تدوین و ترتیب اور اضافہ:عالیہ تنویر
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
قرآن مجید کے سورہ اسراء ، آیت نمبر 85 میں پڑھتے ہیں: < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ اٴَمْرِ رَبِّی > ”اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجیئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے “۔
2۔ لغت میں:لغت کے لحاظ سے ”روح“ در اصل ”نفس“ اور ”دوڑنے“ کے معنی میں ہے، بعض لغویوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ”روح“ اور ”ریح“ (ہوا) ایک ہی معنی سے مشتق ہیں اور روح ِ انسان جو مستقل اور مجرد گوہر ہے اسے اس نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ یہ تحرک، حیات آفرینی اور ظاہر نہ ہونے کے لحاظ سے نفس اور ہوا کی طرح ہے۔
2۔قرآنی آیات میں: قرآن حکیم میں یہ لفظ مختلف اور متنوع صورت میں آیاہے، کبھی یہ لفظ انبیاء و مرسلین کو ان کی رسالت کی انجام دہی میں تقویت پہچانے والی مقدس روح کے معنی میں آیا ہے، مثلاً سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ
”اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی ہو ئی نشانیاں دی ہیں اور رو ح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی ہے“۔
کبھی یہ لفظ مومنین کو تقویت بخشنے والی اللہ کی روحانی اور معنوی قوت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورہ مجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے: اٴُوْلَئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِہِمْ الْإِیمَانَ وَاٴَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِنْہُ
”اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تا ئید کی ہے “۔
اور کبھی وحی کے خاص فرشتہ کے مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے، اور ”امین“ کے لفظ سے اس کی توصیف کی گئی ہے مثلاً سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہے: نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ # عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ
”یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں“۔
کبھی یہ لفظ خدا کے خاص فرشتوں میں سے ایک عظیم فرشتہ یا فرشتوں سے برترایک مخلوق کے معنی میں آیا ہے، مثلاً سورہ قدر میں ارشاد ہوتا ہے: تَنَزَّلُ الْمَلاَئِکَةُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ اٴَمْرٍ
”اس میں ملائکہ ا ور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں“۔
نیز سورہ نباء میں بھی آیا ہے: یَوْمَ یَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلاَئِکَةُ صَفًّا
”جس دن روح القدس اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے“۔
کبھی یہ لفظ قرآن اور وحیِ آسمانی کے معنی میں آیاہے مثلاً:
” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے“۔
کبھی یہ لفظ روحِ انسانی یعنی روح حیوانی یا اس روح کے معنی میں آیا ہے جو زندگی کی علامت ہے اور اس کے نکلنے کے بعد ایک زندہ مردہ کہلاتا ہے، کے معنی میں آیا ہے جیسا کہ خلقتِ آدم سے متعلق آیات میں بیان ہوا ہے:
ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ
”اس کے بعد اسے برابر کرکے اس میں اپنی روح پھونک دی ہے“۔
لہذا عربی لغت اور قرآن دونوں میں دوسرے معنی کے ساتھ لفظ روح روح حیوانی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور نام نہاد قرآنسٹ یا منکرین حدیث یعنی پرویزیوں کا یہ کہنا کہ روح کا قرآن کے مطابق کوئ وجود نہیں،قرآن اور عربی لغت دونوں کے مطابق غلط ہے۔
قرآن مجید میں لفظ روح،روح حیوانی، روح انسانی {نفس ناطقہ} یعنی وہ روح جو جاندار اشیاء میں پائی جاتی ہے ، روح القدس یا جبرئیل اور روح، ملائکہ سے برتر مخلوق کے معنی میں استعمال ہواہے۔
اس آیہ شریفہ کے مطابق، روح کی ماہیت کے بارے میں صرف اسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ روح ایک حقیقت ہے اور امر الہٰی کی ایک قسم ہے اور جو امر خداوندمتعال سے منسوب ہو، وہ زمان و مکان اور دوسری مادی خصوصیات سے بالاتر ہوتا ہے۔
اس قسم کے الہٰی امر کی کیفیت اور مراتب کا ادراک کرنا ، علوم کشفی کے اسرار میں شمار ہوتا ہے اور یہ تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ خود پیغمبر{ص} بھی ان امور سے بہرہ مند نہیں تھے، لیکن چونکہ لوگوں کی اکثریت میں اس قسم کا ادراک نہیں پایا جا سکتا ہے، اس لیے اس سلسلہ میں کچھ بیان کرنا عقل کے لیے حیرت ناک تھا، لہٰذا ، بظاہر قرآن مجید میں روح کی پہچان کے سلسلہ میں زیادہ وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے۔
اس روح کی قرآن مجید میں مختلف تعبیروں سے توصیف کی گئی ہے، اول یہ کہ اسے الگ اور مطلق طور پر ذکر کیا گیا ہے،جیسے مذکورہ آیت میں، اس کے علاوہ کبھی ملائکہ کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو عام انسانوں میں پھونکی جاتی ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو مومنین کی ہمراہی اور ان کی تائید کرتی ہے اور کبھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ساتھ انبیاء کا رابطہ ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ روح کا لفظ عربی لغت اور قرآن دونوں میں اس روح کے لیے استعمال ہوا ہے جو زندگی کے لیے پھونکی جاتی ہے اور موت کے وقت نکالی جاتی ہے۔
قرآن مجید میں لفظ روح،روح حیوانی، روح انسانی {نفس ناطقہ} یعنی وہ روح جو جاندار اشیاء میں پائی جاتی ہے ، روح القدس یا جبرئیل اور روح، ملائکہ سے برتر مخلوق کے معنی میں استعمال ہواہے۔
اس آیہ شریفہ کے مطابق، روح کی ماہیت کے بارے میں صرف اسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ روح ایک حقیقت ہے اور امر الہٰی کی ایک قسم ہے اور جو امر خداوندمتعال سے منسوب ہو، وہ زمان و مکان اور دوسری مادی خصوصیات سے بالاتر ہوتا ہے۔
اس قسم کے الہٰی امر کی کیفیت اور مراتب کا ادراک کرنا ، علوم کشفی کے اسرار میں شمار ہوتا ہے اور یہ تصور نہیں کرنا چاہئیے کہ خود پیغمبر{ص} بھی ان امور سے بہرہ مند نہیں تھے، لیکن چونکہ لوگوں کی اکثریت میں اس قسم کا ادراک نہیں پایا جا سکتا ہے، اس لیے اس سلسلہ میں کچھ بیان کرنا عقل کے لیے حیرت ناک تھا، لہٰذا ، بظاہر قرآن مجید میں روح کی پہچان کے سلسلہ میں زیادہ وضاحت پیش نہیں کی گئی ہے۔
اس روح کی قرآن مجید میں مختلف تعبیروں سے توصیف کی گئی ہے، اول یہ کہ اسے الگ اور مطلق طور پر ذکر کیا گیا ہے،جیسے مذکورہ آیت میں، اس کے علاوہ کبھی ملائکہ کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو عام انسانوں میں پھونکی جاتی ہے اور کبھی وہ حقیقت ہے جو مومنین کی ہمراہی اور ان کی تائید کرتی ہے اور کبھی ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ساتھ انبیاء کا رابطہ ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ روح کا لفظ عربی لغت اور قرآن دونوں میں اس روح کے لیے استعمال ہوا ہے جو زندگی کے لیے پھونکی جاتی ہے اور موت کے وقت نکالی جاتی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید ایک دوسری جگہ قیامت کے منکروں کے جواب میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ انسان موت کے بعد بدن کے ختم ھوجانے اور زمین کے اجزاء میں گم ھوجانے کے بعد کس طرح دوبارہ زندہ ھوتا ھے اور پھلے انسان کی طرح ھو جاتا ھے؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ھے:
اے پیغمبر! کھہ دو کہ موت کا فرشتہ تمھیں تمھارے بدنوں سے الگ کردیتا ھے، اور اس کے بعد تم اپنے خدا کی طرف واپس لوٹ جاتے ھو یعنی جو چیز موت کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ھوکر زمین کے اجزاء میں گم اور حل ھوگئی ھے وہ تمھارے بدن ھیں۔ لیکن تم کو (تمھاری روح کو) موت کے فرشتے نے تمھارے بدن سے باھر نکال لیا ھے اور ھمارے پاس محفوظ ھو۔یہ آیت بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان میں روح نفسی یعنی وہ روح پائی جاتی ہے جو زندگی کی علامت ہے اور موت کے وقت اسے نکال لیا جاتا ہے۔
اس قسم کی آیات کے علاوہ قرآن مجید ایک جامع بیان کے ذریعے روح کو غیر مادّی چیز کھتا ھے:
اے نبی! تم سے روح کی حقیقت کے بارے میں سوال کرتے ھیں، تو کہ دو کہ روح خدا کا امر ھے ۔
نفس کا لفظ قرآن مجید میں اُن معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں ہم 'جان' کا لفظ بولتے ہیں۔ یہ انسان کا اصل وجود ہے جو ہماری شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ روح کا لفظ قرآن مجید میں متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اب لسان العرب کی عربی لغت کا اگر مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ روح کا لفظ عربی لغت میں وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ساتھ میں یہ لفظ روح حیوانی یعنی اس روح کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس کے پھونکے جانے سے زندگی اور نکالے جانے سے موت آتی ہے۔لسان العرب کے الفاظ ملاحظہ کیجیے
والرُّوحُ: النَّفْسُ، يذكر ويؤنث، والجمع الأَرواح. التهذيب: قال أَبو
بكر بنُ الأَنْباريِّ: الرُّوحُ والنَّفْسُ واحد، غير أَن الروح مذكر
والنفس مؤنثة عند العرب. وفي التنزيل: ويسأَلونك عن الرُّوح قل الروح من
أَمر ربي؛ وتأْويلُ الروح أَنه ما به حياةُ النفْس. وروى الأَزهري بسنده عن
ابن عباس في قوله: ويسأَلونك عن الروح؛ قال: إِن الرُّوح قد نزل في
القرآن بمنازل، ولكن قولوا كما قال الله، عز وجل: قل الروح من أَمر ربي وما
أُوتيتم من العلم إِلا قليلاً. وروي عن النبي، صلى الله عليه وسلم، أَن
اليهود سأَلوه عن الروح فأَنزل الله تعالى هذه الآية. وروي عن الفراء أَنه
قال في قوله: قل الروح من أَمر ربي؛ قال: من عِلم ربي أَي أَنكم لا
تعلمونه؛ قال الفراء: والرُّوح هو الذي يعيش به الإِنسان، لم يخبر الله تعالى
به أَحداً من خلقه ولم يُعْطِ عِلْمَه العباد. قال: وقوله عز وجل:
ونَفَخْتُ فيه من رُوحي؛ فهذا الذي نَفَخَه في آدم وفينا لم يُعْطِ علمه أَحداً
من عباده؛ قال: وسمعت أَبا الهيثم يقول: الرُّوحُ إِنما هو النَّفَسُ
الذي يتنفسه الإِنسان، وهو جارٍ في جميع الجسد، فإِذا خرج لم يتنفس بعد
خروجه، فإِذا تَتامَّ خروجُه بقي بصره شاخصاً نحوه، حتى يُغَمَّضَ، وهو
بالفارسية «جان» قال: وقول الله عز وجل في قصة مريم، عليها السلام: فأَرسلنا
إِليها روحَنا فتمثل لها بَشَراً سَوِيّاً؛ قال: أَضافِ الروحَ المُرْسَلَ
إِلى مريم إِلى نَفْسه كما تقول: أَرضُ الله وسماؤه، قال: وهكذا قوله
تعالى للملائكة: فإِذا سوَّيته ونَفَخْتُ فيه من روحي؛ ومثله: وكَلِمَتُه
أَلقاها إِلى مريم ورُوحٌ منه؛ والرُّوحُ في هذا كله خَلْق من خَلْق الله
لم يعط علمه أَحداً؛ وقوله تعالى: يُلْقِي الرُّوحَ من أَمره على من يشاء
http://wiki.dorar-aliraq.net/lisan-alarab/روح
اس کے مطابق روح دوسرے معنوں کے ساتھ ساتھ اس روح حیوانی کے معنی میں بھی استعمال کی جاتی ہے جو کہ آدم علیہ السلام میں پھونکی گئ، حضرت مریم علیہ السلام میں پھونکی گئ۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے
فاذا سویتہ و نفخت فیہ من الروحی
لہذا منکرین حدیث یعنی پرویزیوں یعنی نام نہاد قرآنسٹ حضرات کا یہ کہنا کہ قرآن پاک میں روح کا لفظ کہیں بھی روح حیوانی کے لیے استعمال نہیں ہوا،تو یہ کہنا عربی لغت اور قرآن و حدیث دونوں کے مطابق غلط ہے۔
اللٰہ تعالٰی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بھی اسی روح حیوانی کا زندہ اجسام میں بیان کرتی ہیں جس روح کا ذکر قرآن پاک آدم و مریم علیہ السلام میں پھونکے جانے کے حوالے سے کرتا ہے۔حدیث ملاحظہ کیجیے
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔
پس ثابت ہوا کہ نام نہاد قرآنسٹ حضرات یعنی پرویزیوں اور منکرین حدیث کی طرف سے قرآن میں بیان کردہ لفظ روح کے مختلف معنی بیان کرنا لیکن اس روح حیوانی کا انکار کرنا جس کے پھونکے جانے اور موجود ہونے سے انسان زندہ اور نکالے جانے سے انسان مردہ ہوتا ہے تو یہ بات عربی لغت اور قرآن و حدیث دونوں کے مطابق غلط ہے اور منکرین حدیث کی طرف سے۔ روح کا انکار سوا گمراہی و ضلالت کے اور کچھ نہیں ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔