Tuesday 29 January 2019

کیا سلطنت عثمانیہ کی مشہور عالم ینی چری فوج میں عیسائی بچوں اور غلاموں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا تھا؟ سلطنت عثمانیہ پہ لبرلز و ملحدین کا ایک اعتراض اور اس کا جواب

کیا سلطنت عثمانیہ کی مشہور عالم ینی چری فوج میں عیسائی بچوں اور غلاموں کو زبردستی بھرتی کیا جاتا تھا؟ سلطنت عثمانیہ پہ لبرلز و ملحدین کا ایک اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ینی چری فوج سلطنت عثمانیہ کی فوج کا اہم ترین جزو تھی جو شروع میں جنگی غلاموں اور تربیت یافتہ عیسائی بچوں پہ مشتمل تھی جو بڑے ہو کر اس کے سپاہی بنتے لیکن بعد ازاں اس میں مسلم عیسائی آزاد افراد سب کو شامل ہونے کی اجازت تھی۔ لبرلز و ملحدین کا سلطنت عثمانیہ پہ اعتراض ہے کہ ان بچوں کو اغوا کرکے یا زبردستی فوج نیں بھرتی کیا جاتا تھا جب کہ ایسا نہیں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مغربی مصنفین بالفور اور گڈون کے مطابق ینی چری( لفظی معنی نئے فوجی) سلطنت عثمانیہ کی افواج کا اہم اور اعلٰی پیادہ سپاہیوں پہ مشتمل حصہ تھے جو سلطان کے ذاتی محافظ اور پیادہ دستوں کا کردار ادا کرتے تھے۔ خود مغربی مورخین تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ فوج اتنی اعلٰی فوج تھی جو سلطان کے ذاتی محافظوں اور تجربہ کار ترین اور اعلٰی سپاہیوں پہ مشتمل تھی۔ اس صورت میں لبرلز و ملحدین کا یہ اعتراض کہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مفتوح قوموں کے بچوں کو زبردستی اس فوج میں بھرتی کرکے ان کا استحصال کیا جاتا تھا، بالکل جھوٹ ہے بلکہ یہ بچے بڑے ہو کر اپنے زمانے کی سب سے طاقتور سلطنت کی اتنی اعلٰی فوج کا اہم جزو بنتے تھے جو سلطان کی ذاتی محافظ اور فوجی دستوں میں اعلٰی ترین سماجی و دستوری اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ 1،2
ان کو مورخین نے سلطنت عثمانیہ کے House hold troops کا نام دیا ہے جو کہ جنگی اصطلاح میں سب سے تجربہ کار اور اعلٰی ترین جنگی یونٹ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ینی چری دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج تھی جو 14 ویں صدی میں تیار کی گئی اور 1826ء میں سلطان محمود ثانی نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ ینی چری ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب "نئی فوج" ہے (ینی مطلب نئی اور چری مطلب فوج)۔علاوہ ازیں ینی چری امن کے زمانے میں پولیس اہلکاروں، پولیس قومی رضاکاروں اور آگ بجھانے والے عملے کے طور پہ بھی کام کرتے۔3
عثمانی سلطنت نے تمام اہم مہمات میں ینی چری کا استعمال کیا جس میں فتح قسطنطنیہ 1453ء، مملوکوں کے خلاف فتوحات اور آسٹریا اور ہنگری کے خلاف جنگیں بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں ان کو  باقی فوجیوں سے الگ نظر آنے کے لیے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن یہ پابندی بھی ہمیشہ نہیں رہی۔سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ان کو داڑھی رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ابتدا میں ان کو شادیاں کرنے کی ریٹائرمنٹ یعنی 35_45 سال کی عمر تک اجازت نہیں تھی تاکہ یہ اپنے کام سے مکمل وفادار رہیں 1566ء میں سلطان سلیم ثانی نے ینی چری کو شادیاں کرنے کی بھی اجازت دے دی۔جنگ میں ینی چری دستوں کی قیادت ہمیشہ سلطان خود کرتا تھا۔ ان کی باقاعدہ تنخواہ اور پینشن تھی اور ان کو معاشرے میں اعلٰی مقام حاصل تھا۔4
غیر مسلم مورخ مارک ایل سٹائن خود Guarding the Frontier: Ottoman Border Forts and Garrisons in Europe میں لکھتا ہے کہ ان کی خاص وردی اور زائد منافع کے ساتھ خاطر خواہ تنخواہ ہوتی تھی۔5
جب تک عثمانی سلاطین نے ان پہ پابندیاں رکھیں سب کچھ ٹھیک رہا اور جب فوجی پابندیاں ہٹا لی گئیں ساری خرابیاں پیدا ہوگئیں۔1622ء میں ینی چری نے بغاوت کے دوران سلطان عثمان ثانی کو قتل کر دیا جو اصلاحات کرنا چاہتے تھے۔18 ویں صدی کے اوائل میں ینی چری حکومتی معاملات میں مداخلت کرنے لگے اور انہوں نے اچھا خاصا اثر و رسوخ قائم کر لیا۔ انہوں نے عسکری تنظیم کو جدید بنانے کے اقدامات کی مخالفت کی بلکہ اپنی محلاتی سازشوں کے ذریعے سلطانوں کو بھی تخت سے ہٹانے لگے اور وہ ریاست کے اندر ایک ریاست بن گئے جنہوں نے بارہا  بغاوت کی یہاں تک کہ بعض مواقع پہ تخت پہ ایک سلطان کو قتل کرکے اپنی مرضی کے سلطان بھی مقرر کئے۔ جب بھرتی کی حکمت عملی نرم کر دی گئی تو اس میں کافی لوگ شامل ہونے لگے جس سے سترہویں صدی کے بعد سلطنت کی فوجی برتری ماند پڑنے لگی اور سلطنت زوال پذیر ہونے لگی اور یہ فوج ملک کے بجٹ کے لیے بھاری ثابت ہوئی بعد میں۔
اس صورت حال میں محمود ثانی نے ینی چری کے خاتمے کا تہیہ کر لیا۔ 1826ء میں ینی چری نے محسوس کیا کہ سلطان نئی فوج تشکیل دینا چاہتا ہے اور 14 جون 1826ء کو انہوں نے استنبول میں بغاوت کردی لیکن اس مرتبہ فوج اور عوام ان کے خلاف ہو گئی۔ سلطان کے گھڑ سوار دستوں "سپاہیوں" نے انہیں چھاؤنیوں میں جالیا اور توپ خانے سے ان پر گولہ باری کی گئی جس کے نتیجے میں ینی چری کی بڑی تعداد ماری گئی اور اگلے دو سال کے اندر اندر ملک بھر سے ینی چری افواج کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ینی چری کے خاتمے کو ترکی زبان میں واقعۂ خیریہ (Vaka-i Hayriye) کہا جاتا ہے۔
اس ینی چری فوج نے جنگ میں نت نئے تجربات کئے اور 1605ء میں یہ یورپ کی پہلی فوجوں میں بن گئ جنہوں نے جنگ میں گولیوں کی بوچھاڑ کی گھومتی قطاریں استعمال کیں۔6
ینی چری دنیا کی پہلی باقاعدہ فوج تھی جس نے بارود کا استعمال کیا۔ اس نے 15 ویں صدی میں ہی بندوقوں کا استعمال شروع کیا۔ابتدا میں ینی چری ماہر تیر انداز تھے لیکن 1440ء کی دہائی میں بارود کی دستیابی پر انہوں نے بندوقیں سنبھال لیں۔یہ فوج جنگ میں تفنگ یا بندوق، گرینیڈ، توپیں اور پستول استعمال کرنے والی اولین فوجوں میں شامل تھی۔ ان کی جنگ کے لیے انجینئر، دھماکہ خیز مواد اور تکنیکی ماہرین بطور تربیت کی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قوت میں اور اضافہ ہوتا گیا اور سترہویں صدی عیسوی میں یہ حکومت کو اپنے ہاتھ میں کئے ہوئے تھے جو کہ ایک بار پھر اس الزام کی تردید کرتا ہے جس کے مطابق ان ینی چری فوجوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔ 1566ء میں سلطان سلیم دوم نے ان کو شادی کی اجازت دے دی۔1622ء میں یہ اتنے طاقتور ہو گئے کہ سلطنت کے لیے خطرہ بن گئے اور سلطنت کو نااہل ینی چری کی وجہ سے زوال کا شکار ہونا پڑا اور پے درپے فوجی شکستیں ہوئیں۔4
عثمانیوں نے سلطان مراد اول (1362–1389) کی قیادت میں سب سے پہلے جنگی ہر پانچ میں سے ایک جنگی قیدی کو اس فوج کے لیے مختص کیا۔7
غلاموں اور عیسائی بچوں کی اس فوج کو سلطنت عثمانیہ  اور عثمانی معاشرے میں اتنا اہم اور اعلٰی مقام حاصل تھا کہ ہر مسلم ترک خاندان کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ان کا بیٹا ینی چری میں بھرتی ہو لہٰذا 1683ء میں ینی چری کے غلام ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئ اور جب صرف عیسائی بچوں کی بھرتی کی پابندی ختم ہوئی تو ان معاشی و سماجی فوائد کو دیکھتے ہوئے ہزاروں ترکوں نے اپنے بچے اس فوج میں بھرتی کرائے۔ جس فوج میں اتنی معاشی و سماجی فوائد ہوں کہ آزاد لوگ اس فوج میں شامل ہونے کو ترسیں اس فوج کو لبرلز و ملحدین کس طرح جھوٹ بولتے ہوئے غلاموں اور اغوا شدہ بچوں کی فوج کہتے ہیں۔8
عثمانی سلطان کو ان کے والد کی حیثیت حاصل تھی اور یہ بچے سلطنت عثمانیہ کے سلطان کے بچے سمجھے جاتے تھے۔ ان کو اعلٰی تنخواہ ملتی، معاشرے میں ان کو اعلٰی مقام حاصل تھا اور جنگ میں حاصل کردہ مال غنیمت میں ان کو حصہ ملتا۔ مغربی مورخ گڈون کے مطابق ابتدا میں ان کو ریٹائرمنٹ تک جس کی حد 35_45سال تھی شادی کی اجازت نہیں تھی، بعد میں وہ شادی کر سکتے تھے، لیکن بعد ازاں یہ پابندی بھی ہٹا لی گئ اور نسل در نسل ان کے بچے فوج میں بھرتی ہونے لگے۔9
اور یہ بچے ہمیشہ نہیں بلکہ سلطنت کے ابتدائی دنوں میں ہر تین سے سات سال بعد لیے جاتے تھے۔اس زمانے میں اکثر فوجیوں کو باقاعدہ تنخواہ نہیں دی جاتی تھی جب کہ یہ باقاعدہ تنخواہ دار فوج تھی۔ ان میں سے کئ منتظم اور اہل علم بنتے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو پینشن دی جاتی اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی۔ سلطنت کے بعد کے دنوں میں ان کو فوجی معاملات کے علاوہ تجارت اور دیگر معاملات کی اجازت دینے سے سلطنت کو فوجی زوال کا سامنا کرنا پڑا اور سلطنت کی فوجی طاقت متاثر ہوئی۔
ابتدا میں اس میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم نوجوانوں کو اسلام قبول کرنے کے بعد شامل کیا جاتا تھا اور اس میں مفتوح قوموں سے ان خاندانوں کے بچے اور جنگی غلام لیے جاتے تھے جن کے غیر مسلم یا عیسائی والدین اپنے بچوں کو عثمانی فوج میں بھرتی کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن یہ بات مکمل جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں کہ مفتوح قوموں سے بچوں کو اغوا کرکے ان کو مسلمان بنا کر اس فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان کو سلطنت عثمانیہ میں اتنی عزت حاصل تھی کہ ان کا براہ راست تعلق سلطان سے ہوتا تھا۔یہ دنیا کی پہلی منظم اور باقاعدہ فوج تھی جسے سخت تربیت دی جاتی تھی۔ یہ باقاعدہ چھاؤنیوں کے اندر رہتے تھے اور زمانہ امن میں پولیس اور آگ بجھانے والے دستوں کا کام انجام دیتے تھے۔ انہیں ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے نقد تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ تنخواہیں کی ادائیگی کے وقت سلطان خود ینی چری کے لباس میں چھاؤنی آتا تھا اور خود بھی قطار میں لگ کر تنخواہ حاصل کرتا تھا۔10،11
اگرچہ ابتدا میں اس میں جنگی غلاموں اور عیسائی بچوں کو بھرتی کیا گیا لیکن مستقل طور پہ یہ سلسلہ نہیں رہا اور بعد ازاں باقی لوگوں کو بھی اس فوج میں شامل ہونے کی اجازت مل گئی لیکن اس میں زبردستی اغوا کرکے بھرتی کا نظام نہیں بلکہ ہر چالیس گھروں میں سے ایک گھر سے بچے لینے کا نظام ایک سرکاری ٹیکس تھا اور ان چالیس عیسائی گھروں سے اسی گھر سے بچہ لیا جاتا جس کے والدین اسے خوشی سے عثمانی سلطان کی تربیت میں دینے کے لیے راضی ہوتے اور لئے گئے بچے کو مکمل حقوق حاصل ہوتے تھے،وہ سلطان کا زیر تربیت سپاہی ہوتا اور تربیت کے بعد وہ سلطنت کی اعلٰی ترین فوج کا معزز فوجی ہوتا جس کا سرپرست براہ راست عثمانی سلطان ہوتا لیکن بعد ازاں سلطان مراد سوم( 1546_1566ء) کے بعد اس میں دیگر افراد کو بھی شامل کیا جانے لگا اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہ نظام مکمل ختم کر دیا گیا اور اس میں سب کو صلاحیت کے مطابق شامل ہونے کی اجازت تھی۔12
بعد ازاں 1683ء میں سلطان مراد چہارم نے عیسائی گھروں سے بچے لینے کا یہ سلسلہ ختم کر دیا اور ہر عیسائی مسلمان جو چاہتا اس میں شامل ہو سکتا تھا۔13
مغربی مورخ گلن اور ٹم کین کے مطابق  صرف 1380_1648ء تک عیسائی بچوں کو لیا گیا۔14
ابتدائی دنوں میں ہر طرح کے عیسائی بچے بھرتی کر لیے جاتے تھے لیکن جب بعد ازاں خود ہی عیسائیوں کی طرف سے اس فوج کے لیے پیش کیے جانے والے بچے زیادہ آنے لگے تو البانیہ، بوسنیا اور بلغاریہ کے بچوں کو ترجیج دی گئی۔15
اس ینی چری فوج کے کئ افراد نے بعد ازاں اپنے خاندانوں کے لیے اہم نام کمایا جس میں البانیہ کا سکندر بیگ اور بوسنیا کا محمد پاشا تھا جو تین سلاطین عثمانیہ کے دور میں وزیر اعظم منتحب ہوا اور چودہ سال سے زائد عرصہ در حقیقت سلطنت عثمانیہ کا اصل حکمران رہا۔16
سچ تو یہ ہے کہ ایک عیسائی مصنف Michael Goodyear
اپنے ایک مضمون The Devşirme: The Lifeblood of the Janissary Corps میں لکھتا ہے کہ خود عیسائی والدین اپنے بچوں کے بہتر اور اعلٰی مستقبل کے لیے اپنے بچوں کو اس فوج میں بھرتی کرتے تھے اور ان میں سے جو سلطنت عثمانیہ میں اعلٰی مقامات پہ فائز ہوتے اپنے والدین اور خاندان کے لیے معاون ثابت ہوتے تھے۔ مائیکل کے مطابق سلطنت عثمانیہ کی اس حکمت عملی نے غریب عیسائی افراد کے بچوں کو اس طرح ترقی کرنے کا موقع دیا اور مائیکل کے مطابق ایسے واقعات تک موجود ہیں جب عیسائی خود سلطنت عثمانیہ کے افسران کو رشوت کی پیشکش کرتے کہ وہ ان کے بچوں کو ینی چری فوج میں بھرتی کرا دیں جب کہ جو اپنے بچوں کو نہ بھیجنا چاہتے ان کی کوشش ہوتی کہ ہمارے بچے ہمارے ساتھ رہیں۔13
لہٰذا یہ بات مکمل جھوٹ ہے کہ یہ فوج میں اغوا کرکے زبردستی بھرتی کیے جاتے اور وہاں ان کا استحصال ہوتا۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو یہ فوج سلطنت عثمانیہ کی اتنی وفادار نہ ہوتی کہ سلطنت عثمانیہ اس فوج کی سرپرستی میں یورپ، افریقہ اور ایشیا میں وہ اعلٰی معرکے جیت سکے جو آج بھی ترکوں کی تاریخ کا شاندار پہلو ہیں۔ جس فوج کو اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت میں اتنا بڑا مقام حاصل ہو کہ خود سلطان ان کو ذاتی محافظ کے طور پہ رکھتا ہو، خود ان کے ساتھ قطار میں کھڑا ہوکر تنخواہ لیتا ہو اس فوج کو زبردستی بھرتی کیے گئے غیر مسلم افراد کی فوج کہنا بالکل جھوٹ اور تعصب پہ مبنی ہے۔
اور بات یہ ہے کہ ینی چری فوج میں ہمیشہ عیسائی افراد کے بچوں اور جنگی قیدیوں کو مسلمان کرکے بھرتی نہیں کیا جاتا تھا بلکہ تاریخ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ینی چری فوج کے ابتدائی دستے عیسائی بچوں اور جنگی غلاموں پہ مشتمل تھے جن کو یہ انتخاب دیا گیا کہ وہ رہائی کے بدلے میں اسلام قبول کرکے سلطنت عثمانیہ کی ینی چری فوج میں شریک ہو سکتے ہیں ورنہ جو شریک نہ ہوا اس پہ جنگی غلام کے دیگر قوانین برقرار رکھے گئے اور جو مسلمان ہو گیا اس کو عزت سے اس اعلٰی فوج میں بھرتی کر لیا گیا تھا۔ اس طرح مغربی مورخ نکول کے مطابق جہاں اور لوگ بیس سال سے کم جنگی غلاموں کو قتل کر ڈالتے تھے وہاں سلطنت عثمانیہ ان کو فوج میں بھرتی کر لیتی تھی۔17
سلطنت عثمانیہ کی طرف سے جنگی قیدیوں کو عزت کے ساتھ اپنی اعلٰی فوج میں بھرتی کرنا جنگی غلاموں کے ساتھ اس حیرانی سلوک سے ہزار گنا بہتر تھا جو روم و ایران اور صلیبی اپنے جنگی غلاموں کے ساتھ کرتے تھے اور خود مغربی مورخ ڈاکٹر   Dr. David Nicolle کے مطابق مشرق وسطی کے اسلامی معاشرے میں غلام کا تصور اس سے بہت مختلف تھا جو آج کل سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں مسلم غلام کو سترہویں صدی عیسوی تک وہ سب حقوق حاصل ہوتے تھے جو آج ایک عام فرد کو حاصل ہوتے ہیں۔ 18
بلکہ وہ فخر سے اپنے آپ کو غلام کہتے اور اتنے طاقتور ہوئے کہ ان میں سے بعض نے اپنی سلطنتیں تک قائم کیں جس کی ایک مثال مصر کے مملوک سلاطین ہیں۔
اس ینی چری فوج میں غیر مسلم افراد خصوصا عیسائیوں کے بھرتی شدہ بچوں کو معاشرے وہ اعلٰی معاشی و سماجی مقام حاصل تھا کہ خود غیر مسلم یونانی مورخ Dimitri Kitsikis اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ کئ عیسائی خاندان خود ینی چری فوج میں اپنے بچوں کو اس نظام کے تحت بھرتی کرنے کو خود تیار رہتے تھے جس کو ترک devşirme کہتے تھے کیوں کہ یہ نظام ینی چری فوج میں لیے گئے عیسائی بچوں کے لیے سماجی ترقی کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ بھرتی کیے گئے یہ بچے ایک دن ینی چری فوج میں کرنل یا مدبر بن سکتے تھے اور اپنے آبائی علاقے میں گورنر، گورنر جنرل یہاں تک کہ وزیر اعظم بن کر آسکتے تھے۔19
اس یورپی عیسائی مورخ کا اپنا یہ بیان لبرلز و ملحدین کے اس اعتراض کی تردید کرتا ہے جس کے مطابق ینی چری فوج میں عیسائیوں کے بچوں کو زبردستی اور اغوا کرکے بھرتی کیا جاتا تھا۔غلاموں، اقلیتوں اور مفتوح قوموں کو مسلمانوں کے سوا آج تک کسی قوم نے اتنے حقوق نہیں دیے۔ اس صورت میں لبرلز و ملحدین کس منہ سے کہتے ہیں کہ ینی چری فوج میں عیسائیوں کے بچوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔

حوالہ جات:

1:Balfour, Patrick; Kinross, Baron (1977). The Ottoman Centuries: The Rise and Fall of the Turkish Empire. London: Perennial. ISBN 978-0-688-08093-8.p.52
2:Goodwin, Jason (1998). Lords of the Horizons: A History of the Ottoman Empire. New York: H. Holt, 59,179–181. ISBN 0-8050-4081-1.
3:Goodwin, Godfrey (2001). The Janissaries. UK: Saqi Books. ISBN 978-0-86356-055-2; anecdotal and not scholarly says Aksan (1998), pp. 59, 179–181
4:Balfour, Patrick; Kinross, Baron (1977). The Ottoman Centuries: The Rise and Fall of the Turkish Empire. London: Perennial. ISBN 978-0-688-08093-8.p.292_295
5:Mark L. Stein, Guarding the Frontier: Ottoman Border Forts and Garrisons in Europe, (I.B. Tauris, 2007), 67.
6:Börekçi, Günhan (2006). "A Contribution to the Military Revolution Debate: The Janissaries' Use of Volley Fire During the Long Ottoman-Habsburg War of 1593–1606 and the Problem of Origins". Acta Orientalia Academiae Scientiarum Hungaricae. 59: 407–438.
7:Kafadar, Cemal (1995). Between Two Worlds: The Construction of the Ottoman State. University of California Press. pp. 111–3. ISBN 978-0-520-20600-7.
8:Ágoston, Gábor (2014). "Firearms and Military Adaptation: The Ottomans and the European Military Revolution, 1450–1800". Journal of World History. 25: 119–20.
9:Goodwin, Godfrey. 1997. The Janissaries. London, UK: Saqi Book Depot. ISBN 9780863560552
10:Uzunçarşılı, İsmail (1988). Osmanlı Devleti Teşkilatından Kapıkulu Ocakları: Acemi Ocağı ve Yeniçeri Ocağı. Ankara: Türk Tarih Kurumu. ISBN 975-16-0056-1, pp 66–67, 376–377, 405–406, 411–463, 482–483
11:https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ینی_چری
12:http://www.newworldencyclopedia.org/entry/Janissary#cite_note-Hook-2
13:https://balkaniumblog.wordpress.com/2017/01/07/the-devsirme-the-lifeblood-of-the-janissary-corps/
14:Hubbard, Glenn and Tim Kane. (2013) (2013). Balance: The Economics of Great Powers From Ancient Rome to Modern America. Simon & Schuster. pp. 152–154. ISBN 978-1-4767-0025-0.
15:Encyclopædia Britannica. Eleventh Edition, vol. 15, p 151.
16:Imamović, Mustafa (1996). Historija Bošnjaka. Sarajevo: BZK Preporod. ISBN 9958-815-00-1
17:Nicolle, David, and Christa Hook. 1995. The Janissaries. Elite series, 58. London, UK: Osprey. ISBN 9781855324138
18:https://www.realmofhistory.com/2018/06/19/facts-ottoman-janissaries/
19:Kitsikis, Dimitri (1996). Türk Yunan İmparatorluğu. Istanbul,Simurg Kitabevi

مکمل تحریر >>

Monday 28 January 2019

کیا سومنات کا مندر واقعی محمود غزنوی نے گرایا یا انگریز کی سازش؟؟؟

کیا سومنات کا مندر واقعی محمود غزنوی نے گرایا یا انگریز کی سازش؟؟؟
تحریر:۰ سالار سکندر
 ﺭﻭﻣﯿﻼ ﺗﮭﺎﭘﺮ ﻧﮯ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﭘﺎﮎ ﻭﮨﻨﺪ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺭﮮ ﮐﯽ ﺑﺪﺩﯾﺎﻧﺘﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ : ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ‏( Somantha: the many voices of history ‏) ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺷﻮﺍﮨﺪ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﯽ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺑﺖ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﻧﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺳﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﻏﺰﻧﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ، ﯾﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺍﺷﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﻭٔﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺱ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺑﺪﺩﯾﺎﻧﺘﯽ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﮐﯽ 1843 ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺤﺚ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ‏( The proclamation of gates ‏) ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﺮﺁﻣﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﺤﺚ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﻨﺮﻝ ﻻﺭﮈ ﺍﯾﻠﻦ ﺑﺮﻭ ‏( Ellen brough ‏) ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ،ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﻨﺪﺭ ﺳﮯ ﺻﻨﺪﻝ ﮐﯽ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺍﮐﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﻏﺰﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ، ﯾﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﺛﺎﺛﮧ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ﭘﺎﺭﻟﯿﻤﻨﭧ ﮐﯽ ﺑﺤﺚ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﮨﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺑﺤﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ۔

ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺑﺤﺚ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﻘﺼﺪ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻼﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﭘﺮ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﺎ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﭘﺮ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﮨﮯ۔ ﯾﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ﻏﺰﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺩﺭﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﮭﺎﮌﺍ ﮔﯿﺎ ۔ ﺟﺐ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﻨﻨﺪﮦ ﺁﯾﺎﺕِ ﻗﺮﺍٓﻧﯽ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﻧﮉﺍ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﻠﻖ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﺮﮦ ﮐﮯ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﮯ ﺍﺳﭩﻮﺭ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﯽ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﻮ ﻣﺘﻌﺼﺐ ﮨﻨﺪﻭﻭٔﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﻌﻞِ ﺭﺍﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻨﺪﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮﻏﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﻢ ﻣﻨﺸﯽ ﺗﮭﺎ، ﺟﺲ ﻧﮯ ﮔﺠﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻟﮑﮭﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﻋﻼﻣﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﮭﺎﻥ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ۔
ﺗﻤﺎﻡ ﮨﻨﺪﻭ ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﺎ، ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﺗﻮﮌ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﺩﮦ ﺍﺳﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮ ﺟﺬﺑﺎﺗﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﺖ ﺷﮑﻦ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﭘﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﻭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﻼﺑﮯ ﻣﻼﺋﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺭﻭﻣﯿﻼ ﺗﮭﺎﭘﺮ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺻﻞ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﺂﺧﺬ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺗﻮ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﺑﮍﮮ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﯿﻦ ﻣﺖ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻮﺍﺩ ﺳﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﺪﺭﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﮐﻮ ﻭﮦ ﻣﮩﺎﻭﯾﺮﮐﯽ ﺷﯿﻮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺭﻭﻣﯿﻼ ﺗﮭﺎ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﯿﻦ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﻮﺍﺩ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﻮﭦ ﻣﺎﺭ ﮐﺎ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﻣﻠﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺫﮐﺮ ﺗﮏ ﻧﮧ ﻣﻼ۔
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮐﮯ ﮨﻨﺪﻭ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺷﺪﯾﺪ ﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺏ ﺳﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﯽ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﻮ۔ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺟﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﮐﮯ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﻣﺂﺧﺬ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﯿﺴﮯ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﮨﻨﺪﻭ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺟﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ، ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻨﺪﻭ ﺭﺍﺟﮧ ﻧﮯ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺗﺎﺟﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺭﻭﻣﯿﻼ ﺗﮭﺎ ﭘﺮ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮨﺮﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺘﺒﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﻼ ،ﺟﻮ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺩﻓﺎﻉ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ۔

ﯾﮧ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺑﺪﺩﯾﺎﻧﺘﯽ ﮐﺐ ﺷﺮﻭ ﻉ ﮨﻮﺋﯽ؟؟؟
 1872 ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﻣﻮﺭﺧﯿﮟ H.M.Elliot ﺍﻭﺭ Ed.John Dowson ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯽ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﮭﺎ ‏( History of India as told by its own historians ‏) ﺍِﺱ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﻮ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻣﻘﺼﺪ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻘﺴﻢ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﺳﺖ ﻭ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﭘﻨﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ۔
ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺣﻤﻠﮧ ﺁﻭﺭ ﺧﻮﻧﺨﻮﺍﺭ ﮨﯿﮟ، ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺷﺪﺕ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺻﺮﻑ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮨﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﭘﺎﮎ ﻭﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻧﺼﺎﺏ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﻟﭩﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭﻧﮓ ﺯﯾﺐ ﻇﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﯿﺎ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﯿﺌﮯ، ﺍﻧﺎﺭ ﮐﻠﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺘﺎ ﺟﺎﮔﺘﺎ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺗﮭﯽ، ﺍﮐﺒﺮ ﺑﮩﺖ ﺭﻭﺍﺩﺍﺭ ﺗﮭﺎ، ﺍﯾﺴﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﮐﮩﺎﻧﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺩﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﻣﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﻨﺎ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺟﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ’’ ﭼﮭﻮﻻ ‘‘ ﺍﻭﺭ ’’ ﭼﺎﻟﻮﮐﺎ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺟﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺨﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ‏( Epigraphic account ‏) ﺑﺘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻟﻮﭨﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮬﺎﮎ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ.
 642 ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﻧﺮﺳﻤﮩﺎﻭﻣِﻦ ﺟﻮ ’’ ﭘﺎﻟﻮﺍ ‘‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ’’ ﭼﺎﻟﻮ ﮐﺎ ‘‘ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﻭﺍﭘﺘﯽ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮔﻨﯿﺶ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺗﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ’’ ﭼﺎﻟﻮ ﮐﺎ ‘‘ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻭﻧﺎﺩﺗﯿﺎ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﮔﻨﯿﺶ ﮐﯽ ﻣﻮﺭﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﻨﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﻨﺎ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﻣﻮﺭﺗﯿﺎﮞﺪﮐﻦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺭﺍﺷﺘﺮﺍ ﮐﻮﺗﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮔﻮﻧﺪﺍ ﻧﮯ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﻨﭽﯽ ﭘﻮﺭﻡ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﯼ ﻟﻨﮑﺎ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺖ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺷﯿﻮ ﮐﮯ ﻣﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮯ۔ ﺍﺟﻨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻮﺭﺍ ﮐﯽ ﺑﺪﮪ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻮ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﮕﺎ ﮐﯽ ﻣﻮﺭﺗﯿﺎﮞ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻣﻨﺪﺭ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔
 ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺳﯽ ﭘﻮﻟﺲ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﻧﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺪﺩﯾﺎﻧﺘﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﻨﺪﺭﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﻻ ﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻣﺪ ﺳﮯ ﭼﮫ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ ﺟﻼ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭ ﺭ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﺟﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﮭﻮﭦ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺲ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﻮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺲ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﺑﻐﺾ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﻣﻨﺎﺕ ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ۔
مکمل تحریر >>

کیا قرآن کا واقعہ ذوالقرنین پہلی صدی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس کی کتاب Antiquity of Jewsسے لیا گیا ہے؟ قرآن پاک پر ملحدین و مستشرقین کا ایک اور اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب

کیا قرآن کا واقعہ ذوالقرنین پہلی صدی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس کی کتاب Antiquity of Jewsسے لیا گیا ہے؟
قرآن پاک پر ملحدین و مستشرقین کا ایک اور اعتراض اور اس کا تحقیقی جواب
تدوین و تحریر۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
قرآن پاک پر ملحدین و مستشرقین کا ایک اور سنگین اعتراض یہ ہے کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ پہلی صدی عیسوی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس کی کتاب Antiquity of jews سے لیا گیا ہے۔آج تک اس اعتراض کا عالم اسلام میں مکمل اور تحقیقاتی جواب نہیں دیا گیا تھا۔لہذا یہ لازمی تھا کہ اس پر مکمل تحقیق کے بعد اس کا جواب مرتب کیا جائے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
    پہلی صدی عیسوی کے یہودی مورخ فلیویس جوزیفس نے اپنی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کے کے باب Jewish Wars VII  میں لکھا ہے
"ایلنز۔۔۔Alans...کی ایک قوم جسے ہم پہلے سکتھین۔۔۔Sycthian...قرار دے چکے ہیں،ان راستوں سے گزر کر آتی تھی جن کوسکندر نے لوہے کے دروازوں سے بند کر دیا۔"
فلیویس جوزیفس کا یہ واقعہ قرآن کے واقعہ ذوالقرنین سے کسی حد تک مشابہت رکھتا تھا جس میں حضرت ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے شر سے عوام کو محفوظ کرنے کے لیے ان کے پہاڑی راستوں پر ایک دیوار تعمیر کر دی تھی۔جوزیفس یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سکتھین لوگ یاجوج ماجوج تھے۔فلیویس جوزیفس کے بیان کردہ اس واقعے کی بنیاد پر مستشرقین و ملحدین نے قرآن پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ فلیویس جوزیفس سے لیا گیا ہے۔اینڈریو رنی اینڈرسن کے مطابق یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ قرآن کے واقعہ ذوالقرنین کے کچھ عناصر نزول قرآن سے پانچ سو سال قبل تحریری صورت میں موجود تھے اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔ملحدین و مستشرقین کا محض فرضی اندازوں کی بنیاد پر  کہنا ہے کہ اس کتاب کا کوئ عربی نسخہ حجاز میں میسر ہوگا جہاں سے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ لے کر اسے قرآن میں نقل کر دیا۔کچھ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ یہ عربی نسخہ قرآن سے پہلے موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔
اس الزام کی حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان تحریری صورت میں نزول قرآن سے پہلے شاذ و نادر ہی موجود تھی اور جو موجود تھی وہ پتھروں اور چٹانوں پر کندہ حالات و شاعری کے بارے میں تھی۔اگر فلیویس جوزیفس کی کتاب کا یہ عربی نسخہ عرب میں موجود تھا تواس زمانے کی  عرب تاریخ کی کسی بھی کتاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں آیا۔نہ ہی کوئ مسلم یا غیر مسلم مورخ یہ دعوی کرتا ہے۔آج تک ملحدین و مستشرقین اس کے اس عربی نسخے کا کوئ ثبوت نہیں دے سکے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ یا اس سے قبل عرب میں موجود رہا ہو۔نہ ہی اس زمانے میں تحریری صورت میں موجود کوئ یہودی ادب عرب میں فروغ پذیر تھا۔دوسری بات یہ کہ قرآن کی سورہ کہف جس میں واقعہ ذوالقرنین بیان کیا گیا ہے،مکہ مکرمہ میں نازل ہوئ جب کہ یہود کا مسکن مدینہ تھا۔اگر نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیمات پہلے ہی کسی یہودی عالم سے حاصل کر رکھی تھی تو اس کا ثبوت ملحدین و مستشرقین آج تک کیوں نہیں دے سکے۔یہ بات حقیقت ہے کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کا کوئ عربی نسخہ مکہ مکرمہ یا عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود نہیں تھا اور اس طرح قرآن کا واقعہ ذوالقرنین اپنے بیان میں خالص ہے۔
یہ بات یاد رکھیں کہ جو بات جوزیفس یا کوئ اور سکندر اعظم کے حوالے سے اس طرح کی کہتا ہے جو قرآن نے ذوالقرنین کے بارے میں کہی ہے،اس کی ذاتی رائے ہے۔بذات خود فلیویس جوزیفس کتنا قابل اعتماد ہے۔اس کے لیے جوزیفس کی کتاب کے ماہر لوئس فیلڈمین کی رائے پر غور کیجیے۔اس کا کہنا ہے کہ فلیویس جوزیفس کے زمانے یعنی پہلی صدی عیسوی میں یہود کے بارے میں روم میں کئ غلط فہمیاں موجود تھیں۔خصوصا یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہود میں کوئ قابل ذکر تاریخی شخصیت موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئ تاریخ موجود ہے۔ان کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کا رویہ غیر یہود سے بہت متعصبانہ ہے اور وہ وفاداری،قانون کے احترام اور سخاوت سے عاری ہیں۔ان الزامات کی وجہ سے فلیویس جوزیفس یا جوزف بن متھیاس  نے یہودی تاریخ کا ایک یونانی مجموعہ لکھنے کا فیصلہ کیا۔تاریخ میں ایسی تصنیف کو Apologia یا معذرت نامہ کہا جاتا ہے جس میں ایک گروہ یا قوم دوسری بڑی قوم کے سامنے گڑگڑاتی اور اپنی صفائی پیش کرتی ہے۔ یونانیوں اور رومیوں کو خوش کرنے کے لیے فلیویس جوزیفس نے یہود کی اصل تاریخ کے کئ حقائق اپنی تصنیف میں چھپا لیے بلکہ یہود کی تاریخ کو یونانی رنگ دینے کی کوشش بھی کی۔واقعہ ذوالقرنین بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں اس نے ذوالقرنین سے منسوب سب واقعات کو سکندر اعظم مقدونی کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی۔بحیرہ احمر پار کرنے کے دوران حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کہی گئ ایک نظم کی یہودی تاریخ  بھی جوزیفس نے چھپا لی۔اس نے اس کتاب میں یہود کی کئ اہم شخصیات جیسا کہ موسٰی علیہ السلام کو یونانی و فلسفیانہ شخصیات کے طرز پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اس کام میں جوزیفس کے معاون یونانی تھے۔ان میں سے دو جوزیفس کی تصنیف کے بعد کے بابوں میں بہت نمایاں ہیں جس سے لگتا ہے کہ مصنف نے یہاں کتاب کی تدوین مکمل طور پر ان کے حوالے کر دی ہے۔باب پندرہ سولہ ایک ایسے معاون کی تصنیف ہیں جس نے یہودی جنگوں کی تاریخ پر بھی کام کیا جو کہ یونانی شاعروں کا بہت مداح ہے۔اس ساری بحث سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فلیویس جوزیفس نے کس طرح اپنے رومن آقا کو خوش کرنے کے لیے تاریخ میں ردو بدل کیا اور تاریخ یہود سے منسوب کئ واقعات کی نسبت مشہور یونانی افراد کی طرف کی جن میں سے ایک واقعہ ذوالقرنین بھی ہے۔
فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کی تمام موجودہ  نقول عیسائ ذرائع سے میسر ہوئ ہیں جن میں کچھ متنازعہ  جملوں میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا ذکر بھی ہے۔اگر یہ حقیقی ہے تو یہ وحی کے علاوہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے وجود کا واضح تاریخی ثبوت ہے۔
اب اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب اینٹی کوٹی آف جیوز کے نسخوں کی تاریخ کیا ہے تو یہ بات ہم پر واضح ہوتی ہے کہ اس کا پہلا مکمل یونانی نسخہ The Ambrosiana 370 or F128  گیارویں صدی عیسوی کا ہے جوملن میں  ببلیو تھیکا امبروسیانا میں موجود ہے۔آج تک اس کتاب کا موجود کوئ نسخہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا جس کی عمر کا اندازہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے گیارویں صدی عیسوی سے پہلے کا لگایا جائے اور قدیم ترین نسخے سارے کے سارے یونانی ہیں،کوئ بھی عربی نسخہ نہیں۔اور جو موجود ہیں ان کے بارے میں خود یورپی مورخین کا کہنا ہے کہ ان میں بار بار تبدیلیاں اور اضافہ کیا گیا۔جوزیفس کے موجود 120 نسخے یونانی ہیں جن میں سے تینتیس چودہویں صدی عیسوی سے قبل کے ہیں اور ان میں سے بھی دو تہائی گیارویں سے بارہویں صدی عیسوی کے درمیان کے Comnenoi period کے ہیں۔
    اب اس ساری بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب کا عربی نسخہ تو دور کی بات، کوئ موجود یونانی  نسخہ بھی  ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔جب موجود کوئ بھی نسخہ خواہ یونانی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ سو سال بعد مرتب ہونے والے نسخے کی بنیاد پر یہ اعتراض کیسے کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ جوزیفس میں موجود تھا اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا۔یہ الزام ثابت کرنے کے لیے پہلے ملحدین و مستشرقین ہمیں جوزیفس کا ایک ایسا یونانی یا عربی نسخہ لا کے دیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا اس سے قبل کا ہو اور پھر ہمیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائیں کہ یہ واقعہ اس وقت جوزیفس کی کتاب میں موجود تھا۔جب کہ آج تک ملحدین و مستشرقین ایسا نہیں کر سکے اور دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خود جوزیفس میں بار بار تبدیلیاں اور اضافہ کیا گیا تو یہ بات عین ممکن ہے کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کے رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخوں میں اسلام سے متاثر ہوکر واقعہ ذوالقرنین سکندر سے منسوب کر کے نقل کیا گیا بالکل اسی طرح یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جوزیفس میں قرآن سے نقل کر کے سکندر کی طرف منسوب کر کے لکھا گیا۔اگر یہ تاریخی حقائق دیکھے جائیں تو چوری کا الزام قرآن پر نہیں بلکہ شامی رومانس آف الگزینڈر اور جوزیفس پر آتا ہے۔
    دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ فلیویس جوزیفس کی کتاب کا پہلا عربی نسخہ 1971ء میں شولمو پائنز نے  دریافت کیا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تین سو سال بعد دسویں صدی عیسوی میں بشپ  اگاپیس ہیراپولس۔۔۔Agapius Hierapolis.... نے لکھا تھا۔اسی شولمو پائنز نے جوزیفس کا بارہویں صدی عیسوی کا ایک شامی نسخہ بھی دریافت کیا جو کہ مائیکل شامی کا تحریر کردہ ہے۔لیکن کوئ نسخہ آج تک شامی یا عربی دریافت نہیں ہوسکا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا یا اس سے قبل کا ہو جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ نعوذ بااللہ وہاں سے نقل کیا۔اگر ایسا نسخہ مل بھی جائے تو یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ وہاں سے نقل کیا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور نہ ہی کسی یہودی یا عیسائ عالم سے یا کسی بھی اور سے تعلیم حاصل کی تھی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعات پڑھاتا۔
میں نے بہت کوشش کی مجھے فلیویس جوزیفس کا کوئ ایسا عربی یا شامی نسخہ مل جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا اس سے قبل کا ہو لیکن مجھے کوئ نسخہ ایسا نہیں ملا اور نہ ہی مورخین کو آج تک اس کا کوئ ثبوت ملا ہے۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام دینا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے نقل کیا،سراسر بہتان اور جھوٹ ہے۔
    دوسری بات یہ کہ ذوالقرنین کا تذکرہ اور نام سکندر اعظم سے بہت پہلے بھی موجود تھا لہذا یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ سکندر اعظم کی شخصیت سے مرعوب لوگوں نے ذوالقرنین سے منسوب واقعات کی نسبت سکندر اعظم کی طرف کر دی اور جب قرآن نے ذوالقرنین کے واقعات نقل کیے تو قرآن پر یہ الزام عائد کر دیا گیا کہ قرآن نے یہ واقعہ نعوذ بااللہ دوسرے ذرائع سے نقل کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھنے والے یہودی ربی لازمی ذوالقرنین کے بارے میں جانتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کے ثبوت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش مکہ کے مدینہ سے بلائے جانے پر ذوالقرنین کے بارے میں وہ بات پوچھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا وہاں کے عرب بالکل نہ جانتے ہوں۔
      ذوالقرنین کو یہود میں بالقرنین  بھی کہا جاتا تھا۔مائیکل لنڈیمنز کے مطابق اندازہ ایک ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ کی پرانی تہذیب فونیشیا  کے ایک دیوتا کا نام بالقرنین تھا۔تاریخ کے مطابق سریانی  و فونشین لفظ بال قدیم شام و فلسطین کی شمال مغربی سامی زبانوں میں عزت کے طور پر معزز افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا اور یہ بات ایک ہزار قبل مسیح کی ہے یعنی سکندر اعظم سے سات سو سال قبل۔بعد میں یہ لفظ دیوتاؤں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن میں کہلائے جانے والے ذوالقرنین اورقدیم  یہود میں مشہور بالقرنین سکندر اعظم سے بہت پہلے زمانہ قبل از تاریخ کی کوئ مشہور شخصیت تھے جن کے واقعات کی نسبت بعد میں لوگوں نے سکندر اعظم کی طرف کردی۔بال کا لفظ قدیم شام و فلسطین کی کئ تحریروں میں کندہ کیا ہوا ملا ہے۔اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان بال کہلائے جانے والے معزز افراد میں سے ایک بالقرنین یا ذوالقرنین بھی تھے۔بال کا لفظ یہود کے سریانی ادب میں مختلف دیوتاؤں کے لیے نوے بار استعمال ہوا ہے۔
         یہودی مذہبی کتاب تناخ یا سریانی بائیبل کے قدیم ترین نسخے گیارویں صدی سے دسویں صدی قبل مسیح کے ہیں۔جب کہ سب سے نیا باب Pentateuch چھٹی صدی قبل مسیح میں مرتب کیا گیا۔قرطبی کی روایت کے مطابق یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایک ایسے نبی کا نام بتائیں جن کا ذکر تورات میں صرف ایک بار ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ وہ ذوالقرنین ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ذوالقرنین کا ذکر قدیم تورات میں موجود تھا لیکن جدید تورات میں نہیں کیوں کہ سالانہ ایڈیشن کے ساتھ یہ بہت سی تحریفات سے گزر چکی ہے اور تورات سکندر اعظم سے قبل کی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ذوالقرنین کا ذکر سکندر اعظم سے بہت پہلے ایک حقیقت کے طور پر  موجود تھا اور قرآن کو یہ الزام دینا کہ اس نے یہ واقعہ رومانس آف الگزینڈر یا جوزیفس سے نقل کیا،سراسر بہتان ہے کیونکہ جب ایک بات حقیقت ہو تو اس کا مختلف کتابوں میں بیان ایک کتاب کا دوسری کتاب سے نقل نہیں کہلاتا بلکہ ایک مشترکہ سچائی کا مختلف صورتوں میں بیان کہلاتا ہے کیونکہ چوری کے جھوٹ  الزام کی بنیاد پر حقائق نہیں بدلے جاتے خواہ مشابہت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
     کچھ علماء کے مطابق ذوالقرنین کا تذکرہ یہود کی تاریخی و مذہبی کتاب تلمود میں بھی موجود ہے اور تلمود کا ایک حصہ مشنہ ہے جو دوسو قبل مسیح میں زبانی یاد تورات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا اور دوسرا حصہ گیمارہ ہے جو پانچ سو قبل مسیح میں مرتب کیا گیا یعنی سکندر اعظم سے بہت پہلے۔یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ذوالقرنین کا ذکر سکندر اعظم سے بہت پہلے ہی موجود تھا اور وہ ایک حقیقی شخصیت تھے۔اب یہ کہنا کہ ذوالقرنین ایک فرضی شخصیت تھے اور نعوذ بااللہ قرآن نے یہ فرضی واقعات جوزیفس سے نقل کیے،سراسر بہتان ہے۔بعد میں یونانی یہود اور کچھ عیسائیوں نے ان واقعات کی نسبت سکندر اعظم کی طرف کر دی اور لوگوں نے یہ گمان کیا کہ ذوالقرنین سکندر اعظم ہے اور قرآن نے واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر یا جوزیفس سے نقل کیا ہے جب کہ مذہبی اور تاریخی حقائق ہمیں دوسری کہانی بتا رہے ہیں۔
یاجوج موجوج کے واقعے کی طرح لوگوں نے دیوار چین کی نسبت بھی سکندر اعظم کی طرف کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دیوار سکندر اعظم سے انیس سو سال پہلے یعنی 2200 قبل مسیح میں تعمیر کی جا چکی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ حقائق کیسے مسخ کر دیے جاتے ہیں،اس کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں۔خود سکندر کی طرف سے کسی بھی دیوار کی تعمیر تاریخی طور پر آج تک ثابت نہیں ہوسکی اور اس طرح مذہبی کے علاوہ تاریخی طور پر بھی ذوالقرنین کے واقعہ  یاجوج ماجوج کو سکندر اعظم سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے اور تاریخ کے مطابق وسط ایشیا اور کاکیشس کی دیواریں سکندر اعظم نے نہیں بلکہ اس سے دوسو سال پہلے قدیم ایرانی و فارسی بادشاہوں نے تعمیر کی تھی۔ان دیواروں کی تعمیر قدیم ایرانی،ہندی اور چینی حکمرانوں کی طرف سے تاریخی طور پر ثابت ہے اور اس زمانے میں دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لیے یہ رواج عام تھا۔لہذا جب قرآن یاجوج ماجوج کے خلاف ذوالقرنین کی طرف سے ایک دیوار کی تعمیر کا ذکر کرتا ہے تو یہ بات ہمیں اس وقت  کے تاریخی حقائق کے بالکل مطابق معلوم ہوتی ہے۔لیکن بخاری میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہا کی بیان کردہ ایک روایت کے مطابق اس وقت اس دیوار میں ایک سوراخ ہوچکا تھا اور اب اس دیوار کو دنیا میں ڈھونڈنا یا محض اس کے عدم وجود کی بنیاد پر اس حدیث کا انکار کرنا غلط ہے۔
مزید تاریخی حقائق جو ذوالقرنین کو سکندر اعظم سے بہت پہلے کی شخصیت ثابت کرتے ہیں  ان میں سے ایک مقریزی کا ہے جس میں وہ ذوالقرنین کو یمنی قرار دیتے ہیں اور ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جو ان کو رومی،ایرانی یا سکندر اعظم قرار دیتے ہیں۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قدیم ایرانی بھی ذوالقرنین کے وجود اور شخصیت کے قائل تھے۔
     ذوالقرنین کے وجود اور سکندر اعظم سے بہت پہلے ہونے کے اور تاریخی حقائق ہمیں  حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکرے سے ملتے ہیں جن کے مطابق وہ ایک ایسا تاج پہنتے تھے جس پر دو سینگ بنے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے ان کو ذوالقرنین بھی کہا جاتا تھا اور تاریخ کے مطابق کئ ہزار سال قبل  یہ رواج تھا کہ معزز لوگ ایسا تاج پہنتے تھے جس پر دو سینگ بنے ہوتے تھے جیسا کہ زبور میں ہے کہ میں فرمانبرداروں کے سینگ اونچے کروں گا اور شریروں کے سینگ کاٹ ڈالوں گا(زبور 75:4)۔
  اس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوسینگوں والا تاج پہننا ایک قدیم رواج تھا اور محض اس بنیاد پر سکندر اعظم کو ذوالقرنین قرار دینا اور ذوالقرنین سے منسوب سب واقعات کو سکندر اعظم سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔اب تک کی بحث سے ہم نے آج سے تین ہزار سال یا اس سے پہلے یعنی سکندر اعظم سے بہت قبل  بال یا معزز شخص کہلائے جانے والے افراد بھی موجود تھے اور ان میں سے ایک شخص قرنین بھی تھے جن کو بالقرنین یا ذوالقرنین کہا جاتا ہے۔
قبل از تاریخ کے قدیم ایرانی لوگوں میں بھی ذوالقرنین کا نام موجود  تھا۔الجوزی لکھتے ہیں
کتاب المنتظم فی تاريخ الأمم والملوك از ابن الجوزی (المتوفى: 597هـ) کے مطابق
الخضر قَدْ كَانَ قبل موسى، قَالَ الطبري : كَانَ فِي أَيَّام أفريدُونَ الْمَلِك بْن أثفيان. قَالَ: وقيل: إنه كَانَ عَلَى مقدمة ذي الْقَرْنَيْنِ الأكبر، الَّذِي كَانَ أَيَّام إِبْرَاهِيم.
وذي الْقَرْنَيْنِ عِنْدَ قوم هُوَ أفريدُونَ، وزعم بَعْضهم أَنَّهُ من ولد من كَانَ آمن بالخليل عَلَيْهِ السَّلام، وهاجر مَعَهُ من أرض بابل.
وَقَالَ عَبْد اللَّهِ بْن شوذب: الخضر من ولد فارس .
وَقَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من سبط هَارُون بْن عمران.
وقول من قَالَ: إنه كَانَ فِي زمان أفريدُونَ أَكْثَر من ألف سَنَة، والخضر قديم إلا أَنَّهُ لما كَانَ ذكره لَمْ ينبغ إلا في زمان موسى ذكرناه هاهنا.
اور  ذكر ملك أفريدون میں ابن اثیر کے مطابق
وهو أفريدون بن أثغيان ، وهو من ولد جم شيد . وقد زعم بعض نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ، وسلبه ملكه ، وزعم بعضهم أن أفريدون هو ذو القرنين صاحب إبراهيم الذي ذكره الله في كلامه العزيز ، وإنما ذكرته في هذا الموضع لأن قصته في أولاده الثلاثة شبيهة بقصةنوح على ما سيأتي ولحسن سيرته ، وهلاك الضحاك على يديه ، ولأنه قيل إن هلاك الضحاك كان على يد نوح .
اس ساری عربی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ خضر اور موسٰی علیہ السلام ہم عصر تھے اور ذوالقرنین ان دونوں حضرات سے بھی پہلے کی ایک شخصیت تھے جب تاریخ لکھنے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔زمانہ قبل از تاریخ کے قدیم ایرانی و فارسی لوگوں کے مطابق افریدون بن الغثیان ایرانی بادشاہ جو جمشید کی اولاد سے تھا،ذوالقرنین تھا۔جمشید اور افریدون زرتشت مذہب کے پیروکاروں کے مطابق پیغمبر تھے۔
     میری ساری تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ھے کہ ذوالقرنین ایک فرضی شخصیت نہیں بلکہ سکندر اعظم سے بھی پہلے شاید زمانہ قبل از تاریخ کی ایک نامور شخصیت تھے جن کا ذکر کئ تہذیبوں میں موجود تھا اور قرآن نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے بالکل نہیں لیا کیونکہ جب حقیقت ایک ہو تو اس کا بیان بھی ایک ہی ہوتا ہے اور مشترکہ سچائی کا مختلف صورتوں میں بیان ایک کی طرف سے دوسرے کی چوری نہیں کہلاتا  اورجوزیفس کا کوئ عربی نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس سے قبل موجود نہیں تھا اور قرآن پر یہ الزام کہ قرآن نے واقعہ ذوالقرنین فلیویس جوزیفس سے لیا  سراسر بہتان،فریب  اور جھوٹ پر مبنی اور قرآن سے بد ظن کرنے کے لیے ایک مکارانہ  اور پر فریب کوشش ہے۔
ھذا ما عندی۔و اللہ اعلم  باالصواب

مکمل تحریر >>

ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام سائنس کا دشمن ہے۔اسلام کے سائنسی انکشافات پر تفصیل کے لیے اس لنک پر کتاب ڈاؤن لوڈ کیجئے۔یہاں آپ کو اسلام پر ملحدین کے کئ سائنسی اعتراضات کے جوابات مل جائیں گے

ملحدین کہتے ہیں کہ اسلام سائنس کا دشمن ہے۔اسلام کے سائنسی انکشافات پر تفصیل کے لیے اس لنک پر کتاب ڈاؤن لوڈ کیجئے۔یہاں آپ کو اسلام پر ملحدین کے کئ سائنسی اعتراضات کے جوابات مل جائیں گے

http://www.minhajbooks.com/urdu/control/Download/bid/210/cid/14/
مکمل تحریر >>

کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار یعنی فلیٹ ہے؟کیا اس معاملے پر سائنس اور قرآن میں اختلاف ہے؟ ملحدین و مستشرقین کا قرآن پر ایک سائنسی اعتراض اور اس کا جواب

کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار یعنی فلیٹ ہے؟کیا اس معاملے پر سائنس اور قرآن میں اختلاف ہے؟
ملحدین و مستشرقین کا قرآن پر ایک سائنسی اعتراض اور اس کا جواب
ترجمہ و ترتیب و اضافہ۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
ملحدین و مستشرقین قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار یا فلیٹ ہے اور اس کے لیے وہ قرآن کی دیگر آیات کے ساتھ ایک آیت والارض مددنھا پیش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کو پھیلایا گیا اور اس پھیلائے جانے سے مراد وہ یہ لیتے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار ہے جب کہ سائنس کے مطابق زمین گول ہے۔اس اعتراض کی حقیقت کیا ہے۔اس کا جائزہ ہم قرآن مجید کی آیات سے واضح کریں گے ان شاء اللہ۔
قرآن پاک کے مطابق جب دن اور رات ملتے ہیں تو وہ ایک گیند یا کرہ بناتے ہیں۔قرآن مجید کی ایک آیت ہے
"اللٰہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو برحق پیدا کیا۔دن رات کو ڈھانپتا ہے اور رات دن کو( قرآن نے یُکَوِّرُ کا لفظ استعمال کیا ہے) سورج اور چاند اس کے تابع ہیں اور یہ سارے  اپنے مقررہ منزل پرحرکت میں ہیں( کُل یَجرِی)۔کیا وہ اللٰہ شان و شوکت والا اور بخشنے والا نہیں ہے؟"
عربی لفظ کرہ کا معنی گیند ہے۔قرآن کا لفظ یُکَوِّرُ یعنی گیند میں بدلنا اس کا فعل ہے۔قرآن کہتا ہے کہ دن اور رات کا ملنا ایک کرہ یا گیند بناتا ہے اور یہ کرہ تب ہی ممکن ہے جب ڈھانپی گئ چیز گول ہو ورنہ ایک ہموار شے کو تو کوئ بھی چیز ڈھانپ سکتی ہاور اس کے بیان میں کرہ کا لفظ لازم نہیں تھا۔
یہاں استعمال کئے گئے عربی لفظ کور کا مطلب ہے کسی ایک چیز کو دوسری پر منطبق کرنا یا (ایک چیز کو دوسری چیز پر) چکر دے کر (کوائل کی طرح) باندھنا ۔دن اور رات کو ایک دوسرے پر منطبق کرنا یا ایک دوسرے پر چکر دینا صرف اسی وقت ممکن ہے جب زمین کی ساخت کر وی ہو۔
زمین کسی گیند کی طرح بالکل ہی گول نہیں بلکہ ارضی کر وی (Geo spherical) ہے، یعنی قطبین(Poles ) پر سے تھوڑی سے چپٹی (Flate) ہوتی ہے۔
 یہاں قرآن واضح طور پر یہ بھی کہ رہا ہے کہ سارے کے سارے حرکت میں ہیں۔عربی گرائمر میں واحد ، دو اور جمع کے لیے الگ الگ صیغہ استمعال ہوتا ہے۔اگر قرآن کے مطابق صرف چاند اور سورج حرکت میں ہوتے تو قرآن اس کے لیے کلاھما یجریان یعنی وہ دو چاند اور سورج حرکت میں ہیں۔جب کہ قرآن نے کل یجری کا لفظ استعمال کیا جس کے مطابق زمین،سورج اور چاند سب حرکت میں ہیں۔
قرآن کہتا ہے کہ زمین کا ایک قطر یا ڈایامیٹر ہے اور قطر یا ڈایامیٹر کسی دائرے یا رداس کا دوگنا ہوتا ہے(قرآن 55،33)
"اے جن و انس کی جماعت!زمین و آسمان کے اقطار یا قطر سے نکل کر دکھاؤ اگر تم ایسا کر سکتے ہو اور یہ تم بغیر قوت و طاقت کے نہیں کر سکتے۔"
ڈایامیٹر کو عربی میں قطر کہتے ہیں اور رداس اور قطر کا لفظ صرف تب استعمال ہوتا ہے جب کوئ چیز گول ہو۔اس سے صاف واضح ہورہا ہے کہ قرآن کے مطابق زمین گول ہے۔
قرآن سورہ 50،آیت نمبر سات کے مطابق
"اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا۔۔مددنھا۔۔۔اور اس کے اندر پہاڑ گاڑ دیے اور اس کے اندر ہر طرح کے پودوں کا ایک جوڑہ پیدا کردیا۔"
اس میں قرآن کہتا ہےکہ اللہ تعالی نے زمین کو پھیلا دیا۔قرآن نے والارض مددنھا کے الفاظ استعمال کیے جس کا عربی گرائمر میں ترجمہ سطحی رقبے یا سرفیس ایریا کو زمین کی  تخلیق کے دور ان وسعت دینا ہے۔اس سے بالکل یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن زمین کو ہموار یا فلیٹ کہتا ہے۔
ہموار یا فلیٹ کے لیے عربی میں مسطح کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا فعل سطح ہے۔لیکن قرآن نے ان میں سے کوئ بھی لفظ استعمال نہیں کیا۔قرآن کہتا ہے کہ اللٰہ تعالٰی نے زمین کووسعت دی جس کا مطلب ایک دائرے یعنی گول زمین کے سطحی رقبے کو وسعت دینےکا ہے۔
ہمارا نظام شمسی 57•4 بلین سال قدیم ہے۔زمین ہمارے سورج اور نظام شمسی کے ساتھ آج سے ساڑھے چار ارب سال پہلے بننا شروع ہوئ لیکن بننے کے فوری وقت ہی اس کا رداس یا ریڈیس 6400 کلومیٹر نہیں تھا بلکہ یہ چند کلومیٹر سے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع ہوا کیونکہ جیسے جیسے رداس بڑھتا ہے سطحی رقبہ بڑھتا ہے۔اس کی ریاضیاتی مساوات
surface area = 4πR2 ہے۔لہذا قرآن بالکل ٹھیک کہتا ہے کہ زمین کا سطحی رقبہ پھیلایا گیا۔یہ بائیبل کے بیان کے بالکل برعکس ہے جس کے مطابق زمین کو ایل ہی بار پیدا کیا گیا۔
 درج ذیل آیت مبارک میں زمین کی ساخت کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔
وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰٰٰٰلِکَ دَحٰھَا
ترجمہ:۔پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے کی طرح بنایا۔
یہاں عربی عبارت دَ حٰھَا استعمال ہوئی ہے۔ جس کا مطلب ہے شتر مرغ کا انڈہ ۔ شتر مرغ کے انڈے کی شکل زمین کی ارضی کروی ساخت ہی سے مشابہت رکھتی ہے۔ پس یہ ثابت ہو ا کہ قرآن پاک میں زمین کی ساخت بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کی گئی ہے، حالانکہ نزول قرآن پاک کے وقت عام تصور یہی تھا کہ زمین چپٹی یعنی پلیٹ کی طر ح ہموار ہے۔
القرآن ، سورة لقمٰن، سورة ٣١ : آیت ٢٩
↑ القرآن ، سورة الزُمر، سورة ٣٩ : آیت ٥
↑ القرآن ، سورة النٰزعٰت، سورة ٧٩: آیت ٣٠
مولانا عبدالرحمان کیلانی  اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:  '' دحیٰ اور طحیٰ دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں، کہتے ہیں دحی المطر الحصٰی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کر لے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کامعنی دور دور تک بچھا دینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی کاتصور پایاجاتاہے۔ دحوہ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیاہے۔''
وکی آن لائن ڈکشنری پر بھی ان الفاظ ، دحی اور دحیہ کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جبکہ سائنسدان زمین کی شکل کو  “Oblate Spheroid “  کی طرح کا قرار دیتے ہیں یعنی ایسی چیز جو قطبین پر شلجم کی طرح چپٹی ہو۔
اس آیت مبارکہ کی پرانی تشریحات میں اس کے معنی اس طرح ہیں "اس نے زمین کو پھیلا دیا" ۔ جبکہ istanbul faculty of theology کے H.B.Cantay اور ڈاکٹر علی اوزیک نے اپنی تفسیر میں اس کے وہ معنی دئیے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کئے ہیں۔
تشریحات میں فرق لفظ دحٰها کے معنی میں‌ اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ماخذ یا اشتقاق شتر مرغ سے نسبت رکھنے والے معانی سے ملتے جلتے ہیں۔
آئیے ان کی چند مثالیں دیکھتے ہیں:
الادحیۃ : شتر مرغ کا گھونسلا ، یا ریت میں انڈے دینے کی جگہ یا کھڈا۔
الادحوۃ : شتر مرغ کے انڈے کی جگہ
تداحیا: ایک سوراخ میں پتھر ڈالنا
علم زبان کے ماہر etymologist شمس الدین نے لغت میں‌ مدحی کے معنی شتر مرغ کے انڈے کا سوراخ یا گڑھا بیان کیا ہے۔ جبکہ کے بیضاوی کے نزدیک بھی "دحا" کے معنی بیضوی کے ہی ہیں۔ یہ اس لفظ کے اصل معنی نہیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں چونکہ "دحا" کے لئے انڈے کی شکل کا ہونا بے معنی سمجھا گیا ، اس لئے اس کو پھیلانے کے معنی دے دئیے گئے۔
"دحا" کے اصل معنی شتر مرغ کے انڈے کے ہیں۔ علم زبان کے اصولوں کے تحت تمام عربی لغات نے مدحی کو شتر مرغ کے انڈے کے گڑھے یا سوراخ کے برابر قرار دیا ہے۔ م کو الگ کرنے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے شتر مرغ کا انڈا کہا ہے مگر "دحی" کو پھیلانے سے مماثلت دی گئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نظریات زمین کی شکل کے معاملہ میں انتہائی وضاحت کے حامل ہیں۔
دوسری طرف یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جنہوں نے اس آیت مبارکہ کی تشریح کے سلسلے میں "پھیلانے" کا مفہوم لیا ہے وہ بھی مکمل غلطی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہ ثانوی معنی ہیں اور قابل قبول ہیں۔ میری اپنی رائے بہر حال یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کے معنی اس طرح ہیں "اور پھر ہم نے زمین کو شتر مرغ کے انڈے جیسی شکل دی" ۔ اب اس سے پلے کہ میں تفسیر بیان کروں میں ایک اور نکتے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ کئی صدیوں قبل کے مشہور مفسروں جن میں بیضاوی ، رازی ، ابو السعود اور مدارک شامل ہیں ، نے اعلان کیا ہے کہ تخلیق کے وقت زمین پر کوئی جاندار چیز نہیں تھی اس لئے کہ وہ اس وقت آگ کی طرح تپتی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ اعلان اس وقت کیا جبکہ ان کے پاس موجودہ دور جیسی کسی قسم کی سائنسی معلومات نہیں تھیں۔ ان کے علم کی بنیاد صرف قرآنی سائنس ہی تھی۔ ان لوگوں کے ادراک اور قرآن فہمی کی تعریف نہ کرنا ناممکن ہے۔
اب ہم پھر اس علم کی طرف آتے ہیں جس کے تحت اس آیت کی تعبیر زمین کی بیضوی شکل کی نسبت سے متعلق ہے۔
(الف) تمام مخلوقات کے انڈوں میں سے شتر مرغ کا انڈا ہی ہے جو ایک کرے سے نزدیک ترین مشابہت رکھتا ہے۔
(ب) کرہ زمین کے شمالی اور جنوبی قطبین کا قطر diameter ، زمین کے خط استوا کی طرف سے قطر کی نسبت سے ، زمین کی جو شکل بناتا ہے وہ بیضوی ellipsoid ہے۔ خاص طور پر یہ زمینی صورت ، زیادہ صحیح طور پر کچھ بگڑی ہوئی ہے جیسے کہ ناشپاتی کی شکل ہوتی ہے ، اسے جیوائڈ Geoide کہتے ہیں۔ زمین کا استوائی ریڈیس 6373 کلومیٹر ہے جبکہ زمین کا قطبین کی طرف سے ریڈیس 6356 کلومیٹر ہے۔
(ج) یہ آیت مبارکہ واضح طور پر زمین کی شکل گولائی میں ظاہر کرتی ہے۔ مزید برآں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی صورت میں زمین اس موجودہ شکل میں نہیں تھی۔ دراصل زمین کی سطح سخت solidification ہونے سے قبل زمین کی کوئی مخصوص شکل نہیں تھی۔ کائناتی طبیعات Astro-Physics کے مطابق زمین کی تخلیق کے دو نظریات ہیں ایک نظریے کے مطابق زمین پہلے سورج کا حصہ تھی جو ایک ٹکڑے کی طرح اچھل کر علیحدہ ہوگئی۔ جبکہ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ سورج اور زمین دونوں ہی ایک سحابیہ Nebula سے دھماکے سے علیحدہ ہوئے۔ دونوں نظریات یہ مانتے ہیں کہ شروع میں زمین کسی مخصوص شکل کے بغیر تھی جس نے بعد میں بیضوی گول شکل اختیار کرلی۔ چناچہ یہ آیت کھلے طور پر زمین کی شکل بیضوی یا تکنیکی زبان میں Ellipsoidal ظاہر کرتی ہے
زمین کی گولائی والی شکل اور پھر جیسا کہ میں نے موضوع نمبر 8 میں بیان کیا (زمین کی محوری حرکت) جنہیں قرآن نے متعدد آیات میں عیاں کیا ہے ، ان لوگوں کے لئے ایک مکمل اور خوبصورت جواب ہے جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اس آیت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسے سورۃ النٰزعٰت میں بیان کیا گیا جو تخلیق سے متعلق متعدد اسرار کو بیان کرتی ہے۔ مزید یہ کہ آیات نمبر 28 سے نمبر 30 تک زمین کی تخلیق کا خلاصہ دے دیا گیا ہے۔ آیت 31 یہ اعلان کرتی ہے کہ جب زمین نے بیضوی شکل اختیار کرلی تو بالترتیب پہلے اس پر پانی کا انتظام کیا گیا۔ پھر اس پر ابتدائی نباتات کو چارے کی صورت میں پیدا کیا گیا۔ جدید دور کے ارضی طبیعات کے علم کے نظریات اس ترتیب سے پوری طرح متفق ہیں۔ جب زمین نے اپنی بیضویشکل اختیار کرلی تو پھر اس پر کرہ آب (قشر ارض کا آبی حصہ بشمول سمندر اور سارے پانی کے) وجود میں آگیا اور سمندوں کی تشکیل ہوئی۔ نباتاتی حیات بعد میں ظہور پذیر ہوئے۔
اور اگر اسے شتر مرغ کے انڈہ دینے کی جگہ جیسا بھی کہ دیا جائے تو پھر بھی زمین کا بیضوی ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ جس جگہ انڈہ ہوتا ہے اس کے نیچے کی مٹی یا ریت خود بخود انڈے جیسی بیضوی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اگر اس آیت پر تحقیق اس مکمل ہم آہنگی کی بنیاد پر کی جائے تو اس کے مکمل اور معجزاتی علم اور دانائی کو با آسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
جس آیت سے اس کا ہموار ہونا معلوم ہوتا ہے وہ ہمارے دیکھنے کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے، جب ہم ایک جگہ یا کسی میدان میں کھڑے ہوکر اپنی نظر دوڑاتے ہیں ورنہ قرآن کے مطابق زمین گول ہے۔
اگر کسی مستطیل چیز کو بھی دور سے دیکھا جائے تو وہ بیضوی نظر آتی ہے اور اگر یہ دوری مزید بڑھ جائے تو وہ چیز بالکل گول نظر آنے لگتی ہے
سائنس دانوں کا زمین کے گول یا بیضوی ہونے کا جھگڑا اسی مقدمہ کیوجہ سے ہے۔
 قرآن یہ کہتا ہے کہ زمین کو تمہارے لیئے بچھونا بنا دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ کیا یہ بات مسلمہ جدید سائنسی حقائق کے منافی نہیں؟"
اس سوال میں قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ بِسَاطًا (١٩)
"اور اللہ نے تمہارے لیئے زمین کو بچھونا بنایا ہے۔"
(سورۃ نوح 71 آیت 19)
لیکن مندرجہ بالا آیت کا جمہ مکمل نہیٰں، جمہ اس سے اگلی آیت میں جاری ہے جو پچھلی ایات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس میں ارشاد ہے۔:
لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلا فِجَاجًا (٢٠)
" تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چل سکو۔"
( سورۃ نوح 71 آیت 20)
اسی طرح کا ایک پیغام سورۃ طہٰ میں دہرایا گیا ہے:
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلا (٥٣)
"وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے چلنے کے لیئے اس میں راستے بنائے۔ "
( سورۃ طہٰ 20 آیت 53
زمین کی بالائی تہ یا قِشُر ارض کی موٹائی 30 میل سے بھی کم ہے اور اگر اس کا موازنہ زمین کے نصف قطر سے کیا جائے جس کی لمبائی 3750 میل ہے تو قشر ارض بہت ہی باریک معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ گہرائی میں واقع زمین کی تہیں بہت گرم، سیال اور ہر قسم کی زندگی کے لیئے ناسازگار ہیں، قشر ارض کا ٹھوس صورت اختیار کر لینے والا وہ خول ہے جس پر ہم زندہ رہ سکتے ہیں، لہذا قرآن مجید بجا طور پر اس کو ایک بچھونے یا قالین سے مشابہ قرار دیتا ہے تاکہ ہم اس کی شاہراہوں اور راستوں پر سفر کرسکیں۔
اور جہاں قرآن نے بچھونے کی بات کی تو اس کا واضح مطلب بھی قرآن نے بیان کر دیا کہ تاکہ تم راستوں میں سفر کر سکو اور زمین پر موجود ایک شخص کو ظاہری طور پر زمین ہموار چپٹی معلوم ہوتی ہے۔ورنہ قرآن کی کوئ آیت ایسی نہیں جس میں زمین کے مطلق گول ہونے کا انکار کر کے اسے ہموار قرار دیا گیا ہو۔قرآن نے مختلف مقامات پر زمین کے گول ہونے کا اشاروں میں بیان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ انسانوں کی آسانی کے لیے اسے کشادہ کیا گیا بچھونے کی طرح۔ان آیات سے بعض لوگوں کو شبہ ہوا کہ زمین ہموار چپٹی ہے جب کہ خود قرآن کی دوسری آیات سے زمین کا واضح گول ہونا معلوم ہوتا ہے۔
اگر ہم عربی لغت کا مطالعہ کریں تو جن آیات سے زمین کے ہموار یا فلیٹ ہونے کا تصور ہوتا ہے،اس سے اور وضاحت سامنے آتی ہے
۔ لفظ ” مھد “و ” مھاد “ کامفہوم : دونوں ایسی جگہ کے معنی میں ہیں کہ جوبیٹھنے ، سونے اور آرام کرنے کے لیے تیار کی گئی ہواور اصل میں لفظ ” مھد “ اس جگہ کو کہاجاتاہے کہ جس میں بچہ کوسلاتے ہیں(گہوارہ یا اسی قسم کی کوئی چیز ) ۔
گویاانسان ایک ایسابچہ ّ ہے کہ جسے زمین کے گہوارے کے سپردکیاگیاہے اوراس گہوارے میں غذااوراس کی زندگی تما م وسائل موجود ہیں ۔
اس طرح یہ لفظ جس سے زمین کے ہموار ہونے کا گمان ہوتا ہے،اس کی عربی تشریح اور لغت اور کہانی بتاتی ہے۔زمین کو اللٰہ تعالٰی نے انسان کا گہوارہ قرار دیا جیسا کہ بچے کے سکون اور آرام کا گہوارہ ہوتا ہے۔ اور آگے اپنی تعریف کی کہ ہم بہت اچھا گہوارہ تیار کرنے والے ہیں لیکن ملحدین نے قرآنی لفظ ماھدون کا جان بوجھ کر غلط ترجمہ ہموار کرنے والے پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے۔اس آیت سے یہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ زمین ہموار چپٹی ہے۔
اور عربی لغت میں فرش کا معنی قالین،کمبل،میدان سب معنوں میں استعمال ہوتاہے اور یہ لفظ کسی بہت بڑے کروی جسم یعنی زمین کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جائے تواس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس اے اس کے کروی یا گول ہونے کا انکار ہوگیا اور جہاں قرآن زمین کے پھیلاؤ کے لیے بساطا کا لفظ استعمال کرتا ہے تو یہ جان لیجئے کہ بساط کا لفظ بسط سے نکلا ہے جس کا معنی پھیلانا ہے اور یہ معنی ایک بار پھر زمین جیسے ایک گول جسم کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس لفظ کے استعمال سے اس لفظ کے کہنے والے پر اس جسم کے گول ہونے کا انکار نہیں آتا۔ اور جب قرآن زمین کے بارے میں سُطِحَت یعنی پھیلائ گئ کا لفظ استعمال کرتا ہے تو جان لیحیے کہ یہ لفظ سطح سے نکلا ہے اور یہاں پھیلاؤ سے مراد ایک کروی یعنی گول جسم یا زمین کاوہ سطحی رقبے کے حوالے سے پھیلاؤ ہے جب وہ تخلیق کی گئ اور جب قرآن کہتا ہے کہ والارض و ماطحاھا  تو اس کا معنی عربی لغت میں دوبارہ پھیلاؤ ہے جو کہ ایک بار پھر ایک کروی جسم یا زمین کے سطحی رقبے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔یہ پڑھیے
الطَّحَا : المنبسطُ من الأَرض
طحا ( فعل ):
طحا / طحا بـ يطحو ، اطْحُ ، طَحْوًا ، فهو طاحٍ ، والمفعول مطحوّ
طحا اللهُ الأرضَ : مدَّها وبسطها
آگے ملحد لکھتا ہے کہ
قرآن 2:22
الذي جعل لكم الارض فراشا والسماء بناء وانزل من السماء ماء فاخرج به من الثمرات رزقا لكم
ترجمہ: وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔
اسلام یہ نظریہ لے کر آیا تھا کہ زمین کے اوپر آسمان کثیر المنزلہ عمارت کی طرح ہیں۔ یہ کُل 7 تہیں یا منزلیں ہیں جنہیں 7 آسمان کہا جاتا ہے۔ یہ 7 آسمان زمین کی چپٹی سپاٹ سطح کے اوپر کھڑے کیے گئے ہیں۔
اس میں ملحد نے ایک بار پھر زمین کو قرآن سے ہموار ثابت کرکے قرآن پر اعتراض کی کوشش کی جب کہ زمین کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے ہی نہیں۔باقی جہاں تک سات آسمان کی بات ہے تو اج تک سائنس پہلے آسمان یعنی جو ہمیں زمین سے نظر آتا ہے،اس کی حدود دریافت نہیں کر سکی تو باقی آسمانوں پر اعتراض اور ان کا انکار کیسا۔پہلے تو پہلے آسمان کی حدود متعین کر لی جائیں اور پھر اعتراض کیا جائے لیکن سائنس ایک خاص حد کے بعد اپنی بے بسی کا اعلان کر کے باقی ساری کائنات کو ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی قرار دے دیتی ہے۔جب پوری کائنات کی ساری حدود دریافت کر لی جائیں اور سات آسمانوں کا وجود دریافت نہ ہو تو پھر کوئ اعتراض کرے۔جب کہ سائنس آج تک اس کائنات کے ایک فیصد راز بھی دریافت نہیں کر سکی۔پھر قرآن پر اعتراض کیسا اور اس کا انکار کیسا۔کیا کسی چیز کا نہ ملنا اس کے وجود کا انکار ہوسکتا ہے جب کہ ڈھونڈنے والا اپنی بے بسی کا خود اعتراف کر چکا ہو؟۔
والارض بعد ذلک دحٰها النزعت 79 ، آیت 30
اور پھر اس نے زمین کو بیضوی(شتر مرغ کے انڈے) کی شکل دی۔
علاوہ ازیں  یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان روزاول سے زمین کے کروی ہونے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت ماہرجغرافیہ دان محمد الادریسی  (1099–1165 or 1166) کاوہ  پہلہ عالمی نقشہ ہے جو اس نے 1154ء میں بنایاتھا۔اس میں زمین کے جنوبی حصے کو اوپر کی جانب دکھایا گیا تھا۔
اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحاق ابراہیم بن یحییٰ زرقالی قرطبی نے 1080 ء میں سورج اورزمین ،دونوں کے محوِحرکت ہونے کانظریہ پیش کیا تھا،اس کے مطابق سورج اورزمین میں سے کوئی بھی مزکزِکائنات نہیں اور زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد بیضوی مداروںمیں حرکت کرتے ہیں ۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ زمین کو ’’ کرویہ ‘‘ یعنی بیضوی مانتے ہیں ،
ان کی رسمی یعنی (official ) ویب سائیٹ پر ان کا اپنا یہ بیان ہے کہ :
’’ الأرض كروية عند أهل العلم، قد حكى ابن حزم وجماعة آخرون إجماع أهل العلم على أنها كروية، يعني أنها منضمٌ بعضها إلى بعض مدرمحة، كالكرة، لكن الله بسط أعلاها لنا فجعل فيها الجبال الرواسي، وجعل فيها الحيوان والبحار رحمةً بنا، ولهذا قال: وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ [(20) سورة الغاشية]. فهي مسطوحة الظاهر لنا ليعيش عليها الناس ويطمئن عليها الناس، فكونها كروية لا يمنع تسطيح ظاهرها ؛ لأن الشيء الكبير العظيم إذا سُطح صار له ظهرٌ واسع ‘‘
یعنی اہل علم کے نزدیک زمین کروی (گول ، بیضوی ) ہے ، امام ابن حزم ؒ اوردیگر کئی حضرات نے بیان کیا ہے کہ زمین کے کرویہ ہونے پر اجماع ہے ،رابطہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور ان کے مجموع فتاوی ابن باز میں کم از کم تین مقامات پر انکی یہ تردید موجود ہے کہ میں کبھی زمین کے کروی ہونے کی نفی نہیں کی۔
ملحد کہتا ہے کہ سعودی عالم شیخ عبدالعزیز بن باز نے زمین کے گول ہونے کا انکار کیا اور کہا کہ سارے اسلامی علماء زمین کو ہموار چپٹی مانتے ہیں۔یہاں ملحد نے جھوٹ بولا ہے۔شیخ عبدالعزیز بن باز اپنی ذات پر لگائے جانے والے اس الزام کی تردید کرچکے ہیں اور وہ خود لکھتے ہیں کہ قدیم اہل علم جیسا کہ ابن حزم کے نزدیک زمین گول ہے۔
آگے ملحد لکھتا ہے کہ اسلام کی آمد کے تین سو سال بعد تک کسی نے زمین کو گول قرار نہیں دیا۔ملحدین کی خدمت میں عرض ہے کہ ان تین سو سال تک یہ بحث شروع ہی نہیں ہوئ تھی کہ زمین گول ہے یا چپٹی کیونکہ تب تک سائنسی تعلیمات اور تحقیقات اچھی طرح فروغ پذیر نہیں ہوئ تھی۔جب سائنس کا تصور فروغ پذیر ہوا تو ابن حزم  اور ابن تیمیہ جیسے علماء نے بالکل زمین کے گول ہونے کا انکار نہیں کیا بلکہ ابن تیمیہ نے تو یہاں تک کہا کہ تمام اسلامی عالم زمین کے گول ہونے پر متفق ہیں۔ملحد کہتا ہے کہ تین سو سال تک کسی نے گول نہیں کہا۔ملحد ایک بھی ایسا عالم ثابت کر دے جس نے اسلام کے ابتدائی تین سو سال میں زمین کے گول ہونے کا انکار کیا ہو۔اگر اتنے عرصے میں سائنسی تعلیمات نہیں تھی تو پھر تاخیر سے گول کہنے پر اعتراض کیسا جب کہ کسی نے اس عرصے میں زمین کو ہموار بھی نہیں کہا تھا۔
 آگے ملحد نے دعوی کیا ہے کہ طبری اور ابن کثیر کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے لیکن میں نے جب ابن کثیر کی زمین کے حوالے سے قرآنی آیات کی تفسیر کا مطالعہ کیاتو مجھے ایسی کوئ بات نہیں ملی۔یہاں ملحد نے ایک بار پھر جھوٹ بولا۔جب کہ اس نے طبری کا بیان کرتے ہوئے حوالہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ ابتدائی اسلامی اہل علم اس بات پر متفق تھے کہ زمین گول ہے۔
ملحد کہتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی تین سو سال میں کسی نے زمین کو گول نہیں کہا جب کہ اسلام کی آمد کے دوسو سال بعد مامون کے دور میں زمین کو گول تصور کر کے اس کے قبر کی پیمائش کی جا چکی تھی۔
ویکی پیڈیا کے مطابق قدیم مسلمان نہ سرف زمین کو گول تسلیم کرتے تھے بلکہ اس سائنسی تصور کو سمت قبلہ معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
جب سے مسلمان سائنسی تعلیمات سے متعارف ہوئے ہیں تب سے اب تک یعنی 830ء سے اب تک مسلم مذہبی علماء سمیت  مسلمانوں کی اکثریت زمین کے گول ہونے پر متفق رہی ہے۔
اب تک کی بحث سے ہم ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن کے مطابق زمین گول بیضوی ہے اور اسی رائے پر اہل اسلام کی اکثریت متفق رہی ہے۔ملحدین کا یہ اعتراض کہ قرآن کے مطابق زمین ہموار چپٹی ہے محض جھوٹ اور دھوکا بازی پر مبنی ہے۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم با الصواب

حوالہ جات:
کیا قرآن کے مطابق زمین ہموار اور چپٹی ہے؟بنیامین مہر
http://www.speed-light.info/miracles_of_quran/earth.htm
In the 11th century, al-Biruni used spherical trigonometry to find the direction of Mecca from many cities and published it in The Determination of the Co-ordinates of Cities. See Lyons, 2009, p85
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth
Gharā'ib al-funūn wa-mulah al-`uyūn (The Book of Curiosities of the Sciences and Marvels for the Eyes), 2.1 "On the mensuration of the Earth and its division into seven climes, as related by Ptolemy and others," (ff. 22b–23a)
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/%D8%B7%D8%AD%D8%A7/

http://makarem.ir/compilation/Reader.aspx?lid=4&mid=65092&catid=6483&pid=62062
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/قرآن_اور_فلکیات
 https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?422572-زمین-Ú©ÛŒ-حقیقت#ixzz4dqAMfNdZ

http://quraaninurdu.blogspot.com/2010/04/blog-post_6299.html?m=1قرآنی آیات اور سائنسی حقائق
ڈاکٹر ہلوک نور باقی (ترکی)
مترجم: سید محمد فیروز شاہ
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B2%D9%85%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%DB%8C%D8%B6%D9%88%DB%8C-%D8%B4%DA%A9%D9%84.26917/

Muhammad Hamidullah. L'Islam et son impulsion scientifique originelle, Tiers-Monde, 1982, vol. 23, n° 92, p. 789.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Spherical_Earth
مکمل تحریر >>