Tuesday, 16 October 2018

نظریہ ارتقاء اور پلٹ ڈائون مین

نظریہ ارتقاء اور پلٹ ڈائون مین

ترتیب و اضافہ : عامر خان نیازی

برطانوی مفکر چارلس رابرٹ ڈارون (1809-1882) جو کہ ڈاکٹر کا بیٹا اور ایک بیالوجسٹ تھا بنیادی طور پر خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے دور میں نظریہ ارتقاء پر ایک کتاب On the origin of Species  تحریر کی تھی جس میں اس نے اپنی تحقیقات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہر جاندار نے درجہ بدرجہ ترقی کر کے ہی اپنی موجودہ اصلی شکل اختیار کی ہے اس کے مطابق مثال کے طور پر زرافے نے اپنی موجودہ گردن اونچی اونچی شاخوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے ہی رفتہ رفتہ 'خودبخود' لمبی کی تھی وہ کہتا تھا کہ انسان نے بھی بن مانس سے درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ہی اپنی موجودہ انسانی شکل حاصل کی ہے اس کے نزدیک بندر (چمپیزی) نے پہلے پہل اپنے اگلے دونوں پاوں اوپر اٹھائے تھے جس بنا پر وہ جھکی ہوئی حالت میں زندگی گزارنے کے قابل ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کے جسموں سے گھنے بال کم ہونا شروع ہو گئے تھے جو کہ سب کچھ خود بخود ہی ہوتا چلا جا رہا تھا اور پھر اگلے ہی مرحلے میں ان کے چھوٹے سے دماغ میں بڑی سے عقل نے نمو پانا شروع کر دیا چنانچہ قطعی حتمیت کے ساتھ اس کا کہنا تھا کہ انسان کے آباواجداد اپنی اصل میں بندر (لنگور) تھے اس نے اپنی زندگی میں اس بات پر زور دیا کہ انسان پہلے 'بندر نما انسان، پھر انسان نما بندر، اور آخرکار مکمل 'انسان' بن سکا ہے.
ڈارون کے اس نویلے انکشاف نے سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد کو گویا ہلا کر رکھ دیا تھا اور وہ اس پر بلاتردد ایمان رکھنے لگے تھے جیسا کہ آج بھی حیرت انگیز طور پر مذہب بیزار اتھیسٹ ازم کا پجاری ملحد، یہودی،ربی،بنجامن بلیخ طبقہ جو خود کو تو اعلی تعلیم یافتہ گردانتے ہیں لیکن اس ترقیاتی یافتہ دور میں بھی اس بات پر کامل ایمان رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لنگور کی اولاد ہیں پر زبان سے خود کو برملا بندر کی اولاد کہنے سے اب بھی ہچکچاتے ہیں.
رابرٹ ڈارون جو بظاہر مذہبی لگاو رکھتا ہے اور وہ اپنے نظریہ کی تائید میں یہ سوال کرتا ہے کہ " ہمیں تورات کی جانب دیکھنا چاہیئے کہ وہ اس ضمن میں ہمیں کیا سکھلاتی ہے؟ وہ کہتی ہے کہ موجودہ دنیا اپنی تکمیلی حالت میں ترقی کرتے ہوئے ہی اس آج کے دور تک نمودار ہو سکی ہے" جبکہ بنجامن سمجھاتا ہے کہ تورات بیان کرتی ہے کہ "خدا نے تخلیق کائنات کا جب منصوبہ بنایا تھا تو سب سے پہلے دن اس نے 'دن رات' کو جنم دیا تھا پھر دوسرے دن 'آسمان' کی پیدائش کی تھی تیسرے دن اس نے 'خشک زمین' کو جنم دیا تھا چوتھے دن 'سورج اور چاند تاروں' کی تخلیق کی پانچھویں دن 'پانی اور مچھلیوں کی تخلیق اور آخری چھٹے دن 'انسانوں اور چوپایوں' کی تخلیق کی تھی "
ربی،بنجامن سوال کرتا ہے کہ پھر اگر انسان بھی اسی طرح بندر کی شکل و صورت اور عادات و اطوار سے تبدیل ہوتے ہوتے موجودہ اصل انسانی حالت میں سامنے آیا ہے تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے؟ (jewish History and culture، امریکا ،ص 38-39)
ویسے اتفاق دیکھیے کہ کمیونزم کا بانی کارل مارکس بھی ڈارون کی اس کتاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے.
ربی کا یہ بیان بہرحال ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا کہ یہودی مذہبی زعما بھی ڈارون کے نظریہ خود بخود سے متفق نظر آتے ہیں پھر یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ مفاد پرست حضرات جھوٹ اور فاسد امور کی خاطر دلائل بھی آخر کہاں کہاں سے لے آتے ہیں یعنی وہ اس معاملے میں مقدس کتابوب کو بھی نہیں بخشتے!
ایک طویل مدت تک ڈارون کے اس نظریہ کی تشہیر ہوتی رہی جو کہ اپنی اصل الہی تخلیق آدم و حوا علیہ السلام کو چھوڑ کر انہوں نے خود کو باآسانی بن مانسوں اور لنگوروں کی اولاد قرار دے لیا تھا اگرچہ اس نظریہ کے رد میں آج خود مغرب سے بے شمار کتابیں منظر عام پر آ رہی ہیں لیکن کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کے ایک دو پہلووں کا ہم خود جائزہ لے لیں.
ڈارون کے نظریہ میں کہا گیا تھا کہ انسان بننے کی جانب قدم اٹھاتے ہوئے بن مانس نے پہلے اپنے دونوں پاوں اٹھا لیے تھے اور جھک کر چلنے لگا تھا جیسا کہ انٹرنیٹ پر اس مفروضے سے متعلق بہت ساری فرضی تصاویر گردش کر رہی ہیں تاہم عقل اس خیالاتی دلیل کو تسلیم کرنے سے عاجز ہے وہ اسے پہلی ہی فرصت میں رد کر دیتی ہے کیونکہ تندرست انسان کچھ عرصہ تک تو جھک کر چل سکتا ہے لیکن اس صورت میں وہ خود کو مسلسل برقرار نہیں رکھ سکتا ایسا کرنا انسان کے بس کی بات نہیں،حیوانات بے فکر ہو کر اور آرام سے یا تو چاروں ہاتھ پاوں کی مدد سے چل سکتے ہیں یا پھر محض دو پیروں کی مدد سے لیکن یہ کہ ان کے پیر تو چار ہونگے اور وہ چلیں سیدھے ہو کر محض دو پیروں کی مدد سے، تو یہ عمل حیوانات کیلئے ممکن ہی نہیں ہھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ ارتقاء کی منزل ہی میں زرافے نے اونچے درختوں سے غذا حاصل کرنے کیلئے اپنی گردن موجودہ شکل میں اونچی لمبی کر لی تھی حالانکہ یہ خودکار عمل بھی محض ایک واہمہ ہی ہے کیونکہ سائنسدانوں نے کافی تحقیق سے آگاہ کیا ہے کہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے کے زرافے کے جو ڈھانچے دریافت ہوئے ہیں ان میں بھی اس کی گردن اج ہی کی مانند پائی گئی ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈارون کے نظریات و انکشافات شکوک و شبہات کی نظر ہونے لگے حیرت انگیز طور پر سائنسی تحقیق سے صورتحال ایک بلکل نئے انداز سے سامنے آنے لگی معلوم ہوا حقائق وہ نہیں ہیں جو ڈارون نے پیش کیے تھے بلکہ حقائق اس کے ماسوا کچھ اور ہیں سائنسدانوں نے بتایا کہ ڈارون نے اپنے یہ نظریات کسی بھی لحاظ سے ٹھوس بنیادوں پر استوار نہیں کیے ہیں اس خاطر سائنسدانوں کی جانب سے مضامین و مقالات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا انہوں نے ثابت کیا کہ انسان اپنی ابتدا ہی سے آج کی طرح کا ایک مکمل انسان تھا اور انسانوں کا بندروں کی نسل چمپیزی سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ مذہب کا تصور ہے.
لیکن سائنسی حقائق کی روشنی میں لائے جانے کے باوجود مذکورہ گمراہ کن نظریہ ارتقاء آج بھی حسب سابق شدومد کے ساتھ پھیلا جا رہا ہے اور مذہب پرست خاص طور پر مسلمانوں میں اپنی الہی تخلیق کے خلاف شکوک و شبہات پھیلائے جارہے ہیں اور اس گھناونے نظریہ سے پڑھے لکھے نوجوان کو اپنے اسلام اپنے نبیﷺ اور عقیدہ آخرت سے ہٹایا جا رہا ہے جبکہ لازوال دین اسلام کی اخروی تعلیمات اپنی جگہ نئی سائنسی تحقیقات اپنی جگہ لیکن ڈارون کا نظریہ خودبخود اپنی جگہ !
آخر ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دہرییے نظریات کے حامل دانشوران دنیا کے لوگوں کو ان کی تخلیق کرنے والے اللہ رب العالمین سے کاٹ کر رکھ دینا چاہتے ہیں وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ مذہب اور خدا کا دنیا میں کہیں بھی چرچا ہوتا رہے اس سلسلے کو یہ لوگ یہودی لابی کا "الیومیناتی نظام" یعنی (روشنی کا نظام) قرار دیتے ہیں الیومیناتی دانشور چاہتے ہیں کہ دنیا میں محض ان کے جنم شدہ "شیطانی نظام" ہی کو بالادستی حاصل ہو جائے اور ساری دنیا میں صرف انہی کا سکہ رائج ہو سکے اگرچہ وہ اسے "روشنی کا نظام" قرار دیتے ہیں لیکن اپنی اصل میں یہ "اندھیرے اور شیطنیت" کا نظام ہے.
چنانچہ انہی کے تربیت یافتہ مادہ پرست ذرائع ابلاغ اور اصل سائنسی حقائق سے نابلد  ملحد سائنسدان ہیں جن کی تاریک کتابیں روشنی کے اس دور میں بھی مسلسل سامنے آتی چلی جارہی ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ بھی انہی کی مانند اس خودبخود فریبی نظریے کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں کیونکہ ان کی فطرت ہی یہی ہے کہ حقائق سے زیادہ وہ افسانوں اور سنسنی خیزیوں میں دلچسپی لیتے ہیں یہی ان کے روزگار کی شاہ کلید بھی ہے چنانچہ انسانی ارتقا کے مختلف درجوں کی فرضی تصویریں دنیا بھر میں پھیلا دینے والے بھی ایک خاص مشن کی کڑی ہیں انہی مفکرین نے کمپیوٹر کی چال بازیوں کی مدد سے مردوں اور عورتوں کو مکمل برہنہ حالت میں جسم پر گھنے بال رکھے ہوئے دکھایا ہے اور اس کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا بلکہ حیرت انگیز طور پر وہ تو ان کے جسموں پر وہ پتے بھی نہیں دکھاتے جن کا وہ تعلیمی اسباق میں بہت چرچا کرتے ہیں حالانکہ بندر نما انسان یا انسان نما بندر اگر کسی حد تک چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا اور اس کا دماغ بھی کم از کم کسی درجہ  ذہنی ترقی بھی کر چکا تھا تو اپنے پوشیدہ حصوں کو انہیں فوراً ہی ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کیونکہ شرم و حیا تو اللَّهُ تعالیٰ نے جانوروں کے اندر بھی رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مرغی سب کے سامنے کبھی انڈے نہیں دیتی اور جانور اپنی دموں کو عموماً گرا کر ہی رکھتے ہیں.
آج کی ترقی یافتہ خواتین بھی چوبیس گھنٹے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن بغیر لباس کے زندگی نہیں گزار سکتیں کیونکہ مرد ہو یا عورت انسان اپنی شرم و حیا کے ہاتھوں مجبور ہے دوسری جانب موسموں کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں بالاخر حقیقت یہی ہے کہ الیومیناتی لوگوں کی اس ذمرے میں کوئی ایک تصویر بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتی اور نہ ہی آج تک یہ انسان اور بندر کے درمیان مسنگ لنکس کا معما حل کر سکے ہیں جبکہ سائنسی حقائق کے پہلو بہ پہلو یہ لوگ جعلی و مسترد شدہ نظریات کو مسلسل گردش میں رکھے ہوئے ہیں پروپیگنڈہ اصل میں ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے صحيح یا غلط نظریات کو بلا جبر دنیا کی 7 ارب کی آبادی سے اگر ازخود منوانے کا کسی کا ارادہ ہو تو کتب،رسائل و دیگر ذرائع ابلاغ اور اب انٹرنیٹ ان کی اس آرزو کو اگلے چند سالوں میں باآسانی پورا کر سکتے ہیں اور اس طرح پھر بغیر تحقیق کے ایک کاذب نظریات کا رد اور اصل حقائق سے لوگوں کی باخبری تقریباً ناممکن بنا دی جاتی ہے

پلٹ ڈاون مین (Piltdown Man ) :

ڈارون کے نظریے کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد اس کے خیالات کو بہ لطف و کمال آگے بڑھانے والے دین بیزار سائنسدانوں نے پھر ایک اور چال چلی. انہوں نے ایک ایسا "درمیانی انسان" بھی دریافت کرلیا جو بقول ان کے 400،300 سالوں کے بعد بس مکمل انسان کی شکل میں ڈھلنے ہی والا تھا.
یہ 1912 کی بات ہے جب انگلینڈ میں چارلس ڈارون کا تقریباً ہم نام ایک اور سائنسدان چارلس ڈاسن نے برطانوی گاوں Piltdown میں ایک حیوانی سر کا ڈھانچہ پایا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے سر کا ڈھانچا اور جبڑے کی ہڈی چمپیزی کی تھی اور دانت انسانوں کے سے بتائے گئے تھے چنانچہ اس کے بعد حتمی طور پر طے کر دیا گیا کہ ڈارون کی جانب سے پیش کیا جانے والا نظریہ ارتقاء بالکل درست تھا اور یہ کہ انسان اس کا عملی و عقلی ثبوت ہے.ڈھانچہ چونکہ 'پلٹ ڈاون' نامی برطانیہ کے علاقے سے ملا تھا اس لئے ڈھانچے کو بھی "پلٹ ڈاون مین Piltdown Man " کہہ کر پکارا جانے لگا.
اپنی اس انوکھی دریافت پر چارلس ڈارون کی تھیوری نظریہ ارتقاء کے حامی سائنسدان اس درجے خوش ہوئے کہ پھر اس پر وہ تحقیقی مقالے لکھنے لگے اور اسے نصاب میں شامل کروا دیا. کہا گیا کہ انسانی و حیوانی یہ ڈھانچہ کم از کم 5 لاکھ سال پرانا ہے مزید یہ بھی باور کروایا گیا کہ یہ ڈھانچا کسی یورپی فرد کا ہے جبکہ بعض اخبارات نے حسب دستور کسی عورت کا ڈھانچہ گردانا.!
اپنے کارنامے پر یہ حضرات اس قدر پرمسرت تھے کہ اس پر کم از کم 500 مقالے لکھے گئے اور 20 برسوں تک اسے اہمیت دی جاتی رہی. حد یہ ہے کہ آج کل کے 'ایچ جی ویلز' اور 'برٹرینڈرسل' جیسے معروف دانشور حضرات بھی اس پروپیگنڈے سے مٹاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انہوں نے اسے اپنی کتابوں بالترتیب The Outline of History اور A history of western Philosophy میں انسان کی جدید علمی فتوحات شمار کیا.
تاہم دھوکے بازی زیادہ دیر تک اپنا بھرم نہیں رکھ سکی کیونکہ دھوکہ بہرحال دھوکہ ہی ہوتا ہے اور حقائق ہمیشہ اپنا آپ منوا کر ہی رہتے ہیں چنانچہ 40 برسوں کے بعد جا کر کہیں پتا لگا کہ اس ڈھانچے کی تمام تر کہانی بے بنیاد تھی اور خود سے گھڑی گئی تھی.
برطانوی عجائب گھر کے ایک نگراں Kennith Okley نے 1952ء میں اس پر کچھ مزید طبی و سائنسی تحقیقات کیں تو پتا لگا کہ اس بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا گیا تھا وہ کئی لحاظ سے درست نہیں ہے اس نے آگاہ کیا کہ کسی فرد نے چمپیزی کے بڑے دانتوں کو گھس کر انسانوں جیسا چھوٹا کیا ہے اور ڈھانچے کو ایک خاص رنگ سے رنگ دیا ہے تاکہ ایک نئی انسان و بندر نما شکل سامنے آ سکے.
اس نئے انکشاف نےتو گویا سائنس کی دنیا میں ایک بار پھر وہی قدیم ہلچل مچا دی یہ کس کو پتا تھا کہ دنیا کا عظیم سائنسدان 'چارلس ڈارون' کا نظریہ ارتقاء یوں باالکل تار تار ہو جائے گا نہ ہی اس طرح کی صورتحال کا کبھی کسی کو اندازہ تھا
بہرحال بہت چھان پھٹک کرنے کے بعد آخر کار یہ اعلان کر دیا گیا کہ " دریافت شدہ ڈھانچہ سائنسی لحاظ سے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکا ہے "؟؟
جدید ماہرین نے واضع کیا کہ مذکورہ شکل و صورت میں بعض جعل سازیاں کی گئی ہیں اور انسان کی شکل میں ڈھالنے کی ایک دانستہ کوشش کی گئی ہے نیز یہ کہ چمپیزی کا یہ جبڑا بھی کسی لاکھوں سال پہلے کا نہیں بلکہ محض حالیہ مرے ہوئے کسی بندر کا ہے.
اس کڑوے انکشاف کے بعد نظریہ ارتقاء کے حامی سائنسدانوں میں ہلچل مچ گئی اور پلٹ ڈائون مین کا وہ ڈھانچہ برطانوی عجائب گھر سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا جہاں 40 برسوں سے وہ مسلسل دنیا کی معلومات میں اضافہ کر رہا تھا.!
ڈارون اور اس کے قبیل کے دیگر مفکرین کے یہ نظریات علمی و سائنسی فضا میں تقریباً ایک صدی محض اس لئے چھائے رہے کہ اس دور تک جدید سفری آسانیاں،حساس تحقیقاتی آلات، خوردبین و دوربین، تشخیصی سہولتیں، سائنسی علوم اور غوروفکر کی صلاحیتیں وغیرہ ہمہ معیاری اور بااعتماد حد تک سامنے نہیں آ سکی تھیں لیکن جوں جوں سائنس آگے بڑھتی رہی اور علم اپنا دامن وسیع تر کرتا رہا ڈارون کے نظریات بھی اسی لحاظ سے شکوک و شبہات کی زد میں آتے چلے گئے.
سائنسی حقائق کی تہہ تک پہنچ جانے والی علم کی یہ دنیا نہ تو چارلس ڈارون کے خودبخود "نظریہ ارتقاء" کو درست مانتی ہے اور نہ ہی چارلس ڈاسن کے خود ساختہ  "پلٹ ڈاون مین" کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہے بلاشبہ کل کا دھوم مچا دینے والا 'نظریہ ارتقاء و پلٹ ڈائون مین' آج کا محض افسانہ بن کر رہ گیا...!!
-----------------------------
حوالہ جات کتابیات :
1. ہارون یحیٰی Tell Me about the creation
2. انسائیکلوپیڈیا، کولیپرز امریکہ
3. انٹرنیٹ وکیپیڈیا سرچ
4.جیوئش ہسٹری Jewish History and culture،Alpha Publishers ،USA

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔