Thursday, 18 October 2018

کیا قرآن کا واقعہ نوح علیہ السلام اور طوفان نوح بابل کی قدیم تہذیب اور بائیبل سے لیا گیا ہے؟قرآن پر ملحدین و مستشرقین کے ایک سنگین اعتراض کا جواب

کیا قرآن کا واقعہ نوح علیہ السلام اور طوفان نوح بابل کی قدیم تہذیب اور بائیبل سے لیا گیا ہے؟قرآن پر ملحدین و مستشرقین کے ایک سنگین اعتراض کا جواب
تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن
مستشرقین و ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی  دنیاوی عمر یہودی و عیسائی بائبل سے مستعار لی گئی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کا یہ کشتی نوح والاواقعہ یہودی بائبل میں قدیم سمیری یعنی تہذیب بابل کی ایک نظم "رزمیہ گلگامش" سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اسمیں اور ابراہیمی ادیان (یہودیت، عیسائیت، اسلام) والے طوفان نوح میں بہت  مماثلت پائی جاتی ہے نیز ابراہیمی ادیان کے علاوہ دیگر قدیم مذاہب، تہذیبوں، علاقوں میں بھی طوفان نوح اور کشتی نوح سے ملتی جلتی داستانیں موجود ہیں نعوذ بااللہ۔یہ بات ایک انتہائ اہم حقیقت سے نابلد ہونے کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔اگر کوئ حقیقت عالمگیر ہو تو اس کا بیان بھی عالمگیر ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں کر لیتے ہیں لوگ۔یہی کچھ واقعہ نوح علیہ السلام کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ جب نسل انسانی میں سے صرف چند انسان اس طوفان سے محفوظ رہے تو انہوں نے یہ کہانی اپنی اولادوں کو سنائ۔اس طرح ان کی نسل جیسے جیسے پوری دنیا میں پھیلی یہ کہانی بھی ان نسلوں کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گئ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے تبدیلی کر لی لیکن ان سب واقعات میں ہمیں ایک مشابہت ملتی ہے۔ایک بہت بڑے  عالمی سیلاب کی کہانی جس میں خدا سزا کے طور پر ایک تہذیب کو سیلاب سے تباہ کر دیتا ہے،ہمیں دنیا کی اکثر تہذیبوں میں ملتی ہے۔یہ کہانی کچھ فرق کے ساتھ مغربی ایشیا،یورپ ،افریقہ،یہاں تک کہ یورپ اور قدیم براعظم امریکہ کی تہذیبوں میں بھی ہمیں ملتی ہے۔یہ کہانی پتھر کے زمانے یا Neolithic periodکے آثار میں بھی ماہرین آثار قدیمہ کو ملی ہے جس کا عرصہ 10200 سے 4500 یا 2000 قبل مسیح تک کا ہے۔مزید برآں اس طرح کی کہانی ہمیں کانسی کے زمانے یعنی 3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح کے زمانے کے آثار قدیمہ میں بھی ملتی ہے۔
ایک عظیم سیلاب کی کہانی ہمیں افلاطون کی بک lll, تائیمیس..Timaeus اور کریٹاس...Critias...  میں بھی ملتی ہے۔
اس طرح کی ایک کہانی ہمیں 1600  اور 2100_2000قبل مسیح کی سمیری یا قدیم بابلی زبان میں لکھی گئی تختیوں میں بھی ملتی ہے۔ماہرین کے مطابق خود رزم گلگامش بابل نے قدیم سمیری تحریر سے اخذ کی۔اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ و یورپ میں مقیم لوگوں نے بھی یہ کہانی بابل سے لی تو ایک صاحب دانش انسان اس کو کیسے قبول کرے گا جب کہ بابل کی واقعہ نوح کے بیان کی  تاریخ محض تین سے پانچ ہزار سال پرانی ہے جب کہ امریکہ میں آبنائے بیرنگ کے راستے سے انسان آج سے دس سے پندرہ ہزار سال پہلے پہنچ چکے تھے۔اس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں قوم و مذہب نے یہ کہانی فلاں قوم سے لی۔یہ سب کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ نوح علیہ السلام کے نام سے موجود ایک انسان حقیقی طور پر زمین پر موجود تھے اور یہ واقعہ ایک ہی ماخذ سے لیا گیا ہے یعنی ان لوگوں سے جو نوح علیہ السلام پر ایمان لائے اور اس کے عینی شاہد تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق نوح علیہ السلام بابل کے قدیم بادشاہوں میں سے تھے جن کا زمانہ آج سے 18 ہزار سے 65 ہزار سال پہلے تھا جب کہ کچھ لوگ اور عرصہ بتلاتے ہیں۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوحؑ ؑکی قوم اُس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آ رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی بنا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر، ہندوستان کی ہندو تہذیب اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آ رہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھا دیا۔
اور اگر یہ محض ایک علاقائی طوفان کا بیان ہے تو یہ کہانی انسانیت کی تمام بڑی نسلوں میں کچھ فرق کے ساتھ کیوں پائ جاتی ہے۔اگر کوئ کہتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ باقی انبیاء کی اقوام کو بھی طوفان کی سزا ملی ہو تو وہ اندازے لگانے کی بجائے اس کا ثبوت پیش کرے۔
کچھ مسلمان اور اکثر منکرین حدیث کہتے ہیں کہ یہ طوفان علاقائی تھاکیا منکرین حدیث قرآن میں "علاقائی" طوفان کا کوئی ذکر دکھا سکتے ہیں؟
اصول یہ ہے کہ اگر قرآن نے کسی "تخصیص" کا ذکر نہیں کیا ہے تو واقعہ کو عام رکھا ہے، تو ہم کون ہوتے ہیں جو زبردستی اپنی طرف سے واقعہ کو کسی چیز سے "مخصوص" کر دیں؟
اگر قرآن ذکر کر رہا ہے "تمام جانوروں کے جوڑے" جمع کرنے کا تو پھر یہ حکم "عام" ہے، تو پھر آپ منکرین حدیث اسے اپنی طرف سے کسی علاقے تک پھر مخصوص کرنے والے کون ہیں؟
حدیث کو پرویزی یعنی نام نہاد قرآنسٹ اور حقیقت میں منکرین حدیث مانتے ہی نہیں، ساری عمارت فقط قیاس پر قائم ہے، تو پھر بحث اور دلیل کی کوئی گنجائش ہی کہاں؟
(مہوش علی mohaddisforum.com)
اگر طوفان نوح مقامی تھا تو سب جانداروں کے جوڑے کیوں سوار کیے گئے نسل مٹنے سے بچانے کے لیے کیوں کہ جاندار تو پوری زمین پر جاندار تو اور جگہ بھی تھے۔اور ایک کشتی بنانے کی کیا ضرورت تھی اگر طوفان نوح مقامی تھا۔اور حضرت نوح علیہ السلام باقی انبیاء کی طرح عذاب والے علاقے سے ہجرت کر جاتے اگر یہ طوفان محض مقامی تھا۔اور نوح علیہ السلام نے قرآن کے مطابق یہ کہا کہ یا اللٰہ تعالٰی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑ۔اس کا مطلب ہے کہ پوری زمیں پر تھا۔صرف اسی انسان اگر بچے جو ایمان لائے تو ہمیں یہ فرض کرنا پڑے گا کہ اس زمانے میں انسان صرف موجودہ عراق کے علاقے میں آباد تھے جہاں نوح علیہ السلام نے تبلیغ کی اور زمین پر کوئ انسان نہیں تھا۔
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Sumerian_creation_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Gilgamesh_flood_myth
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Genesis_flood_narrative
https://en.m.wikipedia.org/wiki/List_of_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Ancient_Greek_flood_myths
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Noah_in_Islam
http://www.inzaar.org/2015-سوال-و-جواب-جولائی-abu-yahya-ابویحییٰ/
(طوفان نوح کے سائنسی شواہد پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی پوسٹ میں کروں گا)

مکمل تحریر >>

طوفان نوح پر ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات اور طوفان نوح کی سائنسی وضاحت قسط نمبر دوم

طوفان نوح پر ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات اور  طوفان نوح کی سائنسی وضاحت قسط نمبر دوم

ملحدین کے پیشوا ارشد محمود اور دانیال تیموری کو جواب کیا لکڑی سے بنی کشتی نوح اپنے مسافروں کے لیے اتنے بڑے سیلاب میں محفوظ تھی؟کشتی نوح کی پائیداری کا سائنسی تجزیہ
******************************
دو عیسائ سائنسدانوں ایس ڈبلیو ہانگ،بی ایس ہائیون،ایس وائے ہانگ،کے جے ہانگ نے کشتی نوح کی عظیم عالمی سیلاب میں پائیداری کے حوالے سے ایک سائنسی تحقیق کی کہ لکڑی سے بنی یہ کشتی کس طرح اپنے مسافروں کے لیے اتنے بڑے طوفان اور زبردست ہواؤں میں محفوظ تھی۔ان کے مطابق کسی بھی کشتی کو سفر کے لیے  لازمی عوامل محفوظ ہونا اور قیام پذیر ہونا ہوتے ہیں۔انہوں نے اس حوالے سے کشتی نوح کے بائبل میں بتائے گئے اعدادو شمار کے ساتھ اس کے محفوظ ہونے اور اتنے بڑے سیلاب میں قیام پذیر ہونے پر تحقیق کی۔انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کشتی نوح تیز ہواؤں اور موجوں میں بھی اپنے مسافروں کے لیے بالکل محفوظ تھی۔انہون نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ کشتی تیس میٹر یعنی نوے فٹ بلند لہروں میں آسانی سے چل سکتی تھی اور یہ تیز سمندری لہروں کے مقابلے میں مزاحمت رکھتی تھی۔
    بائبل کے مطابق کشتی کی لمبی 135 میٹر یعنی 405 فٹ،چوڑائی 23 میٹر یا 69 فٹ،اور بلندی 14 میٹر یا 41 فٹ تھی اور پانی کی کثافت جسے یہ دھکیل رہی تھی 1.025 ٹن فی کیوبک میٹر تھی اور اس پر اندازہ مجموعی وزن 17016 ٹن تھا۔یہ لہروں کی مزاحمت کی وجہ سے کم رفتار سے حرکت کر رہی تھی۔اس لیے اس پر رفتار کا اثر معمولی تھا۔یہ فریم اور لکڑی کی پلیٹوں سے تعمیر کی گئ ہوگی۔یہ فریم لمبائی،چوڑائی اور گولائی میں لگائے گئے ہوں گے اور ان سے پلیٹوں کو منسلک کیا گیا ہوگا اور اس کا سمندری نمونہ بہترین تھا۔ اس طرح یہ اتنے زبردست  طوفان میں بغیر ڈوبے آسانی سے تیرتی رہی۔اس کی مزید سائنسی تفصیل کے لیے فزکس سے آگاہی رکھنے والے ساتھی یہ پوری تحقیق اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں
 http://creation.mobi/safety-investigation-of-noahs-ark-in-a-seaway
کچھ موجی سینکڑوں فٹ بلند ہوں گی اور جیٹ کی رفتار سے آرہی ہوں گی لیکن کشتی محفوظ طریقے سے اس سیلابی پانی میں تیرتی رہی۔ملحدین سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ملحدین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدا کو نہیں مانتے۔جب ایک خدا پر ایمان لایا جائے تو پھر یہ سب سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔خدا ہے ہی وہی جو سب کر دکھائے۔جو سب نہ کر دکھائے وہ خدا کیسے ہوا۔
    اس کی مزید سائنسی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ کشتی 405 سے 450 فٹ لمبی اور 75 فٹ چوڑی تھی جو کہ 6:1کی نسبت بنتی ہے۔یہی نسبت آج بھی بحری انجینئر بحری جنگی جہاز بناتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی لمبوتری شکل سے اس میں موجود جگہ بہت زیادہ ہوگئ ہوگی اور اسے موجوں کے درمیان قیام پذیر رکھنے میں معاون ثابت ہوئ ہوگی۔
     آج تک تعمیر کی جانے والی لکڑی   سے بنی سب سے بڑی کشتی 360 فٹ لمبی تھی اور یہ سمندری سفر کے قابل نہیں تھی جس کا مطلب ہے کہ لکڑی سے کشتی کی تعمیر کے لیے نوح علیہ السلام کو اللٰہ تعالٰی کی طرف سے کچھ اضافی ہدایات دی گئ ہوں گی۔اس کی لمبائی چوڑائی اور بلندی کی نسبت 30*5*3 تھی جو کہ انجینئرز کے مطابق بحری جہازوں کی تعمیر کے اعلٰی علم کی عکاسی کرتی ہے اور یہ اس پیغمبر کے لیے ناممکن نہیں جس کو خود اس مقصد کے لیے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے ہدایات دی جارہی ہوں۔اس کا اندرونی حجم پندرہ لاکھ اٹھارہ ہزار سات سو پچاس کیوبک فٹ ہوگا۔
برطانوی مصنف فریڈرک فلبی لکھتے ہیں
"کچھ لوگوں کے نزدیک یہ کشتی اس وقت کی انسانی ذہن کی حد سے آگے کی چیز ہے لیکن قدیم تہذیبوں کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ممکن ہے جیسا کہ مصر  کے اہرام جو کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے بھی بہت پہلے تعمیر کیے گئے۔ان اہرام میں دوٹن وزنی دوملین پتھر کے بلاک استعمال کیے گئے ہیں۔ Colossi of Memnon مصر کی اٹھارہویں سلطنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے ہر بلاک کا وزن 400 ٹن ہے اور یہ چھ سو میل کی دوری سے لائے گئے۔اس کا مطلب ہے کہ قدیم  انسان بڑے بڑے کام انجام دے سکتا تھا۔"
لہذا اگر قدیم زمانے میں یہ سب ممکن ہے تو نوح علیہ السلام کی کشتی کی تعمیر ممکن کیوں نہیں جو بغیر ڈوبے تیرتی رہے لیکن ملحدین کی عقل پر حیرت ہے کہ اہرام مصر کی حیرت انگیز تعمیر کو مان لیتے ہیں جب کہ کشتی نوح کا انکار کر دیتے ہیں جو کہ بغیر ڈوبے اتنے بڑے سیلاب میں کئ ماہ تیرتی رہے۔
اللٰہ تعالٰی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
(جاری ہے)
قسط نمبر ایک کا لنک
https://m.facebook.com/groups/186560831534965?view=permalink&id=644541105736933

قسط نمبر دوم کے حوالہ جات:
http://www.ldolphin.org/cisflood.html
https://www.icr.org/article/7158/
http://creation.mobi/safety-investigation-of-noahs-ark-in-a-seaway
http://apologeticspress.org/apcontent.aspx?category=13&article=1413

مکمل تحریر >>

طوفان نوح پر ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات (قسط نمبر ایک) طوفان نوح کی سائنسی وضاحت ملحدین کے پیشوا ارشد محمود اور دانیال تیموری کو جواب ترتیب و تحریر۔۔۔ احید حسن

طوفان نوح پر ملحدین کے اعتراضات اور ان کے جوابات (قسط نمبر ایک)
طوفان نوح کی سائنسی وضاحت
ملحدین کے پیشوا ارشد محمود اور دانیال تیموری کو جواب
ترتیب و تحریر۔۔۔ احید حسن
************************************************
سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔
قرآن پاک کا متن بالکل واضح ہے کہ یہ پوری دنیا طوفان سے آنے والے سیلاب میں ڈوب گئی تھی، اور دنیا میں کوئی انسان اور کوئی جانور زندہ نہیں بچا تھا سوائے ان انسانوں اور جانوروں کے جو کہ کشتی میں سوار تھے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
سورۃ الشعراء، آیت 119 اور 120:
  پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں (سوار) تھے نجات دے دی.   پھر اس کے بعد ہم نے باقی ماندہ لوگوں کو غرق کر دیا۔
(سورۃ ہود، آیات 40 اور 41): 
یہاں تک کہ جب ہمارا حکمِ (عذاب) آپہنچا اور تنور (پانی کے چشموں کی طرح) جوش سے ابلنے لگا (تو) ہم نے فرمایا: (اے نوح!) اس کشتی میں ہر جانور میں سے (نر اور مادہ) دو عدد پر مشتمل جوڑا سوار کر لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (لے لو)
سورۃ یونس، آیت 73:
انہوں  نے اسے جھٹلایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اسے اور اُن لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے، بچا لیا اور انہی کو زمین میں جانشین بنایا اور ان سب لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا پس دیکھ لو کہ جنہیں متنبہ کیا گیا تھا۔
اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے:
(سورۃ الصافات، آیات 75 تا 82) :  اور بیشک ہمیں نوح نے پکارا تو ہم کتنے اچھے فریاد رَس ہیں۔   اور ہم نے اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو سخت تکلیف سے بچا لیا۔   اور ہم نے فقط اُن ہی کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔   اور پیچھے آنے والوں (یعنی انبیاء و اُمم) میں ہم نے ان کا ذکرِ خیر باقی رکھا۔ سلام ہو نوح پر سب جہانوں میں۔ بیشک ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے (کامل) ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کردیا۔
 حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر القرآن (7/22) میں لکھتے ہیں: "علی ابن ابی طلحہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ: سوائے نوح کی نسل کے اور کوئی باقی نہ بچا۔ اور قتادہ نے بھی یہی بیان دیا ہے کہ آج تمام لوگ صرف نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔"
۔۔۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے نقل کیا ہے: " اور نوح علیہ السلام کے ساتھ جتنے مسلمان  سوار تھے، اللہ نے ان میں سے کسی کی نسل کو بھی آگے نہیں بڑھایا اور صرف نوح کی نسل آگے بڑھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ (اور اس (نوح) کی نسل کو ہم نے بچا لیا۔ سورۃ الصافات 77)۔
چنانچہ روئے زمین پر آج جتنے بھی انسان بس رہے ہیں، وہ نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں سام، حام اور یافث کی نسل سے ہیں۔"
بہت سی آیات کے ظاہر  سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کسی خاص علاقے کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری زمین پر رونماہوا تھا کیونکہ لفظ ”ارض“ (زمین) مطلق طور پر آیا ہے:
رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا
خداوندا! روئے زمین پر ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دے کہ جن کے بارے میں اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے ۔ (نوح: ۲۶)
اسی طرح ہود کی آیہ ۴۴ میں یوں ہے:
وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ۔۔۔۔
اے زمین اپنا پانی نگل لے
بہت سی تواریخ سے بھی طوفان نوح کے عالمگیر ہونے کی خبر ملتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ تمام نسلیں حضرت نوح (علیه السلام)کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولادمیں سے ہیں جو کہ زندہ رہے تھے ۔
طبیعی تاریخ میں سیلابی بارشوں کے نام سے ایک دور کا پتہ چلتا ہے، اس دور کو اگر لازمی طورپر جانداروں کی پیدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھے تو وہ بھی طوفان نوح پر منطبق ہوسکتا ہے ۔
جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) کوفہ میں رہتے تھے دوسری طرف بعض روایات کے مطابق طوفان مکہ اور خانہ کعبہ تک پھیلا ہوا تھا تو یہ صورت بھی اس بات کی موید ہے کہ طوفان عالمگیر تھا۔
 سیلاب کا مقصد نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق زمین کے تمام کفار کا خاتمہ تھا لہذا یہ سیلاب عالمی تھا۔اگر یہ مقامی تھا تو زمین کے اور مقامات کے کفار یا نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ بھاگ کر کہیں اور جان بچا لیتے۔مزید برآں کشتی نوح کی اتنی بڑی جسامت جس پر زمین کے سب جانداروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرنا ہو،ایک مقامی طوفان کی بجائے ایک عالمی طوفان کے لیے ہی ہوگی۔کشتی کا مقصد مستقبل میں جانوروں کی بڑھوتری  اور حوا کے لیے کچھ جانور محفوظ کرنا تھا،یہ تب ہی ممکن ہے جب سیلاب پوری دنیا میں ہو۔یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پوری زمین کے جانور نوح علیہ السلام کے علاقے یعنی قدیم میسوپوٹیمیا اور موجودہ عراق میں تھے جن کو بچانے کے لیے انہیں کشتی پر سوار کیا گیا۔اگر سیلاب مقامی تھا تو جانوروں کو کشتی پر سوار کرنے کی بجائے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جا سکتا تھا۔اگر یہ سیلاب مقامی تھا تو نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والے بجائے ایک کشتی پر سوار ہونے کے کسی محفوظ علاقے کی طرف ہجرت کر سکتے تھے جیسا کہ باقی انبیاء کو عذاب سے پہلے اللٰہ تعالٰی کی طرف سے علاقہ چھوڑ دینے کا حکم ہوتا تھا۔پھر کیوں کئ سالوں کی محنت سے یہ کشتی تعمیر کرائ گئ۔یہ ساری باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سیلاب مقامی نہیں بلکہ عالمی تھا۔
دنیا کے کئ علاقوں کے لوگوں میں ایک عالمی سیلاب کی کہانی ہزاروں سال سے نسل در نسل چلی آرہی ہے جو کہ ظاہر کر رہی ہے کہ یہ واقعہ حقیقت میں رونما ہوا تھا۔جدید علم آثار قدیمہ یا آرکیالوجی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تہذیب کی ابتدا کوہ اراراط اور بابل یعنی موجودہ عراق کے آس پاس ہوئ۔یورپ کے کئ بادشاہوں کی نسل نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث سے ملتی ہے۔انسانی آبادی میں اضافے کے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ آج سے پانچ سے سات ہزار سال قبل انسانی نسل مٹنے کے دہانے پر آگئ تھی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کچھ انسانوں یعنی نوح علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کے سوا سارے انسان فنا ہوگئے تھے۔
تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ ارضیاتی رسوب کی تہیں یا Sediment beds میں کوئ تغلیظی شکستگی یا Compression fracture نہیں ہے جس کا مطلب ہے یہ تب اپنی شکل میں آئیں جب یہ نرم اور گیلی تھیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ بالکل ممکن ہے۔
مختلف ارضیاتی عرصوں یا جیالوجیکل ایجز کی چٹانوں کی طبعی خصوصیات ایک جیسی ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک عالمی وقوعے جیسا کہ ایک عالمی سیلاب سے ہوئ۔رسوبی چٹانیں کم عرصے میں بنی جو کہ ایک عالمی سیلاب سے بالکل ممکن ہے۔
ہر طرح چٹانیں تمام ارضیاتی عرصوں میں پائ جاتی ہیں جو کہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ عالمی سطح پر اکٹھے بنی اور ان کا اکٹھے تشکیل پانا ایک عالمی سیلاب میں رسوبی امتزاج سے ہوسکتا ہے۔
زمینی چٹانوں کے اشعاع پیمایانہ عرصوں یا Radiometric ages  اور رکازی عرصوں یا Palaoentological ages میں ٹھیک تعلق نہیں پایا جاتا جو کہ ایک عالمی طوفان سے ممکن ہے۔
زمین کے کئ مقامات پر فوسل یا رکاز کی مجموعی اور کثیر تعداد میں موجودگی ان جانوروں کے ایک عالمی آفت میں اکٹھے ہلاک ہونے کی  دلالت کر سکتی ہے۔
سمندری فوسل بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھی پائے گئے ہیں جس کا واضح مطلب ایک عالمی سیلاب کے ذریعے ان جانوروں کا وہاں پہنچنا ہے۔
مختلف عرصوں کے رکاز یا فوسل یعنی ماضی کے مردہ جانوروں کے آثار اکثر اکٹھے ملتے ہیں جس کی وجہ ایک عالمی سیلاب ہو سکتا ہے۔
کئ تہوں میں پائے جانے والے فوسل یا رکاز جو کہ پوری زمین پر پائے جاتے ہیں،ایک عالمی واقعے جیسا کہ سیلاب کی وجہ سے بے ہنگم مدفن کو ظاہر کرتے ہیں۔یہ تب بھی بن سکتے ہیں جب آب زدہ لکڑی پانی کے بہت بڑے ذخیرے میں ڈوبتی ہے جو کہ ایک عالمی سیلاب سے ممکن ہے۔
ارضیاتی کالم سے شہابیے  غیر موجود ہیں۔اگر یہ ہر سال زمین پر بہت تعداد میں گریں تو یہ سب رسوبی چٹانوں میں موجود ہوں جب کہ کچھ چٹانوں میں ان کی غیر موجودگی کا مطلب کسی چٹانی سطح کا ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ایک ہی وقت میں بنیاد پانا ہوسکتا ہے۔
کچھ صحرائی علاقوں میں جدید آبی ذخائر کی موجودگی ایک عالمی سیلاب کی علامت ہوسکتی ہے جہاں سے پانی ابھی مکمل طور پر خشک نہیں ہوا۔
پوری دنیا میں پہاڑوں پر بلندی تک موجود پانی کے نشانات ایک عالمی سیلاب کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔
آبی شہادت یا Hydrological Evidenceرسوبی چٹانوں کی تیزی سے بنیاد پزیری کو ظاہر کرتی ہے۔لہذا یہ تیزی سے بنیاد پزیری ان کی ایک عالمی سیلاب سے بنیاد کو ظاہر کر سکتی ہے۔
آبی تجربات یا Hydrological Experiments کہ بہتے ہوئے رسوب خود بخود مختلف تہوں میں بیٹھ جاتے ہیں لہذا ان  چٹانی سطحوں کی وضاحت ایک عالمی سیلاب سے آسانی سے کی جا سکتی ہے۔
پوری دنیا میں سیلابی مٹی کے گہرے مجموعے اور رسوبی چٹانیں ایک عالمی سیلاب کے عین مطابق ہیں۔
زمین میں کہیں بھی پورا ارضیاتی کالم ایک واحد ساخت کے طور پر ملنا ناممکن ہے بلکہ یہ ٹکڑوں میں ملتا ہے جس کے کئ ٹکڑے مسنگ ہوتے ہیں۔ایک عالمی سیلاب سے یہ عین ممکن ہے۔
درج بالا مذہبی،منطقی و سائنسی دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ زمین پر ایک عالمی سیلاب کسی طرح بھی منطق اور عقل کے خلاف نہیں۔اس طرح ملحدین کا قرآن پاک و مذاہب پر اعتراض درحقیقت سائنسی شواہد و امکانات کو جھٹلانے کی کوشش ہے۔ملحدین جس سائنس سے طوفان نوح اور دیگر مذہبی احکامات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں،بعد میں وہی سائنس انہی احکامات و واقعات کو ممکن مانتی ہے۔درج بالا سائنسی شواہد طوفان نوح کو سائنسی طور پر بالکل ممکن ثابت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
حوالہ جات۔۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Flood_geology
www.islamqa.com
 http://unmaskingevolution.com/18-flood.htm

مکمل تحریر >>

ملحدین کے اعتراضات کے جوابات کے لئے وزٹ کریں ہمارا گروپ و پیج

السلام علیکم!
وہ تمام بھای جو اسلام کے بارے میں ملحدین و کفار کے اعتراضات کے جوابات چاہتے ہیں درج ذیل کتابیں ڈاون لوڈ کر کے پڑھیں

اس لنک پر کتابیں ڈاون لوڈ کریں

https://ia601909.us.archive.org/11/items/AitrazatKeJawabatFinal/Aitrazat%20ke%20jawabat%20final.pdf

https://ia601501.us.archive.org/9/items/ReligionPhilosophyAndScienceFinal/Religion%20Philosophy%20and%20Science%20final.pdf

https://ia601502.us.archive.org/2/items/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism/the-divine-reality-god-islam-the-mirage-of-atheism.pdf

http://islamiclab.blogspot.com/2015/09/rad-e-shubhat-mulhadeen.html
دوسرے لنک پر موجود کتاب کا کوڈ beneyameen ہے۔
مزید اعتراضات کے جوابات کے لیے ہماری سائٹ الحاد ڈاٹ کام کا مطالعہ فرماتے رہیں۔http://ilhaad.com

اسلام پر ملحدین و کفار کے مزید اعتراضات کے جوابات کے لیے پمارا فیس بک گروپ
سائنس فلسفہ اور اسلام
آپریشن ارتقائے فہم و دانش
فیس بک پیج قرآن و احادیث پر ملحدین و مستشرقین کے اعتراضات کے شافی جواب
فیس بک پیج مذہب،سائنس اور فلسفہ
فیس بک پیج سائنس فلسفہ اور اسلام
میں شمولیت اختیار کریں۔پھر بھی کوئ اعتراض ہو تو ہمارے فیس بک گروپ آپریشن ارتقائے فہم و دانش میں وہ سوال پوسٹ کریں۔
اللٰہ تعالٰی مجھے اور آپ سب حضرات کو ہمیشہ اسلام پر رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔آمین۔

یہ پوسٹ پوری فیس بک پر پھیلا دیں۔اپنی فرینڈ لسٹ کے ہر دوست کو شیئر کریں
Copy,paste and put it on your wall,share to all friends,all of your groups...
 یہ پوسٹ کاپی پیسٹ کرنے اور اپنی وال پر لگانے کی بھرپور اجازت ہے
مکمل تحریر >>

ارتقا کا دھوکا قسط نمبر دوم تحریر۔۔۔ ہارون یحییٰ

ارتقا کا دھوکا
قسط نمبر دوم
تحریر۔۔۔ ہارون یحییٰ
====================================
وہ اتفاق کی کڑیاں جن کے اوپر یہ ممتاز پروفیسران یقین رکھتے ہیں اسقدر غیر منطقی دلیلیں ہیں کہ جن کو سن کر دوسرے لوگ حیرت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان پروفیسران کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ سادہ کیمیائی اجزاءکے ملنے سے نامیات وجود میں آئے۔ یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ الفاظ خود بہ خود کہیں سے جمع ہوکر ایک نظم کی شکل اختیار کرگئے۔ پھر پے در پے دوسرے اتفاقات سے دوسرے نامیات وجود میں آئے۔ یہ تمام نامیات اس طرح منظم طریقے سے ملتے گئے کہ انہوں نے کروموسوم، رائیبونیوکلیک ایسڈ، خامرہ، ہارمون اور خلیوں جیسی پیچیدہ اشکال اختےار کر لےں۔ ان پیچیدہ اشکال نے مزید اندھے اور معجزاتی اتفاقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خلیئے کو تشکیل کردیا۔ یہ اندھا اتفاق یہاں پر نہیں رکا بلکہ یہ خلیئے پھر خود بہ خود ہی ضرب ہوتے ہوتے پہلے جاندار کی شکل اختیار کرگئے۔ اس ایک جاندار کی صرف ایک آنکھ کے وجو میں آنے کے لئے کروڑوں ناممکن واقعات کا پیش آنا لازمی تھا۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہاں پر بھی اندھے اتفاقات کا پورا پورا ہاتھ ہے مثلاََ اس ایک آنکھ کا سر کے چوکھٹے میں مناسب جگہ پر فٹ ہونا اور پھر کھوپڑی میں دو صحیح پیمائش کے سوراخوں کی موجودگی جس میں آنکھیں بہترین طریقے سماجائیں وغےرہ وغےرو۔ ےہ تمام اندھے اتفاقات تھک سکتے ہیں لیکن پھر بھی وہ جانداروں سے متعلق کسی حوصلہ افزا وجوہات کو پیش نہیں کرسکتے۔

اتفاقات صرف ان چیزوں کو بنانے میں پیش آسکتے ہیں جن کے بارے میں وہ جواب دہ ہوں۔ اتفاق کو کیسے پتہ تھا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا اور سانس لینا کیا ہوتا ہے جب کہ اس وقت زمین پر کوئی جاندار ان حرکات کے عملی ثبوت کے طور پر موجود ہی نہیں تھا؟لےکن اتفاق نے روئے زمین پر کسی جاندار کے نہ ہونے کے باوجودزندگی کے بارے میں مکمل علم اور دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جانداروں کے متعلق ہر عمل اور قدم کو نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھایا۔ یہ ساری دلیلیں اور جانداروں کے متعلق منظر کشی مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ اس منظر کشی میں نامور اساتذہ، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ناموں کا شامل ہونا ان کی عزت کو گھٹادیتا ہے جوکہ ایک بچکانہ ضد کی طرح ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ان کی رام کہانیوں پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں اور الٹا ان ہی لوگوں پر غیر سائنسی اور متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے درمیان اور ان کٹر، شدت پسند اور جاہل قرونِ وسطیٰ ذہنیت رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو اپنے دور میں لوگوں کو صرف اس لئے سزا کا مستحق ٹھہراتے تھے کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ مزےد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریہ¿ ارتقاءپر یقین رکھنے والے لاتعداد لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ پر یقین کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ’ اﷲ نے تمام زندگی تخلیق کی ہے‘

ایک غیر سائنسی فقرہ ہے اور اس کے برعکس وہ اس بات پر زیادہ آسانی سے یقین کرلیتے ہیں کہ جاندار نسلیں ہوش و حواس سے بیگانہ ایک ایسے طریقے کار سے وجود میں آئیں جوکہ کروڑوں اندھے اتفاقات کا مرکز ہے۔ ےہ دوسری صورتحال ان کے نزدیک زیادہ سائنسی اور جدید ہے۔اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک لکڑی کا بت رکھ دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس بت نے کمرے میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا ہے تو وہ اس بات کو صریحاً فضول قراردیتے ہوئے اس پر یقین کرنے سے مطلق انکار کردیں گے ۔لیکن افسوس کہ یہ لوگ اس دعوے کو ایک زبردست سائنسی جواز سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں جاندار نسلیں جو کہ شاندار اور غیر معمولی نقشوں کا نشان دیتی ہیں وہ دراصل اتفاق جیسے بے شعور عمل کا نتیجہ ہیں۔

یہ لوگ اتفاق کو خد اکا درجہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشمند ‘ باشعور اور اتنا طاقتور واقعہ ہے کہ یہ کائنات کے نازک توازن اور اس میں موجود ہر جاندار کو وجود میں لانے کا اہل ہے۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ دراصل اﷲ نے اپنی وسعت ِعلم و فراست، طاقت اور مرضی سے تمام کائنات اور اس میں موجود جانداروں کو پیدا کیا ہے تو یہ ارتقائی پروفیسران اس حقیقت کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ بے شعور، بے عقل اور بے جان اتفاقات ہی اس کائنات اور جانداروں کے پےچھے تخلیقی طاقت ہیں۔ ان پڑھے لکھے ٬ ہوشمند اور عقلمند لوگوں کا اس طرح کے غیر منطقی دعوے کرنا ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح ایک خلیہ سے پیدا ہوا جاندار اﷲ کا معجزہ ہے اسی طرح ان لوگوں کا اس معجزے سے ہٹ دھرم انہراف بھی ایک طرح کا معجزہ ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی شان ہے کہ جس بات کو چھوٹے چھوٹے بچے بھی درست ماننے سے انکار کردیں اور مذاق میں اڑادیں اس کو ارتقائی پیروکار ایک دین اور خدائی کا درجہ دینے پر مصر ہیں۔یہ کتاب اس معجزے سے پردے اٹھانے کی کاوش ہے۔یہ نظریہ¿ ارتقاءکو اس کی اصلیت میں پیش کرتی ہے اور وہ اصلیت یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات کی رو میں یہ نظریہ¿ مکمل طور پر زمین بوس ہوچکا ہے۔ نظریہ ڈارون ایک عظیم دھوکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کی منطق اور جواز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو اپنے تمام ہٹ دھرم حمایتیوں کو بے عزت کردیتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
مکمل تحریر >>

ارتقا کا دھوکہ تحریر۔۔۔ہارون یحیی قسط نمبر ایک

ارتقا کا دھوکہ
تحریر۔۔۔ہارون یحیی
قسط نمبر ایک
===================================
کچھ لوگوں کےلئے نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون کا مفہوم صرف سائنسی ہے جس سے ان کی زندگی پرکوئی خاص یا براہِ راست اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ نظریہ ارتقاءصرف ایک حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں رہنے والا مسئلہ نہیں بلکہ مادّیت جیسے پر دھوکہ فلسفہ کی بنیاد ہے جو لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہا ہے۔ مادیت فلسفہ صرف مادے کو پہچانتا ہے اور انسانی وجود کو صرف مادے کا ڈھیر تصور کرتا ہے۔ اس فلسفے کے حساب سے انسان ایک جانور سے بڑھ کر اور کچھ نہیں جس کے زندہ رہنے کا واحد طریقہ جنگ یا تنازع ہے۔ مادّیت کو اگرچہ ایک ترقی یافتہ سائنسی فلسفے کے طور پر فروغ دیا گیا ہے لیکن دراصل مادیت ایک قدیم اور غیر سائنسی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کی تخلیق قدیم یونان میں ہوئی تھی اور اس کو اٹھارویں صدی کے دہرےہ فلسفہ دانوں نے بازیافت کیا۔ یہ عقیدہ انیسویں صدی میں کئی سائنسی شاخوں میں کارل مارکس، چارلس ارون اور سگمنڈفرائڈ جسے مفکروں نے داخل کردیا۔ لیکن یہ داخلہ ہرگز انسانی فلاح کے لئے نہیں تھا بلکہ ان مفکروں کے اپنے خیالات کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ سائنس کو مسخ کرکے مادّیت کے لئے جگہ دی گئ۔
نظریہ ارتقاءیاڈارون اس موقع پر اس پہیلی کو حل کرنے میں کام آتا ہے کیونکہ اس نظریے کے مطابق مادیت ایک سائنسی خیال ہے۔ اسی لئے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت کے بانی کارل مارکس نے اپنے عالمی جائزے کے لئے لکھا ہے کہ نظریہ¿ ڈارون قدرتی تاریخ کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ بنےاد درحقیقت ایک گلی سڑی بنیاد ہے کیونکہ جدید سائنسی دریافت اور تحقیقات نے بارہا ثابت کردیا ہے کہ ڈارون کے نظریے اور سائنس کے مابین یہ مقبول تعلق سراسر جھوٹ ہے۔
کارل مارکس کارل مارکس
کارل مارکس نے اس بات کو واضح کردیا کہ نظریہ ڈارون مادہ پرستی اور اشتراکیت کی ٹھوس بنیاد ہے- ڈارون سے اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف تصور کی جانے والی کتاب ”ڈاسکیپیٹا“ کو بھی ڈارون کے نام وقف کردیا۔ کتاب کی جرمن اشاعت میں اس نے لکھا ہے۔ ”ایک وفادار مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لئے“
سائنسی تحقیق نظریہ ڈارون کو تفصیلاً غلط ثابت کرتی ہے اور بار بار اس حقیقت کو باور کراتی ہے کہ جانداروں کا وجود تدریجی ترقی سے نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے واقع ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار اور انسان کو پیدا کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد اس حقیقت کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ترکی میں ہوئی اور اس کے بعد سے کئی ممالک میں لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا اور سراہا ہے۔ ترکی زبان کے علاوہ یہ کتاب انگریزی، جرمن، اتالوی، ہسپانوی، روسی، چینی، لوسنین، عربی، آلبینین اردو، ملائے اور انڈونیشین زبانوں میں مترجم ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیٹ کے اس پتے سے مفت پرنٹ کیا جاسکتا ہے: www.evolutiondeceit.com کتاب ارتقائی دھوکے کے مخالف نظریات رکھنے والے افراد بھی معترف ہیں۔
اس کے مصنف ہارون یحییٰ نیوسائنٹسٹ رسالے کے مضمون برننگ ڈارون، یا ڈارون کاجل جانا کا موضوع تھے۔ اس مشہور رسالے کی ۲۲ اپریل ۰۰۰۲ کی اشاعت نے ہارون یحییٰ کو ایک عالمی ہیرو کا خطاب دیتے ہوئے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کی کتابیں اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئی ہیں۔ سائنسی دائروں کے مشہور جرےدے سائنس نے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے نمایاں اثرات اور تصنع کو خاص طور پر سراہا ہے۔ اس جریدے کے 18 مئی 2001 ءکے مضمون یورپ اور ایشیاءکے ملاپ پر تخلیق کی جڑ، کے مطابق ترکی میں ہارون ےحےیٰ کی کچھ کتابیں مثلاََ ’ ارتقائی دھوکہ اور نظریہ ڈارون کاسیاہ چہرہ‘ ملک کے کچھ حصوں میں نصابی کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگئی ہیں۔ اس مضمون کا مصنف مزید یہ بھی کہتا ہے کہ ہارون یحییٰ کی کتابوں نے شمالی امریکسے باہر دنیا کی مضبوط ترین خلافِ ارتقاءتحریکوں کی بنیاد ڈالی ہے۔اگرچہ یہ تمام سائنسی جریدے ارتقائی دھوکے کے اثرات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کتابوں میں موجود بحث کا کوئی سائنسی جواب دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےلئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاءایک مکمل تعطل کا شکار ہے اور اس کا ثبوت اس کتاب میں واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں گے کہ نظریہ¿ ڈارون ایک سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیم سائنسی عقیدہ ہے جو کہ اختلافی تردید اور کھلی تردید کے باوجود فقط مادیت کے سہارے کھڑا ہے۔ ہماری امید ہے کہ ےہ کتاب لمبے عرصے تک ان تمام مادیت پسند نظریہ ڈارون کے عقیدوں کی تردید کا کام انجام دیتی رہے گی جو کہ انیسویں صدی سے اب تک انسانیت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان عقیدوں کی تردید کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کو ان کے خالق کی پہچان کروانے کے علاوہ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی اہم ذمہ داری بھی باور کروائے گی۔

جاری ہے۔۔
مکمل تحریر >>

الحاد کے خلاف سب سے بڑی ویب سائٹ الحاد.کام کی اینڈرائڈ اپپ تیار ہو چکی ہے آپ سے گزارش ہے کہ اس لنک سے ڈونلوڈ کر لیں . شکریہ

الحاد کے خلاف سب سے بڑی ویب سائٹ الحاد.کام کی اینڈرائڈ اپپ تیار ہو چکی ہے آپ سے گزارش ہے کہ اس لنک سے ڈونلوڈ کر لیں . شکریہ

http://app.appsgeyser.com/3598016/ilhaad
مکمل تحریر >>

کیا مال غنیمت لوٹ مار کا مال ہے؟مال غنیمت کے حوالے سے اسلام پر ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب تدوین و ترتیب۔۔۔ڈاکٹر احید حسن


مکمل تحریر >>

ترکی کے معروف اسکالر جناب ہارون یحییٰ نے ڈرون کے نظریہ ارتقا کے رد اور کائنات میں بکھری اللہ کی نشانیوں پر بہت عمدہ کتابیں

ترکی کے معروف اسکالر جناب ہارون یحییٰ نے ڈرون کے نظریہ ارتقا  کے رد اور کائنات میں بکھری اللہ کی نشانیوں پر بہت عمدہ کتابیں لکھی ہیں۔ان کی کتابیں اردو میں بھی دستیاب ہیں۔ہم یہاں پر ان کی تمام اردو کتابوں کے لنک دے رہے ہیں۔جو بھائی ڈاون لوڈ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔اللہ کی معرفت اس کی نشانیوں سے کرنے کے لیے بہت ہی عمدہ کوشش ہے۔
1۔ اللہ کی نشانیاں (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Allah-ki-Nashaaniyaan.pdf?token=AWz__A2eoBMfqpSAxrAHKd84rE5BVQn3uwKCmQLNjRLU6BZEPVF6UL5aOyeRn0-OechFvdDBoQ-LggKwwK6BFx7mDSae6o7Syep5bZ27ETAcbhXbHZKDPtQoDWEGqzOu7pXCXuLs_qzebmpz7xjMdhXPvETF2kLCLmveIjQv31dZ8wFR3u8SVHaNdEYdDxEmuNg
2۔ اللہ کی کاریگری تفصیل سے (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Atlas_of_creation_v1_urdu.pdf?token=AWwzfOcgAJOpk9FYJVZuXnATanEKva0WSnSQDbgQIz1Lzr7c7dzjQZBCqD5nhLVpoxm4aP2fPFzHIzrs57JW6h_sWgE3JHK0nT3Xp55zYNG-DaZ_7JgbS0CE_bydqpoUbA1ZWhvQ9sCXMyXMVo_CtV7U8CYh1L0N0rkwiTmwRf77hS_KW3GFVTP9IUWJ23x1ZnM
3۔ نقشہ تخلیق (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/art_of%20detail_urdu.pdf?token=AWxjWGYGkIKhjDJvducoaqmhzyR0XlWbw_XdgIjxy6zjqrmcIChoqskdeE7kwXvWDcujLdiIqaofbu7J2oMNCqyInu-HuoFii2XPT7XPi-ODBu9hEZbu9J_SOGdoFlneaR4yPrZYFkV62NRujI186hbjwa_WhKo5F-Mvtm3pvMrrpQ
4۔ مسایل جن کو سمجھنے میں ڈارونسٹس ناکام رہے (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/darwinists_fail_to_consider.pdf?token=AWzvYD4RrrPStw-b5qglHTPYd4Ck2IIkxhbzfjgJqU72SFegj28IFr5-kh4lqE1fZkb2jZ6hkb4Xi-kmeMWBlJbPlNe-iE_i_lULOuSG04QyI4JCEIHTK5m0P_xOBeJA_nodAnjZFbijDU_3mwq_9KpwI3XbtZUyjiY-uKQIsCoI9g
5۔ ڈارون کی روح سے متعلق غیر یقینی (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/darwins%20dilemma%20soul.pdf?token=AWyWDUS1k5sT46-21JrnWgokxCBaFC4iXShnj5UZKFZX6rqNl08A_97Zlu9u3t3nwAlmuycRkPJ2ohG6jBCcpvNx_ebbsyUq-6xEsq8-AZMUjYAKcqVsEKeuimobdNHLg2FyuWqHJJtt9Hob_s6MlEgUjhmLq3g3N_GMZyF0ZWrt5Q
6۔ دنیا اور اس کی حقیقت (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Dunya-Aur-Us-Ki-Haqeeqat.pdf?token=AWzw0zMu-_ghkRUKd3iDR433C7MZC-EcSKmS20ZBy1pZykvif7U2_CRqyDRVC82GuVdq2lpdLGvOEdnfl8CMS9oIMNgjTkrHoahuqUTqFGL2XcHauPSRv13obOIoIcJdJiIcFoLLD08m5nJ3x-BOGgpPt_OfGsWueKTzVRwNS6Peog
7۔ ایک معجزاتی مشین جو ایک ساری زندگی کے لیے کارگر ہوتی ہے –اینزائم (لنک): https://lookaside.fbsbx.com/file/enzyme%20miracle.pdf?token=AWwYdfYunNXBUqPhikxgbqo3TPxCadCyhbSaAUuQiafJcPyltkP390Z6VQjuPJzlH6s6Pm8dEcoET_3WiU-r7rezqbRrMGmmxwlfaI0H2isBj61cjqgFCJ2K0esPC5YIc2rZFMXWYKI9zPru7HZBNVzE2O7TXmIPHrz8FiE2-ipzew
8۔ سچائی کی جستجو (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/EVER%20THOUGHT%20ABOUT%20THE%20TRUTH_urdu.pdf?token=AWzO8MNfb4qQ7FckCLgGkp6rGLGDhzwywLWNN1eOZ_BOl5-IiruXSbo_6_olA456tU_oPTk1knPehKBr-b_sbmH5MK5NiwxWXxCCr_11KKGed_aWHG8mdAu87LEpM3KXUMXycNN45NeDljIa8R32dk0W3-9cimyqVmLEEJcHvWkM3g
9۔ کائنات نظریہ وقت اور تقدیر (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Kainat%2C%20Nazria%20waqt%20Aur%20Taqdir.pdf?token=AWw1sgRjvA6yhF_hBWKMd208IGR7nnINXrRZeMrtctD18GpYEb0DD6OfNUDyiDX5jMP9CIUO5fD3QK_YuRM6oR9wwHw_-qmu2z1fC9RlV78L0WItde6mYdlRo9QUHfeCC-VusKE1YfISscqMRfcHAqh_nJd0Iha4XbhfwnCoYUs6gw
10۔ اللہ کی محبت (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Love_of_Allah.pdf?token=AWyg5HJY_v6mt2zgsvJE6ejjMRaj-Cf9xB2qsd-RCGv44eENiasRsXbdg1lBKU2a1maUnmFCJAPzX1Z2CofiIcyqotJWu7zGoSkjAtkYt_VzxacYpfO_3JDrjXLCv9pmG7S6iBJnQ1qsgVWs55oOyk2WLuSJiPYFc99vskHa-Ck-Tg
11۔ نظریہ ارتقاہ ایک فریب (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/Nazria-Irtaqaa-Ik-Faraib.pdf?token=AWyTvoc31bwr8YtDkLjkSDkVIZbDlmGaYR_awuTbuuH4N-EpXsUH1ErTtN8CMfViLghWj4ZsxEe2vi1fclqYvK098XNI44rUIoLTxDnTPcfPFasOXJGLMP0_0PeAbEsf_j_cIAl-1g067ZJeZmV5E8wg4ZSiOhvMnINZLTdY4r2pHQ
12۔ ہمیشہ یاد رکھو (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/never_forget_urdu.pdf?token=AWyfVV2SG98-Wg3Au9EOGY-ldtbeenDfDk9_dRtflJ_RDAmb-EQdNi04ZBGIjTzieEnk692YdWr1JLacoSAo9BXw7n2_DTUIWq9e9bjnztgk55dFbs_RAOcVV_0G65Sy1MKhK5-1DoyPFePE_4pHOg8D0RfssK9pZw1r-Bft8RoflA
13۔ تباہ شدہ اقوام (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/perishednation.pdf?token=AWynuO-svks2ee17JoEubNtJSHUfEuk9h2hImz6baIF2WAcfKlVM1RZCPwFUh6qF3D3t_yS_A3fJ5I_hPfatBlRVpZ5Zj-L71kBnh5BKSH39Zl2fSTvWg5xAZe9E-imTyt-cd36BjqmW8iJ7a0OcsR6IgNKe4ni_ghVmjA1C00gs-g
14۔ کہانیاں ، سوچنے اور سمجھنے والے بچوں کے لیے (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/stories_for_thinking_children_urdu.pdf?token=AWz7U8fTYQ-v617WdQlU5WCyVYtK42vH6iax8ISGcl3ll4pYc5DshuZDIlmJhJsQKGRFc3CQvT6twHRH5mtSUBLFcrSRaKVkzc19BV2oEpWy5h0Y45qf50pwVk-0VCGpR_N6uFxkKpVTvXeBJxQgy0VFrtMVNniLllaE2knXRTC1XA
15۔ انسانی جسم ایک معجزہ (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/the%20human%20miracle.pdf?token=AWw_b154Ka3yekfAcVNYCvCBJsA_Y7NPeN96paIktKNdXi3y1X58xdkCgO66K7BIm_hEA2ZicmfyDjWA96kRF6S5iMpRJxxwTomms2z2ZOFhvGPwWRMjgzMmT__GNNIdHNekrBXYu3bBXUNFGCaDy7SAObYNf8fC0ai6_h2WhWsdag
16۔ انسانی جسم میں برق کامعجزہ (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/The%20Miracle%20of%20Electricity.pdf?token=AWwsG13vuTz_FDNeZ6z5s_VXJ0Vek91OFhUW-jAZkmMvaS-Ndl2HFexqDzCffP5AMIchbzTkNK7HKv5PqwfaCubcyyafgdSPIEY3P0PWK12SN2EXdrDJlZIOUAu44S2UKmY1-kxE4hNjxvqFFB0rYTbiAXHwoY5ivuICs92KDrpLuA
17۔ انسانی جسم میں تحفظاتی نظام کا معجزہ (لنک):
https://lookaside.fbsbx.com/file/The%20Miracle%20of%20the%20Immune%20system.pdf?token=AWyiL3rVR0Ttwu7aNmL6Y2d5CtnnNR
مکمل تحریر >>

Tuesday, 16 October 2018

نظریہ ارتقاء اور پلٹ ڈائون مین

نظریہ ارتقاء اور پلٹ ڈائون مین

ترتیب و اضافہ : عامر خان نیازی

برطانوی مفکر چارلس رابرٹ ڈارون (1809-1882) جو کہ ڈاکٹر کا بیٹا اور ایک بیالوجسٹ تھا بنیادی طور پر خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے دور میں نظریہ ارتقاء پر ایک کتاب On the origin of Species  تحریر کی تھی جس میں اس نے اپنی تحقیقات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہر جاندار نے درجہ بدرجہ ترقی کر کے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل اختیار کی ہے اس کے مطابق مثال کے طور پر زرافے نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے ہی رفتہ رفتہ 'خودبخود' لمبی کی تھی وہ کہتا تھا کہ انسان نے بھی بن مانس سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل حاصل کی ہے اس کے نزدیک بندر (چمپیزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پاوں اوپر اٹھائے تھے جس بنا پر وہ جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کے جسموں سے گھنے بال کم ہونا شروع ہو گئے تھے جو کہ سب کچھ خود بخود ہی ہوتا چلا جا رہا تھا اور پھر اگلے ہی مرحلے میں ان کے چھوٹے سے دماغ میں بڑی سے عقل نے نمو پانا شروع کر دیا چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا تھا کہ انسان کے آباواجداد اپنی اصل میں بندر (لنگور) تھے اس نے اپنی زندگی میں اس بات پر زور دیا کہ انسان پہلے 'بندر نما انسان، پھر انسان نما بندر، اور آخرکار مکمل 'انسان' بن سکا ہے.
ڈارون کے اس نویلے انکشاف نے سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد کو گویا ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اس پر بلاتردد ایمان رکھنے لگے تھے جیسا کہ آج بھی حیرت انگیز طور پر مذہب بیزار اتھیسٹ ازم کا پجاری ملحد، یہودی،ربی،بنجامن بلیخ طبقہ جو خود کو تو اعلی تعلیم یافتہ گردانتے ہیں لیکن اس ترقیاتی یافتہ دور میں بھی اس بات پر کامل ایمان رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لنگور کی اولاد ہیں پر زبان سے خود کو برملا بندر کی اولاد کہنے سے اب بھی ہچکچاتے ہیں.
رابرٹ ڈارون جو بظاہر مذہبی لگاو رکھتا ہے اور وہ اپنے نظریہ کی تائید میں یہ سوال کرتا ہے کہ " ہمیں تورات کی جانب دیکھنا چاہیئے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھلاتی ہے؟ وہ کہتی ہے کہ موجودہ دنیا اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک نمودار ہو سکی ہے" جبکہ بنجامن سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ "خدا نے تخلیق کائنات کا جب منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن اس نے 'دن رات' کو جنم دیا تھا پھر دوسرے دن 'آسمان' کی پیدائش کی تھی تیسرے دن اس نے 'خشک زمین' کو جنم دیا تھا چوتھے دن 'سورج اور چاند تاروں' کی تخلیق کی پانچھویں دن 'پانی اور مچھلیوں کی تخلیق اور آخری چھٹے دن 'انسانوں اور چوپایوں' کی تخلیق کی تھی "
ربی،بنجامن سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے؟ (jewish History and culture، امریکا ،ص 38-39)
ویسے اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے.
ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریہ خود بخود سے متفق نظر آتے ہیں پھر یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے آتے ہیں یعنی وہ اس معاملے میں مقدس کتابوب کو بھی نہیں بخشتے!
ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریہ کی تشہیر ہوتی رہی جو کہ اپنی اصل الہی تخلیق آدم و حوا علیہ السلام کو چھوڑ کر انہوں نے خود کو باآسانی بن مانسوں اور لنگوروں کی اولاد قرار دے لیا تھا اگرچہ اس نظریہ کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کے ایک دو پہلووں کا ہم خود جائزہ لے لیں.
ڈارون کے نظریہ میں کہا گیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے بن مانس نے پہلے اپنے دونوں پاوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنے لگا تھا جیسا کہ انٹرنیٹ پر اس مفروضے سے متعلق بہت ساری فرضی تصاویر گردش کر رہی ہیں تاہم عقل اس خیالاتی دلیل کو تسلیم کرنے سے عاجز ہے وہ اسے پہلی ہی فرصت میں رد کر دیتی ہے کیونکہ تندرست انسان کچھ عرصہ تک تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن اس صورت میں وہ خود کو مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا ایسا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں،حیوانات بے فکر ہو کر اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پاوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہونگے اور وہ چلیں سیدھے ہو کر محض دو پیروں کی مدد سے، تو یہ عمل حیوانات کیلئے ممکن ہی نہیں ہھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارتقاء کی منزل ہی میں زرافے نے اونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے اپنی گردن موجودہ شکل میں اونچی لمبی کر لی تھی حالانکہ یہ خودکار عمل بھی محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنسدانوں نے کافی تحقیق سے آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں ان میں بھی اس کی گردن اج ہی کی مانند پائی گئی ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریات و انکشافات شکوک و شبہات کی نظر ہونے لگے حیرت انگیز طور پر سائنسی تحقیق سے صورتحال ایک بلکل نئے انداز سے سامنے آنے لگی معلوم ہوا حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈارون نے پیش کیے تھے بلکہ حقائق اس کے ماسوا کچھ اور ہیں سائنسدانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظریات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں اس خاطر سائنسدانوں کی جانب سے مضامین و مقالات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا انہوں نے ثابت کیا کہ انسان اپنی ابتدا ہی سے آج کی طرح کا ایک مکمل انسان تھا اور انسانوں کا بندروں کی نسل چمپیزی سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ مذہب کا تصور ہے.
لیکن سائنسی حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ گمراہ کن نظریہ ارتقاء آج بھی حسب سابق شدومد کے ساتھ پھیلا جا رہا ہے اور مذہب پرست خاص طور پر مسلمانوں میں اپنی الہی تخلیق کے خلاف شکوک و شبہات پھیلائے جارہے ہیں اور اس گھناونے نظریہ سے پڑھے لکھے نوجوان کو اپنے اسلام اپنے نبیﷺ اور عقیدہ آخرت سے ہٹایا جا رہا ہے جبکہ لازوال دین اسلام کی اخروی تعلیمات اپنی جگہ نئی سائنسی تحقیقات اپنی جگہ لیکن ڈارون کا نظریہ خودبخود اپنی جگہ !
آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دہرییے نظریات کے حامل دانشوران دنیا کے لوگوں کو ان کی تخلیق کرنے والے اللہ رب العالمین سے کاٹ کر رکھ دینا چاہتے ہیں وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے اس سلسلے کو یہ لوگ یہودی لابی کا "الیومیناتی نظام" یعنی (روشنی کا نظام) قرار دیتے ہیں الیومیناتی دانشور چاہتے ہیں کہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ "شیطانی نظام" ہی کو بالادستی حاصل ہو جائے اور ساری دنیا میں صرف انہی کا سکہ رائج ہو سکے اگرچہ وہ اسے "روشنی کا نظام" قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ "اندھیرے اور شیطنیت" کا نظام ہے.
چنانچہ انہی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ اور اصل سائنسی حقائق سے نابلد  ملحد سائنسدان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی چلی جارہی ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ بھی انہی کی مانند اس خودبخود فریبی نظریے کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں کیونکہ ان کی فطرت ہی یہی ہے کہ حقائق سے زیادہ وہ افسانوں اور سنسنی خیزیوں میں دلچسپی لیتے ہیں یہی ان کے روزگار کی شاہ کلید بھی ہے چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میں پھیلا دینے والے بھی ایک خاص مشن کی کڑی ہیں انہی مفکرین نے کمپیوٹر کی چال بازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھایا ہے اور اس کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا بلکہ حیرت انگیز طور پر وہ تو ان کے جسموں پر وہ پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچا کرتے ہیں حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ  ذہنی ترقی بھی کر چکا تھا تو اپنے پوشیدہ حصوں کو انہیں فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ شرم و حیا تو اللَّهُ تعالیٰ نے جانوروں کے اندر بھی رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرغی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور جانور اپنی دموں کو عموماً گرا کر ہی رکھتے ہیں.
آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں کیونکہ مرد ہو یا عورت انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں بالاخر حقیقت یہی ہے کہ الیومیناتی لوگوں کی اس ذمرے میں کوئی ایک تصویر بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی اور نہ ہی آج تک یہ انسان اور بندر کے درمیان مسنگ لنکس کا معما حل کر سکے ہیں جبکہ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو مسلسل گردش میں رکھے ہوئے ہیں پروپیگنڈہ اصل میں ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے صحيح یا غلط نظریات کو بلا جبر دنیا کی 7 ارب کی آبادی سے اگر ازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب،رسائل و دیگر ذرائع ابلاغ اور اب انٹرنیٹ ان کی اس آرزو کو اگلے چند سالوں میں باآسانی پورا کر سکتے ہیں اور اس طرح پھر بغیر تحقیق کے ایک کاذب نظریات کا رد اور اصل حقائق سے لوگوں کی باخبری تقریباً ناممکن بنا دی جاتی ہے

پلٹ ڈاون مین (Piltdown Man ) :

ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بیزار سائنسدانوں نے پھر ایک اور چال چلی. انہوں نے ایک ایسا "درمیانی انسان" بھی دریافت کرلیا جو بقول ان کے 400،300 سالوں کے بعد بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا.
یہ 1912 کی بات ہے جب انگلینڈ میں چارلس ڈارون کا تقریباً ہم نام ایک اور سائنسدان چارلس ڈاسن نے برطانوی گاوں Piltdown میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچہ پایا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچا اور جبڑے کی ہڈی چمپیزی کی تھی اور دانت انسانوں کے سے بتائے گئے تھے چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کر دیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریہ ارتقاء بالکل درست تھا اور یہ کہ انسان اس کا عملی و عقلی ثبوت ہے.ڈھانچہ چونکہ 'پلٹ ڈاون' نامی برطانیہ کے علاقے سے ملا تھا اس لئے ڈھانچے کو بھی "پلٹ ڈاون مین Piltdown Man " کہہ کر پکارا جانے لگا.
اپنی اس انوکھی دریافت پر چارلس ڈارون کی تھیوری نظریہ ارتقاء کے حامی سائنسدان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں شامل کروا دیا. کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچہ کم از کم 5 لاکھ سال پرانا ہے مزید یہ بھی باور کروایا گیا کہ یہ ڈھانچا کسی یورپی فرد کا ہے جبکہ بعض اخبارات نے حسب دستور کسی عورت کا ڈھانچہ گردانا.!
اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس قدر پرمسرت تھے کہ اس پر کم از کم 500 مقالے لکھے گئے اور 20 برسوں تک اسے اہمیت دی جاتی رہی. حد یہ ہے کہ آج کل کے 'ایچ جی ویلز' اور 'برٹرینڈرسل' جیسے معروف دانشور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے مٹاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اسے اپنی کتابوں بالترتیب The Outline of History اور A history of western Philosophy میں انسان کی جدید علمی فتوحات شمار کیا.
تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکہ بہرحال دھوکہ ہی ہوتا ہے اور حقائق ہمیشہ اپنا آپ منوا کر ہی رہتے ہیں چنانچہ 40 برسوں کے بعد جا کر کہیں پتا لگا کہ اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد تھی اور خود سے گھڑی گئی تھی.
برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley نے 1952ء میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتا لگا کہ اس بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا تھا وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے اس نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چمپیزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ ایک نئی انسان و بندر نما شکل سامنے آ سکے.
اس نئے انکشاف نےتو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی یہ کس کو پتا تھا کہ دنیا کا عظیم سائنسدان 'چارلس ڈارون' کا نظریہ ارتقاء یوں باالکل تار تار ہو جائے گا نہ ہی اس طرح کی صورتحال کا کبھی کسی کو اندازہ تھا
بہرحال بہت چھان پھٹک کرنے کے بعد آخر کار یہ اعلان کر دیا گیا کہ " دریافت شدہ ڈھانچہ سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ہے "؟؟
جدید ماہرین نے واضع کیا کہ مذکورہ شکل و صورت میں بعض جعل سازیاں کی گئی ہیں اور انسان کی شکل میں ڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے نیز یہ کہ چمپیزی کا یہ جبڑا بھی کسی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے.
اس کڑوے انکشاف کے بعد نظریہ ارتقاء کے حامی سائنسدانوں میں ہلچل مچ گئی اور پلٹ ڈائون مین کا وہ ڈھانچہ برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں 40 برسوں سے وہ مسلسل دنیا کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا.!
ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی و سائنسی فضا میں تقریباً ایک صدی محض اس لئے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں،حساس تحقیقاتی آلات، خوردبین و دوربین، تشخیصی سہولتیں، سائنسی علوم اور غوروفکر کی صلاحیتیں وغیرہ ہمہ معیاری اور بااعتماد حد تک سامنے نہیں آ سکی تھیں لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا ڈارون کے نظریات بھی اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے.
سائنسی حقائق کی تہہ تک پہنچ جانے والی علم کی یہ دنیا نہ تو چارلس ڈارون کے خودبخود "نظریہ ارتقاء" کو درست مانتی ہے اور نہ ہی چارلس ڈاسن کے خود ساختہ  "پلٹ ڈاون مین" کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے بلاشبہ کل کا دھوم مچا دینے والا 'نظریہ ارتقاء و پلٹ ڈائون مین' آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا...!!
-----------------------------
حوالہ جات کتابیات :
1. ہارون یحیٰی Tell Me about the creation
2. انسائیکلوپیڈیا، کولیپرز امریکہ
3. انٹرنیٹ وکیپیڈیا سرچ
4.جیوئش ہسٹری Jewish History and culture،Alpha Publishers ،USA

مکمل تحریر >>