ارتقا،پسندوں کی طرف سے فوسل ریکارڈ کس طرح عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ؟ نبراسکا انسان کی فرضی کہانی،فوسل ریکارڈ کے حوالے سے ارتقائی سائنسدانوں کے جھوٹے دعوے اور جھوٹ پکڑے جانے پر ارتقا کے حامیوں کی سخت شرمساری
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
انسانی ارتقاءکی فرضی حکایت کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ان منظم تشہیراتی طریقوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے جس کے ذریعے عام لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ماضی میں رہنے والا آدھا انسان/آدھا گوریلا ایک حقیقت ہے۔ یہ منظم تشہیرات بڑی حد تک فوصلوں یعنی رکاز کی نو تعمیرات کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ان نو تعمیرات کا طریقہ ارضیاتی کھدائی کے دوران پائی گئی کسی ایک ہڈی کو بنیاد بناکر تصویر بنانا یا کسی جاندار کا مکمل ڈھانچا تعمیر کردینا ہے۔ اخباروں، رسالوں اور فلموں میں اکثر نظر آنے والا گوریلا نما آدمی ایسی ہی نو تعمیرات کا نتیجہ ہے کیونکہ فوصل زیادہ تر کسی ڈھانچے کا معمولی سا حصہ اور بسا اوقات غیر مکمل حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو بنیاد بناکر کوئی بھی قیاس کرنا سراسر تخمینہ اور اندازہ ہوتا ہے۔ ان فوصلی بقایاجات کو بنیاد بناکر ارتقاءپسند صرف اس لئے نو تعمیر کرتے ہیں تا کہ دنیا کے سامنے اپنے ارتقائی مقالے کو سچ ثابت کر سکیں۔درحقےقت یہ نو تعمیراتی اشکال صرف ان کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک نامور ماہرِ بشریات اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
”کم از کم علمِ قدیم بشر ی رکازیات یا فوسل(Human Fossils) میں صحیح معلومات کی اتنی کمی ہے کہ کسی بھی چیز کی تشریح زیادہ تر ذاتی مقالے پر مبنی ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی ذاتی مقالے ہی جدید فکریات کا آئینہ رہے ہیں۔“ 1
لوگوں کی سوچ آنکھ دیکھی چیزوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ نو تعمیرات ارتقاءپسندوں کے مقاصد کو بخوبی کامیاب بنادیتی ہیں اور لوگوں کو یقین آجاتا ہے کہ واقعی تصاویر میں نظر آنے والی مخلوق حقیقی ہے۔ اس موقع پر ایک نقطے کو اجاگر کرنا لازمی ہے۔ ہڈی کی شکل میں ملنے والے بقایاجات کسی بھی مخلوق کی صرف سرسری خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کسی مخلوق کی شکلیاتی خصوصیات کا انحصار نرم ریشہ لحمی یعنی عضلات یا جسم کے نرم حصوں پر ہوتا ہے جو کہ موت کے بعد سڑ جانے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے اس نرم ریشہ لحمی کی نو تعمیرات جو کہ خاکوں اور نقشوں میں دکھائی جاتی ہے وہ صرف اور صرف اس شخص کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ ان کو بنارہا ہوتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ارنسٹ اے۔ ہوٹن اس تمام معاملے کو یوں بیان کرتا ہے:
”نرم حصوں کی نو تعمیرات کا بیڑا اٹھانا ایک نہایت ہی خطرناک نوعیت کا کام ہے۔ ہونٹ، آنکھ، کان اور ناک کی نوک کا نیچے والے ڈھانچے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک نیا نڈر تھا لائد (قدیم انسان) کی کھوپڑی کے اوپر چمپانزی بندر کی شکل بھی تعمیر کی جاسکتی ہے اور ایک مشہور فلاسفر کی بھی۔قدیم انسان کی یہ ازروئے دعویٰ نو تعمیرات کی سائنسی قیمت اگرچہ بہت کم ہے لیکن یہ عام لوگوں کو بہکانے کا کام بہت اچھی طرح کرسکتی ہیں۔ اسی لئے ان نو تعمیرات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔“ 2
حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند اس موضوع پر واہیات ترین کہانیاں گھڑ لیتے ہیں اور ایک ہی کھوپڑی پر مختلف شکلیں بھی تعمیر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔آسٹرالوپیتھیکس روبسٹس (زنجانتھروپس) نامی ایک فوصل کا تین مختلف نو تعمیری شکلوں کے ساتھ پیش کیا جانا اس طرح کی جعل سازی کی بہترین مثال ہے۔ نیچے تصویر میں ایک کھوپڑی کی تین مختلف اشکال میں نوتعمیرات دکھائی گئی ہیں۔
اوپر سے نیچے
ماریس ولسن کے خاکے
سنڈے ٹائمز کی 5 اپریل 1946 اشاعت میں چھپنے والا خاکہ
نیشنل جیوگرافک کی ستمبر 1940ء کی اشاعت میں چھپنے والا پارکر کا خاکہ
جاوا مین کے دو خاکے جوکہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ ہیں ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں فوصلوں کی ناقابل یقین تشریح کا ثبوت ہیں۔
1922ء میں امریکہ کے قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کا منظم اعلیٰ ہنری فیر فیلڈ آسبارن نے اعلان کیا کہ اس کو ریاست نبراسکا کے مغرب میں موجود اسنیک بروک سے پیلیوسین دور کا ایک داڑھ کا فوصل ملا ہے۔ اس دانت میں ازروئے دعویٰ انسان اورگوریلے کی مشترکہ خصوصیات موجود تھیں۔ اس فوصل کے گرد تفصیلی سائنسی بحث گردش کرنے لگی اور اس کا نام’ نبراسکا کا آدمی‘ رکھ دیا گیا۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ داڑھ پتھکانتھرو پس ارکٹس کا تھا جبکہ دوسرے مصر تھے کہ یہ ایک انسانی داڑھ تھا۔ نبراسکا کے آدمی کا فوراََ ایک سائنسی نا م ’ ہسپےروپتھیکس ہارلڈکوکی ‘ رکھ دیا گیا ۔ ا س کے علاوہ بہت سی تنظیمات نے آسبارن کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔اس واحددانت کو سامنے رکھتے ہوئے نبراسکا کے آدمیکے سر اور جسم کی نوتعمیر کردی گئی۔ مزید یہ کہ اس تصوراتی آدمی کا پورا خاندان بھی اس کی بیوی اور بچوں سمیت ایک قدرتی پس منظر میں بناکر دکھایا گیا ۔ارتقائی حلقوں کو اس خیالی آدمی کے اوپر اس قدر اعتماد تھا کہ جب ولیم برائن نامی ایک تحقیق دان نے نبراسکا کے آدمی سے متعلق متعصب نتیجوں سے اختلاف کیا تو اس کی شدید نکتہ چینی کی گئی۔
لیکن 1927ء میں اس ڈھانچے کے دوسرے حصے بھی مل گئے جن کے حساب سے یہ دانت نہ تو کسی انسان کا تھا نہ گوریلے کا بلکہ یہ ایک پراستھینوپس نامی معدوم جنگلی امریکی سور کی نسل کا تھا۔ رسالہ سائنس میں ولیم گریگوری کا ایک مضمون چھپا جس میں اس نے اس سچائی کا اعلان کیا۔ ’ہسپیروپتھیکس ہیرالڈ کوکی‘ اورا س کے خاندان کی ساری تصویریں ارتقائی ادب سے فوراََ ہٹالی گئیں۔3
فوصلوں کی یہ متعصب تشریح اور صریحاً جعل سازی ارتقاءپسندوں کا من پسند وطیرہ بن گیا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو ارتقاءکے فریب میں الجھائے رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حرکتیں بہت معصوم لگتی ہیں جب ان کا موازنہ ان دوسری جانی بوجھی جعل سازیوں سے کیا جاتا ہے جن کا ارتکاب ارتقاءکی تاریخ میں کیا گیا ہے۔
حوالہ جات:
1:David R. Pilbeam, "Rearranging Our Family Tree", Nature, June 1978, p. 40.
2:Earnest A. Hooton, Up From The Ape, New York: McMillan, 1931, p. 332.
3:W. K. Gregory, "Hesperopithecus Apparently Not An Ape Nor A Man", Science, Vol 66, December 1927, p. 579.
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
انسانی ارتقاءکی فرضی حکایت کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ان منظم تشہیراتی طریقوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے جس کے ذریعے عام لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ماضی میں رہنے والا آدھا انسان/آدھا گوریلا ایک حقیقت ہے۔ یہ منظم تشہیرات بڑی حد تک فوصلوں یعنی رکاز کی نو تعمیرات کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ان نو تعمیرات کا طریقہ ارضیاتی کھدائی کے دوران پائی گئی کسی ایک ہڈی کو بنیاد بناکر تصویر بنانا یا کسی جاندار کا مکمل ڈھانچا تعمیر کردینا ہے۔ اخباروں، رسالوں اور فلموں میں اکثر نظر آنے والا گوریلا نما آدمی ایسی ہی نو تعمیرات کا نتیجہ ہے کیونکہ فوصل زیادہ تر کسی ڈھانچے کا معمولی سا حصہ اور بسا اوقات غیر مکمل حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو بنیاد بناکر کوئی بھی قیاس کرنا سراسر تخمینہ اور اندازہ ہوتا ہے۔ ان فوصلی بقایاجات کو بنیاد بناکر ارتقاءپسند صرف اس لئے نو تعمیر کرتے ہیں تا کہ دنیا کے سامنے اپنے ارتقائی مقالے کو سچ ثابت کر سکیں۔درحقےقت یہ نو تعمیراتی اشکال صرف ان کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک نامور ماہرِ بشریات اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
”کم از کم علمِ قدیم بشر ی رکازیات یا فوسل(Human Fossils) میں صحیح معلومات کی اتنی کمی ہے کہ کسی بھی چیز کی تشریح زیادہ تر ذاتی مقالے پر مبنی ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی ذاتی مقالے ہی جدید فکریات کا آئینہ رہے ہیں۔“ 1
لوگوں کی سوچ آنکھ دیکھی چیزوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ نو تعمیرات ارتقاءپسندوں کے مقاصد کو بخوبی کامیاب بنادیتی ہیں اور لوگوں کو یقین آجاتا ہے کہ واقعی تصاویر میں نظر آنے والی مخلوق حقیقی ہے۔ اس موقع پر ایک نقطے کو اجاگر کرنا لازمی ہے۔ ہڈی کی شکل میں ملنے والے بقایاجات کسی بھی مخلوق کی صرف سرسری خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کسی مخلوق کی شکلیاتی خصوصیات کا انحصار نرم ریشہ لحمی یعنی عضلات یا جسم کے نرم حصوں پر ہوتا ہے جو کہ موت کے بعد سڑ جانے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے اس نرم ریشہ لحمی کی نو تعمیرات جو کہ خاکوں اور نقشوں میں دکھائی جاتی ہے وہ صرف اور صرف اس شخص کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ ان کو بنارہا ہوتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ارنسٹ اے۔ ہوٹن اس تمام معاملے کو یوں بیان کرتا ہے:
”نرم حصوں کی نو تعمیرات کا بیڑا اٹھانا ایک نہایت ہی خطرناک نوعیت کا کام ہے۔ ہونٹ، آنکھ، کان اور ناک کی نوک کا نیچے والے ڈھانچے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک نیا نڈر تھا لائد (قدیم انسان) کی کھوپڑی کے اوپر چمپانزی بندر کی شکل بھی تعمیر کی جاسکتی ہے اور ایک مشہور فلاسفر کی بھی۔قدیم انسان کی یہ ازروئے دعویٰ نو تعمیرات کی سائنسی قیمت اگرچہ بہت کم ہے لیکن یہ عام لوگوں کو بہکانے کا کام بہت اچھی طرح کرسکتی ہیں۔ اسی لئے ان نو تعمیرات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔“ 2
حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند اس موضوع پر واہیات ترین کہانیاں گھڑ لیتے ہیں اور ایک ہی کھوپڑی پر مختلف شکلیں بھی تعمیر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔آسٹرالوپیتھیکس روبسٹس (زنجانتھروپس) نامی ایک فوصل کا تین مختلف نو تعمیری شکلوں کے ساتھ پیش کیا جانا اس طرح کی جعل سازی کی بہترین مثال ہے۔ نیچے تصویر میں ایک کھوپڑی کی تین مختلف اشکال میں نوتعمیرات دکھائی گئی ہیں۔
اوپر سے نیچے
ماریس ولسن کے خاکے
سنڈے ٹائمز کی 5 اپریل 1946 اشاعت میں چھپنے والا خاکہ
نیشنل جیوگرافک کی ستمبر 1940ء کی اشاعت میں چھپنے والا پارکر کا خاکہ
جاوا مین کے دو خاکے جوکہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ ہیں ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں فوصلوں کی ناقابل یقین تشریح کا ثبوت ہیں۔
1922ء میں امریکہ کے قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کا منظم اعلیٰ ہنری فیر فیلڈ آسبارن نے اعلان کیا کہ اس کو ریاست نبراسکا کے مغرب میں موجود اسنیک بروک سے پیلیوسین دور کا ایک داڑھ کا فوصل ملا ہے۔ اس دانت میں ازروئے دعویٰ انسان اورگوریلے کی مشترکہ خصوصیات موجود تھیں۔ اس فوصل کے گرد تفصیلی سائنسی بحث گردش کرنے لگی اور اس کا نام’ نبراسکا کا آدمی‘ رکھ دیا گیا۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ داڑھ پتھکانتھرو پس ارکٹس کا تھا جبکہ دوسرے مصر تھے کہ یہ ایک انسانی داڑھ تھا۔ نبراسکا کے آدمی کا فوراََ ایک سائنسی نا م ’ ہسپےروپتھیکس ہارلڈکوکی ‘ رکھ دیا گیا ۔ ا س کے علاوہ بہت سی تنظیمات نے آسبارن کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔اس واحددانت کو سامنے رکھتے ہوئے نبراسکا کے آدمیکے سر اور جسم کی نوتعمیر کردی گئی۔ مزید یہ کہ اس تصوراتی آدمی کا پورا خاندان بھی اس کی بیوی اور بچوں سمیت ایک قدرتی پس منظر میں بناکر دکھایا گیا ۔ارتقائی حلقوں کو اس خیالی آدمی کے اوپر اس قدر اعتماد تھا کہ جب ولیم برائن نامی ایک تحقیق دان نے نبراسکا کے آدمی سے متعلق متعصب نتیجوں سے اختلاف کیا تو اس کی شدید نکتہ چینی کی گئی۔
لیکن 1927ء میں اس ڈھانچے کے دوسرے حصے بھی مل گئے جن کے حساب سے یہ دانت نہ تو کسی انسان کا تھا نہ گوریلے کا بلکہ یہ ایک پراستھینوپس نامی معدوم جنگلی امریکی سور کی نسل کا تھا۔ رسالہ سائنس میں ولیم گریگوری کا ایک مضمون چھپا جس میں اس نے اس سچائی کا اعلان کیا۔ ’ہسپیروپتھیکس ہیرالڈ کوکی‘ اورا س کے خاندان کی ساری تصویریں ارتقائی ادب سے فوراََ ہٹالی گئیں۔3
فوصلوں کی یہ متعصب تشریح اور صریحاً جعل سازی ارتقاءپسندوں کا من پسند وطیرہ بن گیا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو ارتقاءکے فریب میں الجھائے رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حرکتیں بہت معصوم لگتی ہیں جب ان کا موازنہ ان دوسری جانی بوجھی جعل سازیوں سے کیا جاتا ہے جن کا ارتکاب ارتقاءکی تاریخ میں کیا گیا ہے۔
حوالہ جات:
1:David R. Pilbeam, "Rearranging Our Family Tree", Nature, June 1978, p. 40.
2:Earnest A. Hooton, Up From The Ape, New York: McMillan, 1931, p. 332.
3:W. K. Gregory, "Hesperopithecus Apparently Not An Ape Nor A Man", Science, Vol 66, December 1927, p. 579.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔