Sunday, 6 August 2017

حضرت آدم علیہ السلام کے ساٹھ ہاتھ قد پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

ماحولیاتی اثرات کے ساتھ اور جینیٹک مادے میں ہونے والی تبدیلیوں یعنی میو ٹیشن سے نسل درنسل ایک جاندار کے قد،رنگ جسمانی خصوصیات میں تبدیلی آتی ہے۔جس سے نسل در نسل قد چھوٹے ہوگئے اور مختلف انسانی نسلوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف ہوگئ لیکن آج ایک لاکھ سال بعد بھی انسان انسان ہیں۔
فوسل جانداروں کے ہوتے ہیں۔جاندار چٹانوں میں مدفون پائے جاتے ہیں اور ان کے فوسل جو اصلی ہوں چٹانوں میں ملتے ہیں جب کہ انسان قبر میں دفن کیے جاتے ہیں۔جانوروں کی طرح چٹانوں میں نہیں دبتے مر کر۔اگر آپ کو اعتراض ہے کہ آدم علیہ السلام کے ساٹھ فٹ قد کا کوئ سائنسی ثبوت۔ نہیں تو آدم علیہ السلام کو فوسل ریکارڈ میں نہیں ان کی قبر مبارک میں دیکھو۔جب آپ کو آدم علیہ السلام کی حقیقی قبر مل جائے اور ان کے ساٹھ فٹ قد کا وجود ثابت نہ ہو تو بات کرنا۔
جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق جو 2014 تک کی گئ وہ یہ کہتی تھی کہ انسان کا قد کئ لاکھ سال سے ایک ہی چلا آرہا ہے اور اس میں کوئ خاص تبدیلی نہیں ہوئ جب کہ 2015 ء میں ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے جس کے مطابق انسان کا قد ماضی میں بڑا تھا،پھر چھوٹا ہوا اور گزشتہ دوسو سال سے یہ پھر پڑھ رہا ہے۔
آسٹریلین میوزیم کی 2015ء کی اس تحقیق کے مطابق انسانوں کا قد جسامت،جبڑا اور دانتوں کا تناسب قدیم انسانی نسلوں میں زیادہ تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کم ہوتا گیا۔
اس تحقیق کے مطابق ہمارے ایک لاکھ سال پہلے کے آباؤ اجداد(جینیٹکس کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام تقریبا ایک لاکھ سال قبل زمین پہ موجود تھے)کے قد اور جسامت آج کل کے انسانوں سے زیادہ تھی اور پھر یہ کم پونا شروع ہوگئ اور گزشتہ دس ہزار سال میں بہت کم ہوگئ اور یہ دوبارہ آہستہ آہستہ پچھلے ڈیڑھ سو سال میں پھر بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ جینیاتی،ماحولیاتی،غذائی اثرات ہیں۔40 ہزار سال پہلے یورپی مردوں کا قد 183 سینٹی میٹر یعنی چھ فٹ تھا اور دس ہزار سال پہلے یہ کم ہوکر 163 سینٹی میٹر یعنی چار فٹ رہ گیا اور اب یہ دوبارہ بڑھ کر 175 سینٹی میٹر تک ہوچکا ہے۔اس طرح جدید سائنسی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ماضی کے انسانوں کے قد بہت بڑے تھے۔لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ تھا تو یہ بات کسی طرح بھی جدید سائنسی تحقیق کے خلاف نہیں۔مزید تفصیل کے لیے
https://australianmuseum.net.au/how-have-we-changed-since-our-species-first-appeared
بالکل یہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بیان کی گئ ہے جس کے مطابق انسانوں کا قد آدم علیہ السلام کے بعد سے کم ہوتا چلا آرہا ہے۔
نیچے ایک حقیقی ڈھانچہ دیکھیں جو پیرو،جنوبی براعظم امریکہ کے ملک میں دریافت ہوا۔اس سے اندازہ کریں کہ ماضی میں انسان کتنے بڑے ہوسکتے تھے۔
http://www.blankexit.com/13-giant-human-skeletons-real-fake/
پر دنیا میں دریافت ہونے والے بڑے ڈھانچوں کی تفصیل موجود ہے۔اس سائٹ نے جتنے بھی ڈھانچے پیش کیے میرے اوپر پیش کیے گئے ڈھانچے کے سوا سب کو جعلی قرار دیا ہے اور جو ڈھانچہ میں نے اوپر پیش کیا اس کو اصلی قرار دیا ہے اور یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ ماضی میں انسان اتنے بڑے قد اور ڈھانچے کے ہوسکتے تھے
اس سائٹ پہ پڑھ لیں۔اس کے مطابق ماضی میں زمین پر دیو ہیکل بڑی جسامت اور قد کے انسان موجود تھے اور ان کے ہزاروں ڈھانچے صرف اس لیے تباہ کیے گئے کہ اس سے نظریہ ارتقا کے غلط ہونے کا امکان تھا۔اس پر امریکی سپریم کورٹ میں کیس چلا کہ ماضی کے اتنے دیو ہیکل بڑے قد کے انسانوں کے ڈھانچے صرف یہ بات چھپانے کے لیے کیوں تباہ کیے گئے کہ کہیں اس سے بائبل اور اسلام میں بیان ماضی کے انتہائ بڑے قد کے انسانوں کا وجود ثابت نہ ہوجائے۔یہ علمی بے ایمانی،جھوٹ،فراڈ اور حقیقت چھپانے کی وہ کوشش تھی جو ارتقا والوں کی طرف سے کی گئی
http://worldnewsdailyreport.com/smithsonian-admits-to-destruction-of-thousands-of-giant-human-skeletons-in-early-1900s/
اس سورس سے تصویر لینے کے بعد وہ سائٹ اس کی تحقیق کرکے چودہ کا تذکرہ کرکے اس ایک کو اصل قرار دیتی ہے۔تصویر کے سورس پہ آپ جاتے ہیں۔تصویر پہ کی گئ تحقیق پہ کیوں نہیں۔
میں نے انسانی قد کے حواکے اے بڑا ہونے کے جو حوالے پیشکیے گئے اسمین بڑے قد کے حواکے سے نارمل انسانوں پہ بات کی گئ نہ کہ gigantism snd dwarfism پر۔ ارتقاء ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ابتدائی ہومو انسانوں کا قد بڑا تھا۔یہ پڑھ لیں
In one study, anthropologists estimated early Homo species were about 30 percent bigger than australopithecines. Homo erectus grew even taller, within the range of variation of modern people.
Read more: http://www.smithsonianmag.com/science-nature/how-death-played-a-role-in-the-evolution-of-human-height-152527401/#7MkwESFkUdDC6R72.99
Give the gift of Smithsonian magazine for only $12! http://bit.ly/1cGUiGv
Follow us: @SmithsonianMag on Twitter
دوسری بات جو سائٹ ملحدین کے حق میں نہ ہو،وہ ناقابل یقین ہوگی۔ملحدین کے پاس اس بات کا کیا ثبوت موجود ہے کہ انسانی قد کے حوالے سے جو میں نے سائیٹس پیش کی وہ ناقابل اعتماد ہیں۔کیا ان سائٹس سے جڑی کوئ ناقابل یقین آپ ثابت کر سکتے ہیں؟اگر نہیں تو اپنی خفت چھپانے کے لیے انہیں ناقابل یقین کس بات پہ قرار دے رہے ہیں۔کیا ملحدین ان دلائل کو کسی اور مستند تحقیق سے غلط ثابت کر کے دکھا سکتے ہیں؟ ملحدین کو پتہ ہے کہ اوپر آسٹریلین میوزیم کی جس سائٹ کا حوالہ انسانی قد کے حوالے سے میں نے پیش کیا وہ بھی خود ارتقا کے حامیوں کی ہے۔اب ملحدین اتنا بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں کہ ان سائٹس کا انکار بھی کر رہے ہیں جن سے ملحد لوگ ارتقاء کے حوالے پیش کرتے ہیں؟ملحدین ایک ایسے ضدی آدمی کی طرح طرز عمل اختیار کر ریے ہیں جس کی تعلیم زیادہ نہ ہو۔۔اگر واقعی ہیں تو خود ملحدین کی پسندیدہ ارتقائی سائٹس سے انسانی قد کے حوالہ جات کے بعد بھی ملحدین ضد پہ کیوں قائم ہیں۔
جب یہی سائٹس ارتقا ثابت کرنے کی بات کرتی ہیں توملحدین بھاگ کر ان کے حوالے پیش کرتے ہیں۔اب ملح بوکھلاہٹ میں یہ کہتے ہیں کہ ان سائٹس کا حوالہ کیا ہے۔آسٹریلین میوزیم ہیومن ایوولوشن کی سائٹ آسٹریلیا کی سب سے بڑی سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔یہ ارتقائی سائنسدانوں کی سائٹ ہے۔ اور دوسرا حوالہ ورلڈ ڈیلی نیوز رپورٹ کی سائٹ کا تو آپ کی سمجھ کو سو توپوں کی سلامی ہونی چاہیے اگر ملحدین کو اس سائٹ کا نہیں پتہ۔۔یہ سائٹ نیوز کی سب سے بڑی عالمی سائٹس میں شمار ہوتی ہے جس کے حوالے ملحد حضرات جیسے لبرل لوگ اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اب وہی سائٹ امریکی سپریم کورٹ میں چلنے والے ارتقائی ادارے سمتھسونین انسٹٹیوٹ پہ ایک ایسے کیس کا بیان کر رہی ہے جس میں انہوں نے کئ دیوہیکل انسانی کھوپڑیوں کو تباہ کر دیا تو اب وہ سائٹ بھی جھوٹی ہوگئ؟اب ملحدین نے اپنی ارتقائی سائٹس بھی خود جھٹلا دی اور دنیا کی سب سے بڑی نیوز رپورٹ سائٹس میں سے ایک بھی۔اب آسمان سے خدا اترے گا۔ایسے نا؟
ارتقائی سائٹ کا پیش کردہ لنک سائنسی تحقیق،ورلڈ نیوز رپورٹ کی سائٹ کی دیوہیکل انسانی کھوپڑیوں کے تباہ کرنے پہ امریکی سپریم کورٹ میں چلنے والے کیس یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ دیو ہیکل انسان موجود تھے اور ان کے ثبوت تباہ کر دیے گئے۔اب ملحدین ثابت کر کے دکھائیں کہ یہ سائٹس جھوٹ بولتی ہیں۔
نوے فٹ کیسے؟یہ بات خود سائنس کر رہی ہے کہ دیو ہیکل ڈھانچے موجود تھے اور تباہ کر دیے گئے۔اب امریکی سپریم کورٹ اتنی پاگل تو نہیں نا کہ ان جعلی ڈھانچوں کی تباہی پہ کیس چلاتی اگر یہ جعلی تھے۔
آسٹریلیا میں ایسے انسانوں کے اثرات دریافت کیے گئے ہیں جن کے صرف پاؤں کی انگلیاں دس سینٹی میٹر لمبی اور ان کا قد سترہ فٹ سے زیادہ تھا۔ایسے کئ دیوہیکل انسانوں کے ڈھانچے دریافت ہوگئے ہیں جن کے قد حیران کن حد تک زیا دہ ہیں۔مزید تفصیل یہاں پڑھ لیں
https://www.biblebelievers.org.au/giants.htm
اس طرح کے دیوہیکل ڈھانچے وارنا بلغاریہ میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔ان کی لمبائی کا اندازہ دو میٹر سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے
http://www.ancient-origins.net/news-history-archaeology/giant-human-skeleton-unearthed-varna-bulgaria-002787
قدیم مصر کے اثار قدیمہ میں ایسے نقوش پائے گئے ہیں جن میں بیس سے چوبیس فٹ قد کے انسان دکھائے گئے ہیں۔
https://www.google.com.pk/amp/s/muhammadabdo.wordpress.com/2012/12/21/mystery-of-ancient-egypt-the-giant-humans-forbidden-history/amp/
قدیم مصر کی عمارات حیسا کہ اہرام میں استعمال ہونے والے دیوہیکل پتھروں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیو ہیکل انسانوں کا کارنامہ ہیں۔
قدیم مصر کی آرکیالوجی کے حوالے سے یہ مضمون پڑھ لیجیے گا
https://www.google.com.pk/amp/s/muhammadabdo.wordpress.com/2012/12/21/mystery-of-ancient-egypt-the-giant-humans-forbidden-history/amp/
مالی میں ایک آرکیالوجیکل ماہر نے بیس فٹ سے زائد قد یعنی تین سے پانچ میٹر کے انسان کی باقیات دریافت کی ہیں۔یہ پڑھیں
http://www.thestar.com.my/news/nation/2016/12/18/giant-human-skeleton-found-historian-also-discovers-largerthanusual-graves-on-island/
یہ دریافت کرنے والا ماہر خود اعتراف کرتا ہے کہ 1871ء میں کینیڈا میں 200 دیو ہیکل ڈھانچے دریافت ہوئے۔
ایکوادور اور پیرو میں دو سے تین میٹر سے بھی زیادہ قد یعنی پندرہ فٹ سے بڑے انسانوں کے ڈھانچے دریافت ہوگئے ہیں۔مزید تفصیل یہاں پڑھیں
https://www.google.com.pk/amp/www.ancient-code.com/scientists-analyze-giant-skeletons-found-in-ecuador-and-peru/amp/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔