Tuesday 19 March 2019

اللہ تعالٰی اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصول سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں۔

اللہ تعالٰی اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصول سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں۔ کسی مسلمان کے برے اعمال کی وجہ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غلط نہیں کیا جا سکتا۔البتہ اس مسلمان کے عمل کو غلط قرار لازمی دیا جانا چاہیے جس نے یہ غلط عمل کیا یا اسلام کے نام پہ کسی پہ ظلم کیا۔اسلامی تاریخ میں کئ ایسی مثالیں موجود ہیں جب کفار کے ساتھ بھی عدل ہوا اور مسلمان کو سزا ملی۔ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ظاہری مسلمان کے مقابلے میں ایک یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا اور وہ یہودی یہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔دوسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا جب انہوں نے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم قبطی سے زیادتی کرنے پر سزا دی اور کہا کہ تم لوگوں نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد بنا تھا،مذہبی رواداری کی اور مثال یہ کہ خلافت عباس میں عیسائ و یہودی کئ اعلٰی عہدوں پہ فائز رہے،خلافت عثمانیہ میں باقاعدہ غیر مسلم بچوں کی کفالت کر کے انہیں سرکاری ملازمت دی جاتی،اور یہودی اس سلطنت میں سکون سے رہ رہے تھے جب کہ یورپ میں ان پہ ظلم پہ ظلم ہو رہے تھے جس کی خود یورپی تاریخ گواہ ہے۔البتہ کچھ ہر وقتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی غیر مسلم سے زیادتی کریں۔اس صورت میں اس مسلمان کو اس کے ظلم کی پوری سزا ملنی چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جائے۔غیر مسلم عورت کی عزت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کہ ایہ مسلمان عورت کی۔یہی وجہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی عورتوں کی بیحرمتی سے منع کیا گیا ہے۔اگر کوئ زیادتی کرے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔قرآن و حدیث کا طالبعلم ایک مدرسے کا مسلمان ہو خواہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم نوجوان،جب بھی وہ کسی غیر مسلم سے زیادتی کرے اسے پوری سزا ملنی چاہیے لیکن کسی کے برے عمل سے اسلام کی تعلیمات کو نہیں جھٹلایا جائے گا کیونکہ ہمارے لیے نمونہ کوئ عالم کوئ مدرس کوئ پروفیسر نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ساتھ کام کرنے والے غیر مسلموں کو بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔خود ہمارے ساتھ کئ عیسائ ماتحت کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری بول چال عام مسلمانوں سے تعلق سے مختلف نہیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔انڈیا کے ایک بزرگ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ایک سکھ بیت الخلا میں گیا مگر وہاں گندگی بھری ہونے کی وجہ سے واپس چلا آیا۔اس پہ وہ بزرگ گئے،بیت الخلا خود صاف کیا،جسے پھر اس سکھ نے استعمال کیا،یہ سلوک دیکھ کر وہ سکھ مسلمان ہو گیا۔
جس قدر مذہبی تعصب مسلمان ممالک میں کفار کے خلاف پایا جاتا ہے،اگرچہ اس کی بنیاد پہ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانا یا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ظلم ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ  بغض یورپ و امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس کی مثال حجاب والی عورتوں کا حجاب کھینچ لینا،مسجدوں پہ حملے کرنا،زبردستی سور کا گوشت کھانے پہ مجبور کرنا جس پہ ایک پاکستانی سائنسدان امریکہ چھوڑ کر واپس آچکے ہیں،اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے والوں کو ہراساں کرنا،پردہ جو کہ ایک مسلمان عورت کا ذاتی و شرعی فعل ہے اس پہ پابندی لگانا،افغانستان میں دس لاکھ مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کے سروں میں کیل ٹھوکنا،بند کنٹینر میں سانس بند کر کے قتل کرنا،نہتی عورت کو چھیاسی سال قید کی سزا سنانا،ڈرون حملوں میں ناجائز بیگناہ عوام کا قتل کرنا،عراق میں سنی شیعہ تفریق پیدا کرا کے وہاں پانچ لاکھ سنی مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کو زندہ جلانا،مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹنا کونسا جائز کام ہے اور بد قسمتی سے یہ ظلم کفار کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ہو رہا ہے اور اس کی تصدیق خود منصف یورپی صحافی جیسا کہ میری یوان ریڈلی کر چکے ہیں۔جب کہ عالم اسلام میں رواداری کی شرح خود بین الااقوامی سروے کے مطابق باقی ممالک سے زیادہ ہے۔
جہاں تک مشرق وسطی کی بات ہے وہاں مقیم ملازم حضرات سے خفیہ اور اس طرح کی کچھ زیادتیاں کی جاتی ہیں لیکن اس زیادتی سے اسلام کا انکار اور کفر کا رحم ثابت نہیں کیاجا سکتا کیونکہ جو ظلم عراق، افغانستان،کشمیر،برما،چیچنیا،مشرقی تیمور،الجزائر،لیبیا،فلسطین،شام میں مسلمانوں سے روا رکھا جارہا ہے وہ ان غیر مسلم کی مذہبی رواداری ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔جو  صحافی صاحبان   مسلمانوں کے ظلم  پہ مضمون لکھتے ہیں، ساتھ میں اگر ان ممالک کے مظلوم مسلمانوں اور عافیہ صدیقی کا تذکرہ بھی کر لیں  تو مضمون اور جاندار ہو جائے کیونکہ موازنہ تب موثر ہوتا ہے جب ایمانداری پہ مبنی ہو۔باقی ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ کافر مسلمان سے کرے یا مسلمان کافر سے اور ظلم کی سزا ظالم کو لازمی ملنی چاہئے اس سے پہلے کہ مظلوم کی آہ عرش پہ پہنچ کے ظالم کی دین و دنیا برباد کر ڈالے۔
مکمل تحریر >>

کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایلومیناتی یعنی شیطان کا پجاری ہے؟

 کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایلومیناتی یعنی شیطان کا پجاری ہے؟
یہ شبہ اس وقت تقویت پکڑ گیا جب نو منتخب امریکی صدر کی اس قسم کی تصاویر منظرِ عام پہ آئیں جنمیں وہ ایلومیناتی گروہ کے مخصوص نشان اور انداز اپنائے ہوئے تھا...
اسطرح کی کہانیاں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ گردش کرنے لگیں جن میں  ڈونلڈ ٹرمپ کے صیہونی تنظیم فری میسنز ہونے کا قیاس ظاہر کیا گیا..

ماضی میں  کئی ممالک کے سربراہان کو ایلومیناتی تنظیموں سے متعلق ہونے کی خبریں گردش کرتی رہیں
جیسے ایران کے صدر احمدی نژاد کو انگلیوں سے مخصوص نشان بنانے پہ ایلومیناتی ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا
اسی طرح ایک  خلیجی ملک کی  افواج میں ایک نشان ایلومیناتی علامت آنکھ سے مشابہ ہے
اسی طرح بعض نیوز چینلز کسی واقعے کو رپورٹ کرتے وقت کسی جگہ کو نقشے پہ دکھانے کے لئیے مخصوص تکونی آنکھ کو زوم اِن میں دکھاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ چینلز بھی دجالی میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں
پاکستان میں بھی 70کی دہائی میں فری میسنز کی سرگرمیاں عروج پہ تھیں کئی بڑے شہروں میں انکی خفیہ عبادت گاییں قائم. تھیں..
فوجی حکمران ضیاءالحق مرحوم نے فری میسنز کے خلاف سخت کارروائی کی اور تقریباً ان کا خاتمہ کر دیا
مگر اب اخبارات میں کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کہ پاکستان میں دوبارہ ان ایلومیناتی قوت نے اپنی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں..
ایلومیناتی شیطان کے پجاری کہا جاتا ہے یہ سب مفروضے  ہیں مگر صاحبِ علم لوگ ان معاملات پی گہری نظر رکھے ہیں اور  اس پہ مسلسل تحقیق کر رہے ہیں
آئییے جائزہ لیتے ہیں ایلومینیاتی دراصل ہیں کون!!!!

فری میسنز ، لا دین ملحد، دہرئییے  شیطان پرست، صیہونی، روزی کروشن، یوگی مہاراج  ایلومیناتی  شیطانی قوتوں کے پیروکار گروہ ہیں
ان گروہوں کے ارکان بظاہر ایک خدا کو مانتے کی مگر درونِ خانہ براہِ راست یا بالواسطہ شیطان کے پجاری ہیں اور اس شیطان کو بیفومت کے نام سے پکارتے ہیں
اس کی تصویر اور بت کی تخلیق بھی کرتے ہیں بظاہر خدا کا نام لیتے ہیں مگر یہ صرف عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئیے ہے
یہ مختلف فلسفیانہ تاویلات کا سہارا لے کر خدا کے بارے میں  مختلف توجیہات و نظریات پیش کرتے ہیں
کبھی خدا کو ارتقاء کا نام دیتے ہیں
کبھی وقت کو ہی خدا کے مماثل قرار دیتے ہیں تو کبھی خدا کی سائنٹیفک تعریف کرتے ہیں کہ خدا  مادے اور توانائی پر مشتمل ہے
کائنات کی تخلیق کو بِگ بینگ کا کرشمہ کہتے ہیں
خدا کو ایسے مادے سے تشکیل شدہ سمجھتے ہیں جس میں روح ذہانت اور عقل خودبخود محفوظ ہے
خدا کو انسانی ارتقاء کی معراج  قرار دیتے ہیں
اور اس معراج کو کسبی سمجھتے ہیں کہ انسان ایک خاص مقام اور ایک خاص منزل پہ پہنچ کے خدا کے درجے پہ پہنچ سکتا ہے
ان گروہوں میں مختلف درجات ہیں  عموماً ان مدارج کے حامل افراد کے مختلف فرائض ہیں
عام ارکان کو انکی اصل حقیقت سے جانکاری نہیں ہوتی
عام لوگوں کو یہ بہترین اخلاقی روایات و اقدار پی مشتمل رویہ پیش کرتے ہیں
صبر برداشت امن محبت انسانی اخوت، بھائی چارہ، آزادی مذہب سے بالا تر انسانیت، سائنسی ترقی، انسانی ارتقاء، تہزیب ، گلوبل ثقافت ،  انٹریکشن مابین اقومِ عالم وغیرہ وغیرہ یہ اصطلاحات انکے ہتھیار ہیں
ان گروپس کے ارکان عام طور پہ اپنی سرگرمیاں خفیہ رکھتے ہیں
شروعات میں اپنے اپنے مذہب کی مقدس کتابوں اور پیغمبروں کے نام پہ حلف لیتے ہیں کہ وہ تنظیمی معاملات میں حد درجہ رازداری برتیں گے حتیٰ کہ اپنی اولاد سے بھی چھپائیں گے
نئے ارکان کی  اسطرح سے برین واشنگ کی جاتی ہے کہ اسے علم بھی نہیں  ہوتا اور وہ دھیرے دھیرے مذہب سے برگشتہ ہوتا چلا جاتا الحاد اور دہریت کی طرف چل نکلتا ہے
یہی ارکان جب اس فرقےکی  تعلمیات و افکار پہ ایمان لے آتے ہیں تب وہ آخری مدارج پہ پہنچ کے واضح طور پہ شیطان کے پجاری بن جاتے ہیں
اعلیٰ درجے پہ پہنچنے والے افراد خفیہ عبادت گاہوں میں سفلی عملیات کے ذریعے خود کو پرسرار قوتوں کا حامل بنا لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک پروسیجر اپنا کہ اپنے جسم میں  شیطان کو حلول کر لیتے ہیں اور اس سے رہنمائی لے کر اپنی پالیسیاں بناتے ہیں
یہ لوگ اپنی شناخت چھپاتے ہیں  مگر آپس میں  مختلف کوڈ ورڈز اور پرسرار اشاراتی زبان میں  گفتگو کرتے ہیں
اسکے لئیے یہ مختلف علامات  جیسے انگلیوں کو ایک خاص طریقے سے بائینٍڈ کر کے مخصوص نشان بنانا استعمال کرتے ہیں
ان گروہوں کی چند شناختی علامات بھی ہیں جیسے
ڈیوڈ سٹار(چھ نوک والا ستارہ)اور تکون  اہرام نما عمارت ایک آنکھ اور چند جانور جیسے الو اور کتا وغیرہ
انکا مقصد دنیا پہ حکومت کرنا اور شیطانی نظام نافذ کرنا ہے اس سلسلے میں یہ سائنسی ایجادات سے بھر ہور استفادہ کرتے ہیں انٹرنیٹ سوشل میڈیا اور مختلف تفریحی ویب سائٹس کے ذریعے یہ دنیا کے تمام لوگوں کی دلچسیاں انکے مزاج مذہبی نفسیاتی رحجان کے متعلق معلومات جمع کرتے ہیں ...تاکہ بوقتِ ضرورت ان معلومات کو اہنے مقصد کی تکمیل میں استعمال کیا جا سکے...
گرچہ انکے متعلق مبالغے سے کام لیا جاتا ہے اور
عموماً لوگ ان چیزوں کو لا یعنی اور من گھڑت اور توہم پرستی سے تعبیر کرتے ہیں
مگر اس حقیقت کو  جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا اس میں  سچائی ضرور ہے
مکمل تحریر >>

جزیہ اور اسکے احکامات

سوال
جزیہ کیا ہے؟
جواب ؛
یہ ایک فارسی لفظ "گزیہ"کا عربی روپ ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے دفاعی ٹیکس، ہر زمانہ میں فاتح قومیں مفتوح قوموں سے تاوان جنگ جزیہ اور دوسرے ناموں سے لوٹ کھسوٹ کرتی رہی ہیں، اپنے زیر حکومت آباد دوسری قوموں کے لوگوں پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرتی رہی ہیں، اسلام نے ہمیشہ اپنی حکومت کے ذمہ داروں کو ظلم و ستم سے باز رہنے کی ہدایت، تاکید کی ہے اس نے زیر اقتدار علاقوں میں آباد غیر مسلموں پر ان کے دفاع اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک معمولی ٹیکس جزیہ کے نام پر لگایا ہے جو ان کے ماتحتی قبول کر لینے کی محض ایک علامت ہوتا ہے جو غیر مسلم کسی اسلامی حکومت سے لڑ کر شکست کھا جائیں اور پھر اسلامی حکومت کے شہری بننا قبول کر لیں، ان سے یہ ٹیکس لیا جاتا ہے.

سوال:
صرف غیر مسلموں سے ہی کیوں جزیہ لیا جاتا ہے؟
جواب:
کیونکہ ایک اسلامی حکومت میں غیر مسلموں پر فوجی ذمہ داریاں نہیں ڈالی جاتیں، اسلامی حکومت انہیں مجبور نہیں کرتی کہ مختلف نظریات رکھتے ہوئے بھی وہ اسلامی حکومت کے عقیدے اور نظریہ کا بار اٹھائیں. یہ ذمہ داری وہ صرف مسلمانوں پر ڈالتی ہے کہ وہ ریاست کا تحفظ کریں. ریاست کے عوام کا تحفظ کریں، اس ذمہ داری میں غیر مسلموں کے مذہب، عبارت گاہیں، عزت، آبرو، جان اور مال کا تحفظ بھی شامل ہے.
سوال:
کیا مسلمانوں سے بھی کوئی رقم وصول کی جاتی ہے؟
جواب:
ان سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے جس کی رقم جزیہ سے بہت زیادہ ہوتی ،مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود فوجی خدمات بھی پیش کرنا ہوتی ہیں. اس لئے مسلمانوں پر ٹیکس بھی زیادہ ہوا اور فوجی خدمت سے بھی انہیں مستثنٰی نہیں کیا گیا.

سوال:
کیا جزیہ اسلامی حکومت کے ہر غیر مسلم شہری پر عائد ہوتا ہے؟
جواب:
نہیں! جن غير مسلموں سے معاہدہ ہو گیا ہو، ان پر جزیہ نہیں ہے، جو غیر مسلم جزیہ دینا پسند نہ کرتے ہوں، وہ کوئی اور صورت اپنا سکتے ہیں.
سوال:
اگر اسلامی حکومت غیر مسلموں کا تحفظ کرنے کی اہل نہ رہے تو کیا اسے جزیہ کی یہ رقم واپس کرنی ہوگی؟
11/13/16, 2:28 PM - Soldier of peace: جواب:
یقیناً یہ رقم اس سے واپس لی جا سکے گی.
سوال:
اگر غیر مسلم اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونا چاہیں تو کیا انہیں یہ موقع دیا جائے گا اور ایسی شکل میں کیا جزیہ ختم ہو جائے گا؟
جواب:
انہیں اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا اور ایسی صورت میں ان سے جزیہ کی رقم نہیں لی جائے گی.
سوال:
کیا جزیہ مذہبی بنیاد پر امتیاز ظاہر نہیں کرتا؟ کیا یہ غیر مسلموں سے اسلام قبول کروانے کی کوشش نہیں ہے؟
جواب:
نہیں! کیونکہ جزیہ غیر مسلموں کے مذہبی لوگوں، سادھوؤں، سنتوں اور پادریوں وغیرہ پر سرے سے عائد ہی نہیں ہوتا. وہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور معذوروں پر بھی عائد نہیں ہوتا. وہ صرف خدمت کے قابل ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جنہیں اسلامی فوج میں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتے.
سوال:
کیا ہر غیر مسلم جوان کو جزیہ دینا ہوتا ہے اور کیا جزیہ کی شرح سب کے لیے یکساں ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں! جزیہ کی رقم ہر ایک کی اقتصادی حالت سامنے رکھ کر طے کی جاتی ہے، اور صرف
ضرورت سے زائد آمدنی میں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے. بالکل نادار غیر مسلم نوجوانوں کے لئے سرے سے جزیہ معاف ہوتا ہے بلکہ ان کو اسلامی بیت المال سے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے.
سوال:
کیا جزیہ دینے والے غیر مسلموں کے دھرم میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی؟
جواب:
قطعاً نہیں.
سوال:
کیا ان کے حقوق اور فرائض اور ان کا شہری درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے؟
جواب:
یقیناً ان کے شہری حقوق اور درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے.
سوال:
تو کیا یہ کوئی عام اسلامی حکم نہیں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جزیہ کا مطلب مذہبی اختلاف کی بنا پر غیر مسلموں کی توہین ہے؟
جواب:
اگر یہ کوئی عام اسلامی حکم ہے تو بتائیے دنیا میں آج کس اسلامی ملک میں کس غیر مسلم سے جزیہ لیا جا رہا ہے؟ اسلام کے خلاف اس طرح کی جو بے سروپا اور جھوٹی باتیں کہی پھیلائی جاتی ہیں، ان کے پیچھے کچھ دوسرے مقاصد کار فرما ہوتے ہیں
مکمل تحریر >>

علامات قیامت فحاشى كا عام هونا

علامات قیامت
فحاشى كا عام هونا

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَظْهَرَ الْفُحْشُ
رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم نے فرمایا:
اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى الله عليه وسلم كى جان هے _ قيامت اس وقت تك قائم نهيں هوگى جب تك فحاشى عام نا هو جائے
مستدرك حاكم: 253

آج فحاشی و عریانی کا سیلاب کس طرح امڈ آیا ہے ہم سے ہر کوئی اپنی آنکھوں سے اسکا مشاہدہ کر رہا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گھر کے مرد بھی دیوث { بیغیرت} ہوگئے ہیں گو کہ یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہی ہے کر مرد دیوث { بیغیرت} ہوجائے گا، اسکی ماں بہن بیوی بیٹی بے حیائی کا ارتکاب کرتی پھرتی ہے اتنے چست اور بیہودہ کپڑے کے دیکھنے والا شرما جائے لیکن انکو پہننے میں غیرت نہیں آتی اور اس مرد میں اتنی غیرت نہیں ہوتی کہ وہ انہیں روک پائے، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بھی وہی سب دوسری عورتوں میں دیکھنے کا شوقین ہوتا ہے جو اسکی گھر کی عورتیں دوسروں کا دیکھا رہی ہوتی ہیں،
بائیکوں اور رکشوں پر بیٹھنے کا اسٹائل بھی کم بیہودہ نہیں ہوتا، پھر اسکے ساتھ ساتھ کریم، اوبر اور بائیکیا والوں کی بائیک سواری جس میں لڑکیاں نا محرموں کیساتھ آزادانہ سفر کرتی ہیں اور اس بے حیائی کو مشتہر کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیرت ستو پی کر سو رہی ہے
اگر آپ اسلام کے نفاذ کے لئے کوئی بینر لگائیں تو فورا کرائم ونگ حرکت میں آجاتا ہے، لیکن کریم والوں کا دعوت گناہ پر لگا بل بورڈ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نظروں سے اوجھل ہے
اسکے ساتھ ساتھ پہلے مخلوط سفر کا مسئلہ صرف پنجاب میں تھا کراچی اس سے پاک تھا لیکن جب سے چنگچی رکشوں کی آمد ہوئی ہے تب سے یہ وباء کراچی میں بھی پھیل گئی ہے چنگچی رکشوں میں لڑکے لڑکیوں کو ایک ساتھ بیٹھایا جاتا ہے اورسیٹوں میں فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ٹانگوں کا آپس میں ٹکرانا لازمی ہے
ارباب اختیار اور عوام کو اسکی طرف بھی توجہ دینا چاہئے

اسرار احمد صدیقی

مکمل تحریر >>