اسلام نے اتنی جنگیں کیوں لڑیں؟دنیا سے تصادم کیوں اسلام کی مجبوری بنا؟ملحدین کے اسلام پر جنگجو مذہب ہونے کے اعتراض کا جواب
سلام جن حالات میں دنیا میں آیا وہ سب جانتے ہیں۔ روئے زمین کے اکثر حصے پر دو بڑی طاقتوں قیصروکسری ٰکاراج تھا۔ ہند کا علاقہ مستقل مذہب کا پیرو کار تھا۔ چین کی طاقتور سلطنت بھی قائم تھی اور جس علاقے میں اسلام کا ظہور ہوا وہ ایک جنگجو ، ضدی اور ہٹ دھرم قوم کی آماجگاہ تھا جو بتوں کو پوجتے تھے۔ ایسے میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی اور اس دعوت کے ساتھ عرب کے طاقتور قبائل کا جو رویہ رہا وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ حتی کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ ایسے میں قرآن بار بار یہ ذمہ داری، عہد اور مقصد یاد دلا رہا ہے کہ یہ دین دنیا میں صرف مظلومیت کی داستانیں رقم کرنے نہیں بلکہ تمام باطل ادیان پر غالب ہونے آیا ہے۔ تیرہ سال کی جان توڑ محنت اور مشقت سے ثابت ہوگیا کہ اس نہج پر چلتے ہوئے غلبہ کا مقصد پور انہیں ہوسکتا۔ توآخر اس مقصد کے حصول کا ذریعہ کیا ہوگا؟ بالکل ظاہر سی بات ہے وہ ذریعہ تصادم ہی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے مخالف نظام اور ادیان کی طاقت توڑی جائے، انہیں دبا دیا جائے، مغلوب کیا جائے تاکہ اسلام کو غلبہ اور بلندی مل جائے۔ صحابہ کرام کو روزِ اول سے بعثت اسلام کے اس مقصد کا علم تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر بھی کامل یقین تھا کہ ایسا ضرور ہوگا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ تصادم کے فطری طریقے پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس کا حصول اسباب کے تحت ممکن نہیں۔ اس لئے قرآن خود بتاتا ہے کہ جب تصادم کا حکم بلکہ اجازت بھی نہ تھی حضرات صحابہ کرام اس وقت اللہ تعالیٰ سے اس کی اجازت مانگا کرتے تھے لیکن وہ اجازت بعض مصالح اور حکمتوں کی تکمیل تک مؤخر رکھی گئی(ملاحظہ فرمائیں سورۃنساء آیت۷۷)۔ جب اس کا مقدر وقت آن پہنچا اور حکم نازل ہو گیا تو غلبۂ اسلام کے دور کا بھی آغاز ہو گیا اور چند ہی سالوں میں پورا عرب اسلام کے پرچم تلے آگیا۔ وہ قریش جو بات سننے پر آمادہ نہ تھے، دعوت کے جواب میں گالیاں دیتے اور تشدد کرتے تھے، جو اسلام کے سامنے نہ جھکنے کی اور اسے مٹا دینے کی قسمیں کھاتے تھے تصادم کے وقت اتنے کمزور پڑے کہ ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور وہ بھی منت سماجت کرکے اور جان کی امان مانگ کر۔ اسی طرح اسلام کی دعوت جب اس دور کی بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ تک پہنچائی گئی تو ان کا رد عمل بھی قریشِ مکہ سے مختلف نہ تھابلکہ کسری ملعون نے تو نبی اکرم ﷺ کا نامہ مبارک چاک کرکے اپنی بدبختی کا سامان کیا۔ طاقت، حکومت اور دولت کے نشے میں چور چور ان معاندین کو اسلام کی جو ابتدائی دعوت دی گئی اس میں بھی تصادم کا یہ پیغام واضح طور پر موجود تھا۔ شاہانِ عجم کو بھیجے گئے ان مراسلات میں ایک مضمون مشترک تھا ’’اَسْلِم تَسْلَمْ‘‘ (اسلام قبول کرلو سلامتی پائو گے) مفہوم ِ مخالف ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ اگر اسلام قبول نہ کیا اور اس نظامِ نو کے آگے سر نہ جھکایا جو غالب ہونے کے لئے آیا ہے تو پھر تمہارے لئے سلامتی نہیں۔ سیدھے طور پر یہ تصادم کا پیغام ہے۔ ایسے بادشاہ جن کی سلطنتوں کی حدیں کرۂ ارض کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوں، جن کی عسکری طاقت کے ہر طرف ڈنکے ہوں، جن کی معیشت مضبوط ہو، جو سپر پاور ہونے کے مدعی ہوں انہیں بڑھ کر سلامتی سے محروم کرنے کی دھمکی دے دینا اور یہ کہہ دینا کہ اپنے پرانے دین اور نظام کو یکسر ترک کرکے یہ نیا نظام اور دین اپنا لو ورنہ تمہارے لئے کوئی سلامتی نہیں۔ اس مضمون میں اگر کسی کو تصادم کا پیغام نظر نہیں آتا تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے۔ شاہ عمّان کے نام والہ نامہ میں تو صاف الفاظ میں ہے۔ ’’اگر اسلام کا اقرار کرلو تو تم کو تمہارے ملک پر بدستور باقی رکھیں گے ورنہ سمجھ لو کہ تمہاری سلطنت عنقریب زائل ہونے والی ہے اور میرے سوا ر تمہارے گھر کے صحن تک پہنچیں گے‘‘۔ اسلام کی دعوت نہ ماننے والوں کے گھر تک اسلام کے سوار کیوں پہنچیں گے یہ بات وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے تھے جنہیں لکھا گیا تھا۔ سمجھتے تو لوگ آج بھی ہیں حتی کہ وہ لوگ بھی جو تصادم کے منکر ہیں مگر زبان سے کہتے کچھ اور ہیں کیونکہ انہیں تنخواہ اسی کی ملتی ہے۔
اس پوری بات پر یہ شبہ نہ ہو کہ مطلق تصادم کی اوّلیت کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور زبانی دعوت کا انکار ہو رہا ہے۔ دعوتِ اسلام کا جو شرعی اسلوب ہے اس میں اوّلیت زبانی دعوت کو ہی حاصل ہے (بشرطیکہ معاملہ اقدام کا ہو دفاع کا نہیں) ہم عرض یہ کر رہے ہیں کہ محض زبانی دعوت اس مقصد کے مکمل حصول کے لئے کافی نہیں ہو سکتی تھی نہ عقلاً نہ فطرتاً، اس لئے تصادم کا بروئے کار لانا لازم تھا۔ اسی بات کے پیشِ نظر حضرات صحابہ کرام نے اس کی اجازت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل فرمایا۔ اس بات پر کسی کا اصرار نہیں کہ جہاں بغیر تصادم کے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہو وہاں بھی ضرور لڑا جائے بلکہ ایسی لڑائی تو حرام ہو جاتی ہے۔
لیکن جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بغیر لڑے ایسا ممکن بلکہ واقع ہے ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ تاریخ کا کوئی دور ایسا دکھائیں جس میں مسلمان غیر مسلح، بغیر تصادم کی دھمکی دئیے دعوت دیتے گئے ہوں اور کفریہ طاقتیں اپنے پرچم سرنگوں کرکے دامنِ اسلام میں پناہ لیتی گئی ہوں۔ اگر ایسا کہیں واقع ہوا ہے تو وہ پیش کریں تاکہ اسے مثال بنا کر مسلمان اس کا اتباع کریں اور بغیر جانیں لٹائے اس بنیادی مقصد کا حصول ممکن بنائیں۔ کم از کم جتنی اسلامی تاریخ لکھی جا چکی ہے اس میں تو ایسا کہیں نہیں ۔ ممکن ہے منکرینِ جہاد نے جس طرح قرآن و حدیث کی جدید تشریحات گھڑ کے سلف کی تفاسیر کو غیر معتبر اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے خلاف قرار دے دیا ہے اسی طرح دورِ ماضی میں لکھی گئی تاریخ کو بھی غلط قرار دے کر نئی تاریخ لکھیں اور اس کے بَل پر اپنا یہ دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اگر اُن مہربانوں کی بات مان لی جائے جو آج کل امت کو بڑے دردِ شکم کے ساتھ یہ دعوت دینے میں مشغول ہیں کہ راہِ نجات اب صحابہ کرام کے راستے میں نہیں بنی اسرائیل کے راستے میں تلاش کرنی چاہیے (تاکہ جو کچھ بنی اسرائیل نے پایا مسلمان بھی وہ پالیں) تو پھر نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بات کسی اور جانب نہ نکل جائے ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر بتا دیا کہ دین غلبے کے لئے زمین پر آیا ہے اور زمین پر ایسی مزاحمتی قوتیں ہمہ وقت موجود ہیں جو لازمی طور پر غلبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی تو یقینی بات ہے کہ اس دین کا غلبہ ان طاقتوں کی بربادی اور تخریب پر موقوف رہے گا اور ان طاقتوں کو تباہ کرنے کے لئے ان سے ٹکرائو فطری امر ہے ۔ اب جو لوگ تصادم کے اس فطری عمل کے مخالف ہیں وہ در حقیقت غلبہ اسلام کے بنیادی مقصد سے مسلمانوں کو ہٹا رہے ہیں اور اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ تو فیصلہ آپ خود کریں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں یا بدترین دشمن؟؟
جہاد کی اجازت دی گئی لیکن ساتھ میں کچھ اصول بھی بتادیے گئے جو کہ مختصر درج ذیل ہیں
عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
غیرمسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔
شک کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لئے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کئے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لئے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لئے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔ جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا ۔ اے محمد ؑ ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں ۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم !میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں ۔ اللہ نے تمہارے لئے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا ۔آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔ فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا ، کھیتوں کو تباہ کرنا ، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ ۲۵ ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔ اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
٭…٭…٭
جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری (hegemony and expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے۔
اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔
(اسلام کے) اس نظریہ کے مطابق چونکہ جنگ کا اصلی مقصد حریفِ مقابل کو ہلاک کرنا اور نقصان پہنچانا نہیں بلکہ محض اس کے شر کو دفع کرنا ہے۔ اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی قوت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفع شر کے لیے ناگزیر ہو۔ اور اس قوت کا استعمال صرف انہی طبقوں کے خلاف ہونا چاہیے جو عملاً برسر پیکار ہوں یا حد سے حد جن سے شر کا اندیشہ ہو۔ باقی تمام انسانی طبقات کو جنگ کے اثرات سے محفوظ رہنا چاہیے، اور دشمن کی ان چیزوں تک بھی ہنگامۂ کارزار کو متجاوز نہ ہونا چاہیے جن کا اس کی جنگی قوت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
جنگ کا یہ تصور ان تصورات سے مختلف تھا جو عام طور پر غیر مسلم دماغوں میں موجود تھے۔ اس لیے اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ اور اصطلاحات کو چھوڑ کر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی الگ اصطلاح وضع کی جو اپنے معنٰی موضوع لہ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے اور وحشیانہ جنگ کے تصورات سے اس کو بالکل جدا کر دیتی ہے .... اس پاکیزہ تصور کے ماتحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطۂ قانون وضع کیا جس میں جنگ کے آداب، اس کے اخلاقی حدود، محاربین کے حقوق و فرائض، مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز اور ہر ایک کے حقوق، معاہدین کے حقوق، سفراء اور اسیرانِ جنگ کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ ہر ایک کے لیے قواعد کلیہ اور حسب ضرورت جزئی احکام مقرر کیے۔ اور اس کے ساتھ داعی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے نظائر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی چھوڑا تاکہ قانون پر عملدرآمد کرنے اور قواعد کلیہ کو احوال جزئیہ پر منطبق کرنے کا طریقہ واضح ہو جائے۔
لیکن اس قانون سازی کا مدعا صرف اتنا نہ تھا کہ کاغذ پر ایک ضابطۂ قوانین آجائے، بلکہ اصلی مقصود یہ تھا کہ عملی خرابیوں کی اصلاح کی جائے اور جنگ کے وحشیانہ طریقوں کو مٹا کر اس مہذب قانون کو رائج کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس غلط تصور کو دلوں سے محو کرنے کی ضرورت تھی جو صدیوں سے جما ہوا تھا۔ لوگوں کی عقلیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ جب مال و دولت کے لیے جنگ نہ کی جائے، ملک و زمین کے لیے نہ کی جائے، شہرت و ناموری کے لیے نہ کی جائے، حمیت و عصبیت کے لیے نہ کی جائے، تو پھر (وہ ایسی) جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جس کو انسان کی خود غرضی اور نفسانیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا داعیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا کام یہی کیا کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی اور وہ حدود جو اسے جہاد فی سبیل الطاغوت سے ممتاز کرتے ہیں، پوری طرح واضح کر دیے۔
اس طرح اسلام نے جنگ کی اجازت صرف درج ذیل صورتوں میں دی۔
سب سے پہلے دعوت اسلام ہے۔
نہ ماننے پر جزیہ طلب کیا جائے گا ۔وہ اپنے علاقوں کے خود حکمران رہیں گے
جزیہ بھی نہ دینے پر جنگ کی جائے گی
لیکن جو صلح پر مائل ہوگا اس سے صلح کی جائے گی۔
اور جب کوئ کافر اسلام اور امن کے راستے میں رکاوٹ بنے یا اپنے ملک یا علاقوں میں اسلامی عبادات کی آزادی سلب کرے یا وہاں مقیم مسلم آبادی پر ظلم کرے یا اسلامی علاقوں پر حملہ آور ہو اور ان سب مظالم کے بعد گزارش اور تنبیہ کے باوجود اس عمل سے باز نہ آئے تو تب اس سے جنگ کی جائے گی۔لہذا اسلام کی اپنے غلبے کی یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف ہے جہنوں نے نہ صرف اسلام کی تعلیمات کا کھلم کھلا انکار کیا بلکہ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنے تو اس صورت میں دنیا کو کفر کے غلبے اور بدامنی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت دی گئی۔جو یہ جنگ دین کی نیت سے کرے گا یہ جنگ جہاد کہلائے گی اور جو یہ جنگ ملک گیری اور اپنی سلطنت کی وسعت کی نیت سے کرے گا تب یہ جہاد نہیں کہلائے گی۔
تدوین و ترتیب۔۔ڈاکٹر احید حسن
سلام جن حالات میں دنیا میں آیا وہ سب جانتے ہیں۔ روئے زمین کے اکثر حصے پر دو بڑی طاقتوں قیصروکسری ٰکاراج تھا۔ ہند کا علاقہ مستقل مذہب کا پیرو کار تھا۔ چین کی طاقتور سلطنت بھی قائم تھی اور جس علاقے میں اسلام کا ظہور ہوا وہ ایک جنگجو ، ضدی اور ہٹ دھرم قوم کی آماجگاہ تھا جو بتوں کو پوجتے تھے۔ ایسے میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی اور اس دعوت کے ساتھ عرب کے طاقتور قبائل کا جو رویہ رہا وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ حتی کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ ایسے میں قرآن بار بار یہ ذمہ داری، عہد اور مقصد یاد دلا رہا ہے کہ یہ دین دنیا میں صرف مظلومیت کی داستانیں رقم کرنے نہیں بلکہ تمام باطل ادیان پر غالب ہونے آیا ہے۔ تیرہ سال کی جان توڑ محنت اور مشقت سے ثابت ہوگیا کہ اس نہج پر چلتے ہوئے غلبہ کا مقصد پور انہیں ہوسکتا۔ توآخر اس مقصد کے حصول کا ذریعہ کیا ہوگا؟ بالکل ظاہر سی بات ہے وہ ذریعہ تصادم ہی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے مخالف نظام اور ادیان کی طاقت توڑی جائے، انہیں دبا دیا جائے، مغلوب کیا جائے تاکہ اسلام کو غلبہ اور بلندی مل جائے۔ صحابہ کرام کو روزِ اول سے بعثت اسلام کے اس مقصد کا علم تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر بھی کامل یقین تھا کہ ایسا ضرور ہوگا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ تصادم کے فطری طریقے پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس کا حصول اسباب کے تحت ممکن نہیں۔ اس لئے قرآن خود بتاتا ہے کہ جب تصادم کا حکم بلکہ اجازت بھی نہ تھی حضرات صحابہ کرام اس وقت اللہ تعالیٰ سے اس کی اجازت مانگا کرتے تھے لیکن وہ اجازت بعض مصالح اور حکمتوں کی تکمیل تک مؤخر رکھی گئی(ملاحظہ فرمائیں سورۃنساء آیت۷۷)۔ جب اس کا مقدر وقت آن پہنچا اور حکم نازل ہو گیا تو غلبۂ اسلام کے دور کا بھی آغاز ہو گیا اور چند ہی سالوں میں پورا عرب اسلام کے پرچم تلے آگیا۔ وہ قریش جو بات سننے پر آمادہ نہ تھے، دعوت کے جواب میں گالیاں دیتے اور تشدد کرتے تھے، جو اسلام کے سامنے نہ جھکنے کی اور اسے مٹا دینے کی قسمیں کھاتے تھے تصادم کے وقت اتنے کمزور پڑے کہ ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور وہ بھی منت سماجت کرکے اور جان کی امان مانگ کر۔ اسی طرح اسلام کی دعوت جب اس دور کی بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ تک پہنچائی گئی تو ان کا رد عمل بھی قریشِ مکہ سے مختلف نہ تھابلکہ کسری ملعون نے تو نبی اکرم ﷺ کا نامہ مبارک چاک کرکے اپنی بدبختی کا سامان کیا۔ طاقت، حکومت اور دولت کے نشے میں چور چور ان معاندین کو اسلام کی جو ابتدائی دعوت دی گئی اس میں بھی تصادم کا یہ پیغام واضح طور پر موجود تھا۔ شاہانِ عجم کو بھیجے گئے ان مراسلات میں ایک مضمون مشترک تھا ’’اَسْلِم تَسْلَمْ‘‘ (اسلام قبول کرلو سلامتی پائو گے) مفہوم ِ مخالف ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ اگر اسلام قبول نہ کیا اور اس نظامِ نو کے آگے سر نہ جھکایا جو غالب ہونے کے لئے آیا ہے تو پھر تمہارے لئے سلامتی نہیں۔ سیدھے طور پر یہ تصادم کا پیغام ہے۔ ایسے بادشاہ جن کی سلطنتوں کی حدیں کرۂ ارض کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوں، جن کی عسکری طاقت کے ہر طرف ڈنکے ہوں، جن کی معیشت مضبوط ہو، جو سپر پاور ہونے کے مدعی ہوں انہیں بڑھ کر سلامتی سے محروم کرنے کی دھمکی دے دینا اور یہ کہہ دینا کہ اپنے پرانے دین اور نظام کو یکسر ترک کرکے یہ نیا نظام اور دین اپنا لو ورنہ تمہارے لئے کوئی سلامتی نہیں۔ اس مضمون میں اگر کسی کو تصادم کا پیغام نظر نہیں آتا تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے۔ شاہ عمّان کے نام والہ نامہ میں تو صاف الفاظ میں ہے۔ ’’اگر اسلام کا اقرار کرلو تو تم کو تمہارے ملک پر بدستور باقی رکھیں گے ورنہ سمجھ لو کہ تمہاری سلطنت عنقریب زائل ہونے والی ہے اور میرے سوا ر تمہارے گھر کے صحن تک پہنچیں گے‘‘۔ اسلام کی دعوت نہ ماننے والوں کے گھر تک اسلام کے سوار کیوں پہنچیں گے یہ بات وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے تھے جنہیں لکھا گیا تھا۔ سمجھتے تو لوگ آج بھی ہیں حتی کہ وہ لوگ بھی جو تصادم کے منکر ہیں مگر زبان سے کہتے کچھ اور ہیں کیونکہ انہیں تنخواہ اسی کی ملتی ہے۔
اس پوری بات پر یہ شبہ نہ ہو کہ مطلق تصادم کی اوّلیت کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور زبانی دعوت کا انکار ہو رہا ہے۔ دعوتِ اسلام کا جو شرعی اسلوب ہے اس میں اوّلیت زبانی دعوت کو ہی حاصل ہے (بشرطیکہ معاملہ اقدام کا ہو دفاع کا نہیں) ہم عرض یہ کر رہے ہیں کہ محض زبانی دعوت اس مقصد کے مکمل حصول کے لئے کافی نہیں ہو سکتی تھی نہ عقلاً نہ فطرتاً، اس لئے تصادم کا بروئے کار لانا لازم تھا۔ اسی بات کے پیشِ نظر حضرات صحابہ کرام نے اس کی اجازت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل فرمایا۔ اس بات پر کسی کا اصرار نہیں کہ جہاں بغیر تصادم کے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہو وہاں بھی ضرور لڑا جائے بلکہ ایسی لڑائی تو حرام ہو جاتی ہے۔
لیکن جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بغیر لڑے ایسا ممکن بلکہ واقع ہے ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ تاریخ کا کوئی دور ایسا دکھائیں جس میں مسلمان غیر مسلح، بغیر تصادم کی دھمکی دئیے دعوت دیتے گئے ہوں اور کفریہ طاقتیں اپنے پرچم سرنگوں کرکے دامنِ اسلام میں پناہ لیتی گئی ہوں۔ اگر ایسا کہیں واقع ہوا ہے تو وہ پیش کریں تاکہ اسے مثال بنا کر مسلمان اس کا اتباع کریں اور بغیر جانیں لٹائے اس بنیادی مقصد کا حصول ممکن بنائیں۔ کم از کم جتنی اسلامی تاریخ لکھی جا چکی ہے اس میں تو ایسا کہیں نہیں ۔ ممکن ہے منکرینِ جہاد نے جس طرح قرآن و حدیث کی جدید تشریحات گھڑ کے سلف کی تفاسیر کو غیر معتبر اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے خلاف قرار دے دیا ہے اسی طرح دورِ ماضی میں لکھی گئی تاریخ کو بھی غلط قرار دے کر نئی تاریخ لکھیں اور اس کے بَل پر اپنا یہ دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اگر اُن مہربانوں کی بات مان لی جائے جو آج کل امت کو بڑے دردِ شکم کے ساتھ یہ دعوت دینے میں مشغول ہیں کہ راہِ نجات اب صحابہ کرام کے راستے میں نہیں بنی اسرائیل کے راستے میں تلاش کرنی چاہیے (تاکہ جو کچھ بنی اسرائیل نے پایا مسلمان بھی وہ پالیں) تو پھر نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بات کسی اور جانب نہ نکل جائے ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر بتا دیا کہ دین غلبے کے لئے زمین پر آیا ہے اور زمین پر ایسی مزاحمتی قوتیں ہمہ وقت موجود ہیں جو لازمی طور پر غلبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی تو یقینی بات ہے کہ اس دین کا غلبہ ان طاقتوں کی بربادی اور تخریب پر موقوف رہے گا اور ان طاقتوں کو تباہ کرنے کے لئے ان سے ٹکرائو فطری امر ہے ۔ اب جو لوگ تصادم کے اس فطری عمل کے مخالف ہیں وہ در حقیقت غلبہ اسلام کے بنیادی مقصد سے مسلمانوں کو ہٹا رہے ہیں اور اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ تو فیصلہ آپ خود کریں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں یا بدترین دشمن؟؟
جہاد کی اجازت دی گئی لیکن ساتھ میں کچھ اصول بھی بتادیے گئے جو کہ مختصر درج ذیل ہیں
عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
غیرمسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔
شک کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔
حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لئے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کئے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لئے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لئے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔ جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا ۔ اے محمد ؑ ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں ۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم !میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں ۔ اللہ نے تمہارے لئے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا ۔آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔ فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا ، کھیتوں کو تباہ کرنا ، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ ۲۵ ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔ اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
٭…٭…٭
جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری (hegemony and expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے۔
اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔
(اسلام کے) اس نظریہ کے مطابق چونکہ جنگ کا اصلی مقصد حریفِ مقابل کو ہلاک کرنا اور نقصان پہنچانا نہیں بلکہ محض اس کے شر کو دفع کرنا ہے۔ اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی قوت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفع شر کے لیے ناگزیر ہو۔ اور اس قوت کا استعمال صرف انہی طبقوں کے خلاف ہونا چاہیے جو عملاً برسر پیکار ہوں یا حد سے حد جن سے شر کا اندیشہ ہو۔ باقی تمام انسانی طبقات کو جنگ کے اثرات سے محفوظ رہنا چاہیے، اور دشمن کی ان چیزوں تک بھی ہنگامۂ کارزار کو متجاوز نہ ہونا چاہیے جن کا اس کی جنگی قوت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
جنگ کا یہ تصور ان تصورات سے مختلف تھا جو عام طور پر غیر مسلم دماغوں میں موجود تھے۔ اس لیے اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ اور اصطلاحات کو چھوڑ کر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی الگ اصطلاح وضع کی جو اپنے معنٰی موضوع لہ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے اور وحشیانہ جنگ کے تصورات سے اس کو بالکل جدا کر دیتی ہے .... اس پاکیزہ تصور کے ماتحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطۂ قانون وضع کیا جس میں جنگ کے آداب، اس کے اخلاقی حدود، محاربین کے حقوق و فرائض، مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز اور ہر ایک کے حقوق، معاہدین کے حقوق، سفراء اور اسیرانِ جنگ کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ ہر ایک کے لیے قواعد کلیہ اور حسب ضرورت جزئی احکام مقرر کیے۔ اور اس کے ساتھ داعی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے نظائر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی چھوڑا تاکہ قانون پر عملدرآمد کرنے اور قواعد کلیہ کو احوال جزئیہ پر منطبق کرنے کا طریقہ واضح ہو جائے۔
لیکن اس قانون سازی کا مدعا صرف اتنا نہ تھا کہ کاغذ پر ایک ضابطۂ قوانین آجائے، بلکہ اصلی مقصود یہ تھا کہ عملی خرابیوں کی اصلاح کی جائے اور جنگ کے وحشیانہ طریقوں کو مٹا کر اس مہذب قانون کو رائج کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس غلط تصور کو دلوں سے محو کرنے کی ضرورت تھی جو صدیوں سے جما ہوا تھا۔ لوگوں کی عقلیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ جب مال و دولت کے لیے جنگ نہ کی جائے، ملک و زمین کے لیے نہ کی جائے، شہرت و ناموری کے لیے نہ کی جائے، حمیت و عصبیت کے لیے نہ کی جائے، تو پھر (وہ ایسی) جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جس کو انسان کی خود غرضی اور نفسانیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا داعیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا کام یہی کیا کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی اور وہ حدود جو اسے جہاد فی سبیل الطاغوت سے ممتاز کرتے ہیں، پوری طرح واضح کر دیے۔
اس طرح اسلام نے جنگ کی اجازت صرف درج ذیل صورتوں میں دی۔
سب سے پہلے دعوت اسلام ہے۔
نہ ماننے پر جزیہ طلب کیا جائے گا ۔وہ اپنے علاقوں کے خود حکمران رہیں گے
جزیہ بھی نہ دینے پر جنگ کی جائے گی
لیکن جو صلح پر مائل ہوگا اس سے صلح کی جائے گی۔
اور جب کوئ کافر اسلام اور امن کے راستے میں رکاوٹ بنے یا اپنے ملک یا علاقوں میں اسلامی عبادات کی آزادی سلب کرے یا وہاں مقیم مسلم آبادی پر ظلم کرے یا اسلامی علاقوں پر حملہ آور ہو اور ان سب مظالم کے بعد گزارش اور تنبیہ کے باوجود اس عمل سے باز نہ آئے تو تب اس سے جنگ کی جائے گی۔لہذا اسلام کی اپنے غلبے کی یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف ہے جہنوں نے نہ صرف اسلام کی تعلیمات کا کھلم کھلا انکار کیا بلکہ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنے تو اس صورت میں دنیا کو کفر کے غلبے اور بدامنی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت دی گئی۔جو یہ جنگ دین کی نیت سے کرے گا یہ جنگ جہاد کہلائے گی اور جو یہ جنگ ملک گیری اور اپنی سلطنت کی وسعت کی نیت سے کرے گا تب یہ جہاد نہیں کہلائے گی۔
تدوین و ترتیب۔۔ڈاکٹر احید حسن
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔