Monday 23 October 2017

کیا قرآن میں عبداللہ بن ابی سرح کے ذاتی الفاظ شامل ہیں؟

نعوذ بااللہ کیا قرآن میں عبداللہ بن ابی سرح کے ذاتی الفاظ شامل ہیں؟ کیا قرآن کی سورہ 18 تبدیل کی گئ ہے؟ کیا کاتبین وحی قرآن میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرتے تھے؟
قرآن،کاتبین قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ ملحد سید امجد حسین کا اعتراض اور اس کا جواب
»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
عبداللہ بن سعد بن ابی سرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے رضاعی بھائی تھے۔
عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے فتح مکہ کے موقع پہ مرتد ہونے کے بعد دوبارہ قبول اسلام کے بعد 646ء سے 656ء کے درمیان مصر میں ایک طاقتور عرب بحری فوج مرتب کی۔ان کی قیادت میں مسلمانوں نے 655ء میں رومی بادشاہ قسطنطین دوم کی بحری فوج کے خلاف کئ فتوحات حاصل کیں۔حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک کارنامہ 647ء میں لیبیا فتح کرنے کے بعد اسے اسلامی سلطنت کا حصہ بنانا تھا۔وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے مصر کے عامل یعنی گورنر تھے۔
ملحدین جیسا کہ سید امجد حسین اور مستشرقین کے مطابق حضرت عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور انہیں کاتب وحی مقرر کیا گیا تھا۔ملحدین و مستشرقین کے بقول وحی کی کتابت کے دوران ان کو معلوم ہوا کہ قرآن نعوذ بااللہ خدائی کلام نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی خیالات ہیں اور وہ اسلام سے پھر کر مکہ مکرمہ بھاگ گئے اور قریش مکہ سے کہا کہ میں جان بوجھ کر وحی میں تبدیلی کرتا اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ بااللہ اس کا ذرا بھی علم نہیں تھا۔اب ہم ملحدین و مستشرقین کے اس اعتراض کے ان حوالوں کا تجزیہ کرتے ہیں جو ان کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔
1: تفسیر قرطبی میں مذکور ہے
"وہ یعنی عبداللہ بن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے اور پھر مرتد ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گئے۔وہاں جا کر انہوں نے قریش سے کہا کہ میں اپنی مرضی سے وحی میں جو چاہتا تھا ملاوٹ کرتا تھا۔وہ مجھے عزیز حکیم لکھنے کا حکم کرتے اور میں اسے تبدیل کرکے علیم حکیم لکھ دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے کہ ہاں تم نے ٹھیک لکھا ہے۔"
مزید سورہ الانعام( سورہ نمبر 6)، آیت نمبر 21،22کی تفسیر میں قرطبی لکھتے ہیں
"قرآن کی آیت کہ "اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پہ جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھ پہ وحی نازل ہوتی ہے جب کہ اس کی طرف کوئی وحی نازل نہیں ہوتی اور جو کہتا ہے کہ میں بھی وہی اتارتا ہوں جو اللہ تعالی اتارتا ہے"میں اللہ تعالی نے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں اور عبداللہ بن ابی سرح کا مذاق اڑایا ہے جو دعوی کرتا تھا کہ وہ بھی قرآن کی طرح وحی اتارتا ہے۔"
اب قرآن کی سورہ نمبر 23 یعنی سورہ المومنون پارہ نمبر 18 کی آیت نمبر 14کا ترجمہ پڑھ لیجیے۔
ثُـمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ۖ ثُـمَّ اَنْشَاْنَاهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللّـٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ (14)
پھر ہم نے نطفہ کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنائی پھر ہم نے اس بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے ایک نئی صورت میں بنا دیا، سو اللہ بڑی برکت والا سب سے بہتر بنانے والا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں قرطبی لکھتے ہیں
"جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آیت میں لفظ
ثم انشانہ خلقا اٰخر پہ پہنچے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا فتبارک اللہ احسن الخالقین یعنی بڑی برکت والا ہے اللہ تعالی جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح لکھ دو(یعنی نعوذ بااللہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ذاتی الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کا حصہ بنا دیا)۔ یہ بات مسند طیالسی میں مذکور ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ الفاظ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے نہیں بلکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہے تھے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں بلکہ یہ الفاظ عبداللہ بن ابی سرح نے کہے تھے اور نعوذ بااللہ اس سے اس کو پتہ چل گیا کہ وحی میں لوگوں کے ذاتی الفاظ شامل ہیں اور وہ گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گئے"۔
اب قرطبی کی پہلی بات کہ عبداللہ بن سرح قرآن میں عزیز حکیم کی جگہ علیم حکیم لکھ دیا کرتے تھے،تو قرطبی نے یہ دعویٰ کیا ہے لیکن اس واقعے اور روایت کی سند پیش نہیں کی۔لہذا قرطبی کی یہ بات ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
ملحدین و مستشرقین کو چاہئے کہ قرطبی کے حوالے سے اس اعتراض کی پہلے سند اور رایوں کا سلسلہ تو پیش کردیں۔جب کہ اسلام ہے ہی قرآن اور صحیح اور مستند رایوں کی روایات پہ مشتمل مذہب کا نام تو کسی بھی مفسر یا مورخ خواہ وہ قرطبی ہوں ،جو ہوں،کی کوئ بات بغیر سند کے کیسے مانی اور قابل قبول قرار دی جا سکتی ہے۔
اب قرطبی کے حوالے سے ملحدین کے اوپر پیش کردہ اعتراض کہ قرآن کی سورہ نمبر 23 یعنی سورہ المومنون آیت نمبر 14 میں فتبارک اللہ احسن الخالقین کے الفاظ نعوذ بااللہ عبداللہ بن ابی سرح نے شامل کیے،کا جائزہ لیتے ہیں۔ملحدین کہتے ہیں کہ یہ کام عبداللہ بن ابی سرح نے کیا۔لیکن قرطبی کے مطابق اس کام کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف بھی کی جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ملحدین و مستشرقین نے قرطبی کی پیش کردہ باقی دو شخصیات کو چھوڑ کر اس بات کی نسبت صرف عبداللہ بن ابی سرح کی طرف کیوں کی؟کیا اس لیے کہ وہ ایک بار گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گئے اور ان کے مرتد ہونے کو قران کے خلاف پیش کرنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما سے زیادہ آسان تھا جو ایک بار مسلمان ہونے کے بعد ہمیشہ مسلمان رہے؟ یہ وہ دھوکا،فراڈ اور حقیقت پوشی ہے جو مستشرقین و ملحدین نے قرطبی کے حوالے سے کرنے کی کوشش کی ہے۔اب جب کہ خود قرطبی کے مطابق یہ واضح ہی نہیں ہے کہ اس کا اصل ذمہ دار کون شخص تھا تو کیوں ملحدین و مستشرقین اس واقعے کی نسبت زبردستی عبداللہ بن ابی سرح کی طرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ واقعہ خواہ جس کی طرف بھی منسوب ہو،قرطبی نے اس واقعے کی سند تک پیش نہیں کی۔پھر کس طرح یہ واقعہ درست اور قابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے۔لہذا ملحدین کا اس اعتراض کے حوالے سے پہلا حوالہ انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
اب قرطبی کی تیسری بات کہ قرآن کی سورہ نمبر 6 یعنی سورہ الانعام آیت نمبر 21،22 یعنی اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پہ جھوٹ باندھے،عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ہے،تو اس کا بھی قرطبی نے کوئی حوالہ اور سند پیش نہیں کی۔لہذا قرطبی کی یہ بات بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
2: تفسیر طبری میں یہ روایت سورہ الانعام آیت نمبر 93 کی تفسیر میں اس طرح پیش کی گئی ہے
"ہم سے قاسم نے کہا،ان سے حسین نے کہا،ان سے حجاج نے کہا،ان سے ابن جریح نے کہا،ان سے عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ یہ آیت کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پہ جھوٹ باندھے اور کہے کہ مجھ پہ وحی نازل ہوتی ہے جب کہ اس کی طرف کوئی وحی نازل نہیں ہوتی،جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ بن کذاب کے بارے میں نازل ہوئی اور اس کے جملے کہ جو کہتا ہے کہ میں بھی وہ نازل کر سکتا ہوں جو اللہ تعالی نازل کرتا ہے، عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عزیز حکیم لکھنے کا حکم کرتے تو وہ اسے تبدیل کرکے نعوذ بااللہ غفور الرحیم کر دیتے۔اور اس کی ان تبدیل شدہ آیات کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تصدیق کرتے جس پہ وہ شک میں پڑا اور گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گیا اور فتح مکہ سے پہلے مر کے مقام پہ دوبارہ مسلمان ہوگئے۔"
اب اگر اس روایت کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرطبی کی روایت میں ہے کہ وہ عزیز حکیم کی جگہ علیم حکیم لکھ دیتا جب کہ طبری کے مطابق وہ غفور الرحیم کر دیتے تھے۔دوسری طرف طبری کہتے ہیں کہ وہ فتح مکہ سے پہلے دوبارہ مسلمان ہوگئے جب کہ باقی روایات کے مطابق وہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔یہ وہ پہلے دو تضادات ہیں جو اس جھوٹی کہانی میں موجود ہیں۔تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ طبری کی اس روایت میں راوی حجاج نامعلوم ہے۔اس کے والد اور کنیت کچھ مذکور نہیں۔الذہبی کے مطابق حجاج دو ہیں۔ایک حجاج نامعلوم اور دوسرے حجاج بن ابی زید الاسود ہیں۔حجاج نامعلوم ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے جب کہ دوسرے حجاج مستند راوی ہیں۔طبری کچھ نہیں بتا رہے کہ وہ یہ روایت کس سے راویت کر رہے ہیں۔لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
مزید طبری لکھتے ہیں
" مجھ سے محمد بن حسین نے کہا ، ان سے احمد بن المفضل نے کہا ، ان سے السدی نے کہا کہ آیت " اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پہ جھوٹ باندھے" عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمیع علیم لکھنے کا حکم کرتے تو وہ اسے تبدیل کرکے نعوذ بااللہ علیم حکیم لکھ دیتے۔لہذا وہ وحی کے بارے میں شک میں پڑے اور گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گئے اور کہا کہ اگر اللہ تعالی وحی نازل کر سکتا ہے تو میں بھی وحی نازل کر سکتا ہوں۔"
اب اگر طبری کی اس روایت کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرطبی کی روایت میں ہے کہ وہ عزیز حکیم کو تبدیل کرکے علیم حکیم لکھ دیتے،طبری کی ایک روایت میں ہے کہ وہ عزیز حکیم کو تبدیل کرکے علیم حکیم لکھ دیتے جب کہ خود طبری ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ وہ سمیع علیم کو تبدیل کرکے غفور الرحیم لکھ دیتے۔خود طبری کی اپنی دو روایتوں میں تضاد ہے اور یہ چوتھا تضاد ہے جو اس اعتراض کی روایت میں ہمیں مل رہا ہے۔دوسری اور سب سے اہم بات یہ کہ طبری کی اس روایت میں راوی سدی خواہ وہ سدی کبیر ہو یا سدی صغیر دونوں ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں۔لہذا سدی کے حوالے سے طبری کی یہ روایت بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
3: بیضاوی نے سورہ الانعام آیت نمبر 93 کی تفسیر میں لکھا ہے
" مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ یہ شرارت عبداللہ بن ابی سرح کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سورہ المومنون آیت نمبر 14 لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا فتبارک اللہ احسن الخالقین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہاں ہاں ایسے ہی لکھو کیونکہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی ہے۔اس پہ اس نے کہا کہ مجھ پہ بھی وحی نازل ہوتی ہے"۔
(تفسیر الانوار التنزیل والاسرار التاویل من عبداللہ بن عمر البیضاوی)
اب سوال یہ ہے کہ بیضاوی کہتے ہیں کہ مجھے یہ پتہ چلا ، کہاں سے پتہ چلا، کس نے کہا،کیا سند ہے اس واقعے کی؟اس کی کوئی سند پیش نہیں کی بیضاوی نے۔لہذا یہ روایت کس طرح قابل قبول کہی جا سکتی ہے جس کی سند تک بیضاوی نے پیش نہیں کی۔لہذا یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔
4: ابن الاثیر کی اسد الغابہ فی معرفت الصحابہ میں ہے
"وہ یعنی کہ عبداللہ بن ابی سرح فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے اور پھر گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گئے اور قریش مکہ سے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عزیز حکیم لکھنے کا حکم کرتے تو میں اسے تبدیل کرکے نعوذ بااللہ علیم حکیم لکھ دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہاں ہاں ایسے ہی لکھو۔"
یہی واقعہ ابن اثیر نے اپنی الکامل فی التاریخ میں فتح مکہ کی تفصیل میں لکھا ہے۔اب اگر ابن اثیر کی ان دونوں روایات پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ انہوں نے اپنی دو کتابوں میں لکھا لیکن اس کی کوئی سند پیش نہیں کی۔لہذا بغیر سند کے یہ واقعہ ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے۔
5:العراقی لکھتے ہیں
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین بیالیس تھے۔عبداللہ بن ابی سرح ان میں سے ایک تھے اور وہ پہلے قریشی تھے جو گمراہ ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وحی لکھا کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عزیز حکیم لکھنے کا حکم کرتے تو میں اسے تبدیل کرکے نعوذ بااللہ صرف حکیم لکھ دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہاں ہاں ایسے ہی لکھو اور کچھ موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جو پسند ہو لکھ دو اور اسی کے بارے میں قرآن کی آیت نازل ہوئی کہ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی پہ جھوٹ باندھے۔"
حقیقت یہ ہے کہ العراقی نے ایک ہزار اشعار پہ مشتمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ لکھی۔اس کے شعر نمبر 786 میں العراقی کہتے ہیں کہ میں نے یہ سیرت بہت سے لوگوں سے واقعات اکٹھے کرکے لکھی اور اس کی تصدیق آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ العراقی نے نہ ہی اس واقعے کی سند پیش کی اور نہ ہی اس پہ مکمل یقین کیا بلکہ اس کی مزید تصدیق اور تحقیق کی ذمہ داری قاری پہ عائد کی۔اب کس طرح بغیر سند کےکہا جا سکتا ہے کہ العراقی کا پیش کردہ یہ واقعہ قابل قبول ہے جب کہ خود وہ اپنی ساری سیرت کی تصدیق کی تلقین کر رہے ہیں۔شعر نمبر 796۔798میں وہ لکھتے ہیں
"انہوں نے تین افراد کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے یعنی عبداللہ بن ابی سرح،ابن خطل، اور ایک نامعلوم شخص اور یہ تینوں گمراہ ہوگئے تھے اور ان میں سے کوئی بھی دوبارہ اسلام کی طرف نہیں آیا سوا عبداللہ بن ابی سرح کے۔"
اب اگر العراقی کی اس روایت پہ غور کریں تو اس واقعے میں اوپر پیش کردہ چار تضادات کے بعد پانچواں تضاد سامنے آرہا ہے۔وہ یہ کہ اس واقعے کی نسبت عبداللہ بن ابی سرح کے علاوہ ابن خطل اور ایک نامعلوم شخص کی طرف بھی کی جا رہی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جھوٹے راویوں کی روایت تھی جس میں کئ تضادات ہیں۔دوسری بات یہ کہ اس کی بھی العراقی نے کوئی سند پیش نہیں کی۔لہذا یہ واقعہ ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے۔
6: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا اور سورہ البقرہ اور آل عمران پڑھی۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتا تھا۔وہ دوبارہ عیسائی ہوگیا اور لوگوں سے کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ بااللہ کچھ نہیں جانتے لیکن وہ جو میں ان کے لیے لکھتا تھا۔اس کی موت کے بعد لوگوں نے اسے دفن کرنے کی کوشش کی لیکن زمین نے اسے قبول نہیں کیا خواہ جتنی قبریں بھی اس کے لیے کھودی گئیں۔لہذا لوگوں نے اسے بغیر دفنائے چھوڑ دیا۔
اگر اس روایت پہ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں عبداللہ بن ابی سرح کی طرف سے وحی میں ملاوٹ کے جھوٹے واقعے کی نسبت عبداللہ بن ابی سرح کی بجائے ایک عیسائی شخص کی طرف کی جا رہی ہے۔یہ چھٹا تضاد ہے جو اس جھوٹی کہانی میں موجود ہے۔دوسری بات یہ کہ اس روایت کی جس مسلم ویب سائٹ پہ ہم نے پڑھی، بھی سند نہیں پیش کی گئی اور یہ روایت ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔یہاں تک کہ یہ ۔روایت پیش کرنے والی ویب سائٹ نے یہ تک نہیں لکھا کہ یہ روایت کس کتاب میں موجود ہے۔
7:ملحدین و مستشرقین مزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی سرح کی طرف سے وحی میں ملاوٹ کا واقعہ الواقدی کی کتاب المغازی میں بھی مذکور ہے۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ الواقدی انتہائی ضعیف اور ناقابل اعتبار راوی ہے اور محدثین نے اس کی روایات کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ تاریخ میں الواقدی کے کام کے سبھی معترف ہیں مگر محدثین نے الواقدی کو محدث تسلیم نہیں کیا، علم الحدیث کے علوم و فنون کی رو میں اُنہیں ضعیف، کمزور، غیر ثقہ یہاں تک کہ موضوع احادیث کا خالق کہا گیا۔ خطیب بغدادی نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے کہ : " محمد بن عمر الواقدی قاضی بغداد، متروک الحدیث" یعنی الواقدی کو متروک الحدیث کہا۔جن محدثین نے الواقدی کو علم الحدیث میں ضعیف یا غیر ثقہ کہا ہے وہ یہ ہیں:
امام شافعی متوفی 204ھ۔
امام یحییٰ بن معین متوفی 233ھ۔
امام اسحاق ابن راہویہ متوفی 238ھ۔
امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ۔
امام علی بن المدینی متوفی 241ھ۔
امام ابو عبداللہ محمد بن اسمٰعیل البخاری متوفی 256ھ۔
امام ابو زُرعہ الرازی متوفی 264ھ۔
امام ابوداود السجستانی متوفی 275ھ۔
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی متوفی 277ھ۔
امام نسائی متوفی 303ھ۔
امام ابن عدی متوفی 365ھ۔
امام دارقطنی متوفی 385ھ۔
امام ابو زکریا شرف الدین النووی متوفی 676ھ۔
امام شمس الدین الذھبی متوفی 748ھ۔
امام العلامہ ابن حجر العسقلانی متوفی 852ھ۔
لہذا واقدی کے حوالے سے بھی یہ واقعہ ناقابل اعتبار اور ضعیف ہے۔
ہماری نظر سے ایسی کوئی بھی صحیح روایت نہیں گزری جس میں یہ مذکور ہو کہ عبداللہ بن ابی سرح وحی کے الفاظ میں ملاوٹ کر دیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پتہ تک نہیں چلتا تھا۔ عبداللہ بن ابی سرح کے حوالے سے دوسری روایات پہ غور کیجئے جن میں ان کا تذکرہ ہے لیکن یہ بالکل مذکور نہیں ہے کہ وہ وحی کے الفاظ میں ملاوٹ کر دیتے تھے۔ابو داود کی ایک روایت ہے
حدثنا احمد بن محمد المروزي، ‏‏‏‏‏‏حدثنا علي بن الحسين بن واقد، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن يزيد النحوي، ‏‏‏‏‏‏عن عكرمة، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "كان عبد الله بن سعد بن ابي سرح يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم فازله الشيطان فلحق بالكفار فامر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل يوم الفتح، ‏‏‏‏‏‏فاستجار له عثمان بن عفان فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔(حدیث نمبر: 4358)
غور کریں۔اس روایت میں عبداللہ بن ابی سرح کے گمراہ ہونے کا تذکرہ تو ہے لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں ہے کہ وہ وحی میں ملاوٹ کر دیا کرتے تھے۔ایک اور روایت دیکھیے۔
صراط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے
"فتح مکہ کے دن پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مزاحمت کرنے والے کے سوا کسی سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی اور کچھ لوگوں کے بارے میں آپ نے فرمایا: انھیں قتل کر دو ، اگرچہ تم انھیں کعبہ کے پردوں کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے پاؤ۔ان میں سے ایک عبداللہ بن ابی سرح بھی تھا۔اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتا تھا لیکن پھر گمراہ ہوکر مکہ مکرمہ بھاگ گیا۔ جہاں تک عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کا تعلق ہے، اس نے اپنے آپ کو حضرت عثمان بن عفان کے گھر میں چھپا لیا۔ بعد ازاں ، جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لوگوں کو بیعت اطاعت کے لیے دعوت دی تو حضرت عثمان اس کو لے کر آئے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کھڑا کرکے کہا: یا رسول اللہ، عبداللہ کی بیعت قبول فرمائیے۔ راوی کہتے ہیں: پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے سر کو اٹھایا اور عبداللہ کی طرف تین مرتبہ دیکھا اور ہر دفعہ (خاموشی سے) اس کی بیعت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر تیسری مرتبہ آپ نے اس کی بیعت قبول فرمالی۔ پھر (عبداللہ کے جانے کے بعد) پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا عقل مند آدمی نہیں تھا جو کھڑا ہوتا اور اس آدمی کو قتل کر دیتا، جبکہ اس نے مجھے بیعت قبول کرنے سے احتراز کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کیا سوچ رہے تھے، آپ نے ہمیں اپنی آنکھ کے ساتھ اشارہ کیوں نہیں کیا؟ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: کسی پیغمبر کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ خفیہ طور پر اشارے کرے(صراط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،صفحہ 550)۔
اب غور کریں۔اس میں بھی عبداللہ بن ابی سرح کے گمراہ ہونے اور پھر دوبارہ مسلمان ہونے کا تذکرہ ہے لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ وہ وحی میں ملاوٹ کردیا کرتے تھے۔
طبقات کبیر صفحہ 174پہ ہے
"انصار کے ایک شخص نے عبداللہ بن ابی سرح کو قتل کرنے کی قسم کھا لی تھی لیکن ان کے رضاعی بھائی حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی جان کی امان طلب کی۔انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی گزارش پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معافی دے دی۔پھر اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا کہ تم نے عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کی اپنی قسم پوری کیوں نہیں کی۔اس پہ اس نے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ کے حکم کا انتظار تھا۔اس پہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی پیغمبر کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ خفیہ طور پر اشارے کرے۔
اس میں بھی عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کا حکم مذکور ہے لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ وہ وحی میں ملاوٹ کر دیا کرتے تھے۔
ابو داؤد حدیث نمبر 2683 میں مذکور ہے۔
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا، اس نے شراب پی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر حد لگائی۔
اس میں بھی عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کا حکم مذکور ہے لیکن یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ وہ وحی میں ملاوٹ کر دیا کرتے تھے۔
لہذا ہماری اب تک کی ساری بحث ظاہر کر چکی ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح کی طرف سے وحی میں ملاوٹ کا ملحدین و مستشرقین کی طرف سے اعتراض ضعیف اور ناقابل اعتبار روایات پہ مبنی ایک جھوٹ ہے اور کچھ نہیں۔جب کہ کئی دیگر حوالے ایسے ہیں جو عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کا حکم بیان کرتے ہیں لیکن ان میں یہ کہیں پہ مذکور نہیں کہ وہ وحی میں ملاوٹ کر دیا کرتے تھے۔اس پہ ملحدین و مستشرقین سوال کرتے ہیں کہ آخر پھر کیوں پانچ سے سات کے درمیان مفسرین و مورخین نے یہ ضعیف روایت اپنی کتب میں لکھی۔اس کا جواب یہ ہے کہ ابتدائی مصنفین کی توجہ ضعیف اور صحیح کی تحقیق کی بجائے صرف تدوین و تصنیف کی طرف تھی تاکہ موجود علم کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔انہوں نے تحقیق کے کام کی ذمہ داری اگلی نسل جیسا کہ صحاح ستہ کے مصنفین پہ ڈالی جنہوں نے صحیح روایات کو ضعیف روایات سے الگ کیا۔اگر تمام ابتدائی مسلم مورخین و مفسرین تحقیق کے کام میں لگ جاتے تو روایات کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوجاتا۔
اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وحی کی کتابت کے دوران عبداللہ بن ابی سرح قرآن میں تبدیلی کر دیا کرتے تھے تو اس بات کا ملحدین و مستشرقین کیا جواب دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیالیس کاتبین وحی تھے اور عبداللہ بن ابی سرح ان میں سے صرف ایک تھے۔کیا اگر وہ وحی میں تبدیلی کر ریے تھے تو باقی کاتبین وحی یہ نہیں دیکھ رہے تھے؟ وہ تو ان کی غلطی اور سازش اگر یہ تھی بھی سہی تو فوری پکڑ لیتے۔وحی کی کتابت کوئی خفیہ تو نہیں تھی کہ عبداللہ بن ابی سرح جو چاہتے خفیہ طور پہ اس میں تبدیلی کرتے رہتے۔
ملحدین و مستشرقین مزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی سرح نے فتح مکہ کے موقع پہ تلوار کے خوف سے دوبارہ اسلام قبول کیا۔سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے تلوار کے ڈر سے دوبارہ اسلام قبول کیا تو پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دوبارہ اسلام سے کیوں نہیں پھر گئے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آخر وقت تک مسلمان رہے اور مصر کے عامل یعنی گورنر کی حیثیت سے اسلام کی طرف سے افریقہ کے جہاد میں شریک ہوئے۔اج مصر اور لیبیا انہی کی وجہ سے مسلمان ملک ہیں۔
ملحدین و مستشرقین مزید کہتے ہیں کہ اگر عبداللہ بن ابی سرح حقیقی طور پہ قتل کے مستحق تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کیوں کیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ عبداللہ بن ابی سرح قتل یا زنا جیسے کسی جرم کے مرتکب نہیں تھے جس کی سزا قرآن میں واضح طور پہ قتل ہے۔لہذا ان کی معافی کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کر دیا۔
مزید ملحدین و مستشرقین کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں عبداللہ بن ابی سرح کے قتل کا حکم دیا جب کہ وہ باقی چار کے سوا سب اہل مکہ کو معاف کر چکے تھے۔اسلام میں حدیث کے مطابق مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ مرتد ہوگئے تھے۔
مزید ملحدین و مستشرقین کہتے ہیں کہ اگر عبداللہ بن ابی سرح مرتد ہوئے تھے تو کیوں اور کس وجہ سے مرتد ہوئے تھے۔ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ جب کہ ان کے ارتداد کی صحیح وجہ کسی صحیح حدیث میں مذکور نہیں لیکن آخر کیوں وہ دوبارہ مسلمان ہونے کے بعد زندگی بھر مسلمان اور اسلام کی پہلی صفوں کے سپاہی رہے اگر ان کے بقول قرآن تبدیل شدہ تھا؟
لہذا اب تک کی ہماری ساری بحث ظاہر کرتی ہے کہ قرآن میں عبداللہ بن ابی سرح کی طرف سے تبدیلی کا ملحدین و مستشرقین کا اعتراض انتہائ ضعیف اور نامکمل اسناد پہ مبنی روایات سے اخذ کیا گیا ہے جس کو ہماری اب تک کی ساری بحث غلط ثابت کر چکی ہے۔کیا وہ اس واقعے کا کسی مستند روایت سے ثبوت پیش کرسکتے ہیں؟ جب کہ ہم اس واقعے کی مکمل تحقیق کر چکے ہیں۔وہ یہ کبھی نہیں کر سکتے اور نہ کر سکیں گے اور ان شاء اللہ قیامت تک قرآن کو جھٹلانے کی اپنی کوششوں میں ناکام رہیں گے اور سب تعریف اللہ تعالی کی ہی ہے۔
ھذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Abdallah_ibn_Sa%27d
https://ar.m.wikipedia.org/wiki/إسماعيل_بن_عبد_الرحمن_السدي،http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=285255
http://www.islamic-awareness.org/Quran/Sources/Sarh/
https://islamqa.info/en/168773
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Al-Waqidi

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔