اللہ تعالٰی اور اسلام کے عدل و انصاف کے اصول سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں۔ کسی مسلمان کے برے اعمال کی وجہ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غلط نہیں کیا جا سکتا۔البتہ اس مسلمان کے عمل کو غلط قرار لازمی دیا جانا چاہیے جس نے یہ غلط عمل کیا یا اسلام کے نام پہ کسی پہ ظلم کیا۔اسلامی تاریخ میں کئ ایسی مثالیں موجود ہیں جب کفار کے ساتھ بھی عدل ہوا اور مسلمان کو سزا ملی۔ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ظاہری مسلمان کے مقابلے میں ایک یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا اور وہ یہودی یہ دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔دوسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا جب انہوں نے ایک مسلمان کو ایک غیر مسلم قبطی سے زیادتی کرنے پر سزا دی اور کہا کہ تم لوگوں نے کب سے لوگوں کو غلام بنانا شروع کر دیا جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد بنا تھا،مذہبی رواداری کی اور مثال یہ کہ خلافت عباس میں عیسائ و یہودی کئ اعلٰی عہدوں پہ فائز رہے،خلافت عثمانیہ میں باقاعدہ غیر مسلم بچوں کی کفالت کر کے انہیں سرکاری ملازمت دی جاتی،اور یہودی اس سلطنت میں سکون سے رہ رہے تھے جب کہ یورپ میں ان پہ ظلم پہ ظلم ہو رہے تھے جس کی خود یورپی تاریخ گواہ ہے۔البتہ کچھ ہر وقتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کسی غیر مسلم سے زیادتی کریں۔اس صورت میں اس مسلمان کو اس کے ظلم کی پوری سزا ملنی چاہیے اور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جائے۔غیر مسلم عورت کی عزت بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کہ ایہ مسلمان عورت کی۔یہی وجہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی عورتوں کی بیحرمتی سے منع کیا گیا ہے۔اگر کوئ زیادتی کرے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔قرآن و حدیث کا طالبعلم ایک مدرسے کا مسلمان ہو خواہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم نوجوان،جب بھی وہ کسی غیر مسلم سے زیادتی کرے اسے پوری سزا ملنی چاہیے لیکن کسی کے برے عمل سے اسلام کی تعلیمات کو نہیں جھٹلایا جائے گا کیونکہ ہمارے لیے نمونہ کوئ عالم کوئ مدرس کوئ پروفیسر نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
ساتھ کام کرنے والے غیر مسلموں کو بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔خود ہمارے ساتھ کئ عیسائ ماتحت کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری بول چال عام مسلمانوں سے تعلق سے مختلف نہیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔انڈیا کے ایک بزرگ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ایک سکھ بیت الخلا میں گیا مگر وہاں گندگی بھری ہونے کی وجہ سے واپس چلا آیا۔اس پہ وہ بزرگ گئے،بیت الخلا خود صاف کیا،جسے پھر اس سکھ نے استعمال کیا،یہ سلوک دیکھ کر وہ سکھ مسلمان ہو گیا۔
جس قدر مذہبی تعصب مسلمان ممالک میں کفار کے خلاف پایا جاتا ہے،اگرچہ اس کی بنیاد پہ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانا یا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ظلم ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ بغض یورپ و امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس کی مثال حجاب والی عورتوں کا حجاب کھینچ لینا،مسجدوں پہ حملے کرنا،زبردستی سور کا گوشت کھانے پہ مجبور کرنا جس پہ ایک پاکستانی سائنسدان امریکہ چھوڑ کر واپس آچکے ہیں،اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے والوں کو ہراساں کرنا،پردہ جو کہ ایک مسلمان عورت کا ذاتی و شرعی فعل ہے اس پہ پابندی لگانا،افغانستان میں دس لاکھ مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کے سروں میں کیل ٹھوکنا،بند کنٹینر میں سانس بند کر کے قتل کرنا،نہتی عورت کو چھیاسی سال قید کی سزا سنانا،ڈرون حملوں میں ناجائز بیگناہ عوام کا قتل کرنا،عراق میں سنی شیعہ تفریق پیدا کرا کے وہاں پانچ لاکھ سنی مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کو زندہ جلانا،مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹنا کونسا جائز کام ہے اور بد قسمتی سے یہ ظلم کفار کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ہو رہا ہے اور اس کی تصدیق خود منصف یورپی صحافی جیسا کہ میری یوان ریڈلی کر چکے ہیں۔جب کہ عالم اسلام میں رواداری کی شرح خود بین الااقوامی سروے کے مطابق باقی ممالک سے زیادہ ہے۔
جہاں تک مشرق وسطی کی بات ہے وہاں مقیم ملازم حضرات سے خفیہ اور اس طرح کی کچھ زیادتیاں کی جاتی ہیں لیکن اس زیادتی سے اسلام کا انکار اور کفر کا رحم ثابت نہیں کیاجا سکتا کیونکہ جو ظلم عراق، افغانستان،کشمیر،برما،چیچنیا،مشرقی تیمور،الجزائر،لیبیا،فلسطین،شام میں مسلمانوں سے روا رکھا جارہا ہے وہ ان غیر مسلم کی مذہبی رواداری ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔جو صحافی صاحبان مسلمانوں کے ظلم پہ مضمون لکھتے ہیں، ساتھ میں اگر ان ممالک کے مظلوم مسلمانوں اور عافیہ صدیقی کا تذکرہ بھی کر لیں تو مضمون اور جاندار ہو جائے کیونکہ موازنہ تب موثر ہوتا ہے جب ایمانداری پہ مبنی ہو۔باقی ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ کافر مسلمان سے کرے یا مسلمان کافر سے اور ظلم کی سزا ظالم کو لازمی ملنی چاہئے اس سے پہلے کہ مظلوم کی آہ عرش پہ پہنچ کے ظالم کی دین و دنیا برباد کر ڈالے۔
ساتھ کام کرنے والے غیر مسلموں کو بھی اچھوت نہیں سمجھنا چاہیے۔خود ہمارے ساتھ کئ عیسائ ماتحت کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہماری بول چال عام مسلمانوں سے تعلق سے مختلف نہیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ سنانا چاہوں گا۔انڈیا کے ایک بزرگ ریل میں سفر کر رہے تھے۔ایک سکھ بیت الخلا میں گیا مگر وہاں گندگی بھری ہونے کی وجہ سے واپس چلا آیا۔اس پہ وہ بزرگ گئے،بیت الخلا خود صاف کیا،جسے پھر اس سکھ نے استعمال کیا،یہ سلوک دیکھ کر وہ سکھ مسلمان ہو گیا۔
جس قدر مذہبی تعصب مسلمان ممالک میں کفار کے خلاف پایا جاتا ہے،اگرچہ اس کی بنیاد پہ ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہچانا یا ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ظلم ہے،لیکن اس سے کہیں زیادہ بغض یورپ و امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔اس کی مثال حجاب والی عورتوں کا حجاب کھینچ لینا،مسجدوں پہ حملے کرنا،زبردستی سور کا گوشت کھانے پہ مجبور کرنا جس پہ ایک پاکستانی سائنسدان امریکہ چھوڑ کر واپس آچکے ہیں،اپنی مرضی سے اسلام قبول کرنے والوں کو ہراساں کرنا،پردہ جو کہ ایک مسلمان عورت کا ذاتی و شرعی فعل ہے اس پہ پابندی لگانا،افغانستان میں دس لاکھ مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کے سروں میں کیل ٹھوکنا،بند کنٹینر میں سانس بند کر کے قتل کرنا،نہتی عورت کو چھیاسی سال قید کی سزا سنانا،ڈرون حملوں میں ناجائز بیگناہ عوام کا قتل کرنا،عراق میں سنی شیعہ تفریق پیدا کرا کے وہاں پانچ لاکھ سنی مسلمانوں کا قتل کرنا،ان کو زندہ جلانا،مسلمان خواتین کی عزتیں لوٹنا کونسا جائز کام ہے اور بد قسمتی سے یہ ظلم کفار کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ زیادہ ہو رہا ہے اور اس کی تصدیق خود منصف یورپی صحافی جیسا کہ میری یوان ریڈلی کر چکے ہیں۔جب کہ عالم اسلام میں رواداری کی شرح خود بین الااقوامی سروے کے مطابق باقی ممالک سے زیادہ ہے۔
جہاں تک مشرق وسطی کی بات ہے وہاں مقیم ملازم حضرات سے خفیہ اور اس طرح کی کچھ زیادتیاں کی جاتی ہیں لیکن اس زیادتی سے اسلام کا انکار اور کفر کا رحم ثابت نہیں کیاجا سکتا کیونکہ جو ظلم عراق، افغانستان،کشمیر،برما،چیچنیا،مشرقی تیمور،الجزائر،لیبیا،فلسطین،شام میں مسلمانوں سے روا رکھا جارہا ہے وہ ان غیر مسلم کی مذہبی رواداری ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔جو صحافی صاحبان مسلمانوں کے ظلم پہ مضمون لکھتے ہیں، ساتھ میں اگر ان ممالک کے مظلوم مسلمانوں اور عافیہ صدیقی کا تذکرہ بھی کر لیں تو مضمون اور جاندار ہو جائے کیونکہ موازنہ تب موثر ہوتا ہے جب ایمانداری پہ مبنی ہو۔باقی ظلم ظلم ہوتا ہے خواہ کافر مسلمان سے کرے یا مسلمان کافر سے اور ظلم کی سزا ظالم کو لازمی ملنی چاہئے اس سے پہلے کہ مظلوم کی آہ عرش پہ پہنچ کے ظالم کی دین و دنیا برباد کر ڈالے۔