Thursday 27 December 2018

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟ قرآن پر ملحدین کے ایک گروپ جسے ہم جرات جرات تضحیک کہتے ہیں،کے ایک گھٹیا اور جھوٹ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب:

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟
قرآن پر ملحدین کے ایک گروپ جسے ہم جرات جرات تضحیک کہتے ہیں،کے ایک  گھٹیا اور جھوٹ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب:

قرآن پاک کی حفاظت پر ملحدین و مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ قرآن کی تینتیسویں سورت یعنی سورہ احزاب کی آیات کی تعداد بھی ہے۔قرآن مجید کے موجودہ اور تمام تاریخی نسخوں میں اس سورت کی آیات کی تعداد تہتر ہے  لیکن کچھروایات اسکے برعکس بیان کرتی ہیں۔اس پر روایات احادیث کے کئ مجموعوں جیسا کہ احمد،حاکم،بیہقی،ابن حبان،نسائ میں موجود ہیں۔اسکے علاوہ یہ ابن کثیر،قرطبی، اور کنز العمال میں بھی موجود ہے۔سورہ احزاب کی کچھ آیات کے ضائع ہونے کی روایت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی جاتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔مسند احمد میں اس روایت کا بیان درج ذیل ہے
عن عاصم بن بهدلة عن زر قال قال لي أبي بن كعب : كأين تقرأ سورة الأحزاب أو كأين تعدها قال قلت له ثلاثا وسبعين آية فقال قط لقد رأيتها وإنها لتعادل سورة البقرة ولقد قرأنا فيها الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالا من الله والله عليم حكيم
           ترجمہ:
عاصم بن بھدلہ سے روایت ہے،انہوں نے زر سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم سورہ احزاب کتنی تلاوت کرتے ہو یا اس کی کتنی آیات پڑھتے ہو۔زر نے کہا کہ تہتر آیات۔ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فر مایا کہ صرف اتنا۔میں نے دیکھا کہ یہ سورہ،سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی کہ جب بھی کوئ بوڑھا مرد یا عورت زنا کریں انہیں رجم یعنی سنگسار کرو۔یہ اللٰہ تعالٰی کی طرف سے سزا ہے(مسند احمد،حدیث نمبر 21245)
اوپر مذکور باقی مجموعوں میں بھی یہ روایت تقریبا  اسی طرح آئ ہے۔کچھ مجموعوں میں ہمیں کچھ اہم الفاظ ملتے ہیں۔اب ہم اس روایت کی صحت اور اس کے مستند ہونے کا جائزہ لیتے ہیں۔
   کچھ محدثین نے اس کی تصدیق کی ہے اور کچھ نے اس کو ناقابل اعتماد اور ضعیف قرار دیا ہے اور ظاہر میں یہ لگتا ہے کہ یہ روایت مستند ہے اور یہ کئ سلسلوں سے مروی ہے کیونکہ یہ بہت سے مجموعوں میں موجود ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔آئیے اسکی تفصیل کا جائزہ لیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے صرف ایک شخص زر روایت کررہا ہے۔یہ بات اس روایت کو مشکوک بنا رہی ہے۔اگر نعوذ بااللہ قرآن تبدیل ہوگیا تھا تو اتنی بڑی یہ روایت اور واقعہ صرف ایک شخص روایت کررہا ہے یا نعوذ بااللہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کی اس تبدیلی پر اتنی خاموشی اختیار فرمائ کہ صرف ایک شخص سے اس کا تذکرہ کیا۔جب کہ ایک صحابی قرآن میں کمی یا تبدیلی پر کیسے خاموش رہ سکتاہے اور دوسرا یہ کہ اگر خاموش نہیں رہے،اس پر آواز اٹھائ تو کیا صرف ایک شخص کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا؟ایسا نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ زر سے دو بندے روایت کر رہے ہیں۔ایک عاصم بن بھدلہ اور دوسرا یزید بن ابی زیاد۔اور ان کے بعد  بہت لوگ ان دو سے روایت کر رہے ہیں۔لیکن جن محدثین نے اس روایت کوناقابل اعتماد یعنی ضعیف قرار دیا ہے،انہوں نے ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔دیکھئے شیخ شعیب ارنات کی عادل مرشد اور سعید الحام کے ساتھ کی گئی مسند احمد کی تقسیم بندی،الرسالہ پبلشرز بیروت 1999،جلد پینتیس صفحہ 134
یزید بن ابی زیاد کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے کیونکہ اس روایت میں موجود یزید بن ابی زیاد کمزور اور ناقابل اعتبار راوی ہے۔اور عاصم کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ عاصم بن ابی بھدلہ اگر قابل اعتماد مان بھی لیا جائے تو بھی اس روایت پر اسلیے یقین نہیں کیا جاسکتا کہ عاصم یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے غفلت کا شکار رہتا تھا۔اس لیے اکیلے عاصم کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
اس طرح شیخ عبدالسمیع عبدالباری الصیغ نے مسند احمد میں دو صحابہ یعنی جابر بن سمرہ اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کی وضاحت اور تحقیق میں بھی ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔یزید  بن ابی زیاد کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت یزید بن ابی زیاد کی اس روایت میں موجودگی کی وجہ سے ضعیف ہے اور عاصم بن بھدلہ کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت عاصم بن بھدلہ کی یادداشت کی کمزوری اور غافل رہنے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔اس تصنیف کا اصل ٹائٹل  Marwiyat al-Sahabayn Jalilayn Jabir bin Samrah wa Ubayy bin Ka’b fi Musnad al-Imam Ahmad’ published by Ummul Qura University, 1988 vol. 1 ہے۔
یہاں تک کہ قدیم علماء و محدثین نے بھی اس روایت کے قابل اعتماد ہونے پر شک کا اظہار کیا ہے۔حافظ نورالدین ہیثمی(المتوفی یعنی وفات 807 ہجری)اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں موجود عاصم بن ابی النجود ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے(موارد الزمان،حدیث 1756)۔
اسی طرح شہاب الدین احمد البوصیری(المتوفی یعنی وفات 840 ہجری)بھی اپنی تصنیف Ithaf al-Khira al-Mihra میں اس روایت کو الطیالسی،ابن حبان اور احمد بن مونی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت کا انحصار عاصم بن ابی النجود پر ہے اور وہ ناقابل اعتبار یا ضعیف راوی ہے۔
اس طرح یہ روایت کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔
اس طرح کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کی جاتی ہے الاتقان میں لیکن یہ بھی انتہائ ضعیف ہے کیونکہ اس کی روایت میں ابن ابی لیحیہ ہے جو انتہائ ناقابل اعتبار ہے۔مزید اس روایت میں رجم یا سنگسار کرنے کی آیت کا کوئ حوالہ نہیں جو کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے اور یہ بات اسے اور ناقابل اعتبار قرار دیتی ہے۔See al-Ittiqan with research by the committee of Markaz Dirasat al-Qur’ania section 47 pub. Saudi Ministry of Islamic publications p.1456
کنزالعمال میں اس طرح کی روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے جس کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کی گئ ہے اس میں بھی آیت رجم یعنی زانی کو سنگسار کرنے کی آیت کا بیان ہے  لیکن اس کا پورا سلسلہ نہیں معلوم اور اس طرح یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔
اس طرح یہ ساری بحث ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایات  نا قابل اعتماد ہیں ا ور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تو صرف ایک ہی راوی ہے جو اس روایت کو مزید نا قابل اعتماد بنا دیتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے تدوین قرآن کے لیے بنائ گئ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی بارہ رکنی کمیٹی کا حصہ تھے۔اگر ایسی کوئ تبدیلی یا کمی نعوذ بااللہ کسی بھی آیت یا سورت کے حوالے سے قرآن پاک میں ہوتی تو وہ لازمی اس پر انگلی اٹھاتے اور اگر وہ نہیں تو باقی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم لازمی اٹھاتے جنہوں نے نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پاک سنا اور یاد کیا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔لہذا یہ روایات اپنے راویوں اور قرآن کی کچھ آیات کے نسخ یعنی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے منسوخ قرار دیے جانے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔اور ملحد گروپ جرات تحقیق جسے ہم جرات تضحیک کہتے ہیں کا قرآن پر اسکے نامکمل ہونے کا اعتراض جھوٹ،دھوکا بازی،دجل اور فریب پر مبنی ہے اور سورہ احزاب سمیت پورا قرآن سو فیصد محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ انسانوں کے خالق نے لے رکھا ہے۔اور آخر میں ملحدین کے نام ایک شعر
   جن کے افکار ہوں محض شکوک و شبہات پہ مبنی
ان کو حقیقت ابہام ملے،مذہب اسلام ملے

حوالہ۔۔

http://www.letmeturnthetables.com/2011/01/ahzab-verses-lost-abrogated-or.html?m=1
ترجمہ۔۔ڈاکٹر احید حسن

https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1036026323170429

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔