Friday, 7 September 2018

پاکستانی معاشرے کے تین خطرناک ملحد(سبط حسن،علی عباس جلال پوری،ارشد محمود) اور عوام کو ملحد بنانے کا دیسی ملحدین کا طریقہ کار

پاکستانی معاشرے کے تین خطرناک ملحد(سبط حسن،علی عباس جلال پوری،ارشد محمود) اور عوام کو ملحد بنانے کا دیسی ملحدین کا طریقہ کار
=======================================
فرائڈے اسپیشل  کے ٢٧ جنوری کے شمارے میں تین سیکیو لر سٹ دہریوں ، سید جعفر احمد، سید سبط حسن اور مبارک علی کی دل کھول کر تعریف اور توصیف کی گئی ہے۔
یہ تینوں ملحد دہریہ ہیں، جعفر احمد پاکستان کے نمایاں ترین لبرل، سیکیولر پروپگنڈسٹوں میں شامل اورUSAIP کاچہیتا ہے، اس کی اسلام دشمنی کسی سے مخفی نہیں۔ اس کی سر براہی میں کرا چی یونیورسٹی کا پاکستا ن اسٹڈی سینٹر اشتراکیت اور لبرل ازم کی تشہیر کا گڑھ بن چکاہے ۔ سید جعفر احمد نے اس ادارے کے تحت سیکیولر ازم اور لبرل ازم کے پرچار کے لیے بیسیوں کتابیں چھپوائیں، سید سبط حسن اور مبارک علی کمیونسٹ حلقوں کے معروف رہنمائوں میں مدت سے شمار کئے جاتے ہیں۔
ان ملحد دہریوںکو فرائیڈ اسپیشل میں مندرجہ ذیل الفاظ سے نوازا جا تا ہے:
“نہایت صاحب علم، نہایت عمدہ گفتگو کرنے والے، ایمان دار، صاحب کردار، خوش اطوار بہت عمدہ انسان، ان کی کتاب کی علمیت سے انکار نا ممکن ہے ، با عزت، محترم، وسیع الفکر اور وسیع القلب”۔
اس مضمون میں فرائیڈے اسپیشل سیکیولرسٹ انسان پرستی(Humanism)کی وکالت کرتا ہے، لکھتا ہے:
” انسانی رشتوں کو کبھی نظریات اور افکار کے تابع نہیں ہونا چاہئے، ہم کیوں نہیں سوچتے کہ جب نظریات انسان ہی کی بہتری اور فلاح کے لئے ہیں اور کوئی نظریہ کتنا ہی اعلیٰ اور ارفع کیوں نہ ہو انسان کی ہستی سے بلند نہیں ہو سکتا، ہماری نجات انسانیت کے احترام کرنے میں ہے اور مساوات اور حقوق انسانی کی پاسداری میں ہے”۔
یعنی دہریت سیکیولزم، لبرل ازم، سوشلزم  جہالت خالصہ نہیں جیسا کہ مولانا مودودی رحمتہ اللہ نے ثابت کیا ، بلکہ اسلام کے مساوی علم نہیں، “انسان اسلام کا تا بع نہیں، اسلام کتنا ہی “اعلیٰ اور ارفع کیوں نہ ہو انسان کی ہستی سے بلند نہیں ہو سکتا  ” …کیایہ اسلام کے واحد الحق ہونے کا انکار،اسلام کی اکملیت کا انکار،اسلامی عقائد ونظریات کا انکار نہیں؟یہ انسانیت کیا ہے ؟کیا انسان کے خالق کی بجائے انسان خود ہی یہ بتائے گا کہ اس کی فلاح اور بہتری کس بات میں ہے؟کیا انسان خود طے کرے گاکہ اس کے لیے کون سا نظریہ بہتر ہے ؟توپھر انسان کا خالق ومالک کہاں ہے؟اور یہ انسان پرست دہریتSecularist humanism) ) نہیں تو اور کیا ہے، اسی دہریت(secularism)کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے کہ فرائیڈ اسپیشل ملحد دہریوں کے غلیظ افکاروخیالات کی تعلیم، تبلیغ اور تشہیر کررہا ہے۔
سبط حسن سے آپ واقف ہوں گے ، انھوں نے “نوید فکر ” ” موسی سے مارکس تک ” “ماضی کے مزار ” ” پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء ” ” انقلاب ایران ” اور ” شہر نگاراں ” جیسی کتابیں لکھیں اور ان سب کتابوں میں انہوں نے مذہب کی مابعدالطبعیات کے زمین سے رشتوں اور ان کے پیچھے موڈ آف پروڈکشن کو بخوبی بیان کیا اور انہوں نے مذہبی پیشوائیت کے پرخچے اڑائے اور اس کی تصانیف ہیں جو اج معاشرے میں سب سے ذیادہ الحاد پھیلا رہی ہیں۔ہمارے لیے لازمی ہے کہ اہل علم حضرات ان سب ملحدین کی کتابوں کا رد لکھیں۔
دور جدید میں الحاد کے مقابلے کے لیے صرف چند ہی اہم کتب ہیں۔اللٰہ تعالٰی آپریشن  ارتقائے فہم و دانش گروپ والوں کو جزا دے کہ ان لوگوب نے پورے برصغیر میں پہلی بار الحاد کے خلاف ایک منظم جہدوجہد کا آغاز کیا۔مجھے ایک مسلم بھای نے اپنے الحاد کے بارے میں سابقہ تجربات بتائے اور ایک کتاب کی نشاندہی کی جس کا لنک میں نیچے دے رہی ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کتاب ان کے دوبارہ اسلام کی طرف آنے میں مددگار ثابت ہوئ۔اللٰہ۔ تعالٰی اس بھای کو اور ہم سب کو اسلام پہ ثابت قدم رکھے۔http://kitabosunnat.com/kutub-library/mazhab-aur-jadeed-chalangeاس کے علاوہ ملحدین عوام کو ملحد بنانے کے لیے جن دیسی لبرل و کمیونسٹ مصنفین کی کتابوں کو کالجوں،یونیورسٹیوں اور باقی جگہوں پر عوام کو دعوت مطالعہ دیتے ہیں،وہ کتابیں ارشد محمود،سبط حسن،علی عباس جلال پوری کی ہیں۔،سب اہل علم ساتھی ان کتابوں کا رد لکھنے کی جدوجہد کا آغاز کریں تاکہ عوام کو گمراہ ہونے سے بچایا حا سکے۔،جو ساتھی علمی و تحقیقی زہن رکھتے ہوں اور ان ملحد مصنفین کی کتب کا رد لکھنا چاہتے ہوں جس کی وجہ سے ہزاروں مسلم نوجوان گمراہ ہوچکے ہیں وہ عنداللہ ماجور ہوں گے۔
کوئی لینن کا پجاری کوئی لینن کا مرید
پیروئے  احمد  مختار نہ تو اور  نہ
http://rejectingfreedomandprogress.com/shameful-praise-of-liberal-writers-in-friday-speciaders-shame-praise-in-friday-special/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔