے پاس ہتھیاروں یا دنیاوی اسباب کی بہتات ہو وہ ترقی یافتہ ہے ہمارے نزدیک ترقی یافتہ وہ قوم ہے جس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی قدروں کو بھی اجاگر کیا ہو اور ان کا بھی تحفظ کررہےہوں۔جیسا کہ اسلام کے روشن دور کی مثالیں ہمارے سامنے موجو ہیں۔ آج جنہیں آپ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں وہ اخلاقی اور روحانی طور پر اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ اگر بداخلاقیوں اور بد کردار یوں کی رفتار یہی رہی تو اہل مغرب بہت جلد انہتائی بھیانک انجام سے دوچار ہوں گے۔ آپ ہی بتائیں کہ نیو یارک جو دنیا کے معیار کےمطابق مہذب ترین اور سب سے ترقی یافتہ ملک کا مرکزی شہر ہےوہاں چند گھنٹوں کے لئے اگر بجلی فیل ہوجائے تو حیوانیت و درندگی کس طرح ناچتی ہے نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ مال ایک رات میں چوریوں اور ڈاکوں کا شمار کرکے بتائیں کہ اسی کا نام ترقی ہے؟جبکہ زنا شراب اور جوئے کی وجہ سے وہاں جتنے قتل اور فسادات ہورہے ہیں وہ اس سے الگ ہیں۔ ہتھیاروں کی ترقی کا انجام بھی برا نظر آتا ہے شاید یہ کسی بدحواسی میں آکر اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں سے تباہ برباد ہو جائیں اور جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہاں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی اور مادی لحاظ سے ان لوگوں کو مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی قابل غور بات ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ غالب رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں ان کی ہمیشہ مددکرے گا اورر اس کی تکمیل اسی شکل میں ہوگی جب مسلمان اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں اور اللہ نے بارہا یہ وعدہ پورا کیا کہ جب مسلمانوں نے اس کی سچی اطاعت کی تو پھر وسائل کی کمی کے باوجود انہیں غالب و کامیاب کیا۔ اور اگر دونوں شرابی دونوں زانی یعنی کفار بھی عیاش اور مسلمان بھی عیاش دونوں بد عمل و بد کردار ہوجائیں تو پھر اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ جو تعداد اور مادی قوت میں زیادہ ہوگا وہ دوسرے پر غالب آجائے گا۔موجودہ صورت حال ایسی ہی کہ کفار دشمن اسلام بھی ہیں’زانی و شرابی بھی ہیں مگر پھر مسلمانوں پر غالب اور مادی لحاظ سے ان سے آگے ہیں کیونکہ عیاش ہونے کےباوجود وہ محنت بھی کرتےہیں اور زندہ رہنے کے کچھ اصولوں پر کاربند بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اپنے دین سے باغی بھی ہیں۔ زناو شراب کو بھی جائز ٹھہرائے ہوئے ہیں اللہ کے قانون کو اپنے ملکوں سے دیس نکالا بھی دیا ہوا ہے اور ان عیاشیوں اور بغاوتوں پر اضافہ یہ کہ محنت بھی نہیں کرتے اور معاملات و اخلاق میں کوئی اصول و ضابطہ بھی نہیں تو ظاہر ہے یہ دوسروں سے پیچھے ہی رہیں گے بلکہ اللہ سے عہد کرنے کے بعد پھر یہ بغاوت و سرکشی زیادہ ناراضگی کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری ہی مسلمانوں کی امتیازی شان ہے۔ یہ نہ رہی تو پھر کفار اپنی محنت و قوت سے ان پر غالب آسکتے ہیں۔ اس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کفار کےلئے شراب و زنا یا دوسرے گناہ مفید ہیں اور نقصان دہ نہیں اور ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں۔ بلکہ یہاں بھی کچھ خدائی قوانین وضابطے ہیں جنہیں قرآن بیان کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی شان حاصل کرنے کےلئے کوشش کرتا ہے تو ہم اس کو کوشش کے صلے میں پوری پوری عطا کرتےہیں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑتے مگر صرف دنیا کے طالبو ں کے لئے آخرت میں سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ (ھود:۱۵۔۱۶)
اب اس سے واضح ہوگیا کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول کی خاطر محبت کرنے والوں کو ان کی محنت کا پورا پورا صلہ عطا کرتا ہے۔ لیکن اس ساری ترقی یا قوت کے باوجود کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل نافرمانیوں اور سرکشیوں میں رہنےکی وجہ سے اچانک عذاب الہٰی کی لپیٹ میں آجاتےہیں ۔ ارشادربانی ہے
اور کتنے ہی بستیوں والے جو اپنی معیشت کی ترقی پر اترانے لگ گئے ہم نے ان کو ایسے صفحہ ہستی سے مٹایا کہ اس جگہ بعد میں کوئی کم ہی آباد ہے اور بالاخر ہر چیز ہماری ملکیت میں آگئی ۔ (قصص: ۵۸)
اور بعض اوقات انہیں مہلت بھی دی جاتی ہے اور جوں جوں سرکشی و بغاوت میں زیادہ ہوتے ہیں بظاہر وسائل و اسباب بھی کثرت سے دیئے جاتے ہیں اور پھر اچانک عذاب الہٰی کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے
جب وہ نصیحت کی چیزوں کو بھول گئے تو ہم نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ اکڑنے لگے تو اچانک ہم نے پکڑ لیا اور پھر ناکامی کے سوا انہیں اور کچھ نہیں ملا۔(انعام:۴۴)
یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں قرآن نے قوموں کے عروج و زوال پر بڑے پیارے انداز سے روشنی ڈالی ہے اگر آپ بغور ان کا مطالعہ کریں تو مسلمانوں کے زوال اور غیر مسلموں کی ظاہری چمک دمک کے اسباب باآسانی آپ کی سمجھ میں ا ٓجائیں گے۔
مختصر یہ کہ اخلاقی و معاشرتی برائیاں کسی قوم کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوسکتیں چاہے وہ موجودہ مسلمانوں کی طرح کوئی پس ماندہ قوم ہو یا دنیا کی مادی قوتوں کی طرح ترقی یافتہ ۔ سلطنت روم کے عروج و زوال کی داستان کا مطالعہ کریں۔ بغداد کے عروج اور اندلس کی ترقی کودیکھیں اور پھر ان کی تباہی کےاسباب کا جائزہ لیں۔ دور نہ جایئے اپنے ہاں سلطنت مغلیہ کی تباہی اور زوال ہی کی تاریخ کامطالعہ کرلیں۔ ہر جگہ آپ کو قانون قدرت یکساں نظرآئے گا ۔ اسکے ضابطے اٹل ہیں۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ موجودہ بین الاقوا می صورت حال توہمارے یقین اور ایمان کو پختہ کررہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ترقی وقوت کے سہارے جینے والے شاید آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور پھر خدا کسی دوسری قوم کو ان کی جگہ لا کربسائے۔
اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام ترقی کا ہرگز مخالف نہیں لیکن اسلام ترقی کے نام پر اخلاقی گراوٹ اور روحانی فساد کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔ جولوگ یہ سمجھتےہیں کہ علماء یا اسلامی قدریں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ترکی میں کاکمال اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں اپنے خیال سے عربی کا وجود مٹایا اور ملا کر راستے سے ہٹایا یہ سمجھ کر کہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دین وملا کے ہٹ جانے کے بعد کیا وہاں واقعی ترقی ہوئی ہے ۔ ہوٹلوں سینماؤں میں تو ترقی نظر آئے گی لیکن آج تک وہاں سیاسی سکون اور معاشی ترقی نہیں ہوسکی۔ بلکہ وہ قوم آج پھر روحانی قدروں کی طرف تیزی سے لوٹ رہی ہے اور وہاں چند سالوں کے بعد کمال اتاترک کا نام لینے والا بھی شاید کوئی باقی نہ رہے۔ ماضی قریب میں شاہ ایران کا انجام بھی ہمیں یہ سوال حل کرنے میں کافی مدد دے سکتاہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص492
محدث فتویٰ
حوالہ۔۔۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/14157/9/
/////////////////////////////////////////
واجب الوجود۔۔۔۔!
واجب الوجود اس چیز کو کہتے ہیں جس کا وجود اس کا زاتی ہو اور اس کا عدم وجود محال ہو۔ ہر وہ چیز جو پہلے موجود نہ تھی اسے بعد میں وجود حاصل ہوا اس کا وجود کسی علت کا محتاج ہو گا کیونکہ وہ پہلے نہیں تھا بعد میں موجود ہوا۔ اس لیے کائنات جو حادث ہے ایک وقت پر پیدا ہوئ ہے وہ ممکن الوجود ہو گی واجب الوجود نہیں ہو سکتی۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ واجب الوجود خدا ہے جس کا وجود کسی چیز کا محتاج نہیں اور وہ ہمیشہ سے ہے اور اس کا وجود زاتی ۔ یعنی اس کا وجود بالذات ثابت ہے۔ جبکہ باقی تمام چیزیں ممکن الوجود ہیں جن کا وجود بالغیر اور واجب الوجود خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
مگر اس منطق میں مسلہ یہ ہے کہ اس سے ایک واجب الوجود چیز تو ثابت ہوتی ہے خدا ثابت نہیں ہوتا۔
۱۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واجب الوجود کوئ مادی وجود ہو؟
۲۔ یا کوئ اور علت ہو جو اب بھی ویسے ہی موجود ہو۔
۳۔ زمان و مکاں واجب الوجود ہو سکتے ہیں۔
زمان کے واجب الوجود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم زمان کو رفع کریں تو اس سے وجود لازم آۓ گا۔ اور جس کے رفع سے وجود لازم آۓ اس کا حد رفع ممکن نہ ہو گا۔ پس جس کا حد رفع ممکن نہ ہو وہ واجب الوجود ہو گا۔
اس لئیے زمان و مکان ہی واجب الوجود ہیں۔ جو ہمیشہ سے ہیں ان میں کوانٹم فلکچوایشنز نے کائنات کو پیدا کیا جو ممکن الوجود ہے۔
مسلمانوں کی اس بارے میں کیا راۓ ہے؟
/////////////////////////////////////////
جواب۔۔۔۔
جو وجود یعنی خدا اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے کیا وہ اپنے وجود کے لیے ایک جگہ پیدا نہیں کر سکتا؟اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو اس کی پیدا کی گئ جگہ کیسے موجود ہوتی۔جگہ کا بیان وجود کے لیے ہوتا ہے۔جہاں کوئ وجود ہی نہ ہو وہ جگہ جگہ کیسے کہلائے گی۔پھر اب کیا مطلق و حتمی ہوا؟جگہ یا جگہ کا پیدا کرنے والا وجود یعنی خدا؟ظاہر ہے جس وجود کے بغیر جگہ کا بیان ممکن نہیں اور جس کے وجود کے لیے اس کی موجودگی کے مکان کو جگہ کا نام دیا جاتا ہے وہ وجود ہی حتمی ہوگا نہ کہ جگہ جس کی اس وجود کے بغیر کوئ حیثیت نہیں۔اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ تھی ہی بے معنی ۔جگہ کا تو لفظ ہی ایک موجود یعنی خدا کا محتاج ہے۔اور اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ یعنی کائنات کیسے پیدا ہوتی۔ظاہر ہوا کہ جگہ حتمی یا مطلق نہیں بلکہ جگہ کا وجود بذات خود ایک وجود یعنی خدا کا محتاج ہے جس کی موجودگی سے اس مقام یعنی کائنات کو جگہ کا نام دیا گیا۔جگہ بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ ایک وجود یعنی خدا کی پیدا کردہ اور اپنے بیان کے لیے اس کے وجود کی محتاج ہے۔
کیا آپ نے آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی پڑھی ہے؟اس کے مطابق زمان و مکان حتمی یا absolute نہیں بلکہ فرضی یا relative ہیں جو محض ایک وجود کے بیان اور اس کی کائنات میں سرگرمی کو استعمال کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اب پہلے وجود آیا یعنی خدا پھر اس خدا کے بیان اور اس کی تخلیق کردہ کائنات کے لیے مکان یعنی space اور اس کی اس کائنات میں سرگرمی کو ظاہر کرنے کے لیے زمان یعنی وقت کا لفظ استعمال کیا گیا۔اب اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس بھی نہ ہوتے۔کیونکہ یہ تو محض ایک وجود کے بیان کے الفاظ ہیں۔بذات خود ان کا بیان ایک وجود کا محتاج ہے۔لہذا جو پہلے آیا جس کی موجودگی اس زمان و مکان کے بیان کی وجہ بنی وہی خدا حتمی و مطلق ہے نہ کہ یہ زمان و مکان۔
جب وجود یعنی خدا نہ ہو تو زمان یعنی وقت یا ٹائم رفع ہوگا کیونکہ یہ زمان یا وقت تو محض ایک وجود یعنی خدا کی کائنات میں سرگرمی کو بیان کرتا ہے اور اس وجود کے نہ ہونے سے مکان بھی رفع ہوگا کیونکہ یہ مکان یا جگہ محض ایک موجود کی موجودگی کا بیان کرتا ہے۔یہ الفاظ یعنی زمان و مکان بذات خود اپنے بیان کے لیے ایک موجود کے محتاج ہیں۔لہذا وہ وجود یعنی خدا ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ زمان و مکان جو کہ محض اس وجود کے بیان کے لیے ہیں اور اس وجود یعنی خدا کے بغیر وہ ہوتے ہی نہ۔خود آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی کا نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس اضافہ و فرضی ہیں لیکن حتمی و مطلق یعنی absolute نہیں۔پھر زمان و مکان کیسے واجب الوجود ہوگئے جب کہ فلسفہ سے زیادہ مستند علم یعنی فزکس خود تصدیق کر رہی ہے کہ زمان و مکان یا ٹائم اینڈ سپیس اضافی یا relative ہیں۔
کیا واجب الوجود کے مادی وجود ہونے سے اس کے وجود یا اس کی قدرت کا انکار ہوجائے گا؟بالکل نہیں۔wave particle duality کوانٹم فزکس کا مشہور تصور ہے جس کے مطابق تمام اجسام موجی یا کوانٹم اور مادی دونوں خصوصیات رکھتے ہیں۔اور کسی ایک خصوصیت کے بیان سے دوسری خصوصیت کا انکار بالکل نہیں سامنے آتا۔دونوں پہلو کسی بھی وجود کے بیان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔میں نہیں کہتا سائنس کہتی ہے۔خدا قادر و مطلق ہے۔وہ اپنے لیے جو وجود بھی پسند کرے اس سے کسی طرح اس کی خدائ کا انکار سامنے نہیں آتا۔کیونکہ جب سائنس میں ہم کوانٹم پہلو لیں یا پارٹیکل پہلو کسی طرح بھی اس وجود کی خصوصیات کا انکار سامنے نہیں آتا۔
کونسی اور علت۔علت خدا کو ماننے والے سب لوگوں کے مطابق خدا ہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ مختلف مذاہب میں خدا کا تصور مختلف ہے۔لیکن جس علت کو ہم خدا کہیں گے اس میں خدائ قدرت کا ثبوت بھی لازمی دینا ہوگا ورنہ وہ علت خدا نہیں کہلائے گی۔میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میرا خدا اس کائنات کی بنیادی علت کی سب خصوصیات رکھتا ہے۔لہذا وہی ہی اس کائنات کی علت ہے اور کوئ نہیں۔
مکان حتمی نہیں ہے یہ محض ایک وجود کے مقام کے بیان کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔خود سائنس کے مطابق مکان اسپیس حتمی نہیں۔اب جو حتمی ہے ہی نہیں وہ وجود بالزات کیسے ہوسکتا ہے۔
ملحد نے کوانٹم ۔سٹیٹ کو ایک جگہ تصور کیا جب کہ کوانٹم سٹیٹ ایک مکان یا جگہ نہیں بلکہ کسی کوانٹم سسٹم کی حالت کا نام ہے جسمیں وہ موجود ہوتا ہے۔یعنی یہ ایک condition کس نام ہے اور کنڈیشن سپیس نہیں ہوتی بلکہ کسی نظام کی حالت ہوتی ہے لیکن ملحد نے کنڈیشن کو سٹیٹ بنا دیا جو کہ غلط ہے۔کوانٹم سٹیٹ ایک پیمائش ہے ایک سپیس نہیں اور یہ کوانٹم فیلڈ کی پیمائش ہے جس میں توانائ موجود ہے اور یہ توانائ مادے کے مساوی ہے۔لہذا ایک حالت کو ایک مکان نہیں کہا جا سکتا۔یہ تعریف پڑھیں
the condition in which a physical system exists, usually described by a wave function or a set of quantum numbers.
یہ تعریف پڑھیں
In the mathematical formulation of quantum mechanics, pure quantum states correspond to vectors in a Hilbert space, while each observable quantity (such as the energy or momentum of a particle) is associated with a mathematical operator
یہ تعریف بھی ایک کوانٹم نظام کا ویکتر کے ذریعے بیان بتا رہی ہے۔یہ پڑھیں
any of various states of a physical system (such as an electron) that are specified by particular values of attributes .
یہ بذات خود ایک فزیکل سسٹم کا بیان ہے۔
ملحدہ نے کہاکہ اس،کو زیرو پوائنٹ فیلڈ بھی کہتے ہیں۔یہ بھی غلط کہا اس نے۔زیرو پوائنٹ فیلڈ کوانٹم سٹیٹ سے باکل الگ ہے۔اس کی تعریف یہ ہے
Zero-point energy (ZPE) or ground state energy is the lowest possible energy that a quantum mechanical system may have, i.e. it is the energy of the system's ground state.
یہ کسی نظام کی توانائ کی کم سے کم سطح ہے۔اور اس نظام کی جو حالت یا پیمائش ہوگی اس کو کوانٹم سٹیٹ کہا جائے گا۔ملحدہ نے ساری کوانٹم فزکس غلط بیان کی۔اور زیرو پوائنٹ فیلڈ میں بھی مکمل سپیس نہیں ہوتا۔یہ زیرو پوائنٹ فیلڈ زیرو پوائنٹ انرجی رکھتا ہے جو کی کوانٹم انرجی کی ایک قسم ہے جس میں سے ہمیشہ ورچول پارٹیکل بنتے رہتے ہیں اور یہاں بھی خلا نہیں۔ملحدہ کی یہ وضاحت بھی غلط ہے۔
اور میں نے اوپر بیان کردیا کہ نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان حتمی نہیں ہیں اور جو حتمی نہ ہو وہ وجود بالذات کیسے ہوسکتا ہے۔آپ کا سارا فلسفہ غلط ہے۔
اور ویکیوم سٹیٹ بھی مکمل ویکیوم نہیں۔خود سائنس کہتی ہے کہ اسے ویکیوم کہنا غلط یے۔یہ پڑھیں
In quantum field theory, the vacuum state (also called the vacuum) is the quantum state with the lowest possible energy. Generally, it contains no physical particles. Zero-point field is sometimes used as a synonym for the vacuum state of an individual quantized field.
According to present-day understanding of what is called the vacuum state or the quantum vacuum, it is "by no means a simple empty space"
میں نے نہیں کہا کہ وقت حرکت ہے۔میں نے تو حرکت کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا۔یہاں آپ پھر غلطی کر رہی ہیں۔وقت کی تعریف کیا ہے۔یہ پڑھیں
the indefinite continued progress of existence and events in the past, present, and future regarded as a whole.
یہ کسی وجود کے لامحدود وجود کے قدیم ہونے اور ماضی حال مستقبل کے واقعات کا بیان ہے۔اب یہ بھی اپنے بیان کے لیے ایک وجور کے بیان دیے گئے واقعات و وجود پر انحصار کر رہا ہے۔چونکہ یہ اور چیزپر انحصار کر رہا ہے۔اس لیے یہ بھی حتمی اور وجود بالزات نہیں۔نظریہ اضافت بھی یہی کہتا ہے۔
جب سائنس خود مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز مادی و غیر مادی خصوصیات رکھتی ہے تو اب اگر کسی چیز کو مادی یا غیر مادی جو بھی تسلیم کر لیا جائے اس سے اس چیز کا وجود کس طرح غلط ثابت ہوتا ہے۔اب خدا جو ہر وجود کاس خالق ہے اس کی مرضی جس وجود مینی بھی رہے اس سے اس کا انکار کہاں سامنے آتا ہے۔
وہ علت خدا ہے اور جو سب اشیاء کو مادی و غیر مادی خصوصیات دے سکتا ہے خود اگر دونوں خصوصیات رکھ لے تو کہاں اس کا انکار ہوتا ہے۔وہ جو بھی وجود رکھے وہ علت خدا ہی ہے۔
میں نہیں کہتا کہ خدا مادی ہے لیکن وہ جس وجود میں چاہے آسکتا ہے۔وہ قادر ہے خود سائنس مان رہی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کے دو پہلو ہیں۔مادی و غیر مادی۔کسی صورت خدا کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کی ایک طاقت اور اس کی قدرت ہے تو ثابت ہوجائے گا کہ یہ جس خدا کے وجود کی نشانی ہے۔ وہی خدا ہی وجود بالزات ہے جس کی قدرت کی یہ علامت اور اس کے وجود کی دلیل ہے۔جی بتائے۔پھر اور بات نہیں چلے گی۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کے وجود کی دلیل اور اس کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ وہ خدا ہی موجود بالذات ہے جس کی ایک قدرت اور اس کا اظہار یہ ویکیوم انرجی ہے۔تفصیل کے لیے میرا ویکیوم انرجی پر تفصیلی مضمون پڑھیں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=396218204055311&id=100010014035463
فلسفہ اسلامی میں اثبات وجود خدا کے لیے بہت سی عقلی دلیلیں دی جاتی ہیں۔۔ جن میں سے اک انتہائی اہم دلیل برہان امکان ووجوب کے نام سے ہے۔ اس دلیل کو بو علی سینا نے اپنی کتاب الاشارات وال تنبیھات کی نمط رابع میں ذکر کیا ہے اور اس کے برہان صدیقین میں سے ہونے کا دعوی کیا ہے۔
اس دلیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف "وجود" میں غور اور فکر کے بعد خدا کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر ہم اس کائنات کی تمام موجودات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں غور وفکر کریں
تو یہ موجودات اپنے وجود کے حوالے سے (ان میں صرف دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں)
1۔ یا تو وجود ان کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح سے کہ وجود کو ان سے سلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو واجب الوجودکہا جاتا ہے۔
یا
2۔ وہ موجود تو ہیں لیکن وجود ان کے لیے ضروری نہیں، بلکہ وجود کو ان سے سلب بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان کا وجود۔ اس کو ممکن الوجود کہا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ موجود ہو بھی اور وجود اس کے لیے ممتنع ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو موجود ہی نہ ہوتا۔
پس اگر کسی واجب الوجود کو مانتا ہے تو فبہا۔ کہ وہ خداوند متعال کی ذات ہے۔
اور اگر نہیں مانتا۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ ممکنات کیسے وجود میں آئے؟
واجب الوجود یعنی جس کا وجود باقی تمام موجودات کے لیے واجب ہو،جو تمام موجودات کا خالق ہو جس کے بغیر کوئ وجود ممکن نہ ہو یعنی وہ سب ممکن الوجود کا خالق ہو تو اب جس کا وجود سب موجودات کی تخلیق کے لیے لازم ہے وہی خدا ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ کوئ اور۔یہ بات نو علی سینا ثابت کر چکے ہیں۔
باقی جو موجود ہے لیکن عدم اور فنا یا موت سے آزاد نہیں بلکہ اس کی ایک تخلیق ہے جو ہمیشہ سے موجود نہیں تھا بلکہ واجب الوجود خدا کی طرف سے وجود میں لایا گیا وہ ممکن الوجود ہے۔اس کی ذات میں عدم اور وجود دونوں ممکن ہیں۔لہذا جو وجہ موجودگی رکھتا ہو،ایک ابتدا رکھتا ہو،عدم یعنی فنا اور موت سے آزاد نہ ہو وہ ممکن الوجود ہوگا۔جو اس ممکن الوجود کی وجہ ہوگا،اس کے وجود اور اس کے عدم یعنی فنا کی وجہ ہوگا وہ واجب الوجود خدا ہے۔یہ موجود ایک بیرونی طاقت یعنی واجب الوجود کا اپنی تخلیق و وجود اور بقا کے لیے محتاج ہے۔یہ وجود عدم و وجود کے درمیان ایک مساوی حالت میں ہے اور ایسے واجب الوجود کا محتاج ہے جو اس کو عدم و وجود کی مساوی کیفیت سے نکال کر اسے وجود بخشے۔
اب اس سارے فلسفے کے مطابق جو خود بخود موجود،اپنے وجود کے لیے کسی وجود کے اثر سے آزاد،کسی وجود کی طرف سے فنا کے خطرے سے آزاد،سب موجودات کی وجہ تخلیق اور ان کے وجود کے لیے ایک لازمی وجود تو وہ وجود بالذات خدا ہی ہوسکتا ہے اور کوئ نہیں۔
دوسرے لفظوں میں واجب الوجود وجود مطلق ہے جس کے بغیر سب موجودات یعنی تمام ممکن الوجود بے وجود ہوتے،جو وجود ان کی وجہ بقا ہے،جو ان کی وجہ عدم ہے تو وہ وجود مطلق یا وجود بالذات خدا ہی ہے اور کوئ نہیں۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1046802335426161
دین سے دوری اور سب حرام کاموں اور حرام اشیاء کے استعمال کے یورپی اور غیر مسلم معاشرہ کیوں ترقی کر رہا ہے؟کیا مذہب ترقی کے لیے لازمی نہیں ہے؟اگر لازمی ہے تو کافر ترقی پر کیوں اور مسلمان زوال میں کیوں؟
جہاں تک شراب ’جوئے ’زنا ’خنزیر اور سور وغیرہ کے حرام ہونے کی وجہ اور سبب کا تعلق ہے تو اس بارے میں دوباتوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہر انسان کے لئے یہ معلوم کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ فلاں چیز کیوں حرام ٹھہرائی گئی اور کس وجہ سے اس کا استعمال کرنا ممنوع ٹھہرایا گیا ۔ کیونکہ جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان کی خباثتیں یا نقصانات کا معلوم کرلینا یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی اپنے علم اور تجربے سے معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں اور پھر ایک حرام کردہ چیز کی خباثت ایک زمانے میں ظاہر نہیں ہوتی جب کہ دوسرے زمانے میں وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔
مثلاً سور کے گوشت کی مثال ہی لیجئے کہ جب یہ حرام کیا گیا تو اس وقت شاید ہی کسی کو اس کی حرمت کا سبب یا علت معلوم تھی لیکن سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انکشافات ہوتے گئے کہ اس میں ایسے مہلک جراثیم اور کیڑے ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں بہرحال کوئی انکشاف ہو یا نہ ہو مسلمان اس عقیدے پر قائم رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور حکیم و خبیر ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال ٹھہرائے اور جسے چاہے حرام قرار دے دے اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ خلق خدا کے سامنے ان محرمات کے نقصانات اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں تا کہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب ہرانسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں ہے تو پھر آخر اسے کس چیز پر انحصار کرناہوگا؟ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الہٰی ہے مگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی و رسول ہیں تو پھر اسے چیزوں کی حلت و حرمت کا اختیار اللہ وحدہ لاشریک ہی کو دینا ہوگا ’کسی عالم’درویش ’ بادشاہ یا حکمران کو یہ اختیار دینے کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا خدا اور قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی چیز کی حرمت و حلت کے بارے میں شک ہے تو پہلے اسے قرآن و اسلام کے بارے میں اپنے عقیدے کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان ہے تو پھر خالق کائنات کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا چاہے اس کی حکمت یا فلسفہ اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے (یہ ضروری نہیں)
شراب: اب شراب کو ہی لیجئے اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ اور سبب تو یہ ہے کہ اسے اس ذات نے حرام ٹھہرایا ہے جو چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی خوبیوں اور مضرتوں کا صحیح علم رکھنے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اسے کیوں حرام ٹھہرایا ؟ا س کا کیا نقصان ہے؟ اس بارے میں موجودہ دور میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہوچکی ہے کہ شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کے بے شمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں جس سے انسان کی صحت اور اخلاق دونوں پر اثر پڑتا ہے اور آج ان کی بہتات اور کثرت استعمال دنیا بھر کے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ شراب کے کچھ فوائد بھی ہیں تو قرآن نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کے نقصانات منافع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا یہ حرام ہے اور جدید تحقیق نے اس کے نقصانات واضح کردیئے ہیں۔
جوا: قرآن نے شراب کے ساتھ ہی جوئے کاذکر بھی کیا ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ایک بیماری کا شکار ہونے والا دوسری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہارے ہوئے جواری اکثر شراب کے ذریعے ہی عارضی اور مصنوعی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ جوئے کے نقصانات فرد اور معاشرے دونوں کے لئے بالکل واضح ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں اس کھیل میں محنت اور وقت دونوں کی بربادی ہے ۔ جواریوں کے درمیان بغض و عداوت اکثر قتل وغارت تک پہنچتی ہے اور اس مرض میں مبتلا عیاش لوگ خاندان کا کاروبار اور معاشرتی روایات سب کو تباہ کرنے پر تیاہ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ محض آرزوؤں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ محنت اور اسباب کی تلاش کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ صرف بازی جیتنے کے لئے بسا اوقات دین ’عزت اور وطن کو بھی داؤ پر لگا دیتےہیں اسی لئے قرآن نے انہیں رجس من عمل الشیطان کہا کہ گندے شیطان کام ہیں ’ان سے بچ کررہو۔
خنزیر: جدید طب نے خنزیر کے گوشت کے نقصانات واضح کردیئے ہیں کہ اس کا کھانا ہر خطے خصوصاً گرم ممالک میں انتہائی نقصان دہ ہے ۔ بعض سائنس دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے کھانے سے جسم میں خطرناک قسم کے کیڑے پیدا ہوجاتےہیں۔ مسلم ماہرین نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق خنزیر کے گوشت کے زیادہ استعمال سے غیرت کم ہوجاتی ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتےہیں کہ اگر اتنا ہی نقصان دہ ہے تو انگریز اور دوسرے غیر مسلم اتنی کثرت سے استعمال کیوں کرتےہیں۔ تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ مغربی ممالک کے لوگ یا دوسرے غیر مسلم ہر اس چیز سے دور رہتے ہوں جو نقصان دہ ہو۔ سگریٹ کے استعمال سے جو خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور سرطان کے اسباب میں بھی اب سگریٹ نوشی کو شامل کرلیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد یورپ والوں نے سگریٹ نوشی چھوڑدی ہے؟ اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ شراب اور خنزیر کے نقصان سے یہ بچے ہوئے ہیں بلکہ ان ساری بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ ان گند گیوں کے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیز ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گی۔
زنا: اسلام دین فطرت ہے اس لئے ا س نے فطری خواہشات کی بھی حدود مقرر کردی ہیں۔ اگر انسان کو جنسی خواہشات کے لئے آزاد چھوڑدیا جائے اور زنا کوجائز قرار دے دیا جائے تو خاندانی اور عائلی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ حسب و نسب اور حقوق و فرائض کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے نہ تو یہ کیا کہ اس کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرلے اور کوئی دینی یا اخلاقی رکاوٹ بھی اس کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی اس سے ٹکرانے کی اجازت دی کہ گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے اور شادی بیاہ اور دوسری دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرکے رہبانیت اختیار کرلی جائے ۔ بلکہ اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے کہ کچھ حدود مقرر کی ہیں جن کے اندر رہ کر نکاح کی شکل میں خواہش پورا کرنے کی اجازت دی اور ان حدود سے باہر زنا کی شکل کو حرام و بے غیرتی قرار دیا اور صرف اسلام ہی کا نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب ہا یہی موقف ہے۔
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جس قوم میں یہ بیماریاں آجائیں وہ ترقی کرسکتی ہے یا نہیں اور یورپ والوں میں یہ بیماریان پائی بھی جاتی ہیں پھر بھی وہ ترقی کررہے ہیں؟
یہ بڑا نازک سوال ہے اور اکثر لوگ اس شبہ میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھاجاتےہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ترقی صرف مادی وسائل کی بہتات کا نام نہیں کہ جس قوم کے پاس ہتھیاروں یا دنیاوی اسباب کی بہتات ہو وہ ترقی یافتہ ہے ہمارے نزدیک ترقی یافتہ وہ قوم ہے جس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی قدروں کو بھی اجاگر کیا ہو اور ان کا بھی تحفظ کررہےہوں۔جیسا کہ اسلام کے روشن دور کی مثالیں ہمارے سامنے موجو ہیں۔ آج جنہیں آپ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں وہ اخلاقی اور روحانی طور پر اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ اگر بداخلاقیوں اور بد کردار یوں کی رفتار یہی رہی تو اہل مغرب بہت جلد انہتائی بھیانک انجام سے دوچار ہوں گے۔ آپ ہی بتائیں کہ نیو یارک جو دنیا کے معیار کےمطابق مہذب ترین اور سب سے ترقی یافتہ ملک کا مرکزی شہر ہےوہاں چند گھنٹوں کے لئے اگر بجلی فیل ہوجائے تو حیوانیت و درندگی کس طرح ناچتی ہے نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ مال ایک رات میں چوریوں اور ڈاکوں کا شمار کرکے بتائیں کہ اسی کا نام ترقی ہے؟جبکہ زنا شراب اور جوئے کی وجہ سے وہاں جتنے قتل اور فسادات ہورہے ہیں وہ اس سے الگ ہیں۔ ہتھیاروں کی ترقی کا انجام بھی برا نظر آتا ہے شاید یہ کسی بدحواسی میں آکر اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں سے تباہ برباد ہو جائیں اور جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہاں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی اور مادی لحاظ سے ان لوگوں کو مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی قابل غور بات ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ غالب رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں ان کی ہمیشہ مددکرے گا اورر اس کی تکمیل اسی شکل میں ہوگی جب مسلمان اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں اور اللہ نے بارہا یہ وعدہ پورا کیا کہ جب مسلمانوں نے اس کی سچی اطاعت کی تو پھر وسائل کی کمی کے باوجود انہیں غالب و کامیاب کیا۔ اور اگر دونوں شرابی دونوں زانی یعنی کفار بھی عیاش اور مسلمان بھی عیاش دونوں بد عمل و بد کردار ہوجائیں تو پھر اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ جو تعداد اور مادی قوت میں زیادہ ہوگا وہ دوسرے پر غالب آجائے گا۔موجودہ صورت حال ایسی ہی کہ کفار دشمن اسلام بھی ہیں’زانی و شرابی بھی ہیں مگر پھر مسلمانوں پر غالب اور مادی لحاظ سے ان سے آگے ہیں کیونکہ عیاش ہونے کےباوجود وہ محنت بھی کرتےہیں اور زندہ رہنے کے کچھ اصولوں پر کاربند بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اپنے دین سے باغی بھی ہیں۔ زناو شراب کو بھی جائز ٹھہرائے ہوئے ہیں اللہ کے قانون کو اپنے ملکوں سے دیس نکالا بھی دیا ہوا ہے اور ان عیاشیوں اور بغاوتوں پر اضافہ یہ کہ محنت بھی نہیں کرتے اور معاملات و اخلاق میں کوئی اصول و ضابطہ بھی نہیں تو ظاہر ہے یہ دوسروں سے پیچھے ہی رہیں گے بلکہ اللہ سے عہد کرنے کے بعد پھر یہ بغاوت و سرکشی زیادہ ناراضگی کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری ہی مسلمانوں کی امتیازی شان ہے۔ یہ نہ رہی تو پھر کفار اپنی محنت و قوت سے ان پر غالب آسکتے ہیں۔ اس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کفار کےلئے شراب و زنا یا دوسرے گناہ مفید ہیں اور نقصان دہ نہیں اور ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں۔ بلکہ یہاں بھی کچھ خدائی قوانین وضابطے ہیں جنہیں قرآن بیان کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی شان حاصل کرنے کےلئے کوشش کرتا ہے تو ہم اس کو کوشش کے صلے میں پوری پوری عطا کرتےہیں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑتے مگر صرف دنیا کے طالبو ں کے لئے آخرت میں سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ (ھود:۱۵۔۱۶)
اب اس سے واضح ہوگیا کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول کی خاطر محبت کرنے والوں کو ان کی محنت کا پورا پورا صلہ عطا کرتا ہے۔ لیکن اس ساری ترقی یا قوت کے باوجود کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل نافرمانیوں اور سرکشیوں میں رہنےکی وجہ سے اچانک عذاب الہٰی کی لپیٹ میں آجاتےہیں ۔ ارشادربانی ہے
اور کتنے ہی بستیوں والے جو اپنی معیشت کی ترقی پر اترانے لگ گئے ہم نے ان کو ایسے صفحہ ہستی سے مٹایا کہ اس جگہ بعد میں کوئی کم ہی آباد ہے اور بالاخر ہر چیز ہماری ملکیت میں آگئی ۔ (قصص: ۵۸)
اور بعض اوقات انہیں مہلت بھی دی جاتی ہے اور جوں جوں سرکشی و بغاوت میں زیادہ ہوتے ہیں بظاہر وسائل و اسباب بھی کثرت سے دیئے جاتے ہیں اور پھر اچانک عذاب الہٰی کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے
جب وہ نصیحت کی چیزوں کو بھول گئے تو ہم نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ اکڑنے لگے تو اچانک ہم نے پکڑ لیا اور پھر ناکامی کے سوا انہیں اور کچھ نہیں ملا۔(انعام:۴۴)
یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں قرآن نے قوموں کے عروج و زوال پر بڑے پیارے انداز سے روشنی ڈالی ہے اگر آپ بغور ان کا مطالعہ کریں تو مسلمانوں کے زوال اور غیر مسلموں کی ظاہری چمک دمک کے اسباب باآسانی آپ کی سمجھ میں ا ٓجائیں گے۔
مختصر یہ کہ اخلاقی و معاشرتی برائیاں کسی قوم کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوسکتیں چاہے وہ موجودہ مسلمانوں کی طرح کوئی پس ماندہ قوم ہو یا دنیا کی مادی قوتوں کی طرح ترقی یافتہ ۔ سلطنت روم کے عروج و زوال کی داستان کا مطالعہ کریں۔ بغداد کے عروج اور اندلس کی ترقی کودیکھیں اور پھر ان کی تباہی کےاسباب کا جائزہ لیں۔ دور نہ جایئے اپنے ہاں سلطنت مغلیہ کی تباہی اور زوال ہی کی تاریخ کامطالعہ کرلیں۔ ہر جگہ آپ کو قانون قدرت یکساں نظرآئے گا ۔ اسکے ضابطے اٹل ہیں۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ موجودہ بین الاقوا می صورت حال توہمارے یقین اور ایمان کو پختہ کررہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ترقی وقوت کے سہارے جینے والے شاید آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور پھر خدا کسی دوسری قوم کو ان کی جگہ لا کربسائے۔
اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام ترقی کا ہرگز مخالف نہیں لیکن اسلام ترقی کے نام پر اخلاقی گراوٹ اور روحانی فساد کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔ جولوگ یہ سمجھتےہیں کہ علماء یا اسلامی قدریں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ترکی میں کاکمال اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں اپنے خیال سے عربی کا وجود مٹایا اور ملا کر راستے سے ہٹایا یہ سمجھ کر کہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دین وملا کے ہٹ جانے کے بعد کیا وہاں واقعی ترقی ہوئی ہے ۔ ہوٹلوں سینماؤں میں تو ترقی نظر آئے گی لیکن آج تک وہاں سیاسی سکون اور معاشی ترقی نہیں ہوسکی۔ بلکہ وہ قوم آج پھر روحانی قدروں کی طرف تیزی سے لوٹ رہی ہے اور وہاں چند سالوں کے بعد کمال اتاترک کا نام لینے والا بھی شاید کوئی باقی نہ رہے۔ ماضی قریب میں شاہ ایران کا انجام بھی ہمیں یہ سوال حل کرنے میں کافی مدد دے سکتاہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص492
محدث فتویٰ
حوالہ۔۔۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/14157/9/
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔