Thursday 26 April 2018

ملحدین کا اعتراض کہ اسلام کا عربی کلچر کیوں اپنائیں۔

ملحدین کا اعتراض کہ اسلام کا عربی کلچر کیوں اپنائیں۔
اسکا جواب۔

مسلمان کا کسی عربی عجمی ، ایشیائی یا یورپی کلچر سے کوئی واسطہ نہیں ، بلکہ اسلام تو کلچر کی دین میں آمیزش کی گنجائش ہی نہیں رکھتا ، مثلاً دین کا تقاضا ہے کہ جسم جس کھلے حصے کو چھپانا یا ڈھانپنا فرض ہے وہ آپ کسی بھی طرز کے کپڑے سے ڈھانپ سکتے ہیں ، سود حرام ہے تو آپ کسی بھی معاشرے کا حصہ ہیں سود حرام ہے رہے گا ، اسی طرح سوز و سرور کے آلات بجانا ،شراب ، بغیر نکاح کے کسی عورت سے ہم بستری حرام اور گناہ ہیں تو آپ کسی بھی معاشرے یا خطے میں ہوں گناہ اور حرام ہی ہوگا ،اسی طرح ذندگی کے دیگر معاملات میں اسلام اپنا الگ اور جدیدنظریہ رکھتا ہے ، جب آپ عبوں کے کلچر کی بات کرتے ہیں تو انکا کلچر تو اسلام کے اصولوں کے برعکس تھا۔لہذا اسلام نے کسی خاص کلچر کی تعلیم نہیں دی نہ ہی اسلام کسی کلچر کا پابند ہے۔اسلام صرف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہر وہ چیز اپنا لی جائے جو اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہے خواہ وہ کسی بھی کلچر کی ہے اور ہر وہ چیز چھوڑ دی جائے جو اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے خواہ وہ عربی کلچر کی ہی کیوں نہیں ہے۔اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔اب ایسے مذہب پر جو تمام کلچرز کی ناجائز روایات کا خاتمہ کر کے صرف اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیتا ہے تو ایسے مذہب پر اعتراض کم علمی و کم عقلی کی دلیل ہے اور کچھ نہیں۔
مکمل تحریر >>

ایک ملحد کا کہنا ہے کہ انسان کو وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے ننگا رہنا چاہیے اور عورتوں کو برقعہ اتار دینا چاہیے کیونکہ اس سے جسم پر سورج کی روشنی نہ پڑنے سے وٹامن ڈی نہیں بنتا۔


ایک ملحد کا کہنا ہے کہ انسان کو وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے ننگا رہنا چاہیے اور عورتوں کو برقعہ اتار دینا چاہیے کیونکہ اس سے جسم پر سورج کی روشنی نہ پڑنے سے وٹامن ڈی نہیں بنتا۔
بسم اللٰہ الرحمن الرحیم
ملحد کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے برقعہ اتارنا اور جسم کو ننگا کرنا لازمی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ حقیقت میں سائنسی طور پر اس وٹامن کی کتنی اہمیت ہے اور کیا واقعی اسکی کمی پوری کرنے کے لیے کپڑے اتار دینا لازمی ہے؟اگر یہ وٹامن اتنا ہی اہم ہے تو بیچارے قطبین کے لوگ جہاں طح مہینے رات رہتی ہے موسم انتہائ  درد ہے کپڑے اتارنا تو دور کی بات جرسی تک نہیں اتاری جا سکتی اور سردی کے علاوہ باقی دنوں میں جو دھوپ نکلتی ہے وہ بھی واجبی سی نکلتی ہے تو پھر اتنے اہم وٹامن کی کمی اور مناسب سورج کی روشنی حاصل نہ کر پانے پر ان لوگوں کو تو مر جانا چاہیے کیوں کہ اتنا اہم وٹامن ہے اور اسلام جیسےبقول ملحدین کے "قدامت پسند"مذہب نے اپنے ماننے والوں کو اس وٹامن سے محروم کر رکھا ہے۔اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ اس وٹامن کی کمی پوری کرنے کے لیے نہ ہی ہر وقت دھوپ میں رہنا ضروری ہے اور نہ ہی سارے کپڑے اتارنا۔یہ بات خود سائنسی ذرائع کہتے ہیں۔سائنسی ذرائع کے مطابق وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے روزانہ صرف پندرہ سے بیس منٹ دھوپ میں رہنا کافی ہے جس میں جسم کا چالیس فیصد حصہ براہ راست سورج کی روشنی کی زد میں ہو۔اب یہ چالیس فیصد حصہ ایک مسلمان خاتون اپنے گھر میں پردے میں بیٹھ کر گھٹنے سے نیچے اور کہنیوں تک بازو اور چہرہ کھول کر بغیر کسی غیر مرد کے سامنے جائے کر سکتی ہے۔وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کی کسی سائنسی وضاحت میں نہیں لکھا کہ سارے کپڑے اتار ڈالو۔جہاں تک بات ہے برقعے کی تو وہ مسلم خواتین صرف تب اوڑھتی ہیں جب وہ باہر جاتی ہیں،ہمیشہ نہیں۔جب وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے پورا جسم ننگا کرنا ضروری ہی نہیں اور دھوپ بھی صرف پندرہ سے بیس منٹ لگوانی ہے اور برقعہ بھی صرف خاص حالات میں پہنا جاتا ہے تو پردے پر اعتراض کہاں کی سائنسی عقلمندی ہے۔اگرپردہ کرنے کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوسکتی ہے تو پھر یہ کمی تو دفاتر میں کام کرنے والے لوگوں میں زیادہ ہو جو صبح سے دوپہر تک کا وہ وقت دفتر میں گزارتے ہیں جب وٹامن ڈی بنانے والی سورج کی الٹرا وائلٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں میسر ہوتی ہیں۔اس کا مطلب پھر دفاتر کے لوگ جو بند کمروں میں بیٹھ کے سالوں سے کام کر رہے ہیں سورج کی روشنی سے دور وہ بھی مر جائیں یا وٹامن ڈی حیسا "اہم"وٹامن جس کے حصول کے لیے ننگا ہونا اور برقعہ اتار دینا لازمی ہے بقول ملحد کے،تو پھر وہ سب دفتری کام چھوڑ کر ننگے ہوکر جا کر دھوپ میں بیٹھ جائیں۔یہ احمقانہ منطق پیش کی ہے اس ملحد نے جس کا مقصد صرف اور صرف اسلامی پردے کا مذاق اڑانا ہے۔
سیاہ رنگت کے لوگ جن کی جلد میںMelanin pigment پایا جاتا ہے ان میں سورج کی روشنی اچھی طرح جذب نہیں ہوسکتی۔اس کا مطلب ہے کہ پھر وہ اپنی سیاہ کھال کسی قصائی سے اتر وادیں۔سائنس کے مطابق بند گھر جس میں روشنی کا داخلہ نہ ہو وہ بھی ان الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی شعاعیں کا راستہ روکتے ہیں۔پھر اگر یہ کمی پوری کرنے کے لیے پردہ اتار دینا لازمی ہے تو کیا انسان اپنے گھر بھی گرا دیں؟جب کہ ایسا نہیں ہے۔محض پندرہ سے بیس منٹ دھوپ روزانہ جسم کے چالیس فیصد حصہ پر کافی ہے۔اس کے لیے ہمیشہ کا ننگا ہونا اور پردہ اتار دینا ضروری نہیں ہے۔
گیارہ یورپی ممالک میںEuronut Seneca Study جو کہ وٹامن ڈی کی کمی پر کی گئی،اس میں پتہ چلا کہ 47% عورتوں اور چھتیس فیصد مردوں میں وٹامن ڈی کی سطح نارمل سے کم تھی۔اب یورپی خواتین کونساپردہ کرتی ہیں جو ان میں اس وٹامن کی کمی ہوگئ۔
سعودیہ عرب کے شہر جدہ میں 1172خواتین پر تحقیق کی گئ جس میں سے اسی فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی تھی اور یہ کمی پردہ کرنے والی اور اپنے ہاتھ بازو چہرہ کھلے رکھنے والی عورتوں میں برابر تھی۔اب اگر پردہ ہی اس کی وجہ ہے تو یہ کمی تحقیق میں شامل خواتین کے دونوں گروہوں میں کیوں برابر تھی۔بعد میں اس تحقیق سے یہ اخذ کیا گیا کہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجوہات صرف سورج کی روشنی کی کمی نہیں بلکہ خواراک میں موجود وٹامن ڈی کی کم مقدار اور موٹاپا بھی ہیں۔
وٹامن ڈی کی کمی چین اور منگولیا میں بھی بہت زیادہ ہے۔وہاں کی خواتین کونسا پردہ کرتی ہیں۔وسطی چین کے شہرLinixian کی 25% آبادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار تھی اور ان میں وٹامن ڈی کی کمی سے ہونے والی ہڈیوں کی بیماری سوکھا پن یاRickets بھی بہت زیادہ تھی جب کہ وہاں کوئ پردہ نہیں کیا جاتا۔جب کہ اس وٹامن کی کمی جاپان میں کم ہے اور تحقیق کے مطابق اس کی وجہ وہاں مچھلی کا کثرت سے استعمال ہے۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کے لیے کپڑے اور نقاب اتارنا لازمی نہیں بلکہ گردے،موٹاپے کے امراض سے بچاؤ اور اچھی خوراک لازمی ہیں۔
کینیڈا میں ہونے والی تحقیق کے مطابق  دودھ کا استعمال اس وٹامن کی کمی کو روکتا ہے۔یہ تحقیق چھ سے اناسی سال کے 5306افراد پر کی گئی۔بحر الکاہل کے جزائر  میں بھی یہی دیکھا گیا کہ یہ کمی خواتین میں زیادہ ہے۔یہ وہاں کے اعدادوشمار میں جہاں صرف واجبی قسم کا لباس پہنا جاتا ہے۔اگر صرف کپڑے اور نقاب اتارکر اس کی کمی پوری ہوتی تو یہ اعدادوشمار کونسی کمی ظاہر کر رہے ہیں۔
ترکی میں ہونے والی تحقیق میں مردوں اور عورتوں میں وٹامن ڈی کی سطح میں کوئ  فرق نہیں دیکھا گیا جب کہ وہاں پورے کپڑے پہننے اور عبایا کا رواج ہے۔
یہ تھی تحقیقات جب کہ صرف کچھ تحقیقات چند فیصد کا فرق بتاتی ہیں پردہ کرنے والی خواتین میں جس کو پھر کینیڈا اور جاپان کی تحقیقات کے مطابق مچھلی اور مناسب مقدار میں دودھ کے استعمال سے پورا کیا جا سکتا ہے۔
اور بات یہ کہ وٹامن ڈی کی کمی خط استوا کے گرم علاقوں جیسا کہ سنگا پور میں بھی دیکھی گئ ہے جہاں سارا سال سورج کی روشنی وسیع مقدار میں میسر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک صرف سورج کی روشنی اکیلی ہی  وٹامن ڈی کی بڑی اور اہم وجہ نہیں۔یہ پڑھیں
The high prevalence of vitamin D deficiency in a sunny tropical region reinforces the need to recognize that sunlight alone is not the precursor for optimal vitamin D status.
اس مطالعے میں بھی وٹامن ڈی کی کمی خواتین میں زیادہ دیکھی گئ۔جب کہ یہ تحقیق ہالینڈ کی ہے جہاں پردے کا رواج نہیں۔
Gender
-
related vitamin D deficiency in a Dutch post
-
Medieval farming community

Veselka, Barbara
1
, Hoogland, Menno L.P.
1
and Waters
-
Rist, Andrea L.
1

1.
Human Osteoarchaeology Laboratory, Faculty of Archaeology, Leiden University, the Netherlands.

The most common cause of vitamin D deficiency is inadequate sunlight
-
based dermal synthesis. In subadults this conditions is called rickets, in adults osteomalacia. In Beemster, a post
-
Medieval rural community in the Netherlands, rickets was present in 30.4% of the subadults under the age of four years (n=71). This research explores vitamin D deficiency in adults from Beemster with a multidisciplinary approach including macroscopic, radiological and microscopic analyses. Fourteen out of twenty two cases of residual rickets in the Beemster adults (n=200) are females, providing information on gender
-
related risk of developing rickets.
دنیا میں ایک بلین یعنی ایک ارب انسان وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں جن میں سے تقریبا  آدھے  مرد ہیں۔اب مرد کونسا پردہ کرتے ہیں جو ان میں جسم پر دھوپ نہ پڑنے کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی ہوگئ۔
اس سے بہتر ایک اور تحقیق ہے جو کراچی میں ہوئ۔اس میں 300افرد پر تحقیق کی گئ جس میں سے 194مرد تھے۔لیکن جب وٹامن ڈی کی کمی کا مردوں اور عورتوں سے موازنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ الٹا یہ کمی مردوں میں زیادہ تھی۔اب مرد کونسا پردہ تھے جو ان میں وٹامن ڈی کی کمی ہوگئ۔یی پڑھیں
Eighty six percent of the men and 82% of the females were found to have serum 25(OH) vitamin D levels less than the 30 ng/dL cut off for vitamin D sufficiency.
یہ ساری گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کاپردہ کرنے سے کوئ تعلق نہیں۔اس کمی کی شرح مردوں میں عورتوں سے زیادہ ہوسکتی ہے جب کہ مرد تو دنیا میں کہیں بھی نقاب کر کے یا عبایا اوڑھ کر باہر نہیں نکلتے۔ دانیال تیموری نے سائنسی جہالت کا مظاہرہ کیا ہے اور اسلام دشمنی میں سائنسی حقائق بھی بھول گیا۔
مضمون کے حوالہ جات۔۔
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3311638/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4723156/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3068797/
http://www.jarcp.com/703-the-global-epidemiology-of-vitamin-d-status.html
http://www.archivesofrheumatology.org/full-text/548
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4723156/
https://www.hindawi.com/journals/bri/2016/8920503/
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن

مکمل تحریر >>

ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)

  
 ایک ملحد کا قرآن پر اعتراض(سلسلہ اعتراضات اور ان کے جوابات)
//////////////////////////////////////////////////////////////
سوره نساء - آیت نمبر 43 (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے)
**** کیا اس آیت کے مفہوم کے مطابق کوئی شک ہے کہ( نعوذ بااللہ) الله کو شراب کی مقدار سے کوئی غرض نہیں بس صرف یہ منشاء ہے کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ - اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اگر شراب پینے کی وجہ سے انسان نشے میں زیادہ ہو اور جب نشہ ہلکا ہو جاے اور اسکو اس بات کی سمجھ لگنی شروع ہو جاے جو وہ کہتا ہے تو پھر وہ نماز پڑھ سکتا ہے...
/////جواب / / / / / //////// يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَ‌بُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَ‌ىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِ‌ي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْ‌ضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ‌ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورً‌ا ﴿٤٣﴾
اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ (١) جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کر لو (٢) ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے (٣) اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو (٤) بیشک اللہ تعالٰی معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔
٤٣۔١ یہ حکم اس وقت دیا گیا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو۔ گویا اسوقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروطہ ہے)جامع الترمذي: أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ) جامع ترمذی: كتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں (باب: سورہ نساء کی تفسیر)
3026 . حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنْ الْخَمْرِ فَأَخَذَتْ الْخَمْرُ مِنَّا وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَقَدَّمُونِي فَقَرَأْتُ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ
حکم : صحیح 3026 . علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں: عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران صلاۃ کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ} (اے نبی! کہہ دیجئے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے آیت {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَاتَقُولُونَ} ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ۔یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت بہت ضروری ہے۔دوسرے یہ بات معلوم ہوا کہ نشہ کی حالت بھ نیند غشی کی طرح ایک غشی ہوتی ہےلہذاانسان کو یہ معلوم رہنا مشکل ہے کہ آیااس کا وضو بھی بحال ہے یاٹوٹ چکاہے۔غالبا اسی نسبت سے یہاں طہارت کےاحکام بیان ہورہے ہیں
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت تب کی ہے جب شراب کی حرمت یعنی حرام ہونا نازل نہیں ہوئ تھی۔نماز متاثر ہونے کے ڈر سے منع کر دیا گیا۔جب کہ بعدمیں شراب کو مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔اور اب شراب تھوڑی مقدار میں پی جائے یا زیادہ مقدار میں،مکمل طور پر حرام ہے۔
ملحد نے اپنی جہالت یا تعصب کی وجہ سے بعد میں نازل ہونے والی شراب کے حرام ہونے کےحکم کا تذکرہ کیے بغیر ایک اعتراض داغ دیا جس کی کوئ وجہ نہیں بنتی۔واضح رہے کہ ایسے اعتراض عام اور سادہ لوگوں کو شکوک و شبہات میں ڈالنے اور اسلام سے ہٹانے کے لئے ہوتے ہیں۔قرآن مجید کی تفسیر اور احادیث و عربی لغت سے واقفیت اور علماء کی صحبت میں رہ کر ان اعتراضات اور شکوک و شبہات سے بچا جا سکتا ہے۔
ملحدین بیغرتین ٹیم

مکمل تحریر >>

ملحدین کا قرآن کی آیت پر اعتراض اور اسکا جواب

ملحدین کا قرآن کی آیت پر اعتراض اور اسکا جواب

سوره عنکبوت - آیت نمبر 3
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کرلے گا جو جھوٹے ہیں)
گا ، گی ، گے کا صیغہ مستقبل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس واقعہ کی طرف منسوب ہوتا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہ ہوا ہو ... اوپر والی آیت میں الله خود فرما رہا ہے کہ وہ ..... جان لیں گے...
یعنی (نعوذ بااللہ) تسلیم کر رہا ہے کہ اس نے ابھی جانا نہیں .... اور یہ لاعلمی پر دلالت کرتا ہے(نعوذ بااللہ) ..
کیا اللٰہ تعالٰی کو پہلے ان لوگوں کاپتہ نہیں تھا کہ وہ کیسے ہیں؟(نعوذ بااللہ)۔اگرپہلے سے پتہ تھا تو پھر آزمانے کا کیا مطلب ہے
جواب
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ﴿٣﴾
ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالٰی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں۔ (۱)
٣۔١ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالٰی ان کی مدد فرمائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔
فلیعلمن سے مراد ان گمراہ فرقہ ہے۔جس نے یہ عقیدہ اخذ کیا جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے۔خدا کو اس کا علم ہوتا جاتاہے۔اور اس عقیدے کو وہ لوگ اپنی اصلاح میں بدا کہتے ہیں۔حالانکہ بے شمار آیات سے معلوم ہوتاہے۔کہ کائنات اور اس میں ظہور پزیر ہونے والے تمام واقعات کا علم بھی اس ذات کی طرح ازلی بلندی ہے۔اور اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات سےجو اللہ تعالی کے حدثعلم کا وہم پیدا ہوتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے۔ماضی۔حال ۔مستقبل کی تقسیم صرف ،ہم انسانوں کے لیے ہےاللہ تعلی کے لیے زمانے کی یہ تقسیم کوئی چیز نہیں۔کیونکہ ہر واقعہ خواہ وہ ہمارے ماضی سے تعلق رکھتا ہویا حال یا مستقبل سےاس کے لیے غیب نہیں بلکہ شہادت ہی شہادت ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے مستقبل کی خبروں کو بے شمار مقامات پرزمانہ ماضی کے صیغہ میں زکر فرمایا۔جیسے(ونادی اصحب الجنھ اصحب النار)(44:7)اور (واذالشمس کورت)(1:81) لیکن یہ ایسے واقعات کے متعلق ہوتا ہے۔جو انسان کے تجربہ و مشاہدہ میں نہ آسکتے ہوں۔اور جو انسانوں کے تجربہ اور مشاہدہ میں آسکتے ہوں۔تو ان کا تعلق حال اور مستقبل سے ہوگا۔لہذااللہ تعالی نے یہاں مضارع کا صیغہ استعمال فرمایا ہے۔اور اس کا مطلب صرف ہی نہیں ہاتاکہ میں جان لیں یا معلوم کرلیں۔بلکہ یہ بھی ہوتا ہے۔کہ تم جان لوجیساکہ اس مقام پر یا اور بھیکئی مقامات پرایسا انداز اختیار کیا گیاہے۔
حوالہ:احسن البیان۔تیسیرالقران۔
مکمل تحریر >>

کیا خدا کی ذات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے؟

کیا خدا کی ذات کا کوئی سائنسی ثبوت موجود ہے؟
سائنسی طریقہ کار دو باتوں پر یقین رکھتا ہے مشاہدہ اور تجربہ. مشاہدہ کسی چیز کا براہ راست دیکھنا.  لیکن جدید سائنس خصوصاً کوانٹم فزکس کے عروج کے بعد مشاہدہ کی تعریف میں ترمیم کی ضرورت پیش آئی ہے. اب ہم ایسی بہت سی اشیاء پر یقین رکھتے ہیں جن کا براہ راست مشاہدہ ممکن نہیں اور شاید کبھی ممکن نہ ہو. جیسے الیکڑران، پروٹان، کوارکس، بگ بینگ اور متوازی کائنات کا نظریہ. اس ترمیم کے مطابق اگر ہم کسی چیز کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے تو ہم اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے اس کی موجودگی کا یقین کر لیتے ہیں. ہم نے الیکڑران نہیں دیکھا لیکن اس کے اثرات میگنیٹک فیلڈ میں اور بجلی کے صورت میں ہمارے سامنے ہیں اس لیے ہم اس کے وجود کے قائل ہیں.
مشاہدہ کی بنیاد پر کسی شہ کی موجودگی کا یقین براہ راست استدلال کہلائے گا اسے ہمprimary rationalism کہتے ہیں اور بنا دیکھے محض اثرات کی بنیاد پر یقین بالواسطہ استدلال کہلاتا ہے جسے ہمsecondary rationalism کہتے ہیں.
جدید سائنس یعنی کوانٹم فزکس کے مطابق ہم کسی شہ کی مکمل حقیقت سے کبھی واقف نہیں ہو سکتے. آج سائنس یہ ثابت کر چکی ہے کہ کسی بھی شہ کی حرکت، حالت حتی کے وقت بھی معین نہیں ہے یہ سب اضافی ہیں اور  ہم بیک وقت ان میں سے کسی کے بارے میں یقین سے یہ دعوٰی نہیں کر سکتے کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کیا ایسا واقعی ہو رہا ہے؟ کیونکہ اگر وہ منظر جو میں دیکھ رہا ہوں کوئی دوسرا شخص جو کسی مختلف حالت میں ہے دیکھتے گا تو اس کے لیے یہ منظر شاید مختلف ظاہر ہو. اس لیے جدید سائنس میں کسی بھی سائنسی نظریہ کو تسلیم کرنے کے لیے ایک اہم شرط یہ لگائی جاتی ہے کہ یہ نظریہ ہمارے مشاہدات کی درست تفہیم کرتا ہو اور مستقبل کے بارے میں ایسے پیش گوئیاں کرتا ہو جن کی تصدیق ممکن ہو.
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ اگر ہم جدید سائنس کے اصولوں کو اپنائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی موجودگی کا نظریہ غیر سائنسی نہیں ہے. خدا قرآن میں کہتا ہے کہ اس کائنات میں، دن رات کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں. یہ نشانیاں کس کی ہیں؟ کسی ذات کی موجودگی کی نشانیاں جو عقل کل ہے. یہ کائنات، اس کی ترتیب، اس کا ربط سب اس بات کی نشانیاں ہیں کہ یہ نظام حادثاتی طور پر وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ کسی ذہین ذات کی تخلیق ہے. یہ بالواسطہ استدلال ہے یعنیsecondary rationalism. یہاں ہم اس کائنات کو دیکھتے ہیں، اس کے ربط کا مشاہدہ کرتے ہیں خود اپنے ذات پر غور کرتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ کائنات، اس کا ربط، انسان کا اپنا وجود اور انسان کا باشعور ہونا اور ہماری دنیا کی ہر شہ کا بامقصد ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سب کا ایک خالق حقیقی ہے اور وہ ایک واحد و یکتا خدا ہے.
کیا یہ استدلال ہمارے مشاہدات کی درست تفہیم کرتا ہے. کامن سینس کہتی ہے کہ ہاں یہ درست تفہیم ہے کیونکہ اگر ہم ایسی کسی ذات کے وجود کی نفی کرتے ہیں تو نہ صرف یہ کائنات بے مقصد ہو جاتی ہے بلکہ خود انسانی وجود اور یہ زندگی بے مقصد ہو جاتی ہے. جبکہ ہم مشاہدہ کی بنیاد پر یہ دعوٰی کر سکتے ہیں کہ ہمارے مشاہدہ میں کوئی شہ بے مقصد نہیں. اس کائنات کو، انسانی وجود کو اور اس کائنات کی ترتیب کو اگر کوئی نظریہ معنی دیتا ہے تو وہ خدا کے وجود کا اقرار ہے. اور ہم یہ پیش گوئی پورے یقین سے کر سکتے ہیں کہ اس کائنات میں ربط ہمیشہ ملے گا یہ کائنات بے ربط،  بے ہنگم نہیں ہو گی. اس میں تضاد نہیں ہو گا. اور اس بات کا اشارہ قرآن میں بھی ملتا ہے
لَوۡ  کَانَ فِیۡہِمَاۤ  اٰلِہَۃٌ  اِلَّا اللّٰہُ  لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ  رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ ﴿۲۲﴾
"اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ﴿ زمین اور آسمان﴾ دونوں کا نظام بگڑ جاتا ۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں ۔"
ہم قدم قدم پر دیکھتے ہیں کہ کائنات ہر شہ میں ربط ہے اس میں کہیں کوئی بگاڑ نہیں.
سائنسدان خود بھی اس ربط کا برملا اظہار کرتے ہیں. جیسے کہ
Physicist and author Paul Davies wrote, "The cliché that 'life is balanced on a knife-edge' is a staggering understatement in this case: no knife in the universe could have an edge that fine."
کائنات کے اس ربط کو سائنسدانfine tuning کا نام دیتے ہیں.
قرآن کائنات کے اس ربط کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے.
وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ دَآئِبَیۡنِ ۚ  وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ﴿ۚ۳۳﴾
"اور تمہاری خاطر سورج اور چاند کو اس طرح کام پر لگایا کہ وہ مسلسل سفر میں ہیں ، اور تمہاری خاطر رات اور دن کو بھی کام پر لگایا ۔"
قرآن ہمیں کائنات کی اس ترتیب پر غور کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ مظاہر فطرت کو نشانیاں کہتا ہے جنھیں دیکھ کر اہل عقل اس کی ذات کا ادراک کر سکیں.

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ  بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ  ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ  یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾
"بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں ، رات دن کے لگاتار آنے جانے میں ، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لیکر سمندر میں تیرتی ہیں ، اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ‎‏ّذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں ، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ( ١٠٥)"

نہ صرف کائنات میں ربط ہے بلکہ ہم قرآن کی روشنی میں یقین کے ساتھ یہ دعوٰی بھی کر سکتے ہیں کہ اس سارے نظام کی ایک ابتداء تھی اور اس کا ایک اختتام بھی ہو گا. یہ دونوں نظریات جدید سائنس تسلیم کر چکی ہے.
وَ تَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا ﴿ۙ۹۹﴾
"اور اس دن ہم ان کی یہ حالت کردیں گے کہ وہ موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ، ( ٥١) اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو ایک ساتھ جمع کرلیں گے ۔"
اور دوسری جگہ اس طرح فرمایا.
اِقۡتَرَبَتِ السَّاعَۃُ  وَ انۡشَقَّ  الۡقَمَرُ ﴿۱﴾
قیامت قریب آلگی ہے اور چاند پھٹ گیا ہے ۔ ( ١)
یہ وہ دعوی ہیں جو مستقبل میں قابل مشاہدہ ہیں اور جدید سائنس ان کے درست ہونے  کو آج ہی تسلیم کرتی ہے.
جس طرح ہم جدید سائنس میں ارتقاء،  بگ بینگ،  اور الیکڑران یا اس طرح کے دوسرے ذرات و نظریات کوsecondary rationalism بالواسطہ طور پر مانتے ہیں یہی طریقہ کار خدا کے وجود کے دلائل کے طور پر بآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ عین سائنسی اصولوں کے مطابق ہو گا.
ہاں اگر  کوئی ایسا شخص جو جدید سائنس پر یقین رکھتا ہو اور  پھر بھی اصرار کرے کہ اسے خدا ہر صورت دکھائی دے تو اس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ الیکڑران و پروٹان و بگ بینگ،  ارتقاء اور دوسرے مشہور سائنسی نظریات کا ہمیں براہ راست مشاہدہ کروا دے.  اگر وہ بنا براہ راست مشاہدے کے ان اشیاء اور نظریات کو درست تسلیم کرتا ہے تو خدا کی ذات پر اعتراض کا کوئی سائنسی جواز اس کے پاس موجود نہیں
مکمل تحریر >>

Jewish Sites with Islamic names.

Jewish Sites with Islamic names.

JEWS have intentionally developed some websites to spread wrong information about Quran and Hadith, so plz seriously beware of the following websites & inform everyone:

🚫www.answering-islam.org
🚫www.aboutislam.com
🚫www.thequran.com
🚫www.Allahassurance.com

SEND this msg to as many Muslims as possible.
If U don't spread it, Muslims around the world could get wrong information about Islam.
Forward this message  as much as you can..
AlhamduLillah,
These websites are blocked in Saudi Arabia n UAE.
مکمل تحریر >>

ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر


ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر

مسلم ممالک پر ملحد سوویت یونین کی یلغاراور عبرت ناک ظلم اور سفاکی
.....................................
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ!
[اسلام کو مٹانے کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں باطل اور شیطانی قوتیں اپنی طاقت اور اپنے حربے آزماتی آئی ہیں۔ ماضی قریب میں سوویت یونین کے نام سے روس نے اسلام کے علمی و فقہی مراکز بخارا و سمرقند وغیرہ پر جس طرح یلغار کی اور وہاں سے اسلام اور شعائر اسلام کا نام و نشان تک مٹا دیا، یہ داستان عبرت ناک بھی ہے اور درد ناک بھی۔حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب (یہ تیرے پراسرار بندے)میں تفصیل کے ساتھ یہ لہو رنگ داستان بیان کی ہے اور روسیوں کے طریقہ واردات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ماضی کے پرانے اوراق سے اسے نکال کر سنّی مسلمانوں کی خدمت میں اسے پیش کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے ماضی کے آئینے میں اپنے حال کا چہرہ دیکھیں، عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی چال کو درست کریں۔ ایک ایسی تحریر جسے ایک بار نہیں، بار بار پڑھنا، اور اس کی ایک ایک سطر پر رک کر اپنی قومی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔]
روسی کمیونسٹ ان تمام علاقوں پر بھیڑیے بن کر ٹوٹ پڑے تھے اور ۱۹۲۰ء میں خیوا اور بخارا پر بھی قابض ہوگئے تھے۔ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت اور دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی، ان تمام مسلم ممالک کا رسم الخط فارسی؍ عربی تھا، اس پر پابندی لگا کر روسی رسم الخط مسلط کردیا گیا تاکہ مسلمان اپنے ماضی سے اور موجودہ عالم اسلام بھی مکمل طور پر کٹ کر رہ جائیں۔ جن مسلمانوں کو ’’اللہ‘‘ کا نام لیتے دیکھا گیا، انہیں سب سے بڑا مجرم ’’روحانی‘‘ قرار دے کر حکماً حقوق شہریت سے محروم کردیا گیا، حج پر پابندی لگا دی گئی، مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یہاں بھاری تعداد میں روسیوں کو لا کر آباد کیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کے لیے کمزور ایمان والوں کے ضمیر خریدے گئے، بیشتر مساجد و مدارس کو منہدم، یا کلبوں، گوداموں، اصطبلوں، رہائش گاہوں اور تفریح گاہوں میں بدل دیا گیا۔خال خال جو مسجدیں باقی رہ گئیں، ان میں اذانیں بند کردی گئیں، ان پر بھاری ٹیکس لگادئیے گئے، اور ان میں نماز پڑھنے والوں پر بھی ’’نمازی ٹیکس‘‘ لگایا گیا۔
جو باہمت مسلمان ٹیکس دے کر بھی مسجد آتے رہے انہیں ’’سرمایہ دار‘‘ قرار دے کر طرح طرح کی سزائیں دی گئیں۔پھر وہ یا تو شہید کردئیے گئے، یا سائبیریا کے برفانی جہنم میں، جہاں درجۂ حرارت چالیس منفی سیٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اس طرح جلا وطن کردئیے گئے کہ ان کے اہل خانہ کو کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا کیا ہوا۔۔۔ ان قیامت خیز حالات میں گنی چنی باقی ماندہ مساجد کا حال بھی اس کے سوا کیا ہوتا کہ:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
جب روسی یلغار ہوئی تو یہاں کے علمائے حق نے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اس حالت میں کہیں چھوڑ کر جانے کے بجائے آخر دم تک یہیں کفر کا مقابلہ کریں گے۔ ہزاروں مجاہدین نے ان اولوالعزم علمائے ربانی کی قیادت میں پہاڑوں میں مورچہ زن ہوکر بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک اپنی چھاپہ مار کاروائیوں سے کیمونسٹوں کا ناک میں دم کیے رکھا، ان مجاہدین کا جاسوسی نظام بھی عرصہ دراز تک کام کرتا رہا، جیسے ہی پتہ چلتا کہ آج فلاں شہر یا قصبے میں مسلمانوں پر شب خون مارا جائے گا، یا قیدی علمائے کرام کو برسرِ عام قتل کیا جائے گا، یہ وہاں بجلی بن کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے، اور بہت سوں کو جہنم رسید کرڈالتے۔
لیکن سوشلسٹ حکومت نے رفتہ رفتہ ہر علاقے میں علمائے سوء کی ایک بڑی کھیپ تیار کرلی تھی، جو کیمونسٹوں کو ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے، مسلمانوں کو نت نئے فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں لڑواتے، اور علمائے حق کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے۔
نئی نسل کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر دین اور علمائے دین سے بیزار کیا گیا، علمائے حق پر لرزہ خیز مطالم ڈھائے گئے، جو علمائے ربانی ان مظالم کا شکار ہوئے، ان کی تعداد ۱۹۴۰ء تک پچاس ہزار کو پہنچ چکی تھی۔ عوام میں سے بے شمار لوگ اپنی جان اور ایمان بچاکر افغانستان، ایران، ہندوستان، اور سعودی عرب وغیرہ کو ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ میں نے بھی ایسے کئی مہاجرین اور ان کے بیٹوں اور پوتوں سے ملاقات کی اور خود ان کی زبانی ان کی بپتا سنی ہے۔۔۔ دارالعلوم کراچی میں بھی ان کی بڑی تعداد زیرِ تعلیم ہے۔
ایک مہاجر کی بپتا:
ایک سید زادے جناب اعظم ہاشمی، جو کراچی یونیورسٹی میں غالباً استاد تھے، کبھی کبھی ہمارے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے پاس آیا کرتے تھے، اور ہم سے بھی محبت سے ملتے تھے، میری ان سے آخری ملاقات تقریباً ۱۹۷۲ء میں ہوئی تھی، جبکہ ان کی عمر ساٹھ کےلگ بھگ تھی، یہ اندجان (ازبکستان) کے ایک مشہور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
۱۹۳۱ء میں جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی، اور خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب کیمونسٹوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے، انہیں اپنی بیوہ والدہ کے اصرار پر راتوں رات ہجرت کرنی پڑی، کیمونسٹ ان کے خون کے پیاسے تھے، اور والدہ کو بھی ’’روحانی‘‘ قرار دے کر تمام حقوق شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا، عالمہ فاضلہ ماں کی مامتا نے مجبور ہوکراس لخت جگر کوئی ہمیشہ کے لیے یہ کہہ کر الوداع کردیا تھا کہ:
’’بیٹا! تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہو، مگر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت میں میری خدمت نہیں کرسکتے، میں تمہیں دین و ایمان کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کا حکم دیتی ہوں‘‘
اس رات لالٹین کی دھیمی روشنی میں انہوں نے اپنے سوئے ہوئے بے خبر چھوٹے بہن بھائیوں کا آخری دیدار کیا، بیوہ ماں انہیں ضروری نصیحتیں کرتی ہوئی گھریلو باغیچے کے کنارے تک آئیں اور آخری بار پیار کرکے رخصت کردیا۔
یہ چند ہی قدم چلے تھے کہ پیچھے سے کچھ گرنے کی آواز آئی، مڑ کر دیکھا تو ماں بے ہوش پڑی تھیں، سخت پریشانی کے عالم میں بیٹے نے پانی کے چھینٹے دے کر ان کو آواز دی ، ہوش میں آتے ہی ماں نے تلملا کر پوچھا: ’’بیٹا! تم واپس کیوں آگئے؟ خدا کے لیے اپنی منزل کھوٹی نہ کرو! فوراً روانہ ہوجاؤ!‘‘
ماں کو چارپائی تک پہنچا کر یہ یتیم بہتی آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ مہینوں اسی ’’ماوراء النہر‘‘ کے شہروں، ’’خوقند‘‘ اور ’’بخارا و سمرقند‘‘ وغیرہ میں ڈرے، سہمے دربدر پھرتے رہے، لیکن یہ سرزمین اپنی وسعتوں کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوچکی تھی، بالآخر کسی نہ کسی طرح دریائے آمو پار کیا اور ہجرت کرکے افغانستان اور وہاں سے ہندوستان آئے، پھر پاکستان بن جانے کے بعد کراچی آکر مقیم ہوگئے۔۔۔ عمر بھر ہزار جتن کیے مگر نہ ماں اور بہن بھائیوں کو دیکھ سکے، نہ یہ معلوم ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا شہید کردئیے گئے؟ کیونکہ سوویت یونین کے تمام مقبوضہ ممالک اور ریاستوں کو باہر کی دنیا سے کاٹ کر ان پر ایسا دبیز آہنی خول مڑھ دیا گیا تھا کہ اندر کی آواز باہر، اور باہر کی اندر نہیں جاسکتی تھی، ڈاک اور مواصلات کے سارے رابطے مستقل طور پر ختم کردئیے گئے تھے۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
افغانستان پہنچنے سے پہلے اس ہجرت کے سفر میں خود ان پر کیا کیا قیامتیں گذر گئیں، اور وہاں کے شہروں میں دربدر پھرتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں اور علمائے کرام پر کیسے کیسے لرزہ خیز مظالم کا مشاہدہ کیا، یہ سب کچھ انہوں نے اپنی چونکا دینے والی مختصر کتاب ’’سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت‘‘ میں بیان کردیا ہے۔یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں مکتبہ اردو ڈائجسٹ سمن آباد لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔
ان ریاستوں کی ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے، اس سے معلوم ہوگا کہ دشمن مسلمانوں کی کن کن کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اور کن کن حیلہ سازیوں سے انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوااور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہاں کی فضائیں جو صدیوں سے پانچوں وقت اذان کی دلکش صداؤں سے گونجا کرتی تھیں، ان پر مہیب خاموشی چھا گئی، جو علاقے صدیوں اسلام کے نور سے نہ صرف جگمگاتے رہے، بلکہ ان کی ضیاء پاش کرنیں دنیائے اسلام کو منور کرتی رہیں، ان پر مصائب و آلام کی وہ تاریک رات مسلط ہوگئی جس کی سحر کا انتظار کرتے کرتے وہاں کی کئی نسلیں دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔
لیکن آفریں ہے وہاں کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے ایمانِ راسخ پر، کہ کفر و ظلم کے ان اندھیاروں میں بھی انہوں نے ایمان کی شمع ایک لمحے کے لیے بجھنے نہیں دی، وہ نمازیں چھپ چھپ کر پابندی سے گھروں میں پڑھتے اور بچوں کو سکھلاتے رہے، قرآن کریم کے جو نسخے انہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر کسی طرح بچا لیے تھے، وہ عمر بھر ان کا سب سے بڑا قیمتی سرمایہ رہے، ستر سال کے اس طویل عرصے میں ان کے اوراق کتنے ہی بوسیدہ کیوں نہ ہوگئے، مگر ان کی تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ گھروں میں چھپ چھپ کر جاری رہا۔ حدیث و فقہ اور اسلامی علوم و فنون کی جو کتابیں انہوں نے کسی طرح بچا لی تھیں، ان کی بھی اپنی جان کی طرح حفاظت کی۔۔۔جو علمائے کرام کسی طرح زندہ بچ گئے تھے، انہوں نے دینی علوم کی تدریس کا سلسلہ راتوں کو خفیہ طور پر جاری رکھا۔ غرض دین و ایمان کی اس بیش بہا پونجی کو، رخصت ہونے والی ہر نسل، آنے والی نسل کے ہاتھوں میں تھماتی، اور دلوں میں اتارتی رہی۔۔۔ نتیجہ یہ ہے کہ الحمد للہ وہاں مسلمانوں کی آج بھی بھاری اکثریت ہے، علمائے کرام بھی موجود ہیں، مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز، روزہ، اور اسلامی شعائر کی پابند ہے۔۔۔
حیرت میں ڈال دینے والے یہ ایمان افروز حالات مجھے ازبکستان، تاجکستان اور قرغیزیہ کے ائمہ مساجد کے اس وفد سے معلوم ہوئے جو حال ہی میں دارالعلوم کراچی آیا تھا۔ جن آلام و مصائب کا سامنا وسط ایشیاء کے مسلمانوں کو کرنا پڑا، اور جس طرح کی قربانیاں دے کر یہاں کے مسلمانوں نے اپنے دین کی حفاظت کی، روس کے دیگر مقبوضہ ممالک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی مسلمان آج تک ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، اور دنیا کو اپنے عزم راسخ سے بتا رہے ہیں کہ:
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرّ کلیم و خلیل
روسی کیمونسٹوں کا طریقۂ واردات:
وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں اور افغانستان میں روسیوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ’’فاتحانہ‘‘ کاروائیوں کو عموماً تین مرحلوں میں ترتیب وار انجام دیا:
۱۔۔۔پہلے مرحلے میں انہوں نے غریب اور مفلوک الحال عوام کی حقیقی مشکلات و مصائب کا رونا رو کر سوشلزم اور کمیونزم کی ’’غریب پروری‘‘ کا سبز باغ دکھایا اور باور کرایا کہ ہم کارخانوں کا مالک مزدوروں کو، اور زمینوں کا مالک کاشتکاروں کو بنانا چاہتے ہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ مفلس عوام کے مصائب دور کیے جائیں، تعلیم عام کی جائے، عورتوں کے ’’حقوق کی حفاظت‘‘ اور قوموں کی ’’خود مختاری کی حفاظت‘‘ کی جائے۔ ہمیں دین و مذہب سے کوئی دشمنی نہیں، صرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ اس مرحلے میں انہوں نے مارکسی سوشلزم کو اسلامی عدل و انساف اور خلافت راشدہ سے مشابہت کے رنگ میں پیش کیا، اور یہ دھوکہ دینے کی منظم کوشش کی کہ سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس منافقانہ مسلسل کاروائی سے انہوں نے سادہ لوح غریب عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے معاشرے اور سیاست میں اپنی طاقت بنائی اور کسی حد تک دیندار اور تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی دام فریب میں پھانس لیا۔ اس مرحلے میں وہ لینن کے بتائے ہوئے اس گر پر عمل کرتے رہے کہ ’’مشرق میں مذہب کے دروازے سے آؤ‘‘
۔۔دوسرے مرحلے میں انہوں نے مسلم ریاستوں کے تعلیمی اداروں، سیاسی و نیم سیاسی تنظیموں، اخبارات و رسائل، فلموں، ادبی انجمنوں، اور شاعروں میں اپنے تربیت یافتہ مبلغین کو گھسا کر اہم عہدوں پر فائز کرادیا، یہ تعلیمی اداروں سے طلبہ کو، اور ذرائع ابلاغ سے عوام کو کبھی سوشلزم اور کمیونزم کا نام لے کر، اور کبھی نام لیے بغیر اس کی تبلیغ کرتے رہے، اور نوجوانوں کی خاصی تعداد کو ذہنی طور پر کیمونسٹ بناتے رہے۔
ڈراموں نظموں، افسانوں، اخباری کالموں اور تقریروں کے ذریعے پوری قوم کی ذہن سازی کی گئی، اس مقصد کے لئے مقامی حکمرانوں سے راہ و رسم بڑھا کر اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے گئے، ثقافتی پروگراموں کے نام پر نئی نسل کو فحاشی اور عریانی پر لگایا، جمہوریت کے نام پر عوام کو بے راہ روی، بے لگام آزادی، اور قانون شکنی پر مائل کیا، روسی رقاصائیں آنے لگیں، اخلاقی قدروں اور تہذیبی روایات کا مذاق اڑایا جانے لگا، اور انہیں ’’رجعت پسندی‘‘ کانام دے دیا گیا۔
’’اقتصادی امداد‘‘ کے نام پر مقامی حکمرانوں اور پالیسی ساز افسروں کو اللے تللے کرائے گئے اور ’’دفاعی معاہدوں‘‘ کے نام پر ان حکمرانوں کو بے وقوف بنا کر اپنا تابع فرمان بنا لیا، جب وہ اقتصادی اور دفاعی میدانوں اور سائینس و ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے اس غیر ملکی امداد پر انحصار کے عادی ہوگئے، تو ان سے قومی مقاصد، عوامی امنگوں، اور ملکی ضرورتوں کے خلاف فیصلے کرائے گئے اور دوسری طرف سے ردّ عمل کے طور پر سیاسی لیڈروں اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسایا گیا، حکمران اپنی عوام سے کٹتے اور اتنے ہی کمزور ہوتے چلے گئے۔
ساتھ ساتھ اسلامی عقائد اور دینی شعائر پر رکیک زبان درازیاں ہونے لگیں، علمائے حق کا کھل کر مذاق اڑایا جانے لگا، علمائے سوء کو ان کے مقابلے میں شہ دی گئی، اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔
ماضی کے مسلم حکمرانوں کی رنگ رلیوں کے بعض سچے، اور بہت سے من گھڑت قصے سنا سنا کر عوام کو ان کے ماضی اور دینی راہنماؤں سے بے زار کیا گیا، اور انہیں آپس میں کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر، اور کہیں لسانی، علاقائی یا نسلی عصبیتوں کی بنایاد پر طرح طرح سے لڑوا کر ملک کو بری طرح کمزور کردیا گیا۔
۳۔۔۔تیسرے مرحلے میں جب دیکھا کہ اندر کا میدان ان کی فوجوں کے لیے ہموار ہوگیا ہے، اور کسی بڑی مزاحمت کا خطرہ نہیں تو ان کے ٹینک اور لاؤ لشکر سارے وعدوں ،معاہدوں اور سبز باغوں کو روندتے ہوئے اس ملک میں داخل ہوگئے اور سب سے پہلے ان نااہل حکمرانوں کا خاتمہ کیا جنہیں بے وقوف بنا کروہ یہاں تک پہنچے تھے۔ملک پر انتہائی جابر وقاہر ڈکٹیٹر شب مسلط کردی گئی۔
یہ ڈکٹیٹر عموماً اسی ملک کے وہ ضمیر فروش سیاسی لیڈر ہوتے تھے جنہیں اس مقصد کے لیے پہلے سے تیار کیا جاتا تھا، ان کے نام تو وہی مسلمانوں کے سے تھے جو ان کے مسلم آباء و اجداد نے رکھے تھے، لیکن عقیدے کے اعتبار سے جب تک انہوں نے اپنا کٹر کیمونسٹ اور خدا کامنکر ہونا ثابت نہ کردیاانہیں یہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ کارخانوں، دوکانوں اور زمینوں پر سوشلسٹ بیوروکریسی قابض ہوگئی اور اور مفلس عوام اور مزدور و کاشتکار جنہیں سبز باغ دکھا کر یہ خونی ناٹک رچایا گیا تھا، منہ تکتے رہ گئے، ان کا افلاس بڑھتا گیا، اب بسا اوقات سوکھی روٹیوں کو بھی ترسنے لگے۔مذہبی آزادی، تنظیم سازی، سیاسی آزادی، اور پیشے کی آزادی کا خاتمہ کردیا گیا۔
جس مسجد یا مدرسے سے سوشلزم یا اس کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز اٹھنے کا اندیشہ ہوا، اس پر بلڈوزر چلادئیے گئے، جو ذرا بولااسے ہمیشہ کے لیے غائب کردیا گیااور ساری وہ داستانیں دہرائی گئیں جن کی دہشت آج بھی ترمذ، فرغانہ، بخارا اور سمرقند کے کوچے کوچے پر چھائی ہوئی ہے۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
افغانستان میں تیسرے مرحلے کا حشر:
روسیوں نے وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں کو تاراج کرنے کے فوراً بعد ہی افغانستان میں بھی اپنی واردات کا پہلا مرحلہ شروع کردیا تھا، پھر دوسرے مرحلے کا بہت بڑا کام ظاہر شاہ کے دورِ حکومت (تا ۱۹۷۲) میں ہوا۔اور اس کی تکمیل داؤد خان کے دور (تا۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء) میں ہوئی، اس وقت مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو، جو علم دین سے نابلد تھی، کیمونسٹ بنایا جاچکا تھااور وہی سرکاری تعلیمی اِداروں پر چھائے ہوئے تھے، اعلیٰ تعلیم و’’ تربیت‘‘ کے لیے چھانٹ کر ایسے نوجوانوں کو روس بھیجا جاتا تھا جو پہلے سے کیمونسٹ ہوں یا ان کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ کٹر کیمونسٹ بن کر وپس آئیں گے، ملک کے کلیدی عہدوں، سیاست اور فوج پر کیمونسٹ قابض ہوچکے تھے، اور وہ تمام کاروئیاں مکمل ہوچکی تھیں جو روسی ’’دوسرے مرحلے‘‘ میں انجام دیتے رہے ۔
تیسرے مرحلے کا آغاز ’’انقلابِ ثور‘‘ کے نام سے کیا گیا، جس کا مقصد افغانستان کو مکمل طور پر ’’بخارا اور سمرقند‘‘ بنادینا تھا، یہ انقلاب ۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء کو یہاں کی کیمونسٹ جماعت، ’’خلق پارٹی ‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر ’’نورمحمد ترکئی‘‘ نے صدر داؤد خان کو قتل کرکے اور کرسئ صدارت پر قبضہ کرکے برپا کیا تھا۔۔۔
روس کا خیال تھا کہ افغانستان کو مکمل طور پر کیمونسٹ ملک کی حیثیت سے روسی’’ سوویت یونین‘‘ کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ بنا دینے کے لیے نور محمد ترہ کئی، اس کی خلق پارٹی، اور ان کے روسی مشیرو’’ماہرین‘‘ کافی ہوجائیں گے، اس لیے اس نے اپنی فوجیں اس موقع پر نہیں بھیجی تھیں۔۔۔ چنانچہ ترہ کئی نے افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب برپا کرتے ہی جو کارنامے فوری طور پر انجام دئیے، وہ یہ تھے:
۱۔۔۔ملکی جھنڈے کا رنگ سرخ کردیا۔۔۔ سرخ جھنڈا لہرانے کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔۔۔
۲۔۔۔پندرہ ہزار مسلمانوں کو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی شہید کرڈالا، جن میں بہت سے علمائے دین بھی شامل تھے۔
۳۔۔۔ اسلام کی مخالفت میں کئی قوانین نافذ کیے۔
۴۔۔۔ مقابلے میں بولنے والے بہت سے مسلمانوں کی املاک ضبط کرلی گئیں۔۔۔
۵۔۔۔ ریڈیو سے دینی پروگرام یکلخت بند کردئیے گئے۔
۶۔۔۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے اسلام، اور اس کے متعلق مضامین کو خارج کرکے سوشلزم اور کیمیونزم کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔
۷۔۔۔کاشتکاروں، مزدوروں اور خواتین پر ’’اشتراکی ثقافت‘‘ کے تربیتی پروگراموں میں شرکت لازم کردی گئی۔
۸۔۔۔اللہ تعالیٰ کے وجود کا علی الاعلان انکار کیا جانے لگا(نعوذ باللہ) کیمونسٹ لیڈر بھرے مجمع میں اپنا ہاتھ بلند کرکے مسلمانوں کو للکارتے کہ ’’اگر تمہارا خدا موجود ہے تو میرا یہ ہاتھ نیچے کرکے دکھائے۔‘‘
افغانستان میں مکمل طور پر کیمونسٹ حکومت مسلط ہو ہی گئی تھی، لیکن کیمونزم کو یہاں اسلام پر مرمٹنے والی اس غیور قوم سے واسطہ پڑا جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد سے آج تک ایک دن کے لیے بھی اپنے اوپر غیر مسلموں کی محکومی کا داغ نہیں آنے دیا۔۔۔ پھر یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی پڑوسی مسلم ریاستوں میں کیمونزم کے مظالم کا مشاہدہ پچھلی کئی دہائیوں سے کررہے تھے۔۔۔ انہیں دھوکہ دینا ممکن نہ تھا۔۔۔
یہاں کے بیدار مغز علمائے ربانی سوشلزم اور کیمونزم کو شروع ہی سے مسلم افغانستان کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے چلے آرہے تھے، اور جب ظاہر شاہ کے دور میں ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے نام پر اسلام کی بیخ کنی کے لئے منظم کاروئیاں شروع ہوئیں تو انہوں نے آنے والے طوفان کو بھانپتے ہی اس کے خلاف جد و جہد شروع کردی تھی۔۔۔
نور محمد ترہ کئی کے اس ’’سرخ انقلاب‘‘ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور چند ہی دنوں بعد یہاں کے علمائے حق کو اس کافر حکومت کے خلاف اعلان جہاد کرنا پڑا۔۔۔ترہ کئی کی نام نہاد حکومت نے اس مقدس جہاد کو کچلنے کے لیے بھرپور جنگی طاقت استعمال کی، کابل کی مشہور عالم بدنام ترین جیل ’’پل چرخی‘‘ کے بلڈوزر رات دن اجتماعی قبریں کھودنے میں مصروف رہتے، جن میں بے گناہوں کو بغیر کفن کے دھکیل دیا جاتاتھا۔۔۔
مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ان مظالم سے اور بھڑک اٹھا، انہوں نے اپنی تابڑ توڑ گوریلا کاروائیوں سے تھوڑے ہی دنوں میں فوج کی یہ حالت کردی کہ وہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتی تھی، روس نے ترہ کئی حکومت کو نہتے مجاہدین کے ہاتھوں اس طرح سے بے بس ہوتے دیکھ کر ’’خلق پارٹی‘‘ ہی کے ایک اور کیمونسٹ لیڈر حفیظ اللہ امین کو آگے بڑھایاجو اس وقت وزیرِ اعظم تھا، اس نے ترہ کئی کو قتل کرکے کرسی پر قبضہ کرلیا، مگر چند ہی روز میں روسی حکام کو اندازہ ہوگیا کہ امین ان کا وافادار نہیں ہے، اس نے مجاہدین کے خلاف کاروئیاں کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔۔۔
چنانچہ روس نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو ٹڈی دل افواج افغانستان میں گھسادیں، جنہوں نے سب سے پہلے حفیظ اللہ امین کا خاتمہ کیااور اس کی جگہ ’’پرچم پارٹی‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر’’ببرک کارمل‘‘ کو چیکوسلواکیہ سے لا کر کٹھ پتلی صدر بنا دیا۔
جب ببرک کارمل کئی سال تک روسی فوج کی بھرپور طاقت اور جدید ترین اسلحہ سے بھی جہاد کو نہ دبا سکا تو روس نے اسے بھی معزول کرکے اپنے چھٹے مہرے ’’ڈاکٹر نجیب اللہ‘‘ کو داؤ پر لگا دیا ۔۔۔ اور اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو دنیا دیکھ رہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ’’روسی واردات‘‘ کا یہ تیسرا مرحلہ ہی تھا جو جہادِ افغانستان کا سبب بنا اور بالآخر روسی سامراج کے لیے پیغام موت ثابت ہوا۔افغانستان کے غیور مجاہدین نے اپنے پندرہ لاکھ شہیدوں کا خون دے کر نہ صرف خود کو کیمونزم کی غلامی سے بچایا بلکہ وہ روس کی مقبوضہ مسلم ریاستوں میں بھی خفیہ طور پر اپنی جانوں پر کھیل کر پہنچے، انہیں اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کے نسخے پہنچائے، اور جہاد افغانستان کے منظر و پس منظر سے آگاہ کرکے ان میں آزادی کی بے تاب لہر دوڑا دی، بلکہ یہ کام ان فوجیوں نے بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا جنہیں روس نے مقبوضہ ریاستوں سے یہ سمجھ کر بھرتی کیا تھا کہ یہ اپنے آبائی دین کو بھول چکے، اور کیمیونزم کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں۔۔۔ ان میں کچھ ایسے ضرور تھے جنہیں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا کہ ان کے والدین مسلمان تھی، لیکن بڑی تعداد ان فوجیوں کی تھی جو درپردہ اب بھی اپنے دین پر قائم تھے۔۔۔
ان فوجیوں نے جب افغانستان آکر مسلمانوں کے حالات ، ان کی مظلومیت، ان کی نمازوں اور ایمان افروز جہاد کا مشاہدہ کیا تو ان کا بھی ایمان جاگ اٹھا، ان فوجیوں کی ہمدردیاں مجاہدین کے ساتھ ہوگئیں، بعض مواقع میں تو انہوں نے اپنا اسلحہ تک مجاہدین کی نذر کردیا۔
روس نے یہ صورتحال دیکھتے ہی انہیں تو واپس بلا لیا تھا، لیکن جاگے ہوئے ایمان نے آزادی کی جو تازہ روح ان میں پھونک دی ہے، اس کا توڑ اب کسی کے پاس نہیں۔
افغانستان کی دلدل میں پھنس کر روس جس عبرت ناک معاشی بدحالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اور اس کی مقبوضہ ریاستوں میں صورتحال جس تیزی سے بدل رہی ہے،  اس سے تو اب یہی مژدہ سنائی دیتا ہے کہ:
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں! آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اور ملحد چین جو ظلم مسلمانوں پر کر رہا ہے اس کے جاننے کے لیے یہ پڑھیں۔چین کے صوبہ زنجیانگ میں طویل عرصہ سے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے جس پر ساری دنیا خصوصاً عالم اسلام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے‘ حتیٰ کہ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ادارے اور افراد بھی اس تعلق سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے سابق کمیونسٹ سوویت یونین کی ریاستوں میں بھی مسلمانو ں پر ایسے ہی مظالم ڈھائے گئے تھے حتیٰ کہ ان کو اپنے ایمان اور عقیدہ پر عمل کرنے کا اختیار نہیں تھا اور ان کو اسلامی عبادتیں ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا‘ جبر و تشدد کی انتہا ہوگئی تھی اور ان مظالم کی خبروں پر سخت سنسر شپ عائد تھی۔ یہی رویہ چین میں بھی اختیار کیا گیا ہے اور وہاں بھی مسلمانوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں‘ چونکہ سرخ چین کئی پردوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس لئے ان مظالم کی اطلاع دنیا تک نہیں پہنچ سکی تھی ‘ جیسی کہ روس کے مظالم کی اطلاع باہر نہیں آئی تھی۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی چین کی خبریں باہر آنے لگی ہیں جن میں صوبہ زنجیانگ کے الغور مسلمانوں پر مظالم اور ان پر پابندیوں کی خبریں بھی شامل ہیں۔
مکمل تحریر >>

ملحدین کا اعتراض کہ اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا کیا اور شیطان ساری برائی کی جڑ ہے۔لہذا نعوذ بااللہ شیطان کو پیدا کرکے اللٰہ تعالٰی نے دنیا کی سب برائی کو پیدا کیا اور اس اعتراض کا جواب

ملحدین کا اعتراض کہ اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا کیا اور شیطان ساری برائی کی جڑ ہے۔لہذا نعوذ بااللہ شیطان کو پیدا کرکے اللٰہ تعالٰی نے دنیا کی سب برائی کو پیدا کیا اور اس اعتراض کا جواب
(Problem Of Evil And Its Solution)
انسان اور جنات دو مخلوقات ہیں جو اپنے ہر عمل میں آزاد ہیں۔عمل کی یہی ازادی ہے جو انسان و جنات کو دی گئ ہے۔شیطان عیسائیوں کے نزدیک فرشتہ ہے لیکن ہم اسے جن مانتے ہیں۔خود قرآن نے کہا کہ وہ جنات میں سے تھا۔جب وہ تھا ہی ایسی مخلوقات میں سے جو اپنے ہر عمل میں آزاد پیدا ک گئ ان کو سمجھ بوجھ دی گئی طاعت و عبادت کا سارا راستہ بتادیا گیا۔جس پر وہ شیطان کافی عرصہ قائم بھی رہا۔اور خود اسی خدا کی عطا کردہ آزادی کا غلط استعمال کر کے اس نے اپنے آپ کو شیطان کہلوایا اور ساری دنیا کی برائ کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس میں قصور خدا کا ہوا جس نے انسان و جنات کی شخصی آزادی برقرار رکھی یا اس شیطان کا جس نے اس آزادی کا غلط استعمال کیا اور دنیا کی سب برائ پیدا کرنے کی وجہ بنا؟
کیا یہ بات خالق و مالک و رحیم کہلوانے والے رب کو زیب دیتی تھی کہ کائنات کی ہر مخلوق کو کٹھ پتلی بناتا زبردستی ان سے عبادت کراتا۔ان کی مرضی و رضا سلب کر لیتا؟
قرآن وحدیث  کی تعلیمات پر چلنے والے سب مسلمان شیطان کو مخلوقات مینی میں سے مانتے ہیں۔قرآن نے کہا کہ شیطان جنات میں سے ہے اور جنات مخلوقات میں شمار ہوتے ہیں۔
مخلوق کا مطلب ہے خالق کی پید کردہ چیز۔ کائنات کی ہر چیز خالق کی پیدا کردہ ہے اور پیدا کی گئ چیز مخلوقات کہلاتی ہیں اور کچھ نہیں۔
شعور و فکر و سمجھ بوجھ یہ صلاحیت جنات میں بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی طرف بھی پیغمبر بھیجے گئے۔
برائ خالق سے نہیں ہے۔شیطان سے ہے۔خالق نے برائ نام کی کوئ چیز پیدا نہیں کی۔شیطان کی طرف سے اپنی آزادی کے غلط استعمال سے برائ کا جنم ہے۔شیطان خالق نے برا پیدا نہیں کیا تھا۔وہ شروع میں نیک تھا۔فرشتوں کے ساتھ عبادات میں تھا۔بعد میں آدم کے حسد اور خالق کی آزادی کے غلط استعمال سے خود بھی برا ہوااور دنیا کی سب برائ کی وجہ بنا۔پھر کوئ  کیسے کہ سکتا ہے کہ یہ برائ خالق نے پیدا کی۔
برائ کا خالق خدا ہوتا تو شیطان شروع ہی سے برا ہوتا جب کہ وہ پہلے نیک تھا۔اپنی آزادی و حسدکے غلط استعمال سے برا ہوا۔اب اس کی برائ کو خدا پر نہیں ڈالا جا سکتا۔
آزادی و حسد اس نے اپنی آزادی کے حق کا غلط استعمال کر کے لی۔اگر خدا انسان و جنات کو آزادی نہ دیتا تو پھر  دوسرا اعتراض ہوتا کہ ہم کو کٹھ پتلی کیوں بنایا۔
اور خدا کو یہ بات نہیں زیب دیتی کہ زبردستی سب سے عبادت کرائے۔اسے یہ بات زیب دیتی تھی کہ کچھ مخلوقات اپنی فہم و عقل سے اسے پہچانیں۔اس مقصد کے لیے انہیں عقل آزادی و رہنمائی فراہم کر دی گئی۔جس کا استعمال کچھ لوگ ٹھیک کرتے ہیں اور کچھ غلط۔اس کی مثال ایسی ہے جیسا کالج کا پروفیسر لیکچر کے بعد چھٹی دے دیتا ہے۔اور کہ دیتا ہے کہ ایک سال بعد امتحان ہوگا۔اب کچھ اس آزادی کا غلط استعمال کر کے ناکام ہوں گے اور کچھ ٹھیک استمعال کر کے کامیاب۔اور جو ناکام ہونے والا اس آزادی و ناکامی کا ذمہ دار کالج کو کہے گا احمق کہلائے گا۔
پھر آپ کی طرح کی کوئ مخلوق اعتراض کرتی کہ کٹھ پتلی بنا کے رکھا عزت نفس چھین لی زبردستی کی عبادت کرا رہا ہے۔کیا اس آزادی کے نہ دینے سے خداوندی پر ہونے والے اعتراضات ختم ہوجاتے؟نہیں تو پھر جب اعتراضات ختم ہی نہیں ہونے تو خدا کائنات کا خالق آپ کے اعتراض کو دیکھے یا اپنی رضا کو۔وہ جو کرے تو انسان  کون ہیں اس کے کام میں ٹانگ اڑانے والے۔
شیطان سمیت ہر وہ چیز جو اللٰہ تعالٰی نے پیدا کی شروع میں اچھی تھی اور اس میں برائ شیطان کی بغاوت اور انسان کے اعمال سے بعد میں پیدا ہوئ۔اپنی ان ساری برائیوں کا ذمہ دار اس خدا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس نے کائنات کی ہر چیز کو اچھی فطرت پر پیدا کیا اور پھر اسے اچھا رکھنے اور اچھا رہنے کی ذمہ داری انسان کو سونپ دی اور انسان کو اس ہدائت و گمراہی دونوں راستے بتا کر عمل میں آزاد کر دیا۔اب  انسان کی اپنی طرف سے پیدا کردہ برائ اور اس آزادی کے غلط استعمال کی ذمہ داری اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی۔اور اس طرح شیطان کی بغاوت و برائ کی ذمہ داری بھی اللٰہ تعالٰی پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ وہ اپنے انتخاب میں آزاد تھا اور اس نے بغاوت کا راستہ چنا۔فخر،حسد،بے اطمینانی اور احساس برتری شیطان میں ہیدا ہوچکے تھے۔اس نے اللٰہ تعالٰی سے بغاوت کر کے گویا اللٰہ تعالٰی سے اس کا مرتبہ خداوندی چھیننے کی کوشش کی لیکن خود راندہ درگاہ ہوا۔
اب یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اللٰہ تعالٰی سب انسانوں سے اپنی عبادت چاہتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت محض عبادت نہیں۔یہ کسی بھی انسان کے لشکر رحمانی یا لشکر شیطانی میں شامل ہونے کا معیار ہے۔جو بھی اس عبادت سے انکار کرے گا لشکر شیطان کا رکن کہلائے گا کیونکہ شیطان نت بھی سجدے سے انکار کیا تھااور جو اسے پورا کرے گا لشکر رحمانی کا رکن کہلائے گا۔
یہ آزادئ انتخاب در حقیقت خدا کی انسان سے محبت اور انسان کی عزت نفس برقرار رکھنے کی ایک علامت ہے۔اگر یہ آزادی نہ دی جاتی تو انسان کس طرح کائنات میں خدا کا خلیفہ کہلاتاجو اپنی طرف سے سوا عبادت کے کچھ بھی نہ کر سکتا ہو۔اس طرح اس آزادی سے انسان کو محض اللٰہ تعالٰی کا بندہ نہیں بلکہ اللٰہ تعالٰی کے دوست اور نائب کا رتبہ دیا گیا۔
جنات و انسان کو دی گئی یہی آزادی تھی کہ شیطان کی بغاوت پر شیطان کو اور آدم و حوا علیہ السلام کی غلطی پر آدم و حوا علیہ السلام کو فنا نہیں کر دیا گیا۔بلکہ ان کی آزادی برقرار رکھ کر انہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا موقع فراہم کیا گیا اور ان پر حجت تمام کر دی گئی تاکہ بعد میں ملنے والی جزا و سزا پر وہ یہ نہ کہ سکیں کہ انہیں اصلاح کا موقع کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ خالق کی  طرف سے خالق کے نظام کے ہر باغی کو اصلاح کا موقع دیا جاتا ہے اور وقتا فوقتا اس پر آزمائش ڈال کر اسے تنبیہ کی جاتی ہے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرے ورنہ اس سے بڑی مصیبت آسکتی ہے۔جو اس تنبیہ پر اپنی اصلاح  کر لیتا ہے ٹھیک ورنہ مہلت ختم ہوتے ہی اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے یا اس کا انجام قبر و قیامت تک کے لیے موخر کر دیا جاتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ مذہب خوف کی علامت ہے۔خوف دلا کر اللٰہ تعالٰی کی عبادت کرائ جاتی ہے۔اگر مذہب خوف کی علامت ہوتا تو شیطان کو اس کی بغاوت کے وقت اور آدم و حوا علیہ السلام کو ان کی غلطی کے وقت عبرت کا نشان بنا دیا جاتا لیکن  نہیں۔صرف انجام بتا دیا گیا اور اعمال کی آزادی دے دی گئی۔اس آزادی کے ساتھ اگر جزا و سزا کا تصور نہ دیا جاتا تو آزادی رکھنے والی مخلوق خالق کی زمین کو فساد سے بھر ڈالتی۔لہذا انسان کو پابندی سے آزاد کر کے ایک ایسی عبادت کی تلقین کی گئی جس کی بنیاد اللٰہ تعالٰی کی محبت،عشق،جنون اور فرمانبرداری پر ہے۔کوئ بھی بھی فرمانبرداری جس کی بنیاد کسی دوسری چیز پر ہو قابل قدر نہ ہوگی۔
مزید برآں خالق نے شیطان کو آزادی اس لیے بھی دی کیونکہ اس نے خالق کے نظام کائنات کو چیلنج کیا جس کے مقابلے میں خالق نے بھی اپنا نظام کائنات و عمل نافذ کرنے کا اعلان کیا۔اگر فوری بغاوت پر شیطان کو مار دیا جاتا تو اس کے چیلینج کے مقابلے میں خالق کے نظام معافی و جزا و سزا کا نفاذ کس طرح ہوتا۔پھر نعوذ بااللہ خدا اس چیلنج میں ناکام ہوتا جب کہ ایسا نہیں ہے۔اس طرح خدا کی اچھائی کے مقابلے میں شیطان نے جس بغاوت و دھوکے کی راہ ہمورا کی اسی دن سے ہی اس نے خدا کی اچھائی کے مقابلے میں برائ کی بنیاد رکھ دی اور برائ کا سربراہ قرار پایا۔اس طرح اس برائ کی جڑ شیطان کی بغاوت تھی خالق کی ذات نہیں۔اللٰہ تعالٰی خود جرم نہیں کرتا لیکن وہ آزادئ عمل کے قانون کے تحت اس برائ کا ذمہ دار بھی نہیں قرار پاتا۔
مزید برآں اس برائ کے مقابلے میں خالق کی طرف سے معافی و درگزر خالق کی اس رحمانی صفت کا اظہار ہے جو وہ اپنی مخلوق کے لیے رکھتا ہے۔لیکن شیطان آج تک خالق کا مقابلہ کر کے یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ اچھائی پر غالب ہے اور اس اچھائی و برائ کی جنگ کا آغاز خالق نے نہیں بلکہ شیطان کی خالق کے ایک حکم سے بغاوت نے کیا۔
اللٰہ تعالٰی نے شیطان کو پیدا نہیں کیا بلکہ اس جن کو پیدا کیا جو اپنی آزادی عمل کا غلط استعمال کر کے شیطان بن گیا اور اس میں خالق کا کوئ قصور نہیں۔خالق نے شیطان کے اندر برائ کا مادہ رکھ کر اسے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ اس کا اپنا انتخاب و عمل تھا جس نے اس شیطان کو یہ کرنے پر مجبور کیا۔
تحریر۔ڈاکٹر احید حسن
مکمل تحریر >>

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟

کیا قرآن کی سورہ احزاب نامکمل ہے؟کیا اس سورت کی کچھ آیات ضائع ہوگئیں؟
قرآن پر ملحدین کے ایک گروپ جسے ہم جرات جرات تضحیک کہتے ہیں،کے ایک  گھٹیا اور جھوٹ اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب:

قرآن پاک کی حفاظت پر ملحدین و مستشرقین کے اٹھائے گئے اعتراضات میں سے ایک یہ اعتراض بھی ہے کہ قرآن کی تینتیسویں سورت یعنی سورہ احزاب کی آیات کی تعداد بھی ہے۔قرآن مجید کے موجودہ اور تمام تاریخی نسخوں میں اس سورت کی آیات کی تعداد تہتر ہے  لیکن کچھروایات اسکے برعکس بیان کرتی ہیں۔اس پر روایات احادیث کے کئ مجموعوں جیسا کہ احمد،حاکم،بیہقی،ابن حبان،نسائ میں موجود ہیں۔اسکے علاوہ یہ ابن کثیر،قرطبی، اور کنز العمال میں بھی موجود ہے۔سورہ احزاب کی کچھ آیات کے ضائع ہونے کی روایت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی جاتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔مسند احمد میں اس روایت کا بیان درج ذیل ہے
عن عاصم بن بهدلة عن زر قال قال لي أبي بن كعب : كأين تقرأ سورة الأحزاب أو كأين تعدها قال قلت له ثلاثا وسبعين آية فقال قط لقد رأيتها وإنها لتعادل سورة البقرة ولقد قرأنا فيها الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالا من الله والله عليم حكيم
ترجمہ:
عاصم بن بھدلہ سے روایت ہے،انہوں نے زر سے روایت کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم سورہ احزاب کتنی تلاوت کرتے ہو یا اس کی کتنی آیات پڑھتے ہو۔زر نے کہا کہ تہتر آیات۔ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے فر مایا کہ صرف اتنا۔میں نے دیکھا کہ یہ سورہ،سورہ بقرہ جتنی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی کہ جب بھی کوئ بوڑھا مرد یا عورت زنا کریں انہیں رجم یعنی سنگسار کرو۔یہ اللٰہ تعالٰی کی طرف سے سزا ہے(مسند احمد،حدیث نمبر 21245)
اوپر مذکور باقی مجموعوں میں بھی یہ روایت تقریبا  اسی طرح آئ ہے۔کچھ مجموعوں میں ہمیں کچھ اہم الفاظ ملتے ہیں۔اب ہم اس روایت کی صحت اور اس کے مستند ہونے کا جائزہ لیتے ہیں۔
کچھ محدثین نے اس کی تصدیق کی ہے اور کچھ نے اس کو ناقابل اعتماد اور ضعیف قرار دیا ہے اور ظاہر میں یہ لگتا ہے کہ یہ روایت مستند ہے اور یہ کئ سلسلوں سے مروی ہے کیونکہ یہ بہت سے مجموعوں میں موجود ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔آئیے اسکی تفصیل کا جائزہ لیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے صرف ایک شخص زر روایت کررہا ہے۔یہ بات اس روایت کو مشکوک بنا رہی ہے۔اگر نعوذ بااللہ قرآن تبدیل ہوگیا تھا تو اتنی بڑی یہ روایت اور واقعہ صرف ایک شخص روایت کررہا ہے یا نعوذ بااللہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کی اس تبدیلی پر اتنی خاموشی اختیار فرمائ کہ صرف ایک شخص سے اس کا تذکرہ کیا۔جب کہ ایک صحابی قرآن میں کمی یا تبدیلی پر کیسے خاموش رہ سکتاہے اور دوسرا یہ کہ اگر خاموش نہیں رہے،اس پر آواز اٹھائ تو کیا صرف ایک شخص کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا؟ایسا نہیں ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ زر سے دو بندے روایت کر رہے ہیں۔ایک عاصم بن بھدلہ اور دوسرا یزید بن ابی زیاد۔اور ان کے بعد  بہت لوگ ان دو سے روایت کر رہے ہیں۔لیکن جن محدثین نے اس روایت کوناقابل اعتماد یعنی ضعیف قرار دیا ہے،انہوں نے ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔دیکھئے شیخ شعیب ارنات کی عادل مرشد اور سعید الحام کے ساتھ کی گئی مسند احمد کی تقسیم بندی،الرسالہ پبلشرز بیروت 1999،جلد پینتیس صفحہ 134
یزید بن ابی زیاد کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے کیونکہ اس روایت میں موجود یزید بن ابی زیاد کمزور اور ناقابل اعتبار راوی ہے۔اور عاصم کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ عاصم بن ابی بھدلہ اگر قابل اعتماد مان بھی لیا جائے تو بھی اس روایت پر اسلیے یقین نہیں کیا جاسکتا کہ عاصم یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے غفلت کا شکار رہتا تھا۔اس لیے اکیلے عاصم کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
اس طرح شیخ عبدالسمیع عبدالباری الصیغ نے مسند احمد میں دو صحابہ یعنی جابر بن سمرہ اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے اس روایت کی وضاحت اور تحقیق میں بھی ان دو راویوں پر تنقید کی ہے۔یزید  بن ابی زیاد کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت یزید بن ابی زیاد کی اس روایت میں موجودگی کی وجہ سے ضعیف ہے اور عاصم بن بھدلہ کی روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت عاصم بن بھدلہ کی یادداشت کی کمزوری اور غافل رہنے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔اس تصنیف کا اصل ٹائٹلMarwiyat al-Sahabayn Jalilayn Jabir bin Samrah wa Ubayy bin Ka’b fi Musnad al-Imam Ahmad’ published by Ummul Qura University, 1988 vol. 1 ہے۔
یہاں تک کہ قدیم علماء و محدثین نے بھی اس روایت کے قابل اعتماد ہونے پر شک کا اظہار کیا ہے۔حافظ نورالدین ہیثمی(المتوفی یعنی وفات 807ہجری)اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں موجود عاصم بن ابی النجود ضعیف یعنی ناقابل اعتماد ہے(موارد الزمان،حدیث 1756)۔
اسی طرح شہاب الدین احمد البوصیری(المتوفی یعنی وفات 840ہجری)بھی اپنی تصنیفIthaf al-Khira al-Mihra میں اس روایت کو الطیالسی،ابن حبان اور احمد بن مونی سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت کا انحصار عاصم بن ابی النجود پر ہے اور وہ ناقابل اعتبار یا ضعیف راوی ہے۔
اس طرح یہ روایت کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔
اس طرح کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی کی جاتی ہے الاتقان میں لیکن یہ بھی انتہائ ضعیف ہے کیونکہ اس کی روایت میں ابن ابی لیحیہ ہے جو انتہائ ناقابل اعتبار ہے۔مزید اس روایت میں رجم یا سنگسار کرنے کی آیت کا کوئ حوالہ نہیں جو کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے اور یہ بات اسے اور ناقابل اعتبار قرار دیتی ہے۔See al-Ittiqan with research by the committee of Markaz Dirasat al-Qur’ania section 47 pub. Saudi Ministry of Islamic publications p.1456
کنزالعمال میں اس طرح کی روایت حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے جس کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف کی گئ ہے اس میں بھی آیت رجم یعنی زانی کو سنگسار کرنے کی آیت کا بیان ہے  لیکن اس کا پورا سلسلہ نہیں معلوم اور اس طرح یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔
اس طرح یہ ساری بحث ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایات  نا قابل اعتماد ہیں ا ور ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں تو صرف ایک ہی راوی ہے جو اس روایت کو مزید نا قابل اعتماد بنا دیتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے تدوین قرآن کے لیے بنائ گئ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی بارہ رکنی کمیٹی کا حصہ تھے۔اگر ایسی کوئ تبدیلی یا کمی نعوذ بااللہ کسی بھی آیت یا سورت کے حوالے سے قرآن پاک میں ہوتی تو وہ لازمی اس پر انگلی اٹھاتے اور اگر وہ نہیں تو باقی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم لازمی اٹھاتے جنہوں نے نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پاک سنا اور یاد کیا۔لیکن ایسا نہیں تھا۔لہذا یہ روایات اپنے راویوں اور قرآن کی کچھ آیات کے نسخ یعنی اللٰہ تعالٰی کی طرف سے منسوخ قرار دیے جانے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں۔اور ملحد گروپ جرات تحقیق جسے ہم جرات تضحیک کہتے ہیں کا قرآن پر اسکے نامکمل ہونے کا اعتراض جھوٹ،دھوکا بازی،دجل اور فریب پر مبنی ہے اور سورہ احزاب سمیت پورا قرآن سو فیصد محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ انسانوں کے خالق نے لے رکھا ہے۔اور آخر میں ملحدین کے نام ایک شعر
جن کے افکار ہوں محض شکوک و شبہات پہ مبنی
ان کو حقیقت ابہام ملے،مذہب اسلام ملے

حوالہ۔۔

http://www.letmeturnthetables.com/2011/01/ahzab-verses-lost-abrogated-or.html?m=1
ترجمہ۔۔ڈاکٹر احید حسن

https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1036026323170429
مکمل تحریر >>

انگور_حلال_اور_شراب_حرام_کیوں؟؟

انگور_حلال_اور_شراب_حرام_کیوں؟؟
ﻓﺮﺍﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺸﻨﺮ ( ﻣﻮﺭﯾﺲ ﺳﺎﺭﺍﯼ ) ﺗﻌﯿﻨﺎﺕ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﻧﮯﺍﯾﮏ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻣﺸﻖ ﮐﮯ ﻣﻌﺰﺯﯾﻦ، ﺷﯿﻮﺥ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺰﺭﮒ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻧﺸﺴﺖ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﭼﮭﺮﯼ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﮨﺖ ﺍﻭﺭ ﻏُﺼﮯ ﺳﮯ ﺑُﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﻧﮧ ﭘﺎ ﺳﮑﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺑُﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍِﺱ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﮐﮧ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻃﺮﺡ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ؟
ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺗﺮﺟﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﺳﻨﺠﯿﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﮎ ﺳﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ؟
ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ، ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﻄﻠﺐ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ؟
ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﻣُﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮨﮯ؟
ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺟﻞ ﺑﮭﻦ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ۔ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺗﮩﯿﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﮨﺎﻧﺖ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﻟﮯ ﮔﺎ۔
ﮐﻤﺸﻨﺮ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ، ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﺎ، ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺮﺍﮞ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﻌﺰﺯﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﺭﻭﺍﯾﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﻣﻨﮕﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺟﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻃﻤﻄﺮﺍﻕ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ، ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﻼﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﻧﮉﯾﻠﯽ۔
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻼﺱ ﺳﮯ ﭼُﺴﮑﯿﺎﮞ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ : ﺳﻨﻮ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ، ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ؟
ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻣﺨﺘﺼﺮﺍً ﮐﮩﺎ : ﮨﺎﮞ۔
ﮐﻤﺸﻨﺮ ﻧﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﮕﻮﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺷﺮﺍﺏ ﺍﻥ ﺍﻧﮕﻮﺭﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮ ﻣﮕﺮ ﺷﺮﺍﺏ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ!
ﺿﯿﺎﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﺮ ﺷﺨﺺ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭘﯿﺶ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺳﺐ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﺎﺩﯾﺪﮦ ﺧﻮﻑ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺭُﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺁﺋﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﻤﺸﻨﺮ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ، ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﺁﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﺣﻼﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ؟
ﻣﺼﻨﻒ ﻟﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﮨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﯿﺰ ﺳﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺍُﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣُﮑﻢ ﺩﯾﺪﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔

مکمل تحریر >>

گائے کا ذبیحہ اور توہین رسالت

گائے کا ذبیحہ اور توہین رسالت
ہندوؤں کے لیے گائے کے ذبیح کی وہی حیثیت ہے جو مسلمانوں کے نزدیک توہین رسالت کی
دونوں کی نوعیت ایک ہی ہے - ایک قوم  کے ایک مذہبی نظریے کے تقدس کی تضحیک تو پھر آپ کیوں یہ چاہتے ہیں کہ صرف آپ کے مذہبی نظریے کے تقدس کی حرمت کا خیال رکھا جاے اور دوسری قوم کے لیے اگر ایک چیز کا تقدس وہی ہے جو آپ کے لیے اپنے نبی(صلی اللٰہ علیہ وسلم )کا تو اسے اپنی مذہبی رسومات کا نام دے کر اسکو پامال کرتے رہیں-
///////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ


جواب۔۔۔۔

Rehman Walay رحمان والے
زندہ گائے کے پیٹ میں اوزار مارکر اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکال کر اسے کھولتے پانی میں ابال کر اس کا چمڑا نکالا جاتا ہے جسے کف لیدر کہا جاتا ہے جو بھاری قیمت میں امریکہ بھیجا جاتا ہے اس کاروبار میں پورے ہندوستان میں ایک بھی مسلمان شریک نہیں ہے لیکن اس چمڑے سے وابستہ تقریبا 20لاکھ لوگ ہیں جن کی روزی روٹی کا واحد زریعہ یہ پیشہ ہے اور اسی کاروبار سے ان ہندوؤں کو 20لاکھ بلین ڈالر کی سالانہ انکم حاصل ہوتی ہے ۔۔۔
گندہ ہے پر دھندا ہے یہ ۔
گائے ماتا کے پجاری کیا ایسا نہیں کرسکتے ۔۔؟؟
ارے بھائی کیوں نہیں لکشمی (دولت ) کی پوجا بھی تو کوئی پوجا ہے جس سے پیٹ پوجا ہوتی ہے اور جہاں پیٹ پوجا کا سوال ہو وہاں بہت ساری پوجائیں پتلی گلی سے نکل لیتی ہیں ۔۔
اتنا ہی نہیں گائے ماتا کے پجاری حضرات کی ناک کے نیچے سے گائے کی چربی سے لذت دار اور سواد بھرے بناسپتی گھی بنائے جاتے ہیں ۔۔۔
گائے کی کھلے عام ہتیا کرکے صابن اور گھی بنانے کے کارخانے کسی مسلمانوں نے نہیں بنائے بلکہ ہندوؤں کے سب سے اعلی طبقہ برہمن کے قائم کئے ہوئے ہیں ۔۔
اس لئے عید قربان کی آمد کے پیش نظر گائے کی ہتیا اور قتل خانے( مذبح یا سلاٹر ہاؤس ) کی مخالفت میں جو احتجاج پورے ہندوستان کے کونے کونے میں ہندو مذہبی تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ صرف سیاسی ڈرامے بازیاں ہیں اس سے زیادہ ان کے اندر کوئی مذہبی جذبہ یا عقیدے کے تقدس کا عنصر شامل نہیں ۔۔۔
اصل میں گائے کو ماتا کہنا ہی اصل پاکھنڈ (گناہ ) ہے برہمن طبقہ شروع سے ہی بھکشک رہا ہے برہمن گائے ہی نہیں انسان سے لے کر سبھی جانوروں کی بلی چڑھا کر ان کا مانس کھاتے رہے ہیں اس لئے نیپال کے برہمن آج بھی بڑی شان کے ساتھ گائے کی بلی چڑھاتے ہیں ۔۔
کٹھمانڈو (نیپال کی راجدھانی) میں واقع کالی ماتا مندر میں پہلے تو گائے کی پوجا ہوتی ہے پھر اسکے بعد گائے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور جیسے ہی گائے سر ہلاتی ہے تیز دھار والی چھری سے گائے کی گردن پر مندر کا بروھت اس طرح وار کرتا ہے کہ خون کا فوارہ کالی ماتا کے چرنوں میں جا گرتا ہے ۔۔
تڑپتی گائے کا خون کئی ایک مورتیوں کو چڑھایا جاتا ہے گائے کی گردن کو پجاری پجاری خود لے کر جاتا ہے اور چمڑا اتارکر گائے کا گوشت دیوی کے بھگتوں کو پرساد کے طور پر دیا جاتا ہے جسے وہ اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں اور ملنے جلنے والوں کو عقیدت کے ساتھ تحفے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔۔۔
برہمن ہی نہیں غیر برہمن غیر مسلم بھی گائے کا گوشت بڑے ذوق و شوق سے کھاتے ہیں ۔۔
اس لئے جو بات اب تک ہمیں سمجھ لگی ہے کہ ہندو قوم کو اب گائے کو اپنی ماتا کہنا چھوڑدینا چاہئے آخر میں ہم جاتے جاتے گائے کو اپنی ماں کہنے والوں کی خدمت میں دس سوال رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
1- گائے کو ماتا آپ کیسے کہ سکتے ہیں جس کا جنم آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے کیا ماں کا جنم بیٹے کے سامنے ہوتا ہے ۔۔
2- اگر گائے اپ کی ماتا جیسی ہے تو اس ماں کی ناک میں نکیل کیوں ڈالتے ہو۔۔
3- اسے کھونٹے میں کیوں باندھتے ہو ۔
4- گائے کو ڈنڈے کیوں مارتے ہو۔۔
5- کچھ لوگوں کو چھوڑدیا جائے تو مسلمان گائے نہیں پالتا ہندو لوگ ہی گائے کو قصائی خانوں تک پہنچانے کا جوکھم بھرا کام سر انجام دیتے ہیں بیرون ممالک گائے کے گوشت ایکسپورٹ کرتے ہیں کیا کوئی اپنی ماں کے گوشت کو بیچ سکتا ہے۔۔
6- گائے اگر آپ کی مان ہے تو آپ کی اصلی ماں اس کی بہن لگے گی اور اس لحاظ سے اصولا گائے کا بیٹا اپ کا بھائی بننا چاہئے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جاتی ہے سب گائے کو ماں کہتے ہیں اور آگے پیچھے کی رشتہ داریوں کو سگریٹ کے دھوئیں کی طرح ہوا میں اڑادیتے ہیں ۔۔۔
7- بھینس اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کو ماں کا مقدس خظاب کیوں نہیں دیا جاتا صرف گائے کو ہی یہ شرف کیوں حاصل ہے جب انسانوں میں کوئی بھید بھاؤ نہیں جانورون میں یہ امتیازی سلوک اور تفریق کیوں ۔۔؟
8- سائنس کے مطابق گائے کا گوشت پوتر اور واٹامن و لحمیات سے بھر پور ہے تو کیا وہ ہندو جو سائنس اور گیان یعنی سرسوتی پوجا کے قائل ہیں سرسوتی پوجا کے لئے گائے کا گوشت کیوں نہیں کھاتے ۔۔۔
9- رگ وید نامی ہندو کتاب کے اندر بھی گائے کی بلی چڑھانے کا ذکر و حکم موجود ہے اسے ہندو پنڈت کیوں عام لوگوں سے چھپاتے ہیں کیا گائے کو ماتا قرار دینے میں پنڈتون کا کوئی ذاتی مفاد چھپا ہے۔۔
10- پھر ہندو انسان ہی گائے ماتا کو حامل کروانے کے لئے سانڈ کے پاس لے جاتا ہے اور دونوں کے کاما سوتر(ملن ) کو اپنی گنہ گار آنکھوں سے دیکھتا ہے کیا کوئی اپنی ماں کو اس طرح غیر در پر لے جاتا ہے اور کیا سانڈ گائے کا پتی اس کا باپ کہلانے کا حق دار ہے ۔۔۔؟؟
زرا سوچئے کیاوجہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان اور نیپال اور سری لنکا میں بسی ہندو برادری ان حقائق سے غافل ہے کیا وجہ ہے کہ ہندو دھرم کے اندر گائے کے گوشت کھانے حوالہ جات کو دہرئے اور ملحد اور کامریڈ سامنے نہیں لاتے۔

جو رسولﷺ کی گستاخی کرتا ہے اس کامقصد ہی گستاخی کرنا ہوتا ہے۔نہ گساخی کی اس کے علاوہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔رسولﷺ پر بات کہیں سے بھی کی جائے بات مذہب پر آہی جائے گئ جبکہ گائے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا ۔مزیدد اسلامی کا مقصد توہین ہوتا ت اونٹ کی اصٖل قرار نہ دیتا  قربانى ميں سب سے افضل اونٹ اور پھر گائے اور پھر بكرا اور پھر اونٹ يا گائے ميں حصہ ڈالنا ہے، امام شافعى اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، كيونكہ جمعہ كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

"جو شخص نماز جمعہ كے ليے پہلے وقت گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو شخص دوسرے وقت ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو شخص تيسرے وقت گيا گويا كہ اس نے سينگوں والا مينڈھا قربان كيا، اور جو شخص چوتھے وقت گيا گويا كہ اس نے مرغى قربان كى، اور جو شخص پانچويں وقت گيا گويا كہ اس نے انڈے كى قربانى كى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 881 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 850)   شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى "احكام الاضحيۃ "ميں كہتے ہيں:

"قربانى ميں سب سے افضل اونٹ ہے، اور پھرگائے اگر مكمل جانور ايك شخص ذبح كرے تو افضل ہے، پھر اس كے بعد بكرا، اور پھر اونٹ كا حصہ، اور پھر گائے كا حصہ "انتہى.۔اور یہ سوال صرف مسلمانوں سے ہی کیوں ؟ کیا دوسرے مذہب والے گائے نہیں کھاتے۔
چوہے کی ہندو بڑی تعظیم کرتے ہیں اب کیا چوہے مار دوائی بھی نہ لائیں؟ کیا انڈیا میں چوہے مار دوائی نہیں بنتی؟ یہ گستاخی کے بہانے ہیں.  اب خوراک تو کھانے کے لیے ہوتا ہے تو اسے کیا کھائیں نہ؟  چوہے مار دوائی بھی کیا لائیں نہ؟ اسلام میں جس طرح گالی دینا منع ہے ویسے ہی یہ بھی گالی نہ دیں.  کیا یہ لوگ شرک کرکے اللہ کی گستاخی نہیں کرتے؟  ہم نے آزادی دی ہے نا؟  تو بس یہ ایسا کریں کہ ہمیں گائے کھانے کی بھی آزادی دیں. جس طرح ہم ان کے باطل معبودوں کو گالی نہیں دیتے یہ ہمارے سچے معبود اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی نہ دیں.
گائے کے ہندوؤں کے لئیے مقدس هونے کا دعویٰ اس طور تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسے اپنا ایک بھگوان مانتے ہیں اور ان کی طرف سے  اسے زبح کرنا اس کی توہین میں بھی شمار کیا جاسکتا ہے کہ کہا جائے کہ ہندوؤں کے نزدیک گائے کا ذبح کرنا اس کی توہین میں داخل هے..
تو یہ تو ان کا مذہب اور عقیدہ ہوا لیکن ایک مسلمان کی جانب سے گائے کے زبح کو اس کی توہین کیوں سمجھا جانا ضروری ہے؟ مسلمانوں کے لئیے تو یہ دوسرے حلال جانوروں کی مانند ہے جن کو زبح کر کے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے. ..
مسلمان اگر اس کو زبح کرتے ہیں تو اس لئیے کہ وہ اسے دوسرے جانوروں کی طرح سمجھتے ہیں جن سے گوشت حاصل کیا جاتا ہے. ..
ہندوؤں نے اگر ایک ایسے معاملے کو جس میں قانون اور عقل کسی تقدس کی بات نہیں کرتے اپنے غیر فطری اور عقلی عقائد کی بنا پر توہین کا مسئلہ بنا رکھا ہے تو اس میں مسلمانوں کا کیا قصور؟
انسانی لاش کو ہی لے لیں کہ اس کی تقدیس کی عقل بھی گواہی دیتی ہے اور اس کو جلانا بھی عقلاً اس کی توہین ہے لیکن ہندو مذہب میں لاش جلانے کا عمل کسی توہین میں داخل نہیں سمجھا جاتا...
توہین اور تقدیس کی بات اگر عقل سے ہٹ کر ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنے والے کی اپنی ذات کے لئیے حجت ہوگی دوسرے سے اس کا مطالبہ اس کے عقل و عقیدے کی توہین کہلائے گا...
گائے کی توہین کی نوعیت توہین رسالت سے مختلف ہے
توہین کے لیے تخصیص چاہیے اور گائے کی تخصیص خلاف عقل ہے جبکہ رسالت کی تخصیص سے ہر شخص واقف ہے
اس کو یوں سمجھیے کہ توہین کے لیے ایسا معیار ہونا چاہیے جو سب کے نزدیک مسلم ہو
توہین کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں کہ جس کے معیار کا تعین کرنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت ہو
ہر شخص توہین سے واقف ہے
پوری دنیا میں گائے سمیت کسی بھی جانور کے ذبح کو کسی کی توہین خیال نہیں کیا جاتا بلکہ کسی کو وہم تک نہیں ہوتا کہ کسی مذہب کی توہین ہورہی ہے
اس کے بر عکس رسول اللہ کے لیے نازیبا الفاظ کے استعمال کا توہین ہونا ہر شخص کو تسلیم ہے
تو دونوں کی نوعیت ایک کیسے ہوسکتی ہے؟؟
پھر آپ دیکھیے کہ دنیا کے ہر مذہب میں انسان کو سب سے مقدس مخلوق سمجھا جاتا ہے اس کے باوجود کسی ایک انسان کے قتل کو کسی بھی مذہب کی توہین نہیں سمجھاجاتا
ہم مسلمان انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے مانتے ہیں کہ رسول اللہ انسان بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے
اسلام میں انسان کا تقدس گائے جیسے ہزاروں جانوروں سے زیادہ ہے
اس کے باوجود کبھی بھی کسی انسان کے قتل کو مذہب کی توہین کا رنگ نہیں دیا گیا
البتہ مذہبی توہین کا سوال تب پیدا ہوتا جب کسی خاص گائے کو قتل کیا جاتا جسے ہندو مقدس مان کر پوجا کرتے جیسے مقدس شخصیات کی توہین مذہبی توہین کہلاتی ہے
سکھوں کے گرونانک عیسائیوں کے مسیح یہودیوں کے موسی اور مسلمانوں کے آقا کی توہین مذہبی کہلائے گی
اس لیے کہ یہ عام انسان نہیں ان سے مذہب وابستہ ہے
اسی طرح خاص گائے کا ذبح جو بطور معبود معلوم ہو کی توہین مذہبی توہین کہلائے گی

اگر عمومیت کے ساتھ گائے کے ذبح کو توہین قرار دینا درست ہو تو کیا کاغذ کو قران کی نسبت سے مقدس ماننے کی وجہ سے پوری دنیا میں اس کا نامناسب استعمال توہین قرار پائے گا؟؟

یا فرض کیجیے گائے کی طرح دیگر جانور بھی مذہبی تقدیس کا رنگ اپنا لیتے ہیں تو کیا ہر جانور کے ذبح کو مذہبی توہین کے زمرے میں ڈالا جانا معقول ہوگا؟؟

مشرکین تو عام پتھروں کو بھی مقدس مانتے تھے تو کیا کسی بھی پتھر سے ٹائلٹ بنانا مذہبی توہین ہے؟؟
جواب منجانب۔۔۔محترم محمد طلحہ ایر،سہیل احمد،محمد عفان علی مغل،محمد طاہر رضا

مکمل تحریر >>

قرآن کی اآیت پر اعتراض اور اسکا جواب

قرآن کی اآیت پر اعتراض اور اسکا جواب


سوره نساء - آیت نمبر 78  (أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِ اللّهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُواْ هَـذِهِ مِنْ عِندِكَ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں  ہوگے موت تمہیں  آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو، اور اگر انہیں کوئی بھلائی  پہنچے توکہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ، اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ آپ کی طرف سے ہے۔ آپ فرما دیں: سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ پس اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے
سوره نساء - آیت نمبر 79
مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًا
جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو وہ تیری اپنی طرف سے ہے ، اور  ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ گواہی میں کافی ہے)
**** سوره نساء کی آیت نمبر 78میں  الله کہتا ہے کہ برائی یا بھلائی دونوں الله کی طرف سے ہیں اور نعوذ بااللہ الله کی یاداشت اتنی کمزور ہے کہ اس سے بلکل اگلی آیت میں ہی کہتا ہے کہ بھلائی الله کی طرف سے ہے اور برائی انسان کی اپنی وجہ سے ہے...
اپنے موقف کو تبدیل کرنا ہی تھا  تو کم از کم دو تین سورتوں کا ہی وقفہ ڈال لیتا ...نعوذ بااللہ کیا اللٰہ تعالٰی بھول گیا تھا کہ ایک جگہ کیا بات کی اور دوسری جگہ اسکے مخالف دوسری بات کی۔
///////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ


جواب۔۔۔۔

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين ، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ، وبعد، قال تعالی۔ مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے۔
پوسٹ کا سوال ایک بہت ہی معمولی سوال ہے جو کہ تقریباً ہر ملحد پوچھتا ہے۔

یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ دنیا میں جو کُچھ بھی ہو رہا ہے ، اچھائ یا برائ، وہ اللہ کی مشیت سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی مشیت کے بغیر اس دنیا میں ایک پتا بھی ہل جاۓ۔ یا اللہ برائ کو روکنا چاہے مگر نہ روک سکے۔ مگر اللہ نے انسانوں کو اچھائ کا حکم دیا اور برائ سے منع کیا ، اور وہ اچھائ سے خوش ہوتا ہے کفر سے نہیں۔ اللہ نے راہ بتا کر انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے کہ چاہے وہ نیک اعمال کرے چاہے بد۔ اس کو اس پر اختیار ہے۔ اس کا ظلم کرنا اللہ کا حکم اور ارادہ نہیں بلکہ اس کی وہ مشیت ہے جس پر اس نے اس کو اختیار کی مہلت دی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مغالطہ  “خدا کی مشیت و ارادے” اور “خدا کے حکم و رضا” میں فرق نا کرسکنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  جب کہا جاتا ہے کہ “سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے” تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر چیز خدا کی مشیت و ارادے کے تابع ہے، اچھائی ہو یا برائی ان میں سے ہر دو اپنی اثر  پزیری کیلئے خدا کے ارادے، مشیت و اذن ہی کی محتاج ہے، خود سے مؤثر نہیں۔

مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ‘اچھائی اللہ کی طرف سے نیز برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ تو اسکا معنی بھی یہی ہوتا ھے کہ اللہ نے اچھائی کا حکم دیا ہے اور وہ اس پر راضی ھے لیکن برائی کرنے کا اسنے حکم نہیں اور نہ ہی وہ اس پر راضی ھے۔ چنانچہ ‘اچھائی خدا کی طرف سے ھے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا کے حکم و رضا کے تحت ہے اور ‘برائی تمہارے نفس کی طرف سے ہے’ کا مطلب یہ ھے کہ خدا نے تمہیں اسکے کرنے کا حکم نہیں دیا لہذا یہ تمہارے اپنے نفس کی پسند ھے۔

اب برائی اللہ کے ارادے و مشیت سے اثر پزیر تو ھے مگر اس کے کسب  میں اسکا حکم اور رضا شامل نہیں اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال لیتے ہیں۔ ایک سپر سٹور کا تصور کریں جہاں ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ کھڑا اپنے بچے کو ھر شے کا فائدہ اور نقصان سمجھا رھا ھے۔ پھر اپنے بچے کو اچھی طرح بتا دیتا ھے کہ فلاں فلاں چیز کے انتخاب میں میں راضی ھونگا اور فلاں فلاں میں میں ناراض ھوجاؤں گا، لہذا تم پہلی قسم کی چیز کا انتخاب کرنا اور دوسری سے بچنا۔ پھر وہ بچے کو انتخاب کا حق دے دیتا ھے۔ اب بچہ سپر سٹور میں چاھے جس بھی شے کا انتخاب کرلے ان معنی میں باپ کے ارادے و مشیت سے ھے کہ انتخاب کا یہ اختیار بذات خود باپ ہی نے دیا ھے اور اگر باپ اسے یہ اختیار نہ دے تو بچہ اچھے یا برے میں سے کسی بھی شے کی چاہت نہیں کرسکتا (ماتشاءون الا ان یشاء اللہ کا یہی مفہوم ہے)۔ اگر بچہ وہ شے پسند کرے جس کا باپ نے حکم دیا اور جس پر وہ راضی ھے تو اب اس انتخاب میں باپ کے ارادے و مشیت کے علاوہ اسکی رضا و حکم بھی شامل ھوگیا اور اگر ایسی چیز کا انتخاب کیا جس سے باپ نے منع کیا تھا تو اس انتخاب میں اگرچہ باپ کا ارادہ و مشیت تو لامحالہ شامل حال ھوگی مگر اسکی رضا اور حکم نہیں۔
من جانب۔۔بنیامین مہر
مکمل تحریر >>

نادانستگی میں کی گئی قرآنی غلطیاں(نعوذ بااللہ) اور اسکا جواب

نادانستگی  میں کی گئی قرآنی غلطیاں(نعوذ بااللہ)
سوره المائدہ - 64   ( وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُواْ بِمَا قَالُواْ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُواْ نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود کہتے ہیں کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے ، ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور جو کچھ انہوں نے کہا اس کے باعث ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ فرماتا ہے، اور  جو آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کی گئی ہے یقیناً ان میں سے اکثر لوگوں کو  سر کشی اور کفر میں اور بڑھا دے گی، اور ہم نے ان کے درمیان روزِ قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اﷲ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ  زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا)
**** پتا نہیں یہ غلطی قران میں تحریف کرنے والوں سے بعد میں ہوئی نعوذ بااللہ یا براہ راست محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ہی ہوئی ،  بہرحال اس نے روانی میں اپنے الله کو انسانوں کی طرح دو ہاتھ عطا کر دئیے - اگر صرف ہاتھ کا ہی اشارہ ہوتا تو اسکو تمثیلی انداز سمجھا جاسکتا تھا مگر قران لکھنے والے نے تو کوئی ابہام ہی نہیں چھوڑا کہ خدا کی ہیت بھی انسان کی طرح ہی ہے.....
ایک بات تو اب ذہن نشین کر لینی چاہئیے کہ خدا دو ہاتھ رکھتا ہے.

//////////////////////////////////////////////////////////////////
اس اعتراض کا علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔جزاکم اللٰہ


جواب۔۔۔۔۔۔۔


خدا کی ہئیت انسان جیسی ہے یا نہیں یہ بحث اگر کسی کو چھیڑنے کا حق ہے تو اس کو هے جو خدا کے وجود کو تسلیم بهی کرتا ہو اور اسے خالقِ کائنات بھی مانتا ہو ورنہ ایسا شخص جس کے لئیے خدا کا وجود اور عدم ایک جیسا ہو اس کے لئیے خدا کے اعضاء هونے نہ هونے یا انسان کے مانند هونے یا نہ هونے کی بحث کا کیا مطلب؟
اعتراض یا سوال اگر کسی کا بنتا بھی هے اس بارے میں تو وہ ایک مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے یا اگر کوئی ملحد بھی کر سکتا ہے تو وہ بھی صرف اتنا پوچھ سکتا ہے (بطورِ وضاحت) کہ اس آیت کا مطلب آپ لوگ کیا بیان کرتے ہیں؟ کیونکہ جب ان کے ہاں وجود اور عدم وجود ہی برابر ہے تو اعضاء کا هونا کسی برائی میں شمار کرکے اس کی بناء پر تحریف قرآن کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کہ کہا جائے چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے چونکہ اعضاء نہیں هونے چاہیئں اس لئیے یہ قرآن مجید میں تحریف کہلائے گی..
ایک مسلمان اگر دوسرے مسلمان سے یہ سوال کرے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کا کیا مطلب ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کو خالق و معبود بھی مانتا ہے جبکہ اس سوال کا تعلق اللہ کی معرفت کے وضوح کے اس اگلے مرحلے کے ساتھ هے جس کو جانتے رہنے کی اس کو موت تک نصیحت کی گئی ہے...
اللہ تعالیٰ کو خالق قادر اور معبود واحد وغیرہ جیسے بنیادی عقائد  ماننے کا تعلق اس سوال سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اس مرحلے سے ہے کہ جو ذات ان صفات سے متصف ہے کیا وہ شکل و هئیت میں کسی انسان کی طرح ہے یا اس ذات کو کسی طور بیان کیا جاسکتا ہے؟
تو جب ایسا هے تو یہ سوال صرف کسی مسلمان کا مسلمان سے بنتا ہے کیونکہ اس نے معرفتِ الہی اور معرفتِ دین میں آگے بڑھنا هے...
باقی آیت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اعضاء کی تشبیہ کا جواب آسان ہے..
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا اس جیسا کوئی نہیں...لیس کمثلہ شئی اور ساتھ ساتھ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اعضاء کی تشبیہات موجود ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کوئی مسئلہ نہیں.. چونکہ مسئلہ وہاں پیدا هوتا هے جہاں سمجھ کا فقدان ہو کہ وہاں ہر دو بظاہر متضاد باتوں کا بتنگڑ بن جاتا ہے اگرچہ دونوں میں تطبیق کے کئی طریقے اور قرائن موجود ہوں..
ملحدین کے نزدیک یہ تضاد کا معاملہ تھا چونکہ وہاں عقل کی کمی تھی جب کہ مسلمانوں کے ہاں یہ دماغ پر زور ڈالنے اور دو باتوں کو جوڑ کر درست بات نکالنے کا معاملہ تھا چنانچہ علماء نے اس معاملے کی وضاحت میں فرمایا کہ اعضاء کی تشبیہ ہمارے لحاظ سے هے کہ ہمیں سمجھایا جارہا ہے ورنہ اللہ کی هئیت کی کیفیت کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں تو فرما دیا گیا ہے کہ اس جیسی کوئی شئی نہیں..
تو اتنی سی بات ہے کہ اعضاء جیسی تشبیہ ہمیں سمجھانے کے لئیے هے باقی اعضاء واقعی ہیں اور اگر ہیں تو کیسے ہیں اس کے بارے میں ہم اللہ کو کسی انسان جیسا ظاہر کرکے تحریف کا فضول دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا اس کے مثل کوئی شئی نہیں...
اس آیت میں اللٰہ تعالٰی یہود کا ایک خبیث قول نقل کر رہا ہے جو کہتے تھے کہ اللٰہ تعالٰی نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں یعنی کہ وہ بخیل اور فقیر ہے۔ان کا یہ مطلب اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ جکڑے جانے کا نہ تھا بلکہ اس سے وہ اللٰہ تعالٰی کو بخیل کہنا چاہتے تھے۔جیسا کہ عربی میں کسی شخص کو بخیل کہتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔فخاص نامی یہودی نے یہ کہا تھا اور اس کا دوسرا قول بھی تھا کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی فقیر اور ہم غنی ہیں جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے پیٹا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ شماس ابن قیس نے یہ کہا تھا۔چنانچہ اللٰہ تعالٰی نے بھی ان کے اعتراضات کا ان کے الفاظ میں جواب دیا اور فر مایا کہ اس کے ہاتھ کھلے ہیں یعنی وہ سب کچھ خرچ کرتا ہے۔اس کا فضل وسیع اور اس کی بخشش عام ہے۔
تفسیر ابن کثیر جلد دوم صفحہ 91،92
ابن کثیر نے اس آیت میں ہاتھ سے مراد اللٰہ تعالٰی کی طرف سے دنیا میں وسائل و رزق کی تقسیم قرار دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا سچ میں اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں؟
اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی سہی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں کیونکہ اس کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے۔وہ خالق ہے۔اور مخلوق اس جیسی اور وہ مخلوق جیسا نہیں ہو سکتا۔مخلوق خالق کی نقل ہوتی ہے لیکن خالق مخلوق کی نقل نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ یہاں ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا۔لازمی نہیں کہ یہاں حقیقت میں ہی ہاتھ مراد ہو۔صرف سمجھانے کے لیے استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اور اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم انسانوں جیسے نہیں۔اور بات یہ کہ اگر اللٰہ تعالٰی کے ہاتھ ثابت ہو بھی جائیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ نعوذ بااللہ اللٰہ تعالٰی کے وجود اور اس کی عظیم قدرت کا انکار ہوجائے گا۔خلاصہ یہ ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں جیسا کہ قرآن نے کہا اور ہاتھ کا لفظ استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ ابن کثیر نے اسکی تفسیر اللٰہ تعالٰی کی طرف سے رزق کی وسیع تقسیم اور سخاوت  سے کی۔اور اگر پھر بھی کوئ اس بات کو نہ مانے تو اس کے جواب کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللٰہ تعالٰی کے مثل کوئ نہیں۔اگر ا س کے ہاتھ ہیں بھی تو وہ ہم جیسے نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہاتھ کے مان لینے سے اللٰہ تعالٰی کی وسیع قدرت و طاقت کا انکار ثابت ہوتا ہے۔
Uncertainty principle کے مطابق کائنات کی ہر چیز دو پہلو رکھتی ہے۔ایک مادی اور دوسرا موجی۔اگر  خدا ایک ہاتھ رکھے تو وہ بھی ثابت اگر ایک مادی وجود سے بالاترہو جائے تو وہ بھی ثابت۔کسی طرح بھی اس کی قدرت و طاقت کا انکار سامنے نہیں آتا۔بات بس سمجھنے کی ہے۔

من جانب۔۔سہیل احمد،طلحہ ایر،احید حسن

مکمل تحریر >>

ملحدین و مستشرقین کے قرآن مجید پر اعتراضات اور ان کے جوابات (حصہ چہارم)

ملحدین و مستشرقین کے قرآن مجید پر اعتراضات اور ان کے جوابات
(حصہ چہارم)
سمتھ اپنی کتابMuhammad And Islam میں لکھتا ہے
"میں ببانگِ دہل دعوی کرتا ہوں کہ ایک دن عیسائیت کے سچے اصول اس بات کی گواہی دیں گے کہ قرآن اللٰہ تعالٰی کی کتاب ہے۔ایک رسمی تعلیم نہ رکھنے والے شخص یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے چناتاکہ وہ انسانیت کی طرف قرآن جیسی کتاب لائیں،ایسی کتاب جس نے تاریخ میں اپنے سے ہزاروں کتابیں اور مقالے پیدا کرائے،اس نے دنیا بھر کے کتب خانوں کو اپنے علوم سے نکلنے والی کتابوں سے بھر دیا اور بنی نوعِ انسان کے سامنے قوانین اور فلسفیانہ اور تعلیمی،دانشورانہ اور نظریاتی نظام پیش کیا۔محمد۔۔صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ایک ایسے ماحول میں جوان ہوئے جہاں تہذیب و علم کا کوئ نشان نہیں تھا۔پورے مدینہ میں صرف گیارہ لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور مکہ میں قریش کی تمام شاخوں میں سترہ سے زیادہ افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔قرآن کی تعلیمات جو کہ پہلی وحی میں علم و قلم کو بیان کرتی ہیں،عرب میں ایک زبردست تبدیلی لائیں۔اسلام نے علم کے حصول کو مذہبی فریضہ قرار دیا اور کتاب و عالم کے قلم کی سیاہ لکھائ کو شہید کے سرخ خون سے زیادہ افضل قرار دیا۔قرآن کی تعلیمات اور اس کے علم کی ترویج پر پھیلاؤ کا شکریہ کہ اس نے کئ ایسے اہل علم افراد پیدا کیے جہنوں نے بیشمار کتابیں لکھی۔کئ سائنسی تحقیقات قرآن سے اخذ کی گئ اور پوری اسلامی دنیا کے دانشوروں میں پھیل گئیں۔دنیا قرآن کے الفاظ اور اسلام کی ثقافت سے منور ہوگئ۔"
قرآن کے قدیم ترین نسخے جیسا کہ یورپ میں فرانس کےBibliotheque Nationale میں پیرس میں موجود نسخے جو کہ ماہرین کے مطابق نوین اور دسویں صدی عیسوی کے ہیں،وہ موجودہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔
کچھ غیر مسلم و ملحدین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عراق و مصر میں کچھ مساجد مکمل قبلے کی امت میں نہیں تھیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس زمانے میں سمت معلوم کرنے کے طریقے اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے۔جیسے جیسے سمت معلوم کرنے کے طریقوں نے ترقی کی،ان مساجد کے سمت قبلہ میں درستی لائ گئ۔ان کا اور اعتراض یہ ہے کہ بیت المقدس میں قبۃ الصخرہ جو  واقعہ معراج کی یادگار میں بنایا گیا اس پر معراج کی آیات کندہ کیوں نہیں تھیں۔اس اعتراض کا جواب بہت سادہ ہے کہ کیا صرف معراج کی آیات قبۃ الصخرہ پر کندہ نہ کرنے سے قرآن میں موجود معراج کی آیات کا انکار نہیں ہوجائے گا۔اگر عراق و شام کی کچھ قدیم مساجد کا قبلہ چند ڈگری یا درجے کعبہ سے مختلف ہے تو یہ محض سمت کی غلطی تھی کیونکہ اس زمانے میں سمت معلوم کرنے کے طریقے اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے مثلا یہ مساجد کعبہ کی سمت سے محض تیس سے چالیس ڈگری مختلف تھیں جو کہ اتنا زیادہ فرق نہیں اور سمت معلوم کرنے کے اس زمانے کے غیر ترقی یافتہ طریقوں میں اتنی غلطی ممکن تھی جو یہاں تک کہ آج بھی کچھ مساجد کی تعمیر میں ہو جاتی ہے۔جب سمت معلوم کرنے والے طریقوں نے ترقی کی تو ان مساجد کی سمت میں موجود غلطی کی اصلاح کر دی گئ۔اس مقصد کے لیے ملحدین و مستشرقین جس جیکب آف ایڈیسا کا حوالہ دیتے ہیں،وہ خود لکھتا ہے کہ مصری عرب 705میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔سمت میں تھوڑی سی کمی بیشی آج بھی مساجد کی تعمیر میں واقع ہوتی ہے۔اگر مسلمانوں کا مکہ کے علاوہ شمالی عرب میں کوئ اور کعبہ ہوتا تو اسے مورخین لازمی ڈھونڈ لاتے۔محض سمت کے تھوڑے سے فرق سے،جو اس زمانے میں لازمی تھا،کعبہ کو مکہ کی بجائے شمالی عرب میں قرار دینا انتہائ غیر منطقی ہے۔اس طرح سمتوں کے فرق سے خواہ وہ کسی شخص کی طرف سے اتفاقی یا حادثاتی ہو،قرآن کو غلط قرار دینا بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن نے کعبہ کو ہی قبلہ کے طور پہ منتخب کر دیا ہے۔اب کوئ یہ کعبہ تسلیم کرے یا نہ کرے،اس سے قرآن غلط نہیں ہوگا بلکہ اس شخص کا عمل غلط ہوگا۔جب کہ وہ لوگ حج کے لیے مکہ مکرمہ ہی جاتے تھے اور حج کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا مطلب یہی ہے کہ ان کے نشدیک قبلہ مکہ ہی تھا نہ کہ کوئ اور مقام۔ورنہ وہ لوگ اس دوسرے مقام کے حج کو جاتے۔
غیر مسلم و ملحد قبۃ الصخرہ کے بارے میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس پر کندہ کی گئ اسلامی تحاریر قرآنی اقوال ہیں جو کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی اور اسلام و مسلمان کی اصطلاح بیان کرتی ہیں لیکن ان پر معراج کی آیات کا تذکرہ نہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس قبۃ الصخرہ پر صرف معراج کی آیات کندہ نہ کرنے سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ کا تعلق معراج سے نہیں ہے جبکہ قرآن پارہ پندرہ سورہ بنی اسرائیل میں واضح طور پر معراج کا تذکرہ کر چکا ہے۔اب کوئ یہ آیات قبۃ الصخرہ پر کندہ کرے یا نہ کرے،اس کا معراج کے واقعے کے سچا ہونے سے کوئ تعلق نہیں اور نہ ہی واقعہ معراج کی سچائ کے لیے ان آیات کا قبۃ الصخرہ پر کندہ ہونا ضروری تھا۔اس زمانے کی مساجد کی سمت میں ہونے والی کچھ غلطی سے یہ کہنا غلط ہے کہ آٹھویں صدی کے اوائل تک مسلمان اپنا قبلہ بیت المقدس کو مانتے تھے جب کہ ان کی مساجد کا رخ بیت المقدس کی بجائے کعبہ کی طرف تھا،یہ اور بات ہے کہ سمت معلوم کرنے کے طریقے ترقی یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے سمت مینء تھوڑا فرق نہیں پہ پڑگیا تھا جو کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پڑ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ غیر مسلمین و ملحدین کی طرف سے یہودا نیوو جو کہ ہربریو یونیورسٹی آف یروشلم،اسرائیل کا پروفیسر تھا،کی شام و اردن کے کچھ صحراؤں میں چٹانوں پر کندہ کی گئ عربی تحاریر  پر تحقیق سے متعلق ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ابتدائی تحاریر میں یونانی و عربی تحاریر میں ایل خدا پہ ایمان رکھنے والے مذہب کا پتہ چلتا ہے لیکن اس میں قرآن و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ موجود نہیں اور یہ کئ سال بعد کی تحاریر میں آتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ ان علاقوں میں اسلام آہستہ آہستہ پھیلا اور جوں جوں مقامی آبادی مسلمان ہوتی گئ ویسے ویسے عربی ق مقامی تحاریر میں اسلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نمایاں ہوتا گیا۔محض چند چٹانوں کی تحاریر سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے تک نمایاں شخصیت نہیں تھی  اور اسلام ایک دوسرے وحدانیت کے قائل مذہب سے اخذ کیا گیا،بالکل غلط ہے کیونکہ ایک تو یہ تحاریر مقامی عربی و یونانی ہیں اور ان کا زمانہ 650ء کے بعد کا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی  610ء کے لگ بھگ یعنی ان تحاریر سے چالیس سال پہلے نازل ہوچکی تھی،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632ء یا 634ء میں قرآن مکمل ہوچکا تھا جب کہ یہ تحاریر بعد کی ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ تحاریر ان علاقوں میں تب نظر آتی ہیں جب اسکام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں وہاں غلبہ حاصل کیا،لہذا یہ بات سچ ہے کہ یہ تحاریر بذات خود اسلام سے اخذ کی گئ نہ کہ اسلام ان تحاریر سے اور جوں جوں اس علاقے میں اسلام کا اثر زیادہ ہوتا گیا،ان تحاریر میں قرآن و محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نمایاں ہوتا گیا۔لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے عالمگیر شخصیت نہیں تھے،ان کو راتوں رات یہ مقام کچھ مسلم حکمرانوں نے دیا۔
اس بارے میں دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قبۃ الصخرہ پر کندہ عربی تحاریر قرآن سے مطابقت نہیں رکھتی اور نعوذ بااللہ قرآن تبدیل ہوگیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب تحاریر قران کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ان میں عربی اقوال و اذکار بھی کندہ ہیں اور اس ساری تحریر کو قرآن قرار دے کے قرآن کو تبدیل شدہ قرار دینا غلط ہے۔قبۃ الصخرہ پر جو عربی تحاریر کندہ ہیں ان کا ترجمہ یہ بنتا ہے
S In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has
no associate. Unto Him belongeth sovereignity and unto Him belongeth praise. He quickeneth and He giveth death; and He has
Power over all things. Muḥammad is the servant of God and His Messenger.
SE Lo! God and His angels shower blessings on the Prophet.
O ye who believe! Ask blessings on him and salute him with a worthy salutation. The blessing of God be on him and peace be
on him, and may God have mercy. O People of the Book! Do not exaggerate in your religion
E nor utter aught concerning God save the truth. The Messiah, Jesus son of
Mary, was only a Messenger of God, and His Word which He conveyed unto Mary, and a spirit
from Him. So believe in God and His messengers, and say not 'Three' - Cease! (it is)
NE better for you! - God is only One God. Far be it removed from His transcendent majesty that He should have a son. His is all that is
in the heavens and all that is in the earth. And God is
sufficient as Defender. The Messiah will never scorn to be a
N servant unto God, nor will the favoured angels. Whoso scorneth
His service and is proud, all such will He assemble unto Him.
Oh God, bless Your Messenger and Your servant Jesus
NW son of Mary. Peace be on him the day he was born, and the day he dies,
and the day he shall be raised alive! Such was Jesus, son of Mary, (this is) a statement of
the truth concerning which they doubt. It befitteth not (the Majesty of) God that He should take unto Himself a son. Glory be to Him!
W When He decreeth a thing, He saith unto it only: Be! and it is.
Lo! God is my Lord and your Lord. So serve Him. That is the right path. God (Himself) is witness that there is no God
save Him. And the angels and the men of learning (too are witness). Maintaining His creation in justice, there is no God save Him,
SW the Almighty, the Wise. Lo! religion with God (is) Islam. Those who (formerly) received the Book
differed only after knowledge came unto them, through transgression among themselves. Whoso
disbelieveth the revelations of God (will find that) Lo! God is swift at reckoning!
In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has no
associate. Say: He is God, the One! God, the eternally Besought of all! He begetteth not nor was begotten. And there
is none comparable unto Him. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be on him.
SW In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God.
He is One. He has no associate. Muḥammad is the Messenger of God.
Lo! God and His angels shower blessings on the Prophet.
W O ye who believe! Ask blessings on him and salute him with a
worthy salutation. In the name of God, the Merciful
the Compassionate. There is no god but God. He is One. Praise be to
NW God, Who hath not taken unto Himself a son, and Who hath
no partner in the Sovereignty, nor hath He any protecting friend
through dependence. And magnify Him with all magnificence. Muḥammad is the Messenger of
N God, the blessing of God be on him and the angels and His prophets, and peace be
on him, and may God have mercy. In the name of God, the Merciful
the Compassionate. There is no god but God. He is One. He has no associate.
NE Unto Him belongeth sovereignty and unto Him belongeth praise. He quickeneth. And He giveth death; and He has
Power over all things. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be
on him. May He accept his intercession on the Day of Judgment on behalf of his people.
E In the name of God, the Merciful the Compassionate. There is no god but God. He is One.
He has no associate. Muḥammad is the Messenger of God, the blessing of God be
on him. The dome was built by servant of God ʿAbd
SE [Allah the Imam al-Ma'mun, Commander] of the Faithful, in the year two and seventy. May God accept from him and be content
with him. Amen, Lord of the worlds, praise be to God.
ظاہر ہے یہ سب الفاظ قرآن کے نہیں بلکہ عربی اقوال اور قرآن سے اخذ کردہ عربی تحاریر پر مشتمل ہیں جو کہ قرآن سے اخذ لیکن قرآن نہیں جب کہ کچھ تحریر خاص قرآنی الفاظ بھی ہیں۔اب جو کچھ غیر قرآنی تحاریر ہیں،ان کی بنیاد پہ یہ کہنا کہ قرآن غلط ہوگیا،بالکل غیر منطقی ہے۔قرآن جس کے طرز تحریر پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت کو جمع کیا،اس کے نسخے استنبول اور تاشقند یعنی ازبکستان میں موجود ہیں جو کہ سن تحاریر سے بھی پہلے کے ہیں اور ان قدیم قرآنی نسخوں کا موجودہ قرآن سے موازنہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جس کے طرز تحریر پہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پوری امت مسلمہ کو جمع کیا۔
قرآن خالص اللٰہ تعالٰی کا کلام ہے اور یہ کسی دوسرے  انسان یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر نہیں۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قرآن کا اسلوب حدیث سے مختلف ہے۔اگر قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر ہوتا تو دونوں کے انداز میں کوئ نہ کوئ مشابہت لازمی نظر آتی۔غیر مسلم و ملحدین کو یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ قرآن ہی واحد کتاب ہے جو آج تک زبانی و تحریری طور پر لگاتار نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے۔یہ اعزاز کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔صرف دمشق میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں دمشق کے قاضی یعنی جج کے مکتب میں ان کی غیر موجودگی میں چار سو اساتذہ قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔یہ قرآن کی نسل در نسل تعلیم و تحریر کا وہ سلسلہ تھا جس نے آج بھی اس کو اس کی اصل حالت میں موجود رکھا ہے۔قرآن کی یہ تحریر و یادداشت کا سلسلہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا کہ کیونکہ ہر رمضان میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ قرآن حضرت جبرائیل علیہ السلام کو سناتے تھے  اور ہر نماز و تہجد میں یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم نی قرآن حفظ کر لیا۔ان حافظ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم میں حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی،حضرت ابن مسعود،حضرت ابو ہریرہ،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص،حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہم شامل تھے۔اب یہ کہنا کہ جنگ یمامہ میں کافی حافظ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی شہادت کے بعد قرآن کا کافی حصہ ضائع ہو گیا تھا،غلط ہے کیونکہ حضرات خلفاء راشدین اور مکہ مدینہ میں موجود حافظ صحابہ کرام باحیات تھے جب کہ یہ جنگ یمن میں لڑی گئی تھی۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ اعلانیہ مکہ میں اپنے گھر کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم سے قرآن سنا کرتے تھے۔اس کے بعد خلفاء و دوسرے مسلم حکمرانوں کے دور میں پوری اسلامی دنیا میں قرآن کی تعلیم کے ادارے قائم کیے گئے جن کی تعمیر کا حکم پہلی بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں دیا تھا۔یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ صرف مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قرآن کی تعلیم دینے والے افراد کی تعداد دو ہزار تک جا پہنچی تھی اور یہ سلسلہ آج بھی پوری اسلامی دنیا میں زور زور سے جاری ہے۔صرف امریکا کے شہر شکاگو میں اس وقت چالیس سے زیادہ مساجد ہیں جہاں پابندی سے قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔
(مضمون ابھی جاری ہے)
مکمل تحریر >>

کیا حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کا پیدا ہونا جھوٹ ہے

کچھ لوگ  کہتے ہیں کہ آدم کی بائیں پسلی سے حوا کا پیدا ہونا جھوٹ ہے۔ہم انہیں کہتے تھے کہ خدا کے لیے سب ممکن ہے مگر وہ نہیں مانتے تھے۔اب سائنس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ اکیلے مرد یا عورت سے بچے پیدا کیے جاسکتے ہیں۔درج ذیل تحقیق پڑھیں۔

بیجنگ حیاتیاتی سائنس نے جب اتنی ترقی کرلی کہ جانوروں کی کلوننگ (نر اور مادہ کے ملاپ کی بجائے صرف نر یا مادہ سے بچے کی پیدائش) شروع ہوگئی تو کچھ اہل علم پر یہ خوف بھی طاری ہوگیا کہ ایک نا ایک دن یہ سائنسی تکنیک انسانی کلوننگ کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ اب یہ خوف سچ ثابت ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ متعدد سائنسدان انسان کی کلوننگ کے عزائم کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ چینی سائنسدان شوشیاﺅچون بھی ان ماہرین میں شامل ہیں کہ جو انسانی کلوننگ کا عزم رکھتے ہیں، بلکہ انہوں نے تو یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ انسانی کلوننگ کے لئے درکار تمام ٹیکنالوجی تیار کرچکے ہیں اور اس متنازعہ عمل کے لئے تیار ہیں۔
ان کے تحقیقاتی ادارے بویا لائف گروپ کو دنیا کی سب سے بڑی کلوننگ فیکٹری قرار دیا جاتا ہے جو کہ سال 2020ءتک سالانہ تقریباً دس لاکھ گائیں کلوننگ کے ذریعے تیار کررہی ہوگی۔ شو شیاﺅ چون کا کہنا ہے کہ گائے، کتے اور گھوڑے وغیرہ کی کلوننگ تو محض ایک آغاز ہے کیونکہ ان کا ادارہ عنقریب بندر کی کلوننگ کرنے والا ہے، جس کے بعد انسان کی کلوننگ میں کوئی مشکل باقی نہیں رہے گی۔
شوشیاﺅ چون کا کہنا ہے کہ ان کے پاس انسانی کلوننگ کے لئے ٹیکنالوجی تیار ہے، وہ صرف اس کے اخلاقی اور قانونی پہلوﺅں کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں، اور اگر انہیں معاشرے کی طرف سے ردعمل کا خدشہ ناہوتو وہ اب کسی بھی وقت انسانی کلوننگ کرسکتے ہیں۔ 44سالہ سائنسدان کا کہنا ہے کہ اس وقت تو وہ انسانی کلوننگ نہیں کررہے لیکن معاشرتی اقدار اور اخلاقی اصول تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ایک دن انسانی کلوننگ کی بھی اجازت دے دی جائے۔
شوشیاﺅ چون کہتے ہیں کہ اس وقت انسان کے پاس اولاد پیدا کرنے کے لئے صرف ایک آپشن ہے کہ بچے کے نصف جینز ماں سے اور نصف باپ سے آئیں، جبکہ کلوننگ تین مختلف آپشن فراہم کردے گی، یعنی یا تو عورت اور مرد مل کر اولاد پیدا کریں، یا صرف اکیلا مرد اولاد پیدا کرے، یا مرد کے بغیر صرف عورت اپنے خلیات سے اولاد پیدا کرلے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف انسانی کلوننگ کی اجازت ملنے پر ہی ممکن ہوپائے گا۔


مکمل تحریر >>

معروف مسلمان پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین

وزیر اعظم نوازشریف نے معروف مسلمان پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فار فزکس اور فیلو شپ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دیدی۔
تھوڑی سا نظر تاریخ پر ڈالتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام نے 70کے عشرے کے اوائل میں پاکستان میں فزکس میں تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا خیال پیش کیا تھا۔ جس کی منظوری اُس وقت کے پاکستان ایٹمک انرجی کمیشن کے چئیرمین نے دی تھی۔ جس کے لئے حکومت پاکستان نے فنڈ مختص کیا، اور کئی سال تک پلاننگ ہوتی رہی۔ اسی دوران 1974میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ جس کے بعد فوری بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے انتقاما ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ دیا۔ اور پاکستان میں فزکس کی تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا تمام پلان اور اس حوالے سے ہونے والی تمام منصوبہ بندی کا ریکارڈ بھی ساتھ لے گئے۔ اور انہوں نے پاکستانی حکومت کے پیسوں سے ہونے والی منصوبہ بندی کو استعمال کرتے ہوئے اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھئیریٹکل فزکس کے نام سے تحقیقی ادارہ قائم کر دیا۔ جس سے وہ آخر دم تک وابسطہ رہے۔

دوسری جانب پاکستان میں ایک مرتبہ فنڈز مختص ہونے کے باوجود جب تحقیقاتی ادارہ نہ بن سکا تو دوبارہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ لیکن اس کا بیڑا ڈاکڑعبدالسلام کے پائے کے ہی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین اٹھایا، اور شبانہ روز محنت نے بالآخر پاکستان میں بین القوامی معیار کا تحقیقاتی ادارے کی تخلیق کا خواب سچ کر دیکھایا۔ جس کا نام نیشنل سنٹر فار فزکس رکھا گیا۔ اس تحقیقاتی مرکز کا معیار اتنا اعلیٰ ہے کہ یورپی تنظیم برائے جوہری تحقیق 'سرن'سمیت فزک کے اکثر اداروں کی ممبر شپ اسے حاصل ہو گئی۔ ڈاکٹر ریاض الدین نے نہ صرف یہ ادارہ قائم کرنے کے لئے دن رات محنت کی، بلکہ وہ دم آخر تک اس ادارے سے وابسطہ رہے۔ اسی لئے ڈاکٹر ریاض الدین کی وفات کے بعد نیشنل سینٹر فار فزکس کا ںام ڈاکٹر ریاض الدین نیشنل سنٹر فار فزکس رکھ دیا گیا۔
جسے آج وزیر اعظم نے تبدیل کر کے اسے ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دی ہے۔

قائداعظم یونیوسٹی کے ایک دوست سے پوچھا کہ نام کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ اُس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ریاض دنیا کے صف اول کے سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعمل مسلمان بھی تھے۔ پانچ وقت باجماعت ادا کرنے کی وجہ سے وہ اکثر تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اسی لئے وہ فزکس کی دنیا میں گراں قدر خدمات کے باوجود گمنام رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم تحقیقاتی مرکز کا کسی باعمل انسان سے منسوب ہونا آج کی دنیا میں قابل قبول نہیں ہے۔

ڈاکٹر ریاض الدین صاحب کا تفصیلی تعارق یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Riazuddin_(physicist)
بہ شکریہ
مہتاب عزیز
مکمل تحریر >>