Sunday 23 September 2018

کیا مشت زنی ( استمناء بالید ) اسلام میں جائز ہے؟ نیم ملحد و نیم رافضی ابرار حسین کا اسلام پر بے بنیاد الزام اور اسکا جواب

کیا مشت زنی ( استمناء بالید ) اسلام میں جائز ہے؟
نیم ملحد و نیم رافضی ابرار حسین کا اسلام پر بے بنیاد الزام اور اسکا جواب
تحریر : اسرار احمد صدیقی
میں نے آج تک کوئی ایک ایسا ملحد نہیں دیکھا جس نے دجل کا سہارا نہ لیا ہو یا جس نے اسلام پر کوئی علمی اعتراض کرسکا ہو ہمیشہ ملحدین اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے بے بنیاد باتیں کرکے مسلمانوں میں تشکیک پیدا کرتے
ابرار حسین اہلسنت والجماعت پر بہتان بازی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام میں اسکی کوئی ممانعت نہیں یہ جائز ہے اس طرح بعض وہ مسلمان جنہیں اس مسئلے اور اسکے حکم کا علم نہ ہو دو نمبر حوالے دیکھ کر مغالطے کا شکار ہوکر اس گناہ میں مبتلاء ہوسکتا ہے جبکہ یہ خود لذتی سخت گناہ ہے قرآن اور حدیث دونوں سے خود لذتی کی حرمت ثابت ہے

اول قرآن مجید سے دلائل:

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی  اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں  کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔[المؤمنون: 5، 6]

امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب  مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں  استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: {فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}چنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7]  اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی  میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس لیے مشت زنی حلال نہیں  ہے، واللہ اعلم" ماخوذ از امام شافعی کی "کتاب الام "

کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ}اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔

دوم: احادیث نبویہ سے خود لذتی کے دلائل:

علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی  کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کر لے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے  اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں  روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔

لہذا ابرار حسین کو چاہئے مسلک روافض کو مسلک اہلسنت پر فٹ کرنے کی بجائے اہلسنت والجماعت کی تفسیر قرآن تفسیر حدیث اور فقہ کو لازمی پڑھیں تاکہ اس طرح کی چولیات سے گریز کرسکیں

مکمل تحریر >>

Saturday 22 September 2018

سوشلزم کے نام نہاد انقلابی لیڈر فیدل کاسترو کی اصل حقیقت(ملحدین و لبرلز کے ہیروز کے انسانیت سوز کارنامے اور ان کی عیاشیاں) تحریر۔۔۔ناصر صلاح الدین

سوشلزم کے نام نہاد انقلابی لیڈر فیدل کاسترو کی اصل حقیقت(ملحدین و لبرلز کے ہیروز کے انسانیت سوز کارنامے اور ان کی عیاشیاں)
تحریر۔۔۔ناصر صلاح الدین
======================================
کاسترو کی ذاتی زندگی پرتعیش تھی۔ فوربس میگزین کے مطابق 2006 میں فیدل کاسترو کی ذاتی دولت کا تخمینہ 900 ملین ڈالر لگایا جاتا تھا۔(جو کہ سوشلسٹ حکومت کے نام پر عوام کی لوٹی گئی دولت تھی)۔
2009 میں انکشاف کیا گیا کہ فیڈل کاسترو نے 82 برس (تب) کی عمر تک 35000 عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کئے۔ چار عشروں تک انقلابی رہنما کا معمول تھا کہ روزانہ دوپہر اور شام کو دو مختلف خواتین کے ساتھ تخلیہ کرتے تھے۔
فیڈل کاسترو نے علانیہ طور پر دو شادیاں کیں (1949 اور 1980) لیکن شادی کے بغیر ان کے بچوں کی تعداد ان کے اپنے بیان کے مطابق ایک قبیلے کے برابر تھی۔
عام تاثر کے برعکس فیدل کاسترو کے والد بے حد متمول تھے۔ فیڈل کاسترو کی پیدائیش اپنے والٓد کے 25000 ایکڑ پر محیط گنے کے فارم پر ہوئی جہاں ذاتی ملازمین کی تعداد 400 تھی۔ یہ فارم ہاؤس ہوانا کے مشرق میں 500 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ 1954 میں یہ گھر آتش زدگی کا شکار ہوا لیکن 1974 میں اسے اصل نمونے کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
فیدل کاسترو بچپن سے سرمایہ دار نظام سے محبت رکھتے تھے۔ 14 برس کی عمر میں انہوں نے فرینکلن روزویلٹ کے نام ایک خط لکھا تھا اور ان سے دس ڈالر کے نوٹ کی فرمائش کی تھی۔
فیدل کاسترو اپنی ذاتی حٖاظت کے ضمن مین بے حد محتاط تھے۔ بار بار قاتلانہ حملوں کے باعث ان کی قیام گاہ ایک ٹاپ سیکرٹ معاملہ تھا۔ صدارت چھوڑنے کے بعد وہ 75 ایکڑ پر مشتمل ایک خفیہ قیام گاہ پر منتقل ہو گئے تھے۔
فیڈل کاسترو کے ذاتی خور و نوش کی اشیا ایک خصوصی فارم ہاؤس پر اگائی جاتی تھیں جہاں اناج، پھلوں کے باغات کے عالوہ مویشی  پالنے کا بھی بندوبست تھا۔
کیوبا کے طول و عرض میں فیدل کاسترو کی متعدد رہایش گاہیں تھیں جہاں ان کے مختلف النواع ذوق مثلاً بطخ کے شکار وغیرہ کا انتظام کیا جاتا تھا۔
مکمل تحریر >>

ملحدین کے نظریہ ارتقاء کے رد اور اسلام اور قرآن پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات کے جواب کے لیے درج ذیل کتابیں ڈاون لوڈ کریں۔

الحاد، لادینیت اور انکار خدا اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے جس کی بنیاد اہل سائنس نے مغرب میں رکھ دی ہے۔ ہارون یحی جمہوریہ ترکی کے ایک نامور قلم کار ہیں اور وہ اپنی تحریروں میں جدید مادہ پرستانہ افکار اور نظریات کا شدت سے رد کرتے ہیں۔ ہارون یحی کے خیال میں سائنس اور یہودیوں کی فری میسنز تحریکوں نے انکار خدا کے نکتہ نظر کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہارون یحی کے بقول مادہ پرستوں کے پاس اس کائنات کی تخلیق کی واحد بھونڈی دلیل ڈارون کا نظریہ ارتقاء ہے جس کے حق میں وہ بغیر سوچے سمجھے دلائل دیتے چلے جاتے ہیں اور اس نظریہ کے دفاع کے لیے کٹ مرنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں۔
کائنات میں پھیلی ہوئی اللٰہ تعالٰی کی نشانیاں اور ان سے اللٰہ تعالٰی کی ذات کے وجود کی تلاش،ملحدین کے  نظریہ ارتقاء کے رد اور اسلام اور قرآن پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات کے جواب کے لیے درج ذیل کتابیں ڈاون لوڈ کریں۔

http://kitabosunnat.com/kutub-library/allah-ki-nashaaniyaan

http://kitabosunnat.com/kutub-library/allah-ki-nishanian-aqal-walon-k-liye

http://kitabosunnat.com/kutub-library/inkshafat-e-quran-israre-qurani

http://kitabosunnat.com/kutub-library/end-of-time-qayamat-ki-nashanian-aur-zahore-imam-mahdi

http://kitabosunnat.com/kutub-library/tabah-shuda-aqwam

http://kitabosunnat.com/kutub-library/jandaron-ka-jazba-e-qurbani

http://kitabosunnat.com/kutub-library/touba-ka-darwaza-band-hone-se-pehle

http://kitabosunnat.com/kutub-library/khuliya-ik-qainat

http://kitabosunnat.com/kutub-library/khouf-e-khuda

http://kitabosunnat.com/kutub-library/dunyaauruskihaqeeqat

http://kitabosunnat.com/kutub-library/silsila-moujzat

http://kitabosunnat.com/kutub-library/saleebi-ganghgu

http://kitabosunnat.com/kutub-library/lazwal-khaliq-k-takhleki-ajaib

http://kitabosunnat.com/kutub-library/moujazate-qurani

http://kitabosunnat.com/kutub-library/nazriairtaqaaikfaraib

http://kitabosunnat.com/kutub-library/kainat-nazria-waqat-aur-taqdeer

http://kitabosunnat.com/kutub-library/kainat-ki-takhleeq

http://kitabosunnat.com/kutub-library/kainat-k-srbasta-raaz

http://kitabosunnat.com/kutub-library/yerang-bhari-dunya

http://kitabosunnat.com/kutub-library/ye-pur-shikwa-kainat
مکمل تحریر >>

ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

ملائیت کے نام پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی

تحریر:محمد عطاء اللہ صدیقی
سوویت یونین کے انہدام کے باوجود پاکستان کے اشتراکی ’’دانشور‘‘ سرخ جنت کی رومانوی فضا سے باہر نہیں آسکے۔ اشتراکیت کے زوال کے صدمہ نے معلوم ہوتا ہے ،انہیں اعصاب زدگی میں مبتلا کردیا ہے۔ حقائق کو ٹھنڈے دل سے قبول کرنے کی بجائے وہ کارل مارکس اور اس کے حواریوں کے ہفواتی مفروضات کو ہی ’’اصل حقیقت‘‘ سمجھنے کی غلطی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں اشتراکیت کے حق میں جو پراپیگنڈہ کیا گیا تھا، اس کے متاثرین 1990 ء کی دھائی میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ مغرب میں ’’مذہب کی واپسی‘‘ کی بات کی جا رہی ہے۔ اب وہاں مذہب کے متعلق مخالفت میں وہ شدت باقی نہیں رہی جس کا اظہار ماضی میں کیا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں کارل مارکس نے مذہب کی مذمت میں جو دلائل دیئے تھے، وہ قرونِ وسطیٰ میں کلیسا کے منفی کردار کو سامنے رکھ کرپیش کئے تھے۔ جیسا کہ بعد میں مولانا عبید اللہ سندھی اور لینن کے درمیان ملاقات میں بعد الذکر نے اسلام کے متعلق خوشگوار حیرت کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ہمارے بدیسی اشتراکی اپنے انقلابی جنون کے زیر اثر اسلام اور عیسائیت کے درمیان کسی قسم کا فرقِ مراتب قائم رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں کہیں مذہب یا الہامی تعلیمات کا ذکر ان کے کانوں میں پڑتا ہے ان کی رگ ِانقلاب فوراً پھڑک اٹھتی ہے۔ مذہب کی ہر صورت میں مخالفت ان کے خیال میں انقلابیت کا درسِ اوّل ہے۔ بعض اشتراکی مصنّفین نے کھل کر اعتراف کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا میں مغربی سامراجیت کے خلاف تحریک برپا کرنے میں اسلام نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستانی اشتراکی اپنے ذہن میںجو مفروضات قائم کر چکے ہیں، اس سے معمولی سی مراجعت کو بھی غیر انقلابی اقدام سے تعبیر کرتے ہیں۔
ملائیت کے پردے میں سوشلسٹ،لبرل اور سیکولر طبقے  کی مذہب اور اسلام سے نفرت کا کھلا اظہار ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ یہ لوگ ہر عالم دین ، مفکر ِاسلام اور دین پسند کو اپنے اس خود ساختہ ومزعومہ ، دائرہ ’’ملائیت‘‘ میں داخل سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کے استثناء کے قائل نہیں۔  اشتراکیت کی سرانڈ اور جمود سے ان کے اذہان وقلوب بند ہوچکے ہیں۔
اشتراکی ظلمت کدے کے گمراہ چوہوں کے نزدیک روشن خیالی محض یہی ہے کہ مذہب اور الہامی تعلیمات کو ’’ملائیت‘‘ کہہ کر رد کردیا جائے۔ اگر ملائیت سے ان کی مراد ’’کٹ حجتی، ضدی پن ، دقیانوسی اور تنگ نظری‘‘ ہے تو اپنے طرز ِعمل کے اعتبار سے ان اشتراکی بالشیتوں سے بڑھ کر ’’ملا‘‘ کوئی اور نہیں ہے۔ اشتراکی انقلاب کے بعد سوویت یونین میں بالشویکوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کی مساجد کو منہدم کردیا، اور ان کی نسلوں کو تباہ کیا، اس سے بڑھ کر آمرانہ بہیمیت کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اشتراکی ہر خیال اور ہر نظریہ کو لادین، مادی اشتراکیت کی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی ہیں، جو خیال اشتراکی تعلیمات سے ذرہ برابر بھی متصادم ہو ،وہ اِسے بلا چوں وچرا رجعت پسندی قرار دے کر مسترد کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کے باوجود انہیں یہ دعویٰ ہے کہ ان سے بڑھ کر وسیع النظر اور روشن خیال کوئی اور نہیں ہے۔ سابقہ سوویت یونین اور اشتراکی چین میں جس طرح آزادانہ فکر کو پابہ زنجیر کیا گیاہے، عملًا وہاں ہر فرد کے سر پر فولادی خود چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلامی تاریخ میں کسی بھی دور ِحکومت میں افراد کے ذہنوں کو اس طرح کی جکڑ بندیوں میں کسنے کی مثال نہیں ملتی۔
 اسلام کے سیاسی نظام، کلچر اور تاریخ کے متعلق معمولی سی آگاہی رکھنے والا ہر شخص بخوبی سمجھتا ہے کہ ’’تھیا کریسی‘‘ یا ملائیت اسلامی دور میں کبھی بھی مسئلہ نہیں رہی۔ یہ اصطلاح خود مغرب میں کلیسا اور سیکولرزم کے درمیان فکری تصادم کے نتیجے میں سیاسی فلسلفہ کا حصہ بنی، مذہب بیزار سیکولر دانشوروں نے ریاستی معاملات سے چرچ کو بے دخل کرنے کے لئے طنزاً ’’تھیوکریسی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ قرونِ اولیٰ میں کلیسا کو ریاست کے نظم ونسق میں جو جابرانہ تسلط حاصل رہا، اسلامی ریاست میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ ’’ملائیت‘‘ کاجو بھیانک تصور راجہ فتح خان کے ذہن میں ہے، وہ محض ان کے پراگندہ ذہن کی پیداوار ہے، حقیقت سے اس کو قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان کے حقائق نا آشنا سیکولر اور اشتراکی مصنّفین پاکستانی عوام کو اپنے خود ساختہ ملائیت کے خوف سے ڈرانے کیلئے کلیسا کی طرف سے گلیلو اور دیگر سائنس دانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور Bruno کو زندہ آگ میں جلانے کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ راجہ فتح خان نے بھی یہ فرسودہ اور پیش یا آفتادہ ہتھکنڈہ استعمال کیاہے اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ میں اس طرح کا قابل موازنہ ایک بھی واقعہ نہیں ہے۔ دور ِجدید میں ایران اور افغانستان میں بھی کسی سائنس دان کو زندہ آگ میں جلانے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ میں ہزاروں سال پہلے کلیسا کے مظالم کو بنیاد بنا کر اسلام کو مطعون کرنا ایک ایسی قبیح حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے ،کم ہے ۔پاکستان کے نفسیاتی امراض میں مبتلا بدیسی اشتراکیوں پر محض اسلام کا نام سن کر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے بہیمانہ تشدد کا احساسِ جرم دراصل ان میں یہ شدید رد عمل پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔
اسلام اور پاکستان کا ناقابل انفکاک ہیں، ان کے درمیان جسم اور روح کا رشتہ پایا جاتاہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ اسلام ریاست اور مذہب کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں عوامی نمائندے الہامی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کرنے کے پابند ہیں ، یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ جو تفصیلی دلائل کی محتاج نہیں۔ اسی لئے پاکستان کو ’’سیکولر‘‘ ریاست بنانے کا مطلب اسے اپنے فکری وجود سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک سیکولر اور اشتراکی طبقہ پاکستان کو اپنے وجود سے محروم کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہا ہے۔ سیکولرازم کی جو چاہے یہ تعبیر پیش کریں، اس کا لغوی واصطلاحی مفہوم سوائے مذہب دشمنی کے اور کچھ نہیں ہے۔ سیکولر ازم سے مراد یہ ’’برداشت‘‘ بتلاتے ہیں۔ کیا یہ اسی برداشت کا ہمیں درس دے رہے ہیں جس کا مصطفی کمال پاشا اور ان کی فکری اولاد اب تک مظاہرہ کر رہی ہے۔ ترکی میں اسلام پسندوں کے ساتھ جو برتائو کیا جا رہا ہے، کیا وہ کلیسا کے اس برتائو سے مماثلت نہیں رکھتا جو اس نے روشن خیال مفکرین کے ساتھ کیا تھا؟ …سیکولر ازم، کی منافقانہ شکل انڈیا میں بھی نظر آتی ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے عقیدہ کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
لبرل،سیکولر اوراشتراکیوں کو سوویت یونین میں سٹالن اور چین میں مائوزے تنگ کے ثقافتی انقلاب کے دوران کروڑوں مذہب پسندوں پر کئے جانے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے۔ اس کو وہ عین روشن خیالی سمجھتے ہیں لیکن اس ’’ملائیت‘‘ کے مزعومہ مظالم کی طویل داستان رقم کرتے وہ کبھی نہیں تھکتے جس کا وجود بھی نہیں رہا۔
  اسلامی ریاست اقلیتوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی بھی اسی طرح محافظ ہوتی ہے جس طرح کہ مسلمانوں کے حقوق کی 11 ؍اگست 1947 کی قائد اعظم کی تقریر کو اس کے سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ مفہوم اَخذ کرنا کہ قائد اعظم ایک مذہب دشمن سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے تھے، حد درجہ علمی بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے۔قائد اعظم اشتراکیوں کی فتنہ سامانیوں اور چیرہ دستیوں سے بھی بخوبی واقف تھے اسی لئے انہوں نے اشتراکیوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مسلمان طلباکی صفوں سے دور رہیں اور انہیں گمراہ نہ کریں۔ آج یہی اشتراکی قائد اعظم کے نام کا استحصال کرکے اپنے مذموم مقاصد کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچانے میں مصروف ہیں اور اپنے آپ کو قائد اعظم کی فکر کا سچا علمبردار بنا کر پیش کرتے ہیں۔شرم تم کو مگر نہیں آتی
 پاکستان کے سیکولر اور اشتراکی دانشوروں کو آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں سے ’خاص ہمدردی‘‘ رہی ہے۔ ان کے دل میں مرزا آنجہانی کیلئے خاص نرم گوشہ موجود ہے۔ پاکستان میں نفاذ ِاسلام کا ذکر کسی بھی حوالہ سے ہو، وہ مظلوم قادیانیوں کا ذکر درمیان میں ضرور لے آتے ہیں۔ مرزا قادیانی بھی بنیادی طور پر ایک ’’ملا‘‘ ہی تھا لیکن راجہ فتح خان جیسے کاٹھے اشتراکی بھی اسے ’’ ملائیت‘‘ میں شامل نہیں سمجھتے۔ اسلام دشمنی کے علاوہ نجانے کونسی روشن خیالی مرزا قادیانی میں ان کو دکھائی دیتی ہے۔ جس کی بنا پر وہ ان کا ممدوح اور باقی علماء معتوب ٹھہرتے ہیں۔ مرزا قادیانی اپنے آپ کو انگریزوں کا ’’کاشت کیاہوا پودا‘‘ کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ انگریز کے نہایت غالی حامیوں میں سے ایک تھا۔ وہ انڈیا میں انگریز سرکار کو باعث ِرحمت سمجھتا تھا۔ اس کی اس جاپلوسانہ ذہنیت کے باوجود انقلابی اشتراکی اگر اس کی تعریف میں رطب ُاللسان رہتے ہیں تو اس سے کئی شبہات جنم لیتے ہیں۔ اشتراکیت پسندوں اور قادیانیوں میں ’’اسلام دشمنی ‘‘ قدر ِمشترک ہے۔ اس کے علاوہ ان کے اس طرز عمل کی کوئی اور توجیہ پیش کرنا خاصا مشکل امر ہے۔
سیکولر ولبرل اس رام کہانی، کو دیدہ دانستہ بیچ میں لے آئے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں مولانا مودودیؒ، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق اور میاں نواز شریف میں سے کسی کو بھی نہیں بخشا، ان کے بقول مولانا مودودی ؒکا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی ’’اسلامی ریاست‘‘ میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہیں‘‘ …اگر یہ ’’جرم‘‘ تھا تو اس کا ارتکاب ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے تمام قابل ذکر علماء پہلے ہی کر چکے تھے۔ مرزا قادیانی نے ان تمام اربوں ’’مسلمانوں ‘‘ کو غیر مسلم اور ولد ُالزنا قرار دیا جو اس کی جھوٹی نبوت پر ایمان نہیں لائے۔ راجہ فتح خان جیسے ’’روشن خیال‘‘ مرزا غلام احمد کی اس ہفواتی جسارت کو قابل فروگذاشت سمجھتے ہیں۔ وہ مرزا قادیانی کی اس نا معقول اور حد درجہ توہین آمیز فتویٰ بازی کو ’’حریت ِفکر‘‘ کا لائسنس دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن اس حریت ِفکر کا استعمال جب مرزا کے مخالفین کی طرف سے کیاجاتا ہے تو اسے وہ تنگ نظری پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے دیگر تمام مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دے کر درحقیقت اپنے غیر مسلم ہونے کا خود اقرار کیا تھا کیونکہ کیونکہ کوئی بھی صاحب ِعقل چودہ سو سال سے ایک ہی عقیدہ پر قائم اَربوں مسلمانوں کو ’’غیر مسلم‘‘ اور صرف مرزا قادیانی جیسے جھوٹی نبوت کے دعویدار کو ’’مسلم‘‘ سمجھ کر اپنی دیوانگی اور پاگل پن کا اظہار نہیں کرے گا۔ راجہ فتح خان اگر قادیانی نہیں ہیں تو مرزا غلام احمد کے فتویٰ کی روشنی میں وہ ’’غیر مسلم‘‘ ہیں۔ لیکن اگر وہ قادیانی ہیں یا قادیانیت نواز ہیں تو انہیں مسلمان علماء کی آراء کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔
قادیانیت کے دفاع میں دو فرزندان ِقادیانیت کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے یعنی سر ظفر اللہ چوہدری اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام۔ یہ دونوں افراد اپنی تمام تر بیدار مغزی ، علم وتدبیر اور ذہانت وفطانت کے باوجود وراثت میں ملنے والی قادیانی تنگ نظری کے خول سے کبھی باہر نہ نکل سکے۔ راجہ فتح خان نے ظفر اللہ چودھری کی شان میں لکھاہے ، آپ قائد اعظم کی پہلی کابینہ پر نظر ڈالیں تو آپ کو جو گندر ناتھ منڈل وزیر قانون اور وزیر خارجہ قادیانی سر ظفر اللہ خان نظر آئیں گے( موصوف کواِن کا اصل نام تک معلوم نہیں)۔ یہی قادیانی وزیر خارجہ قائد اعظم کی میت کے ساتھ جاتا ہے، تدفین میں بھی شامل ہوتا ہے مگر جنازہ نہیں پڑھتا۔ صحافیوں کے پوچھنے پر جواب دیتا ہے کہ چونکہ دوسرے مسلمان احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے اس لئے ہم احمدی بھی ان کا جنازہ نہیں پڑھتے۔ یہی وزیر خارجہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کا اقوامِ متحدہ میں مقدمہ لڑتا ہے… لیکن یہی ملائیت گلا پھاڑ پھاڑ کر ظفر ُاللہ خان پر الزام لگاتی ہے کہ ’’بائونڈری کمیشن نے اس کی سازش سے گورداسپور بھارت کو دے دیا تاکہ وہ کشمیر پر قبضہ رکھ سکے‘‘
قائد اعظم کی تدفین میں شمولیت کے باوجود سر ظفر اللہ قادیانی کا ان کی نماز جنازہ میں شامل نہ ہونا اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ وہ قائد اعظم کو اپنی دانست میں مسلمان نہیں سمجھتا تھا۔ قائد اعظیم ایک وسیع المشرب انسان تھے ۔انہوں نے ظفر اللہ چوہدری کے قادیانی ہونے کے باوجود اس کی ذہانت سے متاثر ہوکر اسے وزارت ِخارجہ کا منصب عطا کیا۔ ظفر اللہ چوہدری نے قائد اعظم کے جنازے میں شرکت نہ کرکے جہاں اسلام اور قادیانیت کے دو الگ الگ مذاہب ہونے کا اظہار کیا، وہاں حد درجہ احسان فراموشی کا ثبوت بھی دیا۔ قائد اعظم جیسے روشن خیال، لبرل اور معتدل مسلم قائد کے متعلق قادیانیوں کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے، عام مسلمانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا جو عالم ہوگا وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ سر ظفر اللہ قادیانی کی بعد کی حرکتوں کے پیش نظر قائد اعظم نے اسے وزارت ِخارجہ کے منصب سے معزول کرنے پر ضرور غور کرتے، ہندو وزیر جو گندر ناتھ منڈل نے بھی قائد اعظم کی عزت افزائی کا جواب حد درجہ احسان فراموشی کی صورت میں دیا۔ وہ انڈیا بھاگ گیا اور وہاں ہندوؤں سے مل کر قائد اعظم کے خلاف توہین آمیز بیانات دیتا رہا۔ قادیانی کشمیر کو ’’قادیانی ریاست‘‘ بنانے میں کس قدر دلچسپی رکھتے تھے، اس کے بارے میں دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ 
کون نہیں جانتا کہ ڈاکٹر عبدالسلام سائنس دان ہونے کے باوجود کٹر قادیانی بھی تھا۔ وہ سائنس کو قادیانیت کی تبلیغ کے لئے استعمال کرتا رہا۔
جب پاکستان میں قادیانیوں کو ’’غیر مسلم‘‘ قرار دیا گیا تو وہ احتجاجاً پاکستان چھوڑ کر یورپ میں رہائش پذیر ہوگیا۔ اپنے انتقال سے پہلے اس نے وصیت کی تھی کہ اس کا جسد ِخاکی پاکستان میں قادیانی قبرستان میں دفن کیا جائے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی مخالفت اس کے سائنس دان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کٹر قادیانی ہونے کی کی بنا پر کی جاتی رہی ہے۔ اگر  ملائیت سائنس دانوں کے خلاف ہوتی تو پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ڈاکٹر ثمر مبارک اور دیگر یٹمی سائنس دانوں کو جو احترام ملا ہے،وہ ہرگز نہ ملتا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل انعام کا فائدہ پاکستان کو کیا ہوا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی ذہانت کا لوہا دنیا مانتی ہے، وہ ’’یونیفائیڈ تھیوری‘‘ پیش کرکے نوبل انعام کے مستحق ٹھہرے۔ کائنات کے اہم راز سے پردہ اٹھانیوالا سائنس دان مرزا غلام احمد کی فکری ضلالتوں اور باطل دعوؤں کا ادراک نہ کر سکا ، یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کو سائنس بھی نہیں سلجھاسکتی۔ ہدایت بلاشبہ عطیہ ٔخداوندی ہے۔
اشتراکیت اور سیکولرازم اپنے مزاج اور نظریہ کے اعتبار سے الحاد اور مریضانہ مادہ پرستی پر مبنی نظامِ فکر ہیں۔ ان نظام ہائے فکر کے ماننے والوں کا مذہب سے نفرت اور حقارت کا رویہ ایک فطری نتیجہ ہے۔ اشتراکی بازی گر عوام کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو ایک محض معاشی نظام ہے جو انسانوں کی معاشی مساوات کا قائل ہے لیکن وہ ان اُمور پر اپنی رائے دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں جن کا معاشیات سے مطلق طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب، کائنات کی تخلیق اور ما بعد الطبیات خالصتا ًفلسفہ اور مذہب کے موضوعات ہیں۔اصولاً اشتراکیوں کواس پر رائے زنی نہیں کرنی چاہئے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت محض معاشی فلسفہ نہیں ہے، یہ زندگی کے تمام موضوعات کے متعلق مادہ پرستانہ تعبیر کا قائل ہے۔پاکستان میں اشتراکیت مخالف دانشور ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ اشتراکیت ایک ملحدانہ نظامِ فکر ہے، اس پر اعتقاد رکھنے والا بالآخر اپنی مسلمانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ خیالات اشتراکی مکتبہ ٔفکر کے صحیح طور پر ترجمان ہیں۔ ان کے نظریات کی بنیاد کارل مارکس کی جدلیاتی مادیت اور تاریخ کی مادہ پرستانہ تعبیر پر ہے۔ اور یہ نظریات خدا پرستی، توحید اور مذہب کی بنیادی تعلیمات سے براہ ِراست متصادم ہیں۔  گزشتہ 13 سو سالوں میں اسلامی معاشرہ میں کسی کو بھی ارتداد کی سزا سے نہیں گزرنا پڑا۔ گزشتہ دنوں ہندوستان کے روزنامہ ’’قومی آواز‘‘نے خبر دی ہے کہ افغانستان میں ایک لاکھ مسلمانوں نے عیسائیت قبول کرلی ہے اور ان کی اکثریت ’’خلق‘‘ اور ’’پرچم پارٹی‘‘ سے تعلق رکھنے والے اشتراکیوں کی ہے جو طالبان کے خوف سے مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عیسائی بن گئے ہیں۔ طالبان نے ان کی گردنیں نہیں ماریں، تو پاکستان میں انہیں کس کا خوف ہے۔لیکن انہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ٔ پاکستان میں انہیں کھلی چھٹی نہیں دے دی جائے گی۔
پاکستان کے عوام اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں وہ ایسے مبلغین الحاد کا تعاقب بھی اپنا دینی اور ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ مٹھی بھر ملحد اشتراکیوں کی اسلام دشمن ریشہ دوانیوں پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کریں گے۔ اس کا تحفظ اور دفاع محض کسی ’’ملا‘‘ کی ذمہ داری نہیں ہے، ہر کلمہ گو اس بات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق دین ِ حق کا دفاع کرے۔
ممکن ہے کچھ علماء اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہوں، لیکن بحیثیت ِمجموعی علم کے فروغ اور قرآن وسنت کے احیا کے متعلق علماء کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں حریت ِپسند علما کو فرنگی سامراج کے ہاتھوں قید وبند کی صعوبتوں سے جس طرح گزرنا پڑا، وہ ہماری آزادی کی جدوجہد کا ایک زریں باب ہے۔ جزائر انڈیمان اور مالٹا آج بھی ان کی جرأتوں کی شہادت دیں گے۔ افغانستان سے جارح سرخ ریچھ کو پسپا کرنے میں وہاں کے علما نے جس جہادی جذبہ کا اظہار کیا اور ایک سپر پاور کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، دور حاضرمیں ایسی دلیرانہ جدوجہد کی مثال نہیں ملتی۔ مادہ پرستی کی یلغار کے سامنے وہ آج کے دور میں قران وسنت کا علم تھامے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں آج اگر اشتراکیت اور سیکولر ازم شکست خورہ ہے تو اس کے پس پشت علما کی کوششوں کو بہت دخل ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ایک محدود طبقہ فرقہ وارانہ تشدد میں مبتلا ہے۔ لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں 25 ہزار سے زیادہ دینی مدارس ہیں جو قرآن وسنت کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں، ان کا ایک مخصوص گروہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ دینی مدارس شدید مالی مشکلات کے باوجودا پنا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ تمام علماء کو ملائیت میں شامل سمجھ کر ان کے خلاف دریدہ دہنی محض مریضانہ مذہب بیزاری کا شاخسانہ ہے۔ لبرل ازم ، نیشنلزم،فیمنزم اور سوشلزم غرضیکہ جدید یورپ سے اٹھنے والی تمام تحریکیں ’’نفرت‘‘ کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ ان تحریکوں نے ہمیشہ کسی نہ کسی طبقے کو اپنی نفرت کا نشانہ بنایا۔ لبرل ازم نے مذہب اور کلیسا کو، نیشنلزم نے دوسری اقوام کو، تحریک آزادی ٔنسواں نے مردوں اور اشتراکیت نے جاگیرداروں اور صنعت کاروں اور مذہب پسندوں کو اپنی آتشین نفرت کا تختۂ مشق بنایا، پاکستان کے بدیسی اشتراکیوں نے ’’علماء‘‘ کو اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی انقلابیت کی تسکین کا سامان تلاش کیا ہے۔ یہ نفرت کے پجاری اپنے آپ کو ’’انسان دوست‘‘ کہتے ہیں لیکن ان کی انسان دوستی کی تعریف میں مذہب کی حقانیت پر یقین رکھنے والے پورے نہیں اترتے۔ ان کے نزدیک سچا انسان وہی ہے جو ملحد اور مذہب بیزار ہو۔ پاکستان کے شکست خوردہ اشتراکی عناصر نے ’’پونم‘‘ کے نام پر ملکی یکجہتی کو تاراج کرنے کا نیا منصوبہ بنایاہے۔ جی ایم سید، باچا خان، اور اچکزئی کی فکری اولاد کو سیاسی سطح پر پاکستان میں کبھی بھی عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ لیکن وہ خود ساختہ ’’مظلوم اقوام‘‘ کے نمائندے اور ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
آخر میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ اسلام اپنی حرکی توانائی، اجتہادی خصوصیات، روشن خیالی اور ایک جامع نظامِ ہدایت ہونے کے ناطے انسانیت کی بھلائی کا واحد نظام ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کی زخم خوردہ انسانیت بالآخر اسلام کے دامن میں فلاح پائے گی۔ ملائیت یا کسی اور نام سے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کے مذموم ہتھکنڈے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اکیسویں صدی بلاشبہ اسلام کے فکری احیاء کی صدی ہوگی ۔ ان شاء اللہ!
مکمل تحریر >>

کیا اسلام کے سائنسی زوال کے ذمہ دار مولوی ہیں؟کیا اسلام سائنس کا دشمن ہے؟کیا غزالی جیسے مولویوں نے اسلام کی فلسفے،ریاضی اور سائنس میں ترقی روک دی؟

کیا اسلام کے سائنسی زوال کے ذمہ دار مولوی ہیں؟کیا اسلام سائنس کا دشمن ہے؟کیا غزالی جیسے مولویوں نے اسلام کی فلسفے،ریاضی اور سائنس میں ترقی روک دی؟
اسلامی عہد زریں کا افسانہ
تحقیق۔۔۔پروفیسر اسد کیو احمد
ترجمہ۔۔۔عاطف حسین
***********************************************
پروفیسر اسد کیو احمد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے منسلک ہیں۔ پیش جدیدی مسلم معاشروں کی سماجی اور فکری تاریخ ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔
کوئی دو ماہ قبل (یہ تحریر اکتوبر 2013ء کی ہے۔مترجم) مجھے امیریکن اسلامک کانگریس نامی ایک این جی او کی طرف اسلام اور سائنس کے موضوع پر ایک مباحثے میں شمولیت کی دعوت ملی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس میں میرے ساتھ ایک پاکستانی عوامی اسپیکر بھی شرکت کریں گے (یہ اسپیکر پروفیسر ہودبھائی تھے۔ مترجم) جو اسلامی فکر کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا میں سائنس اور دوسرے عقلی علوم کی اشاعت و ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔ مجھے اس مباحثے میں فوری طور پر دلچسپی محسوس ہوئی کیونکہ ماقبل جدید (800-1900ء) مسلم دنیا میں عقلی علوم جیسے کہ فلسفہ،منطق اور فلکیات وغیرہ کی تاریخ میرے مطالعے کا خصوصی موضوع ہے۔
کئی سالوں سے میں آہستہ آہستہ مگر بڑی محنت سے مسلم عقلی علوم کے متعلق مباحث کی مختلف تہوں کو پلٹ رہا ہوں تاکہ مسلم دنیا میں سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دے سکوں۔ مجھے اپنے کام اور پوری دنیا میں انفرادی حیثیتوں اور ٹیموں کی شکل میں اسی علمی مشغلے میں مصروف اپنے ساتھیوں کے کام سے ماضی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے لیکن اب تک اپنی دریافتوں کے نتیجے میں ہم سب متفقہ طور پر ایک عرصے سے درست تسلیم کی جانے والی مسلم عہد زریں اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علوم ِعقلی کے زوال کی کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ اب تک اس موضوع پر کچھ اہم کام ہوچکا ہے اس لیے میں نے عام لوگوں کے ساتھ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج پہنجانے کے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مباحثے میرے ساتھ شریک دوست کو پہلے بولنے کا موقع ملا اور انہوں اپنی گفتگو کا آغاز ایک ایسی بات سے کیا جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ فی زمانہ مسلم دنیا میں سائنس اور باقی عقلی علوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اسے جلد از جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمدہ آغاز تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس صورتِ حال کے جو اسباب گنوائے وہ محل نظر تھے۔ کچھ دلچسپ ذاتی تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اس صورت حالات کی تاریخی وجوہات مسلم عہدزریں کے اختتام اور تاریک دور کے آغاز جس میں مسلم روایت پرستی کو عروج حاصل ہوا میں تلاش کی جانی چاہیے۔
ان کی بیان کی ہوئی کہانی کے مطابق سنی ماہر الہٰیات غزالی کے حملوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں علوم عقلی زوال آشنا ہوگئے۔ فلسفیوں پر برا وقت آیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، فطری مظاہر کی توجیہہ معجزوں سے کی جانے لگی، اجرام فلکی کی حرکت کے ذمہ دار فرشتے قرار دیے گئے اور اس طرح مسلمان سائنسی ترقی کے قابل ہی نہ رہے کیونکہ انہوں نے سببیت کا ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں یہ بالکل بھی تعجب خیز نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے علم کی دنیا میں مزید کوئی ترقی نہیں کی۔ اور آج جو ہم صورتِ حالات دیکھ رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل دشمنی کی اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔
تاہم یہ سب ایسے نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ تہافت الفلاسفہ میں غزالی کا نشانہ عقل یا فلسفہ تھے ہی نہیں۔ غزالی کا اعتراض جیسا کہ انہوں نے ایک سے زائد ابتدائیوں اور پھر پوری کتاب میں باربار واضح کیا ہے اسلامی عقائد کے متعلق بحثوں میں ناقص منطق سے استدلال کرنے والے مابعد الطبیعاتی مفکروں پر ہے۔ غزالی نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ عقائد کے علاوہ دوسرے معاملات یعنی ایسی چیزیں جو سائنسی نوعیت کی ہیں ان میں فلاسفہ سے نہیں جھگڑنا چاہیے۔ وہ (غزالی) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی سائنسی توجیہہ اور حدیث میں تعارض ہو تو زیادہ بہتر رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر رد کردیا جائے۔ اسی طرح اگر الہامی متن اور سائنسی طور پر ثابت شدہ کسی چیز کے درمیان تعارض واقع ہوجائے تو متن کے استعاراتی معنی مراد لیے جائیں گے۔ درحقیقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ غزالی عقل کو روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی معاملات میں انہوں نے اندھی تقلید پر شدید تنقید کرتے ہوئے عقل کو ہی نقلی علوم کی بنیاد قراردیا ہے۔
غزالی کے بعد بھی مسلم دنیا میں عقل کے متعلق یہ رویہ جاری رہا۔ اس روایت کو زندہ رکھنے والے بے شمار مفکروں میں سے نصیرالدین طوسی (وفات 1274 ) ، قطب الدین شیرازی (وفات 1311)، عضدالدین ایجی (وفات 1355)، سید شریف جرجانی (وفات 1413)اور محب اللہ بہاری (وفات 1707) کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک فلکیات سے مابعد الطبیعات تک مختلف علوم میں مسلم علماء کا موقف بالعموم یہی رہا کہ عقل ہی وہ سائنسی تمثیلات مہیا کرتی ہے جن سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ریاضیاتی اور منطقی طور پر درست ہونے کے بعد باوجود یہ طے کرنا کئی دفعہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کونسی تمثیل دوسروں سے برتر ہے۔ بالفاظ دیگر مسلم علماء نے سائنس کے بارے میں بعینہ وہی رویہ اختیار کیا جو ڈیوڈ ہیوم کے بعد مغربی دنیا میں اختیار کیا گیا۔ اتفاق سے ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے سببیت اور استقرائی منطق کے مابعد الطبیعاتی پہلووں کے متعلق بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت غزالی کے بعد کے دور میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں علماء نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سائنسی تحقیق عقائد کیلئے بالکل مضر نہیں‌ہے۔
مبادا کہ قارئین کو ان علماء کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک ہو، میں بیان کرتا چلوں کہ جن علماء کا میں ذکر کررہا ہوں وہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ تفسیر، حدیث، فلکیات، طب اور ریاضی جیسے علوم پر دسترس رکھنے والے غیر معمولی لوگ تھے جو پیچیدہ پیش جدیدی معاشرے میں ایک سے زائد کردار نبھا رہے تھے۔ یہ کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ بیسویں صدی کے آغاز تک مدرسے کے نصاب میں نقلی علوم کے مقابلے میں عقلی علوم کے متعلق زیادہ کتابیں شامل ہوتی تھیں۔ درحقیقت اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ الہامی متون کے درست اور ذمہ دارانہ مطالعے کے قابل بننے کیلئے پہلے عالم کو منطق و خطابت۔۔۔ حتیٰ کہ طب جیسے علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ گویا اس طرح سے ہماری تحقیق کے بالکل آغاز میں ہی واضح‌ہوگیا ہے کہ عقل و وحی، عقلیت پسند و روایت پسند، عہدزریں و عہد تار اور فلسفی و ملا جیسی سادہ و سطحی ثنائیات کو سرے سے ترک کردینا چاہیے۔ اور اسلامی تناظر میں "آرتھوڈوکسی”، "کلیرک "اور "سیمینری” جیسی اصطلاحات کا استعمال تو ہے ہی بالکل بے جا اور غلط۔۔
تو پھر ہمارا یہ حال کیسے ہوا؟ اور اس کے متعلق کسی تحقیق کی آخر کیا ضرورت ہے؟ میں دوسرے سوال سے شروع کروں گا کیوں کہ اسکا جواب آسان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عہدزریں اور زوال کے بیانیے کا فوری نتیجہ بالکل وہی ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کا موقف بھی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے- یہ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مین اسٹریم روایت پرستانہ اسلام کی وجہ سے 900 سال سے علوم عقلی اسلامی دنیا میں اجنبی ہیں۔ تو یہ مذہب ہے ہی غلط اور اسے اب ناپید ہوجانا چاہیے۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے کہ اس بیانیے سے کچھ اسلام پسند گروہوں جیسی ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے ۔ ان کے نزدیک بھی اسلام کی ابتدائی صدیوں کا دور مثالی تھا جس کی طرف وہ لوٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ رہے ہم جیسے لوگ تو وہ معقولیت کی تلاش میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پس رہے ہیں ۔
یہ مقبول بیانیہ انتہائی خطرناک تو ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ بالکل ہی غیر علمی اور بودا بھی ہے اور علوم عقلی کے متعلق اسلامی دنیا میں تخلیق کردہ قلمی نسخوں کے بحر ذخار میں سے محض چند قطرے دیکھنے کے بعد ہی مغربی علمی حلقوں میں اب کوئی بھی اب اس بیانیے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آخر اسلامی دنیا میں علوم عقلی کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ابھی ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوئے لیکن میں اپنی تحقیق کے دوران کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں جو اسلامی دنیا میں فلسفے، فلکیات اور طب جیسے علوم کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ میں ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں لیکن مکمل تصویر کیلئے ہمیں ابھی مزید تحقیق کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک وجہ تو یہ رہی کہ انیسویں صدی کے وسط میں علو م عقلی میں تربیت یافتہ علماء کو شاہی سرپرستی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے ایسے علماء مختلف درباروں سے قاضیوں، شاعروں، تحصیل داروں، سفارت کاروں ، طبیبوں اور نقشہ نویسوں کی حیثیت سے منسلک ہوتے تھے اور یہیں سے ا ن کی سرپرستی ہوتی تھی۔ تاہم برطانوی راج کے عروج کے نتیجے میں جب ایسے دربار ختم ہونے شروع ہوئے تو ایسے علماء بھی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو بین العلاقائی مصلحین کے گروہوں سے تعلق رکھنے والے عوامی مبلغوں نے پر کرنا شروع کردیا جن کی تربیت بالکل ہی الگ ڈھنگ پر ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کی حد تک علوم عقلی کے زوال کی ایک اور وجہ اردو کو مسلمانوں کے ہاں ادب کی بنیادی زبان کا درجہ حاصل ہوجانا بھی تھی۔ عقلی علوم کے متعلق قریب قریب کل تصانیف عربی ( اور کچھ فارسی میں ) تھیں۔ ان زبانوں (عربی اور فارسی) میں عقلی علوم کی لمبی تاریخ کے دوران وجود میں آنے والا فنی اصطلاحات کا ایک پورا ذخیرہ موجود تھا لیکن ان زبانوں کے متروک ہوجانے اور ان سے اردو میں ترجمے کی کسی منظم کوشش کی عدم موجودگی میں اس ذخیرے کے ضیاع کے نتیجے میں علوم ِ عقلی کا معیار بڑی حد تک گر گیا۔
اسی طرح ، اگرچہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن علوم عقلی کے زوال میں کچھ کردار شاید پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی ادا کیا ہو۔ مسلم علماء مخطوطات پر ہاتھ سے حاشیے اور تشریحات لکھنے کے عادی تھے۔ اس طرح ہر شعبۂ علم میں ایک ایسی داخلی جدلی روایت وجو د میں آئی جو اس شعبۂ علم کی ترقی کی براہ ِ راست ذمہ دار تھی۔ تاہم پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث صورت ِ حالات بدل گئی ۔ اب نہ قلمی نسخے رہے اور نہ ان پر لکھے ہوئے حاشیے۔ اس طرح کسی موضوع پر تاریخی مباحث سے براہ اکتساب کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ درحقیقت (مین اسٹریم اسلام کی عقل دشمنی کے بجائے) ان چند ایک عوامل کے ساتھ اور بے شمار سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادارہ جاتی اور ٹیکنالوجیکل عوامل دراصل آج مسلم دنیا میں علوم عقلی کی زبوں حالی کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ تشخیص درست ہو یعنی یہ کہ مین اسٹریم ‘روایتی’ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے تو پھر اس زبوں حالی کا حل بھی کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ میں یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر غور و فکر کریں کہ وہ حل کیا ہوسکتے ہیں اور ان کو کیسے روبعمل لایا جاسکتا ہے۔
اب میں آخر میں کچھ روشنی اس چیز پر ڈالنا چاہتا ہوں کہ نام نہاد عہدِ تاریک کے دوران ہونے والے کام کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کرتے ہوئے عہدِ زریں و عہد ِتاریک کا بیانیہ پیدا ہی کیونکر ہوا، کیوں یہ اب بھی مقبول ہے اور شاید آگے بھی باوجود ہمارے جیسے لوگوں کی کوششوں کے مقبول ہی رہے گا۔ اس کو جس خوبصورتی سے کولمبیا یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مطالعات کے اروند رگوناتھ پروفیسر شیلڈن پولاک نے واضح کیا ہے میں اس سے بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔ پروفیسر صاحب ہندوستانی دانش کی تاریخ پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"سائنس اور اسکالر شپ کے متعلق ، خصوصاً دور جدید کے ابتدائی دنوں میں مختلف علوم کی تاریخ کے متعلق گہری تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں کی لائبریاں یوں ہی پڑی ہیں جن کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب ان مخطوطات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمی جدیدیت اور نوآبادی نطام کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے اگرچہ اس بارے میں بات بہت کم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک مسشترقین کا یہ رومانوی نظریہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندوستانی مصنوع، کتاب یا خیال کی اہمیت و وقعت اس کی قدامت سے طے ہوتی ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کا یہ بیانیہ جسکو برطانوی سامراجی منصوبے کے تحت شروع کیے جانے والے ‘مہذب بنانے’ اور ‘جدید بنانے’ کے پراجیکٹ میں بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ ہندوستانی تہذیب 1800ء سے پہلے ہی زوال آشنا ہوچکی تھی بھی اس صورتِ حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ تحقیر اور بے اعتنائی ہے جس کے ساتھ’دیسی ‘ علماء نے اپنے سامراجی آقاؤں کی طرح عظیم ہندی لٹریچر کو ٹھکرایا ہے۔”
یہ بیانیہ نوآبادیاتی استشراقی افسانے کے طور پر شروع ہوا جو اب ایک طرح کے نواستشراقی مظہر کے طور پر اپنے ماضی سے کٹ جانے والے لوگوں میں رائج ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں میرے خیال میں اب مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی انتخابات ہیں۔ یا تو وہ یہی استشراقی راگ الاپتے ہوئے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کرتے اور اس طاقتور افسانے کے زورپر شدت پسندی کی پرورش کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی زبانوں کو ازسر نو زندہ کریں، ایسے تاریخ دان پیدا کریں جو اصل مصادر میں غواصی کرسکیں ، ایسے فلسفی پیدا کریں جو سطحی ثنائیات سے آگے بڑھ کر مہارت اور خلوص کے ساتھ ان مباحث کو آگے بڑھا سکیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو تبھی شاید مسلمان تاریخ کے نام پر سنی ہوئی کہانیوں کو ازسر نو لکھنے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔

مکمل تحریر >>

کیا وحی کی اخلاقیاتی تعلیمات جیسا کہ راستے سے پتھر ہٹانا،سقراط سے لی گئ ہیں؟کیا حضرت موسٰی علیہ السلام ایک حقیقی شخصیت کی بجائے محض ایک افسانوی شخصیت ہیں ؟اسلام پر ملحدین کا سنگین اعتراض اور اس کا جواب

کیا وحی کی اخلاقیاتی تعلیمات جیسا کہ راستے سے پتھر ہٹانا،سقراط سے لی گئ ہیں؟کیا حضرت موسٰی علیہ السلام ایک حقیقی شخصیت کی بجائے محض ایک افسانوی شخصیت ہیں ؟اسلام پر ملحدین کا سنگین اعتراض اور اس کا جواب

تحریر۔۔۔احید حسن
************************************************
راستے سے پتھر ہٹانا تمام انسانیت کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے۔کل کو اگر کوئ مسلم کسی سے اچھی طرح بولنے کی تائید کرے تو کیا وہ بھی کسی اور مذہب سے اخذ شدہ ہوگا؟سقراط کی وفات 399 قبل مسیح کی ہے اور اس کا تعلق یونان سے تھا اور یونان براہ راست بابل کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہوگاکیونکہ یونان کی سائنس اور فلسفہ قدیم میسوپوٹیمیا اور بابل سے متاثر ہوکر شروع ہوا، جو کہ قدیم عراق اور کئ مبارک انبیاء جیسا کہ نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ وسلم کی سرزمین رہا۔پھر کیا کہا جائے کہ یونانی حکماء و فلاسفر نے یہ اخلاقیاتی تعلیمات انبیاء سے حاصل کی یا کچھ اور۔یہ تاریخی تناظر دیکھا جائے تو نتیجہ الٹ نکلتا ہے کہ خود سقراط اور یونان وحی کی تعلیمات سے متاثر ہوا ہوگا.
یونانی فلاسفرز میں سقراط  کو خدا پرست کہا جاتا ہے۔اخلاقیات سقراط کا ایک اہم عنوان تھا اور سقراط ایک فلسفی تھا اور فلسفے کی تاریخ محض زیادہ سے زیادہ تین ہزار سال پرانی ہے اور فلسفے کا لفظ پہلی بار فیثا غورث  نے 570 قبل مسیح میں استعمال کیا جب کہ اخلاقیات کی پیغمبرانہ تعلیم اس سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔اب فلسفیانہ اخلاقیات وحی سے لیے گئے  ہاں گےیا وحی اخلاقیات سے؟خود فیصلہ فرمائے یہ سب تاریخی حقائق مدنظر رکھ کر
اور کوئ ملحد ثابت کر سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سقراط یا باقی یونانی فلاسفر کی تعلیمات کے عربی تراجم مکہ مکرمہ میں میسر تھے کہ جن سے نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثر لیا ہو؟ چلو عربی نہیں یونانی ہی ثابت کردو
یں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تمام مشہور یونانی فلاسفر کی تعلیمات کے عربی تراجم 750ء کے بعد بنو عباس کے دور میں شروع ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جون 632ء میں وفات پا چکے تھے۔کیا ان سب تاریخی حقائق کے بعد کوئ کہ سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تعلیمات نعوذ بااللہ یونان سے اخذ کی.
پومپی  روم کا قدیم شہر تھا جو ہم جنس پرستی کی وجہ سے 94ء میں آتش فشاں کے پھٹنے سے خدائ عذاب کا شکار ہوا۔اس کے آثار قدیمہ میں دیواروں پر ایسی پینٹنگ دریافت کی گئ ہیں جن میں حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مشیروں کے ساتھ ایک کرسی پر موجود ہیں اور اس بات کی گواہی موجود ہے جس کے مطابق یہودی قدیم روم اور یونان میں آباد تھے۔تورات کا 270 قبل مسیح میں یونانی میں ترجمہ ہوچکا تھا۔اب خود فیصلہ کیجیے کہ وحی کی اخلاقیاتی  اور دوسری تعلیمات سے روم و یونان متاثر ہوئے یا وحی یونان سے۔تاریخی حقائق اصل کہانی بیان کر رہے ہیں کہ حقیقت میں روم و یونان وحی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے نہ کی وحی روم و یونان سے۔
یہودی اہل کتاب ہیں۔ان کی تعلیمات میں یہ باتیں موجود تھیں۔تاریخ کے مطابق یہود چوتھی صدی قبل مسیح کے زمانے میں بھی یونان میں آباد تھے جن کو Romaniotes کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہود کا ایک اور گروہ قدیم یونان میں موجود تھا جسے Sephardi Jews کہا جاتا ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وحی کی تعلیمات قدیم یونان میں یہود کے ذریعے پہنچ چکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ سقراط جیسے خدا کی وحدانیت پرست فلاسفرز کے بارے میں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ تعلیمات یہود سے حاصل کی اور حالات و تاریخ کو دیکھ کر یہ امکان کسیہے طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہود موسٰی علیہ السلام کی شریعت کے پیروکار تھے اور موسٰی علیہ السلام کا زمانہ آج سے 1200 قبل مسیح میں بیان کیا گیا ہے دنیا کے اکثر مورخین کی طرف سے۔یہ اخلاقیاتی تعلیمات موسٰی علیہ السلام کی شریعت میں یہود کو دی جا چکی تھی اور بعد میں جب 598 قبل مسیح میں یروشلم کی بخت نصر کی طرف سے تباہی کے بعد دنیا کے مختلف علاقوں میں گئے ان میں یونان بھی شامل تھا۔اور ان کی تعلیمات کا وہاں کے معاشرے پر بھی اثر پڑا۔اس طرح عین ممکن ہے کہ خود سقراط نے یہ تعلیمات یہود سے اخذ کی جو وہاں آباد تھے۔
سقراط کی لکھی ہوئ کوئ بھی تصنیف موجود نہیں ہے۔اس کے بارے میں موجود تمام معلومات اور اس کا فلسفہ اور وہ اخلاقیاتی تعلیم جس سے ملحدین  وحی کو چوری کا الزام دے رہے ہیں،ثانوی ذرائع سے آئی ہے۔تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ سقراط نام کی کسی شخصیت کا حقیقی طور پر کوئ وجود نہیں تھا۔بذات خود جو فلسفہ اور تعلیم اس سے منسوب کی جاتی ہے اس میں بہت زیادہ تضادات ہیں جس کو مسئلہ سقراط یا Socrates problemکہا جاتا ہے۔اس کی زندگی کی تو حقیقی تاریخ کا بھی نہیں پتہ نہ ہی اس کے وقت اور جگہ کے بارے میں ٹھیک معلومات میسر ہیں۔یہاں تک کہ وہ ذرائع بھی جو سقراط کا بیان کرتے ہیں وہ بھی لازمی طور پر اس کے بارے میں کچھ مستند جاننے کا دعوی نہیں کرتے۔پھر بھی ملحدین کا خیال ہے کہ سقراط ایک حقیقی شخصیت جب کہ موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت ہیں۔جس شخص کی تعلیمات تک کا نہیں پتہ،اس کے زمانے اور وقت تک کا ٹھیک سے نہیں پتہ،اس کے بارے میں ملحدین یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات اس سے لی گئ؟جس کے بارے میں کچھ ٹھیک نہیں پتہ اس کی شخصیت حقیقی ہے جب کہ موسٰی علیہ السلام کی شخصیت فرضی ہے۔؟سبحان اللٰہ۔پہلے ملحدین  اپنے حوالہ جات مستند کر لیں پھر اسلام پر الزام لگائیں۔
سقراط کے مقابلے میں موسٰی علیہ السلام کا تعلق جس قوم یعنی بنی اسرائیل سے ہے وہ اپنی ایک ایک تاریخ محفوظ رکھنے والی ہے،نسلی طور پر وہ اپنے اجداد اور اپنے مذہب پر بہت پختہ ہے۔ملحدین  کا کیا خیال ہے کہ اس نسل نے اپنے جد امجد یعنی موسٰی علیہ السلام کی زندگی کی تاریخ محفوظ نہیں کی؟ جب کہ اس قوم کے پاس اپنے قبیلے اور اپنے انبیاء کی اس سے کئ گنا زیادہ مستند تاریخ محفوظ ہے جتنی ملحدین  کے پاس سقراط کی۔پھر بھی ملحدین کا دعوی ہے کہ سقراط ایک حقیقی شخصیت ہے اور موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت؟تورات کو اس وقت چھوڑ دیجیے۔صرف Book of exodus لیجئے جس کی تاریخ کے بارے میں خود مورخین کہتے ہیں کہ اس کی تدوین 600 قبل مسیح میں شروع ہوچکی تھی یعنی سقراط سے بہت پہلے اور اس میں موسٰی علیہ السلام کا واضح ذکر ہے۔سقراط کی تعلیمات اور زندگی کی کوئ مستند تاریخ میسر نہیں پھر بھی ملحدین کا کہنا ہے کہ موسٰی علیہ السلام ایک فرضی شخصیت ہیں اور سقراط حقیقی۔آپ کی تاریخ سے واقفیت اور سمجھ کو سلام۔سبحان اللٰہ.
ولیم جی ڈیور لکھتے ہیں
 scholarly consensus sees Moses as a legendary figure and not a historical person,yet we allow for the existence of a historical "Moses-like" figure
اس میں بالکل واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ ولیم اجازت دیتا ہے کہ موسٰی علیہ السلام جیسی ایک تاریخی شخصیت کو حقیقی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے پر دوسرے یہودی  مورخین کا ذکر ہے جو موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کا وجود نہ صرف مانتے ہیں بلکہ ان کا زمانہ بھی بتاتے ہیں۔یہ پڑھیں

some scholars still discuss the possibility of a genuine historical figure of "Moses" in some form۔ Rabbinical Judaism calculated a lifespan of Moses corresponding to 1391–1271 BCE; Jerome gives 1592 BCE,and James Ussher 1571 BCE as his birth year.

آگے کے یہ حوالے واضح طور پر موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کو حقیقی تسلیم کر رہے ہیں۔
ملحدین کا کیا خیال ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا بھی تاریخی طور پر کوئ وجود نہیں تھا؟William F. Albright اور Albrecht Alt جیسے ماہرین آثار قدیمہ حضرات ابراہیم علیہ السلام جیسی شخصیات کے وجود کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ حقیقی ہوسکتے ہیں یا فرضی۔لیکن بعد کے ماہرین آثار قدیمہ Thomas L. Thompson کی The Historicity of the Patriarchal Narratives،John Van Seters کی Abraham in History and Tradition کے مطابق ابراہیم علیہ السلام اور ان جیسے دیگر شخصیات حقیقی نہیں ہیں لیکن بعد کی لیکن اب خود William G. Dever نے ابراہیم علیہ السلام کا انکار کیا لیکن ستمبر 2016 کی دریافت کے مطابق ان کے وجود کے حقیقی ہونے کے بھی شواہد مل چکے ہیں۔اب ملحدین  کا کیا خیال ہے پیغمبروں کی تعلیمات میں اخلاقیات کی تعلیم نہیں ہوتی تھی،ارتقا کی تعلیم ہوتی تھی؟
حضرات ابراہیم علیہ السلام اور موسٰی علیہ السلام کے بارے میں اب ماہرین حقائق تسلیم کرنے لگے ہیں۔یہودکے بارے میں میں نے تاریخی حوالہ دیا جس کے مطابق یہود چوتھی صدی قبل مسیح میں قدیم یونان میں موجود تھے اور لازما ان کی تو رات میں موجود پیغمبرانہ تعلیمات کا وہاں کے معاشرے پر اثر پڑا ہوگا۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔یہ وہی وقت ہے جب سقراط بھی زندہ تھا۔
اور ذرا تاریخ کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک  Antiquity of jews بھی پڑھ لیجئے جو فلیویس جوزیفس کی تصنیف ہے۔اس میں واضح طور پر موسٰی علیہ السلام کی تاریخ بیان کی گئ ہے۔یہ وہ کتاب ہے جس کے حوالے ملحدین اسلام پر اعتراضات کے لیے پیش کرتے ہیں۔اب یہ کتاب خود موسٰی علیہ السلام کی شخصیت کو حقیقی تسلیم کر رہی ہے۔جب اسلام پہ اعتراض کرنا ہو تو یہ کتاب قابل اعتبار ہے ورنہ نہیں۔کیوں؟
 سقراط کی طرح موسٰی علیہ السلام پر بھی کئ مورخین کی طرف سے لکھا گیا ہے۔ ملحد مورخین نہ مانیں تو کیا اعتماد۔اگر سقراط کی پہچان اس کے شاگردوں کی تصنیف ہے تو موسٰی علیہ السلام کے وجود کی وضاحت تورات کی Book of exodus,book of number and Deuteronomy سے ہے جس کے قدیم نسخوں کا اندازہ آرکیالوجی سے ساتویں صدی قبل مسیح کا لگایا گیا ہے یعنی سقراط سے بھی پہلے۔پھر بھی سقراط اپنی تعلیمات سے ثابت یے لکن موسٰی نہیں۔ یہ دوغلا معیار کیوں۔اصل بات یہنہیں پے کہ خدا کے منکر ملحد مورخین وحی پر ایمان نہینلانے رکھتے اور ان شخصیات کے وجود کے لیے دوسرے ذرائع پر ایمان رکھتے ہیں جب کہ اب دوسرے ذرائع بھی موسٰی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے وجود کو تسلیم کر چکے ہیں۔
تاریخی حقائق پڑھ لیجیے۔ ملحدو!تاریخ کی اندھی تقلید نہ کیجیے ورنہ گمراہ ہی رہیں گے۔تاریخ کہتی ہے کہ قدیم یونان میں یہودی چوتھی صدی قبل مسیح میں موجود تھے اور یہی وہ زمانہ ہے جب سقراط پیدا ہوا۔پھر کس طرح ہم اس امکان کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ یہ تعلیمات یہود سے اخذ شدہ ہوسکتی ہیں یا سیدھا انکار کردیں کہ یہود سقراط کے وقت میں یونان میں تھے ہی نہیں۔پھر ہم  اس کا بھی حوالہ پیش کر کےبتا دیں گے ان شاء اللہ.
باقی یونانی فلاسفرز کے برعکس سقراط خدا کے وجود کا نہ صرف قائل تھا بلکہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کا قائل تھا بلکہ بعض اوقات تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ پیغمبر تھا جب کہ اسلام کے مطابق ایسی کوئ حوالہ نہیں۔اب ایک ایسا بندہ جو خدا کی ذات کا اتنا بڑا قائل ہو اس کے بارے میں ملحدین کہتے ہیں کہ سقراط نے مذہب کے خلاف بغاوت کی۔سبحان اللٰہ۔اصل بات یہ تھی کہ اس نے یونان کے باقی سب خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی تعلیم دی جسے وہ God of Delphi کہتا ہے۔یہی اس کا قصور تھا کہ اس نے وحدانیت کی تعلیم دی۔جو کہ وحی کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔حوالہ ملاحظہ کریں
https://www.megaessays.com/viewpaper/59693.html
یہ محض ایک حوالہ تھا۔ایسے کئ حوالے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
سقراط کی اخلاقیاتی تعلیم جدلیاتی ہو یا دوسری اس پر یونان میں موجود باقی یہود کے اثرات کے امکان  کا انکار ملحدین کیسے کر سکتے ہیں۔یا  سیدھا کہ دیں کہ اس زمانے میں یونان میں یہود تھے ہی نہیں۔
یہ سارے تاریخی حقائق دیکھنے کے بعد ملحدین کا وحی پر اخلاقیاتی تعلیمات سقراط سے چوری کرنے اور موسٰی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو فرضی وجود قرار دینے کا الزام سو فیصد غلط ہے۔اس پر مزید تحقیق کر چکا ہوں۔تفصیلی مضمون ان شاء اللہ کبھی بعد میں۔


کیا سپین کا فقہ مالکی کا مشہور سپینی فلسفی ابن رشد ملحد تھا؟کیا ابن رشد کی کتابوں کو مولویوں نے آگ لگادی تھی؟
ابن رشد کے فلسفے اور اس حوالے سے اسلام پر سیکیولر اور ملحدین طبقے کے اعتراضات اور ان کا تاریخی دلائل سے جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن رشد خالص عقلیت پسند تھا ۔اس کا نقطہ نظریہ تھا کہ صرف چند الہامی عقائد کو چھوڑ کر ہر ایک شے کو عقل اور دلیل سے پرکھنا چاہیے۔اس طرح وہ فلسفے کی روسے مذہب کا منکر نہیں تھا۔
اس نے  اپنا نظریہ ’’حقیقت دوگونہ‘‘پیش کیا جس کے مطابق حقیقت کے دو رخ ہیں ایک مذہبی دوسرا فلسفیانہ یا عقلی۔ لہذا مذہبی عقائد میں فلسفے کو دخل نہ دینا چاہیے اور عقل و فلسفے کے مسلمات کو عقائد کی روشنی میں جانچنا چاہیے۔
اس طرح وہ فلسفے کی رو سے مذہب کا منکر نہیں تھا بلکہ مذہب کی الگ اور فلسفے کی الگ تشریح چاہتا تھا۔
لیکن اس کے حاسدین نے اس کے اس نظریے کو الحاد کے نام سے مشہور کر کے خلیفہ کو اس کے خلاف کر دیا۔
بعد میں جب حقیقت کھلی تو خلیفہ شرمندہ ہوا اور ابن رشد کو دوبارہ دربار میں جگہ دے دی۔
یہ ایک انتہائ اہم نقطہ ہے جس پر سیکولر اور مذہبی طبقے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابن رشد کے فلسفے اور مذہب کے بارے میں نظریات ملاحظہ فرمائیں
فلسفہ اور مذہب کے بارے میں ابن رشد کا خیال یہ ہے کہ دراصل ان میں کوئی اختلاف یا تعارض نہیں بلکہ فلسفہ مذہب کے متوافق ہے اور مذہب فلسفہ کا موید ہے۔ مذہب وحی رس ہونے کی وجہ سے حق ہے اور فلسفہ عقل انسانی کی تحقیق ہونے کی بنا پر لہٰذا دونوں صداقتوں میں جبکہ وہ برابر درجہ کی صداقتیں ہیں کوئی واقعی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ قرآن خود بار بار غوروفکر کرنے یا عقل کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے لیکن عقل کو استعمال کرنے کے لیے یا فکر کو صحیح نتائج تک پہنچانے کے لیے کچھ قوانین ضروری ہیں اور ان قوانین کو فلاسفہ نے معلوم کیا ہے لہذا فلسفہ اور اسکی کتابوں کا پڑھنا ضروری ہے۔
ابن رشد کے نزدیک مذہب یا قرآن کی دو حیثیتیں ہیں:
(1) اسکے لفظی و ظاہری معنی
(2)اسکی تفسیر اور تاویل
قرآن میں کوئی بات بظاہر فلسفہ کے خلاف ہو تو یقیناً اسکی تہہ میں کوئی اور معنی و مطلب ضرور ہیں لہذا ان ظاہری معنی کی تاویل کر کے اسکو فلسفہ کے مطابق کر دینا چاہیے۔ لفظی و ظاہری معنی محض عوام الناس کے لیے ہیں اور تاویل خاص علما کے لیے۔فلاسفہ کو قرآن میں تاویل و توجیہہ کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ علما کو یہ قید لگانے کا حق حاصل نہیں کہ کہاں تاویل ہو اور کہاں نہ ہو۔ البتہ جو لوگ حقائق کا علم رکھتے ہیں انکو ان فلسفیانہ تاویلات کو عوام پر ظاہر نہ کرنا چاہیے۔ ہر طبقہ کے افراد سے انکی عقل کے مطابق گفتگو کرنی چاہیے۔ فلسفہ کی کتابوں کو عام لوگوں کے ہاتھ نہ پہنچنا چاہیے بلکہ انکو قانوناً روک دینا چاہیے۔
ابن رشد کے نزدیک عام لوگوں کے قرآن کے صرف ظاہری معنی کا عقیدہ رکھنا چاہیے اور اس سے زیادہ گہرے تعلق صرف خواس یا فلاسفہ کے لیے محدود رہنے چاہئیں اور ان فلاسفہ کے لیے قرآن میں تاویل کرنا جائز ہے تا کہ وہ اعلی صداقت کی روشنی میں اسکے مطلب کو سمجھ سکیں۔ مذہب اور فلسفہ میں علم و عمل کا تعلق ہے۔ فلسفہ صداقت کی اعلی ترین صورت کا نام ہے اور مذہب کا مدعا عمل ہے۔
بعض ناقدین کے نزدیک ابن رشد کے تین خیالات ایسے ہیں جو اسکو مذہب سے دور کرتے ہیں۔ حالانکہ خود اسکی رائے میں یہ نظریے مذہب کے حکیمانہ تعبیر کے منافی نہیں تھے:
(1)عالم مادی کا قدیم ماننا اور اسکو حرکت دینے والی عقول کو قدیم ماننا۔
(2)سلسلہ علل و معلولات کا واجب جاننا جس کی بنا پر معجزات یا خدا کی وحدت مطلقہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
(3) انفرادی وجود یا روح کی فنائیت کا قائل ہونا جسکی بنا پر انفرادی بقا کا مذہبی دعوی صحیح نہیں رہتا۔
ابن رشد کو نشانہ بنایا جانا محض مذہب کی وجہ سے نہیں تھا۔اس میں حاسدین کا عنصر شامل تھا جو ابن رشد کی تحقیقات سے حسد کرتے تھے۔اور ان لوگوں نے ابن رشد کے خلاف مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔وہ لوگ کوئ دیندار طبقہ یا علماء نہیں تھے بلکہ ابن رشد کے حاسدین تھے جو اس سے جلتے تھے اور خلیفہ بھی ان کی باتوں میں آگیا لیکن جب خلیفہ کو پتہ چلا کہ یہ سب محض حسد کی وجہ سے کیا گیا ہے تو وہ بہت شرمندہ ہوا اور ابن رشد سے راضی ہوگیا اور اسے دوبارہ اپنے دربار میں جگہ دی۔ان حاسدین کے حسد کا الزام اسلام پسند طبقے کو دینا بالکل غلط ہے کیونکہ اسلام خود حسد کی مذمت کرتا ہے اور حسد کو نیکیوں کا قاتل قرار دیتا ہے۔
یہ تفصیل ملاحظہ کیجیے کہ یہ حاسدین کی کارستانی تھی۔یہ پڑھیں

"ابن رشد نے اشبیلیہ میں قاضی کا منصب سنبھالا اور خلیفہ الموحدی ابی یعقوب یوسف کے کہنے پر ارسطو کے آثار کی تفسیر لکھنی شروع کی، وہ خلیفہ کی خدمت میں مشہور فلسفی ابن طفیل کے ذریعے سے آئے تھے، پھر وہ قرطبہ چلے گئے اور قاضی القضاہ کا منصب سنبھالا، اس سے دس سال بعد مراکش میں خلیفہ کے خاص طبیب کی حیثیت سے متعین ہوئے۔

مگر سیاست اور نئے خلیفہ ابو یوسف یعقوب المنصور (1184-1198) کی فلسفیوں سے نفرت اور حاسدین کی سازشوں نے خلیفہ کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے قاضی القضاہ اور طبیبِ خاص پر کفر کا الزام لگا کر اسے الیسانہ (قرطبہ کے پاس ایک چھوٹا سا شہر جس میں زیادہ تر یہودی رہتے ہیں) ملک بدر کردے، خلیفہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی تمام فلسفیانہ تصانیف کو آگ لگادی اور طب، فلک اور حساب کے علاوہ فلسفہ سمیت تمام جملہ علوم پر پابندی عائد کردی۔

آگ نے حاقدین کے الزامات کی بیچ کہ یہ فلسفی حق وہدایت کے راستہ سے بہک گیا ہے ایک عظیم دماغ کے نچوڑ اور برسا برس کی محنت کو جلاکر خاکستر کردیا.. بعد میں خلیفہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ ابی الولید سے راضی ہوگئے اور انہیں اپنے دربار میں پھر سے شامل کرلیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی اور زندگی کے چار دن دونوں ہی کے پورے ہوچکے تھے.. ابن رشد اور خلیفہ المنصور دونوں ہی اسی سال یعنی 1198ء عیسوی کو مراکش میں انتقال کرگئے۔"
لہذا اسلام پسند طبقے پر یہ اعتراض کہ انہوں نے ابن رشد کو زلیل کیا،غلط ہے۔یہ ساری کارستانی اس کے حاسدین کی تھی۔
ابن رشد کے فلسفے کی کتابوں کے جلائے جانے کا الزام قرطبہ کے مولوی طبقے کو دیا جاتا ہے جب کہ اس میں مولوی طبقے کا ہاتھ ہی نہیں تھا۔سبط حسن جیسے جاہل ملحد و لبرل اسے مولوی طبقے کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی پوری حقیقت حوالے کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں

Abdelwahid al-Marrakushi writing in 1224, reported that there were secret and public reasons for his falling out of favor with Yaqub al-Mansour

And in his days [Yaqub al-Mansur], Abu al-Walid Ibn Rushd faced his severe ordeal and there were two causes for this; one is known and the other is secret. The secret cause, which was the major reason, is that Abu al-Walid —may God have mercy on his soul— when summarizing, commenting and expending upon Aristotle's book "History of Animals" wrote: "And I saw the Giraffe at the garden of the king of the Berbers".
And that is the same way he would mention another king of some other people or land, as it is frequently done by writers, but he omitted that those working for the service of the king should glorify him and observe the usual protocol. This was why they held a grudge against him but initially, they did not show it and in reality, Abu al-Walid wrote that inadvertently...Then a number of his enemies in Cordoba, who were jealous of him and were competing with him both in knowledge and nobility, went to Yaqub al-Mansur with excerpts of Abu Walid's work on some old philosophers which were in his own handwriting. They took one phrase out of context that said: "and it was shown that Venus is one of the Gods" and presented it to the king who then summoned the chiefs and noblemen of Córdoba and said to Abu al-Walid in front of them "Is this your handwriting?". Abu al-Walid then denied and the king said "May God curse the one who wrote this" and ordered that Abu al-Walid be exiled and all the philosophy books to be gathered and burned...And I saw, when I was in Fes, these books being carried on horses in great quantities and burned

حوالہ۔۔۔

Abdelwahid al-Marrakushi, al-Mojib fi Talkhis Akhbar al-Maghrib [The Pleasant Book in Summarizing the History of the Maghreb], pp. 150–151 (1224), King Saud
اس وقت کے ایک عینی شاہد کا یہ حوالہ ظاہر کر رہا ہے کہ کس طرح اصل واقعے اور حقیقت کو بگاڑ کر اس سارے واقعے کا الزام سپین کے مولوی طبقے کو دیا گیا اور ساتھ ہی مالکی فقہ کے مقلد اس فلسفہ کو یورپی مستشرقین و ملحدین نے ملحد ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی۔
تاریخ کا وہ منظر یاد کیجئے جب منگولوں نے بغداد پر یلغارکی تو علم کے پیش بہا خزانے ’’بیت الحکمہ‘‘ کو مسمار کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ الکندی کے ذاتی کتب خانے کو ضبط کرنے کے بعد سرِ عام پچاس کوڑوں کی سزا دی گئی۔ الرازی کو سزا کے طور پر اس کے سر پر اس کی اپنی کتاب اس زور سے ماری گئی کہ اس کی بینائی چلی گئی۔ ابن سینا کی کتب پر پابندی لگا دی گئی اور اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے گئے۔ ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا گیا، اس کی قبر کھود کر مسمار کرنے اور اس کی کتابیں جلادینے کی تجویز پیش کی گئی۔ ابن رشد کو جلا وطن کیا گیا اور ان کی کتب قرطبہ چوک میں نذر آتش کی گئیں۔۔۔۔ اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ ارشمیدس کو رومن سپاہی نے قتل کر دیا۔ رومن کیتھولک کلیسا نے سائنسدانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ گلیلیو کو زندان میں پھینک دیا گیا۔ جورڈانو برنو کو زندہ جلا کر ماردیا گیا۔
یہ سب ہر طبقے و معاشرے میں اہل علم حضرات کے ساتھ ہوا ہے لیکن سیکولر حضرات باقی مذاہب اور خود یورپ میں ہونے والے اہل علم حضرات کے ساتھ سلوک کو بھول جاتے ہیں اور اپنا نشانہ اسلام اور مولوی طبقے کو دیکھتے ہیں۔
اس پر میں نے بہت پڑھا اور دو نتیجے اخذ کیے۔
ایک یہ کہ ابن رشد فلسفے کی رو سے مذہب کا منکر نہیں تھا
دوسرا یہ کہ حاسدین کی طرف سے اس کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کا الزام قرطبہ کے مولوی طبقے کو دینا غلط ہے۔
ان سرگرمیوں کی وجہ مذہبی نہیں تھی بلکہ حسد تھا جس کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے اس کے فلسفے کو مذہب کے خلاف بیان کر کے خلیفہ کو بھڑکا دیا جب کہ وجہ مذہبی سے زیادہ ذاتی تھی۔
اس سے صرف مسلمانوں کی نہین یورپ کی تاریخ بھی بھری پڑی ہے لیکن ان کو میڈیا بدنام نہیں کرتا جیسا ہمیں بدنام کہا جاتا ہے۔
یورپ میں جو ہوا اہل علم حضرات کے ساتھ اس کی تفصیل کبھی آپ کو بتاؤں گا ان شاء اللہ۔
حوالہ جات۔۔۔
https://ur.m.wikipedia.org/wiki/ابن_رشد_(فلسفی)
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Averroes
https://sabzkhazaan.wordpress.com/tag/pakistan/
http://niazamana.com/2015/11/arshad-latif-khan-muslim-knowledge/
مکمل تحریر >>

نظریہ ارتقاء۔۔۔ایک دھوکہ-قسط نمبر سوم

نظریہ ارتقاء۔۔۔ایک دھوکہ
قسط نمبر سوم
تحریر۔۔۔ہارون یحیٰی copied from sir Zeeshan Ahmad
======================================
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان 99فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔
اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ آنے والے بابوں میں اس بات کا ممکنہ توجیحات کی شماریات کے ساتھ مزید معائنہ کیا جائے گا کہ ارتقائی نظریئے کا درست ہونے کا دراصل ایک فیصد امکان بھی نہیں ہے۔ 
ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔
”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“
یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بےہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق !‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرردیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“
یکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اسقدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کےونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ یہ بے حسی ان کے اندر ایک جاہلانہ خود اعتمادی پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک مکمل خرافات کو ایک اخلاقی بلندی اور وصف تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔ڈاکنز کے الفاظ میں:
﴿ ”شاید اس بت کے بازوﺅں کے ذرے یا خلیے اتفاقاً ہی ایک سمت میں ہلنا شروع ہوگئے۔ اگرچہ ایسا ہونے کی ممکنہ توجیہ بے انتہا کم ہے پھر بھی یہ ممکن تو ہے۔“ بے دین لوگوں کی نفسیات تاریخ میں ایک سی ہی رہی ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر سورةالانعام کی آیت نمبر 111میں آتا ہے۔ ﴾
’اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہم ہر چیز ان کے سامنے اٹھا لاتے جب بھی وہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر یہ کہ خدا چاہتا لیکن ان میں بہت نرے جاہل ہیں‘۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ارتقاءپسندوں کی یہ کٹر طرزِ سوچ ہمیشہ سے ان کا خاصہ رہی ہے اوراس میں کوئی نےا یا قابل حیرت عنصر نہیں ہے ۔بلکہ ارتقائی سائنسدانوں کی یہ طرزِ فکر اور سوچ کوئی جدید سائنسی رجحان بھی نہیں بلکہ قدیم ترین دہریہ تہذیبوں کا عام نقطہ نظر تھا۔ قرآن میں اس نفسیات کے اوپر آیا ہے کہ:
﴿ اور اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں کہ دن کو اس میں چڑھتے ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر41)
﴿ جب بھی یہی کہتے کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے۔ ﴾ (سورة الحجر آیت نمبر 51)
جاری ہے۔۔۔
حوالہ جات:

Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 61.
 Michael J. Behe, Darwin's Black Box, New York: Free Press, 1996, pp. 232-233.

مکمل تحریر >>

ملعون ایاز نظامی {عبدالوحید} کی ہسٹری

 گویا کہ چند سال قبل ملک عزیز میں دجال کے نمائندوں کے نیٹ ورک کے خلاف جو  جنگ شروع کی تھی ،الحمدللہ عزوجل قدم بہ قدم کامیابیو ں کے ساتھ اب یہ سفر ایک اہم سنگ میل پر پہنچ چکا ہے۔  بلاشبہ عبدالوحید عرف ملعون ایاز نظامی کی گرفتاری  لادینیت کے خلاف جنگ کی اہم ترین پیشرفت ہے۔    عبدالوحید کی گرفتاری اتنی جلدی بھی نہیں کی گئی کہ لبڑلز اتنی آسانی سے اس ملعون کی بےگناہی کا پراپیگنڈا شروع کر دیں ۔ وہ لوگ جنھیں آغاز سے ہی تربیت میں شک کرنا سیکھایا جاتا ہو اور بات بات پر " آپ کو کیسے معلوم؟ اس کا کیا ثبوت ہے؟" جیسے سوال رٹوائےگئے ہوں ان کو اسلام آباد سے اٹھا کر کراچی تک بھیجنا آسان نہیں تھا۔
چنانچہ سب سے پہلے ایف آئی آے نے خود ہم سے ہمارے دعووں کے ثبوت مانگے پھر ان ثبوتوں کےتائیدی شواہد پیش کرنے کے باوجود وہ تب تک مطمئن نہیں ہوگئے جب  تک انہیں ایک اہم ترین چیز نہیں دے دی گئی ۔پھر ایسا بھی نہیں کہ اطمینان کے بعد انھوں نے فوراً اگلی فلائٹ کراچی کے لیے پکڑ لی ہو بلکہ پھر اپنے طور پر تین دن کی انویسٹی گیشن  کے بعد "قانونی ثبوت" ملنے پر ہی کراچی کے لیے رخت  سفرباندھا گیا تھا ۔   جو ہوش ربا تفصیلات سامنے آئیں ان کو جان کر ایجنسیز دل سے پکار اٹھیں کہ تم لوگ  سچ کہتے تھے۔

عبدالوحید کی ہسٹری یہی ہے  کہ 1969 میں پیدا ہوا تھا۔روایتی مسلم گھرانے سے تعلق تھا اور گھر بھی مذہبی تھا۔اس نے مدرسہ بنوری ٹاؤن  کراچی سے درس نظامی مکمل کی اور پھر تقریباً عرصہ 11 سال تک مدرسے میں ہی طلبا کو درس نظامی کے اسباق پڑھاتا رہا ۔
زندگی ایک روایتی مولوی کی طرح چل رہی تھی کہ پھر اس کی زندگی میں ایک اندوہناک حادثہ ہوا۔کراچی کی شیعہ کمیونٹی کے کسی جلوس میں بم دھماکہ ہوا جس میں عبدالوحید کا تقریباً دس  سالہ لڑکا چل بسا ۔عبدالوحید کے دل پر شدید چوٹ لگی اور وہ خوداذیتی و انتقام کی نفسیات کا شکار ہو کر یہ سوچنے لگا کہ اگر شیعہ جلوس یا اس سے دوسرے مسلک کی نفرت نہ ہوتی تو یہ دھماکہ نہ ہوتا، اگرمذہب نہ ہوتا تو یہ جلوس اور اس سے نفرت نہ ہوتی  لہٰذا  اگر آج اس کا بیٹا فوت ہوا ہے تو مذہب کی وجہ سے ہوا ہے۔
بس یہی وہ دن تھا جب عبدالوحید کی زندگی لادینیت کے زہر سے ملوث ہونا شروع ہوئی۔ مولوی ہونے کے ناطے پیسے کی محرومی اور آسائش زندگی کی طلب نے اس گمراہی کو مزید ہوا دی اور یوں وہ باقاعدہ اسلام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہوا ۔ پھر جب اس کا رابطہ دجالی تنظیموں سے ہوا اور عبدالوحید کو اپنے اسلامی علم کے ذریعے دوسروں کو گمراہ کرنے پر باقاعدہ معاوضہ ملنے کی پیش کش ہوئی تو وہ اسلام مخالف پراپیگنڈے کا سرگرم رکن بنا اور آخر کار پاکستان میں مرتدوں کی تنظیم کاسربراہ بھی بن گیا۔
((((اہم نوٹ: آج رات آٹھ بجے #hangayaznizami  کا ٹرینڈ چلایا جائے گا ، تمام احباب اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی نمائندگی کرنا نہ بھولیں ))))
2013 کے آغاز تک ملعون نے  دن رات اس قدر رذالت والے کام کرنے کے باوجود بیرون ممالک کی سیر کے علاوہ صرف ایک   Alto کار کی ملکیت جتنی ہی  ترقی کی تھی۔اگرچہ ایک مولوی کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہوسکتی ہے لیکن بہرحال یہ انتہائی گھٹیا اور ناقص معاوضہ ہے جو ان لوگوں نے گوروں سے لیا۔
اس نے اپنے مرتد ہونے کے بارے میں صرف اپنی بیوی کو بتایا تھا جبکہ بقیہ خاندان اس بات سے بےخبر تھا۔ البتہ اب اس کے آٹھ سالہ لڑکے کو بھی اپنے والد کے غیرمسلم ہونے کا بہت حدتک ادراک ہوچکا تھا۔
ایاز نظامی ہو یا نعمان سعید یا پھر خالد تھتھال ،یہ لوگ  خود کو بہت بڑا علامہ ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کو تمام مواد یورپین تھنک ٹینکس ہی مہیا کرتے ہیں ، ان کی کاریگری صرف اتنی ہوتی ہے کہ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق اس مواد کا استعمال کر لیں ۔
چنانچہ نعمان سعید جو اپنی وال پر بہت بڑا فلسفی بنتا تھا ، یاپھر غلام رسول  و امجد حسین وغیرہ جو قرآن کے بہت بڑے ناقد کےروپ میں خود کو پیش کرتے ہیں ،ان کے قبضے سے ملنے والی ڈیوائسز سے معلوم ہوا کہ  یہ لوگ قرآن کے خلاف کوئی پوسٹ کرنے یا پھر کسی آیت پر بحث کرنے سے پہلے ایاز نظامی سے ہی راہنمائی لیتے تھے اور وہی انہیں بتاتا تھا کہ فلاں آیت کے ساتھ اس طرح سے کھلواڑ کرو گے تو تم مسلمانوں کے ذہن میں شک ڈال سکتے ہو جبکہ ایاز نظامی کو اس قسم کا مواد سفید ڈاکوؤں کے ملک سے ای میل کیا جاتا تھا۔
اس موقع پر میں ایک بار ان  جاہل کچےملحدوں  یا روشن خیال سیکولر مولوی دشمن مسلمز کو اخلاقی طمانچہ ضرور رسید کرنا چاہوں گا جو ان فتنہ بازوں کی باتیں پڑھ پڑھ کر سمجھتے  تھ ان کو جو پوسٹس  پڑھنے کو مل رہی ہیں وہ  معلوم نہیں کتنے بڑے  حقیقت کل جاننے والوں کے ذریعے معلوم ہو رہی ہیں :/
پکڑے جانے کے بعد ان ملعونوں کی فیس بک پر حق گوئی کی ماری جانے والی بڑھکیں نہ جانے کن کن راستوں سے نکل جاتی ہیں  ٗ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ نظامی کے سامنے اگر اس کے بیٹے کو بلانے کا ذکر کر دو تو دہاڑیں مارنے لگتا ہے اور پرسوں رات  تو ملعون تفتیشی افسر کے قدموں میں بیٹھا رہا کہ مجھے بس ایک بار چھوڑ دو۔میری کوشش ہے کہ ایک تصویر اس خوبصورت ترین پوز میں آپ کے سامنے ضرور پیش کی جائے   ؛)
یہ لوگ مزید کیا عزائم رکھتے تھے؟ ان کا نیٹ ورک کس حد تک وسیع تھا؟نیز ان کے سہولت کار کون تھے؟ یہ سب معلومات پوسٹ کے ساتھ دیے گئے "امت"اخبار کے لنک سے ملاحظہ کر لیجیے۔ بعض احباب اس بات میں متردد ہیں کہ "امت" اخبار کی رپورٹ پر اعتماد کریں یا نہیں ؟ گزارش یہ ہے کہ اخبار کی طرف سے پیش کی گئی  تقریباً تمام معلومات قابل اعتماد ہیں کیونکہ یہ سب انہیں  تفتیشی آفیسرز  نے ہی مجرموں کے اقبالی بیانات اور انویسٹی گیشن  کے بعد مہیا کی ہیں ۔ البتہ روزنامے نے اپنی ریٹنگ لینے کے خبط میں مبتلا ہونے والی عادت بد کے تحت اس رپورٹ میں ایک انتہائی لغو بات بھی کہی ہے کہ ان ملعونوں کا تعلق "الحاد جدید کا علمی محاکمہ"  نامی ویب سائٹ سے بھی تھا جس کی دوسری ڈومین www.ilhaad.com  ہے ۔
اخبار کے چیف ایڈیٹر صاحب  سے گزارش ہے کہ  حضور!!!
؎   یوں نہ دوڑیے برچھی تان کر    ۔۔۔۔۔ اپنا پرایا ذرا پہچان کر 
کے مصدا ق مذکورہ ویب سائٹ ہمارے بہت ہی کٹڑ اور جذبے والے مسلمان بھائیوں کی ہے جو کہ اس ویب سائٹ کے ذریعے الحاد کا علمی طور پر ردّ کرتے ہیں ۔ اگر اب بھی یقین نہ آئے تو مشورہ یہ ہے کہ اخبار چلانے کے ساتھ ساتھ ایک عدد اردو لغت بھی خرید لیں جس سے کم از کم  "محاکمہ" کاترجمہ  دیکھ کر ہی فیصلہ کرلیں کہ یہ ویب سائٹ الحاد  کو پھیلا رہی ہے یا اس کی بیخ کنی کر رہی ہے؟
اور اگر اتنا بھی نہ کر سکیں تو پھر کم از کم ایک بار یہ ویب سائٹ کھول کر ضرور دیکھ لیں کہ اس پر الحاد پھیلایا جا رہا ہے یا الحاد سمیٹا جا رہا ہے   :/
آخر میں گستاخوں   کو ان کے انجام کی ایک ہلکی سی جھلک دکھانے کے لیے ایاز نظامی کی فیملی کا ڈیٹا نیز اس کے گھر کا ایڈریس دے رہا ہوں تاکہ  اسلام ، اللہ عزوجل و رسول اللہ ﷺ کو سڑی سڑی گالیاں دینے والے ان دنیا کے کتوں کو اندازہ ہوسکے کہ چند ٹکوں کے عوض  وہ کس قدر مہلک سودا خرید رہے ہیں ۔
اگر تم میں انسانیت کے نام لیوا ہونے کے باوجود شرم و حیا کا ذرّہ بھی نہیں) نظامی کی "تمغہ توہین رسالت"والی پوسٹ دیکھیے)تو پھر ہمیں تو تم کہتےہی حیوانیت کے نمائندے ہو اس لیے ایک عدد تحفہ قبول فرمائیے   
Processing #da 4220167533251
NIC:4220167533251
Name: عبدالوحید
Gender: مرد
F/H Name :عبدالسلام
Identity mark :کوئی نہیں
DOB: 21-12-1969
Prsnt Adr :مکان نمبرH-53/30 نشتر اسٹریٹ پٹیل پاڑہ، کراچی، تحصیل/ضلع ک
اچی شرقی
Prmnt Adr :مکان نمبرH-53/30 نشتر اسٹریٹ پٹیل پاڑہ، کراچی، تحصیل/ضلع ک
Ex:17-12-2022
Family Info;

Mother
بشیراں
4220122211114
Spouse
نبیله کوثر
3650249384438
Daughter
میرب وحید
4220170111442
Son
طلحہ وحید
4220179881765
Daughter
وردہ وحید
4220170110492
Probable Brother
عبدالواحد
4220105473391
Probable Sister
فہمیدہ بیگم
4220172668942
Brother
محمد تنویر
4220138987187
Probable Brother
محمد یسٰین
AZ6173252
2023-03-13

Contact info;
3212245415
3332248796
از : خادم اعلٰی مسلمانان فیس بک
زوہیب زیبی
مکمل تحریر >>

کیا اسلام کے سائنسی زوال کے ذمہ دار مولوی ہیں؟کیا اسلام سائنس کا دشمن ہے؟کیا غزالی جیسے مولویوں نے اسلام کی فلسفے،ریاضی اور سائنس میں ترقی روک دی؟


کیا اسلام کے سائنسی زوال کے ذمہ دار مولوی ہیں؟کیا اسلام سائنس کا دشمن ہے؟کیا غزالی جیسے مولویوں  نے اسلام کی فلسفے،ریاضی اور سائنس میں ترقی روک دی؟
اسلامی عہد زریں  کا افسانہ
تحقیق۔۔۔پروفیسر اسد کیو احمد
ترجمہ۔۔۔عاطف حسین
***********************************************
پروفیسر اسد کیو احمد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے سے منسلک ہیں۔ پیش جدیدی مسلم معاشروں کی سماجی اور فکری تاریخ ان کی تحقیق کے خاص میدان  ہیں۔
کوئی دو ماہ قبل (یہ تحریر اکتوبر 2013ء کی ہے۔مترجم) مجھے امیریکن اسلامک کانگریس نامی ایک این جی او کی طرف اسلام اور سائنس کے موضوع پر ایک مباحثے میں شمولیت کی دعوت ملی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس میں میرے ساتھ ایک پاکستانی عوامی اسپیکر بھی شرکت کریں گے (یہ اسپیکر پروفیسر ہودبھائی تھے۔ مترجم) جو اسلامی فکر کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلم دنیا میں سائنس اور دوسرے عقلی علوم کی اشاعت و ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔ مجھے اس مباحثے میں فوری طور پر دلچسپی محسوس ہوئی کیونکہ ماقبل جدید (800-1900ء) مسلم دنیا میں عقلی علوم جیسے کہ فلسفہ،منطق اور فلکیات وغیرہ کی تاریخ میرے مطالعے کا خصوصی موضوع ہے۔
کئی سالوں سے میں آہستہ آہستہ مگر بڑی محنت سے مسلم عقلی علوم کے متعلق مباحث کی مختلف تہوں کو پلٹ رہا ہوں تاکہ مسلم دنیا میں سائنس کی تاریخ کے متعلق ایک ذمہ دارانہ بیانیہ تشکیل دے سکوں۔ مجھے اپنے کام اور پوری دنیا میں انفرادی حیثیتوں اور ٹیموں کی شکل میں اسی علمی مشغلے میں مصروف اپنے ساتھیوں کے کام سے ماضی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اگرچہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے لیکن اب تک اپنی دریافتوں کے نتیجے میں ہم سب متفقہ طور پر ایک عرصے سے درست تسلیم کی جانے والی مسلم عہد زریں اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علوم ِعقلی کے زوال کی کہانی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چونکہ اب تک اس موضوع پر کچھ اہم کام ہوچکا ہے اس لیے میں نے عام لوگوں کے ساتھ اب تک ہونے والی تحقیقات کے نتائج پہنجانے کے موقعے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مباحثے میرے ساتھ شریک دوست کو پہلے بولنے کا موقع ملا اور انہوں اپنی گفتگو کا آغاز ایک ایسی بات سے کیا جس سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وہ یہ کہ فی زمانہ مسلم دنیا میں سائنس اور باقی عقلی علوم کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور اسے جلد از جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمدہ آغاز تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے اس صورتِ حال کے جو اسباب گنوائے وہ محل نظر تھے۔ کچھ دلچسپ ذاتی تجربات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اس صورت حالات کی تاریخی وجوہات مسلم عہدزریں کے اختتام اور تاریک دور کے آغاز جس میں مسلم روایت پرستی کو عروج حاصل ہوا میں تلاش کی جانی چاہیے۔
ان کی بیان کی ہوئی کہانی کے مطابق سنی ماہر الہٰیات غزالی کے حملوں کے نتیجے میں مسلم دنیا میں علوم عقلی زوال آشنا ہوگئے۔ فلسفیوں پر برا وقت آیا اور ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، فطری مظاہر کی توجیہہ معجزوں سے کی جانے لگی، اجرام فلکی کی حرکت کے ذمہ دار فرشتے قرار دیے گئے اور اس طرح مسلمان سائنسی ترقی کے قابل ہی نہ رہے کیونکہ انہوں نے سببیت کا ہی انکار کردیا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ اس تناظر میں یہ بالکل بھی تعجب خیز نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں نے علم کی دنیا میں مزید کوئی ترقی نہیں کی۔ اور آج جو ہم صورتِ حالات دیکھ رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل دشمنی کی اسی صدیوں پرانی روایت کا تسلسل ہے۔
تاہم یہ سب ایسے نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ تہافت الفلاسفہ میں غزالی کا نشانہ عقل یا فلسفہ تھے ہی نہیں۔ غزالی کا اعتراض جیسا کہ انہوں نے ایک سے زائد ابتدائیوں اور پھر پوری کتاب میں باربار واضح کیا ہے اسلامی عقائد کے متعلق بحثوں میں ناقص منطق سے استدلال کرنے والے مابعد الطبیعاتی مفکروں پر ہے۔ غزالی نے بڑی صراحت سے لکھا ہے کہ عقائد کے علاوہ دوسرے معاملات یعنی ایسی چیزیں جو سائنسی نوعیت کی ہیں ان میں فلاسفہ سے نہیں جھگڑنا چاہیے۔ وہ (غزالی) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کی سائنسی توجیہہ اور حدیث میں تعارض ہو تو زیادہ بہتر رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ضعیف قرار دے کر رد کردیا جائے۔ اسی طرح اگر الہامی متن اور سائنسی طور پر ثابت شدہ کسی چیز کے درمیان تعارض واقع ہوجائے تو متن کے استعاراتی معنی مراد لیے جائیں گے۔ درحقیقت یہ بات بالکل واضح ہے کہ غزالی عقل کو روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ فقہی معاملات میں انہوں نے اندھی تقلید پر شدید تنقید کرتے ہوئے عقل کو ہی نقلی علوم کی بنیاد قراردیا ہے۔
غزالی کے بعد بھی مسلم دنیا میں عقل کے متعلق یہ رویہ جاری رہا۔ اس روایت کو زندہ رکھنے والے بے شمار مفکروں میں سے نصیرالدین طوسی (وفات 1274 ) ، قطب الدین شیرازی (وفات 1311)، عضدالدین ایجی (وفات 1355)، سید شریف جرجانی (وفات 1413)اور محب اللہ بہاری (وفات 1707) کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز تک فلکیات سے مابعد الطبیعات تک مختلف علوم میں مسلم علماء کا موقف بالعموم یہی رہا کہ عقل ہی وہ سائنسی  تمثیلات  مہیا کرتی ہے جن سے کائنات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ریاضیاتی اور منطقی طور پر درست ہونے کے بعد باوجود یہ طے کرنا کئی دفعہ ممکن نہیں ہوتا کہ ان میں کونسی تمثیل دوسروں سے برتر ہے۔ بالفاظ دیگر مسلم علماء نے سائنس کے بارے میں بعینہ وہی رویہ اختیار کیا جو ڈیوڈ ہیوم کے بعد مغربی دنیا میں اختیار کیا گیا۔ اتفاق سے ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے سببیت اور استقرائی منطق کے مابعد الطبیعاتی پہلووں کے متعلق بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں۔ درحقیقت غزالی کے بعد کے دور میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں علماء نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ سائنسی تحقیق عقائد کیلئے بالکل مضر نہیں‌ہے۔
مبادا کہ قارئین کو ان علماء کی اہمیت کے بارے میں کوئی شک ہو، میں بیان کرتا چلوں کہ جن علماء کا میں ذکر کررہا ہوں وہ کوئی ایرے غیرے نہیں بلکہ تفسیر، حدیث، فلکیات، طب اور ریاضی جیسے علوم پر دسترس رکھنے والے غیر معمولی لوگ تھے جو پیچیدہ پیش جدیدی معاشرے میں ایک سے زائد کردار نبھا رہے تھے۔ یہ کوئی ایسی حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ بیسویں صدی کے آغاز تک مدرسے کے نصاب میں نقلی علوم کے مقابلے میں عقلی علوم کے متعلق زیادہ کتابیں شامل ہوتی تھیں۔ درحقیقت اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ الہامی متون کے درست اور ذمہ دارانہ مطالعے کے قابل بننے کیلئے پہلے عالم کو منطق و خطابت۔۔۔ حتیٰ کہ طب جیسے علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ گویا اس طرح سے ہماری تحقیق کے بالکل آغاز میں ہی واضح‌ہوگیا ہے کہ عقل و وحی، عقلیت پسند و روایت پسند، عہدزریں و عہد تار اور فلسفی و ملا جیسی سادہ و سطحی ثنائیات کو سرے سے ترک کردینا چاہیے۔ اور اسلامی تناظر میں "آرتھوڈوکسی”، "کلیرک "اور "سیمینری” جیسی اصطلاحات کا استعمال تو ہے ہی بالکل بے جا اور غلط۔۔
تو پھر ہمارا یہ حال کیسے ہوا؟ اور اس کے متعلق کسی تحقیق کی آخر کیا ضرورت ہے؟ میں دوسرے سوال سے شروع کروں گا کیوں کہ اسکا جواب آسان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عہدزریں اور زوال کے بیانیے کا فوری نتیجہ بالکل وہی ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا لوگوں کا موقف بھی ہے یعنی یہ کہ مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کر دینا چاہیے- یہ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مین اسٹریم روایت پرستانہ اسلام کی وجہ سے 900 سال سے علوم عقلی اسلامی دنیا میں اجنبی ہیں۔ تو یہ مذہب ہے ہی غلط اور اسے اب ناپید ہوجانا چاہیے۔ اب اسے ستم ظریفی کہیے کہ اس بیانیے سے کچھ اسلام پسند گروہوں جیسی ہی شدت پسندی پیدا ہوتی ہے ۔ ان کے نزدیک بھی اسلام کی ابتدائی صدیوں کا دور مثالی تھا جس کی طرف وہ لوٹ کرجانا چاہتے ہیں۔ رہے ہم جیسے لوگ تو وہ معقولیت کی تلاش میں ان دونوں انتہاؤں کے درمیان پس رہے ہیں ۔
یہ مقبول بیانیہ انتہائی خطرناک تو ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ بالکل ہی غیر علمی اور بودا بھی ہے اور علوم عقلی کے متعلق اسلامی دنیا میں تخلیق کردہ قلمی نسخوں کے بحر ذخار میں سے محض چند قطرے دیکھنے کے بعد ہی مغربی علمی حلقوں میں اب کوئی بھی اب اس بیانیے پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آخر اسلامی دنیا میں علوم عقلی کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ابھی ہم پورے یقین کے ساتھ کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوئے لیکن میں اپنی تحقیق کے دوران کئی ایسے عوامل کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوا ہوں جو اسلامی دنیا میں فلسفے، فلکیات اور طب جیسے علوم کے زوال کا باعث بنے ہیں۔ میں ان میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کرتا ہوں لیکن مکمل تصویر کیلئے ہمیں ابھی مزید تحقیق کا انتظار کرنا ہوگا۔
ایک وجہ تو یہ رہی کہ انیسویں صدی کے وسط میں علو م عقلی میں تربیت یافتہ علماء کو شاہی سرپرستی میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے ایسے علماء مختلف درباروں سے قاضیوں، شاعروں، تحصیل داروں، سفارت کاروں ، طبیبوں اور نقشہ نویسوں کی حیثیت سے منسلک ہوتے تھے اور یہیں سے ا ن کی سرپرستی ہوتی تھی۔ تاہم برطانوی راج کے عروج کے نتیجے میں جب ایسے دربار ختم ہونے شروع ہوئے تو ایسے علماء بھی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ اس سے پیدا ہونے والے خلا کو بین العلاقائی مصلحین کے گروہوں سے تعلق رکھنے والے عوامی مبلغوں نے پر کرنا شروع کردیا جن کی تربیت بالکل ہی الگ ڈھنگ پر ہوئی تھی۔
جنوبی ایشیا کی حد تک علوم عقلی کے زوال کی ایک اور وجہ اردو کو مسلمانوں کے ہاں ادب کی بنیادی زبان کا درجہ حاصل ہوجانا بھی تھی۔ عقلی علوم کے متعلق قریب قریب کل تصانیف عربی ( اور کچھ فارسی میں ) تھیں۔ ان زبانوں (عربی اور فارسی) میں عقلی علوم کی لمبی تاریخ کے دوران وجود میں آنے والا فنی اصطلاحات کا ایک پورا ذخیرہ موجود تھا لیکن ان زبانوں کے متروک ہوجانے اور ان سے اردو میں ترجمے کی کسی منظم کوشش کی عدم موجودگی میں اس ذخیرے کے ضیاع کے نتیجے میں علوم ِ عقلی کا معیار بڑی حد تک گر گیا۔
اسی طرح ، اگرچہ یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے ، لیکن علوم عقلی کے زوال میں کچھ کردار شاید پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں ترقی نے بھی ادا کیا ہو۔ مسلم علماء مخطوطات پر ہاتھ سے حاشیے اور تشریحات لکھنے کے عادی تھے۔ اس طرح ہر شعبۂ علم میں ایک ایسی داخلی جدلی روایت وجو د میں آئی جو اس شعبۂ علم کی ترقی کی براہ ِ راست ذمہ دار تھی۔ تاہم پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باعث صورت ِ حالات بدل گئی ۔ اب نہ قلمی نسخے رہے اور نہ ان پر لکھے ہوئے حاشیے۔ اس طرح کسی موضوع پر تاریخی مباحث سے براہ اکتساب کی روایت بھی دم توڑ گئی۔ درحقیقت (مین اسٹریم اسلام کی عقل دشمنی کے بجائے) ان چند ایک عوامل کے ساتھ اور بے شمار سماجی، سیاسی، ثقافتی، ادارہ جاتی اور ٹیکنالوجیکل عوامل دراصل آج مسلم دنیا میں علوم عقلی کی زبوں حالی کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ تشخیص درست ہو یعنی یہ کہ مین اسٹریم ‘روایتی’ اسلام عقل کا دشمن نہیں ہے تو پھر اس زبوں حالی کا حل بھی کہیں اور تلاش کرنا پڑے گا۔ میں یہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس پر غور و فکر کریں کہ وہ حل کیا ہوسکتے ہیں اور ان کو کیسے روبعمل لایا جاسکتا ہے۔
اب میں آخر میں کچھ روشنی اس چیز پر ڈالنا چاہتا ہوں کہ نام نہاد عہدِ تاریک کے دوران ہونے والے کام کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کرتے ہوئے عہدِ زریں و عہد ِتاریک کا بیانیہ پیدا ہی کیونکر ہوا، کیوں یہ اب بھی مقبول ہے اور شاید آگے بھی باوجود ہمارے جیسے لوگوں کی کوششوں کے مقبول ہی رہے گا۔ اس کو جس خوبصورتی سے کولمبیا یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی مطالعات کے اروند رگوناتھ پروفیسر شیلڈن پولاک نے واضح کیا ہے میں اس سے بہتر طور پر نہیں کرسکتا۔ پروفیسر صاحب ہندوستانی دانش کی تاریخ پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
"سائنس اور اسکالر شپ کے متعلق ، خصوصاً دور جدید کے ابتدائی دنوں میں مختلف علوم کی تاریخ کے متعلق گہری تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مخطوطات کی لائبریریوں کی لائبریاں یوں ہی پڑی ہیں جن کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ایسا کیوں ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب ان مخطوطات کو پڑھنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے علماء کی کمی جدیدیت اور نوآبادی نطام کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے اگرچہ اس بارے میں بات بہت کم کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہیں جن میں سے ایک مسشترقین کا یہ رومانوی نظریہ بھی ہے کہ کسی بھی ہندوستانی مصنوع، کتاب یا خیال کی اہمیت و وقعت اس کی قدامت سے طے ہوتی ہے۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کا یہ بیانیہ جسکو برطانوی سامراجی منصوبے کے تحت شروع کیے جانے والے ‘مہذب بنانے’ اور ‘جدید بنانے’ کے پراجیکٹ میں بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ ہندوستانی تہذیب 1800ء سے پہلے ہی زوال آشنا ہوچکی تھی بھی اس صورتِ حالات کا ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ تحقیر اور بے اعتنائی ہے جس کے ساتھ’دیسی ‘ علماء نے اپنے سامراجی آقاؤں کی طرح عظیم ہندی لٹریچر کو ٹھکرایا ہے۔”
یہ بیانیہ نوآبادیاتی استشراقی افسانے کے طور پر شروع ہوا جو اب ایک طرح کے نواستشراقی مظہر کے طور پر اپنے ماضی سے کٹ جانے والے لوگوں میں رائج ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں میرے خیال میں اب مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی انتخابات ہیں۔ یا تو وہ یہی استشراقی راگ الاپتے ہوئے اپنی بیماری کی غلط تشخیص کرتے اور اس طاقتور افسانے کے زورپر شدت پسندی کی پرورش کرتے رہیں یا پھر وہ اپنی زبانوں کو ازسر نو زندہ کریں، ایسے تاریخ دان پیدا کریں جو اصل مصادر میں غواصی کرسکیں ، ایسے فلسفی پیدا کریں جو سطحی ثنائیات سے آگے بڑھ کر مہارت اور خلوص کے ساتھ ان مباحث کو آگے بڑھا سکیں۔ اگر ایسا ہو سکے تو تبھی شاید مسلمان تاریخ کے نام پر سنی ہوئی کہانیوں کو ازسر نو لکھنے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے حل دریافت کرنے میں کامیاب ہوپائیں گے۔

مکمل تحریر >>

Atheist objections on Hijaama( a Sunnah of Holy Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم) and its answer

Atheist objections on Hijaama( a Sunnah of Holy Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم) and its answer
 
Written by....Dr Ahead Hassan
Cupping therapy is an ancient form of alternative medicine in which a therapist puts special cups on your skin for a few minutes to create suction.
The first documented uses are found in the teachings of the Islamic prophet, Muhammad. According to Muhammad al-Bukhari, Muslim ibn al-Hajjaj Nishapuri and Ahmad ibn Hanbal, Muhammad approved of the Hijama (cupping) treatment.
The Holy Prophet Muhammad s.a.w said Indeed, the best of remedies you have is hijama, and if there was something excellent to be used as a remedy then it is hijama.
The atheist put objection on this sunnah that it is a pseudo science and has no benefits.
According to atheists,Cupping is poorly supported by scientific evidence.In their 2008 book Trick or Treatment, Simon Singh and Edzard Ernst write that no evidence exists of any beneficial effects of cupping for any medical condition.A 2011 review found tentative evidence for pain but nothing else.
There haven’t been many scientific studies on cupping.
One report, published in 2015 in the Journal of Traditional and Complementary Medicine, notes that it could help with acne, herpes zoster, and pain management.The way it works is unclear but might involve the placebo effect.
That’s similar to the findings from a 2012 report, published in PLoS One. Australian and Chinese researchers reviewed 135 studies on cupping. They concluded that cupping therapy may be effective when people also get other treatments, like acupuncture or medications, for various diseases and conditions, such as:
Herpes zoster
Acne
Facial paralysis
Cervical spondylosis
But those researchers noted many of the studies they reviewed could have been biased and that better studies are needed.
 Cupping has been characterized as pseudoscience by some researchers.
American cancer society stated that: "There is no good evidence it has any benefit on health and there are some concerns it may be harmful".However Tham et al in reply to previous statement concluded that: " Cupping, on the other hand, is known to be an effective alternative to needles in stimulating acupoints in acupuncture treatment. One of the major advantages must be that the transmission of blood-borne diseases" and added: "The American Cancer Society notes that acupuncture can help control chemotherapy-related nausea and vomiting"
In 2015 review of systematic reviews, the researchers concluded that: "Cupping may be beneficial for pain-related conditions such as: herpes zoster, low back pain, and other conditions like: acne, and facial paralysis and in 2016 systematic review, the researchers concluded: "Cupping can be used for musculoskeletal pain, neck pain, Carpal tunnel syndrome, and brachialgia.
Cupping is generally safe when applied by trained professionals on people who are otherwise healthy.
There are many autoimmune diseases in which filtering of blood in form of plasmaphsresis is done to remove toxic substances from body as kidneys can not filter all toxic substances.
Cupping helps improve immune function by moving blood and lymphatic fluid throughout the body, which is why it’s been associated with reductions in lung diseases (especially chronic coughs), allergies, infections and asthma.
While cupping therapies using heat have the longest history in Asian countries like China, Japan and Korea, a similar practice called “wet cupping” has also been used in the Middle East for centuries. Recently, cupping has become more popular in the U.S. and other Western nations too, as some doctors have started implementing cupping and acupuncture into their patients’ treatment plans for naturally alleviating symptoms of pain, congestion and chronic infections without the need for drugs.
A 2012 report published in the Journal PLoS ONE reviewed 135 studies on cupping therapies published between 1992 and 2010. Researchers concluded that cupping is more than just a placebo effect — it has benefits similar to acupuncture or herbal treatments for treating various digestive, skin, hormonal and inflammatory diseases.
It should not be done in children below 10,adults more than 70 years of age,pregnant,very weak and those who are recovering from surgery.
Researchers have studied cupping primarily in China, finding benefit in conditions such as anxiety, depression, back pain, varicose veins, high blood pressure, eczema, acne, fertility, arthritis, fibromyalgia, diabetes, anemia, shingles (herpes zoster), insomnia, and gout.
While the quality of some of these clinical trials is not to U.S. standards, the findings of actual benefit are significant, especially given the low risk of the side effects.
Recent reviews of existing research on cupping therapy’s effectiveness found that most evidence supports cupping therapy’s potential benefits for pain management as well as helping people with persistent coughs, back problems, and conditions such as shingles
However, even these researchers have advocated for more study.
Additionally, researchers have cautioned against some of cupping’s more adverse effects, especially for wet cupping.
Even bloodless cupping has the potential to cause problems, such as keloids, panniculitis, damage to surface arteries and veins, and more but it is safe when performed by  trained processional.
if you have a bleeding disorder, or take medicine like aspirin or ibuprofen where bleeding is a potential side effect, you might want to skip cupping till you are free from these drugs and disorders.
The scientists conducted a systematic literature review of clinical   trials on cupping therapy based on available clinical studies published from 1958 through 2008.They  concluded that the majority of the 550 included studies showed that cupping is of potential benefit for pain conditions, herpes zoster, and cough and dyspnea.
Finally,their meta-analysis revealed that cupping therapy combined with other treatments, such as acupuncture or medications, showed significant benefit over other treatments alone in effecting a cure for herpes zoster, acne, facial paralysis, and cervical spondylosis.
In conclusion, the results of this systematic review suggest that cupping therapy appears to be effective for various diseases/conditions, in particular herpes zoster, acne, facial paralysis, and cervical spondylosis. However, the main limitation of our analysis was that nearly all included trials were evaluated as high risk of bias. As such, it is necessary to conduct further RCTs that are of high quality and larger sample sizes in order to draw a definitive conclusion.
So while earlier researches showed no benefit but later researches showed it can be beneficial.so benefit can not be denied based on scientific grounds.It should be remembered that till this time,researches are going on and they are showing some benefits and further researches may give more evidence of benefit.
   Cupping is not recommended as a replacement for typical treatment.But there are many body conditions and diseases especially autoimmune diseases in which this therapy has a beneficial role by removing harmful antibodies,so it has more protective effect than a therapeutic effect.
So new research shows that cupping therapy which is a sunnah of our prophet s.a.w is not free from medical benefits and further researches in this field are going on and as aa muslim we believe that science is lagging behind religion and o n e day it will show all benefits of this sunnah of Prophet Muhammad S.a.w insha_Allah.

References:
http://www.healthline.com/health-news/olympic-cupping-therapy-is-It-in-their-heads
http://www.medicinenet.com/script/main/mobileart.asp?articlekey=199489
Andrew Rippin and Jan Knappert, Textual Sources for the Study of Islam, Manchester: Manchester University Press, 1986; Chicago: University of Chicago Press, 1990. 78.
Sunan Abu Dawood
Qayyim Al-Jauziyah (2003). Abdullah, Abdul Rahman (formerly Raymond J. Manderola), ed. Healing with the Medicine of the Prophet. ISBN 978-9960892917.
In the News: Cupping". NCCIH. 2016-08-09. Retrieved 2016-08-15
Cao, Huijuan; Han, Mei; Zhu, Xiaoshu; Liu, Jianping (2015-01-01). "An overview of systematic reviews of clinical evidence for cupping therapy". Journal of Traditional Chinese Medical Sciences. 2 (1): 3–10. doi:10.1016/j.jtcms.2014.11.012
Al Bedah, Abdullah M.N.; Khalil, Mohamed K.M.; Posadzki, Paul; Sohaibani, Imen; Aboushanab, Tamer Shaaban; AlQaed, Meshari; Ali, Gazzaffi I.M. (2016-08-24). "Evaluation of Wet Cupping Therapy: Systematic Review of Randomized Clinical Trials". The Journal of Alternative and Complementary Medicine. 22 (10): 768–777. doi:10.1089/acm.2016.0193. ISSN 1075-5535
Chen, B; Li, MY; Liu, PD; Guo, Y; Chen, ZL (July 2015). "Alternative medicine: an update on cupping therapy.". QJM : Monthly Journal of the Association of Physicians. 108 (7): 523–5. doi:10.1093/qjmed/hcu227. PMID 25399022.
Singh, Simon; Ernst, Edzard (2008). Trick or Treatment. Transworld Publishers. p. 368. ISBN 978-0-552-15762-9.
Lee, MS; Kim, JI; Ernst, E (March 2011). "Is cupping an effective treatment? An overview of systematic reviews". Journal of Acupuncture and Meridian Studies. 4 (1): 1–4. doi:10.1016/s2005-2901(11)60001-0. PMID 21440874.
In the News: Cupping". NCCIH. 2016-08-09. Retrieved 2016-08-15
Tham, L. M.; Lee, H. P.; Lu, C. (2006-01-01). "Cupping: from a biomechanical perspective". Journal of Biomechanics. 39 (12): 2183–2193. doi:10.1016/j.jbiomech.2005.06.027. ISSN 0021-9290. PMID 16126216.
Russell J; Rovere A, eds. (2009). "Cupping". American Cancer Society Complete Guide to Complementary and Alternative Cancer Therapies (2nd ed.). American Cancer Society. pp. 189–191. ISBN 9780944235713.
Crislip, Mark. "Acupuncture Odds and Ends". Science-Based Medicine. Retrieved 8 August 2016.
http://www.webmd.com/balance/guide/cupping-therapy
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3289625/#!po=37.1795
مکمل تحریر >>