Monday 27 November 2017

مولوی.... مولوی ... مولوی


مولوی.... مولوی ... مولوی
ناچ گانے والے مراثیوں اور دو تین سو کی چهوٹی پهٹی تنگ شرٹ اور پهٹے ٹائٹ پاجامے پہن کر` موم بتی مافیا سے منسلک اور وومن رائٹس کے نام پر چندہ لے کر فیشن شو کرنے والی چولوں اکا کہنا ہے کہ
ملک کی تمام تر بربادیوں کا زمہ دار مولوی ہیں

ان کی اسی بات کو سنجیدہ لے کر میں نے ایک تحقیق کی
اور اس نتیجے پر پہنچا

بالی وڈ میں جا کر نیم ننگے لباس پہننے کا کس مولوی نے کہا ؟
جن ایکٹروں کو ملک کا سرمایہ سمجهتے ہو ؟
کیا کسی مولوی نے کہا.....( خدا کی قسم وہ لفظ بهی نہیں لکه سکتا ) کیا وہ سب کسی مولوی نے کہا؟
کہ جاؤ پیسہ کماؤ اور ملک کا نام روشن کرو اور
کہ ایسے بیہودہ کمرشل بناؤ جو فیملی کے ساته بیٹھ کر نہ دیکهے جا سکیں
یعنی ایک طرف پیسوں کے لئے اپنی عزت بیچنے والی کو اور ملک کو بدنام کرنے والیوں کو معزز کہا جارہا ہے، فرق کیا ہے ان میں اور طوائفوں میں ؟``

مدرسوں کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہنے والے دجالو ،
کراچی میں جو نویں جماعت کے  بچوں نے  محبت کے نام پرخود کشی کی تهی
وہ کس مدرسے میں پڑهتے تهے ؟ انہیں کس مولوی نے مشورہ دیا یہ سب کرنے کا ؟

ناچ ناچ کر  موبائل ،دودھ،تیل ،کریمیں ،شیمپوں بیچنے والوں اب جواب تو دو-
علماء چاہے کوئی بهی ہو ان پر اعتراض کرنے والوں --ہے کسی کے پاس جواب ؟

پاکستان کے صدر، وزیراعظم، پولیس ، جج،وکیل، ،اور باقی سب سیاستدانوں نے کس مولوی سے تربیت حاصل کی ؟
کس مدرسے میں پڑهتے رہے یہ سب ؟

پی آئی اے، واپڈہ، پی ٹی سی ایل،اور اسٹیل ملز کے ڈرائیکٹر کیا ہمیشہ سے مولوی ہی رہے ہیں ؟؟

میڈیا کی فحاشی صبح صبح ناچ گانا (کنجرخانہ ) کو کیا مولوی کنٹرول کرتے ہیں ؟

مولوی مولوی مولوی

جب پیدا ہوئےبتو ازان دے مولوی
نکاح پڑهائے مولوی
قبر تک لے کر جائے مولوی
جنازہ پڑهائے مولوی
اور پهر بهی غلط مولوی

میوزک کو روح کی غذہ سمجهنے والو
جب تم میں سے کسی کی ماں یا باپ مر جاتا ہے تو کسی مراثی کو بلوا کر ڈهول کی تهاپ پر ناچ کر روح کو سکون کیو نہیں پہنچاتے ؟ تب مولوی کو کیوں بلاتے ہو؟؟؟

کسی مولوی نے آج تک خود کشی نہیں کی
کوئی مولوی نیند کی گولی کها کر نہیں سوتا
مولوی کبهی تنخواں بڑهانے کے لئے بهوک ہڑتال نہیں کرتا
مولوی ہماری آخرت کا سامان مہیا کرتے ہیں
معاشرے میں سب سے کامیاب ازدواجی زندگی مولوی گزارتے ہیں

کوئی مولوی اپنے مدرسے میں ڈانس پارٹی گانو کا مقابلہ نہیں  رکھتا-  الله کا ذکر اور دینی علوم سکھاتا ہے

کچھ لبرل  اورNGO   کے کہنے پے سب مولوی کو برا نہ کہو, یہ مولوی ہی ہےجنہوں   نے نامؤس رسالت پے جانیں دیں ہیں قادیانی کو کافر قرار دیا - پڑھے لکھے ہونے کا کوئی فائدہ نہی اگر ناموس رسالت کا تحفظ نہی کرنا

مجھے ہر وہ مولوی ہر وہ ماں پسند ہے جو میرے آقا ﷺ  کی ناموس کی حفاظت کی تعلیم دے-

طالب دعا: سالار سکندر
مکمل تحریر >>

*ولی خان یونیورسٹری میں قتل کے حقائق*


*ولی خان یونیورسٹری میں قتل کے حقائق*

بنا کسی تمہید کے حقائق کی طرف آتا ہوں, ولی خان یونیورسٹری مردان میں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان ولد اقبال شاعر صوابی کا رہنے والا تھا اور اسکا تعلق یوسفزئی قبیلے سے تھا-! مقتول ولی خان یونیورسٹری میں جنرزلزم اور ماس کمیونیکیشن کا طالب علم تھا---! جبکہ اس نے پشاور سے پری انجیرئنگ میں انٹر بھی کر رکھا تھا اور سیول انجیرئنگ کی تعلیم کیلئے روس میں بھی اسکا قیام رہ چکا ہے-!
یہ تو تھیں مقتول کی بنیادی معلومات, اب آتے ہیں حقائق کی طرف-----! جب اس قتل کی خبر بریک ہوئی کہ ایک نہتے شخص کو درجنوں طلباء نے بے دردی سے قتل کردیا اور جب ویڈیو دیکھی تو مجھے بھی اس خون ناحق پر بڑا رنج ہوا-! لیکن پھر یہ بات سامنے آئی کہ قتل کی وجہ مبینہ گستاخی ہے----! اور اسکے فورا بعد بھانت بھانت کے دانشوران, سرخوں, لبرلوں, لبرل مولویوں, قوم پرستوں, سیکولرز اور ملحدین نے برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرٹر لگا کر مقتول کی وکالت شروع کردی, اس قتل پر نوحے پڑھنے شروع کر دئے-! یہ سب دیکھ کر میرے کان کھڑے ہو گئے کہ لالے, سین گڑبڑ-! یہ اتنے شیطان مل کر جس کی حمایت کریں وہ فرشتہ نہیں ہو سکتا---!
بہرحال, جیسے جیسے تحقیق کرتا گیا, حقائق سامنے آتے گئے جنہیں آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
"مقتول اے این پی کی طلباء تنظیمPSF (پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن) کا کارکن تھا اور نظریاتی طور پر انتہائی متعصب قوم پرست اور کمیونسٹ تھا, یہ نوجوان ملحد تھا, مذھب سے اسکا لگاو روس میں تعلیم کے دوران ہی ختم ہو گیا تھا, اکثر اسلام کے خلاف گستاخانہ ریمارکس پاس کرتا تھا جب کہ اسلام پسند طلباء کو چڑانے کیلئے خدا کی ذات کا انکار کرتا اور کئی بار خود کو "خدا"بھی کہہ چکا تھا-!
یونیورسٹری میں چرس اور شراب نوشی کیلئے مقتول مشہور تھا, ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اسکے باپ نے اس کی بے مذہبی و بے راہ روی سے تنگ آکر اسے گھر سے نکال دیا تھا جبکہ وہ چھپ چھپ کر ماں سے ملنے جاتا تھا-! یہ بات کنفرم ہوئی ہے کہ مشال خان کے پاس ہر وقت 40سے 50ہزار کیش رہتا تھا اور وہ اس ہی حساب سے عیاشی بھی کرتا تھا جبکہ مقتول نہ تو کوئی لینڈ لارڈ تھا نہ ہی کوئی نوکری وغیرہ کرتا تھا جبکہ گھر سے اسکا خرچہ پانی ایک عرصے سے بند تھا-!
کنفرم اطلاعات کے مطابق مشال نے جنرلزم ڈیپارٹمنٹ کے 2ساتھی طلباء عبداللہ اور زبیر کی ساتھ مل کر اسلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدترین گستاخی کی جس پر طلباء نے یونیورسٹری انتظامیہ کو اس واقعے کی شکایت کی جس نے کل بروز جمعرات, مورخہ 13اپریل کو نوٹفیکیشن کے ذریعے ان تینوں طلباء پر لگائے گئے الزام کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا اور اس کمیٹی کے فیصلے کے آنے تک تینوں کے یونیورسٹری میں داخلے پر پابندی لگا دی-!
مگر مشال اور اسکا ساتھی عبداللہ طلباء تنظیمPSF کے مقامی عہدے دار کی شہہ پاکر نوٹفکیشن جاری ہونے کے کچھ ہی دیر بعد طلباء کو چڑانے یونیورسٹری پہنچ گئے اورPSF کے کارکن طلباء کے ساتھ مل کر ہوٹنگ کرنے لگے جس پر پہلے سے مشتعل طلباء نے انکو گھیر لیا, اس دورانPSF کے کارکنان کھسک گئے اور پھر جو ہوا وہ سب نے دیکھا"----!

==================================

یہ ہیں وہ حقائق جو میں نے حاصل کئے-! اب اسکے بعد بھی اگر کوئی قانون کو روتا ہے تو میری طرف سے وہ جائے بھاڑ میں---! اسلام پسندوں نے پہلے قانونی کاروائی ہی کی لیکن مقتول کے مشتعل کرنے پر یہ سب ہوا-! ویسے, قانون کا ریپ تو روز ہی ہوتا ہے----! ایک اور بار ہوگیا تو کیا غضب ہوگیا-!
یہ خنزیر گستاخ رسول, گستاخ اسلام, ناصبی, کمیونسٹ اور وطن دشمن تھا اور واجب القتل ہی تھا-----! ہاں, یہ بات بجا ہے کہ سزا دینا عدالتوں کا کام ہے لیکن, اگر عدالتیں اپنا کام کرتیں تو لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہی نہ----!

والسلام

مکمل تحریر >>

مشال خان کی ہلاکت ۔ ایک تجزیہ


مشال خان کی ہلاکت ۔ ایک تجزیہ

تحریر :محمّد سلیم

قارئین ! کل ایک اندوہناک واقعہ ہوا جس کی اب کوئی بھی توضیح پیش کی جائے کافی نہیں ۔ جو ہوا وہ کیوں ہوا کوئی نہیں جانتا مگر لوگوں کو اس معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کر ڈالنے  کی حوصلہ افزائی کس نے کی ۔ یہ ہم سب کو پتہ ہے ۔
ہم "بھینسا"پیج اور گستاخ بلاگرز کی کی گئی گستاخیوں کے گواہ ہیں مگر عدم ثبوتوں کی بنیاد پر ان کا کچھ نہ بگاڑ پائے ۔ ہم ایاز نظامی کے خلاف بھی گواہ ہیں ۔ مگر ہم میں سے کسی ایک کے پاس بھی ایاز نظامی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ۔
سوال یہ نہیں کہ جن لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کر مشال خان کو اس کی گستاخی پر خود سزا دے دی ان کو یہ حق کس نے دیا ۔ سوال یہ ہے کہ فیس بک پہ ہونے والی گستاخیوں پر ایکشن لینا کس کا کام ہے اور وہ اس کام میں کس حد تک کامیاب ہیں ۔
میں اپنی مثال دیتا ہوں ۔
اگر آج غلام رسول یا سید امجد حسین یا ان کے گروپ کا کوئی شخص مجھے اصل زندگی میں مل جائے تو مجھے کیا کرنا چاہئے ۔
دو راستے ہیں میرے پاس ۔
پہلا اسے پکڑ کر قانون کے حوالے کرنا اور پھر عدالت کو ان کے خلاف ثبوت پہنچانا ۔ کیوں کہ ہمارے ہاں تحقیق کرنا اداروں کی دردِ سر نہیں ہے ۔ جو بولے وہی کنڈی بھی کھولے ۔ آپ نے الزام لگایا اب ثبوت بھی آپ ہی لے کر آئیں ۔ اب آپ لاکھ اسکرین شاٹس لے جا کر دکھائیں ۔ عدالت کے نزدیک ان ثبوتوں کی کوئی وقعت نہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص میرے سامنے توہین کرے اور عدالت میں جا کر مکر جائے ۔ ایسی صورت میں کیا ہو گا ؟
دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان تمام جھنجٹوں سے بچ کر میں اپنی گواہی پر اپنے ﷲ کو گواہ بناؤں اور اسے جہنم رسید کر دوں ۔ چونکہ میرے پاس کوئی گواہ نہیں لہٰذا عدالت بدلے میں مجھے پھانسی دینے کا حق رکھتی ہے تو دیتی رہے ۔ میں اس حق کا انکار نہیں کرتا ۔
میرے نزدیک توہینِ رسالت کے کیس میں کسی کو مار کر پھانسی پہ چڑھ جانا گھاٹے کا سودا نہیں ۔ مگر عدم ثبوتوں کی بنیاد پر توہین پر خاموشی ایک بھیانک جرم ہے ۔
میں نے مشال خان کی وال اور اس کے پیج کا ہر زوایئے سے تجزیہ کیا ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ اس شخص کی پوسٹس 2016اور 2017میں الحادی فکر میں تبدیل ہو چکی تھیں ۔
2015 تک کی اس کی پوسٹس ملی جلی ہیں ۔ یعنی اس میں اس نے مسلمانوں کے کسی برے عمل کی اصلاح کے لئے انہی کے نبی کی کہی ہوئی حدیثوں کو بطور دلائل بھی پیش کیا ہے ۔ اس سے یہ تو نہیں ثابت ہوتا کہ 2015تک وہ مسلمان تھا ۔ مگر یہ ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسلام مخالف نہیں تھا ۔
اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ وہ پہلے قادیانی رہا ہو اور بعد میں ملحد ہو گیا ہو ۔ کیوں کی اس کی پوسٹس میں کئی جگہ قادیانیوں سے ہمدردی کے تاثرات پائے گئے ہیں ۔
اگر اس کے افکار کا جائزہ لیا جائے تو جس قسم کے ایک ملحد کے افکار ہوتے ہیں ویسے ہی اس کے بھی تھے ۔
انسانیت کو آڑ بنا کر مذہب کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ۔
اس کی پسندیدہ شخصیات میں وہ تمام لوگ شامل تھے جو ہماری ناپسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں ۔ یہاں تک کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بھی مداح تھے ۔ ان کی پاکستان سے زیادہ ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں ۔
مسلمانوں سے زیادہ ہمدردیاں قادیانیوں کے ساتھ تھیں ۔
ان کی پوسٹ پر توہین سے متعلق مواد بہت کم ہے ۔ یہ کام زیادہ تر پشتو کمنٹس میں ہوا ہے ۔ مگر پوسٹس سے یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ ان پر جو توہین کا الزام لگا وہ اتنا عجیب بھی نہیں ۔
ہم بھی عجیب قوم ہیں ۔ ایک طرف ایاز نظامی کو لٹکانے کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے خلاف ہمارے پاس صرف گواہ ہیں ثبوت کوئی نہیں ۔ اور دوسری طرف مشال خان کے قتل پر گواہوں کی اہمیت کو رد کر کے ثبوت کا تقاضا کر دیتے ہیں ۔
کچھ عرصہ پہلے تک مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ کوئی ملحد ضروری نہیں کہ شاتم بھی ہو ۔ وہ انتہائی شریف بھی ہو سکتا ہے ۔ مگر اس سلسلے کی پہلی چوٹ ہمیں اس وقت لگی جب ایک ملحد دانش مسعود جسے ہم شریف ملحد سمجھا کرتے تھے کسی مسلمان سے بدلہ لیتے ہوئے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی شان میں بدترین گستاخیاں شروع کر دیں اور شرافت کا لبادہ اتار پھینکا ۔
دوسرا تجربہ کل ہو گیا جب دل آرام نے بھی اس واقعے کے ردِ عمل کے طور پر اپنے زہریلے دانت ظاہر کر دیئے ۔ دل آرام کے متعلق بھی پرسوں تک میری یہی رائے تھی کہ یہ توہین پر یقین نہیں رکھتی ۔
مگر ملحد ہو
اور توہین رسالت نہ کرے ؟
ملحد ہو
اور خدا کی توہین نہ کرے ؟
ملحد ہو
اور ہم جنس پرستی کی بات نہ کرے ؟
ملحد ہو
اور بھارت نواز نہ ہو ؟
ملحد ہو
اور پاکستان سے نفرت نہ کرتا ہو ؟
ملحد ہو
اور اسے مولوی فوبیا نہ ہو ؟
ملحد ہو
اور جنت کا مذاق نہ اڑائے ؟
ملحد ہو
اور شرمین عبید چنائے کا فین نہ ہو ؟
ملحد ہو
اور داڑھی سے نفرت نہ کرے ؟
ملحد ہو
اور پردے سے نفرت نہ کرے ؟
ملحد ہو
اور انسانی ہمدردی کی آڑ میں اسلامی شعائر کا مذاق نہ اڑاتا ہو ؟
ملحد ہو
اور عرب معاشرے پہ فقرے نہ کستا ہو ؟

یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
اسکرین شاٹ جو کہ کل تک کم از کم فیس بک پر تو کافی شافی ثبوت سمجھے جاتے تھے اب نہیں سمجھے جا رہے ۔ لہٰذا لنکس دے رہا ہوں تاکہ کم از کم اتنا سمجھ آجائے کہ وہ کس ذہنیت کا انسان تھا اور اس پر جو الزام لگایا گیا وہ اتنا عجیب نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے ۔ کمنٹس بھی پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ اس کو ان پوسٹس کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ پوسٹس پرانی ہیں اور سب کے علم میں تھیں ۔ قتل کی وجہ یقیناً کسی کے سامنے غصے میں کوئی ایسا ہذیان بکنا رہا ہوگا جس کا اب کوئی ثبوت نہیں اور جس نے یونیورسٹی کے پڑھے لکھے لڑکوں کو اشتعال دلایا ۔ باقی ﷲ بہتر جانتا ہے ۔
اسکرین شاٹ صرف ایک ہی دوں گا جس میں موصوف نے ایک ایسی سچی بات کہہ دی جس کی بھینٹ وہ خود چڑھ گئے ۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

شرمین عبید چنائے سے ہمدردی

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1253821561352846&id=100001750413725

ہم جنس پرستی کو برا نہ سمجھنا
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1240141472720855&id=100001750413725

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1561153824176503&substory_index=0&id=1439132929711927

داڑھی فوبیا
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1179798392088497&id=100001750413725

نریندر مودی سے محبت

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1079763618758642&id=100001750413725

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1607743379517547&substory_index=0&id=1439132929711927

انسانی ہمدردی کی آڑ میں حج اور دیگر اسلامی شعائر کا مذاق
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1070924422975895&id=100001750413725

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1578763412415544&substory_index=0&id=1439132929711927

عرب معاشرے سے نفرت
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1062254537176217&id=100001750413725

خدا کی توہین
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1030915733643431&id=100001750413725
پھر اس پوسٹ کے کمنٹس میں ان کی گفتگو ان کے مذہب مخالف جذبات کی عکاسی کرتی ہے ۔
کہتے ہیں ۔
We janat sa day? Muqadasa ayashi da
ترجمہ : جنت کیا ہے ؟ مقدس عیاشی ہے ۔

بھارت سے ہمدردی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1000928876642117&id=100001750413725

میرا مذہب انسانیت ہے ۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=999560776778927&id=100001750413725

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1617956301829588&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1563309977294221&substory_index=0&id=1439132929711927

ملحد تنظیموں سے تعلقات
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=968824733185865&id=100001750413725

قادیانیوں سے ہمدردی
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1610646449227240&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1539252499699969&substory_index=0&id=1439132929711927

مذہب کے خلاف رائے توہین نہیں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1607754789516406&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1549507028674516&substory_index=0&id=1439132929711927

شعوری طور پر غلامی کرنا
کسی آگ میں جلنے سے زیادہ مشکل
کام ہے
مذہب مخالف سوچ
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1562047437420475&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1539300819695137&substory_index=0&id=1439132929711927

علماء کرام پہ طنز
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1559562927668926&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1584673141824571&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1549368625355023&substory_index=0&id=1439132929711927

منٹو کی فکر
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1647126545579230&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1591262034499015&substory_index=0&id=1439132929711927

پردے کے متعلق سوچ

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1586257181666167&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1544947405797145&id=1439132929711927

پاکستانیوں پر طنز

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1548042195487666&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1547117242246828&substory_index=0&id=1439132929711927

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1537998693158683&substory_index=0&id=1439132929711927



اسلام آباد کا جج(شوکت صدیقی) چیخ چیخ کر اور رو رو کر حکومت کو خبردار کر رہا تھا کہ اگر توہین رسالت کا مقدمہ عوام کی عدالت میں چلا گیا تو ملک میں تباہی آجایئگی۔ کسی ریاستی ادارے کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ الٹا گستاخانہ پیجز چلانے والوں کو خاموشی سے، سرکاری خرچے پر پروٹوکول دے کر یورپ فرار کرایا گیا ۔ اب مردان جیسے واقعات نہ ہو تو اور کیا ہو۔



عیسائی اگر لاہور میں قصور کے بے قصور حافظ قرآن کو خودکش بمبار ہونے کے شک میں مار کر جلادیں اور جلی ہوئی لاش لٹکا کر نعرے لگائیں تو نہ فرنود عالم کا دل ٹوٹتا ہے نہ انعام رانا کا بلڈ پریشر کم  ہوتا ہے
عراق و شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دئے جائیں تو نہ انسانی حقوق عاصمہ جہانگیر کو یاد آتے ہیں نہ پرویز ہود بائی کی سائنسی ترقی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
ویلنٹائین ڈے کے نام پر جب کلمہ چوک لاہور میں مسلمانوں کی  با پردہ بیٹیوں کی سر عام تذلیل کی جاتی ہے تب نہ ماروی سرمد کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں نہ فرزانہ باری کا شوگر لیول لو ہوتا ہے
ڈیرہ غازی خان کے مرکزی بازار میں پورا جلوس حافظ عبداللہ کو اینٹیں مار مار کر قتل کرکے آگ لگا دے  تو  نہ حنیف ڈار کو موشن لگتے ہیں نہ وجاہت مسعود کو
لیکن  مردان کے واقعے پر ان بیچاروں کا یہ حال ہے کہ شلوار پہنتے نہیں اور اگلا مروڑ در آتا ہے اللہ آپکی حالت پر رحم فرمائے۔۔۔
صرف پوسٹ نہ لکھیں بلکہ  اس کے ساتھ ساتھ صبح و شام فلیجل بھی استعمال کریں  موشن سے افاقہ ہوگا😕
مکمل تحریر >>

بل گیٹس کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن لوگوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے علاوہ ایک ایسے بینک میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے جہاں دنیا کا کوئی ارب پتی بھی اپنا اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا۔



بل گیٹس کی بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن لوگوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے علاوہ ایک ایسے بینک میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہے جہاں دنیا کا کوئی ارب پتی بھی اپنا اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا۔



اس بینک میں سونا ، چاندی یا کرنسی کے بجائے "دیسی یا قدرتی بیجوں "کو جمع کیا جا رہا ہے۔

اس بینک کا آفیشل نامSvalbard Global Seed Vault ہے تاہم یہDoomsday Seed Vault کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ڈومز ڈے سیڈ بینکSvalbard قطب شمالی سے 1100کلو میٹر کے فاصلے پر آرکٹک نامی سمندر کے کنارے ایک بہت بڑی چٹان کے اندر واقع ہے۔ یہ علاقہ ناروے کے زیر ملکیت ہے۔

یہ غالباً دنیا کا محفوظ ترین بینک ہے۔ اس بینک کے دہرے بلاسٹ پروٖف دروازےہیں ۔ اسکے لاکر سخت ترین موٹے سٹیل کے بنے ہیں جبکہ بینک کی اندرونی دیواریں ایک میٹر کنکریٹ کی موٹی تہہ سے بنی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں 30لاکھ مختلف اقسام کے بیجوں کو محفوظ کیا جائیگا۔ اس بینک سے باہر ایسے سنسر لگے ہیں جو بینک سے باہر دور دور تک کسی بھی حرکت کو مانیٹر کر لیتے ہین۔

ایسا علاقہ جہاں بندہ نہ بندے کی ذات بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن اتنی بڑی سرمایہ کیوں کر رہی ہے وہ بھی اس پراجیکٹ میں ؟؟

شائد کچھ اور تفصیلات آپ کے گوش گزار کریں تو آپ کو معاملات سمجھنے میں آسانی ہو۔

اس بینک میں بل گیٹس کی پارٹنر جان ڈی راک فیلر کی کمپنی ہے۔ وہ جان ڈی راک فیلر جس کو بہت سے لوگ 31ویں درجے کا فری میسن قرار دیتے ہیں۔

بل گیٹس، راک فیلر کے علاوہ دنیا بھر میں جی ایم او بیج پیدا کرنے والی دنیا کی چند بڑی شخصیات اس بینک میں انکی پارٹنر ہیں۔ یہ سب ملکر آنے والے وقت کے لیے بیجوں کو محفوظ کر رہے ہیں جب دنیا سے "دیسی یا قدرتی بیج"ختم ہوجائیگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے دیسی یا قدرتی بیج کو ختم کرنے کی مہم کا روح رواں خود جان ڈی راک فیلر تھا اور اب اسکی کمپنی۔ نیز اسی بینک کے دوسرے دو پارٹننرز دوپانٹ اور سنگنٹا جی ایم او یا عرف عام میں "ھائی بریڈ"بیج کی دو دنیا کی سب سے بڑی کمپنیاں چلا رہے ہیں۔

ان کو توقع ہے کہ کچھ عرصے بعد دنیا بھر میں قدرتی بیج کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا کے تمام کسان خود بیج پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاینگے۔ تب یہ دنیا بھر میں خوارک پر کنٹرول حاصل کر لینگے اور ان کے ڈومز ڈے بینک میں موجود بیجوں کے سامنے دنیا کی تمام سونا چاندی ہیچ ہوگی۔

بل گیٹس اور راک فیلر کے حوالے سے کچھ چیزیں اور بھی کافی دلچسپ ہیں۔ مثلاً

جان ڈی راک فیلر پر الزام تھا کہ وہ ایک ایسے پروگرام کو فنڈنگ کر رہا ہے جو جینیٹکلی انسانوں کی نئی نسل بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔

۔اس پراجیکٹ کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص کو سونپی گئی ہے اسکا نامMargaret Catley-Carlson ہے جو جان ڈی راک فیلر کے دنیا کی آبادی کم کرنے کے لیے بنائی گئ تنظیم کا چیرمین رہ چکا ہے جو 1952سے دنیا بھر میں برتھ کنٹرول پر کام کر رہی ہے اور اس کا ہیڈ آفس نیویارک میں ہے ۔ یہ شخص ۔Suez Lyonnaise des Eaux نامی منرل واٹر بنانی والی دنیا کی ایک بہت بڑی کمپنی کا اہم عہدیدار بھی ہے۔

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنی والی ایک کمپنیEpicyte نے 2001میں اعلان کیا کہ وہ مکئی کی ایسی قسم تیار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں جو مردوں پر اثر انداز ہو کربرتھ کنٹرول کر سکتی ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ اس پر مزید کام کرنا چاہتے ہیں تو جانتے ہیں ان کو یہ پراجیکٹ سپانسر کرنے کے لیے کون ملا ؟DuPont اورSyngenta ۔۔ جو ڈومز ڈے سیڈ بینک کے پارٹنر ہیں ۔۔

ان کے علاوہ یو ایس ڈپارٹمنٹ آفس بھی انکی فنڈنگ کر رہا ہے۔

1990 میں ڈبیلو ایچ او نے ایک مہم چلائی جس میںNicaragua, Mexico and the Philippines کی لاکھوں خواتین کو ٹیٹنس نامی بیماری کے خلاف ویکسین پلائی جو زنگ آلود کیل وغیرہ چبنے سے لگ سکتی ہے ۔ حیرت انگریز طور پر یہ ویکسین مردوں کو نہیں پلائی گئی حالانکہ مردوں کو بھی یہ بیماری لگنے کے اتنے ہی امکانات ہین ۔ بعدComite Pro Vida de Mexico نامی ادارے نے ان ویکیسن کو ٹیسٹ کیا تو ان میں ایسے کیمیکل تھے جو خواتین میں پریگنینسی کے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔

ان سب سے بڑھ کر بل گیٹس کی پولیو مہم ایک خطرناک عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس پر بے شمار سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔



صرف پاکستان میں دستوں کے امراض اور سانس کی تکلیف کے باعث ہر ایک منٹ میں ایک بچہ وفات پا جاتا ہے۔ ہیپا ٹائیٹس کے سبب ہر سال چار لاکھ بچے لقمہ اجل بنتے ہیں اور پاکستان میں دس ملین سے زائد لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کی تحقیق سن دو ہزار گیارہ کے مطابق پاکستان افغانستان اور نائیجیریہ میں پچیس کروڑ میں سے صرف چھ سو پچاس بچے پولیو کے مرض میں مبتلا تھے!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن امراض کی وجہ سے لاکھوں انسان ہلاک ہو رہے ہیں وہ کسی کو نظر نہیں آ رہے اور چھ سو پچاس بچوں میں پولیو کی وجہ سے یہ ویکسن زبردستی تمام ممالک میں بچوں کو پلائی جا رہی ہے اور اس پر بل گیٹس کی 60ارب ڈالر کی دیوہیکل "فلاحی تنظیم "کام کر رہی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟

نائیجیرین فارماسیوٹیکل سائنٹسٹ ڈاکٹر ہارونا کائیٹا کے مطابق یہ لوگوں کو بانجھ بنانے کی مہم ہے۔

ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭘﺲ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﯾﻮﻧﯿﺴﯿﻒ) UNICEF) ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮦ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ 1985ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭘﺲ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ،ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﮩﻢ ﮐﺎ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﮭﺎ ’’ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﻧﺪ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ‘‘ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﯾﮧ ﻧﻌﺮﮦ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ’’ ﺩﻭ ﺑﻮﻧﺪ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮈﺭﺍﭖ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ‘‘ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺏ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً 40ﺑﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﺍﺋﺪ ﯾﮧ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻼﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ﺁﺧﺮﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ؟

امریکہ نے اپنے ملک میں انڈین بندر کی کلیجی سے بنائی جانے والے قطروں پر مجبوراً پابندی لگا دی کیونکہ ہو لوگوں میں دماغی کیسنر، فالج اور کئی طرح کے امراض پیدا کر رہی تھی۔ یہ ایک بہت ہی لمبا موضوع ہے اور صرف بل گیٹس کی پولیو مہم پر نیٹ پر بے شمار مواد دستیاب ہے۔

شائد بل گیٹس اور راک فیلر کچھ ایسا کررہے ہیں اور کچھ ایسا جانتے ہیں جو ہم نہیں جانتے۔

اب ذرا واپس آتے ہیں "ڈومز ڈے سیڈ بینک"کی طرف۔۔۔

سنا ہے کہ اس حوالے سے حضورﷺ کی ایک حدیث بھی موجود ہے جس کے مطابق قیامت قریب آئیگی تو ایک دانے کے لیے لڑائی ہوگی۔(صاحب علم حضرات سے تصحیح کی درخواست ہے) ذرا غور کجیے ایک دانے سے کسی انسان کی بھوک نہیں مٹ سکتی پھر اسکی اتنی اہمیت کیسے ہو سکتی ہے کہ اس کے لیے جنگ ہو ؟

شائد اس لیے کہ جنگ کرنے والوں کوعلم ہوگا کہ دانے کے حصول کی صورت میں وہ اناج کی ری پرڈکشن کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں جو ان کو "کسی"کی محتاجی سے نجات دلا سکتی ہے۔



اللہ ان کسانوں پر رحم کرے جو دیسی بیج اگاتے ہیں اور ان پر رحم کرے جو اس کو محفوظ کر رہے ہیں۔
ویسے ذرا سبزی والے کے پاس جائیے اور چیک کیجیے کہ کون کونسی "دیسی سبزی"دستیاب ہے۔۔

مکمل تحریر >>

خود کش حملے. ایک مغربی ریسرچ

خود کش حملے: ایک مغربی ریسرچ

سہراب نصیر

ہمارے ملک میں اس وقت روایتی بیانیہ اور متبادل بیانیہ کے نام پر سرد جنگ جاری ہے۔ اہل علم دو طبقات میں منقسم ہیں۔ متبادل بیانیہ کی حمایت والوں کا موقف ہے کہ روایتی بیانیہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کی اصل جڑ ہے اور اس کو بدلے بنا مسلم معاشروں سے شدت پسند نظریات کا خاتمہ ممکن نہیں۔
روایتی بیانیہ کی حمایت والوں کا یہ ماننا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کا روایتی بیانیہ سے منسلک ہونے کے باوجود اِن میں شدت پسند عناصر کی موجودگی پانچ فیصد کے قریب بھی نہیں اور اِن شدت پسند عناصر کے رویہ کی اصل وجہ معروضی حالات ہیں نہ کہ روایتی بیانیہ۔ شدت پسندوں کی یہ اقلیت اپنے مقاصد کے حصول لیے مذہب کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں بلکل اسی طرح جیسے لبرل امریکہ عالمی امن کے نام پر اپنے استعماری مقاصد کو حاصل کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں شدت پسندی اور معروضی حالات کے درمیان تعلق پر کوئی جامع تحقیق سامنے نہ آ سکی۔
اس اہم نقطہ پر سب سے پہلے کام کا آغازRobert Pepe نے کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرRobert Pape شکاگو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور عالمی حفاظتی امور کے ماہر ہونے کے ساتھChicago project on security and terrorism کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
آپ چار کتابوں کے مصنف ہیں اور عالمی حفاظتی امور پر آپ کے مضامین نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، سی این این، فاکس نیوز اور دیگر اہم بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
دو ہزار پانچ میں اپنی کتابDying to win میں خودکش حملہ آوروں کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بسا اوقات یہ لوگ(خودکش حملہ آور) کسی سماج پر فوجی قبضہ کے جواب میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں جس سے ان کی گہری( جذباتی) وابستگی ہوتی ہے۔
میں نے 9/11کے بعد خودکش حملوں پر پہلا جامع جدول تربیت دیا۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں کی طرح جنھیں خودکش دھماکوں سے پالا پڑا تھا، میں نے سوچا کہ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاؤں گا کہ کیسے ایک بنیاد پرست مسلمان خودکشی کی حد تک شدت پسند ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے متعلق کوئی مواد میسر نہ تھا اس لیے میں نے 1980سے لے کر 2003تک دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کے واقعات کی معلومات کو یکجا کیا۔ میں یہ جان کر بہت حیران ہوا خودکش حملہ آوروں کی نصف تعداد سیکولر تھی۔ میں نے واقعات ( خودکش دھماکوں)، ان کے وقت اور علاقوں کے درمیان ربط تلاش کرنا شروع کیا تو ان سب کو ایک دوسرے سے جڑا پایا اور پچانوے فیصد خودکش دھماکے فوجی قبضوں کے جواب میں کیے گئے تھے۔
اور فوجی مقبوضات بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ زمین پر غیر ملکی افواج کی تعداد کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ وہاں کی مقامی حکومتوں، ان کے معاشی اور سماجی نظام کو کنڑول کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ امریکہ اور نیٹو کا فوجی قبضہ ہی ہے جس نے ہمیں افغانستان میں خواتین کے حقوق کو متعارف کروانے اور انھیں نافذ کرنے کے قابل بنایا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا کرنا درست نہیں بلکہ میرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جب ہم بندوق کی نوک پر خواتین کے حقوق نافذ کروائیں گے تو یہ عمل مقامی سماج میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ انھوں نے اپنا حق خود ارادیت کھو دیا ہے۔ جو آپ دیکھ رہے ہیں ( شدت پسندی و دہشتگردی) اس میں سے سب نہیں لیکن اکثریت خودکش حملہ مقامی سماج کے حق خودارادیت سلب کر لینے کے ردعمل میں ہو رہے ہیں"

میں نے 1980سے لے کر 2003تک دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کے واقعات کی معلومات کو یکجا کیا۔ میں یہ جان کر بہت حیران ہوا خودکش حملہ آوروں کی نصف تعداد سیکولر تھی۔

دنیا میں اس وقت تک کوئی نظریہ ایسا نہیں جس کا غلط استعمال نہ کیا گیا ہو۔ انسان جب خود غرض ہو جاتا ہے تو اپنی اولاد تک کو دنیاوی اور ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ لیکن چند افراد کا کسی نظریہ کو غلط استعمال کرنا اس نظریہ یا موقف کے باطل ہونے کی دلیل ہرگز نہیں بن سکتا ۔ مسلمانوں کی اکثریت اسلام کو ضابطہ حیات سمجھتی ہے اور اسے دنیا و آخرت میں اپنی کامیابی کا ذریعہ مانتی رہی ہے اور مانتی رہے گی۔ ایسے میں کچھ مسلمان اگر معروضی حالات سے تنگ آ کر اسلام کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اِس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس بنیادی محرک کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو ایسے افراد کو دین کی غلط تشریح کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پر ریاستی جبر کے تحت متبادل بیانیہ نافذ کرنے کی کوشش شدت پسند عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ شدت پسند اور اسلام مخالف لوگ بظاہر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کا دین ہے اور یہ بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو جائز سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت عملی و نظریاتی طور پر اس موقف کی تردید کرتی ہے اور پر امن طریقے سے اسلام کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں نافذ کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
مسلمانوں کی پر امن اکثریت روایتی بیانیہ کی نمائندہ ہے نہ کہ چند شدت پسند تنظیمیں جن کا وجود غیر ملکی افواج کے مقبوضات کا مرہونِ منت ہے۔
مکمل تحریر >>

دیسی سیکولر اور لبرل کا نفسیاتی پن


دیسی سیکولر اور لبرل مذہب اور مذہب پسندوں کو ترقی کا دشمن سمجھتے ہیں اور جگہ جگہ اس پر لکھتے اور تقریریں کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ خود ہیں۔ ۔کوئی ان سے پوچھے کہ یونیورسٹیز کالجز اور دوسرے سارے سائنسی ادارے مولوی نہیں بلکہ تمہارے حوالے کیے ہوئے ہیں، اگر پاکستان میں ان اداروں سے فائدہ نہیں ہورہا تو اسکا ذمہ دار مولوی کیسے ہے؟
دوسری طرف عملی میدان میں بھی انکا کردار یہ ہے کہ یہ پاکستان کے دفاعی منصوبوں کے سب سے بڑے نقاد اور غیروں کے اشارے پر ترقی کے چلتے منصوبے بھی رکوانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اخباری رپورٹ ہے کہ کینپ 2، 3اور 4نامی نیوکلیائی بجلی کے منصوبوں پر کام کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور شرمین عبید چنائے کی درخواست پر روک دیا ہے۔
مجوزہ منصوبے کا ہر یونٹ 1100میگا واٹ بجلی پیدا کریگا۔ درخواست گذاروں کا موقف ہے کہ اے پی-1000نیوکلر ری ایکٹر دنیا میں کہیں استعمال نہیں ہوا لہذا تجربے کرنے سے باز رہا جائے جبکہ حقیت یہ ہے کہ چین میں اس قسم کے چار ری ایکٹر تکمیل کے مراحل میں ہیں اور خود امریکہ کے نیوکلر ریگولیٹری کمیشننے 2012ء میں اس قسم کے دو ری ایکٹرز کے تعمیر کی منظوری دی تھی اور آج کل چار ری ایکٹرز پر کام جاری ہے۔ ساتھ ہی بلغاریہ اور برطانیہ بھی اے پی-1000کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔
ہود بھائی تو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ موصوف ملائیت دشمنی میں پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹر بنے، اٹھتے بیٹھے اپنی نا اہلی کی ذمہ داری مُلا پر ڈالتے اور ہر وقت اسلام پسندوں کو مطعون کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا کینپ کے مجوزہ منصوبوں کا آغاز بھی کسی مُلّا نے کیا ہے جو ہود بھائی اسے روکنے کے لیے تاؤلے ہوئے جارہے؟ اور ایسڈ فیم آسکر ونر شرمین صاحبہ کو کون نہیں جانتا؟ حیرت یہ ہے کہ یہ محترمہ بھی اس مسئلے میں کود پڑی ہیں، امید ہے مستقبل میں ملالہ سمیت مغرب کے دوسرے سارے وظیفہ خوار بھی پاکستان کی اس ترقیمیں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔۔
ہم بے بس بے کس ، اپنے خون سے نچوڑے ٹیکسوں سے انہیں پچھلے پینسٹھ چیاسٹھ سالوں سے پال رہے ہیں جو اپنی جگہ ایک المیہ ہے مگر اصل المیہ وہ ہے کہ ہود بھائی جیسے متواتر پڑھے لکھے پاکستانی ٹیلنٹ کو احساس کمتری کا سبق دے رہے ہیں ۔!!
یہ بات واضح ہے کہ ہود و شرمین وغیرہ نے عدالت کو اس معاملے میں اہل کراچی یا پاکستان کی محبت میں نہیں گھسیٹا۔ بلکہ پاکستان مخالف طاقتوں کی آشیر باد سے یہ مسئلہ الجھایا ہے۔ ہمارے یہ نام نہاد ترقی پسند اور عظیم سائنسدانایک سائنسی پروجیکٹ کو رکوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے دوسری طرف ہمارا پڑوسی ملک مریخ تک جاپہنچا ہے ۔:
تحریر۔۔بنیامین مہر
مکمل تحریر >>

فکری دہشت گردی

فکری دہشت گردی  

 ۔۔۔۔۔۔۔تحریر :محمد اسمٰعیل بدایونی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی سے ماسٹر کررہا تھا،میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا  وہ تھی لیکچرار شپ ۔۔۔۔لیکچرار شپ کی خواہش کا دیا سینے میں جلائے میں  دن رات محنت کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے سبجیکٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی  لیکن شاید ابھی  میری منزل بہت دور تھی ۔۔۔۔ماسٹر کے فورا بعد ہی میں نے ایم فل میں  ایڈمیشن لے لیا  ،سپر وائیزر  سے میری انڈر اسٹینڈنگ بی ایس کے دوران ہی  بہت  اچھی تھی وہ بھی میری اس خواہش سے بہت اچھی طرح واقف تھے اور وقتا فوقتا اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے  کہ یونیورسٹی میں لیکچرار شپ کے لیے محض قابلیت کافی نہیں مراسم کی اپنی  اہمیت ہوتی ہے اپنا سوشیل سرکل  بڑھاؤ۔۔۔۔ لیکن سر میں تو اس شہر میں کسی کو نہیں جانتا کوئی کیوں میرے ساتھ  رسم و راہ بڑھائے گا۔
میرے سپر وائیزر مسکرا دئیے کل تیار رہنا ایک مشاعرے میں چلیں گے ۔۔۔
بس پھر کبھی مشاعرے کبھی ترقی پسندوں کی ادبی محفلیں  اور ان کا  اپنا ایک ماحول  ،مخلوط ہجوم ،ہم بھی ان کی طرح روشن خیالی کی روشنی میں نہا گئے ۔۔۔۔ آخر کب تک  مینا و ساغر سے دور رہتے  محفلیں چلتی رہیں جام چھلکتے رہے اور پھر اس دوران یونیورسٹی میں لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر کی آسامیاں  آگئیں میں نے بھی اپلائی کر دیا
سپر وائیزر صاحب نے  میری کئی بڑی شخصیات سے ملاقاتیں کروائی اور میری تعریف کرتے ہوئے کہا  یہ میرے ہونہار شاگرد ہیں ماسٹر میں انہوں نے پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا ان جیسے ذہین طالب علم  کو یونیورسٹی میں ضرور ہونا چاہیے۔
بس  یوں سمجھیے وہ سوشیل سرکل میرے بہت کام آیا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے یونیورسٹی میں لیکچرار نہیں بلکہ وی سی بنانا چاہتے ہیں ۔اور اس کا اظہار ایک دن میں نے اپنے سپر وائیزر سے کر بھی دیا
سر ! مجھے لگتا ہے یہ  لوگ تو مجھے لیکچرار کی پوسٹ دلائے بغیر خاموش ہو کر بیٹھنے والے نہیں
لازمی بر خوردار ! اب یہ تمہارا نہیں ان کا مسئلہ ہے ۔
ایک دن پہلے ہی ٹیسٹ  میرے سامنے ٹیبل پر رکھا ہوا تھا  کل جو تمہارا ٹیسٹ ہو گا  وہ یہ ہے تم اس کو دیکھ لو اچھی طرح سے باقی انٹر ویو پینل کی فکر نہ کرو وہاں  تمہارے لیے ہم پہلے ہی شاندار اور جاندار لابنگ کر چکے ہیں ۔ ۔
پھر کیا ہوا ؟ میں نے بے ساختہ پوچھا
پھر کیا ہونا تھا میں  لیکچرار بن گیا  صحبتوں نے مجھے مذہب بیزار کر دیا  اوپر سے مولویوں کی فرقہ واریت ان کا انداز گفتگو  حقانیت کے نام پر ایک دوسرے کی تذلیل ۔ ۔۔۔۔مناظرے ، مجادلے  بس  ۔۔۔۔۔دعوت کا کام مولویوں نے ترک کر دیا تھا اور جو کررہے تھے وہ بس اپنی اپنی کتابوں اور اپنی اپنی جماعتوں  اور فرقوں کی مارکیٹنگ میں مصروف تھے ۔۔۔میرے اندر کا مولوی تو نا جانے کب کابستر مرگ پر پڑا کراہ رہاتھا  لیکن اس  نے آخری سانس اس دن لی جس دن گرو نے کہا
آخر اس کتاب کی جو مسلمان قوم روز تلاوت کرتی ہے  وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُواکا درس دیتی ہے یہ ٹکڑیوں میں بٹی قوم ان کے مولویوں نے یہ آیات قرآن کی نہیں پڑھی  ؟
یہ گرو کون تھا ؟ میں نے پوچھا
گرو کو تو میں نہیں جانتا یہ کون تھا بس  اس کی فکری اور فلسفیانہ گفتگو میں ایک سحر تھا یہ ہیپناٹایزم کا ماہر  بندہ تھا اس کے علاوہ اس نے انسانی نفسیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا   یہ بندے کو شیشے میں تارنے کا فن جانتا تھا  ۔۔۔۔۔
یہ اسلام ، پیغمبرِ اسلام ﷺ پر اعتراضات کرتا یہ تمام وہی اعتراضات ہوتے جو کئی صدیوں سےاسلام سے خوفزدہ  مستشرقین ،کتاب پرکتاب لکھ   کر ،کررہے تھے  سیمینارز اور جامعات کے ذریعے  استشراق کا زہر نسل نو میں منتقل کیا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔افسوس کے ہمارے علماء ابھی تک اس سے غافل ہیں بلکہ وہ  تحریک استشراق کو جانتے تک نہیں ۔
خیر تو میں  کہہ رہاتھا روشن خیالی کی بڑھتی ہوئی تاریکی میرے قلب کوتو سیاہ کر چکی تھی  میں غیر اعلانیہ لا دین ہو چکا تھا اپنی کلاس میں آتا اور اور اکثر لیکچر کے دوران وہ اعتراضات اسٹوڈینٹس کے سامنے رکھتا  ۔۔۔۔اسٹوڈینٹس تو بے چارے کیا ان سوالات کا جواب دیتے ان کا جواب تو عام  مولویوں کے پاس بھی نہیں تھا    ۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ گرو جی نہ جانے کہاں غائب ہو گئے ۔نا کبھی میں نے جاننے کی کوشش کی کہ کہاں سے آئے تھے کہاں چلے گئے ۔۔۔۔شاید اب  مجھ جیسے کئی گرو اس معاشرے میں بن چکے تھے اور وہ اپنا کام کررہا تھے۔
اس سوشیل سرکل نےمیرے دائرے کو  اس قدر بڑھایا کہ میں اب غیرملکی کانفرنسز میں جانے لگا میرے پیپر دنیا بھر کے  ریسرچ جرنلز میں شائع ہو نے لگے اور یہ نوازشات سب کے لیے نہیں تھی ان نوازشات کے پیچھے وہی مقصد تھا جو میں ا ن کی  برین واشنگ کے ذریعے اپنا مقصد زندگی بنا چکا تھا ۔۔۔۔۔لیکچرا سے اسسٹنٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر سے ایسوسی ایٹ پرووفیسر اور پروفیسر تک کے سفر میں یہ ہی لوگ میرے  بہت کام آئے اور میری ترقی کی خواہش کو ہوا دے دے کر ۔۔۔۔مجھے خواہ مخواہ میں چودھری بنا  کر انہوں نے مجھے ہر قسم کی اخلاقیات سے بھی  عاری کر دیا تھا ۔
اچھے طلبا کو ہم پرو موٹ کرتے ویسے ہی جیسے  مجھے کیا گیا تھا ۔۔۔۔فکری سیلیپر ز سیل نے   اپنے کام کے دائرے کو بڑھا یا  اور اساتذہ سے یہ نکل کر میڈیا تک جا پہنچے ۔۔۔۔ یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا  طلباء میں شکوک و شبہات کے بیج ہم بوتے چلے گئے ۔۔۔میڈیا کے ذریعے ہم نے علم اور فکر کے ذریعے سوال کی آزادی اور مکالمہ کے  نام پر خوب پروان چڑھایا   اب یہ فصل پک چکی ہے  کٹنے کا وقت قریب آنے والا ہے ۔
اب میری طرح کے کئی لوگ  تعلیمی اداروں میں اس فکری دہشت گردی میں ملوث ہو چکے تھے ۔آخر ایک دن  یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے ۔
’’ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز ،میڈیا پرسنز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوسی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے‘‘
اس سے قبل میں سمجھتا تھا میں مذہب کی زنجیروں سے آزاد ہو گیا ہوں  ۔۔۔میں سچائی تک پہنچ گیا ہوں  میری برین واشنگ انہی خطوط پر کی گئی تھی ۔۔۔
غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں نے  چند مفاد پرست مولویوں  اور ان کے افکار و کردار کو ہی اسلام سمجھ لیا ۔۔۔۔۔
اسی دوران ایک صاحب نے مجھے اشفاق احمد کی کتاب ’’بابا صاحبا ‘‘ پڑھنے کے لیے  دی  اس کے ساتھ کچھ اور اسکالرز کی چھوٹی چھوٹی تحریریں میری تشکیک کو دور کرتی چلی گئیں مجھے ایسے دوست میسر آگئے جو  اسلام سے مخلص تھے انہوں نے پورے خلوص سے مجھے اسلام کی طرف لوٹنے کی دعوت دی اور مجھے واپس لے آئے ۔
اس وقت ہم کیا  کر سکتے ہیں؟
اس  فکری سلیپرز  سیل کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں ؟
اگر آپ  کسی کالج یا یونیورسٹی میں اسٹو ڈینٹ ہیں  اور آپ  کا ٹیچر  نصاب پڑھانے کے بجائے کلاس میں لبرل ازم ، سیکولر ازم یا الحاد کی تعلیم دیتا ہے جنت و جہنم  ، حورو غلمان ،ثواب ،نیکی ،۔قرآن کریم یا شعائر اسلام کی توہین اور استہزاء کرتا ہے تو   اسٹوڈینٹ کو چاہیے اپنا موبائل کیمرہ آن کیجیے ویڈیو بنائیے اور متعلقہ تھانے میں اطلاع دیجیے ۔کیونکہ الحاد کی تعلیم آئین پاکستان کی پہلی شق ’’حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ ہے ‘‘سے بغاوت ہے
فکری سلیپر  سیل  پر گہری نگاہ رکھیے ۔۔۔۔ایسے کردار وں کو بے نقاب کیجیے ۔۔۔۔

مجھے اکبر الہ آبادی کا وہ شعر یاد آگیا

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اور علامہ اقبال نے گفتگو ہی سمیٹ دی
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
نکل جاتی ہے لبِ خنداں سے اِک آہ بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ



حمزہ اینڈرس زورٹس کو رد الحاد کے تمام احباب جانتے ہوں گے۔ حمزہ بھائ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے اور یہ جدید الحاد کے خلاف بہت سرگرم رکن ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، لارنس کراس وغیرہ سے ان کی ڈیبیٹس موجود ہیں جن میں حمزہ بھائ کو واضح برتری حاصل رہی ہے۔ ان کی ایک کتاب حال ہی میں ریلیز ہوئ ہے "دا ڈیوائن رئیلیٹی"کے نام سے۔ کتاب انگریزی میں ہے اس لئے انگریزی جاننے والے اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
کتاب کو سیکن اور یونیکوڈ کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے جسے آپ ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
مزید اردو کتب کو یونیکوڈ کرنے کا کام جاری ہے اور انشا الله جلد ہی آپ لوڈ کی جائیں گی۔
ڈاؤنلوڈ لنک۔
https://ia601502.us.archive.org/2/items/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism.pdf

جزاک الله.
مکمل تحریر >>

Saturday 25 November 2017

کولمبس اور مسلمانوں کا ایجاد کردہ آلہ اصطرلاب

کولمبس کو ایک عیسائی فرقہ پرست بادشاہ فرڈیننڈ نے مہم پر بھیجا تھا۔ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے اسپین میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کو صلیبی جنگیں کرکے ختم کیا تھا۔ کولمبس جس بحری جہاز پر نکلا اس میں مسلمانوں کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی تھی۔ وہ مسلمان سائنسدان کے ایجاد کیے ہوئے اصطرلاب (astrolabe) کو راستہ معلوم کرنے کے لیے استعمال کررہا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ کسی عیسائی نے اسے یہ طعنہ نہیں دیاکہ تم کافروں (عیسائیوں کےنزدیک کافروں بالاصل:مسلمانوں)کی ٹیکنا لوجی کیوں استعمال کرتے ہو؟ پورے یورپ میں مسلمانوں کی ملوں کا کپڑا، مسلمانوں کے کارخانوں کی مصنوعات، مسلمان ڈاکٹر وں کے طریقۂ علاج اور مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات آٹھ سو سال تک استعمال ہوتی رہیں۔کسی عیسائی نے یہ اپنے بڑوں کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم چھ سو سال سے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں لڑ رہے ہو لیکن جب تمہیں سرجری کی ضرورت پڑتی ہے تو ابوالقاسم الزہراوی کے ڈیزائن کیے ہوئے سرجری کے آلات کیوں استعمال کرتے ہو؟ ان کافروں (عیسائیوں کےنزدیک کافروں بالاصل:مسلمانوں)کے خلاف اگر تمہیں اتنا ہی جوش آتا ہے تو اپنے دانت نکلوانے کے لیے ایک ایجاد خود کیوں نہیں کرلیتے؟؟یہ بیمار ذہنیت ہمارے ہی معاشرے کے چند لوگوں کے حصے میں آئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جب مسلمان کمپیوٹر کو ہاتھ لگادے تو اس کے بعد اسے ان کافروں کے خلاف ایک بات بھی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو روزانہ ڈرون سے بمباری کرتے ہیں اور غزہ میں مسلمانوں کو دیوار کے پیچھے بند کرکے ان کا پانی، گیس ، تیل ، خوراک بند کرکے پانچ سال سے انہیں بھوکا مارنے پر تلے ہوئےہیں۔ اگر آپ نے موبائل استعمال کرلیا ہے تو پھر ان کے مطابق افغانستان ، عراق، صومالیہ، برما ، بنگلہ دیش اور مالی میں ان کے قتلِ عام پر بات کرنا منع ہوجاتا ہے۔ اگر آپ فریج استعمال کرتے ہیں تو چیچنیا کا نام مت لیں اور اگر خدانخواستہ آپ مائیکرو ویو اوون میں چیزیں گرم کرنے کی عیاشی کرلیتے ہیں تو پھر مشرقی ترکستان کا نام بھی نہ لیں اگر عراق میں عبیر قاسم کی جگہ ان میں سے کسی کی بیٹی ہوتی جسے امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی تو پھر ان سے کہاجاتا کہ جب تک تم خود پستول اور بم نہیں بنا لیتے تب تک تمہیں اپنی بیٹی کے ساتھ کی گئی زیادتی اور قتل کا بدلہ لینے کی کوئی اجازت نہیں تو انہیں کیسا محسوس ہوتا۔یہ مغرب سے اتنے زیادہ مرعوب(impressed)ہیں کہ اس کے جرم کو جرم کہنا بھی انہیں زبان پر بھاری لگتا ہے۔یہ اس بات پر شرمندہ ہیں کہ یہ یہاں کیوں پیدا ہو گئے!امریکا ،اسرائیل یا برطانیہ میں پیدا کیوں نہیں ہوئے!یہ اپنی قوم میں سے ہونا ہی نہیں چاہتے اسی لیےیہ لوگ اپنے اِس احساسِ کمتری کو اپنی ہی قوم کو طعنے ، گالیاں اور کوسنے دے دے دور کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشکل اور مصیبت کے وقت میں یہ اپنی امت کو آگے بڑھ کر سہارا دیتے ، اس کے زخموں ہر مرہم رکھتے ، اس کے آنسوؤں کو پونچھتے اور اس کی ہمت بندھاتے الٹا یہ لوگ ان لوگوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق اس امت کو سہارا دینے کی کوششوں میں ہیں۔ آخر یہ لوگ کس کے سپاہی ہیں ؟ یہ کس کے مورچے میں ہیں
مکمل تحریر >>

کشش ثقل کی طلسماتی لہریں (دوسرا/آخری حصہ)

کشش ثقل کی طلسماتی لہریں
(دوسرا/آخری حصہ)
زمان و مکاں کی چادر ہرسو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ کشش ثقل کی لہروں کی اصل وجہ ہیں ، سائنسدانوں کو ایک لمبے عرصے تک اسی قسم کے چیلنج سامنا رہا ہے کہ ان لہروں کو دریافت کیسے کیا جائے؟آج سے 47 سال پہلے سائنسدانوں نے 2 نیوٹران ستاروں کے ماس کا حساب لگایا جو ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے اور ٹکرانے لگے تھے تو معلوم ہوا کہ ان کے ماس میں کمی زیادہ ہورہی ہے جبکہ ان کے اندر سے نکلنے والی توانائی اس کے مقابلے میں کم ہے جس کا مطلب تھا کہ بقیہ ماس یہ ستارے کسی "ان دیکھی توانائی "کی صورت میں ضائع کررہے ہیں ، جب آئن سٹائن کا نظریہ اضافت استعمال کر کے حساب کتاب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ستارے اپنا بقیہ ماس دراصل کشش ثقل کی لہریں بنانے میں سرف کررہے ہیں، یہ پہلا واقعہ تھا جب سائنسدانوں کو کشش ثقل کی کوئی نشانی ملی ۔ آگے کئی عشروں تک یہ لہریں سائنسدانوں کے لئے ایک معمہ بنی رہیں، پھر 1998 ء میں اِن لہروں کی تلاش کے لئے لائیگو ڈیٹیکٹر کی تعمیر کی گئی ، اس لیبارٹری میں 2 پائپ L Shape میں تعمیر کیے گئے، دونوں پائپس میں لیزر شعاعیں چھوڑی جاتی تھیں جو کہ سامنے لگے شیشے سے ٹکرا کر واپس اس مقام پر ملتی تھیں جہاں دونوں پائپس ملتے، اس مقام پر دونوں پائپس کی لیزر شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی تھیں، مقصد یہ تھا کہ اگر کشش ثقل کی لہروں کے باعث زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں پڑیں گیں تو پائپ کی لمبائی زیادہ ہوجانے اور شیشے کے پھیلاؤ کے باعث یہ شعاعیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے پیچھے لگے detectors پر پڑجائیں گیں اور معلوم ہوجائے گا کہ کوئی کششِ ثقل کی لہر "کھیلتے کودتے"یہاں سے گزری ہے، اس مقصد کے لئے اِن شیشوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھا گیا تا کہ یہ شیشے کسی اور وجہ سے اپنی جگہ سے تھوڑے سے بھی ہِل نہ سکیں، بالکل اسی طرح کی ایک اور لیبارٹری اس سے 2 ہزار کلومیٹر دور تعمیر کی گئی تا کہ اگر کوئی کشش ثقل کی لہر گزرے تو دونوں لیبارٹریوں سے ملنے والے اعداد و شمار کا موازنہ کرکے ان کے مصدقہ ہونے کا اندازہ لگایا جاسکے(یہ دونوں لیبارٹریز امریکا میں واقع ہیں)، 2002ء میں ان لیبارٹریز نے اپنا کام شروع کردیا مگر 2012ء تک انتھک محنت کے باوجود کچھ حاصل نہ ہوپایا، جس کی وجہ سے 2012ء کے بعد ان کو upgrade کرنے کے لئے بند کردیا گیا یہ پراجیکٹ سوچ سے بھی زیادہ مہنگا ثابت ہوا 18 ممالک اس پراجیکٹ کا حصہ بنے ، ستمبر 2015ء میں ان کو اپ گریڈ کرکے اس کا افتتاح کیا گیا ، اپ گریڈ ہونے کے فوراً بعد 14 ستمبر 2015ء کی رات کو دونوں لیبارٹریز نے ایک سیکنڈ سے بھی انتہائی کم وقت میں کشش ثقل کی لہروں کو پہلی بار دریافت کرلیا!۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہمارے سورج سے 29 اور 36 گنا بڑے دو بلیک ہولز کی ٹکر ہوئی جس کے بعد جو نیا بلیک ہول وجود میں آیا وہ ہمارے سورج سے 62 گنا بڑا تھا، یعنی سورج سے 3 گنا زیادہ ماس ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس تباہ کن ٹکراؤ کی وجہ سے کشش ثقل کی لہروں میں تبدیل ہوکر کائنات میں پھیل گیا!۔ اس کا باقاعدہ اعلان 11 فروری 2016ء کو کیا گیا ، اس اعلان کے ساتھ ہی سائنس کی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوگیا، سائنس کے چاہنے والے ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات دینے پہنچ گئے ، آئن سٹائن کی سو سال پہلے کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔اس کو سائنس کی دنیا میں انتہائی بڑی دریافتوں میں سے ایک دریافت قرار دیا گیا۔ لائیگو کے Executive Director ڈیوڈ رِٹز نے اس موقع پر کیا خوب کہا کہ"پہلی بار کائنات ہم سے ہم کلام ہوئی ہے"۔بعد ازاں دسمبر 2015ء میں دوبارہ کشش ثقل کی لہریں دریافت کی گئیں، اب کی بار ڈیڑھ ارب نوری سال دور سورج سے 14 اور 8 گنا بڑے بلیک ہولز کی ٹکر سے 21 گنا بڑابلیک ہول وجود میں آیا۔ اس ٹکر میں ایک سورج جتنا مادہ ایک سیکنڈ سے بھی کم مدت میں کشش ثقل کی لہر بن کر کائنات میں پھیل گیا۔ یہ واقعہ ڈیڑھ ارب سال پہلے وقوع پذیر ہوا اور اس کی لہریں اب ہم تک پہنچیں۔بعد ازاں جنوری 2017ء اور اگست 2017ء میں دوبارہ لائیگو نے کششِ ثقل کی لہریں دریافت کیں۔ لائیگو کے ساتھ اب وِرگو نامی لیبارٹری نے بھی کام کا آغاز کردیا ہے جوکہ اٹلی میں واقع ہے ۔ آنے والے کچھ سالوں میں چین اور جاپان بھی ایسے ہی منصوبوں کو مکمل کرنے والا ہے ، اس کے علاوہ بھارت نے بھی ایسی لیبارٹری کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے ،یورپ اور امریکا نے ایسی لیبارٹریز خلاء میں بنانے کااعلان بھی کررکھا ہےجن کی مدد سے کشش ثقل کی لہروں کا پتہ لگانا زیادہ آسان ہوجائے گا۔ آج سے چند سال پہلے تک ہم صرف Electro-magnetical wavesسے واقف تھے مگر ہم اب Gravitational waves کے نام سےلہر کی ایک اور قسم سے واقف ہوچکے ہیں۔ ذرا سوچئے آج سے سو سال پہلے جب ہم برقی مقناطیسی لہروں سے واقف ہوئے تو ان کے استعمال سے دنیا کو کتنا بدل کر رکھ دیا۔ ہماری کششِ ثقل کی لہروں سے "سلام دعا" ابھی بالکل نئی ہے، ان پر تحقیق اور استعمال سے آنے والے سو سال کتنے مختلف ہوسکتے ہیں ان کا اندازہ فی الحال لگانا محال ہے۔ ان لہروں کی دریافت کے ساتھ علم الفلکیات کے ایک نئے دور "ثقلی فلکیات" (Gravitational Astronomy)کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کشش ثقل زمان و مکاں کا حصہ ہے، تو کیا ان لہروں کو قابو کرنے سے زمان و مکاں پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ یہ ثقلی لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں تو ان کو استعمال کرتے ہوئے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن بنایا جاسکتا ہے ؟ان لہروں کی دریافت کے فوراً بعد بہت سے "معصوم سوالات " ہمارے ذہن کے دریچوں پر دستک دے رہے ہیں جن کے متعلق سائنس فی الحال خاموش ہے ، کشش ثقل کی لہریں بلاشبہ کائناتی سفر میں روشنی کی کرن کی طرح نمودار ہوئی ہیں جس کا پیچھا دور حاضر کے سائنسدان ایک نئی صبح کی امید میں کررہے ہیں لیکن یہ تو فقط شروعات ہیں ابھی منزل کوسوں دُور ہے، اِتنی دُور کہ فی الحال اس کو گرفت میں لاتے ہماری سوچ بھی تھک جائے!
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://m.facebookcorewwwi.onion/story.php…
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein

مکمل تحریر >>

کشش ثقل کی طلسماتی لہریں حصہ اول

کشش ثقل کی طلسماتی لہریں
حصہ اول
حاصل شدہ معلومات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری کائنات بھی اصولوں کی قید سے آزاد نہیں، پوری کائنات ایک نظام کے ماتحت کام کررہی ہے اسی خاطر بہت سے سائنسی انکشافات جو کہ آج سےسو سال پہلے ٹیکنالوجی کی کمی کے باوجود محض اعداد و شمار کی بنا پر کیے گئے ، آج جدید سائنس ان پر مہر تصدیق ثبت کررہی ہے ، لیکن اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اُس وقت لوگ سائنسدانوں کے اُن دعوؤں پر ہنستے تھے ۔ اسی وجہ سے جب البرٹ آئن سٹائن نے اپنا مشہورِ زمانہ عمومی نظریہ اضافت اور خصوصی نظریہ اضافت مکمل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا تو دنیا میں چند افراد ہی تھے جو اِس کے اِس نظریے کو صحیح طرح سمجھ پائے جبکہ دیگر نے اس کو اہمیت نہ دی۔ اسی خاطر جب البرٹ آئن سٹائن کی چارلی چپلن سے مُلاقات ہوئی تو انہوں نے چارلی چپلن سے کہا :"میں آپ کے فن کا اس لئے قائل ہوں کہ آپ کے ایک حرف بھی نہ کہنے کے باوجود پوری دنیا سمجھ جاتی ہے کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں"جس کے جواب میں چارلی چپلن نے کہا :"آپ کی بات ٹھیک ہے مگر اس معاملے میں آپ مجھ سے زیادہ بہترہیں کیونکہ پوری دنیا آپ کی بات کو نہیں سمجھ پاتی لیکن اس کے باوجود آپ کے کہے کا اعتراف کرتی ہے "۔آج بھی فلکیات کے چاہنے والے کائنات کے ان سربستہ رازوں کی کھوج میں ہمہ وقت مصروف ہیں جن کا انکشاف سو سال پہلے سائنسدان کرچکے ہیں، کشش ثقل کی لہریں (Gravitational waves)انہی رازوں کی ایک کڑی ہے ۔20ویں صدی میں نظریہ اضافت نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ۔ اس نے کائنات کے structureکو سمجھنے میں مدد فراہم کی ، ہمیں معلوم ہوا کہ کائنات دراصل ٹائم اور سپیس کے بُنے ہوئے جالوں پر مشتمل ہے ، اور یہ زمان و مکاں کی چادر انتہائی لچکدار ہے، کشش ثقل کا وجود بھی اسی زمان و مکاں کی چادر میں پڑنے والے گڑھوں کے باعث ہے، اس کی مثال ایسے دی جاسکتی ہے کہ فرض کریں ایک چادر کو چاروں کونوں سے باندھ دیا جائے اس چادر کو ہم زمان و مکاں کی چادر مان لیتے ہیں اس میں اگر کوئی وزنی پتھر یا لوہے کی گیند کو پھینکا جائے گا تو یہ لوہے کی گیند/وزنی پتھر اس چادر میں دباؤ پیدا کرے گا اور ایک گڑھا بنا دے گا، جب یہی لوہے کی گیند/وزنی پتھر حرکت کرے گا تو اس چادر میں vibration پیدا کرے گا جو پوری چادر میں محسوس کی جائیں گیں، بالکل اسی طرح سورج ، چاند، زمین اور دیگر اجسام کائنات کی ٹائم سپیس کی چادر میں گڑھے بنا دیتے ہیں، جو جسم جتنے زیادہ ماس کا حامل ہوگا اس کا گڑھابھی اتنا گہرا ہوگااور زیادہ دُور تک اس کے اثرات ہونگے، زمین سورج کے پیدا کردہ گڑھے میں گھوم رہی ہے ، جبکہ چاند زمین کے پیداکردہ گڑھے میں چکر کاٹ رہا ہے، اسی طرح جب کوئی چیز ٹائم سپیس کی اس چادر میں حرکت کرتی ہے تو زمان و مکاں کی چادر میں تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے اور لہریں پیدا ہوتی ہیں، ان لہروں کا ذکر سب سے پہلے ہنری پوئن کئیر نے 1906ء میں کیا ، اس کے بعد آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت میں اس کا ذکر کیا ،چونکہ ان لہروں کی دریافت انتہائی مشکل کام تھا جس کے باعث ایک لمبے عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ ایسی کسی لہرکا وجود نہیں اور آئن سٹائن سے غلطی ہوگئی ہے ، لیکن پھر 20ویں صدی کے وسط میں آئن سٹائن کے اِس نظریے پر تحقیق کے بعد سائنسدان نتیجے پر پہنچے کہ کششِ ثقل کی لہروں میں توانائی موجود ہوتی ہے جس کے باعث یہ معلوم ہوا کہ ان کو دریافت کیاجاسکتاہے، لیکن اس بارے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو دریافت کیسے کیا جائے ۔ ان کی کھوج لگانے سے قبل ہمیں یہ تحقیق کرنی ہوگی کہ یہ دِکھتی کیسی ہیں؟ فرض کیجئے کہ آپ ایک بلند و بالا عمارت پر کھڑے کسی حسین شہر کا نظارہ کررہے ہیں لیکن اچانک سے پل بھر کے لئے آپ کو یوں لگا جیسے پورے کا پورا شہر زمین سے اٹھ کر عمارت کے برابر اونچا ہوگیا ہے ،اسی سے اگلے لمحے سُکڑ کر چھوٹے سے قصبے جتنا ہوگیا ہے اور اس کے فوراً بعد سب کچھ اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہے تو یقیناً آپ اسے نظر کا دھوکا سمجھیں گے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک کشش ثقل کی آوارہ لہر کہیں دُور سے آتی ہوئی پل بھر میں اس شہر کی زمان و مکاں کی چادر میں سلوٹیں ڈالتی گزر گئی جس کے باعث آپ کو یہ "جادُوئی منظر "دیکھنے کو ملا۔ کششِ ثقل کی لہریں زمان و مکاں میں طوفان برپا کرتی آگےبڑھتی رہتی ہیں ،ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی شدت سفر کرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے ، ان کی شدت کا دارو مدار کسی بھی شے کے ماس پر ہوتا ہے، سورج سے لاکھوں گنا بڑے ستارے کے حرکت کرنے سے بڑی لہریں پیدا ہوتی ہیں جبکہ چھوٹی اشیاء کی حرکت سے انتہائی چھوٹی ناقابلِ مشاہدہ لہریں پیداہوتیں ہیں، کشش ثقل کی یہ لہریں ہر وقت کائنات میں ہر حرکت کرتی شے سے پیدا ہورہی ہے مگر ان کی شدت اس حد تک کم ہوتی ہے کہ اس کا دیدارکرنا ناممکن ہوتاہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی میلے میں آپ موجود ہوں تو وہاں پر موجود آوازوں کی وجہ سے آپ معلوم نہیں کرپائیں گے کہ کونسی آواز کہاں سے آرہی ہے لیکن اگر اُسی وقت کوئی شخص اونچی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر بولے گا تو آواز کی شدت زیادہ ہونے کے باعث سب کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ فلاں جگہ سے یہ آواز آرہی ہے ۔ بالکل اسی طرح کشش ثقل کی لہریں ہمہ وقت کائنات میں موجود رہتی ہیں مگر جب کوئی 2 انتہائی بڑے ستارے آپس میں ٹکراتے ہیں تب ان لہروں کو حساس آلات کی مدد سے نوٹ کیا جا سکتا ہے ۔ (جاری ہے)
محمد شاہ زیب صدیقی
#زیب_نامہ
#گریوٹیشنل_ویوز #کشش_ثقل_کی_لہریں #GravitationalWaves #Gravity #AlbertEinstein




مکمل تحریر >>

(مذہب اور سائنس) نوبل انعام یافتہ سائنسدان الکسس کیرل

نوبل انعام یافتہ سائنسدان الکسس کیرل لکھتا ہے

”انسان ایک انتہائی پیچیدہ اور ناقابل تقسیم کل ہے۔ کوئی چیز بھی آسانی کے ساتھ اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم بیک وقت اس کی پوری ذات کو اس کے اجزاء اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو بخوبی سمجھ سکیں۔ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کیلئے ہمیں مختلف فنی مہارتوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور اس طرح مختلف علوم سے کام لینا ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ تمام علوم اپنے کسی عام مقصد کے متعلق کسی ایک متحدہ تصور پر نہیں پہنچتے ۔ وہ انسان سے صرف انہیں چیزوں کی تجرید کرتے ہیں جو ان کے خاص طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے اور ان مجردات کو ایک دوسرے سے ملا بھی دیا جائے تو وہ ایک ٹھوس حقیقت سے بھی کم قیمتی ہوتے ہیں ۔ ان مجردات کے بعد بھی ایک ایسی ذات باقی رہتی ہے جو بہت ہی اہم ہوتی ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علم تشریح ، کیمیا ، فعلیات ، نفسیات، تعلیمات، تاریخ، سماجیات، سیاسی اقتصاد یات اپنے موضوع کو پورے طور پر ختم نہیں کرتے۔ وہ انسان جس سے خصوصی ماہرین آشنا ہیں ، حقیقی انسان سے بہت دور ہوتا ہے۔ وہ( انکی تحقیق) ایک مفروضہ کے سوا اور کچھ نہیں جو مختلف مفروضات پر مشتمل ہے۔ اور جن کو ہر ایک علم کی فنی مہارتوں نے پیدا کیا ہے۔

انسان بیک وقت ایک لاش ہے جس کو تشریح کا عالم چیرتا پھاڑتا ہے ،

وہ ایک شعور ہے جس کا ماہر ین نفسیات اور بڑے بڑے روحانی اساتذہ مشاہدہ کرتے ہیں۔

وہ ایک شخصیت ہے جس کے اندر دیکھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی ذات کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے،

وہ کیمیائی مادہ بھی ہے جس سے جسم کی نسیجیں اور خلطیں بنتی ہیں وہ خلیوں اور تغذیاتی رطوبتوں کا ایک حیرت انگیز گروہ ہے جن کے جسمانی قوانین کا مطالعہ ماہرین فعلیات کرتے ہیں،

وہ نسیجوں اور شعور سے مرکب ہے جس کو حفظان صحت اور تعلیمات کے ماہرین ، جب کہ وہ زمان کے اندر پھیل رہا ہو، امید افزا اترقی دینے کی کو شش کرتے ہیں ۔۔

وہ ایک گھریلو اقتصاد یات کا حامل ہے جس کا کام پیدا کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے رہنا ہے تاکہ مشینیں جن کا وہ غلام بن گیا ہے برابر کام کرتی رہیں۔

لیکن

اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر ، سو رما اور ولی بھی ہے،

وہ نہ صرف ایک انتہائی پیچیدہ ہستی ہے جس کا تجزیہ سائنس کی فنی مہارتوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے بلکہ وہ انسانیت کے رجحانات قیاسات اور آرزوؤں کا مرکز ہے۔

بلا شبہ انسانیت نے اپنی حقیقت کو معلوم کرنے کی بڑی زبردست کوشش کی ہے ، آج ہمارے پاس تمام زمانوں کے سائنس دانوں فلسفیوں ، شاعروں اور بڑے بڑے صوفیوں کے مشاہدات کا ایک انبار موجود ہے مگر ہم اپنی ذات کے صرف چند پہلوؤں کو دریافت کر سکے ہیں ، ہم انسان کو اس کی کلی حیثیت میں بخوبی سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم اس کو الگ الگ حصوص سے مرکب جانتے ہیں اور یہ حصے بھی ہمارے اپنے طریقوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک خیالی پیکر ہے جس کے اندر سے ایک نامعلوم حقیقت جھلک رہی ہے۔

حقیقت میں ہماری ناواقفیت بہت گہری ہے۔ وہ لوگ جو انسانی ہستیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اپنے آپ سے بہت سے ایسے سوالات کرتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہماری اندرونی دنیا کے وسیع علاقے اب تک نا معلوم ہیں۔

خلیے کے پیچیدہ اور عارضی اعضاء کے بنانے کے لئے کس طرح کیمیائی مادوں کے سالمے باہم مل جاتے ہیں؟

تر و تازہ بیضہ کیے نیوکلیس کے اندر کے نسلی مادے کس طرح اس فرد کی خصوصیات کا فیصلہ کرتے ہیں جو اس بیضہ سے پیدا ہوتا ہے؟

کس طرح خلیے خود اپنی کوششوں سے نسیجوں اور اعضا کے جیسے گروہوں میں منظم ہو جاتے ہیں چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان خلیوں کو پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے گروہ کو زندہ رکھنے میں انہیں کیا کام کرنا ہے۔ ؟ اور چھپی ہوئی بناوٹوں کے ذریعہ وہ ایک ایسے نظام جسمانی کے بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو سادہ اور پیچیدہ دونوں ہوتا ہے۔

ہماری مدت(Duration)، فعلیاتی وقت(Physiological Time) اور نفسیاتی وقت(Psychological) کی نوعیت کیا ہے۔ ؟

ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم نسیجوں ، اعضاء رطوبتوں اور شعور سے مرکب ہیں۔ لیکن شعور اور دماغ کے درمیانی تعلقات اب تک ایک راز بنے ہوئے ہیں۔ہمیں اعصابی خلیوں کے فعلیات کا پورا پورا علم حاصل نہیں۔ ارادی قوت کس حد تک نظام جسمانی میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہے، کس طرح دماغٖ اعضاء کے حالات سے متاثر ہوتا ہے، طرز زندگی غذا کے کیمیائی مادوں، آب و ہوا اور فعلیاتی اور اخلاقی تربتوں کے ذریعہ کس طرح جسمانی اور دماغی خصوصیات میں جو بطور ورثت ہر ایک فرد کو ملتی ہیں ،تبدیلیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔۔اس طرح بہت سے دوسرے سوالات کیے جاسکتے ہیں جنکا جواب نہیں دیا جاسکتا ہے، یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان کے متعلق تمام علوم کی مہارت بھی ناکافی ہے، اور یہ کہ اپنی ظاات کے متعلق ہمارا علم اب تک ابتدائی حالت میں ہے“۔

(Man The Unkhown P.16,19)

یہ اقتباس یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ انسان کا مکمل علم ابھی تک انسان کو حاصل نہیں ہوسکا۔ انسانی وجود کے مادی حصہ کے بارے میں تو ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔ مگر وہ انسان جو اس مادی وجود کو کنڑول کرتا ہے اس سے ہم قطعاً لا علم ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ زندگی اب تک ہمارے لئے ایک راز بنی ہوئی ہے اور جب تک یہ راز نہ کھلے زندگی کی صحیح تعمیر و تشکیل ممکن نہیں۔

انسان کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش – ایک مثال

فرض کیجئے ایک شخص اپنے ذمہ یہ کام لیتا ہے کہ وہ انسانیت کی حقیقت کو معلوم کرے گا، اور انسانوں کو بتائے گا کہ زندگی کا قانون کیا ہے۔؟ اس مقصد کے لئے و ہ انسانی آبادیوں سے اپنے مطالعہ کا آغاز کرتا ہے۔ لمبے عرصہ تک مختلف سماجوں کی چھان بین کرنے کے بعد اس کو محسوس ہوتا ہے کہ سماج تو انسانوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس لئے جب تک ہم فرد کو سمجھ نہ لیں، جماعت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

اب وہ معاشرہ کو چھوڑ کر انسان کا مطالعہ شروع کر تا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ سب سے پہلے نفسیات کی طرف رخ کرتا ہے، یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی ایک فکر نہیں بلکہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں۔ اور سب کے نتائج تحقیق الگ الگ ہیں۔

نفسیات کی ایک شاخ کا دعویٰ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مرکز اس کا احساس ہے۔

کسی کا کہنا ہے کہ انسان خارجی دنیا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر جوتا ثر قبول کرتا ہے اس کا ہر کام اسی کا رد عمل ہے ،

کوئی جنسی خواہشات کو اس کے تمام اعمال کا محرک بتاتا ہے ،

کسی کا مطالعہ یہ ہےکہ اپنے آئیڈیل کو پالینے کا نامعلوم جذبہ انسان کو متحرک کئے ہوئے ہے۔

کوئی مکتب فکر شعور کو اصل قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی میں انسان کی پوری ہستی کی تشریح کرتا ہے ۔

اور کوئی اس بات کا قائل ہے کہ عقل اور ذہن کوئی چیز نہیں۔ انسان کے مختلف اعضا کی عنان کسی ایک مرکزی قوت کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ انسان جس حصہ جسم پر زیادہ توجہ دیتا ہے اس کی نشو نما بہتر طریقہ سے ہو جاتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کوئی اچھا رقاص بن جاتا ہے ، کوئی اچھا مفکر ۔

اسی طرح ہزاروں نظریات ہیں، نفسیات کا یہ اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ بعض سرے سے اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں کہ اس نام کا کوئی علم فی الواقع موجود ہے۔

خیالات کے اس جنگل کو دیکھ کر وہ سوچتا ہے کہ انسانی وجود کے دوسرے حصے حیاتیات کا مطالعہ کرے تا کہ دونوں کے نتائج کو ملا کر کوئی رائے قائم کی جا سکے جب انسان کو وہ اس حیثیت سے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ انسانی نظاموں کی بنیاد چند کیمیاوی تبدیلیوں پر ہے جو کچھ کیمیاوی اشیاء اور ان کے آپس کے عمل اور رد عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسم کا سارا نظام کیمیائی تحلیل کا ہی ایک پیکر ہے۔

اب وہ غور کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جب جسم انسانی کا وجود اور اس کا نشونما کیمیاوی رد و بدل کا مر ہون منت ہے تو پہلے کیمیاوی تبدلیوں کے اصولوں کو ہی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ اس کے بغیر انسان کے بارے میں حقیقی اور قابل اطمینان معلومات نہ مل سکیں گی۔ اس لئے اب وہ کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور اس میں ایک عمر کھپا دیتا ہے۔

کیمیا ت اور طبعیات کا مطالعہ اسے مالیکیول اور ایٹم کے مطالعہ تک لے جاتا ہے اور پھر وہ ایٹم کے اجزائے تر کیبی الیکٹران اور پروٹان وغیرہ کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے جس کے بعد اس کو معلوم ہوتا ہے ہے کہ ساری کائنات برقی لہروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح مطالعہ کرتے کرتے بالاخر وہ جدید سائنس کے آخری شعبے نیو کلیر سائنس میں داخل ہو جاتا ہے اس طرح معلومات کا عظیم دفتر جمع   کرنے کے باوجود وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا ۔۔۔

یہ وہ ہے جو خالق کی حقیقت جاننے چلا تھا وہ مخلوق کی ایک جنس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش میں ہی  ایک ایسی دنیا میں گم ہو گیا  جو نظر آنے کے باجود نظر نہیں آتی ۔۔

زندگی کے راز کو مادی علوم میں تلاشی کرنے کا یہ عبرت ناک انجام بتاتا ہے کہ زندگی کا راز زندگی کو پیدا کرنے والے کی   تفصیلات سے فائدہ اٹھائے بغیر انسان کے لئے نا قابل دریافت ہے۔ جس طرح ایک بیمار شخص کی یہ معذوری کہ وہ خود اپنا علاج نہیں کر سکتا، اس کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ا س کو ایک ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے۔ اسی طرح نظام فطرت میں انسان کا ایک چیز کے لئے ضرورت مند ہو نا اور پھر اس ضرورت کی تکمیل کے لئے کافی صلاحیت نہ رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کیلئے وہ اپنے اس خدا کا محتاج ہے جس نے اسے موجودہ شکل میں بنایا ۔ جس طرح خدا نے اسے آکسیجن کا محتاج بنایا ہے اور پھر آکسیجن بے حساب مقدار میں سارے کرہ ارض کے گرد پھیلا دی ۔ اسی طرح اس نے انسان کو زندگی کی حقیقت جاننے کا محتاج بنایا ۔ اور پھر اپنے نبیوں کے ذریعہ زندگی کی حقیقت واضح فرمائی۔

(مذہب اور سائنس)
مکمل تحریر >>

ملحدین کا قرآن پر ایک اعتراض اور اس کا جواب

ملحدین کا قرآن پر ایک اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض: سورۃ الیل کی ابتدائی آیات میں اس طرح ( و الیل اذا یغشٰی و النھار اذا تجلی وما خلق الذکر و الانثٰی ) جبکہ ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ )  کے متعلق  حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ( وما خلق الذکر و الانثٰی ) کی جگہ ( والذکر و الانثٰی ) ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی موجودہ قرأت کے خلاف ہے ۔روایت یہ ہے:

ترجمہ:  ہم شام گئے تو حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) ہمارے پاس آئے اور فرمایا تمھارے پاس کوئی آدمی ہے جو عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود  کی قرأت کے مطابق پڑھنے والا ہو؟ میں نے کہا: میں ہوں، انھوں نے پوچھا: تم نے اس آیت کو حضرت عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود سے کس طرح سنا ہے: ( والیل اذا یغشٰی ) میں نے کہا: عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود اس طرح پڑھتے تھے: ( والیل اذا یغشٰی و الذکر و الانثٰی ) انھوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ( وما خلق ) پڑھوں مگر میں نہیں مانتا۔” (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ، باب ما یتعلق بالقراءات، ح 1916، ص 332)

جواب:

زیر تبصرہ روایت، شاذ قرأت پر مشتمل ہے جو اب منسوخ ہوچکی ہے، اور چونکہ یہ قرأت خبرِ واحد سے ثابت ہے جبکہ قرآن خبرِ متواتر سے ثابت ہے، اس لیے اس روایت سے قرآنن مجید کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ امام طبری ؒ اس قرأتِ شاذہ کی وجہ سے آیت ( وما خلق الذکر و الانثٰی ) کے معنیٰ مٰں جو وسعت پیدا ہوتی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہی:

1۔ اس لفظ ما کو من کے معنی میں موصولہ مانا جائے اس صورت مٰں معنٰی ی ہہوگا، اس ذات کی قسم جس نے جنس مذکر و مؤنث کو پیدا کیا۔ یعنی اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کی قسم اُٹھائی ہے، ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی قرأت ( الذی خلق الذکر و الانثٰی ) اسی معنی کو واضح کررہی ہے۔

2۔ ما کو مصدرع معنٰی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا، تخلیقِ مذکر و مؤنث کی قسم ، یعنی اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی قسم اُٹھائی ہے اور حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) اور ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی صحیحین والی قرأت سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے اس شاذ قرات کو قرآن کیوں نقل کیا؟ تو اس کی وجہ ابن حجرؒ نے یہ بیان کی ہے:” ممکن ہے یہ قرأت بھی ان قرأت میں سے ہو جن کی تلاوت عرصہ اخیرہ کے وقت منسوخ کردی گئی تھی اور ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) کو اس کے منسوخ ہونے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔ تعجب ہے کہ حفاظ کوفہ نے اس قرا ئت کو ابن مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) اور علمقہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے نقل کیا ہے اور کوفہ میں قرأت کی سند انہیں تک پہنچتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حفاظِ کوفہ میں سے کسی نے بھی اس کو ( والذکر و الانثٰی ) نہیں پڑھا۔ یہی معاملہ اہلِ شام کا ہے انہوں نے قرأت کا علم ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے لیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق قرأت کا علم ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے لیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق قرأت نہیں کی، لہذا قوی امکان ہے کہ یہ قرأت منسوخ ہوچکی تھی۔  )، ح 4944، 8/707)

گویا حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے رسمِ عثمانی کے مخالف اور بطریقِ آحاد نقل ہونے کی وجہ سے یہ قرأت قرآن نہیں ہوسکتی اگر یہ قرآن ہوتی تو بطریق تواتر منقول ہوتی اور رسمِ عثمانی کے مطابق ہوتی۔

قرآن کی شاز قرات کے متعلق تفصیل کے لیے تحریر ملاحظہ کیجیے۔

المختصر زیر بحث موضوع پر اگر شریعت اسلامیہ کے اس اصول پیشِ نظر رکھا جائے کہ کسی بھی لفظ کا قرآن ہونا صرف اسی وقت لازم نہیں آتا جب وہ تواتر اور توارث سے نقل ہوا ہوتو بہت سارے اشکالات خود بخود رفع ہوجاتے ہیں، کیونکہ جو لوگ شرفِ صحابیت سے مشرف ہوئے انھوں نے آپ ﷺ کو جو کچھ فرمایا سنایا جو کام کرتے دیکھا ان کے حق میں ان باتوں کا ثبوت کافی ہے۔ البتہ وہ لوگ جن کو رسول اللہ ﷺ سے بلا واسطہ استفادے کا موقع نہیں ملا ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کے کسی قول یا عمل کے ثبوت کی صرف تین ہی صورتیں ہیں۔

(1)  آپ ﷺ کا وہ حکم یا قول تواتر کے ذریعہ پہنچا ہو، یعنی خبر دینے والے اور اس حکم کو روایت کرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق پر متفق ہونا عقلی طور پر محال ہو۔ جو قول اور فعل بھی اس طریقے سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

(2) آپ ﷺ کا حکم اور قول خبر متواتر کی بجائے اخبارِ آحاد کے ذریعے ثابت ہو، یعنی گواہوں کے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے وہ خبر قطری الثبوت اور یقینی نہیں ہوتی اور اس میں شک و شبہ ی گنجائش ہوتی ہے۔

(3) آپ ﷺ کا وہ قول اور فعل اس طرح کا ہوکہ امت کے تعامل اور توارث کے ذریعے سے اگلی نسل تک منتقل ہوا ہو اوراس میں کسی کو اختلاف کرتے دیکھا اور سنا نہ گیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضور ﷺ پر ختم ہو۔ امت کے توارث اور تعامل سے بھی جو حکم ثابت ہو وہ بھی تواتر ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہے اور اس کا انکار بھی کفر کو مستلزم ہے۔  قرآن پورے کا پورا تواتر ، تعاملِ امت اور توارث کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے اس کے ایک حرف کا انکار بھی کفر ہے،

جبکہ  اس  تحاریر  میں ہم نے جن روایات کا جائزہ پیش کیا گیا ہ وہ اخبارِ آحاد ہیں۔ اور اصولاً ان روایات سے کسی لفظ کا قرآن ہونا لازم نہیں آتا، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ان روایات سے جو مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی کی گئی ہے وہ مبنی بر تکلف اور علمی دیانت کے منافی ہے جیسا کہ ہم نے تفصیلی دلائل سے واضح کیا ہے۔

http://ilhaad.com/2017/03/sura-lail-missing-words/
مکمل تحریر >>

خون آشام کمیونسٹ سیکولرز۔۔۔۔۔۔۔


خون آشام کمیونسٹ سیکولرز۔۔۔۔۔۔۔۔!

کمیونسٹ بنیادی طور پر خود کو عوام دوست اور غریب پرور گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کے معاشی مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ سرخ رنگ بطور علامت استعمال کرتے ہیں اور "سرخے"کہلاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی مذہب بیراز طبقہ ہے اور انکی اکثریت ملحد ہوتی ہے۔

اپنی امن پسندی کے تمام تر دعوؤوں کے برعکس یہ تحریک خونریز انقلابات پر یقین رکھتی ہے اور فکری طور پر سخت انشار پسند ہونے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں ان کو عملاً کچھ کرنے کا موقع ملا ہے انہوں نے انسانیت کا خون بہایا ہے۔ اسکی ایک مثال افغانستان ہے۔

70ء کی دہائی میں انہوں نے افغان فوج میں اپنے افکار پھیلانے شروع کیے اور 78ء میں جب انکو مطلوبہ طاقت حاصل ہوگئی تو انہوں نے افغانستان کے صدر سردار داوؤد کو اس کے پورے خاندان سمیت قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ بغاوت اتنی خونریز تھی کہ کلبل کے صدارتی محل پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی گئی جس میں خواتین و بچے وغیرہ بھی مارے گئے۔ اس کو یہ "ثور انقلاب"کہتے ہیں۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ طاقت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سردار داوؤد کے حامیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کیا۔ صرف ایک سال 78ء سے 79ء کے درمیانی عرصہ میں انہوں نے 27000مخالفیں کو قتل کیا اور اس سے زیادہ تعداد کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔

اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان سرخوں کے بلند بانگ دعوے اور اعلی اخلاقیات دھری کی دھری رہ گئیں۔ جب صرف چند ماہ بعد ہی ان میں اقتدار کے لیے آپس میں ہی رسہ کشی شروع ہوگئی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے منصوبے بے نقاب ہونے لگے۔ اس کے نتیجے میں کئی وزراء کو جیلوں میں ڈال دیا گیا حتی کہ انقلاب کے اہم ترین کمانڈر جنرل عبدالقادر بھی قید کر دئیے گئے۔

جو معاشی خوشخبریاں انہوں نے عوام کو سنائی تھیں ان کی حالت یہ تھی کہ انقلاب کے ایک سال بعد ہی افغانستان کو اپنی 100سالہ تاریخ کے پہلے قحط کا سامنا کرنا پڑا۔

لوگ اپنی جانوں اور کھانوں سے تو محروم ہو ہی گئے ساتھ ہیں اپنا ایمان بھی کھونے لگے جب انہوں نے ریاستی طاقت کے ذریعے زبردستی اپنے محلدانہ نظریات لوگوں پر مسلط کرنے شروع کیے۔ حتی کہ جھنڈے کا سبز اسلامی رنگ تبدیل کر کے اس کو بھی روس کی پیروی میں سرخ کر دیا۔ ( اس تحریک کے سارے لیڈران محلد ہوگئے تھے بشمول حفیظ اللہ امین، ترکئی، ببرک کارمل اور نجیب اللہ وغیرہ ) ان سارے عوامل نے ملکر سردار داؤود کے سیکولر نظریات کے خلاف پہلے سے موجود تحریک کو مزید طاقت دی۔

جب اس ظالمانہ حکومت کے خلاف ملک میں جگہ جگہ عوامی بغاوتیں زور پکڑ گئیں تو ان سرخوں نے اپنی ہی عوام کے خلاف روس سے مدد طلب کی اور اسکو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔

روس جو اسی انتظار میں تھا اپنی 5لاکھ فوج لے کر افغانستان پر چڑھ دوڑا اوراسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دوسری بار لاکھوں افغانی اس سرخ انقلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 60لاکھ افغانیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے اور ان میں سے 30لاکھ کو پاکستان نے پناہ دی۔ ( سرخ انقلاب کی بدولت افغانیوں کو جان ، مال اور ایمان کے بعد گھروں سے بھی محروم ہونا پڑا)

اسی دور میں مشہور کمیونسٹ سیکولر لیڈر ڈاکٹر نجیب کو روس نے کے جی بی کے نیچے کام کرنے والی افغان خفیہ ایجنسی "خاد "کا سربراہ بنا دیا۔ ڈاکٹر نجیب کو اسکی بے حسی کی وجہ سے ساتھیوں نے "غوا یا گائے "کا لقب دیا ہوا تھا۔

خاد نے ڈاکٹر نجیب کے زیرنگرانی افغانیوں کا قتل عام کیا۔ افغانیوں کا اتنا قتل عام افغانستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گرفتار ہونے والے افغان لیڈروں یا سیاسی مخالفین کو خود ٹارچر کرنا پسند کرتا تھا۔ اس نے خاد کے ملازمین کی تعداد 30ہزار تک پہنچا دی اور اسکو روس کا افغانستان میں سب سے مضبوط بازو بنا دیا۔

اس کارکردگی کی بنیاد پر روسی صدر میخایل گورباچوف کی ذاتی فرمائش پر کارمل کو ہٹا کو نجیب اللہ کو افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔ نجیب اللہ کے صدر بن جانے کے بعد افغانستان میں کرپشن اور رشوت خوری اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

روس کی افغانستان میں 5لاکھ فوج کے ساتھ موجودگی پاکستان کے لیے خطرے کے گھنٹی تھی جسکی وجہ سے پاکستان روس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی مدد کرتا رہا۔ اس پر سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر نجیب کو تھی جو اکثر پاکستان سے اس کا بدلہ لینے کی دھمکیاں دیتا رہا۔

روس کے جانے کے بعد افغانستان کے سرخے یتیم ہوگئے۔ عوامی حمایت سے وہ پہلے ہی محروم ہوچکے تھے۔ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی تو انہوں نے ڈاکٹر نجیب اللہ کو گرفتار کر کے ٹرک کے پیچھے باندھا اور کابل کی سڑکوں پر گھسیٹا بعد میں اسکو پھانسی پر چڑھا دیا۔

یہ سرخے خود کو کامریڈ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اپنی ذات کے اثیر ہوتے ہیں اور نظم و ضبط کی تمام تر صورتوں کو درہم برہم کر کے نئے سرے اپنی اپنی خیالی دنیا بسانے کے شوقین۔ انکی یہ خیالی دنیا ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے جن کے حقوق کی یہ بات کرتے ہیں!!

کارل مارکس کی نظریات کی نت نئی تشریحات کر کے خوش ہوتے ہیں اور اس پر داد بھی طلب کرتے ہیں ( حسب منشاء داد نہ ملے تو ان کے دل بھی ٹوٹ جاتے ہیں :) )

پاکستان میں یہ حیراکن کن طور پر بیک وقت تمام قوم پرستانہ تحریکوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔  :) ( انہیں پاکستان کو تقسیم کرنے والی تمام تحریکوں بشمول جاگ پنجابی جاگ، آزاد بلوچستان، پشتنونستان، سندھ دھرتی ماں اور مہاجروں سے بیک وقت ہمدردی ہے )

یہ افغانستان کے "ثور انقلاب "نامی بغاوت کو آج بھی یاد کرتے ہیں ( جسکا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے ) اسکو مناتے ہیں۔  لیکن پاکستان میں یہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔

افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے پیروکار پاکستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر کئی دہشت گرد گروہوں کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے سپورٹ کر رہے ہیں اور اس کے نتائج دیکھ کر فخریہ اعلان کرتے ہیں کہ  "دیکھا نجیب اللہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی جلائی ہوئ آگ ایک دن پاکستان کے اندر جائیگی "۔۔۔

بھٹو بھی سوشلسٹ تھا کمیونسٹ ہی سمجھ لیں۔ اس نے پاکستان میں خونریز سیاست کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کو دو ٹکڑے کیا اور اپنی احمقانہ معاشی پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معیشت کو اتنا تباہ کیا کہ وہ دوبارہ نہیں اٹھ سکی۔

میری ذاتی رائے میں یہ جو نظریاتی دنیا بسانا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کا تیار کیا گیا فارمولہ تمام انسانوں پر اپلائی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ انسانوں کی فطرت میں فساد اور خود غرضی پائی جاتی ہے جسکا مظاہرہ خود ان کے اپنے راہنما تک کرتے رہے۔

وسائل ہمیشہ انسانوں کی طلب کے مقابلے میں کم ہی رہینگے۔

ان دونوں مسئلوں کا علاج صرف اور صرف مذہب کے پاس ہے۔

"اللہ کی ذات اور آخرت پر غیر متزلزل یقین نہ صرف اخلاقیات "اختیار کرنے "پر انسان کو مجبور کرتا ہے بلکہ اسکو جو کچھ میسر ہے اس پر قناعت کرنا بھی سکھاتا ہے۔ اس کے نیتجے ایک مطمئن اور پرسکون معاشرہ وجود میں آسکتا ہے"۔۔۔

تحریر شاہدخان
مکمل تحریر >>

مذہب كے آغاز كے بارے میں دو بڑے نظریئے


مذہب كے آغاز كے بارے میں دو بڑے  نظریئے پائے جاتے ہیں۔ ارتقائی نظریہ اور الہامی نظریہ۔

ارتقائی نظریہ

ڈارون كے نظریہِ ارتقاء سے متاثر ہوكر مغربی محققین اور مستشرقین كی اكثریت نے مذہب كا ارتقائی نظریہ پیش كیا ہے۔ جدید ماہرین كو چونكہ ہر چیز میں ارتقاء كی كارفرمائی نظر آتی ہے لہٰذا انہوں نے مذہب کے متعلق بھی ایسے ہی اندازے لگانے شروع کیے ۔مذہب كے ارتقائی نظریہ كی رو سے انسان كی ابتداء جہالت اور گمراہی سے ہوئی۔ بعدازیں اس نے بتدریج مشركانہ خدا پرستی اپنالی۔ ان ارتقائی مراحل كی تفصیل میں كافی اختلاف ہے۔ مثلاً: بعض محققین كا خیال ہے كہ مذہب كی ابتداء اكابر پرستی سے ہوئی جبكہ دوسروں كی رائے میں ابتداء مظاہر پرستی سے ہوئی۔ ان كا خیال ہے كہ انسان نے ابتداء میں اپنی كم فہمی اور لاعلمی كی وجہ سے مظاہرِ فطرت كی پرستش شروع كردی۔ كیونكہ ابتدا میں اس كی زندگی و موت كا انحصار كافی حد تك ان پر تھا۔ مثلاً: سیلاب، طوفان، زلزلے اور آتش فشاں وغیرہ، لیكن جوں جوں اس كا علم بڑھتا گیا اور جہالت دور ہوتی گئی تو اس نے محسوس كیا كہ یہ مظاہرِ فطرت خدائی قوتیں نہیں ركھتے۔ ابتدا میں لوگوں نے ہر چیز كو دیوتا بنالیا لیكن علمی ترقی كے ساتھ ساتھ خداؤں كی تعداد میں كمی ہونے لگی حتٰی كہ آخر میں صرف ایك خدا رہ گیا۔

جولین بكسلے پہلا مغربی مفكر ہے جس نے ڈارون كے نظریہِ ارتقاء كو مذاہب كی تاریخ پر چسپاں كیا۔ وہ لكھتا ھے:

’’پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اس كی جگہ لے لی۔ پھر دیوتاؤں كا عقیدہ اُبھرا، بعد ازیں خدا كا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر كر مذہب اپنی آخری حد كو پہنچ چكا ہے۔‘‘

نظریہِ ارتقاء كا ابطال:

اس نظرے کے مطابق توحید جدید  اور شرك قدیم ہے۔ یہی بات نظریہِ ارتقاء كے ابطال كے لیے كافی ہے۔ تاریخ خود اس نظریئے كا ابطال كرتی ہے۔ مسیح علیہ الّسلام سے ڈھائی ہزار برس قبل حضرت ابراہیم علیہ الّسلام خالص توحید كے پرستار تھے اور مسیح علیہ الّسلام سے دو ہزار برس بعد آج بھی نوعِ انسانی میں كروڑوں آدمی شرك كے پرستار ہیں۔علم اور انسان كی جدید تحقیق سے خود  اكثر مغربی مفكرین بھی اب ارتقائی نظریہ كو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور الہامی نظریہ كو ماننے  پر مجبور ہوئے ۔ چنانچہ  پہلا محقق  جس نے  دریافت کیا کہ بہت خداؤں پر یقین رکھنے والے مذاہب بھی اصل میں ایک مذہب پر یقین رکھتے تھے’ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن لینگڈن تھے ۔ 1931میں انھوں نے اپنی اس دریافت کو دنیا کے سامنے بالخصوص سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کے سامنے پیش کیا۔اور یہ کہا کہ اس دریافت سے پتہ لگنے والی باتیں غیر متوقع ہیں اور ارتقاء کے حوالے سے دی جانے والی توجیحات کے منافی ہیں۔سٹیفن لینگڈن نے اپنی دریافت کی وضاحت اس طرح کی”۔۔انسانی تہذیب کی قدیم ترین تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان نے بہت تیزی سے ایک خدا کو ماننا چھوڑ کر بہت سے خداؤں  اور بری ارواح کو ماننا شروع کر دیا ۔ ۔۔”

پانچ سال بعد  سٹیفن لینگڈن نے سکاٹس مین میں کچھ یہ بیان دیا کہ:”شواہد بغیر کسی شک و شبہے کے ایک خدا کو ماننے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اہل یہود کی قدیم ترین کتابو ں  اور ادبی باقیات بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ   اس زمانے کے لوگ ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ اور اب قدیم مذاہب اپنی ساکھ کھو چکے ہیں”۔

Stephen H. Langdon, The Scotsman, 18 November1936))

3000 قبل از مسیحؑ سے تعلق رکھنے والے ایک شہر سمیرین کے علاقے تل اسمار کی کھدائی سے جو شواہد ملے ہیں وہ پروفیسر سٹیفن لینگڈن کی دریافت کی تصدیق کرتے ہیں۔کھدائی کے ڈائریکٹر ہنری فرینکفرٹ نے سرکاری طور پر یہ رپورٹ شائع کروائی:

“کھدائی کے دوران    بہت سے واضح نتائج  سامنے آئے ہیں جو قدیم مذاہب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ ہمیں ایسی چیزیں دستیاب ہوئی ہیں جن کی بدولت ہم پہلی مرتبہ کسی مذہب کا اس وقت کے معاشرے کے مطابق مطالعہ کر سکتے ہیں۔

ہمیں عبادت گاہوں اور ان میں عبادت کرنے والوں کے گھروں سے ایک جیسے شواہد ملے ہیں۔ جن کی بدولت ہم کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت کی مہروں کے اوپر مختلف خداؤں کی تصویریں بنی  ہوئی ہیں۔ ان تصویروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ تمام تصویریں ایک خاص تصویر میں اکھٹی ہوتی ہیں جس میں اہم جگہ ایک خاص خدا کے لیے وقف ہے جس کی ان کی عبادت گاہوں میں بھی سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔”

(H. Frankfort, Third Preliminary Report on Excavations at Tell Asmar (Eshnunna): quoted by P. J. Wiseman in  New Discoveries in Babylonia about Genesis, London: Marshall, Morgan and Scott, 1936, p. 24.)

فرینکفرٹ کی دریافت سے  بہت سے اہم حقائق پتہ چلتے ہیں کہ کیسے ایک توہم پرستانہ اور بہت سے خداؤں پر ایمان رکھنے کا نظام قیام میں آیا۔

مذاہب کے ارتقاء کی تھیوری یہ دعویٰ کرتی ہے کہ بہت سے خداؤں کو ماننے کا تصور اس وقت عام ہوا جب لوگوں نے بری ارواح  کو قدرتی طاقتوں کی نمائندگی  بنا کر انکی  پرستش شروع کر دی۔ جبکہ  ایسا نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں  نے  خدا کی مختلف خوبیوں  کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے  جس کی وجہ سے ایک خدا کے تصور میں بگا ڑ پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ ایک خدا کا تصور بہت سے خداؤں میں بدل گیا۔

لینگڈن کے سمیرین ٹیبلیٹس کے ترجمے سے بہت پہلے ایک محقق فرائیڈرک نے بھی اسی طرح کی دریافت کی۔ وہ تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچا کہ قدیم مذاہب میں پائے جانے والے بہت سے خدا اس وقت کے ایک بڑے خدا مدروک کے مختلف کرداروں سے وجود میں آئے۔ تحقیق سے یہ  بات سامنے آئی ہے کہ مدروک پر ایمان ایک خدا پر ایمان کی خرابی سے پیدا ہوا۔ اس خدا مدروک کے بہت سے نام تھے جیسے کہ نینیب(طاقت کا مالک)، نرگل (جنگ کا مالک)،  بیل(حکمرانی کا مالک)، نیبو(پیغمبروں کا مالک)، سِن یا            رات کو روشن کرنے والا، شماش (تمام عدل کا مالک)، عبدو( بارش کا خدا)۔

وقت کے ساتھ مدروک  کی  ان صفات  کو اس سے جدا کر دیا گیااور مختلف خداؤ ں کو ان اختیارات کا مالک بنا دیا گیا۔ اسی طرح سورج دیوتا، اور چاند دیوتا جیسے خدا لوگوں کے تخیلات سے وجود میں آئے۔ مدروک پر یقین اور ساتھ ساتھ اسی خدا کے دوسرے ناموں پر یقین ایک خدا پر ایمان میں خرابی کی صورت میں پیدا ہوا۔راہ راست سے ہٹنے کے اس جیسے شواہد ہمیں قدیم مصر میں بھی ملتے ہیں۔ محققین نے یہ دریافت کیا ہے کہ قدیم مصری پہلے ایک خدا پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ وہ سورج کی پوجا میں لگ گئے۔

ایم۔ ڈی روژ لکھتے ہیں:

“یہ بات شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ مصری مذہب کے پرشکوہ حصے وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی طرف نہیں بڑھے، بلکہ پر شکوہ حصے قدیم ہیں، اور جس حصے کو لاطینی اور یونانی مصنف سب سے پر شکوہ مانتے ہیں وہ در اصل قدیم مذہب کی سب سے بگڑی ہوئی صورت ہے۔ “

ماہر آثار قدیمہ سر فلنڈرز پیٹری لکھتے ہیں کہ توہمات اور بہت سے خداؤں پر یقین ایک خدا کے تصور میں بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے کہا کہ یہ بگاڑ آج کے اور ماضی کے تمام معاشروں میں دیکھا جا سکتا ہے، بعض نسلیں جیسے کہ ماڈرن ہندو بہت زیادہ خداؤں کی موجودگی پر خوشی مناتے ہیں اور ان خداؤں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہتاہے۔ دوسری طرف بعض لوگ کسی عظیم  خدا پر یقین نہیں رکھتے بلکہ بری ارواح اور شیاطین پر یقین رکھتے ہیں۔

اگر ایک خدا پر ایمان کا تصور بہت سے خداؤں،  برائی کی طاقتوں کی پوجا سے ارتقاء کا نتیجہ ہوتا تو ہم ایک خدا  کا مانا جانا  بہت سے خداؤں  کے مانے جانے کا نتیجہ دیکھتے ۔ جبکہ  شواہد  اس کے بر عکس ہے، شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پہلے پہل ایک خدا کی پرستش کی جاتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس تصور میں خرابی سے بہت سے خداؤں پر یقین کا نظام وجود میں آتا گیا۔Sir Flinders Petrie, The Religion of Ancient Egypt, London: Constable, 1908, pp. 3, 4.))

پروفیسر شمٹ نے اپنی كتابThe Origin and Growth of Religion میں لكھا ہے:

’’علم شعوب و قبائل انسانی كے پورے میدان میں اب پرانا ارتقائی مذہب بالكل بے كار ہوگیا ہے۔ نشوونما كی كڑیوں كا وہ خوش نما سلسلہ جو ان مذاہب نے پوری آمادگی كے ساتھ تیار كیا تھا، اب ٹكڑے ٹكڑے ہوگیا  اور نئے تاریخی رجحانوں نے اسے اٹھا كر پھینك دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہوچكی ہے كہ انسان كے ابتدائی تصور كی اعلیٰ ترین ہستی فی الحقیقت توحیدی اعتقاد كا خدائے واحد تھا اور انسان كا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایك توحیدی دین تھا۔‘‘(The Origin and Growth of Religion، page 242)

مذاہب کے متعلق  تاریخی مواد  پر غور پر کریں تو معلوم ہوگا کہ  کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدا مانتی ہو ۔ بلکہ  انکے نزدیک  تعدد آلہ کا مطلب ایک بڑے خدا کو مان کر کچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا   ہے   جو ذیلی خداؤں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک خدا یا متعد خدا نگان کا تصور پایا جاتا رہا ہے ۔ایسی حالت میں اوپر پیش کیا گیا ارتقائی مذہب کا استدلال ایک بے دلیل دعوی  رہ جاتا ہے۔

مذہب کے متعلق اسی طرح  اشتراکی مارکسی نظریہ تاریخ  بھی  موجود ہے ، یہ ان سے بھی  زیادہ لغو ہے یہ نظریہ اس مفرو ضہ پر مبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں جو انسان کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیدا ہوا وہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کا زمانہ تھا اب چونکہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اس لئے اس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاقی و مذہبی تصورات بھی یقینی طور پر اپنے ماحول ہی کا عکس ہوں گے اور  وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں گے۔ مگر یہ نظر یہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ تجربہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتا ہے وہ الگ سے سوچ کر کوئی کام نہیں کرنا بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی طرح مطابق سوچنے لگتا ہے اگر یہ واقعہ ہے تو سوال یہ ہے کہ  مارکس جو خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیدا ہوا تھا اس کے لئے کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے؟ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جاکر کیا تھا اگر مذہب کو پیدا کرنے والی چیز وقت کا اقتصادی نظام ہے تو مار کسزم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے؟ مذہب کی جو حیثیت مارکسزم کو تسلیم نہیں ہے وہی حیثیت اس کے اپنے لئے کس طرح جائز ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگریز حد تک لغو ہے اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اور عقلی دلیل موجود نہیں۔  تمام  مشہور پیغمبر اپنے دور کے ظلم پر مشتمل سرمایہ دارانہ نظام کو توڑنے ہی آئے ،  حضرت موسی ؑ ہوں یا  ابراھیم  ؑ یا حضرت محمدﷺ یہ  اپنے دور کے  ہر ظالم و جابر کے خلاف برسرپیکار رہے اور انہوں نے عدل ہی کی آواز لگائی ۔

مذہب کا الہامی نظریہ

مذہب كا الہامی نظریہ ہے كہ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل حضرت آدم علیہ الّسلام كو جب دنیا میں بھیجا تو اوّل روز سے ہی ان كی تمام مادی ضروریات كی طرح ان كی روحانی ضروریات یعنی دینی ہدایت كا بھی سامان كیا۔اس طرح انسانِ اوّل پوری طرح ہدایت یافتہ تھا۔ وہ نہ صرف توحید پرست تھا بلكہ توحیدِ الٰہی كا پیغامبر تھا،انسانیت كو صراطِ مستقیم اور توحیدِ خالص سكھانے كے لیے وقفے وقفے سے ہر زمانے اور ہر قوم كی طرف رسول بھیجے گئے۔۔مختصر یہ کہ ابتدائے آفرینش سے انسان كا اصلی مذہب توحید رہا ہے۔ شرك اس وقت پیدا ہوا جب انسانی آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ ہوا اور انبیاء كی تعلیم دھندلی پڑگئی۔ آج بھی  غیر الہامی اور مشرک   مذاہب  ہندو مت، جین مت، زرتشتی اور سكھ مت، بدھ مت اور افریقہ کے پرانے مذاہب  وغیرہ  میں الہامی تعلیمات کی ہلکی پھلکی جھلک  دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس وقت موجود  الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے خالص توحید پر مبنی تھیں، لیکن بعد میں  عیسائیت اور یہودیت كے پیروكاروں نے اپنے مذاہب میں من مانی ترامیم اور تحریفات كرلیں۔

الہامی و غیر الہامی  مذاہب

مذاہبِ عالم كو الہامی اور غیر الہامی میں تقسیم كیا جاتا ہے۔ الہامی سے مراد وہ ادیان ہیں جو خدا، اس كے رسولوں اور ان كی لائی ہوئی كتابوں پر یقین ركھتے ہیں۔ اس كے برخلاف غیر الہامی سے مراد وہ ہیں جو اپنی تعلیمات اور عقائد كو خدائے وحدہُ لاشریك كی معیّن ہدایات كے تابع نہیں سمجھتے۔ الہامی مذاہب میں یہودیت، عیسائیت اور اسلام، جبكہ غیر الہامی میں بقیہ مذاہب آتے ہیں۔  الہامی مذاہب کو سامی مذاہب بھی کہتے ہیں ، سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب جو سام بن نوح کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ الہامی مذاہب سامی نسل سے تعلق ركھتے ہیں لیكن اس كے یہ معنی نہیں كہ ان مذاہب اور خصوصاً اسلام كا عقیدہ صرف سامی نسل كے لوگوں تك محدود رہا یا سامی نسل كی برتری پر مبنی ہے ،ان مذاہب كے سامی النسل ہونے كا منشاء صرف اس قدر ہے كہ ان مذاہب کے انبیاء  سامی اقوام میں آئے ۔ ورنہ یہ تینوں سامی مذاہب آج عالمگیر اور دنیا كے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں

غیر الہامی مذاہب کو  منگولی اور آریائی مذاہب بھی کہا جاتا ہے ، تاؤازم،شنوازم،بدھ مت اورکنفیوشزم ،یہ تمام مذاہب منگول قوم کی طرف منسوب ہیں۔بعض علماء بدھ مت کو آریائی مذاہب میں شمار کرتے ہیں اور بعض منگولی مذاہب میں شمارکرتے ہیں (ہندومت،جین مت،سکھ مت اور زرتشت یہ تمام مذاہب کی نسبت آریہ قوم کی طرف منسوب ہیں)

الہامی و غیر الہامی مذاہب كا تقابل: –

الہامی مذاہب اصلاً ایك خدا كے تصور پر مبنی ہیں، یہ  مذاہب پیغمبروں كے قائل ہیں، مذاہب كا اصل منبع و سرچشمہ سماوی ہیں، مشرقِ وسطٰی سامی اقوام  سے ابتدا ہوئی اور اپنی تعلیمات کی  تبلیغ کے باعث باہر بھی پھیلے ۔

غیر الہامی مذاہب  ایک تصور خدا  كے پابند نہیں،  بعض سرے سے خدا كے تصور سے بھی عاری ہیں، تعلیمات کا سرچشمہ سماوی نہیں رہا، ا ن میں پیغمبروں کا تصور   ختم ہوچکا ہے  ،  ان کا علاقہ وہ ہے جہاں  بعد میں  سامی مذاہب کی  تبلیغ نہیں ہوسکی ۔

تعلیمات کے لحاظ سے بھی  ان میں فرق ہے ، الہامی مذاہب اپنی تعلیمات یا عملی تاریخ كے باعث تبلیغی ہیں اور غیر الہامی اپنی اصلی تعلیمات كے مطابق تبلیغی نہیں۔

اس طرح  الہامی مذاہب كی تعلیمات معیّن اور واضح ہیں لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات غیرمعیّن اور لچكدار ہیں۔ مزید  الہامی مذاہب كی تعلیمات كلّی ہیں اور اپنی اصل كی بنا پر دینی اور دنیوی زندگی پر كم و بیش حاوی ہیں، لیكن غیر الہامی مذاہب كی تعلیمات جزوی ہیں یعنی یا تو صرف روحانی زندگی سے متعلق ہیں جیسے تاؤ مت یا پھر دنیوی زندگی سے متعلق ہیں جیسے كنفیوشسی مت۔

آسمانی/ الہامی مذاہب:

انبیاء کرام کے ایک طویل و مدید سلسلہ کی ابتدا حضرت آدمؑ سے ہوئی اور انتہاء حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر  ہوئی ، اس بڑی لمبی و طویل مدت کے درمیان انسانی زندگی کو سنوارنے کے لئے تقریباً کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اس صفحہ ہستی  پر تشریف لائے اور سب کا مشن بندوں کے مابین اللہ کی ذات کا تعارف، اور اس کے ہر چھوٹے بڑے حکم کو بجالانا تھا۔ خود قرآن کریم میں تقریباپچیس انبیاء کے اسمائے گرامی کا تذکرہ ہے۔ مثلاً آدم، نوح، موسیٰ، ابراہیم، اسحاق، اسماعیل، داؤد، سلیمان، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد (ﷺ)۔مگر احادیث کے مطابق ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ حضرت محمد  ﷺ سے قبل آنے والے پیغمبروں کا دور اپنی قوم تک محدود تھا اور ان کی تعلیمان بھی ایک قوم اور ایک وقت کیلئے مخصوص تھیں ان کی کتابیں اور شریعت بھی ایک محدود زمانے تک قابل عمل تھی ، خود انجیل کی شہادت اس سلسلے میں موجود ہے ” میں نہیں بھیجا گیا مگر اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی طرف”  ( بائبل، انجیل متی، 24:15)اس لئے یکے بعد دیگرے کتابیں بھی اتاری جاتی رہیں اور نبی اور رسول بھی بھیجے جاتے رہے اور سابقہ کتابیں منسوخ ہوتی رہیں، تاآنکہ رسول اللہ  کو آخری نبی اورآخری کتاب دے کر بھیجا گیا اور دین و شریعت کی تکمیل کردی گئی۔

اس وقت موجود  الہامی مذاہب عیسائیت، یہودیت اور اسلام ہیں، ان كے داعی اللہ تعالیٰ كے رسول اور پیغمبر تھے۔ ان كی تعلیمات جزوی فرق سے توحید پر مبنی  ہیں اور انکا منبع ایک ہی  ہے۔ ان  تینوں مذاہب کے پیغمبر حضرت ابراھیم ؑ کی  اولاد سے ہیں ، حضرت ابراھیم ؑ کے دو بیٹے تھے ۔ حضرت اسحق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ۔حضرت اسحق ؑ  اور انکے بیٹے حضرت یعقوب  بھی پیغمبر تھے ، حضرت یعقوب ؑ کا نام اسرائیل  بھی   تھا  اور اسی سے انکی نسل کو بنی اسرائیل کہا جاتا  ہے  ۔ حضرت اسماعیل ؑ  مکہ میں آکر آباد ہوئے اور انکی اولاد میں صرف حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی  ۔

عام باشندگانِ عرب شروع سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پَیرو تھے تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عَمر و بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری ، صدقہ وخیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی۔ اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اوّلیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ اس شخص نے ملک شام کے سفر میں بتوں کی پوجا دیکھی تو اس نے سمجھا کہ یہی بہتر اور بر حق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سر زمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر چل پڑے۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت او ر بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ ہبل سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ صورت انسان کی تھی۔ یہ مشرکین کا پہلا بت تھا اور ان کے نزدیک سب سے عظیم اور مقدس تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۲۸)



مغرب ومشرق کے عروج وزوال کے فلسفے کی راکھ سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مسلم جدیدیت کا آغاز ہوا۔ مسلم جدیدیت کے نقطہ نظر کے پس پشت خلافت ارضی کے زوال کا زیر لب مرثیہ ہے، زوال کی موج خوں سر سے گزر گئی اور مسلمان قوت، طاقت اور حاکمیت سے محروم کر دیے گئے لہٰذا عروج کیلئے طاقت، علم، قوت، سائنس، مغرب کا طریقہء علم وزندگی، مغربی آدرش، اقتدار اور استخلاف فی الارض ہی اصل اہداف ٹھہرے۔
حیرت انگیز طور پر تمام قوم پرست، بنیاد پرست، احیائی تحریکوں، جدیدیت پسند طبقات اور روایت پسند مفکرین کے یہاں عروج اور اقتدار کی زیریں لہریں مشترک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا زوال اس وجہ سے ہوا کہ وہ علم وہنر وفنون میں اور تسخیر کائنات میں پیچھے رہ گئے، مغرب نے ان میدانوں میں سبقت حاصل کی۔ عروج وزوال سے متعلق گزشتہ دو سو برس کے تجزیوں میں متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ جدید علوم کے ذریعے ہی اسلام کا غلبہ قائم ہوگا، اس کے سوا کامیابی اور کامرانی کا کوئی راستہ نہیں ہے، یہ رویہ خالصتاً غلامانہ سوچ کا آئینہ دار ہے۔ اگر مغرب کے راستے کو کاملاً اختیار کر لیا جائے تو مشرق مغرب بن جائے گا مگر روحانی اخلاقی طور پر مغرب سے بدتر ہوگا۔ غلبے کی تشخیص وتجزیے میں تبلیغ اور دعوت دین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اندلس میں زبردست مادی ترقی کی لیکن روحانی طور پر وہ غیر مسلموں کو متاثر نہ کر سکے لہٰذا ہمیشہ اقلیت میں رہے۔ اندلس یورپ میں اسلام کی اشاعت نہ کر سکا۔ خلافت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور دائرہ اسلام کو وسیع کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ یہ تمام سلطنتیں مادی طور پر بہت مستحکم سلطنتیں رہیں۔ لیکن رعایا پر یہ روحانی برتری قائم نہ کر سکے۔ انہوں نے زمین مسخر کرلی، دل مسخر نہ کر سکے۔ دعوت سے اغماض ہی ان کی ناکامی تھا لیکن عروج وزوال کی تمام قدیم وجدید بحثوں میں اس بحث کا ذکر نہیں۔
عروج وزوال کی بحث کرنے والے مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ خلافت عباسیہ جوٹیکنالوجی میں منگولوں اور تاتاریوں سے برتر تھی اور تہذیب وتمدن میں اس کا ان سے مقابلہ نہ تھا، آخر کیسے شکست کھا گئی؟ ایک غالب اور برتر تہذیب وحشیوں کی یلغار کا سامنا کیوں نہ کر سکی؟
یہ مفکرین یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ شکست خوردہ اسلامی تہذیب صرف پچاس سال کے عرصے میں بغیر کسی مادی ترقی کے دوبارہ کیسے غالب آگئی اور وہ کون سی سائنس ٹیکنالوجی، علوم اور فلسفے تھے جس نے چنگیز کے پوتے برقے کو قبولیت اسلام کیلئے آمادہ کیا اور طاقت کا توازن آناً فاناً تبدیل ہو گیا۔؟
اس سوال پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ ترکوں کا سیلاب ویانا میں کیوں داخل نہ ہو سکا جبکہ یورپی حکمران ٹیکنالوجی اور سائنس میں خلافت عثمانیہ کے مقابلے میں برتری کے حامل نہیں تھے۔؟
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت اور ریاستیں انگریزوں سے کیوں شکست کھا گئیں جبکہ اس وقت عسکری سطح پر دونوں گروہوں کے پاس کم وبیش توازن طاقت برابر تھا۔؟ پورے ہندوستان کو فتح کرنے والی انگریزی فوج کی تعداد صرف چند ہزار تھی لیکن ہندوستان کیونکر سرنگوں ہو گیا۔؟
لہٰذا مسئلہ صرف فنون علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کا نہیں ہے، مسئلہ اس سے بڑھ کر گھمبیر ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان اہم تاریخی مباحث کو یہ مفکرین نظر انداز کرکے زوال کے سطحی تجزیے پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زوال گھمبیر ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی، مصر، ملیشیا نے مغربی تہذیب اور تعلیم کو اختیار کرلیا تو وہاں کیا انقلاب برپا ہوا؟
سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا خواب پورا ہو گیا لیکن اس جامعہ کے ذریعے کیا عروج کا وہ سفر طے ہو گیا جس کی آرزو کی گئی تھی اس جامعہ سے شائع ہونے والی کتنی کتابیں آج دنیا بھر کی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہیں؟
جدیدیت پسندوں کے یہاں ایک لہر مغربی علوم کو عروج کا ذریعہ سمجھتی ہے دوسری لہر صرف سائنس کو ترقی اور تیسری لہر مغربی علوم کے ساتھ مغربی ثقافت کو۔ ان تینوں لہروں میں ایک اندرونی غیر محسوس ادغام دنیا پر غلبے اور بالادستی کا تصور ہے۔ جدیدیت پسندوں کے یہاں یہ بالادستی دعوت ایمان، قلوب کی تسخیر، دین کے لئے محنت، پیغام محبت، عمل صالح، اتحاد، اجماع اور جہاد کے مراحل کے فلسفے کے بغیر صرف سائنسی علوم اور معیشت کی طاقت پر اصرار کرتی ہے۔ طاقت کے مختلف مظاہر اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہیں۔
کیا عروج صرف سائنس کے ذریعے اور مادی ترقیات کے بغیر نہیں مل سکتا؟
کیا فتح کا واحد راستہ جنگ، پیسہ، علم ہے؟
کیا فریق مخالف کو سرنگوں کیے بغیر فتح کا کوئی امکان نہیں؟
اس تاریخی مغالطے کی تشریح جدیدیت پسندوں اور احیائی تحریکوں میں بنیادی نوعیت کے نظریاتی فرق کے باوجود یکساں ہے۔ دونوں کے یہاں اقتدار حکومت، طاقت علم، سائنسی ترقی کے بغیر مسلمانوں کے غلبے کا واضح شعور اور تصور نہیں ملتا۔ غلبے کے تمام ذرائع صرف مادیت پر انحصار کرتے ہیں۔
قدیم اور جدید راسخ العقیدہ اور جدیدیت پسند مفکرین کے یہاں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے کہ سلطنت روما کو عیسائیت نے ٹیکنالوجی کے بل پر شکست نہیں دی، روما جیسی عظیم الشان سلطنت فتح کرنے والے گدھوں پر سوار تھے، حملہ آوروں کی دعوت نے قلوب مسخر کر لیے تھے۔ روس کو امریکا نے عسکری میدان میں شکست نہیں دی بلکہ روسی عوام کا نظریہ زندگی بدل دیا۔ انہیں لبرل بنا دیا گیا۔ یہ جنگ میدان جنگ میں نہیں عقیدہ اور نظریہ کی تبدیلی کے ذریعے کی گئی۔ یہی صورتحال چین کے ساتھ درپیش ہے، سرمایہ دارانہ نظام کے باعث چین کا تشخص ختم ہو گیا ہے وہ نظریاتی اساس کھو بیٹھا ہے۔
عروج و زوال کی بحثوں میں جدیدیت پسند طبقات دین پرنقد کرتے ہیں بعض حدیث کا انکار کرتے ہیں بعض اسلامی اقدار کا استہزا اور تمسخر اڑاتے ہیں، بعض دین کو ہی زوال کا سبب سمجھتے ہیں، بعض اس زوال کی وجہ سائنس اور عقل سے انحراف کو قرار دیتے ہیں، بعض روحانیت کے ساتھ مادی ترقی کی ضرورت کو لازمی سمجھتے ہیں، بعض زوال کا سبب تصوف کو ///////گردانتے ہیں، بعض مظاہر کائنات سے عدم دلچسپی کو زوال کی وجہ بتاتے ہیں لیکن تنقید کرنے والے تمام طبقات مادیت کے ذریعے ہی عروج وزوال کی تشریح کرتے ہیں۔

مکمل تحریر >>