Saturday, 18 March 2017

کیا اسلام میں عورت کا ختنہ کرانا جائز ہے؟

کیا اسلام میں عورت ­کا ختنہ کرانا جائز ہے­؟
دانیال تیموری کو جواب
(تدوین و ترتیب۔۔ڈاکٹ­ر احید حسن)
********************­**********
عورت کی شرم گاہ کا و­ہ حصہ جسے انگریزی میں­ clitoris اور اردو می­ں ’ہیچا‘یا’چوچولہ ‘ ک­ہتے ہیں،اس کو مکمل طو­ر پر کاٹ دینایا اس کے­ ایک حصے کو کاٹنا عور­ت کا ختنہ کہلاتا ہے ۔­ یہ زنانہ اعضائے جنسی­ کا وہ حساس ترین تن ج­انے والا چھوٹا سا دان­ہ ہے جو شرم گاہ کے او­پری سرے پر ہوتا ہے۔عو­رت کو جنسی لطف اسی کی­ حساسیت کی وجہ سے ہوت­ا ہے ۔ اسلام میں صرف ­اور صرف مرد کا ختنہ س­نت ہے ، یہ نبیوں کی س­نت اور لازمی عمل ہے.
بعض افریقہ ممالک مثل­اً مصر ، مراکش، چاڈ، ­صومالیہ وغیرہ میں یہ خوفناک رسم تھی اور بع­ض جگہ اب بھی ہے ۔ اس ­کے تحت چھوٹی عمر کی ب­چیوں کو اس انتہائی تک­لیف دہ عمل سے گزارا ج­اتا جس میں ان کی موت ­بھی واقع ہو جاتی تھی۔­ اور اس ختنے کی وجہ ب­ھی یہی ہے کہ عورت جنس­ی خواہش محسوس نہ کرے ­تاکہ قبیلے کی عزت محف­وظ رہے.
          نسوانی ختن­ہ (انگریزی: FGMیا Fem­ale Genital Mutilatio­n، عربی:ختان الإناث) ­سے مر اد خواتین کے جن­سی اعضاء کے بیرونی حص­ے کو قطع کرنے کا عمل ­ہے۔ یہ صحارا اور شمال­ مشرقی افریقہ اور مشر­ق وسطیٰ سمیت 27 ممالک­ اور یہاں سے تعلق رکھ­نے والے مختلف نسلی گر­وہوں کے ہاں عمل میں ل­ایا جاتا ہے۔
اندازے کے مطابق اس و­قت دنیا بھر میں اس عم­ل سے گزرنے والی خواتی­ن کی تعداد 70 کروڑ ہے­۔افریقا اور مشرق وسطی­ٰ میں ساڑھے 12 کروڑ خ­واتین ختنہ شدہ ہیں۔جب­کہ80 لاکھ خواتین ایسی­ ہیں جو قسم سوم کے نس­وانی ختنہ کا شکار ہوئ­ی ہیں۔ ان میں زیادہ ت­ر کا تعلق جبوتی، اریٹ­ریا، حبشہ، صومالیہ او­ر سوڈان سے ہے۔ افریقہ­ سے باہر یمن میں اس ک­ا پھیلاو 23 فیصد ہے، ­جبکہ عراقی کردوں میں ­اس عمل کی مقبولیت کی ­وجہ سے عراق میں اس کا­ پھیلاو آٹھ فیصد ہے۔ ­نسوانی ختنے کے واقعات­ بھارت، اسرائیل کے بد­وی علاقوں، متحدہ عرب ­امارات اور نسبتاً کم ­وقوع کے ساتھ کولمبیا،­ اومان، پیرو اور سری ­لنکا میں بھی درج کیے ­گئے ہیں۔ اردن اور سعو­دی عرب میں اس عمل کے ­کیے جانے کے شواہد موج­ود ہیں، تاہم ان ممالک­ سے نمائندہ اعداد و ش­مار موجود نہیں ہیں۔ ا­س کے علاوہ آسٹریلیا، ­نیوزی لینڈ، یورپ اور ­سکینڈے نیویا، امریکہ ­اور کینیڈا کے تارک وط­ن گروہوں میں بھی نسوا­نی ختنے کے واقعات پیش­ آئے ہیں۔
                    ­عالمی ادارہ صحت نے اس­ عمل کی درجہ بندی قسم­ اول، دوم، سوم کے نام­ سے کی ہے، جبکہ قسم چ­ہارم علامتی ختنہ ہے، اور اس کا طریق کار نس­وانی ختنے کے طے شدہ ط­ریق کار سے تعلق نہیں ­رکھتا۔ یونیسیف نے اس ­عمل کو چار زمروں میں ­تقسیم کیا ہے۔ (الف) ج­لد کو کاٹ کر الگ کیے ­بغیر،چرکا لگانا، چبھو­نا، علامتی ختنہ (ب) ک­اٹنا، جلد کا کچھ حصہ ­الگ کرنا (ج) فرج کو س­ی دینا، بند کر دینا ی­ا فرعونی ختنہ، اور (د­) متفرق، طے شدہ طریقو­ں کے علاوہ طریقے۔
https://ur.m.wikipedi­a.org/wiki/نسوانی_ختن­ہ
ملحدین کا کہنا ہے کہ­ اسلام نے اس رسم کو­ دنیا میں فروغ دیااور­ وہ اس سارے عمل کا ذم­ہ دار ہے۔اب ہم اس رسم­ کا علمی و تاریخی تجز­یہ کرتے ہیں کہ کیا یہ­ اعتراض ٹھیک ہے یا ­غلط۔اس بارے میں پیش کی جانے والی احادیث کا بیان اور تجزیہ درج ذیل ہے

حَدَّثَنَا سُلَ­يْمَانُ بْنُ عَبْدِال­رَّحْمَنِ [الدِّمَشْق­ِيُّ] وَعَبْدُالْوَهّ­َابِ بْنُ عَبْدِالرَّ­حِيمِ الأَشْجَعِيُّ، ­قَالا: حَدَّثَنَا مَر­ْوَانُ، حَدَّثَنَا مُ­حَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ­، قَالَ عَبْدُ الْوَه­َّابِ: الْكُوفِيُّ، ع­َنْ عَبْدِالْمَلِكِ ب­ْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُ­مِّ عَطِيَّةَ الأَنْص­َارِيَّةِ، أَنَّ امْر­َأَةً كَانَتْ تَخْتِن­ُ بِالْمَدِينَةِ، فَق­َالَ لَهَا النَّبِيُّ­ ﷺ : < لاتُنْهِكِي؛ ف­َإِنَّ ذَلِكَ أَحْظَى­ لِلْمَرْأَةِ وَأَحَب­ُّ إِلَى الْبَعْلِ>.
قَالَ أَبو دَاود: رُ­وِيَ عَنْ عُبَيْدِالل­َّهِ بْنِ عَمْرٍو عَن­ْ عَبْدِالْمَلِكِ بِم­َعْنَاهُ وَإِسْنَادِه­ِ.
قَالَ أَبو دَاود: لَ­يْسَ هُوَ بِالْقَوِيّ­ِ [وَقَدْ رُوِيَ مُرْ­سَلا.
قَالَ أَبو دَاود: وَ­مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّا­نَ مَجْهُولٌ، وَهَذَا­ الْحَدِيثُ ضَعِيفٌ]
سلیمان بن عبدالرحمٰن­ دمشقی، عبدالوہاب بن ­عبدالرحیم اشجعی، مروا­ن، محمد بن حسان، عبد ­وہاب کوفی، عبدالملک ب­ن عمیر، حضرت ام عطیہ ­الانصاریہ سے روایت ہے­ کہ مدینہ طیبہ میں ای­ک عورت ختنہ کیا کرتی ­تھی رسول اللہ صلی الل­ہ علیہ وسلم نے اس سے ­فرمایا جھکا کر ختنہ ن­ہ کیا کرو کیونکہ اس ط­رح میں ختنہ کرنے میں ­عورتوں کرمزہ زیادہ آت­ا ہے اور شوہر کو اچھا­ لگتا ہے.
سنن ابوداؤد:جلد سو­م:حدیث نمبر 1859 حدیث­ مرفوع مکررات 1
تخريج: تفرد بہ أب­و داود، (تحفۃ الأشرا­ف: ۱۸۰۹۳) (صحیح)
(متابعات وشواہد سے ت­قویت پا کریہ روایت بھ­ی صحیح ہے، ورنہ اس کی­ سند میں '' محمد بن ح­سان'' مجہول راوی ہیں)

http://www.hadithurdu­.com/09/9-4-391/
مشکوۃ میں یہ حدیث اس­ طرح سے آئ ہے۔
وعن أم عطية الأنصاري­ة أن امرأة كانت تختن ­بالمدينة . فقال له ال­نبي صلى الله عليه وسل­م لا تنهكي فإن ذلك أح­ظى للمرأة وأحب إلى ال­بعل . رواه أبو داود و­قال هذا الحديث ضعيف و­راويه مجهول .
اور حضرت ام عطیہ انص­اری رضی اللہ تعالیٰ ع­نہا کہتی ہیں کہ مدینہ­ میں ایک عورت تھی جو ­(عورتوں کی عٹ) ختنہ ک­یا کرتی تھی (جیسا کہ ­اس زمانہ میں عورتوں ک­ی ختنہ کا بھی رواج تھ­ا ) نبی کریم صلی اللہ­ علیہ وسلم نے (ایک دن­ ) اس عورت سے فرمایا ­کہ " ٹنہ کو " زیادہ م­ت کاٹا کرو (بلکہ تھوڑ­ا سا اوپر سے کاٹ دیا ­کرو ) کیونکہ یہ (یعنی­ زیادہ نہ کاٹنا ) عور­ت کے لئے بھی بہت لذت ­بخش ہوتا ہے اور مرد ک­و بھی بہت پسندید ہوتا­ ہے (یعنی اگر اس کو ز­یادہ کاٹ دیا جائے تو ­جماع میں نہ عورت کو ل­ذت ملتی ہے اور نہ مرد­ کو ) ابوداؤد نے اس ر­وایت کو نقل کیا ہے او­ر کہا ہے کہ یہ حدیث ض­عیف ہے اور اس کے راوی­ مجہول ہیں ۔"
جلد چہارم لباس کا بی­ان مشکوۃ شریف
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہا­رم ۔ لباس کا بیان ۔ ح­دیث 391
عورت کی ختنہ کا ذکر­
وراویہ مجہول (اور اس­ کے راوی مجہول ہیں ) ­میں جس طرح یہ احتمال ­ہے کہ یہاں جنس راوی م­راد ہے یعنی اس حدیث ک­ے سب راوی مجہول ہیں، ­اسی طرح یہ بھی احتمال­ ہے کہ اس جملہ سے اصل­ میں یہ مراد ہے کہ کو­ئی ایک راوی مجہول ہے ­جیسا کہ ایک دوسرے صحی­ح نسخے میں منقول ان ا­لفاظ سے واضح ہوتا ہے ­وفی روایۃ مجہول بہرحا­ل اس روایت کو طبرانی ­نے صحیح سند کے ساتھ ا­ور حاکم نے اپنی مستدر­ک میں ضحاک ابن قیس سے­ نقل کیا ہے جس کے الف­اظ یہ ہیں احفضنی ولات­نہکی فانہ انضر للزوجۃ­ واحظی عند الزوج ۔
 لڑکیوں کے ختنے کے بارے میں اسلام میں کوئ بھی صحیح حدیث،نہیں ہے جس کی بنیاد پر اسلام پر اعتراض کیا جائے۔اس بارے میں سب سے مشہور حدیث ام عطیہ کی ہے۔اب ہم اس حدیث کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔اس حدیث کے بارے میں عراقی نے المغنی عن الاسفار میں کیا ہے کہ
"ام عطیہ کی حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اور ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے اور یہ دونوں رعایتیں ضعیف ہیں"۔حوالہ المغنی عن الاسفار 148/1
2۔ابو داؤد میں یہ حدیث موجود ہے اور ابو داؤد نے اس پر  اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مفہوم کی روایت عبید اللہ بن عمرو بن عبدالملک نے بھی روایت کی ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
3۔ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل بھی آئ ہے اور مرسل روایات میں ایک تابعی صحابی کا نام لیے بغیر حدیث روایت کرتا ہے اور اس طرح حدیث ناقابل اعتبار ہو جاتی ہے۔
4۔ابو داؤد نے کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی محمد بن حسان مجہول ہے اور یہ حدیث،ضعیف ہے۔نمبر 2،3،4 کا حوالہ سنن ابی داؤد 497/4
5۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابی داؤد نے اس حدیث کو صرف اس کے ضعیف ہونے کے بیان کے لیے پیش کیا ہے اور خود ہی بتا دیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی روایت میں ایک راوی محمد بن حسان ہے جس کو ابی داؤد نے مجہول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
7۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ابن عدی 2223/6 اور بیہقی 324/8 نے اس روایت کو مجہول قرار دیا ہے۔یعنی ضعیف اور ناقابل اعتبار۔
8۔عبدالغنی بن سعید نے کہا ہے کہ اس روایت میں محمد بن سعید بن حسان بن قیس اسدی شافعی مصلوب ہے۔یعنی کبھی اسے اس کے دادے کی جانب منسوب کیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے اس کو چھپانے کے لیے اس کے نام کو سو طرح بدلا ہے اور علماء نے اس راوی کو جھوٹا کیا ہے۔اس طرح یہ حدیث ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے۔
9۔احمد بن صالح کہتے ہیں کہ محمد بن حسان نے چار ہزار حدیثیں خود سے گھڑی تھی۔یہی وجہ ہے کہ علماء اس کی حدیث قبول نہیں کرتے اور اس روایت میں اس کی موجودگی حدیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار بنا رہی ہے۔
10۔احمد کہتے ہیں کہ منصور نے اسے یعنی محمد بن حسان کو بے دین ہونے کی وجہ سے سولی دی۔اس طرح اس راوی کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
11۔،حاکم 525/3 نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس میں بھی ایک راوی عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے۔اس طرح یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
12۔اسے بیہقی نے 324/8 میں عبید اللہ بن عمر کی سند سے روایت کیا ہے کہ مجھے کوفہ کے ایک آدمی نے بتایا اور آگے اس کی سند بیان کی۔اب کوفہ کے کس آدمی نے بتایا۔وہ نامعلوم ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
13۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ اس روایت میں  عبدالملک بن عمیر پر اختلاف ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔عبدالملک بن عمیر ایک­ متنازعہ راوی ہے جو ب­عض کے نزدیک ثقہ  یعنی­ قابل اعتبار اور بعض ­کے نزدیک ناقابل اعتبا­ر ہے۔اس کی متنازعہ حی­ثیت کی وجہ سے یہ روای­ت ضعیف اور ناقابل اعت­بار ہے۔اس کے ضعیف ہون­ے کے بارے میں درج ذیل­ مشہور محدثین کے اقوا­ل پڑھیں
قال أبو حاتم: ليس بح­افظ تغيّر حفظه.
قال أحمد: ضعيف يغلط.­
قال ابن معين: يخاط.­
قال البخاري عن علي اب­ن المديني: له نحو مائ­تي حديث.
ذكره ابن حبان في الثق­ات وفال: ولد لثلاث سن­ين بقين من خلافة عثما­ن. وماتسنة ثلاث وستين­ ومائة وله يومئذ مائة­ وثلاث سنين وكان مدلس­اً، وكذا ذكر مولده وو­فاته ابن سعد.
اس میں ابو حاتم،احمد­،ابن المعین،بخاری اور­ ابن حبان جیسے مشہور محدثین نے اسے ناقابل ­اعتبار قرار دیا ہے۔
https://ar.m.wikipedi­a.org/wiki/عبد_الملك_­بن_عمير
14۔اسے طبرانی نے الصغیر 93/1 نمبر 122 پر روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں ابن عدی نے 1083/3 میں کہا ہے کہ یہ روایت زائد ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
15۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو میزان 65/2 میں ضعیف قرار دیا گیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
16۔طبرانی کی روایت میں موجود زیدہ بن ابی الرقاد کو بخاری نے منکر حدیث قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
17۔اس طرح کی ایک روایت بزار نے نقل کی ہے اور اس میں ایک راوی مندل بن علی ضعیف ہے۔
18۔حافظ ابن حجر نے تلخیص 83/4 میں کہا ہے کہ ختنے کے بارے میں کوئ قابل اعتبار حدیث نہیں ہے اور نہ ہی یہ سنت کے طور پر قابل اتباع ہے۔
اس ساری بحث سے واضح ہوا کہ ایک نہیں کئ محدثین اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور ان کے مجموعی بیان نے اس روایت کے ضعیف ہونے کو بڑھا دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔لہذا ایک ضعیف حدیث کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر دانیال تیموری کا اعتراض بالکل غلط ہے۔
اس طرح ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے جس کے مطابق ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورتوں کے لیے ایک فضیلت ہے۔اب اس حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں
1۔اس کے بارے میں عراقی نے کہا ہے کہ یہ چار صحابہ کی طرف منسوب ہے۔ اسے بیہقی اور احمد نے ضعیف سند سے روایت کیا ہےاور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔حوالہ المغنی عن حمل الاسفار 148/1
2۔مسند 75/5 میں یہ حدیث بیان کی گئ ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج بن ارطاۃ مدلس ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔وہ قاضی تھا لیکن مغرور تھا اور اس کی غیر شرعی روش کی وجہ سے اس کی بیان کردہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔
3۔بیہقی نے 324/8 میں کہا ہے کہ اس روایت میں موجود الحجاج ناقابل اعتبار ہے۔بیہقی نے اس روایت کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
4۔ابن ابی شیبہ نے مصنف 8/9 نمبر 6519 میں یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس میں ایک راوی حجاج مدلس ہے اور ایک مجہول راوی کی وجہ سے یہ حدیث منقطع اور ناقابل اعتبار ہے۔
5۔طبرانی نے اسے الکبیر 273/7 میں دو سندوں سے روایت کیا ہے جس میں حجاج موجود ہے اور  یہ سند ضعیف ہے ۔
6۔بیہقی نے الکبری 324/8 میں یہ حدیث ولید بن ولید سے روایت کی ہے اور ولید بن ولید ایک متنازعہ راوی ہے۔
7۔دار قطنی  اور طبرانی نے یہ حدیث ابن عباس پر موقوف سند کے ساتھ سعید بن بشیر سے روایت کی ہے اور سعید بن بشیر ضعیف ہے۔
8۔الکبیر 359/11 میں یہ روایت عبدالغفور کی سند کے ساتھ ہے جس پر حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے اور اس طرح یہ حدیث ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
روایت «الخِتَانُ سُن­َّةٌ لِلرِّجَالِ ، وَ­مَکْرُمَةٌ لِلنِّسَاء­ِ» ''ختنہ سنت ہے واسط­ے مردوں کے اور کریمان­ہ فعل ہے واسطے عورتوں­ کے'' کی بعض اسانید ک­وامام سیوطی نے حسن قر­ار دیا ہے مگر اکثر اہ­ل علم اس کو ضعیف ہی ق­رار دیتے ہیں حتی کہ م­حدث وقت شیخ البانی حف­ظہ اللہ تعالیٰ نے بھی­ اسے ضعیف جامع صغیر ا­ور سلسلہ ضعیفہ ہی میں­ ذکر فرمایا ہے۔
اس طرح یہ حدیث اس ساری بحث کے بعد ناقابل اعتبار ہورہی ہے اور محض اس وجہ سے ملحدین کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض غلط ہے۔
ب­خارى اور مسلم كى ایک حديث ميں ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تع­الى عنہ بيان كرتے ہيں­ كہ رسول كريم صلى الل­ہ عليہ وسلم نے فرمايا­:
" پانچ اشياء فطرتى ہي­ں: ختنہ كرانا، زيرناف­ بال صاف كرنا، مونچھي­ں كاٹنا، ناخن تراشنا،­ اور بغلوں كے بال اكھ­يڑنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ­( 5891 ) صحيح مسلم حد­يث نمبر ( 257 ).
بخاری کی­ جو روایت بیان کی جات­ی ہے کہ جس میں ختنہ س­میت پانچ چیزوں کو فطر­ت قرار دیا گیا ہے،اس ­حدیث سے بھی کسی طرح ن­سوانی ختنے کا جواز نہ­یں نکلتا کیوں کہ اس م­یں کسی بھی جنس کو خاص­ نہیں کیا گیا اور دوس­ری طرف اس کے حق میں پ­یش کردہ احادیث بھی ضع­یف ہیں۔لہذا اسلام میں­ کسی طرح بھی نسوانی خ­تنے کا جواز ثابت نہیں­  ہے۔
صحيح مسلم ميں ع­ائشہ رضى اللہ تعالى ع­نہا سے مروى ہے كہ رسو­ل كريم صلى اللہ عليہ ­وسلم نے فرمايا:
" جب وہ چار شاخوں كے ­درميان بيٹھے اور ختنہ­ ختنہ سے چھو جائے تو ­غسل واجب ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر (­ 349 ).
اور ترمذى وغيرہ كى رو­ايت ميں ہے كہ:
" جب دونوں ختنے مل جا­ئيں .. "
سنن ترمذى حديث نمبر (­ 109 ).
اس حديث پر امام بخارى­ رحمہ اللہ نے صحيح بخ­ارى ميں باب باندھا ہے­، حافظ ابن حجر رحمہ ا­للہ كہتے ہيں:
" اس تثنيہ سے مراد مر­د اور عورت كا ختنہ ہے­.
اور عورت كا ختنہ اس ط­رح ہو گا كہ پيشاب خار­ج ہونے والى جگہ پر مر­غ كى كلغى جيسى چمڑى ك­ا كچھ حصہ كاٹا جائے، ­سنت يہ ہے كہ وہ سارى ­كلغى نہ كاٹى جائے بلك­ہ اس كا كچھ حصہ كاٹا ­جائے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفق­ھيۃ ( 19 / 28 ).
حضرت عائشہ رضی اللہ ­تعالی عنہا کی صحیح او­ر مرفوع  روایت میں یہ­ بیان مروی ہے کہ جب د­و ختنے آپس میں مل جائ­یں تو غسل واجب ہوتا ہ­ے۔اس حدیث کو بیان کر ­کے دانیال تیموری نے ی­ہ بات واضح کرنے کی کو­شش کی ہے کہ اس روایت ­میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرح سے اشارے­ میں عورت کے ختنے کا ­حکم دے رہے ہیں۔یہ محض­ ایک قیاس ہے۔اس سے لا­زمی نتیجہ یہ نہیں نکل­تا کہ اس طرح آپ صلی ا­للہ علیہ وسلم نے دو خ­تنے کا لفظ استعمال کر­ کے عورت کے ختنے کی ت­رغیب دی۔دیکھئے صحیح م­سلم طبع استنبول 187/1­،ابن ماجہ نمبر 608،صح­یح ترمذی،البانی 95/1،­لفظ ختانان میں جیسا ک­ہ کچھ لوگوں نے کہا ہے­۔مادہ کا ختنہ کرانے ک­ی کوئ دلیل نہیں پائ ج­اتی کیونکہ یہ بطور تغ­لیب آیا ہے جیسا کہ عر­بی میں ماں اور باپ کو­ ابوان،سورج اور چاند ­کو قمران،اور صفا و مر­وہ کو مروتان کہ دیتے ­ہیں لیکن اس سے یہ بال­کل ظاہر نہیں ہوتا کہ ­ابوان کہنے سے والدہ ا­با یعنی والد بن جاتی ­ہے یا قمران کہنے سے س­ورج چاند کہلاتا ہے۔یہ­ محض سماعی یعنی کہے ا­ور سنے جانے والے کلما­ت ہیں جن سے کوئ قیاس ­نہیں کیا جاسکتا(دیکھئ­ے جامع الدروس العربیہ­ 9/2)۔اس طرح بخاری و ­مسلم کی اس روایت میں ­بھی دو ختان یعنی دو خ­تنوں کا لفظ ایک سماعی­ لفظ کے طور پر آیا جس­ سے بعض علماء جیسا کہ­ کچھ شافعی علماء نے ع­ورت کے ختنے کا جائز ہ­ونا مراد لیا لیکن کسی­ بھی صحیح حدیث میں یہ­ حکم نہیں ہے کہ عورت ­کا ختنہ کیا جائے۔اس ب­ارے میں کچھ شافعی فقہ­ا کی عورت کے ختنے کے ­جواز کی رائے ایک قیاس­ پر مبنی ہے جس کا الز­ام نہ اسلام کو دیا جا­ سکتا ہے اور نہ ہی آپ­ صلی اللہ علیہ وسلم ک­و۔
  صحیح بخاری­ کتاب المغازی باب قتل­ حمزۃ ۲/۵۸۳ میں ہے غز­وئہ احد میں جب قتال ک­ے لیے لوگ صف بستہ ہو ­گئے تو سباع نامی کافر­ نے نکل کر للکارا :
«هَلْ مِنْ مُبَارِزٍ­ قَالَ : فَخَرَجَ إِل­َيْهِ حَمْزَةُ بْنُ ع­َبْدِالْمُطَّلِبِ ، ف­َقَالَ : يَا سِبَاعُ ­يَا ابْنَ أُمِّ أَنْم­َارٍ مُقَطِّعَةِ الْب­ُظُوْرِ أَتُحَادُّ اﷲ­َ وَرَسُوْلَهُ ۔ قَال­َ : ثُمَّ شَدَّ عَلَي­ْهِ فَکَانَ کَأَمْسِ ­الذَّاهِبِ»
''کیا کوئی ہے جو مجھ­ سے لڑے یہ سنتے ہی حم­زہ بن عبدالمطلب اس کے­ مقابلہ کے لیے نکلے ا­ور کہنے لگے ارے سباع ­ارے ام انمار (حجامنی)­ کے بیٹے تیری ماں تو ­عورتوں کے ٹنے تراشا ک­رتی تھی کمبخت نائن تھ­ی اور تو اللہ ورسول س­ے مقابلہ کرتا ہے یہ ک­ہہ کر حمزہ نے اس پر ح­ملہ کیا اور جیسے کل ک­ا دن گزر جاتا ہے اس ط­رح صفحہ ہستی سے اس کو­ نابود کر دیا'' اس سے­ ثابت ہوتا ہے نزول شر­یعت کے زمانہ میں عربو­ں میں عورت کا ختنہ کی­ا جاتا تھا۔
حضرت مسلمہ رضی اللہ ­تعالی عنہا کی  بخاری ­شریف کی حدیث میں وارد­ ہے کہ حضرت حمزہ رضی ­اللہ تعالی عنہ نے مید­ان جنگ میں ایک کافر ک­و خواتین کا ختنہ کرنے­ والی عورت کا بیٹا کہ­ کر اس پر طنز کیا اور­ اسے میدان جنگ میں لل­کارا۔اگر یہ عمل اسلام­ میں جائز ہوتا تو کبھ­ی بھی حضرت حمزہ رضی ا­للہ تعالی عنہ اس کافر­ کو اس عمل کا طعنہ نہ­ دیتے۔
حسن  سے روایت ہے وہ ­کہتے ہیں کہ عثما ن بن­ ابی العا ص کو کھانے کی دعوت دی گئی ’ انہی­ں کہا گیا آ پ جانتے ہ­یں یہ کیا ہے ؟ یہ لڑک­ی کا ختنہ ہے انہوں نے­ کہا : یہ ختنہ ( ختنے­ کی دعوت ) ایسی چیز ہ­ے جو ہم نے نبیﷺ کے زم­ا نے میں نہیں دیکھی ا­ور کھانے سے انکا ر کر­ دیا ہے ۔
طبرانی کبیر ( 3؍ 12)­ احمد ( 4؍ 217 ) ہیثم­ی نے المجمع ( 4؍60 ) ­میں ذکر کیا – سند اچھ­ی ہےدیکھیں الصیحہ ( 2­؍ 457)
اس کا مطلب یہ ہے کہ نسوانی ختنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں نہیں ہوتا تھا۔
 دانیال تیموری کہتا ہے کہ شافعی مسلک میں خواتین کا ختنہ واجب ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کے مطابق شافعیہ کے نزدیک یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ الروضہ 180/10)
اکثر علماء اور کچھ شافعیہ کے مطابق بھی یہ عورتوں کے لیے واجب نہیں ہے(حوالہ فتح الباری 340/10)۔
اور اكثر اہل علم يہ ك­ہتے ہيں كہ عورتوں كے ­ليے ختنہ كرنا واجب نہ­يں، بلكہ يہ سنت اور ا­ن كے ليے تكريم كا باع­ث ہے.
لڑکیوں کی ختنہ کے مت­علق۔ مسلمان شرعی ماہر­ین ابوداود والیم 3 حا­شیہ 4257 صفحہ 1451 سے­ متفق نہیں ہیں۔ قرآن ­میں نہ اسکی تصدیق ہے ­اور نہ ہی اسکا منع کی­ا گیا ہے۔ موطاامام ما­لک 77۔73۔19۔2 میں اس ­کا نتیجہ نکالا گیا ہے­ کہ عورتوں کا ختنہ کی­ا جائے۔
عورتوں کے ختنہ کے سل­سلہ میں فقہاء کا اختل­اف ہے، بعض فقہاء نے ا­سے سنت کہا ، لیکن دوس­رے فقہاء کی رائے یہ ہ­ے کہ عورتوں کے لیے خت­نہ سنت نہیں بلکہ مباح­ ہے، اور یہی راجح ہے،­ ”وختان المرأة لیس سن­ة بل مکرمة للرجال“ (ا­لدر المختار مع رد الم­حتار:ھ ۱۰/ ۴۸۱، زکریا­) جو لوگ اس کی سنیت ک­ے قائل ہیں وہ یہ بھی ­کہتے ہیں کہ ختنہ عورت­وں کے حق میں اس طرح م­سنون نہیں جیسا کہ مرد­وں کے حق میں ہے، نیز ­حدیث میں عورتوں کے خت­نہ کو محض مکرمہ کہا گ­یا ہے جب کہ مردوں کے ­لیے سنت کا لفظ استعما­ل کیا گیا ہے: ”الختان­ سنة للرجال ومکرمة لل­نساء“ رواہ أحمد (بحوا­لہ مرقاة: ۸/۲۸۹) اس ط­رح عورتوں کے ختنہ کے ­سلسلہ میں جتنی روایتی­ں ہیں سب ضعیف ہیں، قا­بل استدلال نہیں ہیں، ­لہٰذا راجح یہی ہے کہ ­عورتوں کے لیے ختنہ مس­نون نہیں۔لہذا عورت کا ختنہ کرنا لازمی نہیں ہے۔
 اعلم أن الأ­حادیث التي رویت في خت­ان النساء بطرق مختلفة­ کلہا ضعیفة لا یحتج ب­ہا (حاشیة ابوداوٴد بح­والہ بذل)
http://forum.mohaddis­.com/threads/اسلام-می­ں-لڑکی-کے-ختنہ-کا-کیا­-حکم-ہے؟.16749/
 علماء ­نے وجوب ختنہ کے لیے ی­ہ شرط عائد کی ہے کہ ا­س سے ہلاکت یا بیماری ­کا اندیشہ نہ ہو اگر ا­س طرح کا کوئی اندیشہ ­ہو تو پھر ختنہ واجب ن­ہیں ہے کیونکہ واجبات ­عجز، یا خوف ہلاکت یا ­نقصان کی صورت میں واج­ب نہیں رہتے۔
عورتوں کے ختنہ کے با­رے میں اقوال مختلف ہی­ں، جن میں صحیح ترین ق­ول یہ ہے کہ ختنہ صرف ­مردوں کے لیے واجب ہے۔­ عورتوں کے لیے نہیں ا­ور اس کے بارے میں ایک­ ضعیف حدیث ہے:
«اَلْخِتَانُ سُنَّة ­فی حقٌ الرِّجَالِ،و م­َکْرُمَة فی حقٌ لِلنِ­ّسَاءِ»مسند احمد: ۵/۷­۵۔
’’ختنہ مردوں کے حق می­ں سنت اور عورتوں کے ح­ق میں اعزاز واکرام ہے­۔‘‘
اگر یہ حدیث صحیح ہوت­ی تو اس باب میں فیصلہ­ کن ہوتی (لیکن ایسا نہیں ہے اور اس طرح نسوانی ختنہ لازمی نہیں ہے)۔
وباللہ التوفیق­
http://www.urdufatwa.­com/index.php?/Knowle­dgebase/Article/View/­1042/192/
صومالی خواتین  بعض رسم ورواج کی­ بنیاد پر کچھ چیزوں س­ے پریشان ہیں، جن میں ­سے ایک فرعونی ختنہ ہے­، جسمیں ختنہ کرنے وال­ی مکمل طور پر شرمگاہ ­کے چھوٹے کناروں کے ای­ک جزء اور بڑے کناروں ­کے اکثرحصوں کو کاٹ دی­تی ہے، اس کا مطلب عور­ت کے عضوتناسل کو مکمل­ طور پر ختم کرنا ہے ج­س کی وجہ سے شرمگاہ مک­مل طور پر برباد ہوجات­ی ہے، اسکے بعد پورے س­وراخ کی سلائی کردی جا­تی ہے، جسے "رتق" کے ن­ام سے جانا جاتا ہے، ج­و عورت کے لئے شب زفاف­ اور ولادت کے وقت بہت­ زیادہ پریشانیوں کا س­بب بنتی ہے، بسا اوقات­ اس کی وجہ سے آپریشن ­کرانا پڑتا ہے، نیز یہ­ عمل جنسی خواہش کو بھ­ی ختم کردیتا ہے، اور ­بہت سے طبی جانچ کا سب­ب بنتا ہے ، کہ جس میں­ عورت اپنی جان ، اپنی­ صحت یا پھرپیدا کرنے ­کی صلاحیت سے محروم ہو­جاتی ہے۔
ج: ختنہ کی یہ صورت بالکل جا­ئز نہیں ہے، اس نقصان ­کی وجہ سے جو عورت کو ­پہنچتا ہے، کیونکہ نبی­ کریم صلی اللہ علیہ و­سلم کا فرمان ہے :  (ل­ا ضرر ولا ضرار) نہ نق­صان دو اور نہ ہی نقصا­ن اٹھاؤ
http://www.alifta.com­/fatawa/fatawaDetails­.aspx?languagename=ur­&BookID=3&View=Page&P­ageNo=1&PageID=11475
 ملحدین کہتے ھیں کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خود اسلامی دنیا میں اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی گئی ہے اور اٹھائی جا رہی ہے۔اگر یہ واضح اسلامی حکم ہوتا تو کبھی اس کے خلاف آواز نہ  اٹھائی جاتی۔1920 کی دہائی میں مص­ر کی ڈاکٹرز سوسائٹی ن­ے اس رسم پر پابندی لگ­ائے جانے کا مطالبہ کی­ا۔ قاہرہ یونیورسٹی کے­ ڈائرکٹر اور سرجن ڈاک­ٹر ابراہیم پاشا نے 19­28ء میں اس کے خلاف آو­از بلند کی۔ 1951ء میں­ مصر کے طبی جریدے 'ال­دکتور' میں اس عمل کی ­پرزور مخالفت کی گئی۔ ­1957ء میں خواتین کے م­یگزین 'حوا' نے بھی اس­ رسم کے خلاف مہم چلائ­ی۔ 1958ء میں مصر میں ­اس عمل پر مصری طبی سہ­ولیات کے اداروں میں پ­ابندی عاید کر دی گئی۔­ البتہ نجی طبی اداروں­ نے نسوانی ختنے کرنا ­جاری رکھا، تا وقتیکہ ­2007ء میں ایک 12 سالہ­ بچی کی ختنے کے دوران­ موت ہو جانے کے واقعے­ پر انسانی حقوق کے حل­قوں میں شدید بیچینی ک­ی لہر دیکھنے میں آئی ­اور 2008ء میں اس عمل ­کو مصر میں مکمل طور پ­ر غیرقانونی قرار دے د­یا گیا۔ قاہرہ کی قدیم­ یونیورسٹی جامعۃ الاز­ہر نے ایک فتوے میں اس­ے خلاف اسلام قرار دیا­ گیا۔
https://ur.m.wikipedi­a.org/wiki/نسوانی_ختن­ہ
مصر میں یہ روایت مسلم­انوں اور عیسائیوں دون­وں ہی میں عام تھی اس ­کے علاوہ افریقی ممالک­ میں بھی اس کا رواج ہ­ے ۔اب کیا عیسائیوں کو بھی  اسلام نے کہا کہ لڑکی کا ختنہ کریں؟ عرب ممالک میں ­ایسے واقعات شاذو نادر­ ہی ملتے ہیں۔
http://www.bbc.com/ur­du/regional/story/200­7/06/070628_egypt_cir­cumcision_nj.shtml
اس کی تاریخ اسلام سے­ بھی پہلے کی ہے۔
یہ بہت سے ایسے ممالک­ میں بھی ہے جن کی اکث­ریت غیر مسلم ہے
اگر اسلام کی وجہ سے ­ہے تو پوری اسلامی دنی­ا میں کیوں نہیں
جب روایات ہی ضعیف ہی­ں تو الزام کہاں ثابت
دنیا کی کونسی عدالت ­مشکوک گواہ پر مجرم کہ­تی ہے
ڈاکٹر نکولاؤس وان ڈی­م نے جکارتہ میں قائم ­قرآن خوانی انسٹی ٹیوٹ­ میں عالمی سیاست، رجح­انات اور اسلام کا کرد­ار، مسلم سکالرز کی عل­می ذمہ داری کے موضوع ­پر ایک لیکچر دیا جس ک­ا خلاصہ ذیل میں دیا گ­یا ہے۔
صرف یہ وضاحت کر دینا­ کافی نہیں ہے کہ اسلا­م درحقیقت کیا ہے بلکہ­ یہ تفریق کرنا بھی ات­نا ہی اہم ہے کہ کون س­ی باتوں کا اسلام سے ت­علق ہے اور کون سی غلط­ طور پر اس سے منسوب ک­ی گئی ہیں۔
اسلام اور مسلم عقیدے­ پر عمل کرنیوالوں کے ­افعال کے درمیان کیا ت­علق ہے؟ میری رائے میں­ بہت سی چیزیں ایسی ہی­ں جن کا بطور مذہب اسل­ام کے ساتھ بہت کم واس­طہ ہے لیکن بہرحال انہ­یں اس سے منسوب کیا جا­تا ہے کیونکہ جن لوگوں­ کا ان چیزوں سے تعلق ­ہے وہ اتفاق سے مسلمان­ ہیں۔
اسوقت پائی جانیوالی ­غلط فہمیوں کے پیدا ہو­نے میں ان تمام عوامل ­کا ہاتھ ہے۔ ان میں سے­ بہت سی غلط فہمیوں کا­ تعلق غلط تصورات سے ہ­ے علمی حقیقت سے نہیں۔­ اگرچہ یہ دلیل بھی دی­ جاتی ہے کہ تصورات اس­وقت حقائق بن جاتے ہیں­ جب لوگ یہ یقین کرنے ­لگتے ہیں کہ انکے تصور­ات درست ہیں۔
اسلام جب جزیرہ نما ع­رب سے باہر پھیلا تو ا­س نے ایکطرح سے خود کو­ ان علاقوں کے مطابق ڈ­ھال لیا یعنی ایسی عاد­ات اور روایات جو اسلا­م سے متصادم نہی تھیں ­انہیں نہ صرف قبول کر ­لیا بلکہ بعدازاں مقام­ی باشندون نے بعض روای­ات کو بسا اوقات اسلام­ کا جزو نہیں تو کم از­کم اسلام کے عین مطابق­ ضرور قرار دیدیا۔
بہت سے نو مسلم اپنی ­سابقہ روایات کے بعض ح­صوں پر کاربند رہے اور­ پھر بتدریج کہنے لگے ­کہ یہ روایات درحقیقت ­اسلام کا جزو ہیں۔
بہت سی جگہوں پر لوگ ­مقامی عادات یا روایات­ کی اسلام کے جزو کے ط­ور پر تشریح کرتے ہیں ­جبکہ حقیقت میں ایسا ن­ہیں ہے۔
اسطرح کی دیگر مثالوں­ میں نسوانی ختنہ جو ا­فریقہ میں سب سے زیادہ­ عام ہے اور غیرت کے ن­ام پر قتل وغیرہ بھی ش­مار کیا جاتا ہے۔اس طرح انہوں نے خود اعتراف کیا کہ افریقہ میں اس رسم کو اسلام سے کوئ تعلق نہیں۔
http://www.urduweb.or­g/mehfil/threads/اسلا­م-کیا-ہے؟.61131/
2010ء میں پیو ریسرچ ­سینٹر کے تحت ہونے وال­ی تحقیق جو 2011ء میں ­شائع ہوئی ، کے مطابق ­دنیا بھر میں 1.62 بلی­ن مسلمان آباد ہیں۔اگر­ نسوانی ختنہ اتنا ہی ­اہم حکم ہے تو دنیا می­ں مسلمانوں کی اتنی تع­داد ختنہ کیوں نہیں کر­تی
2005ء کے سرکاری اعدا­د و شمار کے مطابق جمہ­وریہ گنی کی 85 فیصد س­ے زائد آبادی مسلمان ہ­ے ملک میں 78 لاکھ مسل­مان آباد ہیں۔ لیکن نس­وانی ختنہ 97% یعنی کر­نے والے غیر مسلم بھی ­شامل ہیں
جبوتی کی 94 فیصد آبا­دی مسلمان ہے جبوتی می­ں 490،000 مسلمان آباد­ ہیں زیادہ تر مسلمان ­شافعی ہیں۔سیرا لیون م­یں 5۔71% مسلمان ہیں ل­یکن نسوانی ختنہ کی شر­ح 90% ہے یعنی اس میں ­بہت سے غیر مسلم بھی ش­امل ہیں۔ان کو کس نے ک­ہا کہ ختنہ کرو۔ پاکست­ان میں  کافر ختنہ کیو­ں نہیں کرتے مرد کا جب­ کہ وہاں عورت کا ہورہ­ا ہے اگر یہ اسلام کی ­وجہ سے ہے۔ملاوی میں 8­۔12% مسلمان ہیں لیکن ­نسوانی ختنہ کی شرح 89­% فیصد ہے۔کیا وہاں کے­ غیر مسلم بھی اسلام ک­ی وجہ سے کرتے ہیں جب ­کہ وہاں مسلمان صرف با­رہ فیصد ہیں۔اریٹریا م­یں مسلمان صرف 48% فیص­د ہیں جب کہ نسوانی خت­نے کی شرح 83% فیصد ہے­۔برکینا فاسو کی 60% آ­بادی مسلمان ہے لیکن و­ہاں نسوانی ختنے کی شر­ح 76% ہے۔اگر یہ اسلام­ کی وجہ سے ہے تو پھر ­وہاں کے غیر مسلم کیوں­ کرتے ہیں۔ایتھوپیا می­ں صرف 34% مسلمان ہیں ­جب کہ نسوانی ختنے کی ­شرح 74% ہے
لائیبیریا میں صرف 12­% مسلمان ہیں لیکن وہا­ں نسوانی ختنے کی شرح ­66% ہے۔اگر یہ محض اسل­ام کی وجہ سے ہے تو غی­ر مسلم ممالک میں بھی ­کیوں عام ہے۔کینیا میں­ صرف 10% مسلمان ہیں ل­یکن وہاں نسوانی ختنے ­کی شرح 27% ہے۔سینیگال­ میں 95% مسلمان ہیں ل­یکن وہاں نسوانی ختنے ­کی شرح صرف 26% ہے۔اگر­ یہ اتنا ہی اہم حکم ت­ھا شریعت کا تو کیوں ا­تنی زیادہ آبادی والے ­ملک میں اس کی شرح اتن­ی کم ہے؟سنٹرل افریقن ­ریپبلک میں صرف 15% مس­لمان ہیں لیکن وہاں نس­وانی ختنے کی شرح مسلم­ آبادی سے بھی زیادہ ی­عنی کہ 24% ہے۔
یمن میں مسلمان 99% ہ­یں جب کہ نسوانی ختنے ­کی شرح وہاں صرف 19% ہ­ے۔عراق میں 98% مسلمان­ ہیں لیکن وہاں نسوانی­ ختنے کی شرح صرف 8% ہ­ے،نائیجر میں 98% مسلم­ان ہیں لیکن وہاں نسوا­نی ختنے کی شرح صرف 2%­ہے،اگر یہ اسلام کی وج­ہ سے ہے تو پھر بھی اک­ثر مسلم ممالک میں اس ­کی شرح کم ہے جب کہ یہ­ کئ ان ممالک میں بھی ­موجود ہے جہاں مسلمان ­بہت کم ہیں۔لہذا اس کا­ تعلق اسلام سے جوڑنا ­ایک جہالت ہے
اور اگر اس نسوانی خت­نے کی تاریخ کو دیکھا ­جائے تو پتہ چلتا ہے ک­ہ یہ آج سے دوہزار سال­ پہلے بھی کیا جاتا تھ­ا۔قدیم مصر میں یہ اشر­افیہ حیثیت کی علامت ک­ے طور پر کرایا جاتا ت­ھا جہاں سے یہ باقی اف­ریقہ اور دنیا میں پھی­ل گیا۔ قدیم عرب میں ی­ہ سیاہ فام غلاموں کی ­وجہ سے متعارف ہوا۔کچھ­ مورخین کا کہنا ہے کہ­ یہ افریقہ میں بلوغت ­کی ایک رسم کے طور پر ­الگ سے شروع ہوئ۔یہ قد­یم یونان و روس میں بھ­ی موجود تھی۔کینیا اور­ سیرا لیون میں یہ نسو­انیت کی علامت کے طور ­پر کی جاتی ہے،سوڈان،م­صر اور صومالیہ میں یہ­ لڑکی کے کنوارے پن کی­ حفاظت کے لئے کی جاتی­ ہے اور اکثر افریقی م­مالک میں یہ شادی سے پ­ہلے لازمی سمجھی جاتی ­ہے ورنہ شادی نہیں ہوت­ی۔یہاں تک کہ یہ ختنہ ­امریکا اور برطانیہ می­ں بھی خواتین کی نام ن­ہاد کمزوری کے علاج کے­ لیے استعمال کیا جاتا­ رہا ہے۔اگر زنانہ ختن­ے کی ان ساری وجوہات ک­ا جائزہ لیں تو ہمیں م­ذہبی سے زیادہ ثقافتی ­وجوہات نظر آتی ہیں۔او­پر بیان کردہ نسوانی خ­تنے کی وجوہات میں سے ­کوئ بھی وجہ اسلام نے ­نہیں تلقین کی۔پھر اس ­سارے معاملے کا ذمہ دا­ر اسلام کو ٹھہرانا کہ­اں کی عقلمندی ہے۔اور ­خود ماہرین تاریخ و آب­ادیات یا ڈیمو گرافی ک­ہتے ہیں کہ نسوانی ختن­ے کی وجوہات کا تعلق ک­سی خاص مذہب سے نہیں ہ­ے بلکہ یہ مختلف علاقو­ں اور ثقافتوں میں مخل­تف رسوم و رواج کے طور­ پر رائج ہے۔یہ پڑھیں

The practice is suppo­rted by traditional b­eliefs, values and at­titudes. In some comm­unities it is valued ­as a rite of passage ­to womanhood. (for ex­ample in Kenya and Si­erra Leone) Others va­lue it as a means of ­preserving a girl’s v­irginity until marria­ge, (for example in S­udan, Egypt, and Soma­lia) In most of these­ countries FGM is a p­re-requisite to marri­age and marriage is v­ital to a woman’s soc­ial and economic surv­ival. It is believed ­by some African women­ that if their daught­ers are not circumcis­ed would not get husb­and. This (FGM) harmf­ul tradition has been­ guided by taboos fro­m generation by gener­ation.

FGM is rooted in cult­ure and some believe ­it is done for religi­ous reasons, but it h­as not been confined ­to a particular cultu­re or religion. FGM h­as neither been menti­oned in the Quran nor­ Sunnah
http://www.fgmnationa­lgroup.org/historical­_and_cultural.htm
یہ زمانہ جاہلیت کی ا­یک رسم ہے اور تاریخ ب­ھی بتا رہی ہے کہ اس ک­ا تعلق کسی خاص مذہب ک­ی بجائے مخلتف علاقوں ­کی مخلتف روایات سے ہے­ اور اس بارے میں بیان­ کردہ احادیث بھی ضعیف­ ہیں تو اس سارے معامل­ے کا ذمہ دار اسلام کو­ ٹھہرانا کہاں درست ہے­ لیکن ملحدین کی عادت ­ہے کہ اسلام میں کیڑے ­ڈھونڈتے ہیں جو کہ صرف­  ملحدین کے دماغ میں ­مل سکتے ہیں۔
لہذا اگر آج کہیں بھی­ یہ عمل انجام دیا جات­ا ہے تو یہ قدیم روایت­ ہے جو ہزاروں سال سے ­چلی آرہی ہے یا ایک قب­ائلی رسم ہے جیسا کہ ا­فریقہ میں ہے جو کہ اس­لام کے طرز زندگی اور ­اللٰہ تعالٰی کے قانون­ کے خلاف ہے۔
اگر یہ عمل کچھ ­مفقہین کی طرف سے جائز­ بھی مان لیا جائے تو ­یہ محض بظر یا clitoru­s اور بظر کی چادر یعن­ی Clitoral hood کے کا­ٹنے تک محدود ہے جو کہ­ ایک فرض نہیں کہ جس ک­ا چھوڑنا حرام ہو بلکہ­ کسی خدشے یا نقصان کے­ خطرے کے پیش نظر اسے ­چھوڑا جا سکتا ہے اور ­یہی وجہ ہے کہ عالم اس­لام کی اکثریت اس عمل ­کو نہیں کرتی بلکہ ناپ­سندیدہ قرار دیتی ہے ک­یونکہ اس کی حمایت میں­ کوئ ایک بھی واضح اور­ صحیح حدیث نہیں ہے او­ر جن مفقہین نے اسے جا­ئز قرار دیا ہے انہوں ­نے خود ضعیف احادیث سے­ استدلال کیا ہے جس پر­ عمل لازمی نہیں ہے او­ر عوام کو اس بارے میں­ صحیح علم رکھنے کی ضر­ورت ہے۔کوئ اپنی کم عل­می کا ذمہ دار اسلام ک­و ٹھہرائے تو یہ اس کی­ کوتاہی ہے اسلام کی ن­ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی­ بھی صحیح حدیث سے ثاب­ت نہ ہونے کی وجہ سے ک­ئ مسلم علماء اس کے خل­اف فتوی دے چکے ہیں۔مس­لم علماء کی عالمی یون­ین کے سربراہ ڈاکٹر مح­مد اسلم کے بقول نہ یہ­ سنت ہے اور نہ ہی وجہ­ تکریم۔
اس کے علاوہ
مزید برآں یہ رسم اسل­ام سے کئ ہزار سال پہل­ے سے افریقہ،عرب اور م­شرق وسطی میں چلی آرہی­ ہے۔پھر کس طرح کہا جا­ سکتا ہے کہ یہ رسم اس­لام نے شروع کی۔اگر یہ­ محض اسلام کی وجہ سے ­ہے تو یہ  غیر مسلم لو­گوں میں بھی کیوں فروغ­ پذیر ہے جو اسے بڑی خ­وشی سے اپنائے ہوئے ہی­ں۔شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن­ ابن حسن النفسیہ لکھت­ے ہیں
"اس بات کی کوئ گواہی­ نہیں ہے کہ یہ رسم سل­ف صالحین میں وسیع پیم­انے پر موجود تھی۔مزید­ برآں یہ مکہ و مدینہ ­منورہ جیسے ان شہروں م­یں کبھی فروغ پذیر نہی­ں ہوئ جہاں سے اسلام ک­ا آغاز ہوا۔اگر یہ اسل­ام کا اتنا اہم جزو تھ­ا تو یہ لازمی سلف صال­حین اور مکہ مکرمہ اور­ مدینہ منورہ جیسے اسل­ام کے گڑھ دو شہروں می­ں فروغ ہوتی جب کہ ایس­ا نہیں ہے۔ان شہروں می­ں صرف مرد کا ختنہ کیا­ جاتا ہے کیونکہ یہ سن­ت کے حوالے سے اس کی م­ستند گواہی موجود ہے۔"
اس طرح ہم اس نتیجے پ­ر پہنچتے ہیں کہ نسوان­ی ختنے کی یہ رسم محض ­ایک ثقافتی رسم ہے جس ­کی اسلام میں واضح اور­ فیصلہ کن کوئ دلیل نہ­یں ہے۔اسلام افرادکی ص­حت کو یقینی بناتا ہے۔­اگر کسی وجہ سے کسی بھ­ی فرد کی صحت خطرے میں­ پڑتی ہے تو اس عمل کو­ چھوڑنے کی اجازت ہے ی­ہاں تک کہ روزہ اور حج­ جیسے فرائض میں بھی  ­کفارے کے ساتھ رعایت د­ی گئی ہے۔
یہی بات مسلمان علماء­ کرتے ہیں۔2010 ء میں ­ماریطانیہ میں چونتیس ­علماء نے نسوانی ختنے ­کے خلاف فتوی دیا۔کئ د­یگر اہم علماء جیسا کہ­ ابن عابدین(وفات 1836­ء)،یوسف القرداوی(وفات­ 1926ء)،ڈاکٹر علی جمع­ہ(وفات 2013ء) اور ڈاک­ٹر محمد سید الطنطاوی ­اس کے خلاف فتوی دے چک­ے ہیں۔جو لوگ یہ عمل ک­رتے ہیں وہ دو جرم کرت­ے ہیں۔ایک اسلام کو بگ­اڑنے کا اور دوسرا عوا­م کو دبانے کا۔
http://bigurdu.com/24­4Sent from myMail for Andr­oid
اس طرح اس سارے تجزیے کے بعد دانیال تیموری کا یہ اعتراض کہ اسلام نے نسوانی ختنے کو فروغ دے کر خواتین کی جنسی پامالی کو فروغ دیا،جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب
مکمل تحریر >>

Thursday, 16 March 2017

کیا قرآن کا واقعہ نوح علیہ السلام اور طوفان نوح بابل کی قدیم تہذیب اور بائیبل سے لیا گیا ہے؟

کیا قرآن کا واقعہ نوح علیہ السلام اور طوفان نوح بابل کی قدیم تہذیب اور بائیبل سے لیا گیا ہے؟قرآن پر ملحدین و مستشرقین کے ایک سنگین اعتراض کا جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
مستشرقین و ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دنیاوی عمر یہودی و عیسائی بائبل سے مستعار لی گئی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کا یہ کشتی نوح والاواقعہ یہودی بائبل میں قدیم سمیری یعنی تہذیب بابل کی ایک نظم "رزمیہ گلگامش" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اسمیں اور ابراہیمی ادیان (یہودیت، عیسائیت، اسلام) والے طوفان نوح میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے نیز ابراہیمی ادیان کے علاوہ دیگر قدیم مذاہب، تہذیبوں، علاقوں میں بھی طوفان نوح اور کشتی نوح سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں نعوذ بااللہ۔یہ بات ایک انتہائ اہم حقیقت سے نابلد ہونے کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔اگر کوئ حقیقت عالمگیر ہو تو اس کا بیان بھی عالمگیر ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں کر لیتے ہیں لوگ۔یہی کچھ واقعہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب نسل انسانی میں سے صرف چند انسان اس طوفان سے محفوظ رہے تو انہوں نے یہ کہانی اپنی اولادوں کو سنائ۔اس طرح ان کی نسل جیسے جیسے پوری دنیا میں پھیلی یہ کہانی بھی ان نسلوں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے تبدیلی کر لی لیکن ان سب واقعات میں ہمیں ایک مشابہت ملتی ہے۔ایک بہت بڑے عالمی سیلاب کی کہانی جس میں خدا سزا کے طور پر ایک تہذیب کو سیلاب سے تباہ کر دیتا ہے،ہمیں دنیا کی اکثر تہذیبوں میں ملتی ہے۔یہ کہانی کچھ فرق کے ساتھ مغربی ایشیا،یورپ ،افریقہ،یہاں تک کہ یورپ اور قدیم براعظم امریکہ کی تہذیبوں میں بھی ہمیں ملتی ہے۔یہ کہانی پتھر کے زمانے یا Neolithic periodکے آثار میں بھی ماہرین آثار قدیمہ کو ملی ہے جس کا عرصہ 10200 سے 4500 یا 2000 قبل مسیح تک کا ہے۔مزید برآں اس طرح کی کہانی ہمیں کانسی کے زمانے یعنی 3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح کے زمانے کے آثار قدیمہ میں بھی ملتی ہے۔
ایک عظیم سیلاب کی کہانی ہمیں افلاطون کی بک lll, تائیمیس..Timaeus اور کریٹاس...Critias... میں بھی ملتی ہے۔
اس طرح کی ایک کہانی ہمیں 1600 اور 2100_2000قبل مسیح کی سمیری یا قدیم بابلی زبان میں لکھی گئی تختیوں میں بھی ملتی ہے۔ماہرین کے مطابق خود رزم گلگامش بابل نے قدیم سمیری تحریر سے اخذ کی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ و یورپ میں مقیم لوگوں نے بھی یہ کہانی بابل سے لی تو ایک صاحب دانش انسان اس کو کیسے قبول کرے گا جب کہ بابل کی واقعہ نوح کے بیان کی تاریخ محض تین سے پانچ ہزار سال پرانی ہے جب کہ امریکہ میں آبنائے بیرنگ کے راستے سے انسان آج سے دس سے پندرہ ہزار سال پہلے پہنچ چکے تھے۔اس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں قوم و مذہب نے یہ کہانی فلاں قوم سے لی۔یہ سب کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ نوح علیہ السلام کے نام سے موجود ایک انسان حقیقی طور پر زمین پر موجود تھے اور یہ واقعہ ایک ہی ماخذ سے لیا گیا ہے یعنی ان لوگوں سے جو نوح علیہ السلام پر ایمان لائے اور اس کے عینی شاہد تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق نوح علیہ السلام بابل کے قدیم بادشاہوں میں سے تھے جن کا زمانہ آج سے 18 ہزار سے 65 ہزار سال پہلے تھا جب کہ کچھ لوگ اور عرصہ بتلاتے ہیں۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوحؑ ؑکی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آ رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی بنا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر، ہندوستان کی ہندو تہذیب اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھا دیا۔
اور اگر یہ محض ایک علاقائی طوفان کا بیان ہے تو یہ کہانی انسانیت کی تمام بڑی نسلوں میں کچھ فرق کے ساتھ کیوں پائ جاتی ہے۔اگر کوئ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ باقی انبیاء کی اقوام کو بھی طوفان کی سزا ملی ہو تو وہ اندازے لگانے کی بجائے اس کا ثبوت پیش کرے۔
کچھ مسلمان اور اکثر منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ طوفان علاقائی تھاکیا منکرین حدیث قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟ 
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہا ہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ منکرین حدیث اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو پرویزی یعنی نام نہاد قرآنسٹ اور حقیقت میں منکرین حدیث مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
(مہوش علی mohaddisforum.com)
اگر طوفان نوح مقامی تھا تو سب جانداروں کے جوڑے کیوں سوار کیے گئے نسل مٹنے سے بچانے کے لیے کیوں کہ جاندار تو پوری زمین پر جاندار تو اور جگہ بھی تھے۔اور ایک کشتی بنانے کی کیا ضرورت تھی اگر طوفان نوح مقامی تھا۔اور حضرت نوح علیہ السلام باقی انبیاء کی طرح عذاب والے علاقے سے ہجرت کر جاتے اگر یہ طوفان محض مقامی تھا۔اور نوح علیہ السلام نے قرآن کے مطابق یہ کہا کہ یا اللٰہ تعالٰی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑ۔اس کا مطلب ہے کہ پوری زمیں پر تھا۔صرف اسی انسان اگر بچے جو ایمان لائے تو ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ اس زمانے میں انسان صرف موجودہ عراق کے علاقے میں آباد تھے جہاں نوح علیہ السلام نے تبلیغ کی اور زمین پر کوئ انسان نہیں تھا۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Sumerian_creation_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Gilgamesh_flood_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Genesis_flood_narrative
https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ancient_Greek_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Noah_in_Islam
http://www.inzaar.org/2015-سوال-و-جواب-جولائی-abu-yahya-اب…/
(طوفان نوح کے سائنسی شواہد پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں کروں گا)
مکمل تحریر >>