کیا اسلام میں عورت کا ختنہ کرانا جائز ہے؟
دانیال تیموری کو جواب
(تدوین و ترتیب۔۔ڈاکٹر احید حسن)
******************************
عورت کی شرم گاہ کا وہ حصہ جسے انگریزی میں clitoris اور اردو میں ’ہیچا‘یا’چوچولہ ‘ کہتے ہیں،اس کو مکمل طور پر کاٹ دینایا اس کے ایک حصے کو کاٹنا عورت کا ختنہ کہلاتا ہے ۔ یہ زنانہ اعضائے جنسی کا وہ حساس ترین تن جانے والا چھوٹا سا دانہ ہے جو شرم گاہ کے اوپری سرے پر ہوتا ہے۔عورت کو جنسی لطف اسی کی حساسیت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اسلام میں صرف اور صرف مرد کا ختنہ سنت ہے ، یہ نبیوں کی سنت اور لازمی عمل ہے.
بعض افریقہ ممالک مثلاً مصر ، مراکش، چاڈ، صومالیہ وغیرہ میں یہ خوفناک رسم تھی اور بعض جگہ اب بھی ہے ۔ اس کے تحت چھوٹی عمر کی بچیوں کو اس انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزارا جاتا جس میں ان کی موت بھی واقع ہو جاتی تھی۔ اور اس ختنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورت جنسی خواہش محسوس نہ کرے تاکہ قبیلے کی عزت محفوظ رہے.
نسوانی ختنہ (انگریزی: FGMیا Female Genital Mutilation، عربی:ختان الإناث) سے مر اد خواتین کے جنسی اعضاء کے بیرونی حصے کو قطع کرنے کا عمل ہے۔ یہ صحارا اور شمال مشرقی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سمیت 27 ممالک اور یہاں سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلی گروہوں کے ہاں عمل میں لایا جاتا ہے۔
اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس عمل سے گزرنے والی خواتین کی تعداد 70 کروڑ ہے۔افریقا اور مشرق وسطیٰ میں ساڑھے 12 کروڑ خواتین ختنہ شدہ ہیں۔جبکہ80 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو قسم سوم کے نسوانی ختنہ کا شکار ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق جبوتی، اریٹریا، حبشہ، صومالیہ اور سوڈان سے ہے۔ افریقہ سے باہر یمن میں اس کا پھیلاو 23 فیصد ہے، جبکہ عراقی کردوں میں اس عمل کی مقبولیت کی وجہ سے عراق میں اس کا پھیلاو آٹھ فیصد ہے۔ نسوانی ختنے کے واقعات بھارت، اسرائیل کے بدوی علاقوں، متحدہ عرب امارات اور نسبتاً کم وقوع کے ساتھ کولمبیا، اومان، پیرو اور سری لنکا میں بھی درج کیے گئے ہیں۔ اردن اور سعودی عرب میں اس عمل کے کیے جانے کے شواہد موجود ہیں، تاہم ان ممالک سے نمائندہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپ اور سکینڈے نیویا، امریکہ اور کینیڈا کے تارک وطن گروہوں میں بھی نسوانی ختنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس عمل کی درجہ بندی قسم اول، دوم، سوم کے نام سے کی ہے، جبکہ قسم چہارم علامتی ختنہ ہے، اور اس کا طریق کار نسوانی ختنے کے طے شدہ طریق کار سے تعلق نہیں رکھتا۔ یونیسیف نے اس عمل کو چار زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ (الف) جلد کو کاٹ کر الگ کیے بغیر،چرکا لگانا، چبھونا، علامتی ختنہ (ب) کاٹنا، جلد کا کچھ حصہ الگ کرنا (ج) فرج کو سی دینا، بند کر دینا یا فرعونی ختنہ، اور (د) متفرق، طے شدہ طریقوں کے علاوہ طریقے۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/نسوانی_ختنہ
ملحدین کا کہنا ہے کہ اسلام نے اس رسم کو دنیا میں فروغ دیااور وہ اس سارے عمل کا ذمہ دار ہے۔اب ہم اس رسم کا علمی و تاریخی تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا یہ اعتراض ٹھیک ہے یا غلط۔اس بارے میں پیش کی جانے والی احادیث کا بیان اور تجزیہ درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ [الدِّمَشْقِيُّ] وَعَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الأَشْجَعِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ، قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ: الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَخْتِنُ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ : < لاتُنْهِكِي؛ فَإِنَّ ذَلِكَ أَحْظَى لِلْمَرْأَةِ وَأَحَبُّ إِلَى الْبَعْلِ>.
قَالَ أَبو دَاود: رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بِمَعْنَاهُ وَإِسْنَادِهِ.
قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ [وَقَدْ رُوِيَ مُرْسَلا.
قَالَ أَبو دَاود: وَمُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ مَجْهُولٌ، وَهَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ]
سلیمان بن عبدالرحمٰن دمشقی، عبدالوہاب بن عبدالرحیم اشجعی، مروان، محمد بن حسان، عبد وہاب کوفی، عبدالملک بن عمیر، حضرت ام عطیہ الانصاریہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک عورت ختنہ کیا کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جھکا کر ختنہ نہ کیا کرو کیونکہ اس طرح میں ختنہ کرنے میں عورتوں کرمزہ زیادہ آتا ہے اور شوہر کو اچھا لگتا ہے.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1859 حدیث مرفوع مکررات 1
تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد سے تقویت پا کریہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں '' محمد بن حسان'' مجہول راوی ہیں)
http://www.hadithurdu.com/09/9-4-391/
مشکوۃ میں یہ حدیث اس طرح سے آئ ہے۔
وعن أم عطية الأنصارية أن امرأة كانت تختن بالمدينة . فقال له النبي صلى الله عليه وسلم لا تنهكي فإن ذلك أحظى للمرأة وأحب إلى البعل . رواه أبو داود وقال هذا الحديث ضعيف وراويه مجهول .
اور حضرت ام عطیہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو (عورتوں کی عٹ) ختنہ کیا کرتی تھی (جیسا کہ اس زمانہ میں عورتوں کی ختنہ کا بھی رواج تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن ) اس عورت سے فرمایا کہ " ٹنہ کو " زیادہ مت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑا سا اوپر سے کاٹ دیا کرو ) کیونکہ یہ (یعنی زیادہ نہ کاٹنا ) عورت کے لئے بھی بہت لذت بخش ہوتا ہے اور مرد کو بھی بہت پسندید ہوتا ہے (یعنی اگر اس کو زیادہ کاٹ دیا جائے تو جماع میں نہ عورت کو لذت ملتی ہے اور نہ مرد کو ) ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے راوی مجہول ہیں ۔"
جلد چہارم لباس کا بیان مشکوۃ شریف
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لباس کا بیان ۔ حدیث 391
عورت کی ختنہ کا ذکر
وراویہ مجہول (اور اس کے راوی مجہول ہیں ) میں جس طرح یہ احتمال ہے کہ یہاں جنس راوی مراد ہے یعنی اس حدیث کے سب راوی مجہول ہیں، اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ اس جملہ سے اصل میں یہ مراد ہے کہ کوئی ایک راوی مجہول ہے جیسا کہ ایک دوسرے صحیح نسخے میں منقول ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے وفی روایۃ مجہول بہرحال اس روایت کو طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ضحاک ابن قیس سے نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں احفضنی ولاتنہکی فانہ انضر للزوجۃ واحظی عند الزوج ۔
لڑکیوں کے ختنے کے بارے میں اسلام میں کوئ بھی صحیح حدیث،نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسلام پر اعتراض کیا جائے۔اس بارے میں سب سے مشہور حدیث ام عطیہ کی ہے۔اب ہم اس حدیث کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔اس حدیث کے بارے میں عراقی نے المغنی عن الاسفار میں کیا ہے کہ
"ام عطیہ کی حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اور ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے اور یہ دونوں رعایتیں ضعیف ہیں"۔حوالہ المغنی عن الاسفار 148/1
2۔ابو داؤد میں یہ حدیث موجود ہے اور ابو داؤد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مفہوم کی روایت عبید اللہ بن عمرو بن عبدالملک نے بھی روایت کی ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
3۔ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل بھی آئ ہے اور مرسل روایات میں ایک تابعی صحابی کا نام لیے بغیر حدیث روایت کرتا ہے اور اس طرح حدیث ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔
4۔ابو داؤد نے کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی محمد بن حسان مجہول ہے اور یہ حدیث،ضعیف ہے۔نمبر 2،3،4 کا حوالہ سنن ابی داؤد 497/4
5۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابی داؤد نے اس حدیث کو صرف اس کے ضعیف ہونے کے بیان کے لیے پیش کیا ہے اور خود ہی بتا دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی روایت میں ایک راوی محمد بن حسان ہے جس کو ابی داؤد نے مجہول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
7۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ابن عدی 2223/6 اور بیہقی 324/8 نے اس روایت کو مجہول قرار دیا ہے۔یعنی ضعیف اور ناقابل اعتبار۔
8۔عبدالغنی بن سعید نے کہا ہے کہ اس روایت میں محمد بن سعید بن حسان بن قیس اسدی شافعی مصلوب ہے۔یعنی کبھی اسے اس کے دادے کی جانب منسوب کیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے اس کو چھپانے کے لیے اس کے نام کو سو طرح بدلا ہے اور علماء نے اس راوی کو جھوٹا کیا ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
9۔احمد بن صالح کہتے ہیں کہ محمد بن حسان نے چار ہزار حدیثیں خود سے گھڑی تھی۔یہی وجہ ہے کہ علماء اس کی حدیث قبول نہیں کرتے اور اس روایت میں اس کی موجودگی حدیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار بنا رہی ہے۔
10۔احمد کہتے ہیں کہ منصور نے اسے یعنی محمد بن حسان کو بے دین ہونے کی وجہ سے سولی دی۔اس طرح اس راوی کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
11۔،حاکم 525/3 نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں بھی ایک راوی عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے۔اس طرح یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
12۔اسے بیہقی نے 324/8 میں عبید اللہ بن عمر کی سند سے روایت کیا ہے کہ مجھے کوفہ کے ایک آدمی نے بتایا اور آگے اس کی سند بیان کی۔اب کوفہ کے کس آدمی نے بتایا۔وہ نامعلوم ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
13۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ اس روایت میں عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔عبدالملک بن عمیر ایک متنازعہ راوی ہے جو بعض کے نزدیک ثقہ یعنی قابل اعتبار اور بعض کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے۔اس کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں درج ذیل مشہور محدثین کے اقوال پڑھیں
قال أبو حاتم: ليس بحافظ تغيّر حفظه.
قال أحمد: ضعيف يغلط.
قال ابن معين: يخاط.
قال البخاري عن علي ابن المديني: له نحو مائتي حديث.
ذكره ابن حبان في الثقات وفال: ولد لثلاث سنين بقين من خلافة عثمان. وماتسنة ثلاث وستين ومائة وله يومئذ مائة وثلاث سنين وكان مدلساً، وكذا ذكر مولده ووفاته ابن سعد.
اس میں ابو حاتم،احمد،ابن المعین،بخاری اور ابن حبان جیسے مشہور محدثین نے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
https://ar.m.wikipedia.org/wiki/عبد_الملك_بن_عمير
14۔اسے طبرانی نے الصغیر 93/1 نمبر 122 پر روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں ابن عدی نے 1083/3 میں کہا ہے کہ یہ روایت زائد ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
15۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو میزان 65/2 میں ضعیف قرار دیا گیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
16۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو بخاری نے منکر حدیث قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
17۔اس طرح کی ایک روایت بزار نے نقل کی ہے اور اس میں ایک راوی مندل بن علی ضعیف ہے۔
18۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ختنے کے بارے میں کوئ قابل اعتبار حدیث نہیں ہے اور نہ ہی یہ سنت کے طور پر قابل اتباع ہے۔
اس ساری بحث سے واضح ہوا کہ ایک نہیں کئ محدثین اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان کے مجموعی بیان نے اس روایت کے ضعیف ہونے کو بڑھا دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔لہذا ایک ضعیف حدیث کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر دانیال تیموری کا اعتراض بالکل غلط ہے۔
اس طرح ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے ایک فضیلت ہے۔اب اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں
1۔اس کے بارے میں عراقی نے کہا ہے کہ یہ چار صحابہ کی طرف منسوب ہے۔ اسے بیہقی اور احمد نے ضعیف سند سے روایت کیا ہےاور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔حوالہ المغنی عن حمل الاسفار 148/1
2۔مسند 75/5 میں یہ حدیث بیان کی گئ ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ مدلس ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔وہ قاضی تھا لیکن مغرور تھا اور اس کی غیر شرعی روش کی وجہ سے اس کی بیان کردہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔
3۔بیہقی نے 324/8 میں کہا ہے کہ اس روایت میں موجود الحجاج ناقابل اعتبار ہے۔بیہقی نے اس روایت کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
4۔ابن ابی شیبہ نے مصنف 8/9 نمبر 6519 میں یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج مدلس ہے اور ایک مجہول راوی کی وجہ سے یہ حدیث منقطع اور ناقابل اعتبار ہے۔
5۔طبرانی نے اسے الکبیر 273/7 میں دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں حجاج موجود ہے اور یہ سند ضعیف ہے ۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث ولید بن ولید سے روایت کی ہے اور ولید بن ولید ایک متنازعہ راوی ہے۔
7۔دار قطنی اور طبرانی نے یہ حدیث ابن عباس پر موقوف سند کے ساتھ سعید بن بشیر سے روایت کی ہے اور سعید بن بشیر ضعیف ہے۔
8۔الکبیر 359/11 میں یہ روایت عبدالغفور کی سند کے ساتھ ہے جس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
روایت «الخِتَانُ سُنَّةٌ لِلرِّجَالِ ، وَمَکْرُمَةٌ لِلنِّسَاءِ» ''ختنہ سنت ہے واسطے مردوں کے اور کریمانہ فعل ہے واسطے عورتوں کے'' کی بعض اسانید کوامام سیوطی نے حسن قرار دیا ہے مگر اکثر اہل علم اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں حتی کہ محدث وقت شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ضعیف جامع صغیر اور سلسلہ ضعیفہ ہی میں ذکر فرمایا ہے۔
اس طرح یہ حدیث اس ساری بحث کے بعد ناقابل اعتبار ہورہی ہے اور محض اس وجہ سے ملحدین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض غلط ہے۔
بخارى اور مسلم كى ایک حديث ميں ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، زيرناف بال صاف كرنا، مونچھيں كاٹنا، ناخن تراشنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).
بخاری کی جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ جس میں ختنہ سمیت پانچ چیزوں کو فطرت قرار دیا گیا ہے،اس حدیث سے بھی کسی طرح نسوانی ختنے کا جواز نہیں نکلتا کیوں کہ اس میں کسی بھی جنس کو خاص نہیں کیا گیا اور دوسری طرف اس کے حق میں پیش کردہ احادیث بھی ضعیف ہیں۔لہذا اسلام میں کسی طرح بھی نسوانی ختنے کا جواز ثابت نہیں ہے۔
صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب وہ چار شاخوں كے درميان بيٹھے اور ختنہ ختنہ سے چھو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).
اور ترمذى وغيرہ كى روايت ميں ہے كہ:
" جب دونوں ختنے مل جائيں .. "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 109 ).
اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس تثنيہ سے مراد مرد اور عورت كا ختنہ ہے.
اور عورت كا ختنہ اس طرح ہو گا كہ پيشاب خارج ہونے والى جگہ پر مرغ كى كلغى جيسى چمڑى كا كچھ حصہ كاٹا جائے، سنت يہ ہے كہ وہ سارى كلغى نہ كاٹى جائے بلكہ اس كا كچھ حصہ كاٹا جائے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 28 ).
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی صحیح اور مرفوع روایت میں یہ بیان مروی ہے کہ جب دو ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوتا ہے۔اس حدیث کو بیان کر کے دانیال تیموری نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرح سے اشارے میں عورت کے ختنے کا حکم دے رہے ہیں۔یہ محض ایک قیاس ہے۔اس سے لازمی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ختنے کا لفظ استعمال کر کے عورت کے ختنے کی ترغیب دی۔دیکھئے صحیح مسلم طبع استنبول 187/1،ابن ماجہ نمبر 608،صحیح ترمذی،البانی 95/1،لفظ ختانان میں جیسا کہ کچھ لوگوں نے کہا ہے۔مادہ کا ختنہ کرانے کی کوئ دلیل نہیں پائ جاتی کیونکہ یہ بطور تغلیب آیا ہے جیسا کہ عربی میں ماں اور باپ کو ابوان،سورج اور چاند کو قمران،اور صفا و مروہ کو مروتان کہ دیتے ہیں لیکن اس سے یہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا کہ ابوان کہنے سے والدہ ابا یعنی والد بن جاتی ہے یا قمران کہنے سے سورج چاند کہلاتا ہے۔یہ محض سماعی یعنی کہے اور سنے جانے والے کلمات ہیں جن سے کوئ قیاس نہیں کیا جاسکتا(دیکھئے جامع الدروس العربیہ 9/2)۔اس طرح بخاری و مسلم کی اس روایت میں بھی دو ختان یعنی دو ختنوں کا لفظ ایک سماعی لفظ کے طور پر آیا جس سے بعض علماء جیسا کہ کچھ شافعی علماء نے عورت کے ختنے کا جائز ہونا مراد لیا لیکن کسی بھی صحیح حدیث میں یہ حکم نہیں ہے کہ عورت کا ختنہ کیا جائے۔اس بارے میں کچھ شافعی فقہا کی عورت کے ختنے کے جواز کی رائے ایک قیاس پر مبنی ہے جس کا الزام نہ اسلام کو دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
صحیح بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ ۲/۵۸۳ میں ہے غزوئہ احد میں جب قتال کے لیے لوگ صف بستہ ہو گئے تو سباع نامی کافر نے نکل کر للکارا :
«هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ : فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُوْرِ أَتُحَادُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ ۔ قَالَ : ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاهِبِ»
''کیا کوئی ہے جو مجھ سے لڑے یہ سنتے ہی حمزہ بن عبدالمطلب اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور کہنے لگے ارے سباع ارے ام انمار (حجامنی) کے بیٹے تیری ماں تو عورتوں کے ٹنے تراشا کرتی تھی کمبخت نائن تھی اور تو اللہ ورسول سے مقابلہ کرتا ہے یہ کہہ کر حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور جیسے کل کا دن گزر جاتا ہے اس طرح صفحہ ہستی سے اس کو نابود کر دیا'' اس سے ثابت ہوتا ہے نزول شریعت کے زمانہ میں عربوں میں عورت کا ختنہ کیا جاتا تھا۔
حضرت مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بخاری شریف کی حدیث میں وارد ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان جنگ میں ایک کافر کو خواتین کا ختنہ کرنے والی عورت کا بیٹا کہ کر اس پر طنز کیا اور اسے میدان جنگ میں للکارا۔اگر یہ عمل اسلام میں جائز ہوتا تو کبھی بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اس کافر کو اس عمل کا طعنہ نہ دیتے۔
حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عثما ن بن ابی العا ص کو کھانے کی دعوت دی گئی ’ انہیں کہا گیا آ پ جانتے ہیں یہ کیا ہے ؟ یہ لڑکی کا ختنہ ہے انہوں نے کہا : یہ ختنہ ( ختنے کی دعوت ) ایسی چیز ہے جو ہم نے نبیﷺ کے زما نے میں نہیں دیکھی اور کھانے سے انکا ر کر دیا ہے ۔
طبرانی کبیر ( 3؍ 12) احمد ( 4؍ 217 ) ہیثمی نے المجمع ( 4؍60 ) میں ذکر کیا – سند اچھی ہےدیکھیں الصیحہ ( 2؍ 457)
اس کا مطلب یہ ہے کہ نسوانی ختنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہیں ہوتا تھا۔
دانیال تیموری کہتا ہے کہ شافعی مسلک میں خواتین کا ختنہ واجب ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کے مطابق شافعیہ کے نزدیک یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ الروضہ 180/10)
اکثر علماء اور کچھ شافعیہ کے مطابق بھی یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ فتح الباری 340/10)۔
اور اكثر اہل علم يہ كہتے ہيں كہ عورتوں كے ليے ختنہ كرنا واجب نہيں، بلكہ يہ سنت اور ان كے ليے تكريم كا باعث ہے.
لڑکیوں کی ختنہ کے متعلق۔ مسلمان شرعی ماہرین ابوداود والیم 3 حاشیہ 4257 صفحہ 1451 سے متفق نہیں ہیں۔ قرآن میں نہ اسکی تصدیق ہے اور نہ ہی اسکا منع کیا گیا ہے۔ موطاامام مالک 77۔73۔19۔2 میں اس کا نتیجہ نکالا گیا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کیا جائے۔
عورتوں کے ختنہ کے سلسلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، بعض فقہاء نے اسے سنت کہا ، لیکن دوسرے فقہاء کی رائے یہ ہے کہ عورتوں کے لیے ختنہ سنت نہیں بلکہ مباح ہے، اور یہی راجح ہے، ”وختان المرأة لیس سنة بل مکرمة للرجال“ (الدر المختار مع رد المحتار:ھ ۱۰/ ۴۸۱، زکریا) جو لوگ اس کی سنیت کے قائل ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ختنہ عورتوں کے حق میں اس طرح مسنون نہیں جیسا کہ مردوں کے حق میں ہے، نیز حدیث میں عورتوں کے ختنہ کو محض مکرمہ کہا گیا ہے جب کہ مردوں کے لیے سنت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: ”الختان سنة للرجال ومکرمة للنساء“ رواہ أحمد (بحوالہ مرقاة: ۸/۲۸۹) اس طرح عورتوں کے ختنہ کے سلسلہ میں جتنی روایتیں ہیں سب ضعیف ہیں، قابل استدلال نہیں ہیں، لہٰذا راجح یہی ہے کہ عورتوں کے لیے ختنہ مسنون نہیں۔لہذا عورت کا ختنہ کرنا لازمی نہیں ہے۔
اعلم أن الأحادیث التي رویت في ختان النساء بطرق مختلفة کلہا ضعیفة لا یحتج بہا (حاشیة ابوداوٴد بحوالہ بذل)
http://forum.mohaddis.com/threads/اسلام-میں-لڑکی-کے-ختنہ-کا-کیا-حکم-ہے؟.16749/
علماء نے وجوب ختنہ کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ اس سے ہلاکت یا بیماری کا اندیشہ نہ ہو اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو پھر ختنہ واجب نہیں ہے کیونکہ واجبات عجز، یا خوف ہلاکت یا نقصان کی صورت میں واجب نہیں رہتے۔
عورتوں کے ختنہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، جن میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ صرف مردوں کے لیے واجب ہے۔ عورتوں کے لیے نہیں اور اس کے بارے میں ایک ضعیف حدیث ہے:
«اَلْخِتَانُ سُنَّة فی حقٌ الرِّجَالِ،و مَکْرُمَة فی حقٌ لِلنِّسَاءِ»مسند احمد: ۵/۷۵۔
’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے حق میں اعزاز واکرام ہے۔‘‘
اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس باب میں فیصلہ کن ہوتی (لیکن ایسا نہیں ہے اور اس طرح نسوانی ختنہ لازمی نہیں ہے)۔
وباللہ التوفیق
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1042/192/
صومالی خواتین بعض رسم ورواج کی بنیاد پر کچھ چیزوں سے پریشان ہیں، جن میں سے ایک فرعونی ختنہ ہے، جسمیں ختنہ کرنے والی مکمل طور پر شرمگاہ کے چھوٹے کناروں کے ایک جزء اور بڑے کناروں کے اکثرحصوں کو کاٹ دیتی ہے، اس کا مطلب عورت کے عضوتناسل کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے جس کی وجہ سے شرمگاہ مکمل طور پر برباد ہوجاتی ہے، اسکے بعد پورے سوراخ کی سلائی کردی جاتی ہے، جسے "رتق" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو عورت کے لئے شب زفاف اور ولادت کے وقت بہت زیادہ پریشانیوں کا سبب بنتی ہے، بسا اوقات اس کی وجہ سے آپریشن کرانا پڑتا ہے، نیز یہ عمل جنسی خواہش کو بھی ختم کردیتا ہے، اور بہت سے طبی جانچ کا سبب بنتا ہے ، کہ جس میں عورت اپنی جان ، اپنی صحت یا پھرپیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔
ج: ختنہ کی یہ صورت بالکل جائز نہیں ہے، اس نقصان کی وجہ سے جو عورت کو پہنچتا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (لا ضرر ولا ضرار) نہ نقصان دو اور نہ ہی نقصان اٹھاؤ
http://www.alifta.com/fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=11475
ملحدین کہتے ھیں کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود اسلامی دنیا میں اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی گئی ہے اور اٹھائی جا رہی ہے۔اگر یہ واضح اسلامی حکم ہوتا تو کبھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی جاتی۔1920 کی دہائی میں مصر کی ڈاکٹرز سوسائٹی نے اس رسم پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کیا۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ڈائرکٹر اور سرجن ڈاکٹر ابراہیم پاشا نے 1928ء میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔ 1951ء میں مصر کے طبی جریدے 'الدکتور' میں اس عمل کی پرزور مخالفت کی گئی۔ 1957ء میں خواتین کے میگزین 'حوا' نے بھی اس رسم کے خلاف مہم چلائی۔ 1958ء میں مصر میں اس عمل پر مصری طبی سہولیات کے اداروں میں پابندی عاید کر دی گئی۔ البتہ نجی طبی اداروں نے نسوانی ختنے کرنا جاری رکھا، تا وقتیکہ 2007ء میں ایک 12 سالہ بچی کی ختنے کے دوران موت ہو جانے کے واقعے پر انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید بیچینی کی لہر دیکھنے میں آئی اور 2008ء میں اس عمل کو مصر میں مکمل طور پر غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ قاہرہ کی قدیم یونیورسٹی جامعۃ الازہر نے ایک فتوے میں اسے خلاف اسلام قرار دیا گیا۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/نسوانی_ختنہ
مصر میں یہ روایت مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں ہی میں عام تھی اس کے علاوہ افریقی ممالک میں بھی اس کا رواج ہے ۔اب کیا عیسائیوں کو بھی اسلام نے کہا کہ لڑکی کا ختنہ کریں؟ عرب ممالک میں ایسے واقعات شاذو نادر ہی ملتے ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/06/070628_egypt_circumcision_nj.shtml
اس کی تاریخ اسلام سے بھی پہلے کی ہے۔
یہ بہت سے ایسے ممالک میں بھی ہے جن کی اکثریت غیر مسلم ہے
اگر اسلام کی وجہ سے ہے تو پوری اسلامی دنیا میں کیوں نہیں
جب روایات ہی ضعیف ہیں تو الزام کہاں ثابت
دنیا کی کونسی عدالت مشکوک گواہ پر مجرم کہتی ہے
ڈاکٹر نکولاؤس وان ڈیم نے جکارتہ میں قائم قرآن خوانی انسٹی ٹیوٹ میں عالمی سیاست، رجحانات اور اسلام کا کردار، مسلم سکالرز کی علمی ذمہ داری کے موضوع پر ایک لیکچر دیا جس کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے۔
صرف یہ وضاحت کر دینا کافی نہیں ہے کہ اسلام درحقیقت کیا ہے بلکہ یہ تفریق کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ کون سی باتوں کا اسلام سے تعلق ہے اور کون سی غلط طور پر اس سے منسوب کی گئی ہیں۔
اسلام اور مسلم عقیدے پر عمل کرنیوالوں کے افعال کے درمیان کیا تعلق ہے؟ میری رائے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا بطور مذہب اسلام کے ساتھ بہت کم واسطہ ہے لیکن بہرحال انہیں اس سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کا ان چیزوں سے تعلق ہے وہ اتفاق سے مسلمان ہیں۔
اسوقت پائی جانیوالی غلط فہمیوں کے پیدا ہونے میں ان تمام عوامل کا ہاتھ ہے۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا تعلق غلط تصورات سے ہے علمی حقیقت سے نہیں۔ اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ تصورات اسوقت حقائق بن جاتے ہیں جب لوگ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ انکے تصورات درست ہیں۔
اسلام جب جزیرہ نما عرب سے باہر پھیلا تو اس نے ایکطرح سے خود کو ان علاقوں کے مطابق ڈھال لیا یعنی ایسی عادات اور روایات جو اسلام سے متصادم نہی تھیں انہیں نہ صرف قبول کر لیا بلکہ بعدازاں مقامی باشندون نے بعض روایات کو بسا اوقات اسلام کا جزو نہیں تو کم ازکم اسلام کے عین مطابق ضرور قرار دیدیا۔
بہت سے نو مسلم اپنی سابقہ روایات کے بعض حصوں پر کاربند رہے اور پھر بتدریج کہنے لگے کہ یہ روایات درحقیقت اسلام کا جزو ہیں۔
بہت سی جگہوں پر لوگ مقامی عادات یا روایات کی اسلام کے جزو کے طور پر تشریح کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
اسطرح کی دیگر مثالوں میں نسوانی ختنہ جو افریقہ میں سب سے زیادہ عام ہے اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔اس طرح انہوں نے خود اعتراف کیا کہ افریقہ میں اس رسم کو اسلام سے کوئ تعلق نہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اسلام-کیا-ہے؟.61131/
2010ء میں پیو ریسرچ سینٹر کے تحت ہونے والی تحقیق جو 2011ء میں شائع ہوئی ، کے مطابق دنیا بھر میں 1.62 بلین مسلمان آباد ہیں۔اگر نسوانی ختنہ اتنا ہی اہم حکم ہے تو دنیا میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ختنہ کیوں نہیں کرتی
2005ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جمہوریہ گنی کی 85 فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے ملک میں 78 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ لیکن نسوانی ختنہ 97% یعنی کرنے والے غیر مسلم بھی شامل ہیں
جبوتی کی 94 فیصد آبادی مسلمان ہے جبوتی میں 490،000 مسلمان آباد ہیں زیادہ تر مسلمان شافعی ہیں۔سیرا لیون میں 5۔71% مسلمان ہیں لیکن نسوانی ختنہ کی شرح 90% ہے یعنی اس میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ان کو کس نے کہا کہ ختنہ کرو۔ پاکستان میں کافر ختنہ کیوں نہیں کرتے مرد کا جب کہ وہاں عورت کا ہورہا ہے اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے۔ملاوی میں 8۔12% مسلمان ہیں لیکن نسوانی ختنہ کی شرح 89% فیصد ہے۔کیا وہاں کے غیر مسلم بھی اسلام کی وجہ سے کرتے ہیں جب کہ وہاں مسلمان صرف بارہ فیصد ہیں۔اریٹریا میں مسلمان صرف 48% فیصد ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح 83% فیصد ہے۔برکینا فاسو کی 60% آبادی مسلمان ہے لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 76% ہے۔اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے تو پھر وہاں کے غیر مسلم کیوں کرتے ہیں۔ایتھوپیا میں صرف 34% مسلمان ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح 74% ہے
لائیبیریا میں صرف 12% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 66% ہے۔اگر یہ محض اسلام کی وجہ سے ہے تو غیر مسلم ممالک میں بھی کیوں عام ہے۔کینیا میں صرف 10% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 27% ہے۔سینیگال میں 95% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 26% ہے۔اگر یہ اتنا ہی اہم حکم تھا شریعت کا تو کیوں اتنی زیادہ آبادی والے ملک میں اس کی شرح اتنی کم ہے؟سنٹرل افریقن ریپبلک میں صرف 15% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح مسلم آبادی سے بھی زیادہ یعنی کہ 24% ہے۔
یمن میں مسلمان 99% ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح وہاں صرف 19% ہے۔عراق میں 98% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 8% ہے،نائیجر میں 98% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 2%ہے،اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے تو پھر بھی اکثر مسلم ممالک میں اس کی شرح کم ہے جب کہ یہ کئ ان ممالک میں بھی موجود ہے جہاں مسلمان بہت کم ہیں۔لہذا اس کا تعلق اسلام سے جوڑنا ایک جہالت ہے
اور اگر اس نسوانی ختنے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آج سے دوہزار سال پہلے بھی کیا جاتا تھا۔قدیم مصر میں یہ اشرافیہ حیثیت کی علامت کے طور پر کرایا جاتا تھا جہاں سے یہ باقی افریقہ اور دنیا میں پھیل گیا۔ قدیم عرب میں یہ سیاہ فام غلاموں کی وجہ سے متعارف ہوا۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ یہ افریقہ میں بلوغت کی ایک رسم کے طور پر الگ سے شروع ہوئ۔یہ قدیم یونان و روس میں بھی موجود تھی۔کینیا اور سیرا لیون میں یہ نسوانیت کی علامت کے طور پر کی جاتی ہے،سوڈان،مصر اور صومالیہ میں یہ لڑکی کے کنوارے پن کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے اور اکثر افریقی ممالک میں یہ شادی سے پہلے لازمی سمجھی جاتی ہے ورنہ شادی نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ یہ ختنہ امریکا اور برطانیہ میں بھی خواتین کی نام نہاد کمزوری کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اگر زنانہ ختنے کی ان ساری وجوہات کا جائزہ لیں تو ہمیں مذہبی سے زیادہ ثقافتی وجوہات نظر آتی ہیں۔اوپر بیان کردہ نسوانی ختنے کی وجوہات میں سے کوئ بھی وجہ اسلام نے نہیں تلقین کی۔پھر اس سارے معاملے کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔اور خود ماہرین تاریخ و آبادیات یا ڈیمو گرافی کہتے ہیں کہ نسوانی ختنے کی وجوہات کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ مختلف علاقوں اور ثقافتوں میں مخلتف رسوم و رواج کے طور پر رائج ہے۔یہ پڑھیں
The practice is supported by traditional beliefs, values and attitudes. In some communities it is valued as a rite of passage to womanhood. (for example in Kenya and Sierra Leone) Others value it as a means of preserving a girl’s virginity until marriage, (for example in Sudan, Egypt, and Somalia) In most of these countries FGM is a pre-requisite to marriage and marriage is vital to a woman’s social and economic survival. It is believed by some African women that if their daughters are not circumcised would not get husband. This (FGM) harmful tradition has been guided by taboos from generation by generation.
FGM is rooted in culture and some believe it is done for religious reasons, but it has not been confined to a particular culture or religion. FGM has neither been mentioned in the Quran nor Sunnah
http://www.fgmnationalgroup.org/historical_and_cultural.htm
یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے اور تاریخ بھی بتا رہی ہے کہ اس کا تعلق کسی خاص مذہب کی بجائے مخلتف علاقوں کی مخلتف روایات سے ہے اور اس بارے میں بیان کردہ احادیث بھی ضعیف ہیں تو اس سارے معاملے کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرانا کہاں درست ہے لیکن ملحدین کی عادت ہے کہ اسلام میں کیڑے ڈھونڈتے ہیں جو کہ صرف ملحدین کے دماغ میں مل سکتے ہیں۔
لہذا اگر آج کہیں بھی یہ عمل انجام دیا جاتا ہے تو یہ قدیم روایت ہے جو ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے یا ایک قبائلی رسم ہے جیسا کہ افریقہ میں ہے جو کہ اسلام کے طرز زندگی اور اللٰہ تعالٰی کے قانون کے خلاف ہے۔
اگر یہ عمل کچھ مفقہین کی طرف سے جائز بھی مان لیا جائے تو یہ محض بظر یا clitorus اور بظر کی چادر یعنی Clitoral hood کے کاٹنے تک محدود ہے جو کہ ایک فرض نہیں کہ جس کا چھوڑنا حرام ہو بلکہ کسی خدشے یا نقصان کے خطرے کے پیش نظر اسے چھوڑا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت اس عمل کو نہیں کرتی بلکہ ناپسندیدہ قرار دیتی ہے کیونکہ اس کی حمایت میں کوئ ایک بھی واضح اور صحیح حدیث نہیں ہے اور جن مفقہین نے اسے جائز قرار دیا ہے انہوں نے خود ضعیف احادیث سے استدلال کیا ہے جس پر عمل لازمی نہیں ہے اور عوام کو اس بارے میں صحیح علم رکھنے کی ضرورت ہے۔کوئ اپنی کم علمی کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرائے تو یہ اس کی کوتاہی ہے اسلام کی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے کئ مسلم علماء اس کے خلاف فتوی دے چکے ہیں۔مسلم علماء کی عالمی یونین کے سربراہ ڈاکٹر محمد اسلم کے بقول نہ یہ سنت ہے اور نہ ہی وجہ تکریم۔
اس کے علاوہ
مزید برآں یہ رسم اسلام سے کئ ہزار سال پہلے سے افریقہ،عرب اور مشرق وسطی میں چلی آرہی ہے۔پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ رسم اسلام نے شروع کی۔اگر یہ محض اسلام کی وجہ سے ہے تو یہ غیر مسلم لوگوں میں بھی کیوں فروغ پذیر ہے جو اسے بڑی خوشی سے اپنائے ہوئے ہیں۔شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن ابن حسن النفسیہ لکھتے ہیں
"اس بات کی کوئ گواہی نہیں ہے کہ یہ رسم سلف صالحین میں وسیع پیمانے پر موجود تھی۔مزید برآں یہ مکہ و مدینہ منورہ جیسے ان شہروں میں کبھی فروغ پذیر نہیں ہوئ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔اگر یہ اسلام کا اتنا اہم جزو تھا تو یہ لازمی سلف صالحین اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے اسلام کے گڑھ دو شہروں میں فروغ ہوتی جب کہ ایسا نہیں ہے۔ان شہروں میں صرف مرد کا ختنہ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سنت کے حوالے سے اس کی مستند گواہی موجود ہے۔"
اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نسوانی ختنے کی یہ رسم محض ایک ثقافتی رسم ہے جس کی اسلام میں واضح اور فیصلہ کن کوئ دلیل نہیں ہے۔اسلام افرادکی صحت کو یقینی بناتا ہے۔اگر کسی وجہ سے کسی بھی فرد کی صحت خطرے میں پڑتی ہے تو اس عمل کو چھوڑنے کی اجازت ہے یہاں تک کہ روزہ اور حج جیسے فرائض میں بھی کفارے کے ساتھ رعایت دی گئی ہے۔
یہی بات مسلمان علماء کرتے ہیں۔2010 ء میں ماریطانیہ میں چونتیس علماء نے نسوانی ختنے کے خلاف فتوی دیا۔کئ دیگر اہم علماء جیسا کہ ابن عابدین(وفات 1836ء)،یوسف القرداوی(وفات 1926ء)،ڈاکٹر علی جمعہ(وفات 2013ء) اور ڈاکٹر محمد سید الطنطاوی اس کے خلاف فتوی دے چکے ہیں۔جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں وہ دو جرم کرتے ہیں۔ایک اسلام کو بگاڑنے کا اور دوسرا عوام کو دبانے کا۔
http://bigurdu.com/244Sent from myMail for Android
اس طرح اس سارے تجزیے کے بعد دانیال تیموری کا یہ اعتراض کہ اسلام نے نسوانی ختنے کو فروغ دے کر خواتین کی جنسی پامالی کو فروغ دیا،جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب
مکمل تحریر >>
دانیال تیموری کو جواب
(تدوین و ترتیب۔۔ڈاکٹر احید حسن)
******************************
عورت کی شرم گاہ کا وہ حصہ جسے انگریزی میں clitoris اور اردو میں ’ہیچا‘یا’چوچولہ ‘ کہتے ہیں،اس کو مکمل طور پر کاٹ دینایا اس کے ایک حصے کو کاٹنا عورت کا ختنہ کہلاتا ہے ۔ یہ زنانہ اعضائے جنسی کا وہ حساس ترین تن جانے والا چھوٹا سا دانہ ہے جو شرم گاہ کے اوپری سرے پر ہوتا ہے۔عورت کو جنسی لطف اسی کی حساسیت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اسلام میں صرف اور صرف مرد کا ختنہ سنت ہے ، یہ نبیوں کی سنت اور لازمی عمل ہے.
بعض افریقہ ممالک مثلاً مصر ، مراکش، چاڈ، صومالیہ وغیرہ میں یہ خوفناک رسم تھی اور بعض جگہ اب بھی ہے ۔ اس کے تحت چھوٹی عمر کی بچیوں کو اس انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزارا جاتا جس میں ان کی موت بھی واقع ہو جاتی تھی۔ اور اس ختنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ عورت جنسی خواہش محسوس نہ کرے تاکہ قبیلے کی عزت محفوظ رہے.
نسوانی ختنہ (انگریزی: FGMیا Female Genital Mutilation، عربی:ختان الإناث) سے مر اد خواتین کے جنسی اعضاء کے بیرونی حصے کو قطع کرنے کا عمل ہے۔ یہ صحارا اور شمال مشرقی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سمیت 27 ممالک اور یہاں سے تعلق رکھنے والے مختلف نسلی گروہوں کے ہاں عمل میں لایا جاتا ہے۔
اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں اس عمل سے گزرنے والی خواتین کی تعداد 70 کروڑ ہے۔افریقا اور مشرق وسطیٰ میں ساڑھے 12 کروڑ خواتین ختنہ شدہ ہیں۔جبکہ80 لاکھ خواتین ایسی ہیں جو قسم سوم کے نسوانی ختنہ کا شکار ہوئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق جبوتی، اریٹریا، حبشہ، صومالیہ اور سوڈان سے ہے۔ افریقہ سے باہر یمن میں اس کا پھیلاو 23 فیصد ہے، جبکہ عراقی کردوں میں اس عمل کی مقبولیت کی وجہ سے عراق میں اس کا پھیلاو آٹھ فیصد ہے۔ نسوانی ختنے کے واقعات بھارت، اسرائیل کے بدوی علاقوں، متحدہ عرب امارات اور نسبتاً کم وقوع کے ساتھ کولمبیا، اومان، پیرو اور سری لنکا میں بھی درج کیے گئے ہیں۔ اردن اور سعودی عرب میں اس عمل کے کیے جانے کے شواہد موجود ہیں، تاہم ان ممالک سے نمائندہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپ اور سکینڈے نیویا، امریکہ اور کینیڈا کے تارک وطن گروہوں میں بھی نسوانی ختنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اس عمل کی درجہ بندی قسم اول، دوم، سوم کے نام سے کی ہے، جبکہ قسم چہارم علامتی ختنہ ہے، اور اس کا طریق کار نسوانی ختنے کے طے شدہ طریق کار سے تعلق نہیں رکھتا۔ یونیسیف نے اس عمل کو چار زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ (الف) جلد کو کاٹ کر الگ کیے بغیر،چرکا لگانا، چبھونا، علامتی ختنہ (ب) کاٹنا، جلد کا کچھ حصہ الگ کرنا (ج) فرج کو سی دینا، بند کر دینا یا فرعونی ختنہ، اور (د) متفرق، طے شدہ طریقوں کے علاوہ طریقے۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/نسوانی_ختنہ
ملحدین کا کہنا ہے کہ اسلام نے اس رسم کو دنیا میں فروغ دیااور وہ اس سارے عمل کا ذمہ دار ہے۔اب ہم اس رسم کا علمی و تاریخی تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا یہ اعتراض ٹھیک ہے یا غلط۔اس بارے میں پیش کی جانے والی احادیث کا بیان اور تجزیہ درج ذیل ہے
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ [الدِّمَشْقِيُّ] وَعَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ الأَشْجَعِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ، قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ: الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَخْتِنُ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ ﷺ : < لاتُنْهِكِي؛ فَإِنَّ ذَلِكَ أَحْظَى لِلْمَرْأَةِ وَأَحَبُّ إِلَى الْبَعْلِ>.
قَالَ أَبو دَاود: رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بِمَعْنَاهُ وَإِسْنَادِهِ.
قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ [وَقَدْ رُوِيَ مُرْسَلا.
قَالَ أَبو دَاود: وَمُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ مَجْهُولٌ، وَهَذَا الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ]
سلیمان بن عبدالرحمٰن دمشقی، عبدالوہاب بن عبدالرحیم اشجعی، مروان، محمد بن حسان، عبد وہاب کوفی، عبدالملک بن عمیر، حضرت ام عطیہ الانصاریہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک عورت ختنہ کیا کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جھکا کر ختنہ نہ کیا کرو کیونکہ اس طرح میں ختنہ کرنے میں عورتوں کرمزہ زیادہ آتا ہے اور شوہر کو اچھا لگتا ہے.
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1859 حدیث مرفوع مکررات 1
تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد سے تقویت پا کریہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں '' محمد بن حسان'' مجہول راوی ہیں)
http://www.hadithurdu.com/09/9-4-391/
مشکوۃ میں یہ حدیث اس طرح سے آئ ہے۔
وعن أم عطية الأنصارية أن امرأة كانت تختن بالمدينة . فقال له النبي صلى الله عليه وسلم لا تنهكي فإن ذلك أحظى للمرأة وأحب إلى البعل . رواه أبو داود وقال هذا الحديث ضعيف وراويه مجهول .
اور حضرت ام عطیہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ مدینہ میں ایک عورت تھی جو (عورتوں کی عٹ) ختنہ کیا کرتی تھی (جیسا کہ اس زمانہ میں عورتوں کی ختنہ کا بھی رواج تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن ) اس عورت سے فرمایا کہ " ٹنہ کو " زیادہ مت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑا سا اوپر سے کاٹ دیا کرو ) کیونکہ یہ (یعنی زیادہ نہ کاٹنا ) عورت کے لئے بھی بہت لذت بخش ہوتا ہے اور مرد کو بھی بہت پسندید ہوتا ہے (یعنی اگر اس کو زیادہ کاٹ دیا جائے تو جماع میں نہ عورت کو لذت ملتی ہے اور نہ مرد کو ) ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کے راوی مجہول ہیں ۔"
جلد چہارم لباس کا بیان مشکوۃ شریف
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ لباس کا بیان ۔ حدیث 391
عورت کی ختنہ کا ذکر
وراویہ مجہول (اور اس کے راوی مجہول ہیں ) میں جس طرح یہ احتمال ہے کہ یہاں جنس راوی مراد ہے یعنی اس حدیث کے سب راوی مجہول ہیں، اسی طرح یہ بھی احتمال ہے کہ اس جملہ سے اصل میں یہ مراد ہے کہ کوئی ایک راوی مجہول ہے جیسا کہ ایک دوسرے صحیح نسخے میں منقول ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے وفی روایۃ مجہول بہرحال اس روایت کو طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ اور حاکم نے اپنی مستدرک میں ضحاک ابن قیس سے نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں احفضنی ولاتنہکی فانہ انضر للزوجۃ واحظی عند الزوج ۔
لڑکیوں کے ختنے کے بارے میں اسلام میں کوئ بھی صحیح حدیث،نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسلام پر اعتراض کیا جائے۔اس بارے میں سب سے مشہور حدیث ام عطیہ کی ہے۔اب ہم اس حدیث کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔اس حدیث کے بارے میں عراقی نے المغنی عن الاسفار میں کیا ہے کہ
"ام عطیہ کی حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اور ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے اور یہ دونوں رعایتیں ضعیف ہیں"۔حوالہ المغنی عن الاسفار 148/1
2۔ابو داؤد میں یہ حدیث موجود ہے اور ابو داؤد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مفہوم کی روایت عبید اللہ بن عمرو بن عبدالملک نے بھی روایت کی ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
3۔ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل بھی آئ ہے اور مرسل روایات میں ایک تابعی صحابی کا نام لیے بغیر حدیث روایت کرتا ہے اور اس طرح حدیث ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔
4۔ابو داؤد نے کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی محمد بن حسان مجہول ہے اور یہ حدیث،ضعیف ہے۔نمبر 2،3،4 کا حوالہ سنن ابی داؤد 497/4
5۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابی داؤد نے اس حدیث کو صرف اس کے ضعیف ہونے کے بیان کے لیے پیش کیا ہے اور خود ہی بتا دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی روایت میں ایک راوی محمد بن حسان ہے جس کو ابی داؤد نے مجہول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
7۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ابن عدی 2223/6 اور بیہقی 324/8 نے اس روایت کو مجہول قرار دیا ہے۔یعنی ضعیف اور ناقابل اعتبار۔
8۔عبدالغنی بن سعید نے کہا ہے کہ اس روایت میں محمد بن سعید بن حسان بن قیس اسدی شافعی مصلوب ہے۔یعنی کبھی اسے اس کے دادے کی جانب منسوب کیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے اس کو چھپانے کے لیے اس کے نام کو سو طرح بدلا ہے اور علماء نے اس راوی کو جھوٹا کیا ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
9۔احمد بن صالح کہتے ہیں کہ محمد بن حسان نے چار ہزار حدیثیں خود سے گھڑی تھی۔یہی وجہ ہے کہ علماء اس کی حدیث قبول نہیں کرتے اور اس روایت میں اس کی موجودگی حدیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار بنا رہی ہے۔
10۔احمد کہتے ہیں کہ منصور نے اسے یعنی محمد بن حسان کو بے دین ہونے کی وجہ سے سولی دی۔اس طرح اس راوی کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
11۔،حاکم 525/3 نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں بھی ایک راوی عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے۔اس طرح یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
12۔اسے بیہقی نے 324/8 میں عبید اللہ بن عمر کی سند سے روایت کیا ہے کہ مجھے کوفہ کے ایک آدمی نے بتایا اور آگے اس کی سند بیان کی۔اب کوفہ کے کس آدمی نے بتایا۔وہ نامعلوم ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
13۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ اس روایت میں عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔عبدالملک بن عمیر ایک متنازعہ راوی ہے جو بعض کے نزدیک ثقہ یعنی قابل اعتبار اور بعض کے نزدیک ناقابل اعتبار ہے۔اس کی متنازعہ حیثیت کی وجہ سے یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں درج ذیل مشہور محدثین کے اقوال پڑھیں
قال أبو حاتم: ليس بحافظ تغيّر حفظه.
قال أحمد: ضعيف يغلط.
قال ابن معين: يخاط.
قال البخاري عن علي ابن المديني: له نحو مائتي حديث.
ذكره ابن حبان في الثقات وفال: ولد لثلاث سنين بقين من خلافة عثمان. وماتسنة ثلاث وستين ومائة وله يومئذ مائة وثلاث سنين وكان مدلساً، وكذا ذكر مولده ووفاته ابن سعد.
اس میں ابو حاتم،احمد،ابن المعین،بخاری اور ابن حبان جیسے مشہور محدثین نے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
https://ar.m.wikipedia.org/wiki/عبد_الملك_بن_عمير
14۔اسے طبرانی نے الصغیر 93/1 نمبر 122 پر روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں ابن عدی نے 1083/3 میں کہا ہے کہ یہ روایت زائد ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
15۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو میزان 65/2 میں ضعیف قرار دیا گیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
16۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو بخاری نے منکر حدیث قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
17۔اس طرح کی ایک روایت بزار نے نقل کی ہے اور اس میں ایک راوی مندل بن علی ضعیف ہے۔
18۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ختنے کے بارے میں کوئ قابل اعتبار حدیث نہیں ہے اور نہ ہی یہ سنت کے طور پر قابل اتباع ہے۔
اس ساری بحث سے واضح ہوا کہ ایک نہیں کئ محدثین اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان کے مجموعی بیان نے اس روایت کے ضعیف ہونے کو بڑھا دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔لہذا ایک ضعیف حدیث کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر دانیال تیموری کا اعتراض بالکل غلط ہے۔
اس طرح ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے ایک فضیلت ہے۔اب اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں
1۔اس کے بارے میں عراقی نے کہا ہے کہ یہ چار صحابہ کی طرف منسوب ہے۔ اسے بیہقی اور احمد نے ضعیف سند سے روایت کیا ہےاور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔حوالہ المغنی عن حمل الاسفار 148/1
2۔مسند 75/5 میں یہ حدیث بیان کی گئ ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ مدلس ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔وہ قاضی تھا لیکن مغرور تھا اور اس کی غیر شرعی روش کی وجہ سے اس کی بیان کردہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔
3۔بیہقی نے 324/8 میں کہا ہے کہ اس روایت میں موجود الحجاج ناقابل اعتبار ہے۔بیہقی نے اس روایت کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
4۔ابن ابی شیبہ نے مصنف 8/9 نمبر 6519 میں یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج مدلس ہے اور ایک مجہول راوی کی وجہ سے یہ حدیث منقطع اور ناقابل اعتبار ہے۔
5۔طبرانی نے اسے الکبیر 273/7 میں دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں حجاج موجود ہے اور یہ سند ضعیف ہے ۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث ولید بن ولید سے روایت کی ہے اور ولید بن ولید ایک متنازعہ راوی ہے۔
7۔دار قطنی اور طبرانی نے یہ حدیث ابن عباس پر موقوف سند کے ساتھ سعید بن بشیر سے روایت کی ہے اور سعید بن بشیر ضعیف ہے۔
8۔الکبیر 359/11 میں یہ روایت عبدالغفور کی سند کے ساتھ ہے جس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
روایت «الخِتَانُ سُنَّةٌ لِلرِّجَالِ ، وَمَکْرُمَةٌ لِلنِّسَاءِ» ''ختنہ سنت ہے واسطے مردوں کے اور کریمانہ فعل ہے واسطے عورتوں کے'' کی بعض اسانید کوامام سیوطی نے حسن قرار دیا ہے مگر اکثر اہل علم اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں حتی کہ محدث وقت شیخ البانی حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ضعیف جامع صغیر اور سلسلہ ضعیفہ ہی میں ذکر فرمایا ہے۔
اس طرح یہ حدیث اس ساری بحث کے بعد ناقابل اعتبار ہورہی ہے اور محض اس وجہ سے ملحدین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض غلط ہے۔
بخارى اور مسلم كى ایک حديث ميں ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، زيرناف بال صاف كرنا، مونچھيں كاٹنا، ناخن تراشنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).
بخاری کی جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ جس میں ختنہ سمیت پانچ چیزوں کو فطرت قرار دیا گیا ہے،اس حدیث سے بھی کسی طرح نسوانی ختنے کا جواز نہیں نکلتا کیوں کہ اس میں کسی بھی جنس کو خاص نہیں کیا گیا اور دوسری طرف اس کے حق میں پیش کردہ احادیث بھی ضعیف ہیں۔لہذا اسلام میں کسی طرح بھی نسوانی ختنے کا جواز ثابت نہیں ہے۔
صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب وہ چار شاخوں كے درميان بيٹھے اور ختنہ ختنہ سے چھو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).
اور ترمذى وغيرہ كى روايت ميں ہے كہ:
" جب دونوں ختنے مل جائيں .. "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 109 ).
اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس تثنيہ سے مراد مرد اور عورت كا ختنہ ہے.
اور عورت كا ختنہ اس طرح ہو گا كہ پيشاب خارج ہونے والى جگہ پر مرغ كى كلغى جيسى چمڑى كا كچھ حصہ كاٹا جائے، سنت يہ ہے كہ وہ سارى كلغى نہ كاٹى جائے بلكہ اس كا كچھ حصہ كاٹا جائے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 28 ).
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی صحیح اور مرفوع روایت میں یہ بیان مروی ہے کہ جب دو ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوتا ہے۔اس حدیث کو بیان کر کے دانیال تیموری نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرح سے اشارے میں عورت کے ختنے کا حکم دے رہے ہیں۔یہ محض ایک قیاس ہے۔اس سے لازمی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ختنے کا لفظ استعمال کر کے عورت کے ختنے کی ترغیب دی۔دیکھئے صحیح مسلم طبع استنبول 187/1،ابن ماجہ نمبر 608،صحیح ترمذی،البانی 95/1،لفظ ختانان میں جیسا کہ کچھ لوگوں نے کہا ہے۔مادہ کا ختنہ کرانے کی کوئ دلیل نہیں پائ جاتی کیونکہ یہ بطور تغلیب آیا ہے جیسا کہ عربی میں ماں اور باپ کو ابوان،سورج اور چاند کو قمران،اور صفا و مروہ کو مروتان کہ دیتے ہیں لیکن اس سے یہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا کہ ابوان کہنے سے والدہ ابا یعنی والد بن جاتی ہے یا قمران کہنے سے سورج چاند کہلاتا ہے۔یہ محض سماعی یعنی کہے اور سنے جانے والے کلمات ہیں جن سے کوئ قیاس نہیں کیا جاسکتا(دیکھئے جامع الدروس العربیہ 9/2)۔اس طرح بخاری و مسلم کی اس روایت میں بھی دو ختان یعنی دو ختنوں کا لفظ ایک سماعی لفظ کے طور پر آیا جس سے بعض علماء جیسا کہ کچھ شافعی علماء نے عورت کے ختنے کا جائز ہونا مراد لیا لیکن کسی بھی صحیح حدیث میں یہ حکم نہیں ہے کہ عورت کا ختنہ کیا جائے۔اس بارے میں کچھ شافعی فقہا کی عورت کے ختنے کے جواز کی رائے ایک قیاس پر مبنی ہے جس کا الزام نہ اسلام کو دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
صحیح بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ ۲/۵۸۳ میں ہے غزوئہ احد میں جب قتال کے لیے لوگ صف بستہ ہو گئے تو سباع نامی کافر نے نکل کر للکارا :
«هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ قَالَ : فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ، فَقَالَ : يَا سِبَاعُ يَا ابْنَ أُمِّ أَنْمَارٍ مُقَطِّعَةِ الْبُظُوْرِ أَتُحَادُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ ۔ قَالَ : ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاهِبِ»
''کیا کوئی ہے جو مجھ سے لڑے یہ سنتے ہی حمزہ بن عبدالمطلب اس کے مقابلہ کے لیے نکلے اور کہنے لگے ارے سباع ارے ام انمار (حجامنی) کے بیٹے تیری ماں تو عورتوں کے ٹنے تراشا کرتی تھی کمبخت نائن تھی اور تو اللہ ورسول سے مقابلہ کرتا ہے یہ کہہ کر حمزہ نے اس پر حملہ کیا اور جیسے کل کا دن گزر جاتا ہے اس طرح صفحہ ہستی سے اس کو نابود کر دیا'' اس سے ثابت ہوتا ہے نزول شریعت کے زمانہ میں عربوں میں عورت کا ختنہ کیا جاتا تھا۔
حضرت مسلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی بخاری شریف کی حدیث میں وارد ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان جنگ میں ایک کافر کو خواتین کا ختنہ کرنے والی عورت کا بیٹا کہ کر اس پر طنز کیا اور اسے میدان جنگ میں للکارا۔اگر یہ عمل اسلام میں جائز ہوتا تو کبھی بھی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اس کافر کو اس عمل کا طعنہ نہ دیتے۔
حسن سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ عثما ن بن ابی العا ص کو کھانے کی دعوت دی گئی ’ انہیں کہا گیا آ پ جانتے ہیں یہ کیا ہے ؟ یہ لڑکی کا ختنہ ہے انہوں نے کہا : یہ ختنہ ( ختنے کی دعوت ) ایسی چیز ہے جو ہم نے نبیﷺ کے زما نے میں نہیں دیکھی اور کھانے سے انکا ر کر دیا ہے ۔
طبرانی کبیر ( 3؍ 12) احمد ( 4؍ 217 ) ہیثمی نے المجمع ( 4؍60 ) میں ذکر کیا – سند اچھی ہےدیکھیں الصیحہ ( 2؍ 457)
اس کا مطلب یہ ہے کہ نسوانی ختنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہیں ہوتا تھا۔
دانیال تیموری کہتا ہے کہ شافعی مسلک میں خواتین کا ختنہ واجب ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کے مطابق شافعیہ کے نزدیک یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ الروضہ 180/10)
اکثر علماء اور کچھ شافعیہ کے مطابق بھی یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ فتح الباری 340/10)۔
اور اكثر اہل علم يہ كہتے ہيں كہ عورتوں كے ليے ختنہ كرنا واجب نہيں، بلكہ يہ سنت اور ان كے ليے تكريم كا باعث ہے.
لڑکیوں کی ختنہ کے متعلق۔ مسلمان شرعی ماہرین ابوداود والیم 3 حاشیہ 4257 صفحہ 1451 سے متفق نہیں ہیں۔ قرآن میں نہ اسکی تصدیق ہے اور نہ ہی اسکا منع کیا گیا ہے۔ موطاامام مالک 77۔73۔19۔2 میں اس کا نتیجہ نکالا گیا ہے کہ عورتوں کا ختنہ کیا جائے۔
عورتوں کے ختنہ کے سلسلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے، بعض فقہاء نے اسے سنت کہا ، لیکن دوسرے فقہاء کی رائے یہ ہے کہ عورتوں کے لیے ختنہ سنت نہیں بلکہ مباح ہے، اور یہی راجح ہے، ”وختان المرأة لیس سنة بل مکرمة للرجال“ (الدر المختار مع رد المحتار:ھ ۱۰/ ۴۸۱، زکریا) جو لوگ اس کی سنیت کے قائل ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ختنہ عورتوں کے حق میں اس طرح مسنون نہیں جیسا کہ مردوں کے حق میں ہے، نیز حدیث میں عورتوں کے ختنہ کو محض مکرمہ کہا گیا ہے جب کہ مردوں کے لیے سنت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: ”الختان سنة للرجال ومکرمة للنساء“ رواہ أحمد (بحوالہ مرقاة: ۸/۲۸۹) اس طرح عورتوں کے ختنہ کے سلسلہ میں جتنی روایتیں ہیں سب ضعیف ہیں، قابل استدلال نہیں ہیں، لہٰذا راجح یہی ہے کہ عورتوں کے لیے ختنہ مسنون نہیں۔لہذا عورت کا ختنہ کرنا لازمی نہیں ہے۔
اعلم أن الأحادیث التي رویت في ختان النساء بطرق مختلفة کلہا ضعیفة لا یحتج بہا (حاشیة ابوداوٴد بحوالہ بذل)
http://forum.mohaddis.com/threads/اسلام-میں-لڑکی-کے-ختنہ-کا-کیا-حکم-ہے؟.16749/
علماء نے وجوب ختنہ کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ اس سے ہلاکت یا بیماری کا اندیشہ نہ ہو اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو پھر ختنہ واجب نہیں ہے کیونکہ واجبات عجز، یا خوف ہلاکت یا نقصان کی صورت میں واجب نہیں رہتے۔
عورتوں کے ختنہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، جن میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ صرف مردوں کے لیے واجب ہے۔ عورتوں کے لیے نہیں اور اس کے بارے میں ایک ضعیف حدیث ہے:
«اَلْخِتَانُ سُنَّة فی حقٌ الرِّجَالِ،و مَکْرُمَة فی حقٌ لِلنِّسَاءِ»مسند احمد: ۵/۷۵۔
’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے حق میں اعزاز واکرام ہے۔‘‘
اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس باب میں فیصلہ کن ہوتی (لیکن ایسا نہیں ہے اور اس طرح نسوانی ختنہ لازمی نہیں ہے)۔
وباللہ التوفیق
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1042/192/
صومالی خواتین بعض رسم ورواج کی بنیاد پر کچھ چیزوں سے پریشان ہیں، جن میں سے ایک فرعونی ختنہ ہے، جسمیں ختنہ کرنے والی مکمل طور پر شرمگاہ کے چھوٹے کناروں کے ایک جزء اور بڑے کناروں کے اکثرحصوں کو کاٹ دیتی ہے، اس کا مطلب عورت کے عضوتناسل کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے جس کی وجہ سے شرمگاہ مکمل طور پر برباد ہوجاتی ہے، اسکے بعد پورے سوراخ کی سلائی کردی جاتی ہے، جسے "رتق" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو عورت کے لئے شب زفاف اور ولادت کے وقت بہت زیادہ پریشانیوں کا سبب بنتی ہے، بسا اوقات اس کی وجہ سے آپریشن کرانا پڑتا ہے، نیز یہ عمل جنسی خواہش کو بھی ختم کردیتا ہے، اور بہت سے طبی جانچ کا سبب بنتا ہے ، کہ جس میں عورت اپنی جان ، اپنی صحت یا پھرپیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔
ج: ختنہ کی یہ صورت بالکل جائز نہیں ہے، اس نقصان کی وجہ سے جو عورت کو پہنچتا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (لا ضرر ولا ضرار) نہ نقصان دو اور نہ ہی نقصان اٹھاؤ
http://www.alifta.com/fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=11475
ملحدین کہتے ھیں کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود اسلامی دنیا میں اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی گئی ہے اور اٹھائی جا رہی ہے۔اگر یہ واضح اسلامی حکم ہوتا تو کبھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی جاتی۔1920 کی دہائی میں مصر کی ڈاکٹرز سوسائٹی نے اس رسم پر پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کیا۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ڈائرکٹر اور سرجن ڈاکٹر ابراہیم پاشا نے 1928ء میں اس کے خلاف آواز بلند کی۔ 1951ء میں مصر کے طبی جریدے 'الدکتور' میں اس عمل کی پرزور مخالفت کی گئی۔ 1957ء میں خواتین کے میگزین 'حوا' نے بھی اس رسم کے خلاف مہم چلائی۔ 1958ء میں مصر میں اس عمل پر مصری طبی سہولیات کے اداروں میں پابندی عاید کر دی گئی۔ البتہ نجی طبی اداروں نے نسوانی ختنے کرنا جاری رکھا، تا وقتیکہ 2007ء میں ایک 12 سالہ بچی کی ختنے کے دوران موت ہو جانے کے واقعے پر انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید بیچینی کی لہر دیکھنے میں آئی اور 2008ء میں اس عمل کو مصر میں مکمل طور پر غیرقانونی قرار دے دیا گیا۔ قاہرہ کی قدیم یونیورسٹی جامعۃ الازہر نے ایک فتوے میں اسے خلاف اسلام قرار دیا گیا۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/نسوانی_ختنہ
مصر میں یہ روایت مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں ہی میں عام تھی اس کے علاوہ افریقی ممالک میں بھی اس کا رواج ہے ۔اب کیا عیسائیوں کو بھی اسلام نے کہا کہ لڑکی کا ختنہ کریں؟ عرب ممالک میں ایسے واقعات شاذو نادر ہی ملتے ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/06/070628_egypt_circumcision_nj.shtml
اس کی تاریخ اسلام سے بھی پہلے کی ہے۔
یہ بہت سے ایسے ممالک میں بھی ہے جن کی اکثریت غیر مسلم ہے
اگر اسلام کی وجہ سے ہے تو پوری اسلامی دنیا میں کیوں نہیں
جب روایات ہی ضعیف ہیں تو الزام کہاں ثابت
دنیا کی کونسی عدالت مشکوک گواہ پر مجرم کہتی ہے
ڈاکٹر نکولاؤس وان ڈیم نے جکارتہ میں قائم قرآن خوانی انسٹی ٹیوٹ میں عالمی سیاست، رجحانات اور اسلام کا کردار، مسلم سکالرز کی علمی ذمہ داری کے موضوع پر ایک لیکچر دیا جس کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے۔
صرف یہ وضاحت کر دینا کافی نہیں ہے کہ اسلام درحقیقت کیا ہے بلکہ یہ تفریق کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ کون سی باتوں کا اسلام سے تعلق ہے اور کون سی غلط طور پر اس سے منسوب کی گئی ہیں۔
اسلام اور مسلم عقیدے پر عمل کرنیوالوں کے افعال کے درمیان کیا تعلق ہے؟ میری رائے میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا بطور مذہب اسلام کے ساتھ بہت کم واسطہ ہے لیکن بہرحال انہیں اس سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ جن لوگوں کا ان چیزوں سے تعلق ہے وہ اتفاق سے مسلمان ہیں۔
اسوقت پائی جانیوالی غلط فہمیوں کے پیدا ہونے میں ان تمام عوامل کا ہاتھ ہے۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا تعلق غلط تصورات سے ہے علمی حقیقت سے نہیں۔ اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ تصورات اسوقت حقائق بن جاتے ہیں جب لوگ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ انکے تصورات درست ہیں۔
اسلام جب جزیرہ نما عرب سے باہر پھیلا تو اس نے ایکطرح سے خود کو ان علاقوں کے مطابق ڈھال لیا یعنی ایسی عادات اور روایات جو اسلام سے متصادم نہی تھیں انہیں نہ صرف قبول کر لیا بلکہ بعدازاں مقامی باشندون نے بعض روایات کو بسا اوقات اسلام کا جزو نہیں تو کم ازکم اسلام کے عین مطابق ضرور قرار دیدیا۔
بہت سے نو مسلم اپنی سابقہ روایات کے بعض حصوں پر کاربند رہے اور پھر بتدریج کہنے لگے کہ یہ روایات درحقیقت اسلام کا جزو ہیں۔
بہت سی جگہوں پر لوگ مقامی عادات یا روایات کی اسلام کے جزو کے طور پر تشریح کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
اسطرح کی دیگر مثالوں میں نسوانی ختنہ جو افریقہ میں سب سے زیادہ عام ہے اور غیرت کے نام پر قتل وغیرہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔اس طرح انہوں نے خود اعتراف کیا کہ افریقہ میں اس رسم کو اسلام سے کوئ تعلق نہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اسلام-کیا-ہے؟.61131/
2010ء میں پیو ریسرچ سینٹر کے تحت ہونے والی تحقیق جو 2011ء میں شائع ہوئی ، کے مطابق دنیا بھر میں 1.62 بلین مسلمان آباد ہیں۔اگر نسوانی ختنہ اتنا ہی اہم حکم ہے تو دنیا میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ختنہ کیوں نہیں کرتی
2005ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جمہوریہ گنی کی 85 فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے ملک میں 78 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ لیکن نسوانی ختنہ 97% یعنی کرنے والے غیر مسلم بھی شامل ہیں
جبوتی کی 94 فیصد آبادی مسلمان ہے جبوتی میں 490،000 مسلمان آباد ہیں زیادہ تر مسلمان شافعی ہیں۔سیرا لیون میں 5۔71% مسلمان ہیں لیکن نسوانی ختنہ کی شرح 90% ہے یعنی اس میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ان کو کس نے کہا کہ ختنہ کرو۔ پاکستان میں کافر ختنہ کیوں نہیں کرتے مرد کا جب کہ وہاں عورت کا ہورہا ہے اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے۔ملاوی میں 8۔12% مسلمان ہیں لیکن نسوانی ختنہ کی شرح 89% فیصد ہے۔کیا وہاں کے غیر مسلم بھی اسلام کی وجہ سے کرتے ہیں جب کہ وہاں مسلمان صرف بارہ فیصد ہیں۔اریٹریا میں مسلمان صرف 48% فیصد ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح 83% فیصد ہے۔برکینا فاسو کی 60% آبادی مسلمان ہے لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 76% ہے۔اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے تو پھر وہاں کے غیر مسلم کیوں کرتے ہیں۔ایتھوپیا میں صرف 34% مسلمان ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح 74% ہے
لائیبیریا میں صرف 12% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 66% ہے۔اگر یہ محض اسلام کی وجہ سے ہے تو غیر مسلم ممالک میں بھی کیوں عام ہے۔کینیا میں صرف 10% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح 27% ہے۔سینیگال میں 95% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 26% ہے۔اگر یہ اتنا ہی اہم حکم تھا شریعت کا تو کیوں اتنی زیادہ آبادی والے ملک میں اس کی شرح اتنی کم ہے؟سنٹرل افریقن ریپبلک میں صرف 15% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح مسلم آبادی سے بھی زیادہ یعنی کہ 24% ہے۔
یمن میں مسلمان 99% ہیں جب کہ نسوانی ختنے کی شرح وہاں صرف 19% ہے۔عراق میں 98% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 8% ہے،نائیجر میں 98% مسلمان ہیں لیکن وہاں نسوانی ختنے کی شرح صرف 2%ہے،اگر یہ اسلام کی وجہ سے ہے تو پھر بھی اکثر مسلم ممالک میں اس کی شرح کم ہے جب کہ یہ کئ ان ممالک میں بھی موجود ہے جہاں مسلمان بہت کم ہیں۔لہذا اس کا تعلق اسلام سے جوڑنا ایک جہالت ہے
اور اگر اس نسوانی ختنے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ آج سے دوہزار سال پہلے بھی کیا جاتا تھا۔قدیم مصر میں یہ اشرافیہ حیثیت کی علامت کے طور پر کرایا جاتا تھا جہاں سے یہ باقی افریقہ اور دنیا میں پھیل گیا۔ قدیم عرب میں یہ سیاہ فام غلاموں کی وجہ سے متعارف ہوا۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ یہ افریقہ میں بلوغت کی ایک رسم کے طور پر الگ سے شروع ہوئ۔یہ قدیم یونان و روس میں بھی موجود تھی۔کینیا اور سیرا لیون میں یہ نسوانیت کی علامت کے طور پر کی جاتی ہے،سوڈان،مصر اور صومالیہ میں یہ لڑکی کے کنوارے پن کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے اور اکثر افریقی ممالک میں یہ شادی سے پہلے لازمی سمجھی جاتی ہے ورنہ شادی نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ یہ ختنہ امریکا اور برطانیہ میں بھی خواتین کی نام نہاد کمزوری کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اگر زنانہ ختنے کی ان ساری وجوہات کا جائزہ لیں تو ہمیں مذہبی سے زیادہ ثقافتی وجوہات نظر آتی ہیں۔اوپر بیان کردہ نسوانی ختنے کی وجوہات میں سے کوئ بھی وجہ اسلام نے نہیں تلقین کی۔پھر اس سارے معاملے کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرانا کہاں کی عقلمندی ہے۔اور خود ماہرین تاریخ و آبادیات یا ڈیمو گرافی کہتے ہیں کہ نسوانی ختنے کی وجوہات کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ مختلف علاقوں اور ثقافتوں میں مخلتف رسوم و رواج کے طور پر رائج ہے۔یہ پڑھیں
The practice is supported by traditional beliefs, values and attitudes. In some communities it is valued as a rite of passage to womanhood. (for example in Kenya and Sierra Leone) Others value it as a means of preserving a girl’s virginity until marriage, (for example in Sudan, Egypt, and Somalia) In most of these countries FGM is a pre-requisite to marriage and marriage is vital to a woman’s social and economic survival. It is believed by some African women that if their daughters are not circumcised would not get husband. This (FGM) harmful tradition has been guided by taboos from generation by generation.
FGM is rooted in culture and some believe it is done for religious reasons, but it has not been confined to a particular culture or religion. FGM has neither been mentioned in the Quran nor Sunnah
http://www.fgmnationalgroup.org/historical_and_cultural.htm
یہ زمانہ جاہلیت کی ایک رسم ہے اور تاریخ بھی بتا رہی ہے کہ اس کا تعلق کسی خاص مذہب کی بجائے مخلتف علاقوں کی مخلتف روایات سے ہے اور اس بارے میں بیان کردہ احادیث بھی ضعیف ہیں تو اس سارے معاملے کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرانا کہاں درست ہے لیکن ملحدین کی عادت ہے کہ اسلام میں کیڑے ڈھونڈتے ہیں جو کہ صرف ملحدین کے دماغ میں مل سکتے ہیں۔
لہذا اگر آج کہیں بھی یہ عمل انجام دیا جاتا ہے تو یہ قدیم روایت ہے جو ہزاروں سال سے چلی آرہی ہے یا ایک قبائلی رسم ہے جیسا کہ افریقہ میں ہے جو کہ اسلام کے طرز زندگی اور اللٰہ تعالٰی کے قانون کے خلاف ہے۔
اگر یہ عمل کچھ مفقہین کی طرف سے جائز بھی مان لیا جائے تو یہ محض بظر یا clitorus اور بظر کی چادر یعنی Clitoral hood کے کاٹنے تک محدود ہے جو کہ ایک فرض نہیں کہ جس کا چھوڑنا حرام ہو بلکہ کسی خدشے یا نقصان کے خطرے کے پیش نظر اسے چھوڑا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت اس عمل کو نہیں کرتی بلکہ ناپسندیدہ قرار دیتی ہے کیونکہ اس کی حمایت میں کوئ ایک بھی واضح اور صحیح حدیث نہیں ہے اور جن مفقہین نے اسے جائز قرار دیا ہے انہوں نے خود ضعیف احادیث سے استدلال کیا ہے جس پر عمل لازمی نہیں ہے اور عوام کو اس بارے میں صحیح علم رکھنے کی ضرورت ہے۔کوئ اپنی کم علمی کا ذمہ دار اسلام کو ٹھہرائے تو یہ اس کی کوتاہی ہے اسلام کی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے کئ مسلم علماء اس کے خلاف فتوی دے چکے ہیں۔مسلم علماء کی عالمی یونین کے سربراہ ڈاکٹر محمد اسلم کے بقول نہ یہ سنت ہے اور نہ ہی وجہ تکریم۔
اس کے علاوہ
مزید برآں یہ رسم اسلام سے کئ ہزار سال پہلے سے افریقہ،عرب اور مشرق وسطی میں چلی آرہی ہے۔پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ رسم اسلام نے شروع کی۔اگر یہ محض اسلام کی وجہ سے ہے تو یہ غیر مسلم لوگوں میں بھی کیوں فروغ پذیر ہے جو اسے بڑی خوشی سے اپنائے ہوئے ہیں۔شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن ابن حسن النفسیہ لکھتے ہیں
"اس بات کی کوئ گواہی نہیں ہے کہ یہ رسم سلف صالحین میں وسیع پیمانے پر موجود تھی۔مزید برآں یہ مکہ و مدینہ منورہ جیسے ان شہروں میں کبھی فروغ پذیر نہیں ہوئ جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔اگر یہ اسلام کا اتنا اہم جزو تھا تو یہ لازمی سلف صالحین اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے اسلام کے گڑھ دو شہروں میں فروغ ہوتی جب کہ ایسا نہیں ہے۔ان شہروں میں صرف مرد کا ختنہ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ سنت کے حوالے سے اس کی مستند گواہی موجود ہے۔"
اس طرح ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نسوانی ختنے کی یہ رسم محض ایک ثقافتی رسم ہے جس کی اسلام میں واضح اور فیصلہ کن کوئ دلیل نہیں ہے۔اسلام افرادکی صحت کو یقینی بناتا ہے۔اگر کسی وجہ سے کسی بھی فرد کی صحت خطرے میں پڑتی ہے تو اس عمل کو چھوڑنے کی اجازت ہے یہاں تک کہ روزہ اور حج جیسے فرائض میں بھی کفارے کے ساتھ رعایت دی گئی ہے۔
یہی بات مسلمان علماء کرتے ہیں۔2010 ء میں ماریطانیہ میں چونتیس علماء نے نسوانی ختنے کے خلاف فتوی دیا۔کئ دیگر اہم علماء جیسا کہ ابن عابدین(وفات 1836ء)،یوسف القرداوی(وفات 1926ء)،ڈاکٹر علی جمعہ(وفات 2013ء) اور ڈاکٹر محمد سید الطنطاوی اس کے خلاف فتوی دے چکے ہیں۔جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں وہ دو جرم کرتے ہیں۔ایک اسلام کو بگاڑنے کا اور دوسرا عوام کو دبانے کا۔
http://bigurdu.com/244Sent from myMail for Android
اس طرح اس سارے تجزیے کے بعد دانیال تیموری کا یہ اعتراض کہ اسلام نے نسوانی ختنے کو فروغ دے کر خواتین کی جنسی پامالی کو فروغ دیا،جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب