Friday 28 December 2018

سائنس کے بانیوں کا وجود خدا پہ ایمان اور ارتقاءکی وسیع آموزش،نظریہ ارتقاء غلط ہونے کے بعد بھی اس حد تک مقبول کیوں ہے؟ دنیا میں ارتقائی پروپیگنڈے اور عوامی برین واشنگ کی کہانی

سائنس کے بانیوں کا وجود خدا پہ ایمان اور ارتقاءکی وسیع آموزش،نظریہ ارتقاء غلط ہونے کے بعد بھی اس حد تک مقبول کیوں ہے؟ دنیا میں ارتقائی پروپیگنڈے اور عوامی برین واشنگ کی کہانی

اقتباس:کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف:ہارون یحییٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر یے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔ اس صورتحال کا مشاہدہ دوسری مثالوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو تنویم یعنی نیند کے زیر اثر کردیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ وہ جس بستر پر لیٹا ہوا ہے وہ ایک بستر نہیں بلکہ موٹر کار ہے تو وہ شخص عمل تنویم کے بعد بستر کو موٹر کار ہی تصور کرے گا۔ اس کے حساب سے اس کا یہ تجزیہ نہایت منطقی اور مناسب ہے کیونکہ اس کا ذہن اس کو یہی بتاتا ہے اور اس کا ذہن اس معاملے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں۔ یہ تمام مثالیں آموزش کے عمل کی حسنِ کارکردگی، نظام اور طاقت کو بیان کرتی ہیں۔ آموزش ایک باقاعدہ سائنسی حقیقت ہے جو کہ لاتعداد تجربوں سے ثابت کی جاچکی ہے۔ اس کا ذکر سائنسی جریدوں اور نصابی کتابوں میں موجود ہے اور اس کا استعمال نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے عام ہے۔
نظریہ ارتقاءاور عالمی مادی نظریہ لاکھوں لوگوں کے اوپر ایسی ہی آموزش کے ذریعے مسلط کئے گئے ہیں ۔جو لوگ مسلسل مختلف نشریاتی ذریعوں، تعلیمی ذرائع اور سائنسی اعلانات سے اس ارتقائی آموزش کے زیر اثر رہتے ہیں وہ اس نظریئے کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نظریہ دراصل منطق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ آموزش سائنسدانوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سائنس کے شعبے میں آنے والے نئے نام اس مادی نقطہ نظر کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اپنانے لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی سیکھا اور سنا ہوتا ہے۔ اس سحر کے زیر اثر کئی ارتقائی سائنسدان انیسویں صدی کے ان غیر منطقی اور فرسودہ ارتقائی دعوﺅں کی سائنسی تصدیق اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور بھی ایسے اضافی نظام ہیں جو کہ سائنسدانوں کو ارتقاءپسند اور مادہ پرست ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کسی سائنسدان کے نامور ہونے کے لئے اور اپنے شعبے میں تعلیمی اعزاز حاصل کرنے کے لئے اس کا ایک مخصوص معیار کی سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ان معیارات میں سرِ فہرست اس کا ارتقاءپر یقین ہے۔ سائنس کے جس نظام سے یہ سائندان منسلک ہوتے ہیں وہ ان کو ان کی تمام پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی کٹر عقیدے کی تلقین اور یقین میں سرگرداں رکھتا ہے۔ امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ بقیہ کتاب میں جدید سائنس کا ارتقاءکے خلاف ثبوت کا معائنہ کیا جائے گا ۔ ان میں کئی ثبوت ارتقاءپسند سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں اور کئی کو ’خاص قسم کے‘ جریدوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ثبوت اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ہونے کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ نظریہ ارتقاءایک ایسا دھوکہ ہے جس کو سائنس نے محض تخلیق کی حیثیت سے انحراف کرنے کے لئے ہر قدم پر سہارا دیا ہے۔ پڑھنے والوں سے صرف یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سحر سے اپنے دماغ کو آزاد کرلیں جس نے ان کیحقیقت کو جانچنے کی صلاحیت کو جکڑ رکھاہے اور اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کرےں تو وہ شفاف سچ کو پالےں گے۔ لازم الوقواع سچ جو کہ جدید سائنس نے ہر پہلو سے ثابت کردیا ہے کہ وہ یہ ہے جاندار نسلیں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ اگر انسان صرف اپنی ہی ذات کی گہرائی اور پیچیدگی پر غور کرے تو وہ با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس ذات نے اس کو پانی کے ایک قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنادیا وہی ذات ہر جاندار کی تخلیق کے پیچھے ہے۔
زیادہ تر لوگ جو کہ جدید سائنس کے بانی تصور کئے جاتے ہیں وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ سائنس کو پڑھنے کے دوران وہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات اس میں موجود جاندار اور اس کے اصولوں کو پرکھنے کی مستقل سعی کرتے رہے۔ کوپرنیکس، کپلر اور گیلیلیو جیسے نجومی، علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے بانی کوویر، علمِ نباتات اور علمِ حیوانات کے بانی لیناےس اور نےوٹن جس کو سب سے عظیم ترین سائنسدان کہا جاتا ہے، سب نے سائنس کا مطالعہ خدا پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے نقطہ نظر میں اس نظریئے کا بھی دخل تھا کہ تمام کائنات خدا کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے . 2
ہمارے دور کا ایک اور عظیم سائنسدان آلبرٹ آئنسٹائن ایک اور خدا کا عقیدہ مند سائنسدان تھا۔ اس کے الفاظ میں:
”میں گہرے ایمان سے عاری کسی سچے سائنسدان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دین کے بغیر سائنس معذور ہے۔“ 3
جدید طبیعات کے ایک بانی جرمن سائنسدان میکس پلانک کا کہنا ہے کہ ”کسی بھی سنجیدہ نوعیت کے سائنسی کام میں ملوث ہونے والے سائنسداں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی عبادتگاہ کے داخلی دروازے کے اوپر یہ الفاظ آویزاں ہیں ”تمہارے اندر ایمان بالغیب لازمی ہے“۔ یہ وہ وصف ہے جس کے بغیر سائنسدان کا سائنسدان ہونا ناممکن ہے۔“ 4

 حوالہ جات:
1:Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
4 / total 21
2: Dan Graves, Science of Faith: Forty-Eight Biographies of Historic Scientists and Their Christian Faith, Grand Rapids, MI, Kregel Resources.
3:Science, Philosophy, And Religion: A Symposium, 1941, CH.13.
4: Max Planck, Where is Science Going?, www.websophia.com/aphorisms/science.html
مکمل تحریر >>

اسلامی معاشرے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جنسی درندگی اور کم عمری کی شادی کا طعنہ دینے والے ملحدین کے پسندیدہ ملک امریکا کی حالت زار

اسلامی معاشرے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جنسی درندگی اور کم عمری کی شادی کا طعنہ دینے والے ملحدین کے پسندیدہ ملک امریکا کی حالت زار
------------------------------------------------------------------------------
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) کم عمری کی شادی اور لڑکی کو جنسی زیادتی کا شکار بنانے والے مجرم سے ہی اس کی شادی کرنے جیسے مکروہ جرائم کاخیال آئے تو ذہن میں تیسری دنیا کے ممالک آتے ہیں لیکن آپ یہ جان کر ششدر رہ جائیں گے کہ امریکہ جیسے نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں بھی یہ کام عروج پر ہیں۔ شیری جانسن نامی لڑکی بھی انہی لڑکیوں میں سے ایک ہے جس کو زبردستی اسی شخص کے ساتھ بیاہ دیا گیا جس نے اسے انتہائی کم عمری میں زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ دی میٹرو کی رپورٹ کے مطابق شیری جانسن امریکی ریاست فلوریڈا کی رہائشی ہے جہاں کم عمری کی شادی تاحال قانوناً جائز ہے۔ شیری کو ایک سینئر اور ایک جونئیر پادری نے درندگی کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی اور 10سال کی عمر میں پہلی بیٹی کو جنم دے دیا۔ 11سال کی عمر میں اس کی شادی زبردستی انہی میں سے ایک مجرم کے ساتھ کر دی گئی۔

اسکول میں ٹیچر نے 9 سالہ بچی کو فحش فلم دیکھتے پکڑ لیا، پوچھا کیوں دیکھ رہی ہو تو آگے سے اُس نے ایسا جواب دے دیا کہ واقعی پیروں تلے زمین نکل گئی، فوری پولیس کو بلانا پڑگیا کیونکہ۔۔۔
اب شیری نے عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے اور امریکہ میں کم عمری کی شادیوں پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس نے عدالت میں بتایا کہ ”میں ہی نہیں، میری جیسی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں جن کی شادی انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے مجرموں سے زبردستی کی گئیں۔ ان میں سے اکثر کی عمریں 15سال سے کم تھیں جبکہ انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے والے ان سے کہیں بڑی عمر کے تھے۔چرچ کے عمائدین جنسی زیادتی کے کیس چھپانے اور تحقیقات رکوانے کے لیے لڑکیوں کو انہی مردوں سے شادی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میں اب تک 9بچوں کو جنم دے چکی ہوں۔ میں تب سے بچے پال رہی ہوں جب میں خود ایک بچی تھی۔ اسی وجہ سے سکول تک نہ جا سکی۔ میری اس وقت زبردستی شادی کر دی گئی جب مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ شادی کیا ہوتی ہے۔“
واضح رہے کہ امریکی آدھی سے زیادہ ریاستوں میں شادی کی کم از کم عمر کا کوئی تعین نہیں کیا گیا جہاں کسی بھی عمر میں بچوں کی شادی کی جا سکتی ہے۔2000ءسے 2010ءکے دوران صرف ریاست ٹیکساس میں 34ہزار 793کم عمر بچوں کی شادیاں کی گئیں۔ فلوریڈا میں یہ تعداد14ہزار 278تھی۔ اس عرصے میں امریکہ بھر میں 1لاکھ 67ہزار 233کم عمر بچوں کی شادیاں کی گئیں۔
مکمل تحریر >>

Thursday 27 December 2018

ارتقا،پسندوں کی طرف سے فوسل ریکارڈ کس طرح عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ؟ نبراسکا انسان کی فرضی کہانی،فوسل ریکارڈ کے حوالے سے ارتقائی سائنسدانوں کے جھوٹے دعوے اور جھوٹ پکڑے جانے پر ارتقا کے حامیوں کی سخت شرمساری

ارتقا،پسندوں کی طرف سے فوسل ریکارڈ کس طرح عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ؟ نبراسکا انسان  کی فرضی کہانی،فوسل ریکارڈ کے حوالے سے  ارتقائی سائنسدانوں کے جھوٹے دعوے اور جھوٹ پکڑے جانے پر ارتقا کے حامیوں کی سخت شرمساری
اقتباس:نظریہ ارتقا ، ایک فریب
مصنف:ہارون یحییٰ
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
انسانی ارتقاءکی فرضی حکایت کی تفصیلات میں جانے سے پہلے ان منظم تشہیراتی طریقوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے جس کے ذریعے عام لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ماضی میں رہنے والا آدھا انسان/آدھا گوریلا ایک حقیقت ہے۔ یہ منظم تشہیرات بڑی حد تک فوصلوں یعنی رکاز  کی نو تعمیرات کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ ان نو تعمیرات کا طریقہ ارضیاتی کھدائی کے دوران پائی گئی کسی ایک ہڈی کو بنیاد بناکر تصویر بنانا یا کسی جاندار کا مکمل ڈھانچا تعمیر کردینا ہے۔ اخباروں، رسالوں اور فلموں میں اکثر نظر آنے والا گوریلا نما آدمی ایسی ہی نو تعمیرات کا نتیجہ ہے کیونکہ فوصل زیادہ تر کسی ڈھانچے کا معمولی سا حصہ اور بسا اوقات غیر مکمل حصہ ہوتے ہیں اس لئے ان کو بنیاد بناکر کوئی بھی قیاس کرنا سراسر تخمینہ اور اندازہ ہوتا ہے۔ ان فوصلی بقایاجات کو بنیاد بناکر ارتقاءپسند صرف اس لئے نو تعمیر کرتے ہیں تا کہ دنیا کے سامنے اپنے ارتقائی مقالے کو سچ ثابت کر سکیں۔درحقےقت یہ نو تعمیراتی اشکال صرف ان کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک نامور ماہرِ بشریات اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
”کم از کم علمِ قدیم بشر ی رکازیات یا فوسل(Human Fossils) میں صحیح معلومات کی اتنی کمی ہے کہ کسی بھی چیز کی تشریح زیادہ تر ذاتی مقالے پر مبنی ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی ذاتی مقالے ہی جدید فکریات کا آئینہ رہے ہیں۔“ 1
لوگوں کی سوچ آنکھ دیکھی چیزوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ نو تعمیرات ارتقاءپسندوں کے مقاصد کو بخوبی کامیاب بنادیتی ہیں اور لوگوں کو یقین آجاتا ہے کہ واقعی تصاویر میں نظر آنے والی مخلوق حقیقی ہے۔ اس موقع پر ایک نقطے کو اجاگر کرنا لازمی ہے۔ ہڈی کی شکل میں ملنے والے بقایاجات کسی بھی مخلوق کی صرف سرسری خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کسی مخلوق کی شکلیاتی خصوصیات کا انحصار نرم ریشہ لحمی یعنی عضلات یا جسم کے نرم حصوں  پر ہوتا ہے جو کہ موت کے بعد سڑ جانے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے اس نرم ریشہ لحمی کی نو تعمیرات جو کہ خاکوں اور نقشوں میں دکھائی جاتی ہے وہ صرف اور صرف اس شخص کے ذہن کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ ان کو بنارہا ہوتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا ارنسٹ اے۔ ہوٹن اس تمام معاملے کو یوں بیان کرتا ہے:
”نرم حصوں کی نو تعمیرات کا بیڑا اٹھانا ایک نہایت ہی خطرناک نوعیت کا کام ہے۔ ہونٹ، آنکھ، کان اور ناک کی نوک کا نیچے والے ڈھانچے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک نیا نڈر تھا لائد (قدیم انسان) کی کھوپڑی کے اوپر چمپانزی بندر کی شکل بھی تعمیر کی جاسکتی ہے اور ایک مشہور فلاسفر کی بھی۔قدیم انسان کی یہ ازروئے دعویٰ نو تعمیرات کی سائنسی قیمت اگرچہ بہت کم ہے لیکن یہ عام لوگوں کو بہکانے کا کام بہت اچھی طرح کرسکتی ہیں۔ اسی لئے ان نو تعمیرات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔“ 2
حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقاءپسند اس موضوع پر واہیات ترین کہانیاں گھڑ لیتے ہیں اور ایک ہی کھوپڑی پر مختلف شکلیں بھی تعمیر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔آسٹرالوپیتھیکس روبسٹس (زنجانتھروپس) نامی ایک فوصل کا تین مختلف نو تعمیری شکلوں کے ساتھ پیش کیا جانا اس طرح کی جعل سازی کی بہترین مثال ہے۔ نیچے تصویر میں ایک کھوپڑی کی تین مختلف اشکال میں نوتعمیرات دکھائی گئی ہیں۔
اوپر سے نیچے
ماریس ولسن کے خاکے
سنڈے ٹائمز کی 5 اپریل 1946 اشاعت میں چھپنے والا خاکہ
نیشنل جیوگرافک کی ستمبر 1940ء کی اشاعت میں چھپنے والا پارکر کا خاکہ
جاوا مین کے دو خاکے جوکہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ ہیں ارتقاءپسندوں کے ہاتھوں فوصلوں کی ناقابل یقین تشریح کا ثبوت ہیں۔
1922ء میں  امریکہ کے قدرتی تاریخ کے عجائب گھر کا منظم اعلیٰ ہنری فیر فیلڈ آسبارن نے اعلان کیا کہ اس کو ریاست نبراسکا کے مغرب میں موجود اسنیک بروک سے پیلیوسین دور کا ایک داڑھ کا فوصل ملا ہے۔ اس دانت میں ازروئے دعویٰ انسان اورگوریلے کی مشترکہ خصوصیات موجود تھیں۔ اس فوصل کے گرد تفصیلی سائنسی بحث گردش کرنے لگی اور اس کا نام’ نبراسکا کا آدمی‘ رکھ دیا گیا۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ داڑھ پتھکانتھرو پس ارکٹس کا تھا جبکہ دوسرے مصر تھے کہ یہ ایک انسانی داڑھ تھا۔ نبراسکا کے آدمی کا فوراََ ایک سائنسی نا م ’ ہسپےروپتھیکس ہارلڈکوکی ‘ رکھ دیا گیا ۔ ا س کے علاوہ بہت سی تنظیمات نے آسبارن کے ساتھ تعاون کرنے کا وعدہ بھی کرلیا۔اس واحددانت کو سامنے رکھتے ہوئے نبراسکا کے آدمیکے سر اور جسم کی نوتعمیر کردی گئی۔ مزید یہ کہ اس تصوراتی آدمی کا پورا خاندان بھی اس کی بیوی اور بچوں سمیت ایک قدرتی پس منظر میں بناکر دکھایا گیا ۔ارتقائی حلقوں کو اس خیالی آدمی کے اوپر اس قدر اعتماد تھا کہ جب ولیم برائن نامی ایک تحقیق دان نے نبراسکا کے آدمی سے متعلق متعصب نتیجوں سے اختلاف کیا تو اس کی شدید نکتہ چینی کی گئی۔
لیکن 1927ء میں اس ڈھانچے کے دوسرے حصے بھی مل گئے جن کے حساب سے یہ دانت نہ تو کسی انسان کا تھا نہ گوریلے کا بلکہ یہ ایک پراستھینوپس نامی معدوم جنگلی امریکی سور کی نسل کا تھا۔ رسالہ سائنس میں ولیم گریگوری کا ایک مضمون چھپا جس میں اس نے اس سچائی کا اعلان کیا۔ ’ہسپیروپتھیکس ہیرالڈ کوکی‘ اورا س کے خاندان کی ساری تصویریں ارتقائی ادب سے فوراََ ہٹالی گئیں۔3
     فوصلوں کی یہ متعصب تشریح اور صریحاً جعل سازی ارتقاءپسندوں کا من پسند وطیرہ بن گیا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو ارتقاءکے فریب میں الجھائے رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حرکتیں بہت معصوم لگتی ہیں جب ان کا موازنہ ان دوسری جانی بوجھی جعل سازیوں سے کیا جاتا ہے جن کا ارتکاب ارتقاءکی تاریخ میں کیا گیا ہے۔

حوالہ جات:
 1:David R. Pilbeam, "Rearranging Our Family Tree", Nature, June 1978, p. 40.
 2:Earnest A. Hooton, Up From The Ape, New York: McMillan, 1931, p. 332.
 3:W. K. Gregory, "Hesperopithecus Apparently Not An Ape Nor A Man", Science, Vol 66, December 1927, p. 579.
مکمل تحریر >>

کیا بچوں کو دودھ پلانے والے جانور یا ممالیہ(Mammals) رینگنے والے جانوروں سے وجود میں آئے؟ ممالیہ خصوصا گھوڑوں،چمگادڑ اور مکھیوں کے ارتقا کی فرضی کہانی اور اس میں پائے جانے والے سائنسی جھوٹ اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا، ایک فریب

کیا  بچوں کو دودھ پلانے والے جانور یا ممالیہ(Mammals) رینگنے والے جانوروں سے وجود میں آئے؟
ممالیہ خصوصا گھوڑوں،چمگادڑ اور مکھیوں کے ارتقا کی فرضی کہانی اور اس میں پائے جانے والے سائنسی جھوٹ
اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا، ایک فریب
ڈاؤن لوڈ لنک:http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib
مصنف: ترک سکالر ہارون یحیی
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
 نظریہ ارتقاءکے مطابق سمندر سے نکلنے والی کچھ تصوراتی مخلوق رینگنے والے حیوانات میں تبدیل ہو گئی اور پرندے انہی رینگنے والے حیوانات کی ارتقائی شکل ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق رینگنے والے حیوانات نہ صرف پرندوں کے اجداد ہیں بلکہ ممالیہ جانوروں کے بھی یہی اجداد ہیں حالانکہ ان دونوں جماعتوں کے بیچ وسیع اختلافات ہیں۔ ممالیہ جانور گرم خون کے جانور(Warm Blooded Animals) ہوتے ہیں جس کا مطب ہے کہ وہ نہ صرف اپنے جسم کی حرارت خود پیدا کرسکتے ہیں بلکہ یہ اس حرارت کو معتدل سطح پر رکھنے کے بھی اہل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممالیہ جانور زندہ بچے جنتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں اور ان کے جسم بالوں یا لپشم سے ڈھکے ہوتے ہیں۔اس کے برعکس رینگنے والے جانور ٹھنڈا خون(Cold Blooded Animals) رکھتے ہیں یعنی وہ اپنے جسم کی حرارت پیدا نہیں کرسکتے اور ان کے جسم کے درجہ حرارت کا انحصار بیرونی درجہ حرارت کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ انڈے دیتے ہیں، اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتے اور ان کے جسم کھپروں سے ڈھکی ہوتے ہیں۔
ارتقاءپسند اپنے ڈائناساروں کو پرندوں کے اندر تبدیل ہونے کے دعوے کو یہ کہہ کر سہارادیتے ہیں کہ وہ ڈائناسار جوکہ اپنے آگے کی ٹانگوں کو پھڑپھڑاکر مکھیوں کا شکار کرتے تھے وہ اس حرکت سے اچانک ہی اڑنے لگ گئے جس طرح کہ نیچے فرضی تصویر میں نظر آرہا ہے۔ اس نظریئے میں کسی بھی طرح کی سائنسی بنیاد مفقود ہونے سے اس کا ایک خیالی کہانی ہونا صاف ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ اس نظریئے کے اندر ایک اور عدم توافق موجود ہے۔ اڑان کی ابتداءکو بیان کرنے کے لئے ارتقاءپسند جو مثال پیش کرتے ہیں اس میں خود تضاد ہے کہ مکھیوں کے اندر پہلے سے ہی اڑنے کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ ایک انسان اپنی آنکھوں کو ایک سیکنڈ میں  10دفعہ ہی کھول بند کرسکتا ہے جبکہ ایک عام مکھی ایک سیکنڈ میں اپنے پر 500 دفعہ پھڑپھڑاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے دونوں پروں کو بیک وقت ہلاتی ہے۔ اس کے پروں کی ہلکی سی بھی بدآہنگی اس کے توازن پر اثر انداز ہوسکتی ہے لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔
ارتقاءپسندوں کے لئے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے کہ مکھی نے اڑان کی یہ مہارت کس طرح حاصل کی۔ لیکن اس کے بجائے وہ خزندوں یعنی(Reptiles)  جیسی بے ڈھنگی مخلوق کی اڑان کے بارے میں خیالی منظر نامے گھڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک عام گھریلو مکھی کی مکمل تخلیق بھی ارتقاءکے ہر دعوے کی تردید کرتی نظر آتی ہے۔ انگریزی ماہرِ حیاتیات رابن ووٹن اپنے ایک مضمون ”مکھی کے پروں کا میکانیکی نقشے“ میں لکھتا ہے:
”اڑنے والے حشروں کے پروں کے طریقہ عمل کو جیسے جیسے بہتر طور پر سمجھا جا رہاہے اتنی ہی ان کے نقشے کی خوبصورتی واضح ہوتی جا رہی ہے۔روایتی طور پر ساخت کم سے کم بدشکلی کا شکار ہوتی ہے اور میکانیکی عمل پرزوں کو توقع کے حساب سے ہلاتا جاتا ہے ۔لیکن اڑنے والے حشروں کے پر دونوں طرح کی صورتحال کو یکجا کردیتے ہیں۔ ان کے اعضاءلچکدار خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ نہایت خوش وضع طریقے سے تشکیل دیئے گئے ہوتے ہیں جس کی بدولت مناسب قوت کے جواب میں وہ تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اور ہوا کا بہترین استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ شاید ہی کوئی اور ساخت ان کا ثانی ہے“۔1
دوسری طرف آج تک ایک بھی فوسل یا رکاز یا حجری حیاتیات ایسا نہیں ملا جو کہ مکھیوں کے خیالی ارتقاءکا ثبوت ہو۔ نامور فرانسیسی ماہرِ حیوانیات پیرگرا سے کہتا ہے کہ ”کیڑے مکوڑوں کی ابتداءکے متعلق ہم آج تک اندھیرے میں ہیں۔“2
رینگنے والے اور ممالیہ جانداروں کے درمیان ساخت کاایک فرق ان کے جبڑوں میں نمایاں فرق ہے۔ ممالیہ جانوروں کا نچلا جبڑا صرف ایک ہڈی پر مشتمل ہوتا ہے جس کے اندر دانت ہوتے ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے نچلے جبڑے کے دونوںطرف تین چھوٹی ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ساخت کا ایک اور فرق یہ ہے کہ تمام ممالیہ جانوروں کے کان کے وسطی حصے میں تین ہڈیاں ہوتی ہیں جبکہ رینگنے والے جانوروں کے کان کے بیچ میں ایک ہی ہڈی ہوتی ہے۔ ارتقاءپسندوں کا دعویٰ ہے کہ رینگنے والے جانوروں کا جبڑا اور وسطی کان ممالیہ جبڑے اور کان سے بدل گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہڈی والا کان تین ہڈی والے کان میں کس طرح تبدیل ہوگیا؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اور یہ بات بھی عقل سے بالاتر ہے کہ ان تمام تبدیلیوں کے دوران سننے کی طاقت پھر بھی کیسے برقراررہی؟ اسی لئے کسی ایک بھی ایسے فوصل کی غیر موجودگی حیرت کی بات نہیں جو کہ رینگنے والے جانوروں اور ممالیہ جانوروں کے مابین رشتے کی نشاندہی کرسکیں ۔اسی لئے ارتقائی سائنسی مصنف راجر لوان کو مجبوراً یہ بات کہنی پڑی کہ: ”پہلے ممالیہ جانور تک منتقلی جو کہ ایک یا زیادہ سے زیادہ دو شجرہ نسبوں میں ہوئی ابھی تک ایک حیران کن واقعہ ہے۔“ 3
جارج گیلارڈ سمسن کا شمار معروف ارتقائی ہستیوں میں ہوتا ہے اور یہ نوڈاروینیت( Neo-Darwinism)کے نظریئے کا ایک بانی بھی ہے۔ ارتقاءپسند اس پریشان کن واقعہ سے جس مشکل کا شکار ہوگئے ہیں اس کے بارے میں وہ کہتا ہے:
”زمین کے اوپر زندگی کی تاریخ کا سب سے حل طلب مسئلہ میسوزوئک دور اور رینگنے والے جانوروں کی دور سے ممالیہ جانوروں کے دور میں منتقلی ہے۔یہ منظر اس طرح ہے کہ جس طرح کسی ایسے اسٹیج پر اچانک پردہ گرادیا جائے جس کے تمام اہم کردار رینگنے والے جانور ہوں بلکہ خاص طور پر وسیع تعداد اور انواع و اقسام کے ڈائناسار ہوں اور پھر اچانک پردہ اٹھادیا جائے اور اسی پس منظر کو نئے کرداروں کے ساتھ پیش کیا جائے جن میں ڈائناسار بالکل موجود نہ ہوں، سارے رینگنے والے جانور خاموش اداکار ہوں اور سارے اہم کردار وہ تمام ممالیہ جانوروں کی انواع و اقسام ہوں جن کا ہلکا سا ذکر بھی ابھی تک ڈرامے میں نہیں کیا گیا تھا۔“4
ارتقاءپسندوں کے مفروضے کے مطابق تمام ممالیہ نسلیں ایک مشترک پرکھا سے وجود میں آئیں۔ لیکن مختلف ممالیہ نسلوں کے درمیان وسیع امتیازات موجود ہیں مثلاً ریچھ، وہیل مچھلی، چوہے اور چمگادڑ۔  نیچے تصویر میں دیا گیا5 لاکھ سال پرانا چمگادڑ کا فوصل جوکہ دورِ حاضر کے چمگادڑ سے عین مشابہ ہے (سائنس، اشاعت 154  )
 یہ جاندار نسل مخصوص نظام کی حامل ہے۔ مثلاً چمگادڑوں کے اندر بہت حساس قسم کا صوتی نظام موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اندھیرے میں بھی با آسانی راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔ جس پیچیدہ نظام کی نقل جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی بمشکل کرسکتی ہے اس کا اتفاقی طور پر وجود میں آجانا ناممکن ہے۔ فوصلی ریکارڈ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ چمگادڑ اپنی حالیہ اور بہترین شکل میں کسی بھی تدریجی ترقی کے مراحل سے گزرے بغیر زمین پر اچانک نمودار ہوئے۔
اس کے علاوہ جب ممالیہ جانور اچانک نمودار ہوئے تو وہ ایک دوسرے سے اس وقت ہی بے انتہا مختلف تھے۔ مثلاً چمگادڑ، گھوڑے، چوہے اور وہیل مچھلیاں تمام ممالیہ جانور ہیں جو کہ ایک ہی ارضیاتی دور(Geological Age) میں نمودار ہوئے۔ ان کے درمیان کسی قسم کا رشتہ تصور کے آخری حد تک جانے سے بھی قائم نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور رسالے ”ایوولوشن“ میں ارتقائی ماہرِ حیوانات ایرک لومبارڈ اس نقطے کو ایک مضمون میں اٹھاتے ہوئے کہتا ہے:
”وہ تمام لوگ جو کہ ممالیہ نسلوں کی نوعی تفریق اور انقسام کو تعمیر کرنے کی نیت سے مخصوص مواد کی تلاش میں ہیں وہ شدید مایوسی کا شکار ہوں گے۔“ 5
حالیہ دور تک گھوڑے کا ارتقاءدکھاتا ہوا ایک ازروئے دعویٰ سلسلے کو نظریہ ارتقاءکے اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتارہا۔ آج کئی ارتقاءپسند خود اپنے منہ سے اس منظر نامے کا دیوالیہ ہوجانا تسلیم کرتے ہیں۔1980ء میں شکاگو کے فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں چار روزہ مجلسی مذاکرہ منعقد کیا گیا جس میں 150 ارتقاءپسندوں نے شرکت کی۔ اس مذاکرے کا مقصد بتدریج ارتقائی نظریئے کو درپیش مسائل کے اوپر بحث تھا۔ اس مذاکرے میں ارتقاءپسند بوئس رینسبرگر نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ گھوڑے کے ارتقاءکے منظرنامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی وجود نہیں ہے اور نہ کوئی ثبوت گھوڑے کی تدریجی ترقی کو ثابت کرنے کے لئے موجود ہے۔6
گھوڑے کی ارتقاءکے اس مقبول مفروضے کے حساب سے چار انگلیوں والی لومڑی نما50  لاکھ سال پرانی مخلوق تدریجی ترقی سے ایک انگلی والے دورِ حاضر کے گھوڑے میں تبدیل ہوگئی۔ یہ مفروضہ آج مکمل طور پر غلط قراردے دیا گیا ہے۔ وسطی نوعیت کے اس سلسلے کی کڑی سمجھے جانےو الے کئی جانداروں کے فوصل مکمل اشکال میں نمودار ہوئے، بغیر کسی تبدیلی کے زمین پر موجود رہے اور پھر معدوم ہوگئے۔
گھوڑے کا ارتقاءدکھاتے ہوئے خاکوں کے بارے میں ڈاکٹر نائلز ایلڈرج کہتا ہے۔ ”زندگی کی تاریخ کے بارے میں لاتعداد کہانیاں سننے میں آتی ہیں جوکہ ایک سے بڑھ کر ایک رنگین تصویروں پر مبنی ہیں۔ ان میں سے سب سے مشہور نمونہ گھوڑے کی ارتقاءپر تشکیل دی گئی  50سال پرانی ایک نمائش ہے جوکہ کئی نصابی کتابوں میں بھی بلامبالغہ موجود ہے۔ میرے خیال سے یہ ایک نہایت قابل افسوس بات ہے۔ خاص طور پر اس لئے کیونکہ ان کہانیوں کو پیش کرنے والے کئی لوگ ان کہانیوں کی قیاس آرائیوں سے خود اچھی طرح واقف ہیں“۔7
تو پھر گھوڑے کے ارتقاءکے منظر نامے کی کیا بنیاد ہے؟ اس منظر نامے کی تشکیل انڈیا، شمالی افریقہ، جنوبی امریکہ اور یورپ میں مختلف دوروں میں رہنے والی معدوم نسلوں کے فوصلوں کی سلسلہ وار ترتیب پر مبنی پرفریب نقشوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ ان مفروضوں کو مزید ہوا ارتقاءپسندوں کے تصورات کی متمول قوت نے دی۔ مختلف تحقیق دانوں نے ایک دوسرے سے مختلف20  کے قریب گھوڑے کی ارتقاءکے اوپر نقشے تیار کئے ہیں جس سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ گھوڑے کے شجرہ نسب کے بارے میں ارتقاءپسند خود بھی آج تک ایک فیصلے پر نہیں پہنچ پائے۔ان تمام ترتیبوں میں واحد مشترک خاصیت یہ یقین ہے کہ ”ایوہپس“ نامی کتا نما حیوان جو کہ 55  لاکھ سال پرانے ایوسین دور میں موجود تھا وہ گھوڑے یا اکس کا  جد امجد ہے۔ لیکن ایوہپس سے اکس تک کی ارتقائی لکیریں نہایت غیر ہموار ہیں۔
ارتقاءپسند سائنسی مصنف گورڈن ٹیلر اس غیر تسلیم شدہ سچائی کا ذکر اپنی کتاب ”داگریٹ ایوولوشن مسٹری“ یا ”ارتقاءکا عظیم بھید“ میں کرتا ہے: ”نظریہ ڈارون کی شاید سب سے توجہ طلب کمزوری ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات(Paleontologist) کا اہم ارتقائی تبدیلیوں کو واضح کرتے ہوئے جانداروں کی قابل یقین ترتیب کو ڈھونڈنے میں ناکامی ہے۔ گھوڑے کو ہمیشہ اس معاملے میں سب سے مفصل طور پر حل شدہ مثال سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایوہپس سے اکس تک کی لکیر بہت ڈانواڈول ہے۔ ازروئے دعویٰ یہ پیمائش میں بتدریج اضافہ دکھاتی ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے بیچ کی کچھ نسلیں ایوہپس سے چھوٹی تھیں، بڑی نہیں۔ مختلف ذرائع سے جمع کئے گئے قابل یقین نمونوں کو ثبوت کے طور پر یکجا کرلینا بہت آسان ہے لیکن یہ ترتیب اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ یہ جاندار نسلیں و اقعی وقت اور تاریخ میں بھی اسی ترتیب سے موجود تھیں“ ۔8
یہ تمام حقائق اس بات کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ گھوڑے کی ارتقاءکے متعلق نظریہ ڈارون کو ثابت کرنے والے تمام نقشے نرالے، پرتخیل اور غیر معقول حکایتوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
ایک عجائب گھر میں موجود گھوڑے کاارتقاءدکھاتی نیچے تصویر میں دی گئی یہ ترتیب کئی جانوروں پر مشتمل ہے جوکہ مختلف اوقات اور مختلف جغرافیائی خطوط میں رہتے تھے۔ انکی ترتیب دھاندلی سے کی گئی ہے تاکہ ایک متعصب ارتقائی نقطہ نظر کو سہارا دیا جاسکے۔ گھوڑے نما ارتقاءکے منظر نامے کا فوصلی ریکارڈ میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ جاندار نسلیں زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالتوں میں بغیر کسی ارتقائی عمل کے نمودار ہوئیں۔ ارتقاءپسند اس حقیقت کی تشریح اپنی مرضی سے ایک خاص ترتیب کے تحت کرکے ارتقاءکا ثبوت پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جاندار نسلیں صرف تخلیق کی ترتیب کے تحت نمودار ہوئیں ،کسی ارتقائی عمل کے ذریعے نہیں۔ بہترین اور بے عیب تخلیق کے ذریعے زمین اور سمندر جانداروں سے بھرگئے اور آخر کار انسان کی نموداری پیش آئی۔ گوریلا نما آدمی کی کہانی کے برخلاف ،جو کہ دنیا کے اوپر شدید اشتہاری مہموں کے ذریعے ٹھونسی جاتی ہے، انسان بھی درحقیقت زمین کے اوپر اچانک اور مکمل حالت میں نمودار ہوا۔

حوالہ جات:
1:Robin J. Wootten, “The Mechanical Design of Insect Wings”, Scientific American, v. 263, Nov.1990, p. 120----1
2:Pierre Grasse, “Evolution of Living Orgnanisms”, New York Academic Press, 1977, p. 30- ---2
3:Roger Lewin, "Bones of Mammals, Ancestors Fleshed Out", Science, vol 212, June 26, 1981, p. 1492.
4:George Gaylord Simpson, Life Before Man, New York: Time-Life Books, 1972, p. 42.
5: R. Eric Lombard, "Review of Evolutionary Principles of the Mammalian Middle Ear, Gerald Fleischer", Evolution, Vol 33, December 1979, p. 1230.
6:Boyce Rensberger, Houston Chronicle, November 5, 1980, p. 15-----1
7:Niles Eldridge, quoted in “Darwin Enigma” by Luther D. Sunderland, Santee, CA, Master Books, 1988, p. 78----2
8:Gordon Rattray Taylor, “The Great Evolution Mystery”, Abacus, Sphere Books, London, 1984, p. 230----3
مکمل تحریر >>

ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)

ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)
///////////////////////////////////////////////////////////////////
سوره نساء - آیت نمبر 78  (أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں  ہوگے موت تمہیں  آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو، اور اگر انہیں کوئی بھلائی  پہنچے توکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ آپ کی طرف سے ہے۔ آپ فرما دیں: سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے
سوره نساء - آیت نمبر 79
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا
جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو وہ تیری اپنی طرف سے ہے ، اور  ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ گواہی میں کافی ہے )
**** سوره نساء کی آیت نمبر 78  میں  الله کہتا ہے کہ برائی یا بھلائی دونوں الله کی طرف سے ہیں اور نعوذ بااللہ الله کی یاداشت اتنی کمزور ہے کہ اس سے بلکل اگلی آیت میں ہی کہتا ہے کہ بھلائی الله کی طرف سے ہے اور برائی انسان کی اپنی وجہ سے ہے ...
اپنے موقف کو تبدیل کرنا ہی تھا  تو کم از کم دو تین سورتوں کا ہی وقفہ ڈال لیتا ...نعوذ بااللہ کیا اللٰہ تعالٰی بھول گیا تھا کہ ایک جگہ کیا بات کی اور دوسری جگہ اسکے مخالف دوسری بات کی۔
///////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ

جواب۔۔۔۔

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ، وبعد، قال تعالی۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے۔
پوسٹ کا سوال ایک بہت ہی معمولی سوال ہے جو کہ تقریباً ہر ملحد پوچھتا ہے۔

یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ دنیا میں جو کُچھ بھی ہو رہا ہے ، اچھائ یا برائ، وہ اللہ کی مشیت سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی مشیت کے بغیر اس دنیا میں ایک پتا بھی ہل جاۓ۔ یا اللہ برائ کو روکنا چاہے مگر نہ روک سکے۔ مگر اللہ نے انسانوں کو اچھائ کا حکم دیا اور برائ سے منع کیا ، اور وہ اچھائ سے خوش ہوتا ہے کفر سے نہیں۔ اللہ نے راہ بتا کر انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ چاہے وہ نیک اعمال کرے چاہے بد۔ اس کو اس پر اختیار ہے۔ اس کا ظلم کرنا اللہ کا حکم اور ارادہ نہیں بلکہ اس کی وہ مشیت ہے جس پر اس نے اس کو اختیار کی مہلت دی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مغالطہ  “خدا کی مشیت و ارادے” اور “خدا کے حکم و رضا” میں فرق نا کرسکنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  جب کہا جاتا ہے کہ “سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے” تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز خدا کی مشیت و ارادے کے تابع ہے، اچھائی ہو یا برائی ان میں سے ہر دو اپنی اثر  پزیری کیلئے خدا کے ارادے، مشیت و اذن ہی کی محتاج ہے، خود سے مؤثر نہیں۔

مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘اچھائی اللہ کی طرف سے نیز برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ تو اسکا معنی بھی یہی ہوتا ھے کہ اللہ نے اچھائی کا حکم دیا ہے اور وہ اس پر راضی ھے لیکن برائی کرنے کا اسنے حکم نہیں اور نہ ہی وہ اس پر راضی ھے۔ چنانچہ ‘اچھائی خدا کی طرف سے ھے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا کے حکم و رضا کے تحت ہے اور ‘برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا نے تمہیں اسکے کرنے کا حکم نہیں دیا لہذا یہ تمہارے اپنے نفس کی پسند ھے۔

اب برائی اللہ کے ارادے و مشیت سے اثر پزیر تو ھے مگر اس کے کسب  میں اسکا حکم اور رضا شامل نہیں اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال لیتے ہیں۔ ایک سپر سٹور کا تصور کریں جہاں ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کھڑا اپنے بچے کو ھر شے کا فائدہ اور نقصان سمجھا رھا ھے۔ پھر اپنے بچے کو اچھی طرح بتا دیتا ھے کہ فلاں فلاں چیز کے انتخاب میں میں راضی ھونگا اور فلاں فلاں میں میں ناراض ھوجاؤں گا، لہذا تم پہلی قسم کی چیز کا انتخاب کرنا اور دوسری سے بچنا۔ پھر وہ بچے کو انتخاب کا حق دے دیتا ھے۔ اب بچہ سپر سٹور میں چاھے جس بھی شے کا انتخاب کرلے ان معنی میں باپ کے ارادے و مشیت سے ھے کہ انتخاب کا یہ اختیار بذات خود باپ ہی نے دیا ھے اور اگر باپ اسے یہ اختیار نہ دے تو بچہ اچھے یا برے میں سے کسی بھی شے کی چاہت نہیں کرسکتا (ماتشاءون الا ان یشاء اللہ کا یہی مفہوم ہے)۔ اگر بچہ وہ شے پسند کرے جس کا باپ نے حکم دیا اور جس پر وہ راضی ھے تو اب اس انتخاب میں باپ کے ارادے و مشیت کے علاوہ اسکی رضا و حکم بھی شامل ھوگیا اور اگر ایسی چیز کا انتخاب کیا جس سے باپ نے منع کیا تھا تو اس انتخاب میں اگرچہ باپ کا ارادہ و مشیت تو لامحالہ شامل حال ھوگی مگر اسکی رضا اور حکم نہیں۔
من جانب۔۔بنیامین مہر
مکمل تحریر >>

ایک ملحد کا اعتراض ۔ گائے کا ذبیح اور توہین رسالت

ایک ملحد کا اعتراض
 گائے کا ذبیح اور توہین رسالت
ہندوؤں کے لیے گائے کے ذبیحہ کی وہی حیثیت ہے جو مسلمانوں کے نزدیک توہین رسالت کی -
دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے - ایک قوم  کے ایک مذہبی نظریے کے تقدس کی تضحیک -
تو پھر آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ صرف آپ کے مذہبی نظریے کے تقدس کی حرمت کا خیال رکھا جاے اور دوسری قوم کے لیے اگر ایک چیز کا تقدس وہی ہے جو آپ کے لیے اپنے نبی(صلی اللٰہ علیہ وسلم )کا تو اسے اپنی مذہبی رسومات کا نام دے کر اسکو پامال کرتے رہیں -
///////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ

جواب۔۔۔۔

زندہ گائے کے پیٹ میں اوزار مارکر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکال کر اسے کھولتے پانی میں ابال کر اس کا چمڑا نکالا جاتا ہے جسے کف لیدر کہا جاتا ہے جو بھاری قیمت میں امریکہ بھیجا جاتا ہے اس کاروبار میں پورے ہندوستان میں ایک بھی مسلمان شریک نہیں ہے لیکن اس چمڑے سے وابستہ تقریبا 20لاکھ لوگ ہیں جن کی روزی روٹی کا واحد زریعہ یہ پیشہ ہے اور اسی کاروبار سے ان ہندوؤں کو 20 لاکھ بلین ڈالر کی سالانہ انکم حاصل ہوتی ہے ۔۔۔
گندہ ہے پر دھندا ہے یہ ۔
گائے ماتا کے پجاری کیا ایسا نہیں کرسکتے ۔۔؟؟
ارے بھائی کیوں نہیں لکشمی (دولت ) کی پوجا بھی تو کوئی پوجا ہے جس سے پیٹ پوجا ہوتی ہے اور جہاں پیٹ پوجا کا سوال ہو وہاں بہت ساری پوجائیں پتلی گلی سے نکل لیتی ہیں ۔۔
اتنا ہی نہیں گائے ماتا کے پجاری حضرات کی ناک کے نیچے سے گائے کی چربی سے لذت دار اور سواد بھرے بناسپتی گھی بنائے جاتے ہیں ۔۔۔
گائے کی کھلے عام ہتیا کرکے صابن اور گھی بنانے کے کارخانے کسی مسلمانوں نے نہیں بنائے بلکہ ہندوؤں کے سب سے اعلی طبقہ برہمن کے قائم کئے ہوئے ہیں ۔۔
اس لئے عید قربان کی آمد کے پیش نظر گائے کی ہتیا اور قتل خانے( مذبح یا سلاٹر ہاؤس ) کی مخالفت میں جو احتجاج پورے ہندوستان کے کونے کونے میں ہندو مذہبی تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ صرف سیاسی ڈرامے بازیاں ہیں اس سے زیادہ ان کے اندر کوئی مذہبی جذبہ یا عقیدے کے تقدس کا عنصر شامل نہیں ۔۔۔
اصل میں گائے کو ماتا کہنا ہی اصل پاکھنڈ (گناہ ) ہے برہمن طبقہ شروع سے ہی بھکشک رہا ہے برہمن گائے ہی نہیں انسان سے لے کر سبھی جانوروں کی بلی چڑھا کر ان کا مانس کھاتے رہے ہیں اس لئے نیپال کے برہمن آج بھی بڑی شان کے ساتھ گائے کی بلی چڑھاتے ہیں ۔۔
کٹھمانڈو (نیپال کی راجدھانی) میں واقع کالی ماتا مندر میں پہلے تو گائے کی پوجا ہوتی ہے پھر اسکے بعد گائے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور جیسے ہی گائے سر ہلاتی ہے تیز دھار والی چھری سے گائے کی گردن پر مندر کا بروھت اس طرح وار کرتا ہے کہ خون کا فوارہ کالی ماتا کے چرنوں میں جا گرتا ہے ۔۔
تڑپتی گائے کا خون کئی ایک مورتیوں کو چڑھایا جاتا ہے گائے کی گردن کو پجاری پجاری خود لے کر جاتا ہے اور چمڑا اتارکر گائے کا گوشت دیوی کے بھگتوں کو پرساد کے طور پر دیا جاتا ہے جسے وہ اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو عقیدت کے ساتھ تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔۔۔
برہمن ہی نہیں غیر برہمن غیر مسلم بھی گائے کا گوشت بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں ۔۔
اس لئے جو بات اب تک ہمیں سمجھ لگی ہے کہ ہندو قوم کو اب گائے کو اپنی ماتا کہنا چھوڑدینا چاہئے آخر میں ہم جاتے جاتے گائے کو اپنی ماں کہنے والوں کی خدمت میں دس سوال رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
1- گائے کو ماتا آپ کیسے کہ سکتے ہیں جس کا جنم آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کیا ماں کا جنم بیٹے کے سامنے ہوتا ہے ۔۔
2- اگر گائے اپ کی ماتا جیسی ہے تو اس ماں کی ناک میں نکیل کیوں ڈالتے ہو۔۔
3- اسے کھونٹے میں کیوں باندھتے ہو ۔
4- گائے کو ڈنڈے کیوں مارتے ہو۔۔
5- کچھ لوگوں کو چھوڑدیا جائے تو مسلمان گائے نہیں پالتا ہندو لوگ ہی گائے کو قصائی خانوں تک پہنچانے کا جوکھم بھرا کام سر انجام دیتے ہیں بیرون ممالک گائے کے گوشت ایکسپورٹ کرتے ہیں کیا کوئی اپنی ماں کے گوشت کو بیچ سکتا ہے۔۔
6- گائے اگر آپ کی مان ہے تو آپ کی اصلی ماں اس کی بہن لگے گی اور اس لحاظ سے اصولا گائے کا بیٹا اپ کا بھائی بننا چاہئے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جاتی ہے سب گائے کو ماں کہتے ہیں اور آگے پیچھے کی رشتہ داریوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ہوا میں اڑادیتے ہیں ۔۔۔
7- بھینس اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کو ماں کا مقدس خظاب کیوں نہیں دیا جاتا صرف گائے کو ہی یہ شرف کیوں حاصل ہے جب انسانوں میں کوئی بھید بھاؤ نہیں جانورون میں یہ امتیازی سلوک اور تفریق کیوں ۔۔؟
8- سائنس کے مطابق گائے کا گوشت پوتر اور واٹامن و لحمیات سے بھر پور ہے تو کیا وہ ہندو جو سائنس اور گیان یعنی سرسوتی پوجا کے قائل ہیں سرسوتی پوجا کے لئے گائے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے ۔۔۔
9- رگ وید نامی ہندو کتاب کے اندر بھی گائے کی بلی چڑھانے کا ذکر و حکم موجود ہے اسے ہندو پنڈت کیوں عام لوگوں سے چھپاتے ہیں کیا گائے کو ماتا قرار دینے میں پنڈتون کا کوئی ذاتی مفاد چھپا ہے۔۔
10- پھر ہندو انسان ہی گائے ماتا کو حامل کروانے کے لئے سانڈ کے پاس لے جاتا ہے اور دونوں کے کاما سوتر(ملن ) کو اپنی گنہ گار آنکھوں سے دیکھتا ہے کیا کوئی اپنی ماں کو اس طرح غیر در پر لے جاتا ہے اور کیا سانڈ گائے کا پتی اس کا باپ کہلانے کا حق دار ہے ۔۔۔؟؟
زرا سوچئے کیاوجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان اور نیپال اور سری لنکا میں بسی ہندو برادری ان حقائق سے غافل ہے کیا وجہ ہے کہ ہندو دھرم کے اندر گائے کے گوشت کھانے حوالہ جات کو دہرئے اور ملحد اور کامریڈ سامنے نہیں لاتے۔

جو رسولﷺ کی گستاخی کرتا ہے اس کامقصد ہی گستاخی کرنا ہوتا ہے۔نہ گساخی کی اس کے علاوہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔رسولﷺ پر بات کہیں سے بھی کی جائے بات مذہب پر آہی جائے گئ جبکہ گائے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا ۔مزیدد اسلامی کا مقصد توہین ہوتا ت اونٹ کی اصٖل قرار نہ دیتا  قربانى ميں سب سے افضل اونٹ اور پھر گائے اور پھر بكرا اور پھر اونٹ يا گائے ميں حصہ ڈالنا ہے، امام شافعى اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، كيونكہ جمعہ كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص نماز جمعہ كے ليے پہلے وقت گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو شخص دوسرے وقت ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو شخص تيسرے وقت گيا گويا كہ اس نے سينگوں والا مينڈھا قربان كيا، اور جو شخص چوتھے وقت گيا گويا كہ اس نے مرغى قربان كى، اور جو شخص پانچويں وقت گيا گويا كہ اس نے انڈے كى قربانى كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 881 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 850)   شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " احكام الاضحيۃ " ميں كہتے ہيں:

" قربانى ميں سب سے افضل اونٹ ہے، اور پھرگائے اگر مكمل جانور ايك شخص ذبح كرے تو افضل ہے، پھر اس كے بعد بكرا، اور پھر اونٹ كا حصہ، اور پھر گائے كا حصہ " انتہى.۔اور یہ سوال صرف مسلمانوں سے ہی کیوں ؟ کیا دوسرے مذہب والے گائے نہیں کھاتے۔
چوہے کی ہندو بڑی تعظیم کرتے ہیں اب کیا چوہے مار دوائی بھی نہ لائیں؟ کیا انڈیا میں چوہے مار دوائی نہیں بنتی؟ یہ گستاخی کے بہانے ہیں.  اب خوراک تو کھانے کے لیے ہوتا ہے تو اسے کیا کھائیں نہ؟  چوہے مار دوائی بھی کیا لائیں نہ؟ اسلام میں جس طرح گالی دینا منع ہے ویسے ہی یہ بھی گالی نہ دیں.  کیا یہ لوگ شرک کرکے اللہ کی گستاخی نہیں کرتے؟  ہم نے آزادی دی ہے نا؟  تو بس یہ ایسا کریں کہ ہمیں گائے کھانے کی بھی آزادی دیں. جس طرح ہم ان کے باطل معبودوں کو گالی نہیں دیتے یہ ہمارے سچے معبود اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی نہ دیں.
گائے کے ہندوؤں کے لئیے مقدس هونے کا دعویٰ اس طور تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے اپنا ایک بھگوان مانتے ہیں اور ان کی طرف سے  اسے زبح کرنا اس کی توہین میں بھی شمار کیا جاسکتا ہے کہ کہا جائے کہ ہندوؤں کے نزدیک گائے کا ذبح کرنا اس کی توہین میں داخل هے..
تو یہ تو ان کا مذہب اور عقیدہ ہوا لیکن ایک مسلمان کی جانب سے گائے کے زبح کو اس کی توہین کیوں سمجھا جانا ضروری ہے؟ مسلمانوں کے لئیے تو یہ دوسرے حلال جانوروں کی مانند ہے جن کو زبح کر کے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے. ..
مسلمان اگر اس کو زبح کرتے ہیں تو اس لئیے کہ وہ اسے دوسرے جانوروں کی طرح سمجھتے ہیں جن سے گوشت حاصل کیا جاتا ہے. ..
ہندوؤں نے اگر ایک ایسے معاملے کو جس میں قانون اور عقل کسی تقدس کی بات نہیں کرتے اپنے غیر فطری اور عقلی عقائد کی بنا پر توہین کا مسئلہ بنا رکھا ہے تو اس میں مسلمانوں کا کیا قصور؟
انسانی لاش کو ہی لے لیں کہ اس کی تقدیس کی عقل بھی گواہی دیتی ہے اور اس کو جلانا بھی عقلاً اس کی توہین ہے لیکن ہندو مذہب میں لاش جلانے کا عمل کسی توہین میں داخل نہیں سمجھا جاتا...
توہین اور تقدیس کی بات اگر عقل سے ہٹ کر ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنے والے کی اپنی ذات کے لئیے حجت ہوگی دوسرے سے اس کا مطالبہ اس کے عقل و عقیدے کی توہین کہلائے گا...
گائے کی توہین کی نوعیت توہین رسالت سے مختلف ہے
توہین کے لیے تخصیص چاہیے اور گائے کی تخصیص خلاف عقل ہے جبکہ رسالت کی تخصیص سے ہر شخص واقف ہے
اس کو یوں سمجھیے کہ توہین کے لیے ایسا معیار ہونا چاہیے جو سب کے نزدیک مسلم ہو
توہین کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں کہ جس کے معیار کا تعین کرنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہو
ہر شخص توہین سے واقف ہے
پوری دنیا میں گائے سمیت کسی بھی جانور کے ذبح کو کسی کی توہین خیال نہیں کیا جاتا بلکہ کسی کو وہم تک نہیں ہوتا کہ کسی مذہب کی توہین ہورہی ہے
اس کے بر عکس رسول اللہ کے لیے نازیبا الفاظ کے استعمال کا توہین ہونا ہر شخص کو تسلیم ہے
تو دونوں کی نوعیت ایک کیسے ہوسکتی ہے؟؟ 
پھر آپ دیکھیے کہ دنیا کے ہر مذہب میں انسان کو سب سے مقدس مخلوق سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود کسی ایک انسان کے قتل کو کسی بھی مذہب کی توہین نہیں سمجھاجاتا
ہم مسلمان انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے مانتے ہیں کہ رسول اللہ انسان بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے
اسلام میں انسان کا تقدس گائے جیسے ہزاروں جانوروں سے زیادہ ہے
اس کے باوجود کبھی بھی کسی انسان کے قتل کو مذہب کی توہین کا رنگ نہیں دیا گیا
البتہ مذہبی توہین کا سوال تب پیدا ہوتا جب کسی خاص گائے کو قتل کیا جاتا جسے ہندو مقدس مان کر پوجا کرتے جیسے مقدس شخصیات کی توہین مذہبی توہین کہلاتی ہے
سکھوں کے گرونانک عیسائیوں کے مسیح یہودیوں کے موسی اور مسلمانوں کے آقا کی توہین مذہبی کہلائے گی
اس لیے کہ یہ عام انسان نہیں ان سے مذہب وابستہ ہے
اسی طرح خاص گائے کا ذبح جو بطور معبود معلوم ہو کی توہین مذہبی توہین کہلائے گی

اگر عمومیت کے ساتھ گائے کے ذبح کو توہین قرار دینا درست ہو تو کیا کاغذ کو قران کی نسبت سے مقدس ماننے کی وجہ سے پوری دنیا میں اس کا نامناسب استعمال توہین قرار پائے گا؟؟ 

یا فرض کیجیے گائے کی طرح دیگر جانور بھی مذہبی تقدیس کا رنگ اپنا لیتے ہیں تو کیا ہر جانور کے ذبح کو مذہبی توہین کے زمرے میں ڈالا جانا معقول ہوگا؟؟ 

مشرکین تو عام پتھروں کو بھی مقدس مانتے تھے تو کیا کسی بھی پتھر سے ٹائلٹ بنانا مذہبی توہین ہے؟؟
جواب منجانب۔۔۔محترم محمد طلحہ ایر،سہیل احمد،محمد عفان علی مغل،محمد طاہر رضا
مکمل تحریر >>

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟ قرآن پر ملحدین کے ایک گروپ جسے ہم جرات جرات تضحیک کہتے ہیں،کے ایک گھٹیا اور جھوٹ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب:

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟
قرآن پر ملحدین کے ایک گروپ جسے ہم جرات جرات تضحیک کہتے ہیں،کے ایک  گھٹیا اور جھوٹ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب:

قرآن پاک کی حفاظت پر ملحدین و مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ قرآن کی تینتیسویں سورت یعنی سورہ احزاب کی آیات کی تعداد بھی ہے۔قرآن مجید کے موجودہ اور تمام تاریخی نسخوں میں اس سورت کی آیات کی تعداد تہتر ہے  لیکن کچھروایات اسکے برعکس بیان کرتی ہیں۔اس پر روایات احادیث کے کئ مجموعوں جیسا کہ احمد،حاکم،بیہقی،ابن حبان،نسائ میں موجود ہیں۔اسکے علاوہ یہ ابن کثیر،قرطبی، اور کنز العمال میں بھی موجود ہے۔سورہ احزاب کی کچھ آیات کے ضائع ہونے کی روایت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی جاتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔مسند احمد میں اس روایت کا بیان درج ذیل ہے
عن عاصم بن بهدلة عن زر قال قال لي أبي بن كعب : كأين تقرأ سورة الأحزاب أو كأين تعدها قال قلت له ثلاثا وسبعين آية فقال قط لقد رأيتها وإنها لتعادل سورة البقرة ولقد قرأنا فيها الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالا من الله والله عليم حكيم
           ترجمہ:
عاصم بن بھدلہ سے روایت ہے،انہوں نے زر سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم سورہ احزاب کتنی تلاوت کرتے ہو یا اس کی کتنی آیات پڑھتے ہو۔زر نے کہا کہ تہتر آیات۔ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فر مایا کہ صرف اتنا۔میں نے دیکھا کہ یہ سورہ،سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی کہ جب بھی کوئ بوڑھا مرد یا عورت زنا کریں انہیں رجم یعنی سنگسار کرو۔یہ اللٰہ تعالٰی کی طرف سے سزا ہے(مسند احمد،حدیث نمبر 21245)
اوپر مذکور باقی مجموعوں میں بھی یہ روایت تقریبا  اسی طرح آئ ہے۔کچھ مجموعوں میں ہمیں کچھ اہم الفاظ ملتے ہیں۔اب ہم اس روایت کی صحت اور اس کے مستند ہونے کا جائزہ لیتے ہیں۔
   کچھ محدثین نے اس کی تصدیق کی ہے اور کچھ نے اس کو ناقابل اعتماد اور ضعیف قرار دیا ہے اور ظاہر میں یہ لگتا ہے کہ یہ روایت مستند ہے اور یہ کئ سلسلوں سے مروی ہے کیونکہ یہ بہت سے مجموعوں میں موجود ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔آئیے اسکی تفصیل کا جائزہ لیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے صرف ایک شخص زر روایت کررہا ہے۔یہ بات اس روایت کو مشکوک بنا رہی ہے۔اگر نعوذ بااللہ قرآن تبدیل ہوگیا تھا تو اتنی بڑی یہ روایت اور واقعہ صرف ایک شخص روایت کررہا ہے یا نعوذ بااللہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کی اس تبدیلی پر اتنی خاموشی اختیار فرمائ کہ صرف ایک شخص سے اس کا تذکرہ کیا۔جب کہ ایک صحابی قرآن میں کمی یا تبدیلی پر کیسے خاموش رہ سکتاہے اور دوسرا یہ کہ اگر خاموش نہیں رہے،اس پر آواز اٹھائ تو کیا صرف ایک شخص کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا؟ایسا نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ زر سے دو بندے روایت کر رہے ہیں۔ایک عاصم بن بھدلہ اور دوسرا یزید بن ابی زیاد۔اور ان کے بعد  بہت لوگ ان دو سے روایت کر رہے ہیں۔لیکن جن محدثین نے اس روایت کوناقابل اعتماد یعنی ضعیف قرار دیا ہے،انہوں نے ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔دیکھئے شیخ شعیب ارنات کی عادل مرشد اور سعید الحام کے ساتھ کی گئی مسند احمد کی تقسیم بندی،الرسالہ پبلشرز بیروت 1999،جلد پینتیس صفحہ 134
یزید بن ابی زیاد کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے کیونکہ اس روایت میں موجود یزید بن ابی زیاد کمزور اور ناقابل اعتبار راوی ہے۔اور عاصم کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ عاصم بن ابی بھدلہ اگر قابل اعتماد مان بھی لیا جائے تو بھی اس روایت پر اسلیے یقین نہیں کیا جاسکتا کہ عاصم یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے غفلت کا شکار رہتا تھا۔اس لیے اکیلے عاصم کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
اس طرح شیخ عبدالسمیع عبدالباری الصیغ نے مسند احمد میں دو صحابہ یعنی جابر بن سمرہ اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کی وضاحت اور تحقیق میں بھی ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔یزید  بن ابی زیاد کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت یزید بن ابی زیاد کی اس روایت میں موجودگی کی وجہ سے ضعیف ہے اور عاصم بن بھدلہ کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت عاصم بن بھدلہ کی یادداشت کی کمزوری اور غافل رہنے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔اس تصنیف کا اصل ٹائٹل  Marwiyat al-Sahabayn Jalilayn Jabir bin Samrah wa Ubayy bin Ka’b fi Musnad al-Imam Ahmad’ published by Ummul Qura University, 1988 vol. 1 ہے۔
یہاں تک کہ قدیم علماء و محدثین نے بھی اس روایت کے قابل اعتماد ہونے پر شک کا اظہار کیا ہے۔حافظ نورالدین ہیثمی(المتوفی یعنی وفات 807 ہجری)اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں موجود عاصم بن ابی النجود ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے(موارد الزمان،حدیث 1756)۔
اسی طرح شہاب الدین احمد البوصیری(المتوفی یعنی وفات 840 ہجری)بھی اپنی تصنیف Ithaf al-Khira al-Mihra میں اس روایت کو الطیالسی،ابن حبان اور احمد بن مونی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت کا انحصار عاصم بن ابی النجود پر ہے اور وہ ناقابل اعتبار یا ضعیف راوی ہے۔
اس طرح یہ روایت کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔
اس طرح کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کی جاتی ہے الاتقان میں لیکن یہ بھی انتہائ ضعیف ہے کیونکہ اس کی روایت میں ابن ابی لیحیہ ہے جو انتہائ ناقابل اعتبار ہے۔مزید اس روایت میں رجم یا سنگسار کرنے کی آیت کا کوئ حوالہ نہیں جو کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے اور یہ بات اسے اور ناقابل اعتبار قرار دیتی ہے۔See al-Ittiqan with research by the committee of Markaz Dirasat al-Qur’ania section 47 pub. Saudi Ministry of Islamic publications p.1456
کنزالعمال میں اس طرح کی روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے جس کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کی گئ ہے اس میں بھی آیت رجم یعنی زانی کو سنگسار کرنے کی آیت کا بیان ہے  لیکن اس کا پورا سلسلہ نہیں معلوم اور اس طرح یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔
اس طرح یہ ساری بحث ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایات  نا قابل اعتماد ہیں ا ور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تو صرف ایک ہی راوی ہے جو اس روایت کو مزید نا قابل اعتماد بنا دیتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے تدوین قرآن کے لیے بنائ گئ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی بارہ رکنی کمیٹی کا حصہ تھے۔اگر ایسی کوئ تبدیلی یا کمی نعوذ بااللہ کسی بھی آیت یا سورت کے حوالے سے قرآن پاک میں ہوتی تو وہ لازمی اس پر انگلی اٹھاتے اور اگر وہ نہیں تو باقی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم لازمی اٹھاتے جنہوں نے نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پاک سنا اور یاد کیا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔لہذا یہ روایات اپنے راویوں اور قرآن کی کچھ آیات کے نسخ یعنی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے منسوخ قرار دیے جانے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔اور ملحد گروپ جرات تحقیق جسے ہم جرات تضحیک کہتے ہیں کا قرآن پر اسکے نامکمل ہونے کا اعتراض جھوٹ،دھوکا بازی،دجل اور فریب پر مبنی ہے اور سورہ احزاب سمیت پورا قرآن سو فیصد محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ انسانوں کے خالق نے لے رکھا ہے۔اور آخر میں ملحدین کے نام ایک شعر
   جن کے افکار ہوں محض شکوک و شبہات پہ مبنی
ان کو حقیقت ابہام ملے،مذہب اسلام ملے

حوالہ۔۔

http://www.letmeturnthetables.com/2011/01/ahzab-verses-lost-abrogated-or.html?m=1
ترجمہ۔۔ڈاکٹر احید حسن

https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1036026323170429
مکمل تحریر >>

اسلام نے اتنی جنگیں کیوں لڑیں؟دنیا سے تصادم کیوں اسلام کی مجبوری بنا؟ملحدین کے اسلام پر جنگجو مذہب ہونے کے اعتراض کا جواب

اسلام نے اتنی جنگیں کیوں لڑیں؟دنیا سے تصادم کیوں اسلام کی مجبوری بنا؟ملحدین کے اسلام پر جنگجو مذہب ہونے کے اعتراض کا جواب

سلام جن حالات میں دنیا میں آیا وہ سب جانتے ہیں۔ روئے زمین کے اکثر حصے پر دو بڑی طاقتوں قیصروکسری ٰکاراج تھا۔ ہند کا علاقہ مستقل مذہب کا پیرو کار تھا۔ چین کی طاقتور سلطنت بھی قائم تھی اور جس علاقے میں اسلام کا ظہور ہوا وہ ایک جنگجو ، ضدی اور ہٹ دھرم قوم کی آماجگاہ تھا جو بتوں کو پوجتے تھے۔ ایسے میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی اور اس دعوت کے ساتھ عرب کے طاقتور قبائل کا جو رویہ رہا وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ حتی کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ ایسے میں قرآن بار بار یہ ذمہ داری، عہد اور مقصد یاد دلا رہا ہے کہ یہ دین دنیا میں صرف مظلومیت کی داستانیں رقم کرنے نہیں بلکہ تمام باطل ادیان پر غالب ہونے آیا ہے۔ تیرہ سال کی جان توڑ محنت اور مشقت سے ثابت ہوگیا کہ اس نہج پر چلتے ہوئے غلبہ کا مقصد پور انہیں ہوسکتا۔ توآخر اس مقصد کے حصول کا ذریعہ کیا ہوگا؟ بالکل ظاہر سی بات ہے وہ ذریعہ تصادم ہی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے مخالف نظام اور ادیان کی طاقت توڑی جائے، انہیں دبا دیا جائے، مغلوب کیا جائے تاکہ اسلام کو غلبہ اور بلندی مل جائے۔ صحابہ کرام کو روزِ اول سے بعثت اسلام کے اس مقصد کا علم تھا اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے پر بھی کامل یقین تھا کہ ایسا ضرور ہوگا لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ تصادم کے فطری طریقے پر عمل پیرا ہوئے بغیر اس کا حصول اسباب کے تحت ممکن نہیں۔ اس لئے قرآن خود بتاتا ہے کہ جب تصادم کا حکم بلکہ اجازت بھی نہ تھی حضرات صحابہ کرام اس وقت اللہ تعالیٰ سے اس کی اجازت مانگا کرتے تھے لیکن وہ اجازت بعض مصالح اور حکمتوں کی تکمیل تک مؤخر رکھی گئی(ملاحظہ فرمائیں سورۃنساء آیت۷۷)۔ جب اس کا مقدر وقت آن پہنچا اور حکم نازل ہو گیا تو غلبۂ اسلام کے دور کا بھی آغاز ہو گیا اور چند ہی سالوں میں پورا عرب اسلام کے پرچم تلے آگیا۔ وہ قریش جو بات سننے پر آمادہ نہ تھے، دعوت کے جواب میں گالیاں دیتے اور تشدد کرتے تھے، جو اسلام کے سامنے نہ جھکنے کی اور اسے مٹا دینے کی قسمیں کھاتے تھے تصادم کے وقت اتنے کمزور پڑے کہ ایک ایک دن میں ہزاروں کی تعداد میں حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور وہ بھی منت سماجت کرکے اور جان کی امان مانگ کر۔ اسی طرح اسلام کی دعوت جب اس دور کی بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ تک پہنچائی گئی تو ان کا رد عمل بھی قریشِ مکہ سے مختلف نہ تھابلکہ کسری ملعون نے تو نبی اکرم ﷺ کا نامہ مبارک چاک کرکے اپنی بدبختی کا سامان کیا۔ طاقت، حکومت اور دولت کے نشے میں چور چور ان معاندین کو اسلام کی جو ابتدائی دعوت دی گئی اس میں بھی تصادم کا یہ پیغام واضح طور پر موجود تھا۔ شاہانِ عجم کو بھیجے گئے ان مراسلات میں ایک مضمون مشترک تھا ’’اَسْلِم تَسْلَمْ‘‘ (اسلام قبول کرلو سلامتی پائو گے) مفہوم ِ مخالف ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ اگر اسلام قبول نہ کیا اور اس نظامِ نو کے آگے سر نہ جھکایا جو غالب ہونے کے لئے آیا ہے تو پھر تمہارے لئے سلامتی نہیں۔ سیدھے طور پر یہ تصادم کا پیغام ہے۔ ایسے بادشاہ جن کی سلطنتوں کی حدیں کرۂ ارض کو گھیرے میں لئے ہوئے ہوں، جن کی عسکری طاقت کے ہر طرف ڈنکے ہوں، جن کی معیشت مضبوط ہو، جو سپر پاور ہونے کے مدعی ہوں انہیں بڑھ کر سلامتی سے محروم کرنے کی دھمکی دے دینا اور یہ کہہ دینا کہ اپنے پرانے دین اور نظام کو یکسر ترک کرکے یہ نیا نظام اور دین اپنا لو ورنہ تمہارے لئے کوئی سلامتی نہیں۔ اس مضمون میں اگر کسی کو تصادم کا پیغام نظر نہیں آتا تو اسے کیا کہا جاسکتا ہے۔ شاہ عمّان کے نام والہ نامہ میں تو صاف الفاظ میں ہے۔ ’’اگر اسلام کا اقرار کرلو تو تم کو تمہارے ملک پر بدستور باقی رکھیں گے ورنہ سمجھ لو کہ تمہاری سلطنت عنقریب زائل ہونے والی ہے اور میرے سوا ر تمہارے گھر کے صحن تک پہنچیں گے‘‘۔ اسلام کی دعوت نہ ماننے والوں کے گھر تک اسلام کے سوار کیوں پہنچیں گے یہ بات وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے تھے جنہیں لکھا گیا تھا۔ سمجھتے تو لوگ آج بھی ہیں حتی کہ وہ لوگ بھی جو تصادم کے منکر ہیں مگر زبان سے کہتے کچھ اور ہیں کیونکہ انہیں تنخواہ اسی کی ملتی ہے۔

اس پوری بات پر یہ شبہ نہ ہو کہ مطلق تصادم کی اوّلیت کا دعویٰ کیا جارہا ہے اور زبانی دعوت کا انکار ہو رہا ہے۔ دعوتِ اسلام کا جو شرعی اسلوب ہے اس میں اوّلیت زبانی دعوت کو ہی حاصل ہے (بشرطیکہ معاملہ اقدام کا ہو دفاع کا نہیں) ہم عرض یہ کر رہے ہیں کہ محض زبانی دعوت اس مقصد کے مکمل حصول کے لئے کافی نہیں ہو سکتی تھی نہ عقلاً نہ فطرتاً، اس لئے تصادم کا بروئے کار لانا لازم تھا۔ اسی بات کے پیشِ نظر حضرات صحابہ کرام نے اس کی اجازت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم نازل فرمایا۔ اس بات پر کسی کا اصرار نہیں کہ جہاں بغیر تصادم کے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہو وہاں بھی ضرور لڑا جائے بلکہ ایسی لڑائی تو حرام ہو جاتی ہے۔

لیکن جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بغیر لڑے ایسا ممکن بلکہ واقع ہے ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ تاریخ کا کوئی دور ایسا دکھائیں جس میں مسلمان غیر مسلح، بغیر تصادم کی دھمکی دئیے دعوت دیتے گئے ہوں اور کفریہ طاقتیں اپنے پرچم سرنگوں کرکے دامنِ اسلام میں پناہ لیتی گئی ہوں۔ اگر ایسا کہیں واقع ہوا ہے تو وہ پیش کریں تاکہ اسے مثال بنا کر مسلمان اس کا اتباع کریں اور بغیر جانیں لٹائے اس بنیادی مقصد کا حصول ممکن بنائیں۔ کم از کم جتنی اسلامی تاریخ لکھی جا چکی ہے اس میں تو ایسا کہیں نہیں ۔ ممکن ہے منکرینِ جہاد نے جس طرح قرآن و حدیث کی جدید تشریحات گھڑ کے سلف کی تفاسیر کو غیر معتبر اور دورِ حاضر کے تقاضوں کے خلاف قرار دے دیا ہے اسی طرح دورِ ماضی میں لکھی گئی تاریخ کو بھی غلط قرار دے کر نئی تاریخ لکھیں اور اس کے بَل پر اپنا یہ دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں اگر اُن مہربانوں کی بات مان لی جائے جو آج کل امت کو بڑے دردِ شکم کے ساتھ یہ دعوت دینے میں مشغول ہیں کہ راہِ نجات اب صحابہ کرام کے راستے میں نہیں بنی اسرائیل کے راستے میں تلاش کرنی چاہیے (تاکہ جو کچھ بنی اسرائیل نے پایا مسلمان بھی وہ پالیں) تو پھر نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

بات کسی اور جانب نہ نکل جائے ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر بتا دیا کہ دین غلبے کے لئے زمین پر آیا ہے اور زمین پر ایسی مزاحمتی قوتیں ہمہ وقت موجود ہیں جو لازمی طور پر غلبے کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی تو یقینی بات ہے کہ اس دین کا غلبہ ان طاقتوں کی بربادی اور تخریب پر موقوف رہے گا اور ان طاقتوں کو تباہ کرنے کے لئے ان سے ٹکرائو فطری امر ہے ۔ اب جو لوگ تصادم کے اس فطری عمل کے مخالف ہیں وہ در حقیقت غلبہ اسلام کے بنیادی مقصد سے مسلمانوں کو ہٹا رہے ہیں اور اس کے راستے کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ تو فیصلہ آپ خود کریں یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں یا بدترین دشمن؟؟
جہاد کی اجازت دی گئی لیکن ساتھ میں کچھ اصول بھی بتادیے گئے جو کہ مختصر  درج ذیل ہیں
عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
غیرمسلح لوگوں پر وار نہیں کیا جائے گا۔
درختوں کو کاٹا نہیں جائے گا۔
شک کی بناء پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
اگر کوئی کافر جنگ کے دوران موت کے خوف کی وجہ سے کلمہ پڑھ لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اسلام جنگ و جدل کا نہیں بلکہ امن و اصلاح کا دین ہے۔ احادیث میں تو یہاں تک تاکید ملتی ہے کہ اگر کوئی کافر سر پر لٹکتی تلوار دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کے قتل سے ہاتھ روک لینا ضروری ہے۔

حتی الوسع اور بغیر شدید جنگی ضرورت کے دشمن کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ تعمیر بہر حال تخریب سے اچھی ہے ۔ ہاں البتہ اگر وہ املاک دشمن کے لئے فخر و غرور یا کفر و ظلم کا باعث ہو رہی ہوں اور یہ فخر و غروراور یہ کفر و ظلم اس شدت کا ہو کہ بغیر ان املاک کے ضائع کئے اس کاٹوٹنا محال ہو تو پھر ان املاک کو ضائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسا تو فقط نہایت سنگین حالات اور شدید جذبہء دینی ہی کی صورت میں ہو سکتا ہے اور چونکہ اس کا معیار مقرر کرنا مشکل ہے اس لئے آنحضورﷺ نے اور آپ ﷺ کے بعدحضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی مسلمان لشکروں کو دشمن کی املاک کوضائع کرنے سے منع فرمایا اوریہی طریق کار بعد میں آنے والے خلفائے راشدہؓ کے دور میں رہا البتہ ایسی چیزیں جن کو مسلمان خود استعمال نہ کر سکتے ہوں اور یہ ڈر ہو کہ وہ دشمن کے لئے جنگی تقویت کا باعث ہوں گی تو ان کے ضائع کر دینے میں ہرج نہیں۔ جنگ خیبر میں صلح ہو جانے کے بعد جب اسلامی فوج کے بعض نئے رنگروٹ بے قابو ہو گئے اور انہوں نے غارت گری شروع کر دی تو یہودیوں کا سردار رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور کرخت لہجہ میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے بولا ۔ اے محمد ؑ ! کیا تم کو زیبا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کرو ہمارے پھل کھا جاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو ؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فورا ابن عوفؓ کوحکم دیا کہ لشکر میں اجتمعو اللصلوۃ کی منادی کریں ۔ جب تمام اہل لشکر جمع ہو گئے تو حضور ﷺ کھڑ ے ہوئے اور فرمایا ۔ ’’ کیا تم میں سے کوئی شخص تخت غرور پر بیٹھا یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ نے سوائے ان چیزوں کے جو قران حکیم میں حرام کی گئی ہیں کوئی اور چیز حرام نہیں کی۔ خدا کی قسم !میں جو کچھ تم کو نصیحت کرتا ہوں اور جو امر و نہی کے احکا م دیتا ہوں وہ بھی قران کی طرح یا اس سے زیادہ ہیں ۔ اللہ نے تمہارے لئے یہ جائز نہیں کیا ہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت گھس جاؤ ۔ ان کی عورتوں کو مارو پیٹو اور ان کے پھل کھا جاؤ حالانکہ ان پر جو کچھ واجب تھا وہ تمہیں دے چکے ‘‘۔ ایک دفعہ سفر جہاد میں کچھ لوگوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ان کا گوشت پکا کر کھانا چاہا ۔آپ ﷺکو خبر ہوئی تو دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ۔ ’’لوٹ کھسوٹ کا مال مردار سے بہتر نہیں ‘‘۔ فوجوں کی پیش قدمی کے وقت فصلوں کو خراب کرنا ، کھیتوں کو تباہ کرنا ، بستیوں میں قتل عام کرنا اور آتش زنی کرنا، جنگ کے معمولات میں سے ہے مگر اسلام کی رو سے یہ سب کچھ فساد میں شامل ہے اور سختی کے ساتھ اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’ جب وہ حاکم بنتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرے مگراللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‘‘ ( البقرۃ ۲۵ ) بلکہ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ’’ راستے میں دودھ دینے والے جانور مل جائیں تو ان کا دودھ دوہ کر پینا بھی جائز نہیں تاوقتیکہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لی جائے ‘‘۔ البتہ ضرورت کے وقت اس قدر اجازت دی گئی ہے کہ با آواز بلند تین مرتبہ پکارو تاکہ اگر کوئی مالک ہو تو آ جائے اور جب کوئی نہ آئے تو پی لو ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے شام و عراق کی جانب فوجیں بھیجتے ہوئے جو ہدایات دی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا اور فصلوں کو خراب نہ کرنا ۔ اسلام دنیا میں آسودگی ، آسانی اور فارغ البالی دیکھنا چاہتا ہے ۔ دنیا کوتباہی اور بربادی کی حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ دنیا کی تعمیر بہر حال دنیا کی زبوں حالی سے بہتر ہے ۔ اسی اصول کے ماتحت جنگ میں بھی مال و منال اور فصل و نسل کی تباہی سے حتی الوسع گریز و اجتناب کا سبق دیاگیا ہے۔ کوئی بھی مفید چیز اس وقت تک تباہ نہ کی جائے جب تک کہ کسی دینی ، اخلاقی ، سماجی یا جنگی مصلحت کا تقاضا نہ ہو ۔ بنو نضیر کے محاصرے کے دوران بعض مسلمانوں نے کھجور کی ایک ادنی قسم کے درختوں کو اکھیڑنا شروع کیا تو بنو نضیر ( جو ایک یہودی قبیلہ تھا ) نے آنحضور ﷺ کو کہلا بھیجاکہ آپ ﷺ کا مذہب یہ اجازت دیتا ہے کہ درختوں کو کاٹا جائے تو اس پر آنحضور ﷺ اور مسلمان متفکر ہوئے مگر اللہ نے وحی کے ذریعے فرمادیا کہ جو لینہ (معمولی کھجور) کے درخت تم نے کاٹے وہ اللہ کے اذن سے تھا یعنی کاٹنے والوں کے سامنے جنگی مصلحت تھی لیکن اس کے بعد اس عمل کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
 ٭…٭…٭
جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری (hegemony and expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے۔

اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اﷲ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔
(اسلام کے) اس نظریہ کے مطابق چونکہ جنگ کا اصلی مقصد حریفِ مقابل کو ہلاک کرنا اور نقصان پہنچانا نہیں بلکہ محض اس کے شر کو دفع کرنا ہے۔ اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی قوت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفع شر کے لیے ناگزیر ہو۔ اور اس قوت کا استعمال صرف انہی طبقوں کے خلاف ہونا چاہیے جو عملاً‌ برسر پیکار ہوں یا حد سے حد جن سے شر کا اندیشہ ہو۔ باقی تمام انسانی طبقات کو جنگ کے اثرات سے محفوظ رہنا چاہیے، اور دشمن کی ان چیزوں تک بھی ہنگامۂ کارزار کو متجاوز نہ ہونا چاہیے جن کا اس کی جنگی قوت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

جنگ کا یہ تصور ان تصورات سے مختلف تھا جو عام طور پر غیر مسلم دماغوں میں موجود تھے۔ اس لیے اسلام نے تمام رائج الوقت الفاظ اور اصطلاحات کو چھوڑ کر ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی الگ اصطلاح وضع کی جو اپنے معنٰی موضوع لہ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے اور وحشیانہ جنگ کے تصورات سے اس کو بالکل جدا کر دیتی ہے .... اس پاکیزہ تصور کے ماتحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطۂ قانون وضع کیا جس میں جنگ کے آداب، اس کے اخلاقی حدود، محاربین کے حقوق و فرائض، مقاتلین اور غیر مقاتلین کا امتیاز اور ہر ایک کے حقوق، معاہدین کے حقوق، سفراء اور اسیرانِ جنگ کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ ہر ایک کے لیے قواعد کلیہ اور حسب ضرورت جزئی احکام مقرر کیے۔ اور اس کے ساتھ داعی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے نظائر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بھی چھوڑا تاکہ قانون پر عملدرآمد کرنے اور قواعد کلیہ کو احوال جزئیہ پر منطبق کرنے کا طریقہ واضح ہو جائے۔

لیکن اس قانون سازی کا مدعا صرف اتنا نہ تھا کہ کاغذ پر ایک ضابطۂ قوانین آجائے، بلکہ اصلی مقصود یہ تھا کہ عملی خرابیوں کی اصلاح کی جائے اور جنگ کے وحشیانہ طریقوں کو مٹا کر اس مہذب قانون کو رائج کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس غلط تصور کو دلوں سے محو کرنے کی ضرورت تھی جو صدیوں سے جما ہوا تھا۔ لوگوں کی عقلیں یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ جب مال و دولت کے لیے جنگ نہ کی جائے، ملک و زمین کے لیے نہ کی جائے، شہرت و ناموری کے لیے نہ کی جائے، حمیت و عصبیت کے لیے نہ کی جائے، تو پھر (وہ ایسی) جنگ کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جس کو انسان کی خود غرضی اور نفسانیت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ لہٰذا داعیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلا کام یہی کیا کہ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی اور وہ حدود جو اسے جہاد فی سبیل الطاغوت سے ممتاز کرتے ہیں، پوری طرح واضح کر دیے۔
اس طرح اسلام نے جنگ کی اجازت صرف درج ذیل صورتوں میں دی۔
سب سے پہلے دعوت اسلام ہے۔
نہ ماننے پر جزیہ طلب کیا جائے گا ۔وہ اپنے علاقوں کے خود حکمران رہیں گے
جزیہ بھی نہ دینے پر جنگ کی جائے گی
لیکن جو صلح پر مائل ہوگا اس سے صلح کی جائے گی۔
اور جب کوئ کافر اسلام اور امن  کے راستے میں رکاوٹ بنے یا اپنے ملک یا علاقوں میں اسلامی عبادات کی آزادی سلب کرے یا وہاں مقیم مسلم آبادی پر ظلم کرے یا اسلامی علاقوں پر حملہ آور ہو اور ان سب مظالم کے بعد گزارش اور تنبیہ کے باوجود اس عمل سے باز نہ آئے تو تب اس سے جنگ کی جائے گی۔لہذا اسلام کی اپنے غلبے کی یہ جنگ ان لوگوں کے خلاف ہے جہنوں نے نہ صرف اسلام کی تعلیمات کا کھلم کھلا انکار کیا بلکہ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنے تو اس صورت میں دنیا کو کفر کے غلبے اور بدامنی سے روکنے کے لیے اس کی اجازت دی گئی۔جو یہ جنگ دین کی نیت سے کرے گا یہ جنگ جہاد کہلائے گی اور جو یہ جنگ ملک گیری اور اپنی سلطنت کی وسعت کی نیت سے کرے گا تب یہ جہاد نہیں کہلائے گی۔
تدوین  و ترتیب۔۔ڈاکٹر احید حسن
مکمل تحریر >>

اسلام اور ریاست غامدی فلسفہ کا محاسبہ

اسلام اور ریاست غامدی فلسفہ کا محاسبہ

اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ۔ایک چھوٹے رکن سے لے کر ایک بڑے رکن تک سب کی اصولی بحث اسلام نے بیان کی ہے ۔وضو غسل ، مباشرت سے لیکر تجہیز و تدفین میں استعمال کیے جانے والے کفن کے کپڑوں تک سب کچھ بیان کیا ہے ۔بھلا ایسا دین ایک حکومت کے لئے کیوں کوئی لائحہ عمل نہ دے سکا یہ سوچنے کی بات ہے ۔اسلامی حکومت ایک اصولی حکومت کی عکاسی کرتی ہے جس میں جم غفیر کو جمع کرنا مقصود نہیں بلکہ اللہ کے قانون کی پاسداری کرنے والے ایک خلیفہ کی ضرورت ہے ۔غامدی صاحب جمہوریت کو اسلام بنانے پہ تلے ہیں جب کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ریاست کو کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن ایک جمہوری ریاست کا مذہب کیسے اسلام ہو سکتا ہے؟؟ اس کو مسلمان بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو محترم جمہوریت کو مسلمان بنانے کی تگ و دو کیوں کی جارہی ہے ۔حالیہ دنوں میں غامدی صاحب نے اسلام اور ریاست کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں دلائل تو نہ دئے لیکن صرف اپنا نقطہ نظر الفاظ کے ہیر پھیر میں بیان کیا ۔چند پہلو بہت ہی اچھے تھے لیکن جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں یہ کالم ان کا محاسبہ ہے ۔غامدی صاحب جمہوریت پہ فداء ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو اپنا حاکم چننے کا حق حاصل ہے یہاں جس قوم یا امت جس کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے نیک وبدلوگوں سے بھری ہوئی ہے ۔کردارکے اعتبار سے جتنی قسمیں کافر قوموں میں پائی جاتی ہیں ، اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والوں سے لیکر رشوت، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسری تمام اخلاقی برائیوں میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہیں۔ پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کےلئے جو تدبیریں کفار کرتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ مسلمان امراءدولت پاکر، یا ایک مسلمان عہدہ دار حکومت پاکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو غیر مسلم کرتا ہےبلکہ اس سے بھی بدتر ۔ یہ اخلاقی حالت جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کرکے ایک منظم گلہ (جمہوریت ) بنا دینا اور سیاسی تربیت سے ان کو لومڑی کی ہشیاری سکھانا، یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیئے کی درندگی پیدا کردینا جنگل کی فرما ں روائی حاصل کرنے کےلئے تو مفید ہوسکتا ہے ، مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلآء کلمہ اللہ کس طرح ہوسکتا ہے۔
یہ غامدی صاحب کی وہ جمہوریت ہے جس پہ وہ فداء ہیں ۔بھلا غامدی صاحب کا کردار حکومت میں ایک گلی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے والے کے برابر کرنا جہالت ہی ہوگی. لیکن ان سب کے حقوق یکساں ہیں اور یہی اسلام کی تعلیمات ہیں ۔یہ اسلامی نظام ایک ایسی دعوت تھی جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت لیڈر کے ایسا لائحہ عمل دیا جس میں قبیلوں سے رنگ و نسل سے بڑھ کر انصاف کا بول بالا ہو اور یہی وجہ تھی کہ یہ دعوت حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ ، روم کے صہیب رضی اللہ عنہ ،فارس کے سلمان کو اپنی طرف کھینچ لائی اور یہی اسلامی حکومت کا نظریہ ہے ۔اس میں اسلامی نظام اور منظم گلہ یعنی جمہوریت کا فرق واضح کرنا مقصود تھا ۔اسلام میں حاکمیت اللہ کی اور قانون بھی اللہ کا ہے جب کہ جمہوریت میں حاکمیت بھی عوام کی قانون بھی عوام کا۔اور غامدی صاحب نے برملا کہا ہے کہ اسلام کی کسی قانون کی واجب الاطاعت حیثیت اس وقت ہوگی جب عوام کے نمائندوں کی اکثریت اس قبول کرے گی ۔بھلا اگر عوام کے نمائندوں کی اکثریت اللہ کے قانون کو بھی منسوخ کر سکتی ہے ایک مسلمان کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اسلام اور جمہوریت کا کوئی واسطہ نہیں ۔اب غامدی صاحب کے چند اعتراضات کا جواب یہ ہے ۔
غامدی صاحب کے بقول آج کی انتہا پسندی اور جرم کی ذمہ دار مدارس کے لوگ ہیں ۔ محترم ہم یہ نہیں کہتے مدارس مقدس گائے ہیں ہمارے لئے یقینا کچھ لوگ اس میں مجرم ضرور ہین لیکن تمام مدارس اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔کیا آج یہ بات واضح نہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنانے کے لئے میں چارلی ہوں مہم کا حصہ بننے والے ممالک کی وجہ سے ہم عیسائیت پہ الزام دے سکتے ہیں ہرگز نہیں اسی طرح کس بھی شعبہ ہائے زندگی کے چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے تمام کو ایک جیسا کہنا بددیانتی اور تعصب ہوگا.
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تو اصلاً فرد کے لیے ہے لہذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے .یا اس کو کسی قرار داد کے ذریعے مسلمان بنانے کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن اسی کالم میں جہاد کے جیسے اہم موضوع پہ محترم نے کہا کہ اس کے احکام دراصل ریاست کے لیے ہی ہیں یعنی اجتماعیت کے لیے اس کا فردا حکم نہیں ہے تو غامدی صاحب یہاں تضاد کیوں؟ ؟؟ .جبکہ اسلام کی تعلیم ہے "کنتم خیرامہ "مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہاگیا ہے کہ تمام امتوں میں سے تم بہترین امت ہو اور تمہارا کام نیکی حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے یہاں پر اجتماعیت ہی مراد ہے نہ کہ فرد.
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے جبکہ آگے چل کر وہ خود ہی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی حدیث بیان کی جس کا مفہوم ہے کہ خروج بدترین جرم ہے اس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے۔غامدی صاحب سے سوال ہے کہ اگر اسلام میں اجتماعی نظام کو کوئی تصور نہیں ہے اور خلافت بھی کوئی دینی اصطلاح نہیں ہےتو پھر خروج جس کو غامدی صاحب بدترین جرم کہہ رہے ہیں وہ کیا ہے؟خروج کسے کہتے ہیں؟اور خروج کیا کس کے خلاف جاتا ہے؟افراد کے خلاف یا پھر اجتماعی نظام ِ سیاست یعنی خلافت یا اسلامی حکومت کے خلاف؟یا پھر کفار کے سرداروں کے خلاف؟جن کے خلاف اللہ نے سب سے پہلے قتال کرنے کا حکم دیا ہے،"فقاتلو آئمۃ الکفر"جس حدیث کا سہارا لے کر غامدی صاحب خروج کو بدترین جرم قرار دے رہے ہیں اس حدیث سے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت کا تصور اور انتشار سے منع کیا ہے۔اس حدیث کو بیان کرے غامدی صاحب خود ہی اپنے الفاظ کی زد میں آگئے ہیں
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کو قومیت نہ سمجھا جائے. یعنی یہ نہ کہا جائے کہ ہم سب مسلمان ایک قوم ہیں. غامدی صاحب سے ہم پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورت التوبہ کی آیت 14 میں فرمایا ہے کہ ویشفِ صدورا قوم مومنین یعنی یہاں مومنین کی اللہ تعالیٰ نے ایک قوم بیان کی ہے،اس کے علاوہ قوم موسیٰ،قوم نوح،قوم ہود یہ سب اسی قرآن مقدس میں مذکور ہیں جس قرآن میں غامدی صاحب کو اسلام کی بنیاد پر قومیت نظر ہی نہیں آئی۔ قرآن میں مسلمانوں کو "امہ"کہاگیا ہے جس کا ایک معنی قوم بھی بنتا ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں جو اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں اگر وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرتے ہیں جسے عالم یا علماء صحیح نہیں سمجھتے اس کو گمراہی قراردیاجاسکتا ہے غیر مسلم یا کافر نہیں قراردیاجاسکتا،کیونکہ اس کے حاملین بھی قرآن سے استدلال کررہے ہیں۔غامدی صاحب عالم یا علماء کا غلط کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا،اصل قرآن وحدیث ہی ہے ۔آپ نے قرآن سے استدلال کی بنیاد پر ان کو مسلم ہی سمجھا جبکہ قادیانی بھی قرآن میں لفظی ومعانی تحریف کرکے مرزا قادیانی کو نبی ثابت کرتے ہیں،کیا ان کو بھی کافر نہیں کہاجائے گا؟شاید اسی وجہ سے آپ کو مسلمانوں کی اجتماعیت سے اتنا اختلاف ہے۔غامدی صاحب آگے کہتے ہیں کہ شرکیہ اور کفریہ کام کرنے والوں کو صرف تنبہ کی جاسکتی ہے،وہ اس تنبہ سے باز آئیں یا نہ آئیں ان کی تکفیر یعنی ان کو کافر نہیں قراردیاجاسکتا۔ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا ہے آپ کو تو یقیناً اس پر بھی اختلاف ہوگا؟پھر قادیانیوں کو مسلمان ثابت کرنے پر بھی کچھ لکھیں،تاکہ لوگوں پر آپ کی حقیقت بالکل واضح ہوسکے۔اگر کفر اور شرک کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا جائز ہی نہیں ہے تو پھر جس حدیث کو آپ نے بیان کرکے خوارج کی موت کو جاہلیت کی موت کہا ہے،انہیں جاہلیت کی موت مرنے والے خوارج کے بارے نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ خوارج دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے ،اور یہی وجہ ان کی جاہلیت کی موت پرمرنے کی ہے کہ وہ ملت سے خارج ہوجائیں گے۔اس کی وہ اجتماعیت سے دوری ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ" شرک کفر اور ارتداد یقیناً سنگین جرائم ہیں،لیکن ان کی سزا اللہ دے گا انسان نہیں، سزا اس وقت تک نہیں دی جاسکتی جب تک وحی آئے یا اللہ کا رسول آئے،اور ہرشخص جانتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد اس کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بندہوچکا ہے"
۔غامدی صاحب نبی ﷺ نے مسلمان کے قتل کو کفرکہا ہے اس کفر کی سزا دنیا میں کیوں ہے؟اور آپ خود قتل کی سزا قتل کہتے ہیں۔یہ بھی کفر ہے تو اس کی سزا دنیاو آخرت میں اللہ ہی دے گا جیسا کہ آپ کا موقف ہے۔اگر کفر کرنے والے کےلیے یہ سزا ہوسکتی ہے تو ارتداد کرنے والے کےلیے کیوں نہیں؟ غامدی صاحب کفر اور ارتداد دو الگ الگ چیزیں ہیں۔اور اسلام نے ان کے بارے الگ الگ احکام بیان کئے ہیں۔لیکن آپ ان کو اکھٹا کررہے ہیں،جو کہ آپ کی "علمی قابلیت"کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ویسے اگر اسلام کی بیان کردہ ارتداد کی سزا کا آپ انکار کرتے ہیں تو پھر وہ تمام احکام جن پر اسلام میں سزائیں مقررکی گئی ہیں،مثلاً چوری،زنا،قتل،بغاوت وغیرہ جن پر اسلامی نہ سہی خود ساختہ سزائیں تو دنیا کا ہرمعاشرہ دیتا ہے،اگر ارتداد جیسے بڑے جرم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں ہی دے دنیامیں کسی کو دینے کا حق نہیں ہے تو پھر اس سے چھوٹے جرائم کی سزائیں دینا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟غامدی صاحب فلسفوں کی دنیا سے نکل کردیکھے. نبی ﷺ نے فرمایا:جو دین بدل دے اس کو قتل کردو(بخاری)ابو بکر صدیق کا منکرین ِزکواۃ کے خلاف قتال اس کو کیا کہیں گے.
غامدی صاحب کے مضمون کے جواب میں اہل علم مولانا ابتسام الہی ظہیر اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے دے دیا ہے. میں نے یہ کچھ چیدہ چیدہ نکات کا جواب لکھا تھا. لیکن اب علمی شخصیات کی طرف سے جواب پر خوشی ہوئی. اسی لیے مختصر رد پیش خدمت ہے
آپ کا مسلمان بھائی
سوئے مقتل
مکمل تحریر >>

ملحدین کا اعتراض کہ اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا کیا اور شیطان ساری برائ کی جڑ ہے۔لہذا نعوذ بااللہ شیطان کو پیدا کرکے اللٰہ تعالٰی نے دنیا کی سب برائ کو پیدا کیا اور اس اعتراض کا جواب

ملحدین کا اعتراض کہ اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا کیا اور شیطان ساری برائ کی جڑ ہے۔لہذا نعوذ بااللہ شیطان کو پیدا کرکے اللٰہ تعالٰی نے دنیا کی سب برائ کو پیدا کیا اور اس اعتراض کا جواب
(Problem Of Evil And Its Solution)
انسان اور جنات دو مخلوقات ہیں جو اپنے ہر عمل میں آزاد ہیں۔عمل کی یہی ازادی ہے جو انسان و جنات کو دی گئ ہے۔شیطان عیسائیوں کے نزدیک فرشتہ ہے لیکن ہم اسے جن مانتے ہیں۔خود قرآن نے کہا کہ وہ جنات میں سے تھا۔جب وہ تھا ہی ایسی مخلوقات میں سے جو اپنے ہر عمل میں آزاد پیدا ک گئ ان کو سمجھ بوجھ دی گئی طاعت و عبادت کا سارا راستہ بتادیا گیا۔جس پر وہ شیطان کافی عرصہ قائم بھی رہا۔اور خود اسی خدا کی عطا کردہ آزادی کا غلط استعمال کر کے اس نے اپنے آپ کو شیطان کہلوایا اور ساری دنیا کی برائ کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قصور خدا کا ہوا جس نے انسان و جنات کی شخصی آزادی برقرار رکھی یا اس شیطان کا جس نے اس آزادی کا غلط استعمال کیا اور دنیا کی سب برائ پیدا کرنے کی وجہ بنا؟
کیا یہ بات خالق و مالک و رحیم کہلوانے والے رب کو زیب دیتی تھی کہ کائنات کی ہر مخلوق کو کٹھ پتلی بناتا زبردستی ان سے عبادت کراتا۔ان کی مرضی و رضا سلب کر لیتا؟
قرآن وحدیث  کی تعلیمات پر چلنے والے سب مسلمان شیطان کو مخلوقات مینی میں سے مانتے ہیں۔قرآن نے کہا کہ شیطان جنات میں سے ہے اور جنات مخلوقات میں شمار ہوتے ہیں۔
مخلوق کا مطلب ہے خالق کی پید کردہ چیز۔ کائنات کی ہر چیز خالق کی پیدا کردہ ہے اور پیدا کی گئ چیز مخلوقات کہلاتی ہیں اور کچھ نہیں۔
شعور و فکر و سمجھ بوجھ یہ صلاحیت جنات میں بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف بھی پیغمبر بھیجے گئے۔
برائ خالق سے نہیں ہے۔شیطان سے ہے۔خالق نے برائ نام کی کوئ چیز پیدا نہیں کی۔شیطان کی طرف سے اپنی آزادی کے غلط استعمال سے برائ کا جنم ہے۔شیطان خالق نے برا پیدا نہیں کیا تھا۔وہ شروع میں نیک تھا۔فرشتوں کے ساتھ عبادات میں تھا۔بعد میں آدم کے حسد اور خالق کی آزادی کے غلط استعمال سے خود بھی برا ہوااور دنیا کی سب برائ کی وجہ بنا۔پھر کوئ  کیسے کہ سکتا ہے کہ یہ برائ خالق نے پیدا کی۔
برائ کا خالق خدا ہوتا تو شیطان شروع ہی سے برا ہوتا جب کہ وہ پہلے نیک تھا۔اپنی آزادی و حسدکے غلط استعمال سے برا ہوا۔اب اس کی برائ کو خدا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
آزادی و حسد اس نے اپنی آزادی کے حق کا غلط استعمال کر کے لی۔اگر خدا انسان و جنات کو آزادی نہ دیتا تو پھر  دوسرا اعتراض ہوتا کہ ہم کو کٹھ پتلی کیوں بنایا۔
اور خدا کو یہ بات نہیں زیب دیتی کہ زبردستی سب سے عبادت کرائے۔اسے یہ بات زیب دیتی تھی کہ کچھ مخلوقات اپنی فہم و عقل سے اسے پہچانیں۔اس مقصد کے لیے انہیں عقل آزادی و رہنمائی فراہم کر دی گئی۔جس کا استعمال کچھ لوگ ٹھیک کرتے ہیں اور کچھ غلط۔اس کی مثال ایسی ہے جیسا کالج کا پروفیسر لیکچر کے بعد چھٹی دے دیتا ہے۔اور کہ دیتا ہے کہ ایک سال بعد امتحان ہوگا۔اب کچھ اس آزادی کا غلط استعمال کر کے ناکام ہوں گے اور کچھ ٹھیک استمعال کر کے کامیاب۔اور جو ناکام ہونے والا اس آزادی و ناکامی کا ذمہ دار کالج کو کہے گا احمق کہلائے گا۔
پھر آپ کی طرح کی کوئ مخلوق اعتراض کرتی کہ کٹھ پتلی بنا کے رکھا عزت نفس چھین لی زبردستی کی عبادت کرا رہا ہے۔کیا اس آزادی کے نہ دینے سے خداوندی پر ہونے والے اعتراضات ختم ہوجاتے؟نہیں تو پھر جب اعتراضات ختم ہی نہیں ہونے تو خدا کائنات کا خالق آپ کے اعتراض کو دیکھے یا اپنی رضا کو۔وہ جو کرے تو انسان  کون ہیں اس کے کام میں ٹانگ اڑانے والے۔
شیطان سمیت ہر وہ چیز جو اللٰہ تعالٰی نے پیدا کی شروع میں اچھی تھی اور اس میں برائ شیطان کی بغاوت اور انسان کے اعمال سے بعد میں پیدا ہوئ۔اپنی ان ساری برائیوں کا ذمہ دار اس خدا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس نے کائنات کی ہر چیز کو اچھی فطرت پر پیدا کیا اور پھر اسے اچھا رکھنے اور اچھا رہنے کی ذمہ داری انسان کو سونپ دی اور انسان کو اس ہدائت و گمراہی دونوں راستے بتا کر عمل میں آزاد کر دیا۔اب  انسان کی اپنی طرف سے پیدا کردہ برائ اور اس آزادی کے غلط استعمال کی ذمہ داری اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اور اس طرح شیطان کی بغاوت و برائ کی ذمہ داری بھی اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے انتخاب میں آزاد تھا اور اس نے بغاوت کا راستہ چنا۔فخر،حسد،بے اطمینانی اور احساس برتری شیطان میں ہیدا ہوچکے تھے۔اس نے اللٰہ تعالٰی سے بغاوت کر کے گویا اللٰہ تعالٰی سے اس کا مرتبہ خداوندی چھیننے کی کوشش کی لیکن خود راندہ درگاہ ہوا۔
اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اللٰہ تعالٰی سب انسانوں سے اپنی عبادت چاہتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت محض عبادت نہیں۔یہ کسی بھی انسان کے لشکر رحمانی یا لشکر شیطانی میں شامل ہونے کا معیار ہے۔جو بھی اس عبادت سے انکار کرے گا لشکر شیطان کا رکن کہلائے گا کیونکہ شیطان نت بھی سجدے سے انکار کیا تھااور جو اسے پورا کرے گا لشکر رحمانی کا رکن کہلائے گا۔
یہ آزادئ انتخاب در حقیقت خدا کی انسان سے محبت اور انسان کی عزت نفس برقرار رکھنے کی ایک علامت ہے۔اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو انسان کس طرح کائنات میں خدا کا خلیفہ کہلاتاجو اپنی طرف سے سوا عبادت کے کچھ بھی نہ کر سکتا ہو۔اس طرح اس آزادی سے انسان کو محض اللٰہ تعالٰی کا بندہ نہیں بلکہ اللٰہ تعالٰی کے دوست اور نائب کا رتبہ دیا گیا۔
جنات و انسان کو دی گئی یہی آزادی تھی کہ شیطان کی بغاوت پر شیطان کو اور آدم و حوا علیہ السلام کی غلطی پر آدم و حوا علیہ السلام کو فنا نہیں کر دیا گیا۔بلکہ ان کی آزادی برقرار رکھ کر انہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا موقع فراہم کیا گیا اور ان پر حجت تمام کر دی گئی تاکہ بعد میں ملنے والی جزا و سزا پر وہ یہ نہ کہ سکیں کہ انہیں اصلاح کا موقع کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ خالق کی  طرف سے خالق کے نظام کے ہر باغی کو اصلاح کا موقع دیا جاتا ہے اور وقتا فوقتا اس پر آزمائش ڈال کر اسے تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرے ورنہ اس سے بڑی مصیبت آسکتی ہے۔جو اس تنبیہ پر اپنی اصلاح  کر لیتا ہے ٹھیک ورنہ مہلت ختم ہوتے ہی اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے یا اس کا انجام قبر و قیامت تک کے لیے موخر کر دیا جاتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ مذہب خوف کی علامت ہے۔خوف دلا کر اللٰہ تعالٰی کی عبادت کرائ جاتی ہے۔اگر مذہب خوف کی علامت ہوتا تو شیطان کو اس کی بغاوت کے وقت اور آدم و حوا علیہ السلام کو ان کی غلطی کے وقت عبرت کا نشان بنا دیا جاتا لیکن  نہیں۔صرف انجام بتا دیا گیا اور اعمال کی آزادی دے دی گئی۔اس آزادی کے ساتھ اگر جزا و سزا کا تصور نہ دیا جاتا تو آزادی رکھنے والی مخلوق خالق کی زمین کو فساد سے بھر ڈالتی۔لہذا انسان کو پابندی سے آزاد کر کے ایک ایسی عبادت کی تلقین کی گئی جس کی بنیاد اللٰہ تعالٰی کی محبت،عشق،جنون اور فرمانبرداری پر ہے۔کوئ بھی بھی فرمانبرداری جس کی بنیاد کسی دوسری چیز پر ہو قابل قدر نہ ہوگی۔
  مزید برآں خالق نے شیطان کو آزادی اس لیے بھی دی کیونکہ اس نے خالق کے نظام کائنات کو چیلنج کیا جس کے مقابلے میں خالق نے بھی اپنا نظام کائنات و عمل نافذ کرنے کا اعلان کیا۔اگر فوری بغاوت پر شیطان کو مار دیا جاتا تو اس کے چیلینج کے مقابلے میں خالق کے نظام معافی و جزا و سزا کا نفاذ کس طرح ہوتا۔پھر نعوذ بااللہ خدا اس چیلنج میں ناکام ہوتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح خدا کی اچھائی کے مقابلے میں شیطان نے جس بغاوت و دھوکے کی راہ ہمورا کی اسی دن سے ہی اس نے خدا کی اچھائی کے مقابلے میں برائ کی بنیاد رکھ دی اور برائ کا سربراہ قرار پایا۔اس طرح اس برائ کی جڑ شیطان کی بغاوت تھی خالق کی ذات نہیں۔اللٰہ تعالٰی خود جرم نہیں کرتا لیکن وہ آزادئ عمل کے قانون کے تحت اس برائ کا ذمہ دار بھی نہیں قرار پاتا۔
مزید برآں اس برائ کے مقابلے میں خالق کی طرف سے معافی و درگزر خالق کی اس رحمانی صفت کا اظہار ہے جو وہ اپنی مخلوق کے لیے رکھتا ہے۔لیکن شیطان آج تک خالق کا مقابلہ کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھائی پر غالب ہے اور اس اچھائی و برائ کی جنگ کا آغاز خالق نے نہیں بلکہ شیطان کی خالق کے ایک حکم سے بغاوت نے کیا۔
اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس جن کو پیدا کیا جو اپنی آزادی عمل کا غلط استعمال کر کے شیطان بن گیا اور اس میں خالق کا کوئ قصور نہیں۔خالق نے شیطان کے اندر برائ کا مادہ رکھ کر اسے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ اس کا اپنا انتخاب و عمل تھا جس نے اس شیطان کو یہ کرنے پر مجبور کیا۔
تحریر۔ڈاکٹر احید حسن
مکمل تحریر >>

Friday 21 December 2018

ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر

ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر

مسلم ممالک پر ملحد سوویت یونین کی یلغاراور عبرت ناک ظلم اور سفاکی
.....................................
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ!
[اسلام کو مٹانے کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں باطل اور شیطانی قوتیں اپنی طاقت اور اپنے حربے آزماتی آئی ہیں۔ ماضی قریب میں سوویت یونین کے نام سے روس نے اسلام کے علمی و فقہی مراکز بخارا و سمرقند وغیرہ پر جس طرح یلغار کی اور وہاں سے اسلام اور شعائر اسلام کا نام و نشان تک مٹا دیا، یہ داستان عبرت ناک بھی ہے اور درد ناک بھی۔حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب (یہ تیرے پراسرار بندے)میں تفصیل کے ساتھ یہ لہو رنگ داستان بیان کی ہے اور روسیوں کے طریقہ واردات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ماضی کے پرانے اوراق سے اسے نکال کر سنّی مسلمانوں کی خدمت میں اسے پیش کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے ماضی کے آئینے میں اپنے حال کا چہرہ دیکھیں، عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی چال کو درست کریں۔ ایک ایسی تحریر جسے ایک بار نہیں، بار بار پڑھنا، اور اس کی ایک ایک سطر پر رک کر اپنی قومی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔]
روسی کمیونسٹ ان تمام علاقوں پر بھیڑیے بن کر ٹوٹ پڑے تھے اور ۱۹۲۰ء میں خیوا اور بخارا پر بھی قابض ہوگئے تھے۔ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت اور دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی، ان تمام مسلم ممالک کا رسم الخط فارسی؍ عربی تھا، اس پر پابندی لگا کر روسی رسم الخط مسلط کردیا گیا تاکہ مسلمان اپنے ماضی سے اور موجودہ عالم اسلام بھی مکمل طور پر کٹ کر رہ جائیں۔ جن مسلمانوں کو ’’اللہ‘‘ کا نام لیتے دیکھا گیا، انہیں سب سے بڑا مجرم ’’روحانی‘‘ قرار دے کر حکماً حقوق شہریت سے محروم کردیا گیا، حج پر پابندی لگا دی گئی، مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یہاں بھاری تعداد میں روسیوں کو لا کر آباد کیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کے لیے کمزور ایمان والوں کے ضمیر خریدے گئے، بیشتر مساجد و مدارس کو منہدم، یا کلبوں، گوداموں، اصطبلوں، رہائش گاہوں اور تفریح گاہوں میں بدل دیا گیا۔خال خال جو مسجدیں باقی رہ گئیں، ان میں اذانیں بند کردی گئیں، ان پر بھاری ٹیکس لگادئیے گئے، اور ان میں نماز پڑھنے والوں پر بھی ’’نمازی ٹیکس‘‘ لگایا گیا۔
جو باہمت مسلمان ٹیکس دے کر بھی مسجد آتے رہے انہیں ’’سرمایہ دار‘‘ قرار دے کر طرح طرح کی سزائیں دی گئیں۔پھر وہ یا تو شہید کردئیے گئے، یا سائبیریا کے برفانی جہنم میں، جہاں درجۂ حرارت چالیس منفی سیٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اس طرح جلا وطن کردئیے گئے کہ ان کے اہل خانہ کو کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا کیا ہوا۔۔۔ ان قیامت خیز حالات میں گنی چنی باقی ماندہ مساجد کا حال بھی اس کے سوا کیا ہوتا کہ:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
جب روسی یلغار ہوئی تو یہاں کے علمائے حق نے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اس حالت میں کہیں چھوڑ کر جانے کے بجائے آخر دم تک یہیں کفر کا مقابلہ کریں گے۔ ہزاروں مجاہدین نے ان اولوالعزم علمائے ربانی کی قیادت میں پہاڑوں میں مورچہ زن ہوکر بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک اپنی چھاپہ مار کاروائیوں سے کیمونسٹوں کا ناک میں دم کیے رکھا، ان مجاہدین کا جاسوسی نظام بھی عرصہ دراز تک کام کرتا رہا، جیسے ہی پتہ چلتا کہ آج فلاں شہر یا قصبے میں مسلمانوں پر شب خون مارا جائے گا، یا قیدی علمائے کرام کو برسرِ عام قتل کیا جائے گا، یہ وہاں بجلی بن کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے، اور بہت سوں کو جہنم رسید کرڈالتے۔
لیکن سوشلسٹ حکومت نے رفتہ رفتہ ہر علاقے میں علمائے سوء کی ایک بڑی کھیپ تیار کرلی تھی، جو کیمونسٹوں کو ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے، مسلمانوں کو نت نئے فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں لڑواتے، اور علمائے حق کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے۔
نئی نسل کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر دین اور علمائے دین سے بیزار کیا گیا، علمائے حق پر لرزہ خیز مطالم ڈھائے گئے، جو علمائے ربانی ان مظالم کا شکار ہوئے، ان کی تعداد ۱۹۴۰ء تک پچاس ہزار کو پہنچ چکی تھی۔ عوام میں سے بے شمار لوگ اپنی جان اور ایمان بچاکر افغانستان، ایران، ہندوستان، اور سعودی عرب وغیرہ کو ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ میں نے بھی ایسے کئی مہاجرین اور ان کے بیٹوں اور پوتوں سے ملاقات کی اور خود ان کی زبانی ان کی بپتا سنی ہے۔۔۔ دارالعلوم کراچی میں بھی ان کی بڑی تعداد زیرِ تعلیم ہے۔
ایک مہاجر کی بپتا:
ایک سید زادے جناب اعظم ہاشمی، جو کراچی یونیورسٹی میں غالباً استاد تھے، کبھی کبھی ہمارے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے پاس آیا کرتے تھے، اور ہم سے بھی محبت سے ملتے تھے، میری ان سے آخری ملاقات تقریباً ۱۹۷۲ء میں ہوئی تھی، جبکہ ان کی عمر ساٹھ کےلگ بھگ تھی، یہ اندجان (ازبکستان) کے ایک مشہور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
۱۹۳۱ء میں جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی، اور خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب کیمونسٹوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے، انہیں اپنی بیوہ والدہ کے اصرار پر راتوں رات ہجرت کرنی پڑی، کیمونسٹ ان کے خون کے پیاسے تھے، اور والدہ کو بھی ’’روحانی‘‘ قرار دے کر تمام حقوق شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا، عالمہ فاضلہ ماں کی مامتا نے مجبور ہوکراس لخت جگر کوئی ہمیشہ کے لیے یہ کہہ کر الوداع کردیا تھا کہ:
’’بیٹا! تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہو، مگر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت میں میری خدمت نہیں کرسکتے، میں تمہیں دین و ایمان کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کا حکم دیتی ہوں‘‘
اس رات لالٹین کی دھیمی روشنی میں انہوں نے اپنے سوئے ہوئے بے خبر چھوٹے بہن بھائیوں کا آخری دیدار کیا، بیوہ ماں انہیں ضروری نصیحتیں کرتی ہوئی گھریلو باغیچے کے کنارے تک آئیں اور آخری بار پیار کرکے رخصت کردیا۔
یہ چند ہی قدم چلے تھے کہ پیچھے سے کچھ گرنے کی آواز آئی، مڑ کر دیکھا تو ماں بے ہوش پڑی تھیں، سخت پریشانی کے عالم میں بیٹے نے پانی کے چھینٹے دے کر ان کو آواز دی ، ہوش میں آتے ہی ماں نے تلملا کر پوچھا: ’’بیٹا! تم واپس کیوں آگئے؟ خدا کے لیے اپنی منزل کھوٹی نہ کرو! فوراً روانہ ہوجاؤ!‘‘
ماں کو چارپائی تک پہنچا کر یہ یتیم بہتی آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ مہینوں اسی ’’ماوراء النہر‘‘ کے شہروں، ’’خوقند‘‘ اور ’’بخارا و سمرقند‘‘ وغیرہ میں ڈرے، سہمے دربدر پھرتے رہے، لیکن یہ سرزمین اپنی وسعتوں کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوچکی تھی، بالآخر کسی نہ کسی طرح دریائے آمو پار کیا اور ہجرت کرکے افغانستان اور وہاں سے ہندوستان آئے، پھر پاکستان بن جانے کے بعد کراچی آکر مقیم ہوگئے۔۔۔ عمر بھر ہزار جتن کیے مگر نہ ماں اور بہن بھائیوں کو دیکھ سکے، نہ یہ معلوم ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا شہید کردئیے گئے؟ کیونکہ سوویت یونین کے تمام مقبوضہ ممالک اور ریاستوں کو باہر کی دنیا سے کاٹ کر ان پر ایسا دبیز آہنی خول مڑھ دیا گیا تھا کہ اندر کی آواز باہر، اور باہر کی اندر نہیں جاسکتی تھی، ڈاک اور مواصلات کے سارے رابطے مستقل طور پر ختم کردئیے گئے تھے۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
افغانستان پہنچنے سے پہلے اس ہجرت کے سفر میں خود ان پر کیا کیا قیامتیں گذر گئیں، اور وہاں کے شہروں میں دربدر پھرتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں اور علمائے کرام پر کیسے کیسے لرزہ خیز مظالم کا مشاہدہ کیا، یہ سب کچھ انہوں نے اپنی چونکا دینے والی مختصر کتاب ’’سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت‘‘ میں بیان کردیا ہے۔یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں مکتبہ اردو ڈائجسٹ سمن آباد لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔
ان ریاستوں کی ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے، اس سے معلوم ہوگا کہ دشمن مسلمانوں کی کن کن کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اور کن کن حیلہ سازیوں سے انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوااور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہاں کی فضائیں جو صدیوں سے پانچوں وقت اذان کی دلکش صداؤں سے گونجا کرتی تھیں، ان پر مہیب خاموشی چھا گئی، جو علاقے صدیوں اسلام کے نور سے نہ صرف جگمگاتے رہے، بلکہ ان کی ضیاء پاش کرنیں دنیائے اسلام کو منور کرتی رہیں، ان پر مصائب و آلام کی وہ تاریک رات مسلط ہوگئی جس کی سحر کا انتظار کرتے کرتے وہاں کی کئی نسلیں دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔
لیکن آفریں ہے وہاں کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے ایمانِ راسخ پر، کہ کفر و ظلم کے ان اندھیاروں میں بھی انہوں نے ایمان کی شمع ایک لمحے کے لیے بجھنے نہیں دی، وہ نمازیں چھپ چھپ کر پابندی سے گھروں میں پڑھتے اور بچوں کو سکھلاتے رہے، قرآن کریم کے جو نسخے انہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر کسی طرح بچا لیے تھے، وہ عمر بھر ان کا سب سے بڑا قیمتی سرمایہ رہے، ستر سال کے اس طویل عرصے میں ان کے اوراق کتنے ہی بوسیدہ کیوں نہ ہوگئے، مگر ان کی تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ گھروں میں چھپ چھپ کر جاری رہا۔ حدیث و فقہ اور اسلامی علوم و فنون کی جو کتابیں انہوں نے کسی طرح بچا لی تھیں، ان کی بھی اپنی جان کی طرح حفاظت کی۔۔۔جو علمائے کرام کسی طرح زندہ بچ گئے تھے، انہوں نے دینی علوم کی تدریس کا سلسلہ راتوں کو خفیہ طور پر جاری رکھا۔ غرض دین و ایمان کی اس بیش بہا پونجی کو، رخصت ہونے والی ہر نسل، آنے والی نسل کے ہاتھوں میں تھماتی، اور دلوں میں اتارتی رہی۔۔۔ نتیجہ یہ ہے کہ الحمد للہ وہاں مسلمانوں کی آج بھی بھاری اکثریت ہے، علمائے کرام بھی موجود ہیں، مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز، روزہ، اور اسلامی شعائر کی پابند ہے۔۔۔
حیرت میں ڈال دینے والے یہ ایمان افروز حالات مجھے ازبکستان، تاجکستان اور قرغیزیہ کے ائمہ مساجد کے اس وفد سے معلوم ہوئے جو حال ہی میں دارالعلوم کراچی آیا تھا۔ جن آلام و مصائب کا سامنا وسط ایشیاء کے مسلمانوں کو کرنا پڑا، اور جس طرح کی قربانیاں دے کر یہاں کے مسلمانوں نے اپنے دین کی حفاظت کی، روس کے دیگر مقبوضہ ممالک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی مسلمان آج تک ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، اور دنیا کو اپنے عزم راسخ سے بتا رہے ہیں کہ:
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرّ کلیم و خلیل
روسی کیمونسٹوں کا طریقۂ واردات:
وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں اور افغانستان میں روسیوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ’’فاتحانہ‘‘ کاروائیوں کو عموماً تین مرحلوں میں ترتیب وار انجام دیا:
۱۔۔۔پہلے مرحلے میں انہوں نے غریب اور مفلوک الحال عوام کی حقیقی مشکلات و مصائب کا رونا رو کر سوشلزم اور کمیونزم کی ’’غریب پروری‘‘ کا سبز باغ دکھایا اور باور کرایا کہ ہم کارخانوں کا مالک مزدوروں کو، اور زمینوں کا مالک کاشتکاروں کو بنانا چاہتے ہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ مفلس عوام کے مصائب دور کیے جائیں، تعلیم عام کی جائے، عورتوں کے ’’حقوق کی حفاظت‘‘ اور قوموں کی ’’خود مختاری کی حفاظت‘‘ کی جائے۔ ہمیں دین و مذہب سے کوئی دشمنی نہیں، صرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ اس مرحلے میں انہوں نے مارکسی سوشلزم کو اسلامی عدل و انساف اور خلافت راشدہ سے مشابہت کے رنگ میں پیش کیا، اور یہ دھوکہ دینے کی منظم کوشش کی کہ سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس منافقانہ مسلسل کاروائی سے انہوں نے سادہ لوح غریب عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے معاشرے اور سیاست میں اپنی طاقت بنائی اور کسی حد تک دیندار اور تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی دام فریب میں پھانس لیا۔ اس مرحلے میں وہ لینن کے بتائے ہوئے اس گر پر عمل کرتے رہے کہ ’’مشرق میں مذہب کے دروازے سے آؤ‘‘
۔۔دوسرے مرحلے میں انہوں نے مسلم ریاستوں کے تعلیمی اداروں، سیاسی و نیم سیاسی تنظیموں، اخبارات و رسائل، فلموں، ادبی انجمنوں، اور شاعروں میں اپنے تربیت یافتہ مبلغین کو گھسا کر اہم عہدوں پر فائز کرادیا، یہ تعلیمی اداروں سے طلبہ کو، اور ذرائع ابلاغ سے عوام کو کبھی سوشلزم اور کمیونزم کا نام لے کر، اور کبھی نام لیے بغیر اس کی تبلیغ کرتے رہے، اور نوجوانوں کی خاصی تعداد کو ذہنی طور پر کیمونسٹ بناتے رہے۔
ڈراموں نظموں، افسانوں، اخباری کالموں اور تقریروں کے ذریعے پوری قوم کی ذہن سازی کی گئی، اس مقصد کے لئے مقامی حکمرانوں سے راہ و رسم بڑھا کر اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے گئے، ثقافتی پروگراموں کے نام پر نئی نسل کو فحاشی اور عریانی پر لگایا، جمہوریت کے نام پر عوام کو بے راہ روی، بے لگام آزادی، اور قانون شکنی پر مائل کیا، روسی رقاصائیں آنے لگیں، اخلاقی قدروں اور تہذیبی روایات کا مذاق اڑایا جانے لگا، اور انہیں ’’رجعت پسندی‘‘ کانام دے دیا گیا۔
’’اقتصادی امداد‘‘ کے نام پر مقامی حکمرانوں اور پالیسی ساز افسروں کو اللے تللے کرائے گئے اور ’’دفاعی معاہدوں‘‘ کے نام پر ان حکمرانوں کو بے وقوف بنا کر اپنا تابع فرمان بنا لیا، جب وہ اقتصادی اور دفاعی میدانوں اور سائینس و ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے اس غیر ملکی امداد پر انحصار کے عادی ہوگئے، تو ان سے قومی مقاصد، عوامی امنگوں، اور ملکی ضرورتوں کے خلاف فیصلے کرائے گئے اور دوسری طرف سے ردّ عمل کے طور پر سیاسی لیڈروں اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسایا گیا، حکمران اپنی عوام سے کٹتے اور اتنے ہی کمزور ہوتے چلے گئے۔
ساتھ ساتھ اسلامی عقائد اور دینی شعائر پر رکیک زبان درازیاں ہونے لگیں، علمائے حق کا کھل کر مذاق اڑایا جانے لگا، علمائے سوء کو ان کے مقابلے میں شہ دی گئی، اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔
ماضی کے مسلم حکمرانوں کی رنگ رلیوں کے بعض سچے، اور بہت سے من گھڑت قصے سنا سنا کر عوام کو ان کے ماضی اور دینی راہنماؤں سے بے زار کیا گیا، اور انہیں آپس میں کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر، اور کہیں لسانی، علاقائی یا نسلی عصبیتوں کی بنایاد پر طرح طرح سے لڑوا کر ملک کو بری طرح کمزور کردیا گیا۔
۳۔۔۔تیسرے مرحلے میں جب دیکھا کہ اندر کا میدان ان کی فوجوں کے لیے ہموار ہوگیا ہے، اور کسی بڑی مزاحمت کا خطرہ نہیں تو ان کے ٹینک اور لاؤ لشکر سارے وعدوں ،معاہدوں اور سبز باغوں کو روندتے ہوئے اس ملک میں داخل ہوگئے اور سب سے پہلے ان نااہل حکمرانوں کا خاتمہ کیا جنہیں بے وقوف بنا کروہ یہاں تک پہنچے تھے۔ملک پر انتہائی جابر وقاہر ڈکٹیٹر شب مسلط کردی گئی۔
یہ ڈکٹیٹر عموماً اسی ملک کے وہ ضمیر فروش سیاسی لیڈر ہوتے تھے جنہیں اس مقصد کے لیے پہلے سے تیار کیا جاتا تھا، ان کے نام تو وہی مسلمانوں کے سے تھے جو ان کے مسلم آباء و اجداد نے رکھے تھے، لیکن عقیدے کے اعتبار سے جب تک انہوں نے اپنا کٹر کیمونسٹ اور خدا کامنکر ہونا ثابت نہ کردیاانہیں یہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ کارخانوں، دوکانوں اور زمینوں پر سوشلسٹ بیوروکریسی قابض ہوگئی اور اور مفلس عوام اور مزدور و کاشتکار جنہیں سبز باغ دکھا کر یہ خونی ناٹک رچایا گیا تھا، منہ تکتے رہ گئے، ان کا افلاس بڑھتا گیا، اب بسا اوقات سوکھی روٹیوں کو بھی ترسنے لگے۔مذہبی آزادی، تنظیم سازی، سیاسی آزادی، اور پیشے کی آزادی کا خاتمہ کردیا گیا۔
جس مسجد یا مدرسے سے سوشلزم یا اس کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز اٹھنے کا اندیشہ ہوا، اس پر بلڈوزر چلادئیے گئے، جو ذرا بولااسے ہمیشہ کے لیے غائب کردیا گیااور ساری وہ داستانیں دہرائی گئیں جن کی دہشت آج بھی ترمذ، فرغانہ، بخارا اور سمرقند کے کوچے کوچے پر چھائی ہوئی ہے۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
افغانستان میں تیسرے مرحلے کا حشر:
روسیوں نے وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں کو تاراج کرنے کے فوراً بعد ہی افغانستان میں بھی اپنی واردات کا پہلا مرحلہ شروع کردیا تھا، پھر دوسرے مرحلے کا بہت بڑا کام ظاہر شاہ کے دورِ حکومت (تا ۱۹۷۲) میں ہوا۔اور اس کی تکمیل داؤد خان کے دور (تا۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء) میں ہوئی، اس وقت مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو، جو علم دین سے نابلد تھی، کیمونسٹ بنایا جاچکا تھااور وہی سرکاری تعلیمی اِداروں پر چھائے ہوئے تھے، اعلیٰ تعلیم و’’ تربیت‘‘ کے لیے چھانٹ کر ایسے نوجوانوں کو روس بھیجا جاتا تھا جو پہلے سے کیمونسٹ ہوں یا ان کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ کٹر کیمونسٹ بن کر وپس آئیں گے، ملک کے کلیدی عہدوں، سیاست اور فوج پر کیمونسٹ قابض ہوچکے تھے، اور وہ تمام کاروئیاں مکمل ہوچکی تھیں جو روسی ’’دوسرے مرحلے‘‘ میں انجام دیتے رہے ۔
تیسرے مرحلے کا آغاز ’’انقلابِ ثور‘‘ کے نام سے کیا گیا، جس کا مقصد افغانستان کو مکمل طور پر ’’بخارا اور سمرقند‘‘ بنادینا تھا، یہ انقلاب ۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء کو یہاں کی کیمونسٹ جماعت، ’’خلق پارٹی ‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر ’’نورمحمد ترکئی‘‘ نے صدر داؤد خان کو قتل کرکے اور کرسئ صدارت پر قبضہ کرکے برپا کیا تھا۔۔۔
روس کا خیال تھا کہ افغانستان کو مکمل طور پر کیمونسٹ ملک کی حیثیت سے روسی’’ سوویت یونین‘‘ کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ بنا دینے کے لیے نور محمد ترہ کئی، اس کی خلق پارٹی، اور ان کے روسی مشیرو’’ماہرین‘‘ کافی ہوجائیں گے، اس لیے اس نے اپنی فوجیں اس موقع پر نہیں بھیجی تھیں۔۔۔ چنانچہ ترہ کئی نے افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب برپا کرتے ہی جو کارنامے فوری طور پر انجام دئیے، وہ یہ تھے:
۱۔۔۔ملکی جھنڈے کا رنگ سرخ کردیا۔۔۔ سرخ جھنڈا لہرانے کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔۔۔
۲۔۔۔پندرہ ہزار مسلمانوں کو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی شہید کرڈالا، جن میں بہت سے علمائے دین بھی شامل تھے۔
۳۔۔۔ اسلام کی مخالفت میں کئی قوانین نافذ کیے۔
۴۔۔۔ مقابلے میں بولنے والے بہت سے مسلمانوں کی املاک ضبط کرلی گئیں۔۔۔
۵۔۔۔ ریڈیو سے دینی پروگرام یکلخت بند کردئیے گئے۔
۶۔۔۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے اسلام، اور اس کے متعلق مضامین کو خارج کرکے سوشلزم اور کیمیونزم کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔
۷۔۔۔کاشتکاروں، مزدوروں اور خواتین پر ’’اشتراکی ثقافت‘‘ کے تربیتی پروگراموں میں شرکت لازم کردی گئی۔
۸۔۔۔اللہ تعالیٰ کے وجود کا علی الاعلان انکار کیا جانے لگا(نعوذ باللہ) کیمونسٹ لیڈر بھرے مجمع میں اپنا ہاتھ بلند کرکے مسلمانوں کو للکارتے کہ ’’اگر تمہارا خدا موجود ہے تو میرا یہ ہاتھ نیچے کرکے دکھائے۔‘‘
افغانستان میں مکمل طور پر کیمونسٹ حکومت مسلط ہو ہی گئی تھی، لیکن کیمونزم کو یہاں اسلام پر مرمٹنے والی اس غیور قوم سے واسطہ پڑا جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد سے آج تک ایک دن کے لیے بھی اپنے اوپر غیر مسلموں کی محکومی کا داغ نہیں آنے دیا۔۔۔ پھر یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی پڑوسی مسلم ریاستوں میں کیمونزم کے مظالم کا مشاہدہ پچھلی کئی دہائیوں سے کررہے تھے۔۔۔ انہیں دھوکہ دینا ممکن نہ تھا۔۔۔
یہاں کے بیدار مغز علمائے ربانی سوشلزم اور کیمونزم کو شروع ہی سے مسلم افغانستان کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے چلے آرہے تھے، اور جب ظاہر شاہ کے دور میں ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے نام پر اسلام کی بیخ کنی کے لئے منظم کاروئیاں شروع ہوئیں تو انہوں نے آنے والے طوفان کو بھانپتے ہی اس کے خلاف جد و جہد شروع کردی تھی۔۔۔
نور محمد ترہ کئی کے اس ’’سرخ انقلاب‘‘ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور چند ہی دنوں بعد یہاں کے علمائے حق کو اس کافر حکومت کے خلاف اعلان جہاد کرنا پڑا۔۔۔ترہ کئی کی نام نہاد حکومت نے اس مقدس جہاد کو کچلنے کے لیے بھرپور جنگی طاقت استعمال کی، کابل کی مشہور عالم بدنام ترین جیل ’’پل چرخی‘‘ کے بلڈوزر رات دن اجتماعی قبریں کھودنے میں مصروف رہتے، جن میں بے گناہوں کو بغیر کفن کے دھکیل دیا جاتاتھا۔۔۔
مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ان مظالم سے اور بھڑک اٹھا، انہوں نے اپنی تابڑ توڑ گوریلا کاروائیوں سے تھوڑے ہی دنوں میں فوج کی یہ حالت کردی کہ وہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتی تھی، روس نے ترہ کئی حکومت کو نہتے مجاہدین کے ہاتھوں اس طرح سے بے بس ہوتے دیکھ کر ’’خلق پارٹی‘‘ ہی کے ایک اور کیمونسٹ لیڈر حفیظ اللہ امین کو آگے بڑھایاجو اس وقت وزیرِ اعظم تھا، اس نے ترہ کئی کو قتل کرکے کرسی پر قبضہ کرلیا، مگر چند ہی روز میں روسی حکام کو اندازہ ہوگیا کہ امین ان کا وافادار نہیں ہے، اس نے مجاہدین کے خلاف کاروئیاں کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔۔۔
چنانچہ روس نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو ٹڈی دل افواج افغانستان میں گھسادیں، جنہوں نے سب سے پہلے حفیظ اللہ امین کا خاتمہ کیااور اس کی جگہ ’’پرچم پارٹی‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر’’ببرک کارمل‘‘ کو چیکوسلواکیہ سے لا کر کٹھ پتلی صدر بنا دیا۔
جب ببرک کارمل کئی سال تک روسی فوج کی بھرپور طاقت اور جدید ترین اسلحہ سے بھی جہاد کو نہ دبا سکا تو روس نے اسے بھی معزول کرکے اپنے چھٹے مہرے ’’ڈاکٹر نجیب اللہ‘‘ کو داؤ پر لگا دیا ۔۔۔ اور اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو دنیا دیکھ رہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ’’روسی واردات‘‘ کا یہ تیسرا مرحلہ ہی تھا جو جہادِ افغانستان کا سبب بنا اور بالآخر روسی سامراج کے لیے پیغام موت ثابت ہوا۔افغانستان کے غیور مجاہدین نے اپنے پندرہ لاکھ شہیدوں کا خون دے کر نہ صرف خود کو کیمونزم کی غلامی سے بچایا بلکہ وہ روس کی مقبوضہ مسلم ریاستوں میں بھی خفیہ طور پر اپنی جانوں پر کھیل کر پہنچے، انہیں اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کے نسخے پہنچائے، اور جہاد افغانستان کے منظر و پس منظر سے آگاہ کرکے ان میں آزادی کی بے تاب لہر دوڑا دی، بلکہ یہ کام ان فوجیوں نے بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا جنہیں روس نے مقبوضہ ریاستوں سے یہ سمجھ کر بھرتی کیا تھا کہ یہ اپنے آبائی دین کو بھول چکے، اور کیمیونزم کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں۔۔۔ ان میں کچھ ایسے ضرور تھے جنہیں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا کہ ان کے والدین مسلمان تھی، لیکن بڑی تعداد ان فوجیوں کی تھی جو درپردہ اب بھی اپنے دین پر قائم تھے۔۔۔
ان فوجیوں نے جب افغانستان آکر مسلمانوں کے حالات ، ان کی مظلومیت، ان کی نمازوں اور ایمان افروز جہاد کا مشاہدہ کیا تو ان کا بھی ایمان جاگ اٹھا، ان فوجیوں کی ہمدردیاں مجاہدین کے ساتھ ہوگئیں، بعض مواقع میں تو انہوں نے اپنا اسلحہ تک مجاہدین کی نذر کردیا۔
روس نے یہ صورتحال دیکھتے ہی انہیں تو واپس بلا لیا تھا، لیکن جاگے ہوئے ایمان نے آزادی کی جو تازہ روح ان میں پھونک دی ہے، اس کا توڑ اب کسی کے پاس نہیں۔
افغانستان کی دلدل میں پھنس کر روس جس عبرت ناک معاشی بدحالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اور اس کی مقبوضہ ریاستوں میں صورتحال جس تیزی سے بدل رہی ہے،  اس سے تو اب یہی مژدہ سنائی دیتا ہے کہ:
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں! آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اور ملحد چین جو ظلم مسلمانوں پر کر رہا ہے اس کے جاننے کے لیے یہ پڑھیں۔چین کے صوبہ زنجیانگ میں طویل عرصہ سے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے جس پر ساری دنیا خصوصاً عالم اسلام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے‘ حتیٰ کہ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ادارے اور افراد بھی اس تعلق سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے سابق کمیونسٹ سوویت یونین کی ریاستوں میں بھی مسلمانو ں پر ایسے ہی مظالم ڈھائے گئے تھے حتیٰ کہ ان کو اپنے ایمان اور عقیدہ پر عمل کرنے کا اختیار نہیں تھا اور ان کو اسلامی عبادتیں ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا‘ جبر و تشدد کی انتہا ہوگئی تھی اور ان مظالم کی خبروں پر سخت سنسر شپ عائد تھی۔ یہی رویہ چین میں بھی اختیار کیا گیا ہے اور وہاں بھی مسلمانوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں‘ چونکہ سرخ چین کئی پردوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس لئے ان مظالم کی اطلاع دنیا تک نہیں پہنچ سکی تھی ‘ جیسی کہ روس کے مظالم کی اطلاع باہر نہیں آئی تھی۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی چین کی خبریں باہر آنے لگی ہیں جن میں صوبہ زنجیانگ کے الغور مسلمانوں پر مظالم اور ان پر پابندیوں کی خبریں بھی شامل ہیں۔
 https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1038094082963653
مکمل تحریر >>

ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)۔ سوره نساء - آیت نمبر 89 (وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاءً فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا

ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)
/////////////////////////////////////////////////////////////////
سوره نساء - آیت نمبر  89  (وَدُّواْ لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُواْ فَتَكُونُونَ سَوَاءً فَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّى يُهَاجِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَلاَ تَتَّخِذُواْ مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا
وہ  یہ تمنا کرتے ہیں کہ تم بھی کفر کروجیسے انہوں نے کفر کیا تاکہ تم سب برابر ہو جاؤ۔ سو تم ان میں سے دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کریں، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو انہیں پکڑ لو اور جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کر ڈالو اور ان میں سے دوست نہ بناؤ اور نہ مددگار )
****  صرف الله کی راہ میں ہجرت نہ کرنے پر قتل کیوں کیا جائے گا جب کہ دین میں  کوئی جبر نہیں ...؟
/////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا جواب علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ

الجواب۔۔۔۔

اس آیت کی تشریح و تفسیر جاننے کے لیے اس آیت کے سیاق و سباق کو دیکھنا پڑے گا۔
پہلی آیت فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّـهُ أَرْ‌كَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِ‌يدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّـهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا ﴿٨٨﴾
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ (١) انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے اوندھا کر دیا ہے۔ (٢) اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالٰی کے گمراہ کئے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالٰی راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا (٣)
٨٨۔١ یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورہ، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔
٨٨۔٢ کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ۔ اوندھا کر دیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کر دیا، یا اس کے سبب ہلاک کر دیا۔
٨٨۔٣ جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کر سکتا۔
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُ‌ونَ كَمَا كَفَرُ‌وا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُ‌وا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرً‌ا ﴿٨٩﴾
ان کی تو چاہت ہے کہ جس طرح کے کافر وہ ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں ہو جاؤ، پس جب تک یہ اسلام کی خاطر وطن نہ چھوڑیں ان میں سے کسی کو حقیقی دوست نہ بناؤ (١) پھر اگر یہ منہ پھیر لیں یعنی کھلم کھلا کافر ہو جائیں یا کفار کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف صف بستہ ہوں تو انہیں پکڑو (٢) اور قتل کرو جہاں بھی ہاتھ لگ جائیں (٣) خبردار ان میں سے کسی کو اپنا رفیق اور مددگار نہ سمجھ بیٹھنا۔
٨٩۔١ ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔
اب اس صورت میں قتل کی اجازت تب دی گئی جب وہ منہ پھیر کر کفار کے معاون ثابت ہوں۔صرف ہجرت نہ کرنے پر قتل کرنے کا نہیں کیا کہا گیا۔آیت میں موجود
فان تولوا فخذوھم واقتلوھم
کا جملہ واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے لیکن ملحد نے محض ہجرت نہ کرنے پر قتل سمجھا اور اعتراض داغ دیا۔اگر وہ اس آیت کی تفسیر ہی پڑھ لیتا تو یہ بات اسے اچھی طرح سمجھ آجاتی لیکن ملحدین و مستشرقین کا مقصد صرف قرآن اور اسلام میں ک خامیاں تلاش کرنا اور ان کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرنا ہے۔اگر ان کا مقصد ہدایت کی تلاش ہوتی تو اب تک وہ اسلام کی صداقت کو پاچکے ہوتے اور اللٰہ تعالٰی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو ہدایت کا طالب نہ ہو۔ہدائت کے لیے طلب ہدایت لازمی ہے۔اللٰہ تعالٰی مجھے اور آپ سب حضرات کو الحاد اور کفر کے فتنے سے بچائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔آمین
جواب منجانب۔۔۔طلحہ ایر
https://www.facebook.com/groups/891915894248140/permalink/1038634649576263/
مکمل تحریر >>