Wednesday, 25 October 2017

کیا قرآن کے مطابق زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے؟


کیا قرآن کے مطابق زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے؟
قرآن پہ مستشرقین و ملحدین کا ایک قدیم اعتراض اور اس کا جواب
پیشکش:
فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج مذہب فلسفہ اور سائنس
فیس بک پیج سائنس ،فلسفہ اور اسلام
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان ’زرقالی‘ نے بھی 1080ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے اور سورج بھی ساکن نہیں ہے جیسا کہ قدیم نظریات میں خیال کیا جاتا تھا۔
ہماری کہکشاں ملکی وے (Milky Way) دراصل ایک چکردار کہکشاں ہے۔ اُس کے چار بازو ہیں جن میں واقع کروڑوں ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردِش کر رہے ہیں۔ سورج بھی اپنے ساتھی ستاروں کی طرح کہکشاں کے مرکز سے 30,000 نوری سال کے فاصلے پر ’’اورِین آرم‘‘ (Orion Arm) میں واقع ہے اور کہکشاں کے مرکز کے گرد 22,00,00,000 سال میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔
سورج کی اِس گردِش کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے، فرمایا :
وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِO
(يسين، 36 : 38)
اور سورج اپنے لئے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے، یہ (راستہ) غالب علم والے (اللہ) کا مقرر کردہ ہےo
اِرشادِ ایزدی ہے :
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍO
(الرحمن، 55 : 5)
سورج اور چاند معلوم اور مقررّہ (فلکیاتی) حسابات کے مطابق (محوِ حرکت) ہیںo
اب ذرا قرآن پاک کی درج ذیل آیت مبارکہ ملا خطہ فر مایے۔
وَ ھُوَ الَّذِ یْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النّھَا رَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلُ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ[13]
ترجمہ:۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب (فلکی اجسام) اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔
ایک اور آیت میں ہے
لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والاللیل سابق النھار۔وکل فی فلک یسبحون
اس آیت میں سورج اور چاند کے الگ الگ مدار کا تذکرہ ہے لیکن یہ کہیں نہیں کہ ان کا مدار متوازی ہے۔
غور فرمائیے کہ مذکورہ بالا آیت میں عربی لفظ یَسْبَحُوْن استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ بذات خود سے نکلا ہے۔ جس کے ساتھ ایک ایسی حرکت کا تصور وابستہ ہے جو کسی جسم کے متحرک ہونے سے پیدا ہوئی ہو۔ اگر آپ یہ لفظ زمین پر کسی شخص کے لئے استعمال کریں گے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ لڑک رہا ہے۔ بلکہ اس سے یہ مراد ہو گی کہ وہ شخص دوڑ رہا ہے یا چل رہا ہے۔ اگر یہ لفظ پانی میں کسی شخص کیلئے استعمال کیا جائے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ (پانی پر) تیر(float) رہا کہ بلکہ اس سے مراد ہوگی کہ وہ شخص پانی میں تیراکی کر رہا ہے۔
اسی طرح جب آ پ یہ لفظ سَبَحَا کسی آسمانی جسم (جرم فلکی ) سورج کیلئے استعمال کریں گے تو اسکا مطلب صرف یہ نہیں ہو گا کہ وہ جسم خلا میں حرکت کر رہا ہے، بلکہ اسکا پورا مطلب یہ ہوگاکہ کوئی ایسا جسم جو خلا میں حرکت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے محور(axis) پر بھی گھوم رہا ہے۔ آج سکولوں کی بیشتر نصابی کتابوں نے اپنی معلومات درست کرتے ہوئے یہ حقیقت شامل کرلی ہے کہ سورج اپنے محور پر گرد ش بھی کر رہا ہے ۔ سورج کی محوری گردش کی تصدیق کسی ایسے مشاہداتی سازو سامان کی مدد سے آسانی کی جا سکتی ہے جو سورج کا عکس کسی میز جتنی بڑی جگہ پر پھیلا کر دکھا سکے، اسی طرح نابیناپن کے خطرے سے دو چار ہوئے بغیر سورج کے عکس کا مشاہدہ کیا جا سکے گا ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج کی سطح پر دھبے ہیں جو اپنا ایک چکر تقریباً پچیس دن میں مکمل کر لیتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ سورج کو اپنے محور کے گرد ایک چکر پوار کرنے کرنے میں تقریباً پچیس دن لگ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سورج تقریباً 240کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے (اپنے سیاروں سمیت) خلا میں سفر کر رہا ہے۔ اس رفتا ر سے یہ تقریباً بیس کروڑ سال میں ہماری ملکی وے (Milky Way) کہکشاں کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُد ْرِکَ الْقَمَرَ وَ لَا الَّیْلُ سَا بِقُ النَّھَا رِط وَکُلُّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْ نَ ہ
ترجمہ:۔ نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
سورج کے بارے میں قرآن کریم میں واضح ذکر ہے کہ وہ حرکت کر رہاہے اور اس حرکت سے مراد محض محوری گردش ہی نہیں، بلکہ ’’جریان‘‘ یا ’’سبح‘‘ کے الفاظ سے مراد ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا اور کرتے جانا ہے۔
یہ آیت مبارکہ ایک ایسی بنیادی اور اہم حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے جسے جدید فلکیات نے قدرے حال ہی میں دریافت کیا ہے، یعنی چاند اور سورج کے انفرادی مداروں کی موجودگی اور حرکت کرتے ہوئے خلا میں انکا سفر کرنا۔
وہ جگہ جس کی سمت ہماراسورج اپنے تمام (نظام شمسی ) سمیت سفرکررہا ہے۔ جدید فلکیات کی بدولت ٹھیک شاخت کر لی گئی ہے۔ اسے سولر اپیکس کا نام دیا گیا ہے۔ پورا نظام شمسی در حقیقت خلا میں اس مقام کی سمت حرکت کر رہا ہے جو ہر کو لیس (Herculis) نامی برج (ایلفا لیرایٔ ) میں واقع ہے اور جس کی درست جگہ آج ہمیں معلوم ہو چکی ہے۔
اس طرح ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے سورج کی حرکت کا ذکر تو کیا ہے لیکن قرآن میں یہ کہیں پہ نہیں کہا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور اللٰہ نے سورج کی گردش کو تب بیان کیا جب عرب اس بات سےکا بالکل نابلد تھے اور اج سائنس ثابت کر چکی ہے کہ سورج کائنات کے مرکز کے گرد محوگردش ہے لیکن قرآن نے ایک بھی آیت۔ نہیں کہا کہ سورج زمین کے گرد گردش میں ہے۔
قرآن مجید ۔ سورہ زمر آیت نمبر 7
خلق السماوات والأرض بالحق يكور الليل على النهار ويكور النهار على الليل وسخر الشمس والقمر كل يجري لأجل مسمى
یہاں کور کے معانی بیان کرتے ہوئے صاحب تفسیر قرطبی لکھتے ہیں :
قال الضحاك: أي يلقي هذا على هذا وهذا على هذا. وهذا على معنى التكوير في اللغة وهو طرح الشيء بعضه على بعض؛ يقال كور المتاع أي ألقى بعضه على بعض؛ ومنه كور العمامة
یعنی کور کا مطلب "لپیٹنا" ہے ۔۔۔
اب ذرا اس لپیٹنے پر غور کریں ۔۔
انسان نے خلا میں جا کر دیکھا ہے اور باقاعدہ تصاویر بنائی ہیں یہ تصاویر چاند سے لی گئی ہیں ۔۔
کہ سورج کس طرح زمین کے نصف کو روشن کر دیتا ہے اور کرہ کا دوسرا نصف تاریک رہتا ہے زمین گردش کرتی ہے روشنی وہی رہتی ہے ۔ اور نصف کرہ کا رقبہ چوبیس گھنٹے میں زمین کے چاروں طرف چکر لگا لیتا ہے ۔۔
پھر آخرمیں کہا گیا ہے
كل يجري لأجل مسمى
ہر ایک حرکت کر رہا ہے ایک مقررہ وقت تک کے لیے۔
متواتر لپٹنے کا یہی عمل تو ہے جس کو قرآن میں بیان کیا ہے
اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحٰق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی نے، جنہیں انگریزی میں ارزاشیل کہا جاتا ہے،1080ء میں زمین اور سورج دونوں کے محوِحرکت ہونے کانظریہ پیش کیا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق زمین اور سورج میں سے کوئی بھی مرکز کائنات نہیں، بلکہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی مداروں میں حرکت کرتے ہیں،
زمین متحرک بھی ہے اور ساکن بھی ۔ ساکن ان اجسام کے لئے جو اس پر قیام پذیر ہیں اور متحرک ان کے لئے جو اس کی کشش ثقل سے باہر ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس زمین میں‌لنگر ڈالے تاکہ یہ اپنے مقام سے سرک نہ جائے اور ایک مخصوص مدار میں ایک مخصوص ترتیب سے ساتھ حرکت کرتی رہے۔ سورج بھی کہکشاں کے لاتعداد ستاروں‌کے ساتھ متحرک ہے۔ چاند بیک وقت زمین اور سورج دونوں‌کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ یہ سب کچھ قرآن سے ثابت ہے۔
وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَO
(يٰسين، 36 : 40) تمام (سیارے اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں (یعنی گردِش کر رہے ہیں)o
تمام احباب سے گزارش کہ ذرا غور کریں کیا درجہ بالا آیت میں زمین بھی شامل ہے کہ نہیں
بالکل ہے اور زمین باقی تمام سیارگان یعنی سیاروں کی طرح گول ہے اور اپنے مدار میں گردش کر رہی ہے۔
قرآن نے کہیں بھی صریح الفاظ میں یہ بات نہیں کہی کہ زمین ساکن ہے ۔۔ جو 9 آیات بیان کی گئی ہیں ان میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ملتی جس سے یہ بات ثابت ہو کہ زمین ساکن ہے ۔
عام طور پراہل علم نے مختلف زمانوں میں فلسفیانہ تصورات کی بناء پر آسمانوں کی ماہیت اور حقیقت متعین کرنے کی کوشش کی ہے، اسی وجہ سے کسی نے چاند کو پہلے آسمان میں مرکوز، سورج کو چوتھے آسمان میں اور دیگر سیار گان فلکی کو دوسرے آسمانوں میں مرکوز قرار دیا۔ کسی نے اس سے مختلف ترتیب بیان کی۔ عوام الناس نے بعض علماء کی ان تحریروں سے یہ اخذ کیا کہ شاید یہی اسلام کا موقف ہے اور یہی کچھ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسلام نے سورج کی زمین کے گرد گردش کے بارے میں کچھ نہیں کیا لیکن کچھ لوگوں نےاستنباط کرکے اس کو مذہبی عقیدہ بنا دیا۔ یہ تاثر کلیتاً غلط ہے۔ قرآن وحدیث کی کوئی ایک نص بھی اس تصور کی تائید نہیں کرتی۔ یہ موقف دراصل قدیم علماء ہیت کا تھا، جو یونانی فلسفے پر مبنی تھا۔ دینی کتابوں میں اس کے بیان ہوجانے کی وجہ سے اسے غلط طور پر دینی تعلیمات کی طرف منسوب کردیا گیا حالانکہ خود کئ علماء ان علماء کی قرآن و حدیث سے تردید کر چکے ہیں جو زمین کو ساکن کہتے ہیں۔اب اس کی دلیل میں ہم کچھ مثالیں دینا چاہیں گے۔
ملحدین سابق سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے فتوی دیا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گردش کرتا ہے جو زمین کو ساکن نہ مانے وہ کافر ہے۔ملحدین کا یہ اعتراض بالکل جھوٹ ہے۔ابتدا میں شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ ابتدا میں زمین کو ساکن مانتے تھے اور انہوں نے 1966ء میں اس پہ ایک مضمون لکھا تھا لیکن ان کے اس مضمون کی خود مسلمانوں نے شدید مذمت کی اور اسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دیا۔ان کے اس مضمون کا خود مسلمان خلاف مصری صحافیوں نے بھرپور مذاق اڑایا اور اس وقت کے سعودی حکمران شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ شیخ سے اتنا غصہ ہوئے کہ ان کے اس مضمون کی سب نقلیں تباہ کرنے کا حکم دے دیا۔یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت اور ان کے علماء یہاں تک کہ کئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم زمین کی گردش پہ متفق ہے۔ شیخ نے خود بعد میں اپنے سعودی دوست اور مشہور سعودی خلا باز شہزادہ سلطان بن سلمان کے کہنے پہ اپنے اس خیال کو ترک کر دیا جب انہوں نے ان کو اس کی شرعی اور سائنسی وضاحت دی اور کہا کہ انہوں نے سپیس شٹل ڈسکوری میں قیام کے دوران خلا میں خود زمین کو گردش کرتے دیکھا ہے۔لہذا شیخ اپنا یہ خیال ترک کر چکے تھے اور آن ہیں ساکن زمین کے خیال کا حامی کہنا بالکل بہتان ہے۔خود شیخ نے اس اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے کفر کا فتوی اس کے خلاف دیا جو سورج کو ساکن کہتے ہیں کیونکہ سورج نہ قرآن کے مطابق ساکن ہے اور نہ سائنس کے مطابق اور سورج کو ساکن کہنا قرآن کی واضح آیات کا انکار اور کفر ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی شیخ نے زمین کی گردش کو تسلیم کیا اور زمین کے ساکن ہونے کا اپنا خیال ترک کر دیا۔ اسی لیے سعودیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز نے فتوی دیا کہ جو مسلمان سائنس کی بنیاد پر یہ کہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے، تو وہ کافر ہو چکا ہے۔یہ جھوٹ ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت کعب احبار ساکن ارض و سما کے قائل تھے لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئ مستند حوالہ موجود نہیں۔
کچھ مستشرقین و ملحدین نے صحیح مسلم کی ایک حدیث سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک حدیث کے مطابق زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔صحیح مسلم کی وہ حدیث درج ذیل ہے۔
صحیح مسلم، کتاب الایمان :
ابوذر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج (غروب ہو کر) کہاں جاتا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ چلتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹہرنے کی جگہ عرش کے نیچے آجاتا ہے اور سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور سجدے میں ٹہرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اٹھنے کا (بلند ہونے) کا حکم ملتا ہے کہ جہاں سے آیا ہے وہیں پر لوٹ جا پھر صبح کو نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے پہنچ جاتا ہے اور پھر سجدہ میں پڑ جاتا ہے یہاں تک کہ اسے حکم ہوتا ہے کہ اٹھ کر جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا تو وہ لوٹ جاتا ہے پھر صبح کو اپنے نکلنے کی جگہ سے طلوع ہوتا ہے پھر اس طرح چلتا رہتا ہے پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کو اس کے چلنے میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنے ٹھہرنے کی جگہ عرش کے نیچے آ جائے گا پھر اسے کہا جائے گا کہ اٹھ اور مغرب کی طرف سے نکل چنانچہ وہ اس وقت مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔
اس حدیث پہ مستشرقین و ملحدین نے بہت اعتراض کیے ہیں کہ سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا اور گرم چشمے میں غروب ہونا جدید سائنس کے خلاف ہے۔مستشرقین اور ملحدین ایک ہی اعتراض بار بار کرتے ہیں۔اس حدیث پہ اعتراض کا جواب ہماری طرف سے ایک نہیں کئ بار دیا جا چکا ہے اور اس کی سائنسی و شرعی وضاحت پیش کی جا چکی ہے جو کہ درج ذیل لنکس پہ پڑھی جا سکتی ہے
https://m.prod.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/a.379044548829578.91507.379020948831938/785847404815955/?type=1&p=20
https://m.facebook.com/Religion.philosphy/posts/1892804607622829:0
http://www.urdufatwa.com/index.php…
جب ہماری طرف سے جواب مل گیا اور ملحدین کا یہ اعتراض ناکام رہا تو اس حدیث سے ایک ملحد نے نئی شرلی چھوڑنے کی کوشش کی ہے۔وہ یہ کہ حدیث میں سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے اور لوٹنے کا تذکرہ ہے۔لہذا سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔جب عقل پہ پردہ پڑ جائے تو پھر موجاں ہی موجاں۔حدیث میں سورج کی حرکت اس کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے کا تذکرہ موجود ہے لیکن حدیث میں کہیں مذکور نہیں ہے کہ زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے
ابن ابی حاتم اور ابوالشیخ نے حسان بن عطیہ سے روایت کیا ہے : الشمس و القمر و النجوم مسخرة فی فلک بين السماء و الارض. شمس و قمر اور تمام سیارگان، آسمان اور زمین کے درمیان اپنے فلک یعنی مدار (Orbit) میں گردش کررہے ہیں۔ (الدرالمنثور، 4 : 318) یہ ارشاد اس قرآنی آیت کی تعبیر میں وارد ہوا ہے : کُلٌّ فِيْ فَلَکٍ يَسْبَحُوْنَo تمام (آسمانی کرے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔ (الانبياء، 21 : 33) امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اورامام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : الفلک الذی بين السماء و الأرض من مجاری النجوم و الشمس و القمر. ’’فلک،، سے مراد آسمان اور زمین کے درمیان واقع مدار ہیں، جن میں تمام ستارے، سورج اور چاند (سمیت تمام اجرام فلکی) گردش کرتے ہیں۔ (تفسير الدرالمنثور، 4 : 318) اس امر کی وضاحت اس قول سے بھی ہوتی ہے : الفلک موج مکفوف تجري فيه الشمس و القمر و النجوم. ’’فلک،، آسمانوں کے نیچے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چانداور ستارے گردش کرتے ہیں۔ (تفسير کبير، 22 : 167) امام رازی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مزید بیان کیا ہے کہ فلک ستاروں کے مدار یعنی ان کی گردش کے راستوں کوکہتے ہیں: وهو فی کلام العرب کل شئي مستدير وجمعه أفلاک. لغت عرب میں ہر گول شے کو فلک کہتے ہیں اس کی جمع افلاک ہے۔ (تفسيرکبير، 22 : 167) امام ابوالبرکات نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک صراحت بیان فرمائی ہے : و الجمهور علی أن الفلک موج مکفوفٌ تحت السماء تجري فيه الشمس و القمر و النجوم. . . يسيرون اي يدورون جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ فلک آسمانوں کے نچیے خلا کا نام ہے جس میں سورج، چاند اور دیگر سیارے مستدیراً گردش کرتے ہیں۔ (تفسير المدارک، 3 : 78) اس لحاظ سے جتنے سیارے بھی خلا میں گردش کرتے ہیں، ہر ایک کا مدار اس کا فلک کہلاتا ہے۔اس طرح قرآن سورج،چاند اور زمین کی گردش کا تذکرہ کرتا ہے لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔
اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کے مطابق نہ زمین ساکن ہے اور نہ ہی سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔لہذا مغربی مستشرقین و ملحدین کا قرآن پہ یہ اعتراض محض الزام و بہتان ہے اور کچھ نہیں۔

حوالہ جات:
http://www.minhajbooks.com/ur.php…
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_فلکیات
http://forum.mohaddis.com/…/کائنات-ارض-و-سماء-کی-سائنسی-تح…/
http://www.answering-christianity.com/sun_orbit.htm
Image may contain: food

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔