Sunday 23 September 2018

کیا مشت زنی ( استمناء بالید ) اسلام میں جائز ہے؟ نیم ملحد و نیم رافضی ابرار حسین کا اسلام پر بے بنیاد الزام اور اسکا جواب

کیا مشت زنی ( استمناء بالید ) اسلام میں جائز ہے؟
نیم ملحد و نیم رافضی ابرار حسین کا اسلام پر بے بنیاد الزام اور اسکا جواب
تحریر : اسرار احمد صدیقی
میں نے آج تک کوئی ایک ایسا ملحد نہیں دیکھا جس نے دجل کا سہارا نہ لیا ہو یا جس نے اسلام پر کوئی علمی اعتراض کرسکا ہو ہمیشہ ملحدین اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے بے بنیاد باتیں کرکے مسلمانوں میں تشکیک پیدا کرتے
ابرار حسین اہلسنت والجماعت پر بہتان بازی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام میں اسکی کوئی ممانعت نہیں یہ جائز ہے اس طرح بعض وہ مسلمان جنہیں اس مسئلے اور اسکے حکم کا علم نہ ہو دو نمبر حوالے دیکھ کر مغالطے کا شکار ہوکر اس گناہ میں مبتلاء ہوسکتا ہے جبکہ یہ خود لذتی سخت گناہ ہے قرآن اور حدیث دونوں سے خود لذتی کی حرمت ثابت ہے

اول قرآن مجید سے دلائل:

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی  اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں  کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔[المؤمنون: 5، 6]

امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب  مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں  استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: {فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}چنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7]  اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی  میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس لیے مشت زنی حلال نہیں  ہے، واللہ اعلم" ماخوذ از امام شافعی کی "کتاب الام "

کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ}اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔

دوم: احادیث نبویہ سے خود لذتی کے دلائل:

علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی  کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کر لے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے  اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں  روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔

لہذا ابرار حسین کو چاہئے مسلک روافض کو مسلک اہلسنت پر فٹ کرنے کی بجائے اہلسنت والجماعت کی تفسیر قرآن تفسیر حدیث اور فقہ کو لازمی پڑھیں تاکہ اس طرح کی چولیات سے گریز کرسکیں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔