Friday 31 August 2018

"پارکر سولر پروب" نامی خلائی تحقیقی گاڑی سورج کی طرف بھیج دی گئی

یہ انسانی فطرت ہے کہ جس چیز کے بارے میں اسے تجسس ہوتا ہے وہ اس چیز کا قریبی معائنہ کرنے کی جستجو رکھتا ہے، جیسے 17 ویں صدی میں نیوٹن کے سائنسی قوانین کی وجہ سے ہمیں آج یہ بات معلوم ہے کہ اگر کسی بھی چیز کو ایک مخصوص رفتار سے خلاء میں بھیجا جائے تو وہ زمین کے گرد چکر لگاتی ہے۔
اس نظریے نے سائنسدانوں کے دماغ میں ہلچل مچا دی تھی جس کے پیش نظر 20 ویں صدی میں روس نے سب سے پہلا انسان زمین کے گرد بھیجا اور پھر امریکا نے خلاباز چاند پر بھیجے۔
سیارہ مریخ پر بھی انسانوں کو بھیجنے کی باتیں تو ہور ہی ہیں لیکن رواں مہینے کے آغاز سے ہی یہ خبر سب کی توجہ کا مرکز بنی ہے کہ انسان نے "سورج" پر اپنی کمان تان لی اور اب دنیا کے ان تمام افراد کا انتظار ختم ہوا اور امریکی خلائی ادارے ناسا کی طرف سے "پارکر سولر پروب" نامی خلائی تحقیقی گاڑی سورج کی طرف بھیج دی گئی۔
تحریر: سید منیب علی
لنک: https://www.dawnnews.tv/news/1084810

مکمل تحریر >>

Thursday 30 August 2018

نعوذ باللٰہ کیا قرآن نازل کرنے والا خدا مریخ نام کے کسی سیارے سے واقف نہیں تھا؟ قرآن میں مریخ پہ جانے کی پیشین گوئی کیوں موجود نہیں؟

نعوذ باللٰہ کیا قرآن نازل کرنے والا خدا مریخ نام کے کسی سیارے سے واقف نہیں تھا؟ قرآن میں مریخ پہ جانے کی پیشین گوئی کیوں موجود نہیں؟
ایک ملحد کا اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و اضافہ: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملحدین کہتے ہیں کہ کسی بھی مذہبی کتاب میں مریخ پر جانے کی کوئی پیش گوئی موجود نہیں اور نہ ہی چاند پر جانے کا کوئی اشارہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم انسان نظام شمسی سے متعلق جتنا جانتا تھا اتنا اس نے نعوذ باللٰہ "الہام و وحی" کی اختراع کرکے اپنے شخصی تصور خدا کے ساتھ جوڑ دیا۔یہ بالکل غلط ہے۔ ان کے مطابق نظام شمسی ہی مذہبی لوگوں کی کل کائنات ہے کیونکہ جن لوگوں نے ان کتابوں کو نعوذ باللٰہ گھڑا وہ نظام شمسی کے کچھ زمین سے نظر آنے والے سیاروں کے سوا اور کچھ نہیں جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملحدین کا یہ اعتراض انتہائی جہالت اور قرآن کے سائنسی انکشافات سے ناواقفیت کی بنیاد پہ ہے۔
قرآن رہنمائی کی کتاب ہے اور اس نے اپنے مخاطب کے حوالے سے اس انداز میں بات کی جتنا ان کو علم تھا تاکہ وہ لوگ آسانی سے قرآن کے بیان کو سمجھ سکیں۔ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات ایسے ہیں جو اس زمانے کے عربوں کیا، ایرانیوں،یونانیوں اور رومیوں تک کو معلوم نہیں تھے جن کے بارے میں قرآن پہ یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ قرآن نعوذ باللٰہ ان قدیم تہذیبوں سے اخذ کیا گیا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن کو اس کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا جو زمانہ جاہلیت کے عرب جانتے تھے۔
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشانیں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔ ارشاد ہوتاہے:
” وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
ترجمہ: ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘
عربی لفظ ’’موسعون‘‘ کا صحیح ترجمہ ’’ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘ بنتا ہے۔ غور فرمائیے کہ قرآن پاک نے کائنات کے پھیلنے کو اس وقت بیان فرما دیا ہے جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی، فلکیات میں عربوں کے عروج سے بھی صدیوں پہلے ہی قرآن پاک کا نزول ہو چکا تھا اور قرآن کا یہ انکشاف وہ ہے جس سے انسان قرآن کے نزول کے تیرہ سو سال بعد آج واقف ہوا ہے۔
پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر(male) اور مادہ (female) ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات یہ بتاتی ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتٰی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں۔ ان میں بھی نراور مادہ کے امتیازی اجزاء یکجا ہوتے ہیں۔
وَّ اَنْذَ لَ مِنَ السَّمَآ ئِ مَآ ئً ط فَاَ خْرَجْنَا بِہ اَزْ وَا جًا مِّنْ نَّبَا تٍ شَتّٰی
ترجمہ:۔ اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور اس میں ہم نے مختلف اقسام کے پودوں کے جوڑے پیدا کیے جو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
وَ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جعَلَ فِیْھَا زَوْ جَیْنِ اثْنَیْن
ترجمہ :۔ اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔
اعلٰی درجے کے پودوں میں نسل خیزی (Reproduction) کی آخری پیدا وار ان کے پھل ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نراور مادہ اعضاء یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovueles) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول بارآور ہو کر پھل میں بدلنے کا قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی ) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور اعضاہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔
وَ اَوْ حٰی رَ بُّکَ اِ لَی النَّحْلِ اَنِ ا تَّخِذِ یْ مِنَ الْجِبَا لِ بُیُوْ تًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِ شُوْ نَ ہ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰ تِ فَا سْلُکِیْ سُبُلَ رَ بِّکِ ذُ لُلًا
ترجمہ:اور دیکھو تہمارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور اُونچی چھتریوں پر اپنے چھتے ّ بنا تے اور ہر طرح کے پھولوں کا رس چوستے اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔
وان فرش (Von Frisch) نے شہد کی مکھیوں کے طرز عمل اور ان میں رابطہ وابلاغ (Communication) کی تحقیق پر 1973ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔ شہد کی کسی مکھی کو جب کوئی نیا باغ یا پھول دکھائی دیتا ہے تو وہ اپنے چھتے میں واپس جاتی ہے اور اپنی ساتھی شہد کی مکھیوں کو اُس مقام کا ٹھیک ٹھیک سمت اور وہاں پہنچنے والے راستے کے مفصّل نقشے سے آگاہ کرتی ہے۔ شہد کی مکھی، پیغام رسانی کا یہ کام خاص طرح کی جسمانی حرکات سے لیتی ہے جنہیں شہد کی مکھی کا رقص (Bee dance) کہا جاتا ہے۔ ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْ دُ ہ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِ نْسِ وَ اطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَ عُوْنَ ہ
حَتّٰی اِ ذَآ اَ تَوْا عَلٰی وَ ادِ النّمْلِ قَا لَتْ نَمْلَةُیّٰاَ یُّھَا النَّمْلُ ادْ خُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَ جُنُوْ دُ ہ وَ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْ نَ
ترجمہ:سلمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب یہ سب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا۔ اے چیوٹیو ! اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ سیلمان اور اس کے لشکر تمھیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔
تحقیق سے انکشاف ہواہے کہ وہ جانور یا حشرات (کیڑے مکوڑے) جن کا طرز حیات انسانی معاشرت سے غیر معمولی مما ثلت رکھتا ہے، وہ چیونٹیاں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق چیونٹیوں کے بارے میں درج ذیل حالیہ دریافتوں سے بھی ہوتی ہے۔
١) چیونٹیاں بھی اپنے مردوں کو انسانوں کی طرح دفناتی ہیں۔
٢) ان میں کار کنوں کی تقسیم کا پیچیدہ نظام موجود ہے جس میں نگران،نگران کارکن اور مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
٣) کھبی کھبار وہ آپس میں ملتی ہیں اور گفتگوبھی کرتی ہیں۔
٤) ان میں باہمی تبادلہ (communication) کا ترقی یافتہ نظام موجود ہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آج سے صرف چند صدیوں قبل ہی انسان کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شہد اصل میں شہد کی مکھی کے پیٹ (Belly)سے نکلتا ہے، مگر یہ حقیقت قرآن پاک نے 1400 سال پہلے درج ذیل آیات مبارکہ میں بیان کر دی تھی۔
یَخْرُجُ مِنْ بَطُوْنِھَا شَرَا بُ مُّخْتَلِفُ اَ لْوَ انُہ فِیْہِ شِفَاآ ئُ لِّلنَّا سِ ط
ترجمہ : اس مکھی کے (پیٹ کے ) اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے ۔
علاوہ ازیں ہم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ شہد میں زخم کوٹھیک کرنے کی شفا بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں اور یہ نرم(مرہم جیسی) جراثیم کش دوا (Mild antiseptic) کا کام بھی کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں رو سیوں نے بھی اپنے زخمی فوجیوں کے زخم ڈھانپنے کے لیے شہد کا استعمال کیا تھا۔ شہدکی یہ خاصیت ہے کہ یہ نمی کو برقرار رکھتا ہے اور بافتوں (tissue) بر زخمو ں کے بہت ہی کم نشان باقی رہنے دیتا ہے شہد کی کثافت (Density) کے باعث کوئی پھپھوندی (fungus) یا جراثیم، زخم میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔
سسٹر کیرول (Carole) نامی ایک مسیحی راہبہ (Nun) نے برطانوی شفا خانوں میں سینے اور الزائیمر:Alzheimer) ایک بیماری کانام )کے بیماریوں میں مبتلابائیس ناقابل علاج مریضوں کا علاج پرپولس (Propolis) نامی مادے سے کیا۔ شہد کی مکھیاں یہ مادہ پیدا کرتی ہیں اور اسے اپنے چھتّے کے خانوں کو جرا ثیموں کوروکنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی پودے سے ہونے والی الرجی میں مبتلا ہو جائے تو اسی پودے سے حاصل شدہ شہد اس شخص کو دیا جا سکتا ہے تا کہ وہ الرجی کے خلاف مزاحمت پیدا کرلے۔ شہد و ٹامن۔ کے (vitamen K) اور فر کٹوز (: Fructoseایک طرح کی شکّر) سے بھی بھر پور ہوتا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ محسوسات اور درد وغیرہ کا انحصار صرف اور صرف دماغ پر ہوتا ہے البتہ حالیہ دریافتوں سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جلد میں درد کو محسوس کرنے والے آخذے (Receptors) ہوتے ہیں۔ اگریہ خلیات نہ ہو تو انسان درد کو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں قرآن پاک نے بہت واضح الفاظ میں درد کے آخذوں کی موجودگی کے بارے میں بیان فرمایاہے:
اِنَّ الَّزِیْنَ کَفَرُوْ ا بِاٰ یٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَا رًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّ لْنٰھُمْ جُلُوْ دًا غَیْرَھَا لِیَذُ وْ قُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَا نَ عَزِیزً ا حَکِیْمًا ہ
ترجمہ۔:جن لوگوں نے ہماری آیات ما ننے سے انکار کر دیا ہے انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب اس کے بدن کی کھال گَل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتاہے اوراپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت کو خوب جانتاہے۔
ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
فَلْیَنْظُرِ الْاِ نْسَا نُ مِمَّ خُلِقَ ط ہ خُلِقَ مِنْ مَّآ ئٍٍ دَ افِقٍٍِِ ہ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَ آ ئِبِ ط ہ
ترجمہ:۔پھر انسان یہی دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا۔ ایک اُچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے۔
جُنینی مراحل (embryonic stages) میں مردانہ وزنانہ تولیدی اعضاء یعنی فوطے (testicle) اور بیضہ دان(Ovary) گردوں کے پاس سے ریڑھ کی ہڈی اور گیارہوں اور بارہویں پسلیوں کے درمیان سے نموپذیر ہونا شروع کرتے ہیں۔ بعد ازاں وہ کچھ نیچھے اُترآتے ہیں، زنانہ تولیدی غدود (gonads) یعنی بیضہ دانیاں پیڑو( pelvis) میں رُک جاتی ہے جبکہ مردانہ اعضائے تولید(inguinal canal) کے راستے خصیہ دانی (scrotum) تک جاپہنچتے ہیں۔ حتٰی کہ بلوغت میں بھی جبکہ تولیدی غدود کے نیچے جانے کا عمل رک چکا ہوتا ہے ان غدود میں دھڑوالی بڑی رگ (Abdominal aorta) کے ذریعے خون اور اعصاب کی رسانی کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ دھیان رہے کہ دھڑ والی بڑی رگ اس علاقے میں ہوتی ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان ہوتا ہے۔ لمفی نکاس (Lymphetic drainage) اور خون کا وریدی بہائو بھی اس سمت ہوتاہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ہوا، بادلوں کو ایک دوسرے کے قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف (Condensation) کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ اسی طرح کی تو ضیحات، قرآن پاک کی دیگر آیات مبارک میں بھی موجود ہیں:
اَ لَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُذْ جِیْ سَحَبًا ثُمَّ یُئَو لِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَا مًا فَتَرَ ی الْوَ دْقَ یَخْرُ جُ مِنْ خِلٰلِہ وَ یُنَزِّ لُ مِنَ السَّمَآ ئِ مِنْ جِبَا لٍٍ فِیْھَا مِنْ بَرَ دٍٍ فَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآ ئُ وَ یَصْرِ فُہ عَنْ مَّنْ یَّشَا ئُ ط یَکَا دُ سَنَا بَرْ قِہ یَذْ ھَبُ بِا لْاَ بْصَا رِ ہ
ترجمہ:۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالٰی بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف (Condense)ابربنا دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے اندر میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں جیسے (بادلوں)سے اولے برساتا ہے۔ پھر جسے چاہتا ہے انکا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدً ا ہ وَّالْجِبَا لَ اَوْ تَا دً ا
ترجمہ:۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔
یہاں عربی لفظ اوتاد کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی بلوں یا سلوٹوں کی گہری بنیادیں بھی یہی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک پریس (Frank Press) جو 12سال تک امریکا اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ جبکہ سابق امریکی صدرجمی کارٹر کے زمانے میں صدارتی مشیر بھی تھے۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل (Wedge Shape) جیسی شکل سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشرارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پہاڑوں کے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرزتے رہنے سے بچائیں:
وَ جَعَلْنَا فِی الْاَ رْضِ رَوَسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِھِم
ترجمہ:۔ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جمادیے تاکہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔
اسی طرح کے ارشادات سورة 31آیت 10سورة 10آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں، لہذا قرآن پا ک کے فراہم کردہ بیانات جدید ار ضیاتی معلوم سے مکمل طر پر ہم آہنگ ہیں۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (Vessels)میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ خون ان مادوں کو تمام اعضاء تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے ) غدود بھی شامل ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور مکمل طور پر لازماً ہماری گرفت میں آجائے گا۔ اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
وَ اِ نَّ لَکُمْ فِی الْاَ نْعَا مِ لَعِبْرَ ةً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْ نِہ مِنْ م بََیْنَ فَرْ ثٍ وَّ دَ مٍٍ لَّبَنًا خَا لِصًا سَآ ئِغًا لِّلشّّٰرِ بِیْنَ ہ
ترجمہ:اورتمھارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اورخون کے درمیان سے ہم تمھیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوا رہے۔
1400 سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جوگائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید فعلیات (physiology) سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا ہے۔ملا حظہ فرمائیے قرآن پاک نے یہ انکشاف تب کیا جب کوئی اس کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔
ان بیان کردہ بہت سے سائنسی حقائق سے تو عرب اس وقت بھی واقف نہیں تھے جب وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے عروج پر تھے ۔پھر قرآن پاک میں بیان کردہ سائنسی حقائق کس طرح سے فلکیات میں عربوں کی مہارت کا نتیجہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت اس کے برعکس بات سچ ہے، عربوں نے فلکیات میں اس لیے ترقی کی کیونکہ فلکیاتی مباحث کو قرآن پاک میں اہم مقام دیا گیا ہے۔
اوپر بیان کردہ سائنسی انکشافات ان کئ انکشافات میں سے محض چند ہیں جن کو قرآن نے پیش کیا ہے۔اوپر بیان کردہ قرآن کے بیشمار سائنسی انکشافات وہ تھے جن کو ہزار سال تک انسان دریافت نہیں کر سکا لیکن قرآن نے ان کو چودہ سو سال پہلے پیش کیا۔ قرآن نازل کرنے والے جس خدا نے یہ حیرتناک سائنسی انکشافات بیان کیے وہ مریخ پہ جانے سے آگاہ کیوں نہیں ہو سکتا تھا جب کہ وہ خدا قرآن میں خود فرما چکا ہے کہ تم نہیں نکل سکتے زمین و آسمان کے کناروں سے مگر بہت قوت کے ساتھ اور آج یہی وہ قوت ہے جس سے انسان کائنات کی مختلف سمتوں کی طرف اپنے خلائی جہاز بھیج رہا ہے۔ ان سب انکشافات کے تناظر میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ قرآن نازل کرنے والے خدا نے فلاں فلاں سائنسی حقائق کیوں بیان نہیں کیے جب کہ اس کی نازل کردہ کتاب وہ حقائق پیش کر چکی ہے جو انسان نے اس کے نزول کے ہزار سال بعد دریافت کئے۔ یہ قرآن نعوذ باللٰہ کس طرح بابل، ایران، یونان، مصر، روم، یہودیت یا عیسائیت سے نقل ہوسکتا تھا جب کہ اس قرآن کے بیان کردہ بیشمار سائنسی حقائق نہ بابلی جانتے تھے، نہ ایرانی، نہ رومی، نہ یونانی، نہ مصری، نہ عیسائی اور نہ یہودی اور انسان ان حقائق سے آج ہی واقف ہوسکا ہے۔جو کتاب اپنے انکشافات میں انسانی عقل اور سائنس سے ہزار سال آگے ہو اس پہ نہ جاننے اور نعوذ باللٰہ کسی عام انسان کی طرف سے گھڑے جانے کا اعتراض جہالت کی آخری حد نہیں تو اور کیا ہے ؟
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں اردو آزاد دائرۃ المعروف کے مضمون قرآن اور جدید سائنس سے مدد لی گئی ہے اور راقم اس کے لیے مضمون کے مصنف کا شکرگزار ہے۔
مکمل تحریر >>

Tuesday 21 August 2018

مفاد پرست

دنیا میں سب سے خطرناک شخص  ''مفاد پرست''  شخص ہوتا ہے ،
جو دراصل کسی کا نہیں ہوتا '
خالق کا اور نہ مخلوق کا ۔۔۔۔۔!!
جدید اور ترقی یافتہ معاشروں کی خصوصیت اور حقیقت یہ ہے کہ یہاں کا ہر فرد مفاد پرست و مادہ پرست ہوتا ہے

مادہ پرست انسان درحقیقت انسان کی شکل کا ایک بدترین جانور ہوتا ہے
جو حرص و ہوس و حسد ہی میں اپنی پوری زندگی غرق رکھتا ہے ،۔۔۔۔۔۔!
جسے (حرص و ہوس و حسد کو) جدید معاشروں میں کمپیٹیشن ، ترقی ، کامیاب زندگی وغیرہ وغیرہ ایسے حسین نام دے رکھے گئے ہیں !!!

یہی وجہ ہے کہ ؛
ان منہ زور و آزاد ترقی یافتہ جدید معاشروں میں اتنے قوانین ہیں کہ اُتنے انسان نہ ہوں جتنے قوانین ہوتے ہیں
کیونکہ انسان کی شکل کے جانوروں کو قوانین کی لاٹھی کے ذریعے ہی چلایا جاسکتا ہے
بات بات پہ قانون موجود ۔۔۔۔۔ اور ہر ہر معاملے میں روزانہ نئے نئے قانون ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے معاشروں میں انسانیت و شعور و ضمیر کا کیا کام ؟؟؟
ہر انسان بند دماغ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہیں ان ان قوانین کا خیال رکھنا ہے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہ مفاد پرست اس  ''ورنہ''  کی وجہ سے ذرا کنٹرول میں رہتا ہے ( جبکہ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر قوانین مادی قوت میں کمزور و ناتواں انسان کیلئے ہوتے ہیں)

لیکن پھر بھی قوانین بھی کتنا کنٹرول کر پاتے ہیں '؟!؟
یہ جاننے کیلئے ترقی یافتہ معاشروں کا حال دیکھ لیجئے

جن معاشروں کو خوفِ خدا ، تصورِ آخرت ، بندگئ اِلٰہ اور عبدیتِ خالق پہ قائم اور ڈیزائن نہ کیا گیا ہو ،
آج اپنے ان معاشروں کا حال دیکھ لیجئے

اس کے برعکس آپ اُن معاشروں کا نظارہ کرلیجئے
جہاں دراصل قوانین کے بجائے خشیتِ الہی اور آخرت میں جوابدہی کے خوف سے لوگ  ''انسان بن کر''  زندگیاں جیتے رہے ،

جو بخوشی ورضا دین کی اتباع میں زندگیاں گزار گئے  ،  
مادی ترقی اُن کا مقصدِ حیات نہ تھا ، 
انہیں مادی طاقت کا نشہ ہوتا تو مادہ پرست بنتے !!؟
مادہ پرست ہوتے تو مفاد پرست ہوتے !!؟
وہ سادہ معاشرے ۔۔۔۔۔۔
جنہیں تسخیرِ کائنات والی آیات سمجھ میں نہیں آ سکی تھیں اور آج ہمیں اللہ نے قرآن مجید کی سمجھ بوجھ و فہم عطا فرمایا کہ ہم نے جدید معاشرے کھڑے کر ڈالے !!

سبحان اللہ

انسان نما جانوروں کے معاشرے ۔۔۔۔۔۔۔
جیلوں ، پاگل خانوں ، تھانوں ، ہاسپٹلوں سے لبالب بھرے ہوئے  معاشرے !
ترقی یافتہ معاشرے ۔۔۔۔۔۔

( نالج کیلئے ایک خبر سن لیں !
سب سے زیادہ پاگل خانے امیرکہ میں ہیں)
ہر فرد ڈپریشن کا شکار ۔۔۔۔۔۔!!

جدید معاشروں کا انسان کسی طرح بھی انسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔!!
مشین ، گدھا ، لوٹا ، غلام ۔۔۔۔۔ یہ سب ہوتا ہے !
لیکن کوئ بات انسانوں والی ان معاشروں میں نہیں ہوتی  !!

یہ ہے وہ دنیا جسے ہم نے اپنی مرضی سے بنایا
 
یاد رہے !
مادی معاشروں میں مادہ پرست و مفاد پرست انسان نما جانور ہی پیدا ہوا کرتے ہیں
جبکہ حقیقی انسان صرف سادہ و دینی معاشروں میں ہی پیدا ہوا کرتے ہیں

حضرات !
قربانی آپ کو یہی سبق سکھاتی ہے

قربانی کا مقصد و پیغام و سبق ہے کہ ؛
اندر موجود ۔۔۔۔ شخصیت پرستی ، وطن پرستی ، رنگ و زبان و علاقہ پرستی ، نفس پرستی و عقل پرستی ، سرمایہ و مادہ  پرستی ، ہوس پرستی و حرص و لالچ کا ہر جانور ذبح کر ڈالو ۔۔۔!

سنتِ ابراہیمی پر عمل کرنے سے قبل عقیدۂ ابراہیمی اپنانا لازم و فرض و واجب ہے

اس عظیم ترین سنت کا مقصد عقیدۂ ابراہیمی کی یاد دہانی و پختگی و پیدائش کروانا ہے !

عجیب بات یہ ہے کہ ؛
شعائرِ اسلام و عبادات پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں ، جنہوں نے مادی دنیا تشکیل و تعمیر کرکے انسانیت کی زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ،۔۔۔۔!! 

جس سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو جانور بنایا ، مطلبی و مفاد پرست بنایا ، ہوس پرست و حرصی و لالچی بنادیا ۔۔۔۔!!

جن کا کام ہی غریب پیدا کرنا ہے ،۔۔۔۔۔۔،
اور جن کی بقاء  ہی غربت کے وجود میں ہے !!

غریب کا سگہ کوئ اور بنے تو بنے ۔۔۔۔۔ لیکن یہ ہیپی نیو ائیر ، برتھ ڈیز اور ویلنٹائن ایسی مہنگی اور بدبودار تہذیب کے علمبردار کب سے غریب کا درد رکھنے لگے ؟؟

جن کے گھر ہی غریبوں کی محنت سے بنے ، جن کی کوٹھیاں غریب کی وجہ سے صاف شفاف رہتی ہوں !
جِن بدقماشوں کا لیبر کے بغیر گھر چلتا ہے اور نہ فیکٹریاں !!
غریبوں کے بغیر جو ایک پل نہیں گزار پاتے !!

وہ کس حساب سے غریب کا دُکھڑا روتے ہیں ؟؟

حضرات !
انہیں مسئلہ بس اسلام سے ہے ،
وہ اسلام جو چیزوں کی قربانی سکھاتا ہے ، نہ کہ چیزوں کی خاطر مرنا مرانا ، اور لالچ و ہوس و حرص ۔۔۔۔۔!!
ہر وہ کام جس میں اللہ کی رضا و خوشنودی ہو ،۔۔۔۔
انہیں ہر اس کام سے تکلیف ہے !

یہ مادہ و نفس پرست گھٹیا مخلوق !
اِن کے پیچھے کبھی مت لگئے !

اپنے خالق و مالک سے جڑے رہئیے ، انہیں دفع دور کیجئے !!

یہ کائنات کی سب سے بدترین مخلوق ہے !!

اللھم لا تجعلنا منھم
آمین
        

                   انس اسلام

مکمل تحریر >>

Wednesday 15 August 2018

اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دین فطرت بھی ہے جو ان تمام احوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے، جن کا تعلق انسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وجود کے ظہور سے ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی انسانیت کو نور علم سے منور کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآن مجید کا بنیادی موضوع ’’انسان‘‘ ہے، جسے سیکڑوں بار اس امر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادث عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوت مشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اس پر آشکار ہوسکیں۔
قرآن مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اوصاف ذکر کئے ہیں، ان میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر (علم تخلیقیات/ Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
قرآ ن حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اْس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اْس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اْٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘    (آل عمران، 3 : 190، 191)
ان آیات طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں، ان میں جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زندگی کے ہر حال میں اپنے مولیٰ کی یاد اور اس کے حضور حاضری کے تصور کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اس برابر کی دوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اس وسعت افلاک کا نظام کن اصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وقعتی کا اندازہ کرے، جب وہ اس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خودہی پکار اٹھے گا : ’’اے میرے رب! تو ہی میرا مولیٰ ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اس وسعت کائنات کو تیری ہی قوت وجود بخشے ہوئے ہے اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا۔‘‘
مذکورہ بالا آیت کریمہ کے پہلے حصہ میں ’خالق‘ اور دوسرے حصے میں ’خلق‘ کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دوسرے کا براہ راست سائنس اور خاص طور پر علم تخلیقیات (cosmology) سے ہے۔
مذہب اور سائنس میں تعلق
آج کا دور سائنسی علوم کی معراج کا دور ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علم (contemporary knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے، لہٰذا دورحاضر میں دین کی صحیح اور نتیجہ خیز اشاعت کا کام جدید سائنسی بنیادوں پر ہی بہتر طور پر سرانجام دیا جاسکتا ہے۔ بنا بریں اس دور میں اس امر کی ضرورت گزشتہ صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی ترویج کو فروغ دیا جائے اور دینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے مربوط کرتے ہوئے حقانیت اسلام کا بول بالا کیا جائے۔ چنانچہ آج کے مسلم طالب علم کے لئے مذہب اور سائنس کے باہمی تعلق کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا از بس ضروری ہے۔
مذہب ’خالق‘ (Creator) سے بحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ ’خَلق‘ (creation) سے۔ دوسرے لفظوں میں سائنس کا موضوع ’خلق‘ اور مذہب کا موضوع ’خالق‘ ہے۔ یہ ایک قرین فہم و دانش حقیقت ہے کہ اگر مخلوق پر تدبروتفکر اور سوچ بچار مثبت اور درست انداز میں کی جائے تو اس مثبت تحقیق کے کمال کو پہنچنے پر لامحالہ انسان کو خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اختیار پکار اٹھے گا :
’’اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔‘‘
(آل عمران، 3 : 191)
بندۂ مومن کو سائنسی علوم کی ترغیب کے ضمن میں اللہ رب العزت نے کلام مجید میں ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا :
’’ہم عنقریب انہیں کائنات میں اور ان کے اپنے (وجود کے) اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ وہ جان لیں گے کہ وہی حق ہے۔‘‘    (حم السجدہ، 41 : 53)
اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم انسان کو اس کے وجود کے اندر موجود داخلی نشانیاں (internal signs) بھی دکھا دیں گے اور کائنات میں جابجا بکھری خارجی نشانیاں (external signs) بھی دکھا دیں گے، جنہیں دیکھ لینے کے بعد بندہ خود بخود بے تاب ہوکر پکار اٹھے گا کہ حق صرف اللہ ہی ہے۔
دورحاضر کا المیہ
قرآن مجید میں کم و بیش ہر جگہ مذہب اور سائنس کا اکٹھا ذکر ہے، مگر یہ ہمارے دور کا المیہ ہے کہ مذہب اور سائنس دونوں کی سیادت و سربراہی ایک دوسرے سے ناآشنا افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنے مد مقابل دوسرے علم سے دوری کے باعث اسے اپنا مخالف اور متضاد تصور کرنے لگے ہیں۔ جس سے عام الناس کم علمی اور کم فہمی کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں تضاد اور تخالف (conflict & contradiction) سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
مغربی تحقیقات اس امر کا مسلمہ طور پر اقرار کرچکی ہیں کہ جدید سائنس کی تمام تر ترقی کا انحصار قرون وسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کی فراہم کردہ بنیادوں پر ہے۔ مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی نہج پر کام کی ترغیب قرآن و سنت کی تعلیمات نے دی تھی۔ اسی منشائے ربانی کی تکمیل میں مسلم سائنسدانوں نے ہر شعبہ علم کو ترقی دی اور آج اغیار کے ہاتھوں وہ علوم اپنے نکتہ کمال کو پہنچ چکے ہیں۔ شومی قسمت کہ جن سائنسی علوم و فنون کی تشکیل اور ان کے فروغ کا حکم قرآن و حدیث میں جا بجا موجود ہے اور جن کی امامت کا فریضہ ایک ہزار برس تک خود بغداد، رے، دمشق، اسکندریہ اور اندلس کے مسلمان سائنسدان سرانجام دیتے چلے آئے ہیں، آج قرآن و سنت کے نام لیوا طبق ارضی پر بکھرے اَرب بھر مسلمانوں میں سے ایک بڑی تعداد اسے اسلام سے جدا سمجھ کر اپنی ’تجدد پسندی‘ کا ثبوت دیتے نہیں شرماتی۔ سائنسی علوم کا وہ پودا جسے ہمارے ہی اجداد نے قرآنی علوم کی روشنی میں پروان چڑھایا تھا، آج اغیار اس کے پھل سے محظوظ ہو رہے ہیں اور ہم اپنی اصل تعلیمات سے روگرداں ہوکر دیارمغرب سے انہی علوم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔
آج ایک طبقہ اگر اسلام سے اس حد تک روگرداں ہے تو دوسرا نام نہاد ’مذہبی طبقہ‘ سائنسی علوم کو اجنبی نظریات کی پیداوار قرار دے کر ان کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مذہبی و سائنسی علوم میں مغایرت کا یہ تصور قوم کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ نسل نو اپنے اجداد کے سائنسی کارہائے نمایاں کی پیروی کرنے یا کم از کم ان پر فخر کرنے کی بجائے زوال و مسکنت کے باعث اپنے علمی، تاریخی اور سائنسی ورثے سے اس قدر لاتعلق ہوگئی ہے کہ خود انہی کو اسلام اور سائنس میں عدم مغایرت پر قائل کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
مذہب اور سائنس میں عدم تضاد
سائنس اور اسلام میں تضاد کیوںکر ممکن ہے جبکہ اسلام خود سائنس کی ترغیب دے رہا ہے۔ بنا بریں اسلامی علوم کل ہیں اور سائنسی علوم محض ان کا ایک جزو۔ جزو اور کل میں مغایرت (conflict) ناممکن ہے۔ مذہب اور سائنس پر اپنی اپنی سطح پر تحقیقات کرنے والے دنیا بھر کے محققین کے لئے یہ ایک عالمگیر چیلنج ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں تضاد ہے تو اس کے ساتھ دو میں سے یقینا ایک بات ہوگی، ایک امکان تو یہ ہے کہ وہ مذہب کی صحیح سمجھ سے عاری ہو گا بصورت دیگر اس نے سائنس کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نکتے پر اسے تضاد نظر آرہا ہو مطالعہ میں کمی کے باعث وہ نکتہ اس پر صحیح طور پر واضح نہ ہو سکا ہو۔ اگر کسی معاملے کو صحیح طور پر ہر پہلو سے جانچ پرکھ کر سمجھ لیا جائے تو بندہ از خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ اِسلام کی رو سے مذہب اور سائنس دونوں دین مبین کا حصہ ہیں۔
سائنس کا دائرۂ کار مشاہداتی اور تجرباتی علوم پر منحصر ہے جبکہ مذہب اخلاقی و روحانی اور ما بعد الطبیعیاتی امور سے متعلق ہے۔ اب ہم مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کے حوالے سے تین اہم دلائل ذکر کرتے ہیں :
1- بنیاد میں فرق
مذہب اور سائنس میں عدم تضاد کی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی جدا جدا ہیں۔ درحقیقت سائنس کا موضوع ’علم‘ ہے، جبکہ مذہب کا موضوع ’ایمان‘ ہے۔ علم ایک ظنّی شے ہے، اسی بناپر اس میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے، بلکہ سائنس کی تمام پیش رفت ہی اقدام و خطا (trial & error) کی طویل جدّوجہد سے عبارت ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایمان کی بنیاد ظن کی بجائے یقین پر ہے، اس لئے اس میں خطا کا کوئی امکان موجود نہیں۔
ایمان کے ضمن میں سورہ بقرہ میں ارشادِربانی ہے :
’’جو غیب پر اِیمان لاتے ہیں۔‘‘(البقرہ، 2 : 3)
گویا ایمان جو کہ مذہب کی بنیاد ہے، مشاہدے اور تجربے کی بنا پر نہیں بلکہ وہ بغیر مشاہدہ کے نصیب ہوتا ہے۔ ایمان ہے ہی ان حقائق کو قبول کرنے کا نام جو مشاہدے میں نہیں آتے اور پردۂ غیب میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنے خودساختہ ذرائع علم سے معلوم نہیں ہوسکتے بلکہ انہیں مشاہدے اور تجربے کے بغیر محض اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے مانا جاتا ہے، مذہب کی بنیاد ان حقائق پر ہے۔ اس کے مقابلے میں جو چیزیں ہمیں نظرآرہی ہیں، جن کے بارے میں حقائق اور مشاہدات آئے دن ہمارے تجربے میں آتے رہتے ہیں، ان حقائق کا علم سائنس کہلاتا ہے۔ چنانچہ سائنس انسانی استعداد سے تشکیل پانے والا علم (human acquired wisdom) ہے، جبکہ مذہب خدا کی طرف سے عطاکردہ علم (God-gifted wisdom) ہے۔ اسی لئے سائنس کا سارا علم امکانات پر مبنی ہے، جبکہ مذہب میں کوئی امکانات نہیں بلکہ وہ سراسر قطعیات پر مبنی ہے۔ مذہب کے تمام حقائق وثوق اور حتمیت (certainty & finality) پر مبنی ہیں، یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور امر واجب ہے، جبکہ سائنس کی بنیاد اور نکتہ آغاز ہی مفروضوں (hypothesis) پر ہے۔ اسی لئے سائنس میں درجہ امکان (degree of probability) بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مراحل میں سے گزر کر کوئی چیز قانون (law) بنتی ہے اور تب جاکر اس کا علم ’حقیقت‘ کے زمرے میں آتا ہے، سائنسی تحقیقات کی جملہ پیش رفت میں حقیقی صورتحال یہ ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد سائنسی قوانین قرار دیتے ہیں، ان میں بھی اکثر ردّ و بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ اس بہت بڑے فرق کی بنیاد پر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا امکان ہی خارج از بحث ہے۔
2۔ دائرۂ کار میں فرق
مذہب اور سائنس میں کسی قسم کے تضاد کے نہ پائے جانے کا دوسرا بڑا سبب دونوں کے دائرہ کار کا مختلف ہونا ہے، جس کے باعث دونوں میں تصادم اور ٹکراؤ کا کوئی امکان کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک ہی سڑک پر چلنے والی دو کاریں آمنے سامنے آرہی ہوں تو وہ آپس میں ٹکراسکتی ہیں، اسی طرح عین ممکن ہے کہ اسٹیشن ماسٹر کی غلطی سے دو ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں، لیکن یہ ممکن نہیں کہ کار اور ہوائی جہاز یا کار اور بحری جہاز آپس میں ٹکرا جائیں۔ ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ دونوں کے سفر کے راستے الگ الگ ہیں۔ کار کو سڑک پر چلنا ہے، بحری جہاز کو سمندر میں اور ہوائی جہازکو ہوا میں، جس طرح سڑک اور سمندر میں چلنے والی سواریاں کبھی آپس میں ٹکرا نہیں سکتیں، اسی طرح مذہب اور سائنس میں بھی کسی قسم کا ٹکراؤ ممکن نہیں، کیونکہ سائنس کا تعلق طبیعیاتی کائنات (physical world) سے ہے، جبکہ مذہب کا تعلق مابعد الطبیعیات (meta physical world) سے ہے۔ اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ سائنس فطرت (nature) سے بحث کرتی ہے جبکہ مذہب کی بحث مافوق الفطرت (supernature) دنیا سے ہے، لہٰذا ان دونوں میں اسکوپ کے اختلاف کی بنا پر ان میں کسی صورت بھی تضاد ممکن نہیں ہے۔
3۔ اقدام و خطاکا فرق
اس ضمن میں تیسری دلیل بھی نہایت اہم ہے اور وہ یہ کہ خالق کائنات نے اس کائنات ہست و بود میں کئی نظام بنائے ہیں، جو اپنے اپنے طور پر اپنی خصوصیات کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ مثلاً انسانی کائنات، حیوانی کائنات، جماداتی کائنات، نباتاتی کائنات، ماحولیاتی کائنات، فضائی کائنات اور آسمانی کائنات وغیرہ۔ ان تمام نظاموں کے بارے میں ممکن الحصول حقائق جمع کرنا سائنس کا مطمح نظر ہے۔ دوسری طرف مذہب یہ بتاتا ہے کہ یہ ساری اشیا اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں۔ چنانچہ سائنس کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ ربّ العزت کے پیداکردہ عوامل اور ان کے اندر جاری و ساری عوامل (functions) کا بنظر غائر مطالعہ کرے اور کائنات میں پوشیدہ مختلف سائنسی حقائق کو بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے سامنے لائے۔
اللہ ربّ العزت کی تخلیق کردہ اس کائنات میں غوروفکر کے دوران ایک سائنسدان کو بارہا اقدام و خطا(trial & error) کی حالت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک دفعہ کی تحقیق سے کسی چیز کو سائنسی اصطلاح میں ’حقیقت‘ کا نام دے دیا جاتا ہے، مگر مزید تحقیق سے پہلی تحقیق میں واقع خطا ظاہر ہونے پر اسے ردّ کر تے ہوئے نئی تحقیق کو ایک وقت تک کیلئے حتمی قرار دے دیا جاتا ہے۔ سائنسی طریق کار میں اگرچہ ایک ’مفروضے‘ کو مسلمہ ’نظریے‘ تک کا درجہ دے دیا جاتا ہے، تاہم سائنسی طریق تحقیق میں کسی نظریے کو بھی ہمیشہ کیلئے حقیقت کی حتمی شکل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سائنس کی دنیا میں کوئی نظریہ جامد (unchangeable) اور مطلق (absolute) نہیں ہوتا، ممکنہ تبدیلیوں کا امکان بہرحال موجود رہتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے تجربات کی روشنی میں صدیوں سے مسلمہ کسی نظریے کو مکمل طور پر مستردّ کردیا جائے۔
مذہب اقدام و خطاسے مکمل طور پر آزاد ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ ربّ العزت کے عطا کردہ علم سے ہوتا ہے، جو حتمی، قطعی اور غیر متبدل ہے اور اس میں خطاکا کلیتاً کوئی امکان نہیں ہوتا۔ جبکہ سائنسی علوم کی تمام تر تحقیقات اقدام و خطا (trial & error) کے اصول کے مطابق جاری ہیں۔ ایک وقت تک جو اشیا حقائق کا درجہ رکھتی تھیں موجودہ سائنس انہیں کلی طور پر باطل قرار دے کر نئے حقائق منظرعام پر لا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حقائق تک پہنچنے کی اس کوشش میں بعض اوقات سائنس غلطی کا شکار بھی ہوجاتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کی بنیاد ہی سعی اور خطا (trial & error) پر ہے جو مختلف مشاہدات اور تجربات کے ذریعے حقائق تک رسائی کی کوشش کرتی ہے۔
مذہب مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) حقائق سے آگہی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس مادّی کائنات سے متعلق بھی بہت سی معلومات فراہم کرتا ہے، جن کی روشنی میں ہم سائنسی علوم کے تحت اس کائنات کو اپنے لئے بہتر استعمال میں لا سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشا د باری تعالیٰ ہے :
’’اور اس (اللہ) نے سماوِی کائنات اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے مسخر کردیا ہے۔‘‘(الجاثیہ، 45 : 13)
جہاں تک مذہب کا معاملہ تھا اس نے تو ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ زمین و آسمان میں جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے سب انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ سائنسی علوم کی بدولت کائنات کی ہر شے کو انسانی فلاح کے نکتہ نظر سے اپنے لئے بہتر سے بہتر استعمال میں لائے۔ اسی طرح ایک طرف ہمیں مذہب یہ بتاتا ہے کہ جملہ مخلوقات کی خلقت پانی سے عمل میں آئی ہے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ذمہ داری یہ رہنمائی کرنا ہے کہ بنی نوع انسان کو پانی سے کس قدر فوائد بہم پہنچائے جاسکتے ہیں اور اس کا طریق کار کیا ہو۔ چنانچہ اس ساری بحث سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سائنس اور مذہب کہیں بھی اور کسی درجے میں بھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔

مکمل تحریر >>