Friday 9 November 2018

عقیدۂ آزادی

عقیدۂ آزادی آپ کو بتاتا ہے کہ ؛
آپ اپنے فطری و جینون فریم ورک سے نہیں نکلو گے تو آپ آزاد نہیں کہلاؤ گے !

آپ کی زندگی کا مقصد آپ کا خالق طے کرے تو آپ آزاد و روشن خیال نہیں کہلاؤ گے ، بلکہ آپ اگر آزاد نہیں جیتے تو آپ اپنے انسان ہونے کا ہی انکار کرتے ہو ۔۔۔۔۔
مغرب صرف اس فرد کو انسان مانتا ہے جس کے ذریعے سرمایہ پیدا ہو اور جو سرمائے کے حصول کیلئے جئیے !!

آزادی یہ ہے کہ تم اپنی زندگی خود اختیار کرو ،
خیر و شر کے خالق آپ خود ہو ، آپ خود ہی خود کے خدا ہو ،

اس کے برعکس عقیدۂ عبدیت بتاتا ہے کہ آپ آزاد نہیں پیدا کئے گئے ،
آپ اللہ کے عبد ہو ۔۔۔۔۔۔ آپ کا فریم ورک وہ ہے جو اللہ تعالی آپ کو متعین کرکے دے !
اسی میں آپ کی ہر بھلائ ہے ، اسی میں ہر خیر ۔۔۔۔
دینِ اسلام سارے کا سارا ہے ہی خیر خواہ ۔۔۔۔۔

لیکن جمائما دراصل اللہ سے آزاد ہوگئ ہے ، اب یہ اپنی زندگی کا مقصد خود طے کرچکی ہے ، لہذا یہ مغرب کی آنکھ کا تارا ہے ،
اس نے عبد بن کر جینے سے انکار کردیا اور اب یہ ھیومن بئینگ بن گئ ہے ، یعنی یہ اللہ کے عطا کردہ بدن کو اللہ کی مرضی کے تابع نہیں کرنا چاہتی ،۔۔۔،

یہ گھر و فیملی و خاندان کو لات مار چکی ہے
کیونکہ جو بھی عقیدۂ آزادی پر ایمان لے آتا ہے وہ سب سے پہلے جس چیز کو پاؤں کی ٹھوکر پہ لاتا ہے ۔۔  وہ ہوتا ہے گھر ، خاندان ، فیملی ۔۔!!

نظامِ سرمایہ داری میں ورک اور کام ؛ وہ کہلاتا ہے جس سے سرمایہ آئے ،
یہی وجہ ہے مغربی ڈکشنری میں گھر اور خاندان چلانے والی خاتون ورکنگ وومین نہیں کہلا سکتی ۔۔۔۔۔
(حالانکہ وہ 24 گھر سنبھالتی ہے ، اللہ نے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہوئ ہے) ۔۔۔۔
ورکنگ وومین صرف وہ کہلاتی ہے جو سرمایہ داروں کو لاکھوں کما کر دے ۔۔۔!!
ایک وقت بعد آخر نتیجے سامنے آگئے کہ وہاں کی خاتون عزت کو بھی مارکیٹ میں لے آئ ۔۔۔۔۔۔
My Body is my Property کا تصور عام ہوا
خواتین سیکس ورکر کہلانے لگیں ۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب حدیں پار ہوگئیں ،

سرمائے کے حصول کیلئے سب کچھ حلال ہوگیا ۔۔۔۔ کیونکہ مغربی علمیت میں انسان کہلاتا ہی وہ ہے جو اپنے لئے حلال و حرام خود تخلیق کرے ۔۔۔۔۔  

پاکستانی مسلم خواتین بھی اب مغربی ڈسکورس پڑھ لکھ گئ ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ کمانے کیلئے جنت سے باہر نکل آئ ہیں ،
جو اللہ نے ان کے قدموں تلے رکھی تھی ۔۔۔۔
اللہ نے اس کے قدموں تلے جنت جس کام کی وجہ سے رکھی تھی ۔۔۔۔ جب یہ اس فریم ورک سے ہی بھاگ نکلی تو پھر اب اس کا وہ مقام قائم نہیں رہا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنی اصل جگہ اور اپنا حقیقی و پرسکون مقصدِ زندگی فنا کردیا ۔۔۔۔

سرمایہ دارانہ نظام جمائما کے ذریعے لاکھوں کمائے گا ،
اس کا لباس ، اس کی فیزیک ، اس کے سونے اٹھنے کا ٹائم ٹیبل ، یہ کیا کھائے گی اور کیا نہیں ، اور کتنا کھائے گی ، کس وقت کھائے گی ، کس وقت نہیں ۔۔۔۔۔ کوئ ایک بھی کام یہ آج کے بعد اپنی مرضی سے نہیں کرپائے گی ۔۔!!
سرمایہ دار اب اس کی زندگی کا خدا ہے ، وہی اب اس کی ایک ایک حرکت ڈیسائیڈ کرے گا ۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ پھر بھی آزاد کہلائے گی ،
کیونکہ آزادی کا مطلب صرف یہ ہے کہ ؛
یہ گھر سے نکل کر باہر کی دنیا میں آگئ اور آج کے بعد یہ صرف اسی کام کو ترجیح دے گی ، جس سے پیسہ حاصل ہو ۔۔۔۔۔

اسے آپ کسی ریسٹورانٹ میں لگوا دیں ۔۔ یہ وہاں بھی روٹیاں اور پیزے تیار کر کرکے سارا دن ، ساری رات لوگوں کو کھلا لے گی ۔۔ کیونکہ اس سے سرمایہ حاصل ہوگا ۔۔۔۔۔

یہ ہر ایرے غیرے کے سامنے اپنا بدن لیکر گھومتی پھرے گی ، ساری دنیا اس کے جسم کی اونچ نیچ و سائز سے واقف ہوگی ۔۔۔۔۔۔
بھاگتی دوڑتی ، دن رات ایک کرتی ۔۔۔۔ نہیں تھکے گی ۔۔۔۔
کیونکہ اس بدترین و گھٹیا غلامی کے ذریعے اسے سرمایہ حاصل ہوگا ۔۔۔۔!!

اللہ تعالی ہماری خواتین کو عقل دے ، دین کی سمجھ عطا فرمائے ، وگرنہ عصرِ حاضر کی اِن ماڈرن خواتین کا کوئ ارادہ نہیں ۔۔۔۔۔۔  ''جنتوں کے اوپر قدم جمائے رکھنے کا''

#انس_اسلام

https://bbc.in/2QzW9ZO

مکمل تحریر >>

Wednesday 7 November 2018

ایک معصومانہ سوال۔ کیا مسمان عورتیں لونڈی بننا چاہیں گی؟

ایک معصومانہ سوال۔ کیا  مسمان عورتیں  لونڈی بننا چاہیں گی؟

اس معصومیت پہ کون نہ مر جائے اے خدا !!!
کیا کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام سنا ہے ؟ نہیں سنا تو میں سنا دیتا ہوں ۔ ان کو چالیس سال کی عمر میں بیاسی سال کی قید کی سزا امریکہ بہادر نے سنائی ہے ۔ یعنی اگر انہوں نے معجزانہ طور پر 122 سال کی عمر پالی تو آزاد ہو کر موج کریں گی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے ۔
معصومانہ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ طویل سزا سنانے سے پہلے آپ جیسے کسی بے وقوف نے نہیں پوچھا کہ آپ لونڈی بننا پسند کریں گی یا نہیں ۔
امریکہ سمجھتا ہے وہ ان کی مجرم ہیں انہوں نے لونڈی بنا لیا ۔ عافیہ کو یہ سزا پسند آئی یا نہیں آئی امریکہ کی جانے جوتی ۔
جو مسلمانوں کے خلاف مخاذ آرائی کرتے پکڑی جائیں گی انہیں اسلام میں لونڈی بنانے کا حکم ہے چاہے وہ کسی ملحد کی ماں ہو بہن ہو یا بیوی ہو ۔ اس کو اپنا لونڈی بننا پسند آئے یا نہ آئے ۔ ہماری جانے جوتی ۔
میں تو انتظار میں ہوں کہ دنیا کے کسی خطے میں ملحدوں کی حکومت آئے ۔ قسم سے بڑی مضحکہ خیز سچویشن ہو گی ۔ جس طرح بچے سے قلفی چھین لی جاتی ہے اس طرح حکومت چھن جائے گی ان سے ۔ کوئی مذہبی چکو دکھا کو حکمران کو نیچے اتار دے گا اور سارے ملحد امن کی بانسری بجاتے موم بتیاں جلاتے احتجاج کرتے رہ جائیں گے کہ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔ ہائے ہائے ہماری حکومت چھین لی ۔
کیا لونڈی سے ہم بستری کے لئے اس سے اجازت لینی چاہے ؟
اگر کوئ  مسلمان ہے  تو جواب ایک لائن کا بنتا ہے کہ یہ اجازت ﷲ اور ﷲ کے رسول نے دی ہے ۔
رہا سوال اجازت کا تو ہمبستری کے لئے تو بیوی کی اجازت بھی ضروری نہیں کجا یہ کہ لونڈی کی لی جائے ۔
 مرد اپنی بیوی سے مباشرت سے پہلے اس کی اجازت لے گا ؟
جی مگر یہ رضا صرف ایک بار قاضی کے سامنے لی جاتی ہے ۔ بیوی ایک ہی بار قبول ہے کہہ کر تاحیات اس کی اجازت دیتی ہے ۔
اس اصول کو سمجھیں کہ جو بیوی ملکیت میں نہیں اسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تو جس لونڈی کا انسان  مالک ہو اس کی اجازت کی ضرورت کیوں ہو گی ۔ جس وقت آپ اس کے مالک بنو گے وہ سمجھیں کہ آپ کے حرم میں ویسے ہی آگئی جیسے بیوی آتی ہے ۔
فرق یہ ہے کہ بیوی اختیار کرتی ہے اپنی منشاء سے جبکہ لونڈی کی مرضی نہیں پوچھی جاتی ۔
لونڈی کیوں اپنے آقا کو پسند کرنے لگی ۔
قتل کے جرم میں جس کی گردن کاٹنی ہو اس سے کبھی پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سے جلاد سے گردن کٹوانا پسند کرو گے ؟
لونڈی سے بغیر نکاح کے ہمبستری اس کی سزا ہے جو ﷲ نے طے کی ہے ۔اس سے نہیں پوچھا جائے گا ۔ یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ قتل ہونے سے بچ گئی ۔ کیوں کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے آئی تھی ۔
پکڑی گئی تو غلام بن گئی ۔
مسلمانوں کو یہاں تک حق حاصل ہے کہ اسے قتل کر دیں مگر اس پر رحم کیا جاتا ہے ۔ اور اسے کسی ایک مسلمان کی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان چاہے تو اس سے نکاح کر لے چاہے تو بطور لونڈی اس سے ہمبستری کرے ۔
ڈیل محض یہ ہے کہ اس کی جان بچ گئی ۔
اس کی اصل سزا قتل ہے کیوں کہ وہ جنگ میں مسلمانوں کی عورتوں بچوں اور مردوں کے قتل کو آنے والی قوم کی معاونت کرتے پکڑی گئی ہے اورﷲ کے دین کی مخالفت اور مسلمانوں کے قتل کی سازش میں حصے دار تھی مگر چونکہ اس قوم کو نشان عبرت بنانا ہے لہٰذا ﷲ کا حکم ہے کہ اس کو زندہ رکھا جائے اور اس سے مسلمان بچے پیدا کیئے جائیں   ۔ اور وہ بچے نہ صرف حلال ہوں گے بلکہ باپ کی جائداد میں حصے دار بھی ہوں گے ۔

تحریر۔
Mohammad Saleem
مکمل تحریر >>

لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔ تحریر۔۔۔ذیشان وڑائچ

لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز کیا ہے۔
تحریر۔۔۔ذیشان وڑائچ

ہم اس بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
‌أ.                       لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ قرون اولی کے دور میں
‌ب.                 لونڈی سے مباشرت کا اخلاقی جواز۔ موجودہ دور میں
فی الحال قرون اولی والی بحث کرتے ہیں۔ موجودہ دور سے متعلق بحث تیسرے نکتے پر بحث کرنے کے بعد کریں گے۔
یہ معاملہ تھوڑا بہت حساس ہے یا موجودہ دور کے ذہن کی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ یہ حساس بن گیا ہے ورنہ پہلے یہ سرے سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
چونکہ معاملہ جنسی ملاپ سے متعلق ہے اس لئے کچھ باتیں کھل کر کرنا ضروری ہے اور نہ کرنے کی صورت میں بہت ساروں کے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات تشنہ رہ جائیں گے۔
صحیح تجزیہ کرنے کے لئے پہلے اس نکتہ پر بحث کرتے ہیں کہ مختلف تہذیبوں میں عورت اور مرد کے جنسی ملاپ کے کیا کیا اخلاقی جوازات رہے ہیں اور لونڈی سے جنسی ملاپ ان اخلاقی جوازات کے تناظر میں کیا حیثیت رکھتی ہے۔
جنسی ملاپ کے ویسے تو بہت سارے شرائط یا جوازات ہوسکتے ہیں، لیکن دو چیزیں بالکل ہی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
۱۔ شادی یا نکاح۔
۲۔ آپسی رضامندی
۱۔ شادی یا نکاح

 جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی، قانونی اور مذہبی منظوری کے لئے جو لفظ عام طور مشہور ہے وہ نکاح یا شادی ہے۔ ایک مرد اور عورت جب شادی کرتے ہیں تو گویا کہ وہ پورے معاشرے میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے میاں بیوی ہیں اور ان کے جنسی ملاپ کے حق کو پورا معاشرہ، میاں بیوی کے رشتہ دار، حکومت اور مذہب تسلیم کرتا ہے۔ اور عورت کا جو بچہ ہوگا اس کے بارے میں تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اس کے میاں کا بچہ ہے اور اس بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے میاں کی ہوگی۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس پر تقریباً دنیا کی تمام تہذیوں میں اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ یعنی یہ اتفاق پہلے پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں مغربی تہذیب نے اس کے معنی مکمل طور پر بدل دیے ہیں۔
آج کے مغرب میں جنسی ملاپ کے لئے معاشرتی اور مذہبی منظوری ضروری نہیں ہے۔ اور قانون کی طرف سے سرے سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ مغرب میں شادی کے بغیر بھی جنسی ملاپ کو جائز سمجھا جاتا ہے، شادی کا مطلب وہاں پر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص شادی کرلے وہ صرف اپنے پارٹنر کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرسکتا ہے، اسے کسی اور کے ساتھ جنسی ملاپ کی اجازت نہیں ہے۔ اور شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں اسے جس سے چاہے جنسی ملاپ کی آزادی ہوتی ہے۔
پرانی تہذیبوں میں، آج کے مشرق میں اور خاص طور پر اسلام کے معاملے میں صورت اس کے برعکس ہے۔ یہاں پر جنسی ملاپ بغیر شادی کے جائز ہی نہیں ہے۔ شادی کے بعد اسے جنسی ملاپ کا لائسنس مل سکتا ہے لیکن صرف اس کے ساتھ جس سے نکاح ہوا ہے۔
اس اعتبار سے شادی کا مطلب ہی مغرب اور اسلام میں الگ ہے۔
اسلام میں شادی کے ذریعے ایک پابندی ہٹا کر جنسی ملاپ کی آزادی دی جاتی ہے۔ اور یہ آزادی صرف ان کے درمیان ہوگی جو آپس میں شادی شدہ ہیں۔ یعنی مکمل پابندی سے ایک یا زیادہ سے زیادہ چار کی پابندی لاگو ہوتی ہے۔
مغرب میں شادی سے پہلے ہر قسم کی جنسی آزادی ہوتی ہے، لیکن شادی کے ذریعے اس کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سے جنسی ملاپ قائم کرے۔ یعنی لامحدود سے ایک کی پابندی ڈالی جاتی ہے۔
ہم نے شادی کے بارے میں جو تشریح کی تھی اس میں بنیادی طور پر تین اداروں کا ذکر کیا تھا۔ معاشرہ، حکومت اور مذہب۔ عام طور پر شادی کے بارے میں ان تینوں ادارں کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان کے درمیان تنازعہ ہوتا ہے۔ مثلاً لڑکی کی شادی کی عمر پر یہ تینوں ادارے متفق نہیں ہوتے۔ کزن میریج پریہ تینوں ادارے خاص طور پر مذہب اور حکومت متفق نہیں ہوتے۔ بھارت میں ایک کونسپٹ ہوتا ہے جسے گوتر کہتے ہیں جو کہ وہاں پر خاندانوں کی تقسیم کا ایک نظام ہے۔ بھارتی قانون ایک ہی گوتر کے لڑکا لڑکی کے درمیان شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ ایک دین کو ماننے والے فرد یا معاشرے کے لئے خدا کا حکم اور اس کی اجازت فائنل آتھارٹی ہوتی ہے۔ یعنی، معاشرہ جو چاہے کرے یا حکومت جیسا چاہے زبردستی قانون نافذ کرے، بہرحال اگر یہ شادی خدا کے حکم کے مطابق ہے تو پھر جنسی تعلق کا اخلاقی جواز موجود ہے ورنہ نہیں۔ یہاں خواہ مخواہ کے تنازعوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی قانون اسلام کے مطابق بنایا جائے تاکہ اسلام پر بھی عمل ہو اور قانون کی بھی مخالفت نہ ہو۔
اب لونڈی سے مباشرت کا معاملہ لیں۔ جب اسلام لونڈی اور آقا کے درمیان جنسی ملاپ کی منظوری دے رہا ہے اور جب اس پر قرآن واضح ہے۔ تو پھر اعتراض کی بنیاد کیا ہے؟ جس طرح میاں بیوی کے درمیان جنسی ملاپ کا اخلاقی جواز موجود ہے بالکل ہی اسی طرح لونڈی اور آقا کے درمیان اخلاقی جواز موجود ہے۔
تاریخی اعتبار سے تو حکومت اور معاشرہ بھی اس کو منظور کر رہا تھا اور مذہب تو کر ہی رہا ہے۔ اس لئے اس پر اعتراض کی بنیاد پوری طرح سے ڈھ جاتی ہے۔
۲۔ آپسی رضامندی

اب رہ جاتا ہے رضامندی والا اعتراض۔ مغربی معاشرے میں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے میں رضامندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس رضامندی کے نظریے کو مغرب میں کونسنٹ (Consent) کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر واضح ہوگیا پرانی تہذیبوں میں اور آج کی مشرقی تہذیبوں میں اور خصوصاً اسلام میں جنسی ملاپ کے اخلاقی جواز کے لئے نکاح یا شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن آج کے مغربی معاشرے یا جن علاقوں میں مغربی تہذیب کو پوری طرح قبول کیا گیا ہے وہاں پر جنسی ملاپ کے جواز کے لئے شادی کے بجائے کونسنٹ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاملے میں شادی کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
لونڈی سے جنسی ملاپ کو اس فرق کے تناظر میں بھی دیکھنا چاہئے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کو اپنے اصول کے لئے ایک مغرب کے عقیدے کو کیوں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے؟
اس معاملےمیں ایک اور بنیادی سوال ذہن میں آتا ہے۔ نکاح کے معاملے میں باقاعدہ ایجاب و قبول ہوتا ہے۔ لیکن لونڈی بنانے کے معاملے میں یہ نہیں ہوتا۔ میرا خیال ہے کہ لونڈی کے معاملے میں بھی یہ ہوتا ہے۔
ایک عورت دو طرح سے لونڈی بن سکتی ہے:
۱۔  ایک یہ کہ وہ باقاعدہ جنگ میں حصہ لے رہی ہو اور جنگ کے دوران مسلمانوں کی قیدی بن گئی۔ جب وہ جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو اسے پتہ تھا کہ اگر وہ قید ہوگی تو لونڈی بنائے جانے کا پورا امکان ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمان عورتوں کو قید کیا گیا تو اس بات کی بہت کچھ گنجائش ہے کہ مسلمان عورتوں کو بھی لونڈی بنایا جائے۔ وہ جب جنگ میں حصہ لے رہی تھی تو وہ اس پوری انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ میں فوج کا حصہ بنی۔ اگر اس کو پکڑے جانے کی صورت میں لونڈی نہیں بننا تھا تو اس کے پاس پورا آپشن موجود تھا کہ وہ لونڈی نہ بنے یعنی جنگ میں حصہ نہ لے۔ جب لونڈی بننے کے ایک پورے پراسس کا حصہ خود اپنی مرضی سے بن چکی ہے تو پھر یہ کہنا ہے کہ اس کی مرضی نہیں تھی کا کیا مطلب ہے؟
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جنگ میں پورا قبیلہ ملوث تھا اور جنگ کے نتیجے میں پورا قبیلہ بکھر گیا اور عورتوں اور بچوں کا نگران کوئی نہیں رہا۔ اُس دور میں ایسی صورت حال میں عورت کے پاس کوئی چوائس ہوتی ہی نہ تھی۔ اگر ان عورتوں کو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ انہیں کوئی اور قبیلہ غلام اور لونڈی بنالیتا یا پھر بصورت مجبوری وہ عورتیں خود طوائف بن کر زندگی گزار لیتی۔ اور پھر جب وہ خود لونڈی بن گئی اور انہیں پتہ ہے کہ ملکیت میں آنے کے بعد ان کا کوئی اختیار نہیں ہے تو جس معاشرتی جبر میں وہ رہتی ہے وہاں پر کونسنٹ خود سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔
یہاں پر ہم واضح کریں کہ کونسنٹ ایک قانونی اصطلاح ہے۔ اس سلسلے میں ایک اورلفظ جو قابل غور ہے وہ  ہے "آمادگی"۔ جنسی معاملے میں کونسنٹ  اور آمادگی کی پوری حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہم یہاں پر کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے پتہ چلے گا کہ لونڈی کے معاملے میں کونسنٹ ایک غیر اہم مسئلہ ہے۔
‌أ.          مغربی یا مشرقی معاشرے میں ایک عورت اپنی معاشی ضرورت پوری کرنے کے لئے طوائف کا پیشہ اختیار کرتی ہے۔ اس نے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے طوائف کے پیشے کو اختیار کیا۔ وہ ہر روز ایک نئے مرد کے ساتھ سوتی ہے اور اس کا مقصد جنسی لذت حاصل کرنا نہیں بلکہ مرد کو خوش کر کے پیسے کمانا ہوتا ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ب.   ایک جوان عورت زیادہ عمر والے مالدار مرد سے شادی کرتی ہے۔ مقصد اس مرد کے پیسے سے فائدہ اُٹھانا ہے۔ اس عورت کو اس مرد سے جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن اس مرد کی جنسی خواہش پوری نہ کرنے کی صورت میں جو مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے پیش نظر وہ مجبوری میں اس کے ہر جنسی مطالبہ کو پوری کرتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ج.     مشرقی معاشرے میں کچھ خاص حالات کی وجہ سے ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ شادی ہوچکی ہے اور طلاق کی صورت میں کئی قسم کی سماجی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے وہ لڑکی اپنے ناپسندیدہ شوہر کے جنسی مطالبات کو مجبوری میں تسلیم کر لیتی ہے اور اس کے بچوں کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌د.        ایک مغربی معاشرے میں لڑکا لڑکی کی دوستی ہوجاتی ہے جس کو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کہا جاتا ہے۔ لڑکی صرف دوستی رکھنا چاہتی ہے اور ابھی جنسی تعلق کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ لیکن لڑکا جنسی تعلق کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انکار کی صورت میں بریک اپ یعنی دوستی ٹوٹنے کا پورا امکان ہے۔ نتیجتاً لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌ه.      ایک بیوی ہے جو کہ اپنے شوہر سے محبت بھی کرتی ہے اور اس کی خواہشات کا احترام کرتی ہے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا پسند بھی کرتی ہے۔ لیکن مرد کی جنسی طلب عورت سے زیادہ ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد جنسی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے لیکن عورت کا "موڈ" نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود عورت صرف اپنے شوہر کی خاطر اس کے مطالبے کو تسلیم کر لیتی ہے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
‌و.       ایک مسلمان دین دار عورت اپنے شوہر کے جنسی مطالبے کو صرف اس وجہ سے تسلیم کرتی ہے کیوں کہ بلاوجہ شوہر کو انکار کرنے کی صورت میں فرشتے اس پر لعنت کریں گے۔ کیا یہاں پر کونسنٹ پایا جاتا ہے؟
ان تمام مثالوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ کونسنٹ کتنی غیر حقیقی اور غیر متعین شئے ہے۔ لیکن ایک چیز ان تمام مثالوں میں پائی جاتی ہے وہ آمادگی ہے۔ میں نے ہر سوال کے آخر میں ایک سوال پوچھا ہے کہ آیا یہاں پر کونسٹ پایا جاتا ہے یا نہیں۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔
لیکن ان مثالوں میں آمادگی ضروری  پائی جاتی ہے۔  آپ دیکھتے ہیں کہ معاشی ضرورت، سماجی مجبوری، نفسیاتی دباؤ اور مذہبی اصول ایک عورت کے اندر خود سے آمادگی پیدا کرتے ہیں۔ آمادگی فی نفسہ اندر سے پیدا ہونے والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کا بیرون ہے جو آمادگی پیدا کرتا ہے۔ جب ایک عورت لونڈی بنتی ہے اور جب اس کو خود معاشرتی اور سیاسی حالات کا پتہ ہوتا ہے تو اس کے حالات خود اس کے اندر آمادگی پیدا کر لیتے ہیں۔
اصولی طورپر دو وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یہاں پر کونسنٹ کا معاملہ اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا عقیدہ ہے کہ ہر انسان آزاد ہے۔ اس لئے لونڈی سے جسمانی تعلق قائم کرنا اس کی آزادی چھیننے کے برابر ہے۔  ہم اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ کسی کے لونڈی یا غلام  ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اور اس فرد کے لونڈی یا غلام بننے کی باقاعدہ اخلاقی وجہ موجود ہے۔ اس لئے ایک غلام اور لونڈی کے معاملے میں آزادی کی بنیاد پر اعتراض کھڑا کرنا بالکل ہی ایک متناقض بات ہے۔
اس معاملے میں حساسیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کسی عورت کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنے کی وجہ سے وہ عورت شدید قسم کی ذہنی اور جسمانی تکلیف سے گذرتی ہے۔ یہاں پر کونسنٹ اور آمادگی کو ملادیا جاتا ہے۔ اوپر دی گئی مثالوں سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ اگر حالات کے جبر کی وجہ سےعورت اس عمل کے لئے آمادہ ہوجائے قطع نظر اس سے کہ آپ اس آمادگی کو قانونی طور پر کونسنٹ سمجھیں یا نہ سمجھیں،  عورت کو ایسی کسی تکلیف سے گذرنا نہیں پڑتا اور مغرب میں ایسی آمادگی کے ساتھ جسمانی تعلقات صراحتاً جائز سمجھے جاتے ہیں۔
اب ذرا صورت حال دیکھیں۔ ایک عورت ہے جو کہ کسی صورت حال کی وجہ سے لونڈی بن گئی۔ اسے پتہ ہے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر آقا کا اپنی لونڈی سے مباشرت کرنا قابل قبول ہے۔ اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ مزاحمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسے یہ بھی پتہ ہے کہ آقا کا اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی صورت میں وہ اپنے آقا کی بیوی کا شیئر حاصل کر رہی ہے اور بچہ ہونے کی صورت میں اسے بیچا نہیں جاسکتا۔
اور ذرا سیاسی پس منظر بھی ملاحظ فرمائیں کہ اس عورت کو یہ بھی پتہ ہے کہ جس ماحول میں وہ رہ رہی ہے وہاں پر جنگی قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانا قابل قبول ہے اور اگر اس کی اپنی سائڈ والے جییتے تو اس کا اپنا شوہر بھی ایک آدھ لونڈی گھر لے آتا۔
اس پورے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر کونسنٹ کا مسئلہ پیدا ہی کہاں ہوتا ہے؟
اعتراض کرنے والے عام طور پر یہ دعوی کرتے ہیں کہ لونڈی کے ساتھ جنسی تعلق دراصل ریپ (Rape)   ہے۔ یہاں پر مناسب ہے کہ اس اصطلاح کو صحیح تناظر میں سمجھا جائے۔ ہمارے ذہن میں ریپ کے لفظ سے جو تصور پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک کمزور عورت ایک یا ایک سے یا زیادہ مردوں کے شکنجے میں پھنسی ہوئی تڑپ رہی ہے اور وہ مرد اس پر جنسی زیادتی کر رہےہیں جبکہ وہ عورت ان کے شکنجے سے آزاد ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جس کی وجہ سے وہ شدید قسم کی جسمانی اور ذہنی تکلیف میں مبتلا ہے۔حقیقت یہ ہے کی ایسا قطعی نہیں ہوتا۔ حالات اور معاشرہ اس کے اندر خود سے آمادگی پیدا کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اوپر کی مثالوں میں یہ آمادگی  پیدا ہوجاتی ہے۔ریپ مغرب کے عمرانیاتی ، مابعد الطبیعاتی اور قانونی تناظر میں پیدا شدہ ایک لفظ ہے جس پر بحث کرنے کے لئے الگ سے ایک مضمون کی ضرورت ہے۔ اس کو ایک قطعی دوسرے سیاق میں استعمال کرنا بذات خود ایک بد دیانتی ہے۔
************************************************
مکمل تحریر >>

دین سے دوری اور سب حرام کاموں اور حرام اشیاء کے استعمال کے یورپی اور غیر مسلم معاشرہ کیوں ترقی کر رہا ہے؟کیا مذہب ترقی کے لیے لازمی نہیں ہے؟اگر لازمی ہے تو کافر ترقی پر کیوں اور مسلمان زوال میں کیوں؟

دین سے دوری اور سب حرام کاموں اور حرام اشیاء کے استعمال کے یورپی اور غیر مسلم معاشرہ کیوں ترقی کر رہا ہے؟کیا مذہب ترقی کے لیے لازمی نہیں ہے؟اگر لازمی ہے تو کافر ترقی پر کیوں اور مسلمان زوال میں کیوں؟
جہاں تک شراب ’جوئے ’زنا ’خنزیر اور سور وغیرہ کے حرام ہونے کی وجہ اور سبب کا تعلق ہے تو اس بارے میں دوباتوں کا جاننا نہایت ضروری ہے۔ پہلی یہ کہ ہر انسان کے لئے یہ معلوم کرنا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ فلاں چیز کیوں حرام ٹھہرائی گئی اور کس وجہ سے اس کا استعمال کرنا ممنوع ٹھہرایا گیا ۔ کیونکہ جو چیزیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں ان کی خباثتیں یا نقصانات کا معلوم کرلینا یہ انسان کے بس میں نہیں ہوتا ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی اپنے علم اور تجربے سے معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں اور پھر ایک حرام کردہ چیز کی خباثت ایک زمانے میں ظاہر نہیں ہوتی جب کہ دوسرے زمانے میں وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔
مثلاً سور کے گوشت کی مثال ہی لیجئے کہ جب یہ حرام کیا گیا تو اس وقت شاید ہی کسی کو اس کی حرمت کا سبب یا علت معلوم تھی لیکن سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ انکشافات ہوتے گئے کہ اس میں ایسے مہلک جراثیم اور کیڑے ہوتے ہیں جو بے شمار بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں بہرحال کوئی انکشاف ہو یا نہ ہو مسلمان اس عقیدے پر قائم رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور حکیم و خبیر ہے اس لئے یہ اسی کا حق ہے کہ جس چیز کو چاہے حلال ٹھہرائے اور جسے چاہے حرام قرار دے دے اس پر اعتراض کرنے یا اس کی نافرمانی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اہل علم کا یہ فرض ہے کہ وہ خلق خدا کے سامنے ان محرمات کے نقصانات اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں تا کہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب ہرانسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں ہے تو پھر آخر اسے کس چیز پر انحصار کرناہوگا؟ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الہٰی ہے مگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے نبی و رسول ہیں تو پھر اسے چیزوں کی حلت و حرمت کا اختیار اللہ وحدہ لاشریک ہی کو دینا ہوگا ’کسی عالم’درویش ’ بادشاہ یا حکمران کو یہ اختیار دینے کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا خدا اور قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو کسی چیز کی حرمت و حلت کے بارے میں شک ہے تو پہلے اسے قرآن و اسلام کے بارے میں اپنے عقیدے کا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان ہے تو پھر خالق کائنات کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا چاہے اس کی حکمت یا فلسفہ اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے (یہ ضروری نہیں)
شراب: اب شراب کو ہی لیجئے اس کی حرمت کی سب سے بڑی وجہ اور سبب تو یہ ہے کہ اسے اس ذات نے حرام ٹھہرایا ہے جو چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی خوبیوں اور مضرتوں کا صحیح علم رکھنے والا ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ اسے کیوں حرام ٹھہرایا ؟ا س کا کیا نقصان ہے؟ اس بارے میں موجودہ دور میں یہ بات تقریباً متفق علیہ ہوچکی ہے کہ شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کے بے شمار طبی اور معاشرتی نقصانات ہیں جس سے انسان کی صحت اور اخلاق دونوں پر اثر پڑتا ہے اور آج ان کی بہتات اور کثرت استعمال دنیا بھر کے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ رہی یہ بات کہ شراب کے کچھ فوائد بھی ہیں تو قرآن نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کے نقصانات منافع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا یہ حرام ہے اور جدید تحقیق نے اس کے نقصانات واضح کردیئے ہیں۔
جوا: قرآن نے شراب کے ساتھ ہی جوئے کاذکر بھی کیا ہے کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ایک بیماری کا شکار ہونے والا دوسری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ ہارے ہوئے جواری اکثر شراب کے ذریعے ہی عارضی اور مصنوعی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ جوئے کے نقصانات فرد اور معاشرے دونوں کے لئے بالکل واضح ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے کسی لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت نہیں اس کھیل میں محنت اور وقت دونوں کی بربادی ہے ۔ جواریوں کے درمیان بغض و عداوت اکثر قتل وغارت تک پہنچتی ہے اور اس مرض میں مبتلا عیاش لوگ خاندان کا کاروبار اور معاشرتی روایات سب کو تباہ کرنے پر تیاہ ہوجاتے ہیں۔ایسے لوگ محض آرزوؤں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔ محنت اور اسباب کی تلاش کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ صرف بازی جیتنے کے لئے بسا اوقات دین ’عزت اور وطن کو بھی داؤ پر لگا دیتےہیں اسی لئے قرآن نے انہیں رجس من عمل الشیطان کہا کہ گندے شیطان کام ہیں ’ان سے بچ کررہو۔
خنزیر: جدید طب نے خنزیر کے گوشت کے نقصانات واضح کردیئے ہیں کہ اس کا کھانا ہر خطے خصوصاً گرم ممالک میں انتہائی نقصان دہ ہے ۔ بعض سائنس دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے کھانے سے جسم میں خطرناک قسم کے کیڑے پیدا ہوجاتےہیں۔ مسلم ماہرین نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق خنزیر کے گوشت کے زیادہ استعمال سے غیرت کم ہوجاتی ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتےہیں کہ اگر اتنا ہی نقصان دہ ہے تو انگریز اور دوسرے غیر مسلم اتنی کثرت سے استعمال کیوں کرتےہیں۔ تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ مغربی ممالک کے لوگ یا دوسرے غیر مسلم ہر اس چیز سے دور رہتے ہوں جو نقصان دہ ہو۔ سگریٹ کے استعمال سے جو خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور سرطان کے اسباب میں بھی اب سگریٹ نوشی کو شامل کرلیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد یورپ والوں نے سگریٹ نوشی چھوڑدی ہے؟ اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں کہ شراب اور خنزیر کے نقصان سے یہ بچے ہوئے ہیں بلکہ ان ساری بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ ان گند گیوں کے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیز ان کی ہلاکت اور بربادی کا سبب بنے گی۔
زنا: اسلام دین فطرت ہے اس لئے ا س نے فطری خواہشات کی بھی حدود مقرر کردی ہیں۔ اگر انسان کو جنسی خواہشات کے لئے آزاد چھوڑدیا جائے اور زنا کوجائز قرار دے دیا جائے تو خاندانی اور عائلی زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ حسب و نسب اور حقوق و فرائض کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے نہ تو یہ کیا کہ اس کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا کہ جہاں چاہے جانوروں کی طرح اپنی خواہش پوری کرلے اور کوئی دینی یا اخلاقی رکاوٹ بھی اس کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی اس سے ٹکرانے کی اجازت دی کہ گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے اور شادی بیاہ اور دوسری دنیاوی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کرکے رہبانیت اختیار کرلی جائے ۔ بلکہ اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے کہ کچھ حدود مقرر کی ہیں جن کے اندر رہ کر نکاح کی شکل میں خواہش پورا کرنے کی اجازت دی اور ان حدود سے باہر زنا کی شکل کو حرام و بے غیرتی قرار دیا اور صرف اسلام ہی کا نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب ہا یہی موقف ہے۔
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جس قوم میں یہ بیماریاں آجائیں وہ ترقی کرسکتی ہے یا نہیں اور یورپ والوں میں یہ بیماریان پائی بھی جاتی ہیں پھر بھی وہ ترقی کررہے ہیں؟
یہ بڑا نازک سوال ہے اور اکثر لوگ اس شبہ میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھاجاتےہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ترقی صرف مادی وسائل کی بہتات کا نام نہیں کہ جس قوم کے پاس ہتھیاروں یا دنیاوی اسباب کی بہتات ہو وہ ترقی یافتہ ہے ہمارے نزدیک ترقی یافتہ وہ قوم ہے جس نے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی قدروں کو بھی اجاگر کیا ہو اور ان کا بھی تحفظ کررہےہوں۔جیسا کہ اسلام کے روشن دور کی مثالیں ہمارے سامنے موجو ہیں۔ آج جنہیں آپ ترقی یافتہ سمجھتے ہیں وہ اخلاقی اور روحانی طور پر اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ اگر بداخلاقیوں اور بد کردار یوں کی رفتار یہی رہی تو اہل مغرب بہت جلد انہتائی بھیانک انجام سے دوچار ہوں گے۔ آپ ہی بتائیں کہ نیو یارک جو دنیا کے معیار کےمطابق مہذب ترین اور سب سے ترقی یافتہ ملک کا مرکزی شہر ہےوہاں چند گھنٹوں کے لئے اگر بجلی فیل ہوجائے تو حیوانیت و درندگی کس طرح ناچتی ہے نہ کسی کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ مال ایک رات میں چوریوں اور ڈاکوں کا شمار کرکے بتائیں کہ اسی کا نام ترقی ہے؟جبکہ زنا شراب اور جوئے کی وجہ سے وہاں جتنے قتل اور فسادات ہورہے ہیں وہ اس سے الگ ہیں۔ ہتھیاروں کی ترقی کا انجام بھی برا نظر آتا ہے شاید یہ کسی بدحواسی میں آکر اپنے ہی بنائے ہوئے ہتھیاروں سے تباہ برباد ہو جائیں اور جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو اکثر ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہاں آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی اور مادی لحاظ سے ان لوگوں کو مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے لیکن ایسا کیوں ہے؟ یہ بھی قابل غور بات ہے ۔ یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ غالب رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کفار کے مقابلے میں ان کی ہمیشہ مددکرے گا اورر اس کی تکمیل اسی شکل میں ہوگی جب مسلمان اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کریں اور اللہ نے بارہا یہ وعدہ پورا کیا کہ جب مسلمانوں نے اس کی سچی اطاعت کی تو پھر وسائل کی کمی کے باوجود انہیں غالب و کامیاب کیا۔ اور اگر دونوں شرابی دونوں زانی یعنی کفار بھی عیاش اور مسلمان بھی عیاش دونوں بد عمل و بد کردار ہوجائیں تو پھر اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ جو تعداد اور مادی قوت میں زیادہ ہوگا وہ دوسرے پر غالب آجائے گا۔موجودہ صورت حال ایسی ہی کہ کفار دشمن اسلام بھی ہیں’زانی و شرابی بھی ہیں مگر پھر مسلمانوں پر غالب اور مادی لحاظ سے ان سے آگے ہیں کیونکہ عیاش ہونے کےباوجود وہ محنت بھی کرتےہیں اور زندہ رہنے کے کچھ اصولوں پر کاربند بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمان اپنے دین سے باغی بھی ہیں۔ زناو شراب کو بھی جائز ٹھہرائے ہوئے ہیں اللہ کے قانون کو اپنے ملکوں سے دیس نکالا بھی دیا ہوا ہے اور ان عیاشیوں اور بغاوتوں پر اضافہ یہ کہ محنت بھی نہیں کرتے اور معاملات و اخلاق میں کوئی اصول و ضابطہ بھی نہیں تو ظاہر ہے یہ دوسروں سے پیچھے ہی رہیں گے بلکہ اللہ سے عہد کرنے کے بعد پھر یہ بغاوت و سرکشی زیادہ ناراضگی کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ کی اطاعت اور اس کی فرماں برداری ہی مسلمانوں کی امتیازی شان ہے۔ یہ نہ رہی تو پھر کفار اپنی محنت و قوت سے ان پر غالب آسکتے ہیں۔ اس بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کفار کےلئے شراب و زنا یا دوسرے گناہ مفید ہیں اور نقصان دہ نہیں اور ان کی ترقی میں رکاوٹ نہیں۔ بلکہ یہاں بھی کچھ خدائی قوانین وضابطے ہیں جنہیں قرآن بیان کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی شان حاصل کرنے کےلئے کوشش کرتا ہے تو ہم اس کو کوشش کے صلے میں پوری پوری عطا کرتےہیں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑتے مگر صرف دنیا کے طالبو ں کے لئے آخرت میں سوائے جہنم کی آگ کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ (ھود:۱۵۔۱۶)
اب اس سے واضح ہوگیا کہ بسا اوقات اللہ تعالیٰ دنیا کے حصول کی خاطر محبت کرنے والوں کو ان کی محنت کا پورا پورا صلہ عطا کرتا ہے۔ لیکن اس ساری ترقی یا قوت کے باوجود کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ مسلسل نافرمانیوں اور سرکشیوں میں رہنےکی وجہ سے اچانک عذاب الہٰی کی لپیٹ میں آجاتےہیں ۔ ارشادربانی ہے
اور کتنے ہی بستیوں والے جو اپنی معیشت کی ترقی پر اترانے لگ گئے ہم نے ان کو ایسے صفحہ ہستی سے مٹایا کہ اس جگہ بعد میں کوئی کم ہی آباد ہے اور بالاخر ہر چیز ہماری ملکیت میں آگئی ۔ (قصص: ۵۸)
اور بعض اوقات انہیں مہلت بھی دی جاتی ہے اور جوں جوں سرکشی و بغاوت میں زیادہ ہوتے ہیں بظاہر وسائل و اسباب بھی کثرت سے دیئے جاتے ہیں اور پھر اچانک عذاب الہٰی کی گرفت میں آجاتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے
جب وہ نصیحت کی چیزوں کو بھول گئے تو ہم نے ہر چیز کے دروازے ان پر کھول دیئے۔ یہاں تک کہ وہ اکڑنے لگے تو اچانک ہم نے پکڑ لیا اور پھر ناکامی کے سوا انہیں اور کچھ نہیں ملا۔(انعام:۴۴)
یہ اور اس طرح کی دوسری آیات میں قرآن نے قوموں کے عروج و زوال پر بڑے پیارے انداز سے روشنی ڈالی ہے اگر آپ بغور ان کا مطالعہ کریں تو مسلمانوں کے زوال اور غیر مسلموں کی ظاہری چمک دمک کے اسباب باآسانی آپ کی سمجھ میں ا ٓجائیں گے۔
مختصر یہ کہ اخلاقی و معاشرتی برائیاں کسی قوم کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوسکتیں چاہے وہ موجودہ مسلمانوں کی طرح کوئی پس ماندہ قوم ہو یا دنیا کی مادی قوتوں کی طرح ترقی یافتہ ۔ سلطنت روم کے عروج و زوال کی داستان کا مطالعہ کریں۔ بغداد کے عروج اور اندلس کی ترقی کودیکھیں اور پھر ان کی تباہی کےاسباب کا جائزہ لیں۔ دور نہ جایئے اپنے ہاں سلطنت مغلیہ کی تباہی اور زوال ہی کی تاریخ کامطالعہ کرلیں۔ ہر جگہ آپ کو قانون قدرت یکساں نظرآئے گا ۔ اسکے ضابطے اٹل ہیں۔ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ موجودہ بین الاقوا می صورت حال توہمارے یقین اور ایمان کو پختہ کررہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ترقی وقوت کے سہارے جینے والے شاید آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہوجائیں اور پھر خدا کسی دوسری قوم کو ان کی جگہ لا کربسائے۔
اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام ترقی کا ہرگز مخالف نہیں لیکن اسلام ترقی کے نام پر اخلاقی گراوٹ اور روحانی فساد کی اجازت بھی نہیں دیتا ۔ جولوگ یہ سمجھتےہیں کہ علماء یا اسلامی قدریں ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں ترکی میں کاکمال اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں اپنے خیال سے عربی کا وجود مٹایا اور ملا کر راستے سے ہٹایا یہ سمجھ کر کہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ دین وملا کے ہٹ جانے کے بعد کیا وہاں واقعی ترقی ہوئی ہے ۔ ہوٹلوں سینماؤں میں تو ترقی نظر آئے گی لیکن آج تک وہاں سیاسی سکون اور معاشی ترقی نہیں ہوسکی۔ بلکہ وہ قوم آج پھر روحانی قدروں کی طرف تیزی سے لوٹ رہی ہے اور وہاں چند سالوں کے بعد کمال اتاترک کا نام لینے والا بھی شاید کوئی باقی نہ رہے۔ ماضی قریب میں شاہ ایران کا انجام بھی ہمیں یہ سوال حل کرنے میں کافی مدد دے سکتاہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص492
محدث فتویٰ
حوالہ۔۔۔

مکمل تحریر >>

فلسفہ زمان و مکان، واجب الوجود، ممکن الوجوداور کوانٹم فزکس پر ایک ملحدہ کے اعتراض کا جواب تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن


فلسفہ زمان و مکان، واجب الوجود، ممکن الوجوداور کوانٹم فزکس پر ایک ملحدہ کے اعتراض کا جواب
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
/////////////////////////////////////////
واجب الوجود۔۔۔۔!
واجب الوجود اس چیز کو کہتے ہیں جس کا وجود اس کا زاتی ہو اور اس کا عدم وجود محال ہو۔ ہر وہ چیز جو پہلے موجود نہ تھی اسے بعد میں وجود حاصل ہوا اس کا وجود کسی علت کا محتاج ہو گا کیونکہ وہ پہلے نہیں تھا بعد میں موجود ہوا۔ اس لیے کائنات جو حادث ہے ایک وقت پر پیدا ہوئ ہے وہ ممکن الوجود ہو گی واجب الوجود نہیں ہو سکتی۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ واجب الوجود خدا ہے جس کا وجود کسی چیز کا محتاج نہیں اور وہ ہمیشہ سے ہے اور اس کا وجود زاتی ۔ یعنی اس کا وجود بالذات ثابت ہے۔ جبکہ باقی تمام چیزیں ممکن الوجود ہیں جن کا وجود بالغیر اور واجب الوجود خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے۔
مگر اس منطق میں مسلہ یہ ہے کہ اس سے ایک واجب الوجود چیز تو ثابت ہوتی ہے خدا ثابت نہیں ہوتا۔
۱۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ واجب الوجود کوئ مادی وجود ہو؟
۲۔ یا کوئ اور علت ہو جو اب بھی ویسے ہی موجود ہو۔
۳۔ زمان و مکاں واجب الوجود ہو سکتے ہیں۔
زمان کے واجب الوجود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم زمان کو رفع کریں تو اس سے وجود لازم آۓ گا۔ اور جس کے رفع سے وجود لازم آۓ اس کا حد رفع ممکن نہ ہو گا۔  پس جس کا حد رفع ممکن نہ ہو وہ واجب الوجود ہو گا۔
اس لئیے زمان و مکان ہی واجب الوجود ہیں۔ جو ہمیشہ سے ہیں ان میں کوانٹم فلکچوایشنز نے کائنات کو پیدا کیا جو ممکن الوجود ہے۔
مسلمانوں کی اس بارے میں کیا راۓ ہے؟
/////////////////////////////////////////
جواب۔۔۔۔
جو وجود  یعنی خدا اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے  کیا وہ اپنے وجود کے لیے ایک جگہ پیدا نہیں کر سکتا؟اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو اس کی پیدا کی گئ جگہ کیسے موجود ہوتی۔جگہ کا بیان وجود کے لیے ہوتا ہے۔جہاں کوئ وجود ہی نہ ہو وہ جگہ جگہ کیسے کہلائے گی۔پھر اب کیا مطلق و حتمی ہوا؟جگہ یا جگہ کا پیدا کرنے والا وجود یعنی خدا؟ظاہر ہے جس وجود کے بغیر جگہ کا بیان ممکن نہیں اور جس کے وجود کے لیے اس کی موجودگی کے مکان کو جگہ کا نام دیا جاتا ہے وہ وجود ہی حتمی ہوگا نہ کہ جگہ جس کی اس وجود کے بغیر کوئ حیثیت نہیں۔اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ تھی ہی بے معنی ۔جگہ کا تو لفظ ہی ایک موجود یعنی خدا کا محتاج ہے۔اور اگر یہ وجود نہ ہوتا تو جگہ یعنی کائنات کیسے پیدا ہوتی۔ظاہر ہوا کہ جگہ حتمی یا مطلق نہیں بلکہ جگہ کا وجود بذات خود ایک وجود یعنی خدا کا محتاج ہے جس کی موجودگی سے اس مقام یعنی کائنات کو جگہ کا نام دیا گیا۔جگہ بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ ایک وجود یعنی خدا کی پیدا کردہ اور اپنے بیان کے لیے اس کے وجود کی محتاج ہے۔
کیا آپ نے آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی پڑھی ہے؟اس کے مطابق زمان و مکان حتمی یا absolute نہیں بلکہ فرضی یا relative ہیں جو محض ایک وجود کے بیان اور اس کی کائنات میں سرگرمی کو استعمال کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اب پہلے وجود آیا یعنی خدا پھر اس خدا کے بیان اور اس کی تخلیق کردہ کائنات کے لیے مکان یعنی space اور اس کی اس کائنات میں سرگرمی کو ظاہر کرنے کے لیے زمان یعنی وقت کا لفظ استعمال کیا گیا۔اب اگر یہ وجود یعنی خدا نہ ہوتا تو زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس بھی نہ ہوتے۔کیونکہ یہ تو محض ایک وجود کے بیان کے الفاظ ہیں۔بذات خود ان کا بیان ایک وجود کا محتاج ہے۔لہذا جو پہلے آیا جس کی موجودگی اس زمان و مکان کے بیان کی وجہ بنی وہی خدا حتمی و مطلق ہے نہ کہ یہ زمان و مکان۔
جب وجود یعنی خدا نہ ہو تو زمان یعنی وقت یا ٹائم رفع ہوگا کیونکہ یہ زمان یا وقت تو محض ایک وجود یعنی خدا کی کائنات میں سرگرمی کو بیان کرتا ہے اور اس وجود کے نہ ہونے سے مکان بھی رفع ہوگا کیونکہ یہ مکان یا جگہ محض ایک موجود کی موجودگی کا بیان کرتا ہے۔یہ الفاظ یعنی زمان و مکان بذات خود اپنے بیان کے لیے ایک موجود کے محتاج ہیں۔لہذا وہ وجود یعنی خدا ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ زمان و مکان جو کہ محض اس وجود کے بیان کے لیے ہیں اور اس وجود یعنی خدا کے بغیر وہ ہوتے ہی نہ۔خود آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹویٹی کا نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان یعنی ٹائم اینڈ سپیس اضافہ و فرضی ہیں لیکن حتمی و مطلق یعنی absolute نہیں۔پھر زمان و مکان کیسے واجب الوجود ہوگئے جب کہ فلسفہ سے زیادہ مستند علم یعنی فزکس خود تصدیق کر رہی ہے کہ زمان و مکان یا ٹائم اینڈ سپیس اضافی یا relative ہیں۔
کیا واجب الوجود کے مادی وجود ہونے سے اس کے وجود یا اس کی قدرت کا انکار ہوجائے گا؟بالکل نہیں۔wave particle duality  کوانٹم فزکس کا مشہور تصور ہے جس کے مطابق تمام اجسام موجی یا کوانٹم اور مادی دونوں خصوصیات رکھتے ہیں۔اور کسی ایک خصوصیت کے بیان سے دوسری خصوصیت کا انکار بالکل نہیں سامنے آتا۔دونوں پہلو کسی بھی وجود کے بیان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔میں نہیں کہتا سائنس کہتی ہے۔خدا قادر و مطلق ہے۔وہ اپنے لیے جو وجود بھی پسند کرے اس سے کسی طرح اس کی خدائ کا انکار سامنے نہیں آتا۔کیونکہ جب سائنس میں ہم کوانٹم پہلو لیں یا پارٹیکل پہلو کسی طرح بھی اس وجود کی خصوصیات کا انکار سامنے نہیں آتا۔
کونسی اور علت۔علت خدا کو ماننے والے سب لوگوں کے مطابق خدا ہی ہے۔یہ اور بات ہے کہ مختلف مذاہب میں خدا کا تصور مختلف ہے۔لیکن جس علت کو ہم خدا کہیں گے اس میں خدائ قدرت کا ثبوت بھی لازمی دینا ہوگا ورنہ وہ علت خدا نہیں کہلائے گی۔میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میرا خدا اس کائنات کی بنیادی علت کی سب خصوصیات رکھتا ہے۔لہذا وہی ہی اس کائنات کی علت ہے اور کوئ نہیں۔
 مکان حتمی نہیں ہے یہ محض ایک وجود کے مقام کے بیان کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔خود سائنس کے مطابق مکان اسپیس حتمی نہیں۔اب جو حتمی ہے ہی نہیں وہ وجود بالزات کیسے ہوسکتا ہے۔
ملحد نے کوانٹم ۔سٹیٹ کو ایک جگہ تصور کیا جب کہ کوانٹم سٹیٹ ایک مکان یا جگہ نہیں بلکہ کسی کوانٹم سسٹم کی حالت کا نام ہے جسمیں وہ موجود ہوتا ہے۔یعنی یہ ایک condition کس نام ہے اور کنڈیشن  سپیس نہیں ہوتی بلکہ کسی نظام کی حالت ہوتی ہے لیکن ملحد نے کنڈیشن کو سٹیٹ بنا دیا جو کہ غلط ہے۔کوانٹم سٹیٹ ایک پیمائش ہے ایک سپیس نہیں اور یہ کوانٹم فیلڈ کی پیمائش ہے جس میں توانائ موجود ہے اور یہ توانائ مادے کے مساوی ہے۔لہذا ایک حالت کو ایک مکان نہیں کہا جا سکتا۔یہ تعریف پڑھیں

the condition in which a physical system exists, usually described by a wave function or a set of quantum numbers.
یہ تعریف پڑھیں
In the mathematical formulation of quantum mechanics, pure quantum states correspond to vectors in a Hilbert space, while each observable quantity (such as the energy or momentum of a particle) is associated with a mathematical operator
یہ تعریف بھی ایک کوانٹم نظام کا ویکتر کے ذریعے بیان بتا رہی ہے۔یہ پڑھیں
any of various states of a physical system (such as an electron) that are specified by particular values of attributes  .
یہ بذات خود ایک فزیکل سسٹم کا بیان ہے۔
ملحدہ نے کہاکہ اس،کو زیرو پوائنٹ فیلڈ بھی کہتے ہیں۔یہ بھی غلط کہا اس نے۔زیرو پوائنٹ فیلڈ کوانٹم سٹیٹ سے باکل الگ ہے۔اس کی تعریف یہ ہے

Zero-point energy (ZPE) or ground state energy is the lowest possible energy that a quantum mechanical system may have, i.e. it is the energy of the system's ground state.
یہ کسی نظام کی توانائ کی کم سے کم سطح ہے۔اور اس نظام کی جو حالت یا پیمائش ہوگی اس کو کوانٹم سٹیٹ کہا جائے گا۔ملحدہ نے ساری کوانٹم فزکس غلط بیان کی۔اور زیرو پوائنٹ فیلڈ میں بھی مکمل سپیس نہیں ہوتا۔یہ زیرو پوائنٹ  فیلڈ زیرو پوائنٹ انرجی رکھتا ہے جو کی کوانٹم انرجی کی ایک قسم ہے جس میں سے ہمیشہ ورچول پارٹیکل بنتے رہتے ہیں اور یہاں بھی خلا نہیں۔ملحدہ کی یہ وضاحت بھی غلط ہے۔
اور میں نے اوپر بیان کردیا کہ نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان حتمی نہیں ہیں اور جو حتمی نہ ہو وہ وجود بالذات کیسے ہوسکتا ہے۔آپ کا سارا فلسفہ غلط ہے۔
اور ویکیوم سٹیٹ بھی مکمل ویکیوم نہیں۔خود سائنس کہتی ہے کہ اسے ویکیوم کہنا غلط یے۔یہ پڑھیں
In quantum field theory, the vacuum state (also called the vacuum) is the quantum state with the lowest possible energy. Generally, it contains no physical particles. Zero-point field is sometimes used as a synonym for the vacuum state of an individual quantized field.

According to present-day understanding of what is called the vacuum state or the quantum vacuum, it is "by no means a simple empty space"
میں نے نہیں کہا کہ وقت حرکت ہے۔میں نے تو حرکت کا لفظ ہی استعمال نہیں کیا۔یہاں آپ پھر غلطی کر رہی ہیں۔وقت کی تعریف کیا ہے۔یہ پڑھیں

the indefinite continued progress of existence and events in the past, present, and future regarded as a whole.
یہ کسی وجود کے لامحدود وجود کے قدیم ہونے اور ماضی حال مستقبل کے واقعات کا بیان ہے۔اب یہ بھی اپنے بیان کے لیے ایک وجور کے بیان دیے گئے واقعات و وجود پر انحصار کر رہا ہے۔چونکہ یہ اور چیزپر انحصار کر رہا ہے۔اس لیے یہ بھی حتمی اور وجود بالزات نہیں۔نظریہ اضافت بھی یہی کہتا ہے۔
جب سائنس خود مانتی ہے کہ کائنات کی ہر چیز مادی و غیر مادی خصوصیات رکھتی ہے تو اب اگر کسی چیز کو مادی یا غیر مادی جو بھی تسلیم کر لیا جائے اس سے اس چیز کا وجود کس طرح غلط ثابت ہوتا ہے۔اب خدا جو ہر وجود کاس خالق ہے اس کی مرضی جس وجود مینی بھی رہے اس سے اس کا انکار کہاں سامنے آتا ہے۔
وہ علت خدا ہے اور جو سب اشیاء کو مادی و غیر مادی خصوصیات دے سکتا ہے خود اگر دونوں خصوصیات رکھ لے تو کہاں اس کا انکار ہوتا ہے۔وہ جو بھی وجود رکھے وہ علت خدا ہی ہے۔
میں نہیں کہتا کہ خدا مادی ہے لیکن وہ جس وجود میں چاہے آسکتا ہے۔وہ قادر ہے خود سائنس مان رہی ہے کہ کائنات کی ہر چیز کے دو پہلو ہیں۔مادی و غیر مادی۔کسی صورت خدا کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
 ویکیوم انرجی بذات خود خدا کی ایک طاقت اور اس کی قدرت ہے تو ثابت ہوجائے گا کہ یہ جس خدا کے وجود کی نشانی ہے۔ وہی خدا ہی وجود بالزات ہے جس کی قدرت کی یہ علامت اور اس کے وجود کی دلیل ہے۔جی بتائے۔پھر اور بات نہیں چلے گی۔
ویکیوم انرجی بذات خود خدا کے وجود کی دلیل اور اس کی قدرت کی ایک نشانی ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ وہ خدا ہی موجود بالذات ہے جس کی ایک قدرت اور اس کا اظہار یہ ویکیوم انرجی ہے۔تفصیل کے لیے میرا ویکیوم انرجی پر تفصیلی مضمون پڑھیں
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=396218204055311&id=100010014035463
فلسفہ اسلامی میں اثبات وجود خدا کے لیے بہت سی عقلی دلیلیں دی جاتی ہیں۔۔ جن میں سے اک انتہائی اہم دلیل برہان امکان ووجوب کے نام سے ہے۔ اس دلیل کو بو علی سینا نے اپنی کتاب الاشارات وال تنبیھات کی نمط رابع میں ذکر کیا ہے اور اس کے برہان صدیقین میں سے ہونے کا دعوی کیا ہے۔
اس دلیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف "وجود" میں غور اور فکر کے بعد خدا کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔
اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر ہم اس کائنات کی تمام موجودات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں غور وفکر کریں
تو یہ موجودات اپنے وجود کے حوالے سے (ان میں صرف دو ہی احتمال ہو سکتے ہیں)
1۔ یا تو وجود ان کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح سے کہ وجود کو ان سے سلب نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو واجب الوجودکہا جاتا ہے۔
یا
2۔ وہ موجود تو ہیں لیکن وجود ان کے لیے ضروری نہیں، بلکہ وجود کو ان سے سلب بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے انسان کا وجود۔ اس کو ممکن الوجود کہا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ موجود ہو بھی اور وجود اس کے لیے ممتنع ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو موجود ہی نہ ہوتا۔

پس اگر کسی واجب الوجود کو مانتا ہے تو فبہا۔ کہ وہ خداوند متعال کی ذات ہے۔
اور اگر نہیں مانتا۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ ممکنات کیسے وجود میں آئے؟
واجب الوجود  یعنی جس کا وجود باقی تمام موجودات کے لیے واجب ہو،جو تمام موجودات کا خالق ہو جس کے بغیر کوئ وجود ممکن نہ ہو یعنی وہ سب ممکن الوجود کا خالق ہو تو اب جس کا وجود سب موجودات کی تخلیق کے لیے لازم ہے وہی خدا  ہی واجب الوجود ہوا نہ کہ کوئ اور۔یہ بات نو علی سینا ثابت کر چکے ہیں۔
باقی جو موجود ہے لیکن عدم اور فنا یا موت سے آزاد نہیں بلکہ اس کی ایک تخلیق ہے جو ہمیشہ سے موجود نہیں تھا بلکہ واجب الوجود خدا کی طرف سے وجود میں لایا گیا وہ ممکن الوجود ہے۔اس کی ذات میں عدم اور وجود دونوں ممکن ہیں۔لہذا جو وجہ موجودگی رکھتا ہو،ایک ابتدا رکھتا ہو،عدم یعنی فنا اور موت سے آزاد نہ ہو وہ ممکن الوجود ہوگا۔جو اس ممکن الوجود کی وجہ ہوگا،اس کے وجود اور اس کے عدم یعنی فنا کی وجہ ہوگا وہ واجب الوجود خدا  ہے۔یہ موجود ایک بیرونی طاقت یعنی واجب الوجود کا اپنی تخلیق و وجود اور بقا کے لیے محتاج ہے۔یہ وجود عدم و وجود کے درمیان ایک مساوی حالت میں ہے اور ایسے واجب الوجود کا محتاج ہے جو اس کو عدم و وجود کی مساوی کیفیت سے نکال کر اسے وجود بخشے۔
اب اس سارے فلسفے کے مطابق جو خود بخود موجود،اپنے وجود کے لیے کسی وجود کے اثر سے آزاد،کسی وجود کی طرف سے فنا کے خطرے سے آزاد،سب موجودات کی وجہ تخلیق اور ان کے وجود کے لیے ایک لازمی وجود تو وہ وجود بالذات خدا ہی ہوسکتا ہے اور کوئ نہیں۔
دوسرے لفظوں میں واجب الوجود وجود مطلق ہے جس کے بغیر سب موجودات یعنی تمام ممکن الوجود بے وجود ہوتے،جو وجود ان کی وجہ بقا ہے،جو ان کی وجہ عدم ہے تو وہ وجود مطلق یا وجود بالذات خدا ہی ہے اور کوئ نہیں۔

https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1046802335426161
مکمل تحریر >>

Monday 5 November 2018

ایک ملحد کا قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب

ایک ملحد کا قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب
(سعید احمد،احید حسن)

فری فرام تھنکنگ  گروپ کے جناب،سید امجد حسین،صاحب نےایک کتاب،بعنوان،
"اعجاز القران"
پر،ایک تنقیدی جائزہ،کے نام سے لکھی ہے۔
ہم ان کے اعتراضات پر ایک ایک کرکے جواب دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر18 پر فرماتے ہیں،
انسان اپنی زبان کا خالق خود ہے،اور اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ،دنیا کی ہر زبان ناقص ہے۔
// //
Answer.............
سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کتابی کاوش کس زبان میں لکھی ہے؟
2- اگر اردو میں ہے ،تو آپکے مطابق ہر زبان، ناقص ہے،تو پھر
  آپکی یہ کتاب،"زبانِ ناقص" ہونے کی وجہ سے،0 ہو جاتی ہے۔
3- یوں،آپکی یہ کاوش، کھوہ کھاتے میں پڑ گئی،آپ نے خوامخواہ ،اپنے،سمع،بصر فؤاد،کو ایک ناکام کوشش میں لاکر،اپنا اور تمام لوگوں کا ٹائم ضائع کیا۔
ملحد کا یہ دعوی کہ انسان اپنی زبان کا خود خالق ہے،یہ بات فرض کرتے ہوئے کیا گیا ہے کہ انسان ارتقا کی پیداوار ہے اور انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ باقی جانوروں کے برعکس بولنا شروع کر دیا۔ملحد کا یہ دعوی غلط ہے۔آج جدید جینیٹکس ثابت کر چکی ہے کہ تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت یعنی مائیٹوکونڈریل حوا اور وائے کروموسوم آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں جب کہ ارتقا کے پیش کیے جانے والے فوسل غلط ہیں اور جدید جینیٹکس بھی نظریہ ارتقاء کی تردید کرتی ہے۔کوئ ملحد اس پر بات کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں ان شاء اللہ۔اب جب انسان ارتقا کی پیداوار ہے ہی نہیں بلکہ وہ پیدا کیا گیا تو یہاں سوال اٹھتا ہے اللہ تعالٰی نے آدم کو بنایا اور اُن سے کلام فرمایا۔ انسان زبان کے ذریعہ بات سمجھتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر زبان کے بھی بات پہنچا سکتا ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے بات کرنے کے لئے زبان اختیار فرمائی ، تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ اور ان کی زوجہ کو جنّت میں رکھا ۔ یہ دو انسانوں کا پہلا جوڑا جنّت میں ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہوگا تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ کو زمین کے تمام اَسْمَاء سکھائے۔ اَسْمَاء اِسم کی جمع ہے اور اِسم زبان ہی کا حصّہ ہوتا ہے۔ تو یہ اسماء جس زبان کا حصّہ تھے وہ کون سی زبان تھی؟
دنیا میں آنے کے بعد مکہ مکرّمہ میں ان دونوں کی ملاقات کروا دی گئی۔ دنیا کی زندگی کے تقاضے کے تحت ، وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے تو وہ کون سی زبان تھی؟
اِس جوڑے کو اللہ نے اولاد عطا کی اور اِس طرح توالُداور تناسُل کا سلسلہ شروع ہؤا اور نتیجے کے طور پر یہیں پہلا انسانی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسی لئے مکہ مکرّمہ کو امّ القراء (بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ) کہا گیا۔ یہ پہلے والدین اور اُن کےبچّے آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہوں گے۔تو وہ کون سی زبان تھی؟
یہی وہ زبان تھی جو تمام زبانوں کی ماں (اُمُّ الْالْسِنَہ) کہی جا سکتی ہے۔
مکہ مکرّمہ اور اس کے قریب کا علاقہ رہائش کے لئے دشوار بھی تھا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آبادی اور وسائل کو نقصان بھی پہنچ جاتا تھا۔ لِہٰذا یہ علاقے متعدد بار آباد بھی ہوئے اور یہ آبادیاں یہاں سے منتقل بھی ہوتی رہیں یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو خانہ بدوشی ہی کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا۔ اولادِ آدمؑ آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی جہاں آج شام ،یمن، فلسطین اور عراق وغیرہ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں بس جانے والے لوگ اپنے ساتھ وہی زبان ، اُمُّ الْالْسِنَہ لائے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس زبان میں کچھ تَنَوُّع بھی پیدا ہؤا۔ پھر ایک طرف یہ ہؤا کہ اللہ تعالٰی نے اِبراہیم ؑ کے بیٹے اِسماعیل ؑ سے اور یمن سے آنےوالے قبیلے جُرْھُم سے اِس خطّے کو پھر سے آباد فرما دیا اور جو زبان ان کے پاس تھی، وہ اُمُّ الْالْسِنَہ ہی کی ایک شکل تھی، وہی زبان پھر سے اِس علاقے کی زبان ہو گئی اور عربی زبان کے نام سےجانی جانے لگی ۔
دوسری طرف اِرْتِقَاء کے مراحل طے کرتے ہوئےفونیقی قوم (PHOENICIANS) نے جو حجاز کے شمال میں واقع تھی زبان کو لکھنا شروع کیا جس طرح وہ آج لکھی جاتی ہے اور آس پاس کی اقوام نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ اب لکھی اور پڑھی جانے لگی۔
وقت گزرنے سے اُمُّ الْالْسِنَہ کی مختلف شکلیں حجاز کے قرب و جوار میں وجود میں آئیں مگر دینِ محمّدﷺ کے فروغ کے ساتھ ان علاقوں میں بھی حجاز کی زبان ہی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ۔ آج اُمُّ الْالْسِنَہ کی اُن تمام قدیم شکلوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے عربی زبان کے۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ کی جو شکل آج موجود ہے وہ صرف عربی زبان ہی ہے اور کوئی نہیں۔ لہٰذا آج ہم عربی ہی کو اُمُّ الْالْسِنَہ کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم عربی زبان کی چند اور خصوصیات کا بہت ہی اختصار سے ذکر کریں گے:
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
حوالہ۔۔۔۔۔
عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
(محمد طارق انصاری اِٹاوی)
عربی زبان  و ادب عرب قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔  ان قوموں میں بابلی، سریانی فینیقی، آرمینی، حبشی، سبئی اور عربوں کو شامل کیا جاتا ہے۔  مؤرخین نے عرب اقوام کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

 (۱) عرب بائدہ: یہ وہ عربی اقوام ہیں جن کے حالات کا نہ تو تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے البتہ ان کی زبان کا نمونہ ان کتبوں اور تحریروں میں ہے جو حال کی کھدائیوں میں ملے ہیں۔لہذا عربی زبان کی تاریخ انسان کی معلوم تاریخ سے بھی پرانی ہے۔جب اس زبان کی تاریخ ہی معلوم تاریخ سے بھی زیادہ پرانی ہے تو بغیر کسی مستند دلیل کے یہ ملحد کیسے دعوی کر سکتا ہے کہ قرآن کی زبان یعنی عربی کا خالق بھی انسان خود ہے۔تاریخ سے پہلے کے واقعات اس کو اس کا ابا ڈارون آکر بتاتا ہے کیا؟

(۲) عرب عاربہ یا قحطانی عرب: یہ یمن کے وہ باشندے ہیں جو نسلاً یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔  عربی زبان کے اصلی بانی یمن کے یہی باشندے تھے۔

(۳) عرب مستعربہ یا عدنانی عرب: یہ حجاج کے وہ عرب ہیں جو عدنان کی نسل سے تھے یہ لوگ انیسویں صدی قبل مسیح حجاز میں آ کر ٹھہرے اور یہی بس گئے۔

             مذکورہ بالا تمام اقوام عربی زبان بولتی تھیں۔  عربی زبان کی ابتدا اور اس کی نشوونما ماہرین لسانیات کا اتفاق ہے کہ سامی اقوام اپنی بستیوں میں جو زبانیں بولتی تھیں ان ہی ایک شاخ عربی زبان بھی ہے۔  اور اس طرح عربی زبان کو آریائی یا حامی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  عربی زبان دنیا کی ان وسیع ترین سلیس اور خوبصورت زبانوں میں سے ہے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔  یہ زبان دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے۔  اس میں ۲۸ حروف تہجی ہیں۔  اس زبان میں بعض حروف جیسے (ض) ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ کرسکتی ہیں اسی لیے عرب فخریہ کہتے ہیں کہ ’’نحن الناطقون بالضاد‘‘ یعنی دنیا میں صرف ہم ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں۔  اس زبان میں الفاظ کی آخر آواز کو مخصوص نشانوں (اِعراب) کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔  حروف کے ذریعہ لکھ کر نہیں ، جیسا کہ آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اسی زبان میں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن شریف نازل ہوئی ہے اور اسی زبان میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باتیں کہی ہیں اور مذہبی تعلیم دی ہے۔  ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق اس زبان کو جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ ہلال حصیب شمالی افریقہ اور دوسرے ملکوں کے ایک کروڑ سے زائد اشخاص بولتے ہیں۔  اور چوں کہ اس زبان میں قرآن اور حدیث کے علاوہ تمام اسلام علوم و فنون بھی لکھے گئے ہیں اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اسے اپنی مقدس مذہبی زبان مانتے ہیں۔  انجمن اقوام متحدہ نے دوسری چار زبانوں کے ساتھ اسے بھی اپنی کارروائیوں کے لئے تسلیم کر کے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو سندِ اعتبار عطا کی ہے۔
حوالہ۔۔۔
عربی زبان و ادب
نا معلوم

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند
۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘
http://urdupedia.in
لہذا ملحد نے قرآن کی زبان عربی کے نعوذ بااللہ ناقص ہونے کا جو دعوی پیش کیا معلوم انسانی تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی۔لہذا جب عربی زبان کا انسان کی تخلیق ہونا غلط ثابت ہوا تو اس کے انسانی تخلیق  ہونے کے لیے اس کے ناقص ہونے کی دلیل بھی کمزور پڑ گئ۔

مکمل تحریر >>

حوروں کی پنڈلی کی ہڈی اور گوشت کے اندر کا گودا نظر آنے والی آیات و روایات پر ملحدین کا اعتراض اور اسکا جواب

تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
حوروں کی پنڈلی کی ہڈی اور گوشت کے اندر کا گودا نظر آنے والی آیات و روایات پر ملحدین کا اعتراض اور اسکا سائنسی جائزہ۔
أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، وَالَّذِينَ عَلَى آثَارِهِمْ كَأَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً، قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، لاَ تَبَاغُضَ بَيْنَهُمْ وَلاَ تَحَاسُدَ، لِكُلِّ امْرِئٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الحُورِ العِينِ، يُرَى مُخُّ سُوقِهِنَّ مِنْ وَرَاءِ العَظْمِ وَاللَّحْمِ»
حکم : صحیح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوگا ، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے ۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہوگا ان کے چہرے آسمان پر موتی کی طرح چمکنے والے ستاروں میں جو سب سے زیادہ روشن ستارہ ہوتا ہے اس جیسے روشن ہوں گے ، سب کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان میں بغض و فساد ہوگا اور نہ حسد ، ہر جنتی کی دو حور عین بیویاں ہوں گی ، اتنی حسین کہ ان کی پنڈلی کی ہڈی اور گوشت کے اندر کا گودا بھی دیکھا جاسکے گا ۔
ملحد جیسے ڈنگر ،جہل،ذہینی مریض لوگ حوروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔
ایک ملحد کا اعتراض ہے کہ اسلام نے جھوٹ بولا ہے نعوذ بااللہ کہ حور اتنی خوبصورت ہوگی کہ اس کے گلے سے گزرتا ہوا پانی تک دکھائ دے گا اور یہاں تک کہ اس کی ہڈیوں کا گودا تک دکھائ دے گا۔یہ کیسی حور ہوگی۔
ملحدین حواس باختہ ہوگئے ہیں۔جتنا سوال کرتے ہیں اتنے خود پھنستے ہیں۔اب ہمارا جواب ملاحظہ کیجیے۔
سائنس نے اب ایسے آلات بنا لیے ہیں جن۔سے انسانی جسم کے اندر تک جھانکنا آسان ہوگیا ہے۔
بین الاقوامی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے انسانی جسم کے اندر سیل یا خلیے تک جھانکنے کے لیے ایک سافٹ ویئر استعمال کیا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو کولہے کے جوڑ کی بیماری یعنی Osteoarthritis کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا کے ایک سائنسدان Melissa Knothe Tate نے جو کہ اس پروجیکٹ کا منیجر ہے یہ خیال خون سے ہڈیوں اور سیل یا خلیوں کو غذائی مادوں کی منتقلی کے عمل سے لیا گیا ہے۔
اس کے لیے سائنس دانوں نے الیکٹران مائیکرو سکوپ کے ذریعے کولہے کی ہڈی کی تصویریں لی اور اور کئ ٹیٹرا بائیٹ ڈیٹا تیار کر کے گوگل الگورتھم استعمال کرتے ہوئے اندر کے جسمانی حصوں کو ایسے ہی دیکھنے کے لیے استعمال کیا جیسا کہ گوگل میپ کوئ گلی محلہ ڈھونڈنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے سربراہ Melissa Knothe Tate نے کہا کہ اب ہم پہلی بار یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہمارا جسم خون سے غذائی مادے حاصل کرتا،ہے اور کس طرح غذائی مادوں کی خون سے جسم کو ٹریفک جاری رہتی ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق اس تحقیق کو چوہوں کے دماغ میں موجود اعصابی رابطوں یا Neural connections کو سمجھنے کے لیے استعمال کریں گے۔
http://www.popsci.com/google-maps-human-body
اب تحقیق کرنے والے سائنسدان اور ڈاکٹر سی ٹی سکیں کی ایک۔ نئ تکنیک کے ذریعے خون کی نالیوں،ہڈیوں اور اعضاء کی حقیقی صورت میں تصاویر حاصل کر سکیں گے۔
فلوریڈا امریکا کا The West Kendall Baptist Hospital  ستمبر 2014 میں یہ ٹیکنالوجی استعمال کرنے والا پہلا ہسپتال بن گیا۔
اس سے شاہ رگ،پیٹ کے اعضاء اور ٹانگوں میں موجود خون کی رگوں یعنی Femoral arteries تک کو دیکھا جا سکتا ہے۔یہاں تک کہ رگوں کے ساتھ دل کو بھی۔
https://www.google.com.pk/amp/www.newsweek.com/peer-inside-human-body-these-amazing-images-blood-vessels-298781%3Famp%3D1?client=ms-opera-mobile
اب اگر سائنس ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی جسم کے اندر تک دیکھ سکتی ہے تو اس کائنات کا خالق و مالک ایسی نظر جنتی کو کیوں نہیں عطا کر سکتا جس سے وہ ایک حور کے گلے سے اترتا ہوا پانی تک دیکھ سکے یا اس کی ہڈیوں میں موجود گودہ یا Bone marrow تک دیکھ سکے۔خدا کی تعریف ہی یہی ہے کہ جو ہر ناممکن کو ممکن کر سکتا ہو۔جب خدا ہے ہی ناممکن کو ممکن کرنے کا نام تو پھر خدا یہ کیوں نہیں کر سکتا۔وہ یہ نہ کر سکے تو پھر خدا کیسے ہؤا جب کہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے۔
اللٰہ تعالٰی نے ایسے شفاف یا Transparent جانور پیدا کیے ہیں جن کے جسم کے اندر تک کے اعضاء،ہڈیاں یہاں تک کہ خون کی نالیاں اور غذا کی نالی تک باہر سے نظر آتے ہیں.اب اگر وہی خدا حوروں کو شفاف بنا دے کہ ان کے جسم سے گزرتا ہوا پانی بھی دکھائ دے تو اس خدا کے لئے کیا مشکل ہے۔نیچے دی گئی تصاویر ملاحظہ کیجیے۔
جو اللٰہ اتنے شفاف جانور پیدا کرتا،ہے کہ ان کے جسمانی اعضاء باہر سے ہی نظر آتے ہیں وہ خدا ایک شفاف جسم والی روح پیدا کیوں نہیں کر سکتا جس کے گلے سے گزرتا ہوا پانی تک دکھائ دے۔اب تو سائنس نے بھی ملحدین کو جھوٹا ثابت کر دیا۔کہاں جائیں گی اب بندر کی اولاد۔
https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1049353311837730

مکمل تحریر >>

بنو نضیر کی جلا وطنی،بنو قریظہ اور ابو کعب اور ابو رافع یہودی کے قتل کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملحدین و مستشرقین کے اعتراضات اور ان کا جواب

بنو نضیر کی جلا وطنی،بنو قریظہ اور ابو کعب اور ابو رافع یہودی کے قتل کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملحدین و مستشرقین کے اعتراضات اور ان کا جواب

دہشت گردی کے حوالے سے بعض واقعاتِ سیرت کی تنقیح  (تحریر محمد رضی الاسلام ندوی 16/05/2016)
اسلام اور امتِ مسلمہ کے خلاف عالمی سازشوں کا نقطۂ عروج یہ ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ہم معنٰی بنادیاگیا ہے اور مسلمانوں کو ایک دہشت گرد قوم کی حیثیت دے دی کئی ہے ۔ دنیا کے کسی کونے میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتاہے فوراً اس کا الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا جاتاہے ، تحقیقات کا رخ بھی یک طرفہ طور پر مسلمانوں کے خلاف طے کردیا جاتاہے اور بالآخر کھینچ تان کرکہیں نہ کہیں سے اس کے ڈانڈے مسلمانوں سے ملادیے جاتے ہیں ۔ پھر اس کا سرچشمہ اسلام کی تعلیمات اورسیرت نبوی کے واقعات میں ڈھونڈاجاتاہے اور کہاجاتاہے کہ مسلمان اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے ان تعلیمات سے تحریک پاتے ہیں اور ان واقعات کو نمونہ بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے انسانی جان کے احترام پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ اس نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے (المائدہ۔ 32) لیکن ساتھ ہی اس نے اجتماعی فتنہ و فساد کے ازالے کے لیے جنگ کو مشروع قرار دیا ہے ۔ اس لیے کہ اس کی نگاہ میں فتنہ وفساد قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے: الفتنۃ اشدّ من القتل (البقرہ۔ 191) جس زمانے میں اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی جنگ کے وحشیانہ طریقے رائج تھے ۔ کسی طرح کے اخلاقی حدود کی پابندی نہیں کی جاتی تھی ۔ دشمن کے غیر مقاتلین پر بھی ظلم وستم ڈھایا جاتاتھا ۔ اسیروں کے ساتھ بدسلوکی اور مقتولین کی تحقیر و تذلیل کی جاتی تھی ۔ دشمن پرغلبہ پانے کے لیے ہر طرح کی کارروائی بلا روک ٹوک کی جاتی تھی ، حتی کہ ان کے کیے ہوئے معاہدوں کو توڑ دیا جاتاتھا اور غفلت میں ان پر حملہ کردیا جاتاتھا۔ روم وایران، جو اس زمانہ میں متمدن قومیں سمجھی جاتی تھیں، وہ بھی اسی طریق جنگ پر عمل پیرا تھیں ۔ اسلام نے وحشت وبربریت پر مبنی ان قوانین جنگ کی اصلاحات کیں ۔ اس نے معاہدوں کی پاس داری کا حکم دیا، دشمن پر غفلت میں حملہ کرنے سے منع کیا ۔ غیر مقاتلین، مثلاً عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں ، زخمیوں ، بیماروں اور مذہبی شخصیات سے تعرض نہ کرنے کی تاکیدکی ۔ ہتھیار ڈال دینے والوں اور قیدیوں کو قتل کرنے سے روکا ۔ مقتولوں کا مثلہ کرنے، جانوروں کو ہلاک کرنے ، پھل دار درختوں کو کاٹنے اور کھیتیوں کو برباد کرنے سے منع کیا ۔ مسلمان فوجوں نے ہمیشہ ان تعلیمات و ہدایات کو اپنے پیش نظر رکھا اور سختی سے ان پر عمل کیا ۔ سیرت نبوی کے بعض واقعات اسلام کی ان عمومی تعلیمات سے متصادم نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے مخالفین اسلام نے ان پر اعتراضات کیے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے بعض مواقع پر خود ان تعلیمات سے انحراف کیا ہے ۔ اپنے دشمنوں کو دھوکے سے قتل کروایا ہے، اپنے کیے ہوئے معاہدوں کو توڑا ہے اور اپنے مخالفوں کے ساتھ سنگ دلانہ رویّہ اختیار کیا ہے ۔ سطورِ ذیل میں ان واقعات کی تنقیح مقصود ہے ۔ 1۔ کعب بن اشرف اور ابو رافع کا قتل  کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کا واقعہ غزوۂ بدر (رمضان 2ھ) اور غزوۂ احد (شوال 3ھ) کے درمیانی عرصہ میں پیش آیا ۔ ان دونوں کا تعلق یہود سے تھا ۔ ان کی اسلام دشمنی جب حد سے زیادہ بڑھ گئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں خفیہ طریقے سے قتل کروادیا۔ صحیح بخاری کتاب المغازی میں ان کے قتل کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے ۔کعب بن اشرف کو قبیلۂ اوس سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے اور ابورافع کو قبیلۂ خزرج کے نوجوانوں نے قتل کیا ۔ کعب کو قتل کرنے کا کام حضرت محمد بن مسلمہؓ نے انجام دیا۔ کعب بن الاشرف یہود کے سرمایہ داروں میں سے تھا ۔ روایتوں میں ہے کہ اس نے یہودی علماء کے روزینے مقرر کررکھے تھے ۔ وہ ضرورت مندوں کو سود پر قرض دیا کرتا تھا ۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اس کے پاس گئے اور اس سے کچھ قرض مانگا ۔ انہوں نے اس کی ہم دردی حاصل کرنے کے لیے اس سے کہا: ’’ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دے کر تمام عرب کو اپنا دشمن بنالیا ہے ۔ ہم سے بار بار صدقہ ما نگا جاتاہے ، اب تمہی سے کچھ قرض لینا ہے ‘‘ بالآخر طے پایا کہ ہتھیار رہن رکھ کر قرض دیا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے رات کا وقت طے ہوا ۔ حضرت محمد بن مسلمہؓ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مقر روقت پرپہنچے اور کعب بن اشرف کو آوازدی ۔ وہ اپنے بالا خانے سے اترا۔ ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں ۔ دفعۃً اسے غافل پاکر حضرت محمد بن مسلمہؓ نے اس کے سر کے بال پکڑلیے اور ان کے ساتھیوں نے اس پر وار کرکے اس کا کام تمام کردیا۔ یہ واقعہ ربیع الاول 3ھ میں پیش آیا ۔ ابو رافع کو حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کیا ۔ وہ خیبر سے قریب سرزمین حجاز کی سمت میں ایک قلعے میں رہتا تھا۔ یہ قلعہ ایک چہار دیواری سے گھرا ہوا تھا جس کے مرکزی دروازے میں سرشام تالہ لگا دیاجاتاتھا۔ حضرت عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں کو چہار دیواری سے باہر رکنے کو کہا اور خود بڑی ہوشیاری سے دروازہ بند ہونے سے عین قبل اندر پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا ۔ جب ابو رافع کی مجلس ختم ہوگئی اور لوگ سونے کے لیے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ ابو رافع کے بالاخانے پرگئے ۔ وہاں اندھیرا تھا۔ انہوں نے ابو رافع کو پکارا اور اس کا جواب ملنے پر پے درپے کئی وار کرکے اس کا خاتمہ کردیا۔ روایات میں کعب بن اشرف اور ابو رافع کے قتل کی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح انہیں قتل کرنے والوں نے ا ن کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور انہیں دھوکے اور بے خبری میں قتل کیا۔ ان واقعات پر مخالفین اسلام کا اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے دشمنوں کو دھوکے سے اور خفیہ طریقے سے قتل کرایا۔ یہ وہی طریقہ ہے جو عہد جاہلیت میں رائج تھا اور جسے اصطلاح میں ’’فتک‘‘ کہا جاتاتھا ۔ اسلام میں بھی اسی طریقے کو اختیار کیا گیا ۔ کعب بن الاشرف اور ابو رافع کی سیرت و کر دار اور احوال کی تفصیلات سامنے ہوں تو یہ جاننا آسان ہوگا کہ ان کو اس طریقے سے قتل کروانے کی کیوں ضرورت پڑی۔ کعب کا باپ اشرف قبیلۂ طے کی شاخ نبہان سے تعلق رکھتا تھا۔ عہد جاہلیت میں اس سے ایک خون ہوگیا تھا جس کی بناپر وہ مدینہ آگیا تھا اور اس نے یہود بنی نضیر سے حلیفانہ تعلقات قائم کرلیے تھے اور ان کے درمیان اتنا اعتبار اور عزت حاصل کرلی تھی کہ ایک یہودی سردار ابی الحقیق کی بیٹی عقیلہ سے شادی کرلی تھی جس کے بطن سے کعب پیدا ہوا۔ کعب بہت بڑا شاعر اور بہت دولت مند تھا ۔ اس کو اسلام سے سخت عداوت تھی ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہجرت کے بعد باشندگان مدینہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہود بنی نضیر بھی شریک تھے ۔ اس روسے کعب بن الاشرف بھی اس معاہدہ کا پابند تھا۔ لیکن غزوۂ بدر کے بعد اس نے مسلمانوں اور اللہ کے رسول ﷺ کی ہجو کی اور مکہ جاکر کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ابن ہشام نے بیان کیا ہے کہ جب اسے بدر میں سردارانِ قریش کے مارے جانے کی خبرملی تو اسے سخت صدمہ پہنچا ۔ اس کا اظہار اس نے ان الفاظ میں کیا: ’’واللہ لئن کان محمد اصاب ہو لاء القوم لبطن الارض خیر من ظہرہا‘‘ سیرۃ النبی ، طبع مصر 1936، 2/431(اللہ کی قسم اگر محمدؐ نے ان لوگوں کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہتر ہے ) پھر وہ مکہ گیا جہاں مقتولین بدر کے پردرد مرثیے سناناتھا جن میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی ترغیب ہوتی تھی۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’کان شاعراً وکان یہجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویحرّض علیہ کفار قریش‘‘ (سنن ابی داؤد ، کتاب الخراج والامارۃ،باب کیف کان اخراج الیہود من المدینہ ، حدیث نمبر 3000) (وہ شاعر تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا اور کفار قریش کو آپؐ کے خلاف بھڑکاتاتھا) ابن حجرؒ نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ہے کہ اس نے مکہ جاکر مشرکین قریش کو حرم میں اکٹھا کیا اور خانۂ کعبہ کے پردوں کو تھام کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کا حلف لیا ۔ (فتح الباری ، طبع بیروت ، 7/337) مدینہ واپس آیا تو یہاں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کے علاوہ مسلمان خواتین کے بارے میں گندے عشقیہ اشعار کہتا ۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے : ’’تشبّب بنساء المسلمین حتی اذا ہم ‘‘(فتح الباری 7/337) (اس نے مسلمانوں کی عورتوں کے بارے میں عشقیہ اشعار کہے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی میں وہ اسی حد تک نہ رہا ، بلکہ اس نے ایک بار خود اللہ کے رسول ﷺ کو ایک دعوت میں بلاکر دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے یہود کی ایک جماعت کو تیار کیا اور اپنا پورا منصوبہ سمجھادیا کہ وہ آپؐ کو ایک دعوتِ ولیمہ میں بلائے گا ، آپ ؐ آجائیں تو زندہ واپس نہ جانے دیا جائے ۔ آپ کو اس منصوبے کی خبر مل گئی اور آپؐ محفوظ رہے ۔ اس واقعہ کو ابن کثیر نے اپنی سیرت ، ابن حجر نے شرح فتح الباری اور یعقوبی نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے ۔ اسی طرح کی اسلام دشمنی کامظاہر ابو رافع بن ابی حقیق کی جانب سے بھی ہورہاتھا ۔ بخاری کی روایت میں ہے : کان ابو رافع یؤذی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویعین علیہ ، کتاب المغازی ، باب قتل ابی رافع ، حدیث : 1039 ( ابو رافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچاتاتھا اور آپ کے خلاف دوسروں کی مدد کرتاتھا) وہ کعب بن اشرف کا قریبی رشتہ دار تھا (کعب بن اشرف اس کا بہنوئی تھا ) اس لیے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں وہ اس کا برابر کا شریک تھا ۔ ابن الاثیر نے لکھا ہے: ’’کان یظاہر کعب بن الاشرف علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (وہ رسول اللہ ﷺکے خلاف کعب بن اشرف کی مدد کرتاتھا ) بعض روایات میں صراحت ہے کہ و ہ مشرکین عرب کے مختلف قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا تاتھا اور انہیں اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ان پر بے دریغ مال خرچ کرتاتھا( فتح الباری ،7/243) کعب بن اشرف اور ابو رافع دونوں کی یہ حرکات اس معاہدہ کے خلاف تھیں جو مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا تھا اور جس کے وہ بھی پابند تھے ۔ محض ان کی حرکتوں کی و جہ سے ان کی قوم کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا جاسکتاتھا ۔ ان کی قوم سے بھی امید نہ تھی کہ انہیں معاہدہ کی خلاف ورزی سے روکیں گے ۔ یہ لوگ خود کبھی کھلے میدان میں لڑنے نہیں آئے کہ انہیں تہ تیغ کرنا ممکن ہوتا، بلکہ ہمیشہ انہوں نے پردہ کے پیچھے سے خفیہ طریقے سے اپنی اسلام دشمن سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ اسی لیے ان کے شر سے محفوظ رہنے کی واحد صورت یہی تھی کہ اسی طرح خفیہ طریقے سے ان کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا جائے ۔ مخالفین اسلام نے اس طریقۂ قتل پر اعتراض کیا ہے ۔ اس کے جواب میں علامہ شبلیؒ نے لکھا ہے کہ ’’اس وقت تک عرب میں ان طریقوں سے قتل کرنا معیوب بات نہ تھی (بعد میں) آں حضرت ﷺ نے تدریج کے ساتھ عرب کے ان طریقوں کی اصلاح کی ‘‘ (سیرت النبی ، طبع 1981ء، 1/408) مولانا مودودی ؒ نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے : ’’اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ خفیہ طریقے سے دشمن کے سرداروں کو قتل کرادینا اسلام کے قانونِ جنگ کی کوئی مستقل دفعہ ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً آں حضرت ﷺ سب سے پہلے ابو جہل اور ابو سفیان جیسے دشمنوں کو قتل کراتے اور صحابہؓ میں ایسے فدائیوں کی کمی نہ تھی جو اس قسم کے تمام دشمنوں کو ایک ایک کرکے قتل کرسکتے تھے ۔ لیکن عہد رسالت اور عہد صحابہؓ کی پوری تاریخ میں ہم کو کعب بن اشرف اور ابو رافع کے سوا کسی اور شخص کانام نہیں ملتا جسے اس طرح خفیہ طریقہ سے قتل کیا گیا ہو، حالاں کہ آپؐ کے دشمن صرف یہی دو شخص نہ تھے ۔ پس یہ واقعہ خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ خفیہ طریقہ سے دشمن کو قتل کرنا اسلام کی کوئی مستقل جنگی پالیسی نہیں ہے ، بلکہ ایسے مخصوص حالات میں اس کی اجازت ہے جب کہ دشمن خود سامنے نہ آتا ہو اور پردے کے پیچھے بیٹھ کر خفیہ سازشیں کیا کرتا ہو ‘‘(الجہاد فی الاسلام ، مرکز مکتبہ اسلامی دہلی، طبع 1981ء، ص 313۔314) بنو نضیر کی جلاو طنی  بنو نضیر کی جلاوطنی کا واقعہ ربیع الاول 4ھ میں پیش آیا ۔ آں حضرت ﷺ نے ابتدامیں ان سے امن اور بقائے باہم کا معاہدہ کیا تھا ۔ لیکن بعد میں ان کی سرکشی اور پیہم بدعہدی کی بناپر انہیں جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مخالفین اسلام آں حضرت ﷺ کے اس فیصلے کو بھی اعتراض کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آپؐ کم زور تھے تو آپ نے ان سے معاہدہ کیا ، لیکن جب طاقت ور ہوگئے تو اپنے کیے ہوئے معاہدے کو توڑ ڈالا اور انہیں مدینے سے نکال باہر کیا ۔ اگر اس واقعہ کی تمام تفصیلات نگاہوں کے سامنے ہوں تو یہ اعتراض قائم نہیں رہ سکتا اور آں حضرت ﷺ کے فیصلے کی معقولیت سمجھی جاسکتی ہے۔ آں حضرت ﷺ نے مدنیہ تشریف لانے کے بعد تمام قبائل سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی ایک بنیادی دفعہ یہ تھی ۔ ’’وادعہم علی ان لا یحاربوہ ولا یمالؤا علیہ عدوہ ‘‘(فتح الباری ، 7/330) (آپ نے ان سے اس بات پر معاہدہ کیا تھا کہ و ہ آپ سے جنگ کریں گے نہ آپ کے خلاف آپ کے دشمنوں کی مدد کریں گے ) بنو نضیر نے اس معاہدہ کی پاس داری نہ کی ۔ انہوں نے کفار قریش سے ساز باز رکھی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے اکساتے رہے ۔ موسیٰ بن عقبہ نے اپنی مغازی میں لکھا ہے : کانت نضیر قددسوا الی قریش وحضّوہم علی قتال رسول اللہ ﷺ ودلّوہم علی العورۃ (بحوالہ فتح الباری ، 7/332) (بنو نضیر قریش سے سازشیں کرتے تھے ، انہیں رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اکساتے تھے اور انہیں خفیہ اطلاعات فراہم کرتے تھے ) یہی نہیں بلکہ انہوں نے متعدد مرتبہ خود رسول اللہ ﷺ کو ہلاک کرنے کی خفیہ تدبیریں کی تھیں ۔ کتب سیرت میں ان واقعات کا تذکرہ ملتاہے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ آپ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ آئیے ، ہم بھی اپنے تین علماء کو بھیجتے ہیں ، اگر وہ آپ پر ایمان لے آئیں گے تو ہم بھی آپ کے پیروبن جائیں گے ۔ ان یہودی علماء نے اپنے ساتھ خنجر چھپالیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ جب یہ لوگ اکٹھا ہوں گے تو دھوکے سے یہ آپؐ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہلاک کردیں گے ۔ خود ایک یہودی عورت نے اس سازش کا افشا کردیا اور آپ وہاں تشریف نہیں لے گئے۔(فتح الباری ، 7/331) ایک دوسرے موقع پر دیت کے ایک معاملے میں آں حضرت ﷺ بنو نضیر کے پاس تشریف لے گئے ۔ انہوں نے بظاہر آپ سے اچھا برتاؤ کیا اور دیت کا ایک حصہ ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ، لیکن درپردہ یہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے بالاخانے پر چڑھ کر ایک بڑا سا پتھر آپ کے اوپر گرادے جس سے آپ ہلاک ہوجائیں ۔ آپ کو اس کی خبر ہوگئی اور آپ دیت کا معاملہ طے کیے بغیر مدینہ واپس آگئے ۔ بنو نضیر رسول اللہ ﷺسے غدّاری اور بدعہدی پر آمادہ تھے ۔ ایک طرف کفار قریش غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں زبردست شکست کھانے کے بعد انہیں مسلمانوں کے خلاف ورغلارہے تھے ، دوسری طرف منافقین انہیں اپنے بھرپور تعاون کی جھوٹی امیدیں دلارہے تھے ۔ ان حالات میں انہیں مدینہ میں رہنے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا ۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں الٹی میٹم دے دیا کہ غداری کی بناپر انہوں نے مدینہ میں رہنے کاحق کھودیاہے ۔ اب اگر انہوں نے دس دن کے اندر مدینہ خالی نہیں کردیا تو ان سے جنگ کی جائے گی ۔ انہوں نے اس الٹی میٹم کی مطلق پروانہ کی ۔ وہ مضبوط قلعوں کے مالک تھے۔ ان قلعوں میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے پندرہ دنوں تک ان کا محاصرہ جاری رکھا ۔ بالآخر محاصرہ کی شدت سے وہ پریشان ہوگئے ۔ دوسرے یہودی قبیلہ بنو قریظہ نے ان کا ساتھ دیا ، نہ منافقین ان کی مدد کے لیے سامنے آئے ۔ بالآخر انہوں نے خود ہی یہ تجویز رکھی کہ ان کا خون معاف کردیا جائے اور انہیں اجازت دی جائے کہ جو کچھ مال و اسباب اونٹوں پر لادا جاسکتا ہو ، اسے لے کر اور بقیہ سامان یہیں چھوڑ کر وہ اذرعات (شام) چلے جائیں ۔ آں حضرت ﷺ نے ا ن کی جاں بخشی کردی اور ا ن کی تجویز منظور کرلی۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ معاہدہ کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں ، بلکہ بنو نضیر نے توڑا تھا ۔ اس کے باوجود رسول اللہ ﷺنے ان کا محاصرہ کرلینے اور ان پر غلبہ پانے کے باوجود ان سے انتقام نہیں لیا، بلکہ خود ان کی شرائط مان لیں اور انھیں اپنے مال و اسباب کے ساتھ اپنے پسندیدہ مقام پر جانے دیا ۔ بنو قریظہ کا قتل عام  غزوۂ بنو قریظہ، جس کا خاتمہ یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے تمام جنگ جوؤں کے قتل عام پر ہوا، غزوۂ احزاب (5ھ)کے معاً بعد پیش آیا۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو قریظہ نے بد عہدی کی اور دشمنوں سے مل گئے ۔ چنانچہ غزوۂ احزاب سے فارغ ہوکر آں حضرت ﷺ نے صحابہ کے ساتھ بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرلیااور بالآخر ان کے تمام جنگجوؤں کو، جن کی تعداد چار سو اور بعض روایات میں چھ سو بتائی گئی ہے ، قتل کردیا گیا اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام اور ان کے تمام مال و اسباب کو مال غنیمت بنالیا گیا ۔ مخالفین اسلام نے اس واقعہ پر بھی اعتراضات کیے ہیں او رآں حضرت ﷺ پر بد عہدی اور سنگ دلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ بنو قریظہ ان یہودی قبائل میں سے تھے جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ آں حضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ان سے دوستانہ معاہدہ کیا۔ بعد میں قریش کے بھڑکانے پر وہ آمادۂ بغاوت ہوگئے تو آں حضرت ﷺ نے معاہدہ کی تجدید کرنی چاہی۔ بنو نضیر نے انکار کیا، چنانچہ ان کو جلا وطن کردیا گیا۔ بنو قریظہ تجدید معاہدہ پر رضا مند ہوگئے ، چنانچہ انھیں امان دے دی گئی۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو نضیر کے بھڑکانے پر جب عرب کے تمام بڑے بڑے قبائل مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لے امڈ آئے تھے ، بنو قریظہ نے بھی مسلمانوں سے کیا ہوا معاہدہ توڑدیا اور بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب کے بہکانے پر شریکِ جنگ ہوگئے۔ آں حضرت ﷺ کو بنو قریظہ کی غدّاری کا علم ہوا تو آپؐ نے انھیں سمجھانے بجھانے کے لیے حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ کو ان کے پاس بھیجا، مگر انھوں نے بے رخی سے جواب دے دیا کہ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں۔ بنو قریظہ کی عہد شکنی اور غدّاری کے نتیجے میں مسلمان سخت پریشانی اور الجھن کے عالم میں تھے۔ وہ دو طرف سے محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔ ایک طرف تمام قبائل عرب کی فوجیں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھیں اور دوسری طرف بنو قریظہ آمادۂ شر تھے۔ مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو حفاظت کے لیے ایک قلعہ میں بھیج دیا تھا ، وہ بنو قریظہ کے نشانے پر تھا۔ دشمنوں کا محاصرہ طویل ہوتا جارہا تھا۔ مسلمان اس وقت جس عالم اضطراب سے گزر رہے تھے اس کا نقشہ خود قرآن نے یہ کھینچا ہے: اِذْ جَآءُ وْکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا۔ (الاحزاب۔10) (جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے ، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منھ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔) مسلمان اس وقت خود کو کتنا بے بس محسوس کررہے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آں حضرتﷺ نے مدینہ کی پیداوار کا ایک حصہ دے کر دشمنوں سے مصالحت کا ارادہ کرلیا تھا۔ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد آئی اور دشمن نامراد الٹے پیر واپس چلے گئے۔ بنو قریظہ کی اس غداری کے بعد ان کے ساتھ کسی طرح کی رعایت برتنا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ آں حضرت ﷺ نے غزوۂ احزاب سے فارغ ہونے کے معاً بعد صحابہ کو بنو قریظہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا اور ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ پندرہ دن اور بعض روایات کے مطابق پچیس دن جاری رہا۔ بالآخر خود بنو قریظہ نے یہ پیش کش کی کہ حضرت سعد بن معاذؓ ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں گے وہ انھیں منظور ہوگا۔ حضرت سعدؓ کا قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف تھا۔ اس لیے انھیں امید تھی کہ وہ ان کے بارے میں ہمدردانہ فیصلہ کریں گے ۔ لیکن انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام بالغ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا جائے اور مال و اسباب کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ ان کا یہ فیصلہ توریت ( کتاب استثناء، باب 20، آیات: 10۔14) کے عین مطابق تھا۔ اس لیے بنو قریظہ کے کسی ایک شخص نے بھی اس کے خلاف کچھ نہ کہا۔ عہد نبوی کے مذکورہ بالا تینوں واقعات کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے ، نہ کسی بد عہدی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ بلکہ متعلقہ افراد اور قبائل کو جو سزائیں دی گئیں وہ ان کی بد عہدی اور غدّاری کے عین مطابق تھیں اور وہ انہی کے مستحق تھے۔

حوالہ۔۔۔
http://mazameen.com/history/prophet/دہشت-گردی-کے-حوالے-سے-بعض-واقعاتِ-سیرت-ک.html
مکمل تحریر >>

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو قتل کرایا؟ کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی قتل کرایا؟کیا بنو قریظہ کے مردوں کے کپڑے اتار کر ان کی بلوغت چیک کی گئ؟جنگ میں درخت اور باغات کٹوائے؟اگر ہاں تو کیوں؟ ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ اول

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو قتل کرایا؟ کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی قتل کرایا؟کیا بنو قریظہ کے مردوں کے کپڑے اتار کر ان کی بلوغت چیک کی گئ؟جنگ میں درخت اور باغات کٹوائے؟اگر ہاں تو کیوں؟
ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ اول
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
///////////////////////////////////////////////////////////////////

یہ ایک عمومی تاثر ہے کہ اسلام جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کی حقیقت کیا ہے، اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیں:
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ جن مشرکین سے لڑائی ہے اگر شب خون مارتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے مارے جائیں تو کیسا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ بھی انہی (کافروں) میں سے ہیں۔"
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب اہل الدار بیتون۔۔۔۔۔، حدیث: 3012)
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم شبِ خون مارتے ہوئے، مشرکین کے بچوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ بھی انہی (مشرکین) میں سے ہیں۔"
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب جواز قتل النساء و الصیبان فی البیات من غیر تعمد، حدیث: 4550)
ایک اور روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ کافروں کے جن عورتوں اور بچوں کو شبِ خون میں مارے جانے کا حکم پوچھا جا رہا تھا، ان میں مسلمانوں کے گھوڑوں تلے روندے گئے "کافر بچے، کافر عورتیں" شامل تھیں۔ دیکھئے جامع ترمذی ( کتاب السیر، باب ما جاء فی النہی عن قتل النساء و الصیبان، حدیث: 1570)، سنن ابوداؤد (کتاب الجہاد، باب فی قتل النساء، حدیث: 2672)
 اکثر موقعوں پر ملتا ہے کہ محمد صلعم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دشمنوں کی بے خبری و غفلت میں ان کی بستیوں پر حملہ کیا، نوجوانوں کو قتل کیا، گھروں میں گھس گھس کر مارا اور ان کے بے قصور عورتوں اور بچوں کو قیدی و غلام بنا لیا۔
دیکھئے صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، حدیث: 4198، 4200)، سنن ابو داؤد (کتاب الجہاد، حدیث: 2633، 2638)
یہ بھی بالکل اسلام پر بہتان ہے کہ کہیں یہ تعلیم دی گئی ہو کہ چاہے دشمن بھی ہوں لیکن بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو ان کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے چھوڑ دو۔ اس کے مقابلے میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشرکین کے بوڑھوں کو قتل کرو اور نوعمر (نابالغوں) کو زندہ رہنے دو۔"
(سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی قتل النساء، حدیث: 2670)
چنانچہ ایک واقعہ میں ایک ضعیف یہودی ابوعفک کہ جس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی، کو اس کے سوتے ہوئے قتل کیا گیا۔
(طبقات ابن سعد اردو، ج1 ص265، نفیس اکیڈمی کراچی)
اسی طرح محمد صلعم کے بھیجے مجاہدین نے ایک معرکہ میں گرفتار ضعیف بوڑھی عورت اُم قرفہ فاطمہ کو اس بے دردی سے قتل کیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسی باندھی گئی اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا، جس سے اس کا جسم دو ٹکڑے ہو گیا۔
(تاریخ طبری اردو، ج2 ص261، نفیس اکیڈمی کراچی)

 حضرت انس سے روایت ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے۔"
(صحیح بخاری، کتاب المزارعہ، باب قطع الشجر و النخل)
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی کھجوروں (کے درختوں) کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔"
(صحیح بخاری، کتاب المزارعہ، باب قطع الشجر و النخل، حدیث: 2326، 3021 / صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب جواز قطع اشجار الکفار و تحریقھا، حدیث: 1746)
مشہور محدث امام نووی نے صحیح مسلم کی حدیث پر باب باندھتے ہوئے اس اسلامی تعلیم کا صاف اقرار کیا ہے کہ "کافروں کے درختوں کو کاٹنا اور جلانا جائز ہے"۔ اسی طرح مشہور فقیہ و محدث امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے کہ "دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کچھ حرج نہیں۔" (سنن ترمذی، کتاب السیر، باب فی التحریق و التخریب) امام اسحاق بن راہوایہ
///////////////////////////////////////////////////////////////////
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﷺ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ
ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ۔ ﺁﯾﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﮧ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ
ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ۔
ﻏﺰﻭﮦ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ
ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ
ﻧﮯ ﺍﻣﻦ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻏﺰﻭﮦ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ
ﭘﯿﭩﮫ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺮﺍ ﮔﮭﻮﻧﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﻧﺎﮐﺎﻡ
ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﻮﮞ
ﮐﻮ ﮬﻼﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻏﺰﻭﮦ ﺧﻨﺪﻕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﻭ ﯾﮩﻮﺩ ﻧﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ
ﺍﻧﺪﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ
ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻓﮑﺮﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺪﯾﻢ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﻏﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮ ﺳﻮ
ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺗﻮ
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻭﺭ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ
ﮐﻮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮑﻠﯽ۔
ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﻮ ﺷﮏ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺶ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ
ﻗﺮﯾﺶ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺑﻄﻮﺭ ﯾﺮﻏﻤﺎﻝ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﺟﺴﮯ ﻗﺮﯾﺶ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺎﺯﺵ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮ
ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺳﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﺸﺖ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﺰﺩﻝ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮕﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔
ﺍﻧﮩﯽ ﻭﺟﻮﮦ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﻋﻤﻠﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺎﮔﮩﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ! ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺌﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ
ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﮮﮨﯿﮟ ۔ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ
ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻋﻼﻧﯿﮧ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ
ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔( ﻣﺴﻠﻢ ﺑﺎﺏ ﺟﻮﺍﺯ ﻗﺘﺎﻝ ﻣﻦ ﻧﻘﺾ ﺍﻟﻌﻬﺪ ﺝ ۲ ﺹ۹۵ )
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ
ﺍﺑﮭﯽ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺍﺗﺎﺭﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺣﻀﻮﺭ
ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﭘﻨﮯ
ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ” ﻟﺤﯿﻒ ” ﺗﮭﺎ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ
ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﻧﺰﻭﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
( ﺯﺭﻗﺎﻧﯽ ﺝ۲ ﺹ۱۲۸ )
ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ
ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻌﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ
ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭِ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ
( ﻣﻌﺎﺫ ﺍﷲ ) ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﺴﺘﺎﺧﯿﺎﮞ ﮐﯿﮟ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ
ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻌﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً
ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻨﮓ ﺁﮐﺮ ﯾﮧ
ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ” ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ “
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺮ
ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺷﺪﯾﺪ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺯﺧﻤﯽ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﮯ ﭘﺮ
ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
“ ﻟﮍﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻓﻮﺟﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ
ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﺎﻝ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ “
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻦ
ﮐﺮ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﮯ۔ ( ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ۲ ﺹ۹۵ )
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺗﻮﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ
ﮐﯽ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ
ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﻖ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺩﻏﺎ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺳﯿﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻟﮍﺍﮐﺎ ﻓﻮﺟﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﻮ
ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﺎﻝ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ 700 ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﯿﻠﮧ
ﺍﻭﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﻭﺍﺻﻞ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﺎﻝِ ﻏﻨﯿﻤﺖ
ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺷﺮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﺷﺮﯾﺮ ﻭ ﺑﺪﻋﮩﺪ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﮯ ﺷﺮ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﭘﺮﺍﻣﻦ ﻭ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
اس ساری بحث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بنو قریظہ کے بچے قتل نہیں کیے گئے تھے۔ان کی یہ سزا یعنی ان کے مردوں کا قتل اور عورتوں اور بچوں کا قیدی بنایا جانا خود ان کی بد عہدی کی سزا تھی اور یہ سزا ان کی اپنی مذہبی کتاب تورات کے مطابق حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے تجویز کی جن کو ان یہودیوں نے اپنا فیصلہ کرنے کے لیے تجویز کیا تھا۔جب یہ تھی ہی ان یہود کی اپنی بدعہدی،بد امنی کی  کی سزا اور یہ فیصلہ تھا بھی خود ہی ان کی اپنی مذہبی کتاب تورات کے مطابق اور اس کا اختیار بھی خود یہود نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو خود دیا تھا اور اس میں بچوں اور عورتوں کا قتل نہیں کیا گیا تو پھر اسلام پر اعتراض کیسا۔
قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔

ہم ان روایات کو ایک جدول (ٹیبل) کی شکل میں لکھ رہے ہیں تاکہ ایک نظر میں آسانی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔

روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.

روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
عبدالملک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن منصور
حدیث موقوف
دوم:
سنن نسائی:
روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن کثیر،
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 12 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔
روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...502-Hadith.htm)
موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...503-Hadith.htm)
مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...504-Hadith.htm)

ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔
ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟
ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟
ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔
ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔
ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 3 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں
ز- حدیث نمبر 7 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
س-حدیث نمبر 1 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟
ش-حدیث نمبر 1 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔
نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملحدین کا اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے لیے بنو قریظہ کے لڑکوں کا ستر کھول کرکر بلوغت چیک کرائ تھی،غلط ہے۔
https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?313759-%26%231576%3B%26%231606%3B%26%231608%3B-%26%231602%3B%26%231585%3B%26%231740%3B%26%231592%3B%26%231729%3B-%26%231705%3B%26%231746%3B-%26%231576%3B%26%231670%3B%26%231608%3B%26%231722%3B-%26%231705%3B%26%231575%3B-%26%231602%3B%26%231578%3B%26%231604%3B-%26%231575%3B%26%231608%3B%26%231585%3B-%26%231575%3B%26%231587%3B-%26%231705%3B%26%231740%3B-%26%231581%3B%26%231602%3B%26%231740%3B%26%231602%3B%26%231578%3B
************************************************
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا اُمَامَة قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ص يَقُولُ نَزَلَ أَهلُ قُرَيْظَة عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ إِلَی سَعْدٍ فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلَی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ فَقَالَ هؤُلَائِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهمْ وَتَسْبِي ذَرَارِيَهمْ قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اﷲِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ.
حضرت ابوسعید خدری ص فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کے حکم پر بنی قریظہ قلعہ کے نیچے اتر آئے تھے۔ تو نبی کریمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد ص کو بلا بھیجا۔ پس وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے گدھے پر سوار ہوکر چل پڑے اور جب مسجد نبوی کے قریب آگئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار یا اپنے بہترین فرد کے لئے تعظیمی قیام کرو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم پر قلعہ سے اتر آئے ہیں اب ان کا فیصلہ کردو۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے جو افراد لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور کبھی آپ یہ فرماتے کہ حکم فرشتہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
بخاري، الصحيح، 4: 1511، رقم: 3895
مسلم، الصحيح، 3: 1388، رقم: 1768
بالفرض ان غدار لوگوں کو (جو پوری ریاست مدینہ کے لئے خطرہ تھے) قتل کرتے ہوئے، رات کے اندھیرے میں لڑائی کے دوران عورتیں اور بچے ہلاک ہو جاتے یا انہی کی طرح کے خطرناک کوئی اور لوگ ہوتے یا پھر آج بھی کوئی ایسا گروہ ہو تو ان کے بارے میں درج ذیل حدیث مبارک ہے:
عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَة قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهلِ الدَّارِ يُبَيَتُونَ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهمْ وَذَرَارِيِّهمْ قَالَ: همْ مِنْهمْ وَسَمِعْتُه يَقُولُ لَا حِمَی إِلَّا ِﷲِ وَلِرَسُولِه.
حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابواء یا ودّان کے مقام پر میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ سے ان مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو رات کو اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور (بوقتِ شب خون) قتل کردیئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ بھی تو ان ہی میں سے ہیں۔ نیز آپ کو یہ بھی فرماتے سنا گیا کہ چراگاہیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں۔
بخاري، الصحيح، 3: 1097، رقم: 2850
مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1745
معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو عوام الناس کے جان و مال، عزت و آبرو اور ملکی سلامی کے لیے خطرہ ہوں انہیں کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اگر وہ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر چھپنے کی کوشش کریں تو بھی انہیں قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ پورے معاشرے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں اس لیے ان کا قلعہ قمہ کرنا ہر صورت لازم ہے۔ درج بالا حدیثِ مبارکہ درست مفہوم یہی ہے۔
پس اگر بچے بوڑھے عورتیں جنگ اہل قتال نہیں ہوں گے یعنی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو ان کا قتل ناجائز ورنہ جائز ہوگا۔بیان کردہ احادیث کا یہی مطلب ہے۔اب اس طرح وہ بیگناہ مسلم اور کافر دونوں طرح کے مرد،عورتیں،بچے اور بوڑھے جو اپنے کام کاج میں مصروف ہیں،ان کو ان کی عبادت گاہوں،بازاروں ،چوکوں ،سڑکوں پر حملے کر کے قتل کرنا جرم ہے۔
 اگر کفار عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں اور اس صورت میں کچھ بچے یا عورتیں قتل ہوجائیں تو ان کا گناہ بھی اسلامی فوج پر نہیں ہوگا۔علماء کی اس تشریح کی گواہ وہ احادیث بھی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کے قتل سے روکا گیا ہے
 چراگاہوں سے متعلق عربوں کا دستور یہ تھا کہ جب کسی آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے،وہ بھونکتا اور جہاں تک کتے کی بھونکنے کی آواز جاتی وہاں تک کا علاقہ ان کی تحویل میں سمجھا جاتا اور کوئ بھی دوسرا اس میں جانور نہ چرا سکتا۔یہ طریقہ جو کہ ظلم پر مبنی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم فرما دیا اور حکم دیا کہ محفوظ یعنی تحویل شدہ چراگاہ اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خود تصرف کی بجائے ان کو لوگوں میں انصاف کے مطابق تقسیم کیا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب خود جمع کرتے تو یہ نہ ہوتا کہ وفات کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چراغ جلانے کے لیے تیل نہیں تھا۔اس طرح اسلام نے ذاتی طور پر کوئ چراگاہ قبضے میں کرنے کا تصور ختم کر کے اسے حق داروں میں تقسیم کیا۔کچھ سوشلسٹ و کامریڈ خیالات رکھنے والے لوگ اس حدیث سے اپنا کمیونسٹ نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ اس سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام حکومت شریعت کے مطابق ہے۔
(جاری ہے
مکمل تحریر >>