Tuesday, 14 August 2018

وطن پرستی اور اسلام

لاجواب تحریر

وطنیت کیا ہے؟

Patriotism is, fundamentally, a conviction that a particular country is the best in the world because you were born in it
George Bernard Shaw

دیکھیں قوم پرستی ,قومی عصبیت کوئی قابل قدر چیز ہوتی تو ہم سندھیوں, بلوچوں, پٹھانوں کو اپنی قومی عصبیات قائم رکھنے کا درس دے رہے ہوتے اس سے باز رہنے کے مشورے نہ دیتے -
جس سے محبت کا لوگوں میں ایک فطری جذبہ بھی موجود ہے بلکہ ایسے موقع پر ہم لگے ہاتھوں قوم پرستی کے خلاف اسلامی دلائل بھی لا رہے ہوتے ہیں اور آخرت کا خوف بھی دلاتے ہیں (گو کہ اس موقع پر اسلامی دلائل مکر سے ذیادہ کچھ نہیں)

لیکن دوسری طرف ہم وطنی عصبیت, وطن پرستی کا ہر جگہ درس دیتے رہتے ہیں اور  اسی سانس میں باقی علاقائی عصبیات کا رد کروا رہے ہوتے ہیں -
آخر کیوں؟ کیا یہ کھلا "تضاد" نہیں ؟

وجہ اس کی یہ ہے کہ وطنیت کے عقیدے کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ تمہیں آپس میں جوڑنے والا وطن ہے -
اگر تم نے صوبائی, علاقائی عصبیات پیدا کر لی تو وطن کی جڑ کٹ جائے گی, اجتماعیت کو ٹھیس پہنچے گی -
وطنیت کا پہلا کلمہ ہی یہی ہے کہ اجتماعیت کے لیے بنیادی عصبیت وطن کی ہی ہو گی اس کے علاوہ ہر عصبیت قابل مذمت اور گمراہی سمجھی جائے گی -
جو شرک سے کم درجے کا گناہ نہیں ہو گا-

حضرات !
وطن کے جو تاثرات صوبائیت کے بارے میں ہیں ٹھیک وہی تاثرات اسلام کے وطن کے بارے میں ہیں -

اوپر والا پیراگراف دوبارہ پڑھیں صوبوں کے نام کی جگہ ملکوں کے نام پڑھیں اور وطن کی جگہ دین پڑھیں -
جیسے ایک قومی ریاست علاقائی عصبیات کو مٹانا چاہتی ہے اسی طرح ایک امت ان ریاستی عصبیات کو بھی مٹانا چاہتی ہے -
اب تو دنیا گلوبل ہو چکی ہے کہ اس کنسیپٹ کو سمجھنا اور بھی آسان ہے -
اب اس امت کے تصور کو سمجھنے کے لیے آپ اپنی ڈکشنری میں اسلامی قومیت کا لفظ ایجاد کر لیں تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن یہ یاد رہے یہ جغرافیائی قوموں سے اوپر کی شے ہے ،۔۔۔۔۔۔۔،
قوم, وطن, قبیلہ, علاقہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ پہچان سے ذیادہ کچھ نہیں جیسا کہ آپ کی ذات کوئی چوہدری, کوئی راجہ لیکن جب اس میں سے عصبیت نکلنے لگے تو وہ بھی قابل مذمت ہے کہ یعنی اب معاملہ پہچان سے آگے بڑھ آیا یے - اب وہی عصبیت جہالیت والے نعرے لگنے لگے ہیں کہ میں تم سے بہتر ,باعزت ہوں کیونکہ میں اعوان ہوں -
"اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے" سورۃ الحجرات

ہاں یہ بات بلکل درست ہے کہ نیشن یا قوم کا لفظ اسلام نے اپنے لیے کبھی استعمال نہیں کیا کیونکہ نیشن, قوم دونوں جہالیت کی اصطلاحیں ہیں جو رنگ, نسل, تاریخ سے اجتماعیت,قومیت کا تصور پیدا کرتی ہیں-
اے-این-پی والے حضرات جب راجہ داہر کو اپنا اصل ہیرو کہتے ہیں تو ہم اس پر ہنستے ہیں حالانکہ قومی بنیادوں پر وہ بلکل درست کہتے ہیں-

قرآن جو لفظ مسلم قومیت کے لیے استعمال کرتا ہے وہ حزب ہے یعنی پارٹی یعنی محض کہیں پیدا ہوجانا انہیں جوڑنے والی شہ نہیں بلکہ نظریہ ہے-

دوسرا لفظ جو قرآن قوم کے لیے استعمال کرتا ہے وہ امت ہے یہ بھی ہماگیر لفظ ہے
"اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے" - سورة آل عمران

”اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”اُمّتِ وَسَط “بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رُسول تم پر گواہ ہو" -سورة البقرة

ایک قوم جس کا مشن ایک ہے اور جو بیچ کا گرو ہے یعنی وہ ہر قوم, ہر رنگ, ہر نسل کے بیچ سے نکلا ہوا ہے-جو خدائی قانون کو قائم کرنے کے لیے انسانوں پر نگران ہیں,جو کل کی کل نوع انسانی کے لیے نکالا گیاہے اب تو دنیا گلوبل ہے یہ بات اور اچھی طرح سمجھ آتی ہے-

تیسرا لفظ جو استعمال ہوتا ہے وہ جماعت ہے جیسے حدیث ہے جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے,(قوم پر نہیں)اب اس پارٹی,امت اور جماعت کا رہن سہن, شادی بیاہ, مشن, نظریہ,کلچر,نظام, ان کے نام, مفادات سب ایک ہیں
جس کے لیے اسلامی قومیت کا لفظ محض آسانی سے سمجھانے کے لیے بولا جاتا ہے یا بولا جا سکتا ہے -

انگریز فسادی و خبیث آج کے چھوٹے دماغ مسلمان کو قومی عصبیات پر لگا کر خود گلوبلائزیشن کی طرف نکل پڑا ہے -
دنیا سلسلہ وار "ون ورلڈ آرڈر " کی طرف جا رہی ہے -
ناٹو,آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ,ورلڈ بینک ، ملٹی نیشنل کمپنیاں,این جی اوز, گلابل خوراک برگر, پیزا, جینز گلوبل کلچر,گلوبل نصاب اور ایک ہی طرز تعلیم-۔۔۔

حد تو یہ ہے یوم آذادی منانے والے بھی انگریزی گلوبل کلچر والی سبز شرٹین پہن کر منا رہے ہیں -

نیشنلزم کا کنسیپٹ اصلی لبرلز میں بھی ختم ہو چکا ہے ان کے ہاں اس کی جگہ ہیومونزم ہے-
اب حیرت ان چھوٹے دماغ والے مسلمانوں پر ہوتی ہے جن کے سامنے جب رنگ ، نسل ، ثقافت اور قومیت سے بالاتر ایک مسلم امہ کا تصور پیش کیا جاتا ہے تو انہیں بےہوشی آجاتی ہے -

حضرت عیسیٰ ع اور امام مہدی نے اسی قوم,امت, جماعت کا امام بن کر آنا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے کی ہوئی امت کو کھڑا کرنا ہے, جوڑنا ہے کسی ایک ملک کا وزیراعظم بن کر ,قومی ترانہ کے آگے سر جھکا کر کھڑے ہو کر قومی ترانے پڑھنے نہیں آنا -

منقول

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔