ایک ملحد کا قرآن پہ اعتراض ہے کہ قرآن میں قرآن مین نو ہزار اضافی الف موجود ہیں جو کہ قرآن کے سابقہ نسخوں میں موجود نہیں تھے۔مثلا سورہ البقرہ آیت 110،126،سورہ فاتحہ آیت 1-4،سورہ طہ آیت 63۔مزید برآں لفظ اللٰہ 2700بار الف کے بغیر غلط استعمال کیا گیا ہے۔
لفظ الانسان کو قدیم نسخوں میں الف کے بغیر صرف انسان لکھا گیا۔جس پہ اسے اعتراض ہے کہ اس میں الف کا اضافہ جدید دور میں کیا گیا۔
مزید اس کا کہنا ہے کہ سورہ محمد آیت 4میں والذین قُتِلوا فی سبیل اللٰہ فلن یضل اعمالھم میں الف کے بغیر معنی بنتا ہے کہ کہ وہ قتل کیے گئے جب کہ الف کے ساتھ معنی بنتا ہے کہ وہ لڑے۔
مزید اس کا کہنا ہے کہ سورہ توبہ ایت آیت 47،سورہ ہود آیت 68،سورہ فرقان آیت 38،سورہ العنکبوت آیت 38،سورہ نجم آیت 51،سورہ الاعراف آیت 103،سورہ یونس آیت 75،83،سورہ ہود آیت 97،سورہ المومنون آیت 46،سورہ القصص آیت 32،سورہ زخرف آیت 46میں الفاظ کے صحیح تلفظ کے لئے الف کو ساکت کر دیا گیا ہے۔
اہل علم ساتھی علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔عین نوازش ہوگی۔
جواب۔۔۔۔۔
ملحد بغض اسلام میں اندھے ہو چکے ہیں
جتنے بھی عربی گرائمر کے قوانین مرتب کئے گئے ہیں وہ سب قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت عربی گرائمر کے لیے معیار ہے نہ کہ اس معیار پر بنائے گئے قوانین قرآن مجید پر اعتراضات کا باعث ہیں
جس ملحد کی عربی گرائمر پر گرفت مضبوط نہیں وہ جاہل دو چار قوانین پڑھ کر اعتراض کرنا شروع کر دے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ عربی گرائمر سیکھو پهر بات کرنا
عرب کے چوٹی کے کافر ہزار کوشش کے باوجود قرآن کو چیلنج نہیں کر سکے۔
یہ اعتراض جو سورہ محمد کی آیت 4کے بارے بیان کیا گیا ہے وہ ملحد کا پاگل پن ہے
قتلوا دو طرح آتا ہے معروف اور مجہول دونوں صورتوں میں الف لازمی آئے گا کیونکہ جمع ماضی کا صیغہ الف کے ساتھ آتا ہے تو جب معروف ہو گا تو معنی ہو گا انہوں نے قتال کیا یا وہ لڑے اور مجہول پڑھیں گے تو معنی ہو گا وہ قتل کئے گئے
یہاں الف سے ترجمہ نہیں بدلے گا بلکہ معروف و مجہول پڑھنے پر معنی بدلیں گے الف دونوں صورتوں میں لازم ہے۔
اضافی الف کوئی مسئلہ نہیں
ممکن ہے یہ رسم الخط ہو جس میں بعد میں زبر زیر پیش وغیرہ علامات کی طرح اضافہ کیا گیا ہو
اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الحمد للہ
میں لفظ اللہ بغیر الف کے عربی رسم الخط ہے
اس طرح کے رسم الخط کو تبدیلی کہنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
یہ اعتراض بونگی کے سوا کچھ نہیں۔
کیونکہ یہ رسما لخط اردتا اپنایا گیا ہے اور اسکا اعتبار اسی وقت سے آج تک چلا آرہا ہے
یہ قرآنی خطاطی کوئی خانہ ساز نہیں ہے کہ جو کوئی جیسے چاہے لکھ ڈالے
بلکہ جس لفظ کو جہاںجیسے لکھوانے کا التزام کیا گیا تھ تو اسی التزام کے ساتھ اسکے آگے نقل کیا گیا
مثلا یہ ابراہیم کا لفظ
کہیں قرآن میں "ابرھم " ( ھ پر کھڑی زیر کے ساتھ ) لکھا ہے اور کہیں ابراھیم ( یا مدہ کے ساتھ )
اور اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا
اب ایسا کیوں کیا گیا ؟
تو مختلف قرات کا اعتبار کرتے ہوئے
مصحف عثمانی جب لکھوایا جا رہا تھا تو جس جگہ قرآت کا اختلاف ہوتا تھا تو اسکی املا اس طور پر کیجاتی تھی کہ دونوں قرات کا لحاظ ہو جائے
کیونکہ اس وقت تک نکتے ، زبر زیر ، پیش ، وغیرہتو ہوتے نہیں تھے بس خالی نقوش ہوتے ہے اس لیئے
اب یہ کہنا کہ کہ کمی یا زیادتی ہے تو یہ جہالت ہے۔
یہ سب باتیں گرائمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ املا سے تعلق رکھتی ہیں
اور اس سے معنی میں بالکل فرق نہیں پڑتا
یہ باتیں بالکل ایسا ہی ہے کہ طوطا "ط "کے ساتھ لکھنا چاہیئے یا "ت "کے ساتھ
تو اسکی اصل املا"ت "کے ساتھ ہے یعنی "توتا"
لیکن سبھی طوطا لکھتے ہیں
لیکن بہر حال گرائمرکا اس سے کوئی تعلق نہیں اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک نیک شخص کی بیوی خواہ مخواہ اکثر اس سے جھگڑتی رہتی تھی تنگ آکر آخر ایک دن اس نیک شخص نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اے نیک بخت تو مجھے کیوں ستاتی ہے؟ کیا میں نے کبھی تیری کوئی حق تلفی کی ہے؟ تو عورت نے جواب دیا نہیں. آپ بہت اچھے ہیں مگر مجھے آپ سے صرف ایک شکایت ہے. پوچھا کیا؟ عورت نے کہا کہ جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو آپ کی داڑھی ہلتی ہے بس اسی وجہ سے میں آپ کو ستاتی ہوں. ملحد کا حال بھی اس عورت سے مختلف نہیں ہے اس کی بھی شکایت صرف ایک ہے کہ آپ مسلمان ہو ملحد کیوں نہیں ہو؟ ملحد سوال کرنا برائے جواب نہیں ہوتا بلکہ سوال برائے سوال ہوتا ہے. اور یہ مسئلے نہیں بلکہ ڈھکوسلے پوچھتاہے اقبال نے اس قسم کے لوگوں کی کیا خوب سرزنش فرمائ ہے. زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے. غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کردیا تونے. جہاں تک پوسٹ مذکور سوال کے جواب کا تعلق ہے تو میں اتنا عرض کروں گا قرآن کریم کا نازل کرنے والا رب تعالٰی ہے اور اسی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ رب العزت لے لے اس کو کوئی بری نیت سے دیکھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ اس میں ردو بدل کرسکے رہا الف زائدہ وساکتہ کا مسئلہ تو پیارے بطور لازم فاءدۃ الخبر عرض ہے کہ یہ عربی زبان ہے .،سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئیے، بڑے بڑے فصحاء و بلغاء عرب اعجاز قرآن کے دبدبے کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہو گئے ماوشما عجمی لوگ تو کسی گنتی میں نہیں ہیں قرآن میں کوئی بھی حرف بلا مقصد نہیں ہے یہی ہمارا عقیدہ ہے. . .اور ملحد کے اس قسم کے سوال سے وہی گمراہ ہوگا جو پہلے سے ہی دین سے دور ہوگا ورنہ ایک عام مسلمان بھی تخریج و تحریف قرآن کا قائل نہیں۔
لفظ اللہ میں شد کا اضافہ اسے الللہ بنادے گا ؟
اس بدھوکویہ نہیں پتہ کہ ال لہ میں دو لام ہیں جب دونوں کو آپس میں ضم کیا جائے گا تو ایک جزم اور ایک حرکت ملکر مشدد بنائیں گے
ابّ تشدید کے ساتھ اسکی اصل یہ "اَب "اور بَ"
جب دونوں کو ملائیں گے تو اب ہو جائے گا ( تشدید کے ساتھ )۔
عام عربی رسم الخط: عام عربی رسم الخط میں کلمات کو اعراب(Vocalization)اور حروف کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے جس میں پڑھنے والا اس کلمہ یا جملہ کو ایک ہی انداز میں پڑھ سکتا ہے جس کے معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوپاتی۔ مثلاً مالک کا لفظ عام عربی میں ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور اسے مالک ہی پڑھتے ہیں۔ اور قال کو قال ہی۔ اس رسم الخط کی مزید انواع میں خط رقعہ اور خط نسخ خاصے معروف ہیں۔
قرآن مجید کارسم الخط: یہ وہ خط ہے جوسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بالاتفاق کتابت قرآن مجید کے لئے اپنایا گیا اسے رسم عثمانی یا رسم المصحف کہتے ہیں۔ یہ خط گو عربی رسم الخط سے ملتا جلتا ہے مگر چند مخصوص مقامات پر آپ ﷺ کی ہدایات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی گئی جن سے الفاظ قرآن کے معانی میں وسعت پیدا ہو گئی ۔جیسے: ملک اور قل کے الفاظ ۔ اسے مَلِکِ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مٰلِکِ بھی۔ یا قُلْ بھی پڑھا جا سکتا ہے اور قالَ بھی۔ اس طرح بلاشبہ ان کے معانی وسیع ہو گئے۔ ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم لکھتے وقت اس رسم الخط کا انتخاب کیا گیا چونکہ سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ نے یہ زور دیا کہ رسم الخط وہی اختیار کیا جائے جس کی طرف آپ ﷺ نے راہنمائی فرمائی تھی۔ اسلئے اسے رسم عثمانی کہا گیا۔
اس خط کا فائدہ یہ ہوا کہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا۔ الفاظ کو مختلف انداز میں لکھنے اور پھر پڑھنے سے نص قرآن کی ادائیگی میں وسعت پیدا ہوگئی اور غلطی کا امکان ختم ہو گیا۔ قرآن علماء کے سینوں میں محفوظ تھا جو دوسرے سے بالمشافہہ سنداً اخذ کیا کرتے تھے۔ اس لئے قراءت میں اختلاف ممکن نہ رہا۔
عربی رسم اوررسم عثمانی کافرق : علماء نے ان دونوں خطوط میں بظاہر اختلاف یا فرق سے چھ قواعد مستنبط کئے ہیں۔
#پہلا_قاعدہ : #حذف: رسم عثمانی میں پانچ حروف کو بعض مقامات پر حذف کر دیا گیا ہے جبکہ عام عربی رسم الخط میں یہ حروف موجود ہیں۔جو درج ذیل ہیں: الف، واؤ ، یاء، لام، اور نو ن
(ا) #حذف_الالف : رسم عثمانی میں تین وجوہ کی بناء پر الف کو حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً:
حذف اشارہ : اشارہ سے مراد کہ یہاں الف کسی اور قراءت میں محذوف ہے ۔ جیسے: {مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۳ۭ} میں الف کا حذف۔ یا {وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ} میں اُسٰرٰى کی سین پر الف کا حذف۔
امام حمزہ نے اسے اسرى یعنی سین ساکن اور راء کو بغیر الف کے پڑھا ہے۔ یا {تُفٰدُوْھُمْ} میں الف کو گرا کر {تَفْدُوْہُمْ} تاء زبر اور فاء جزم کے ساتھ بغیر الف کے پڑھا گیا جو امام ابن کثیر، ابو عمرو، ابن عامر اور حمزہ وخلف کی قراءت ہے۔
حذف اختصار: جمع مذکر و مؤنث سالم سے وہ الف جس کے بعد نہ تشدید ہو نہ ہمزہ، حذف کردی گئی۔ جیسے: {العٰلَمِینَ}، {وَالذّٰرِیٰتِ} {وَالْحٰفِظِیْنَ}، {وَالصّٰدِقِیْنَ}۔ اگر الف کے معاً بعد حرف مشدد آیا یا مہموز، تو پھر الف کو لکھا۔ جیسے: {الضّٰآلِّیْنَ} {وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ} یا {للِطَّآئِفِیْنَ} {وَالْقَآئِمِیْنَ} یا {أوْ ہُمْ قَآئِلُوْنَ}۔ اسی طرح فَعَّالین اور فَعَّالون کے وزن پر جو لفظ آیا ۔۔ سوائے چند ایک کے۔۔ اس میں بھی الف محذوف کر دیا۔ جیسے: {کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ}، {لِلأوّٰبِیْنَ}، {طَوّٰفُوْنَ} اور {الخرّٰصُوْنَ} میں ۔
حذف اقتصار: مراد یہ ہے کہ ایک مقام پر ایک لفظ میں یہ الف حذف ہوا مگر دوسرے مقام پر نہیں ہوا ۔ جیسے لفظ المیعاد میں الف کو اس آیت میں حذف کردیا گیا ہے۔ {وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ} (الانفال:۴۲) جبکہ دوسرے مقامات پر یہ بدستور موجود ہے۔ اسی طرح {الْقَہَّار} کا لفظ سورۃ الرعد کی آیت :۱۶میں بغیر الف کے ہے اور دوسرے مقامات پر نہیں۔ اسی طرح یُسٰرِعُوْنَ، اِبْرَھِیْمَ، سَلٰمٌ، الْمَسْجِدِ، یُجٰدِلُوْکُمْ، بَلِّغْ، بَطَلَ، عَھَّدُ، تُرٰباً وغیرہ میں الف حذف شدہ ہے۔
رسم عثمانی میں الف کو اور متعدد جگہوں پر بھی حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً: ہر وہ اسم جس کے آخر میں یاء ما قبل کسرہ آیا ہو وہاں بھی الف کو حذف کیا گیا۔جیسے{الصّٰبئین}، {طٰغِین} {غٰوِین} وغیرہ۔
جب الف، لام کے بعد درمیان میں آئے یا دو لاموں کے بعد آئے تو وہاں بھی الف حذف کیا گیا۔ جیسے: {الإصلٰح}، {عَلّٰمَ الغُیُوْبِ}، دو لاموں کے درمیان الف کے حذف کی مثال: {إلَّا فِیْ ضَلٰلٍ} {وَلَا خَلٰلٍ}۔ {کَلٰلَۃٍ}۔
ہر ایسا لفظ جس میں ہاء تنبیہ(warning) کی تھی یا نداء کی۔ اس سے الف حذف کیا گیا بشرطیکہ وہ لفظ کے آخر میں نہ ہو۔ جیسے: {ہٰتین} {ہٰذَا} یا {ہٰؤُلَآئِ}، {ھٰٓاَنْتُمْ} جبکہ ھا کے ساتھ موجود الف، انتم اور اولاء کا اپناہے۔
اسی طرح الف کا حذف {یاأیھا} کی یا سے ۔ اور اس کو یوں لکھاگیا (یٰٓأیُّھَا النَّاسُ) اسی طرح {یٰنِسٰآءَ النَّبِی} {یٰآدَمُ}، {یٰإبْرٰہِیْمُ} وغیرہ میں حرف ندا کو بھی بغیر الف کے لکھا گیا۔
(ب) #حذف_الیاء: الف کی طرح "ی"بھی متعدد مقامات پر حذف کی گئی۔ مثلاً:
متصل یاء المتکلم کو ان کلمات سے حذف کیا گیا، جیسے: أطِیْعُوْنِ، تَعْبُدُوْنِ، کِیْدُوْنِ، اِتَّبِعُوْنِ وغیرہ میں آخری نون دراصل نی ہے جس کی "ی"محذوف ہے اور "ن"کی زیر اس کی قائم مقام ہے۔
جب ایک یاء دوسری یاء کے ساتھ لفظ میں اکٹھی ہوگئی تو وہاں بھی ایک یاء گرا دی گئی خواہ وہ یاء ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے: {مُتَکِئِیْنَ}، {سَیِّآتِ} ۔ یا وہ ہمزہ کی صورت میں نہ تھی جیسے: {النَبِیّٖنَ} {الأمیّٖن}۔
٭ ہر اسم منقوص کے آخر میں جہاں رفع یا جر آنا تھا وہاں بھی یاء حذف کی گئی۔ جیسے: {بَاغٍ}، {ہَادٍ}، {وَالٍ}، {وَاقٍ}، {الدَّاعِ}، {والْبَادِ}۔
(ج) #حذف_الواو: واؤکو بھی متعدد مقامات پر حذف کیا گیا۔ مثلاً:
٭ جب ایک واؤ دوسری واؤ کے ساتھ ایک ہی کلمہ میں جمع ہوجائے تو وہاں ایک واؤ گرا دی گئی خواہ وہ ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے {مَسْؤُلًا}، {وَلَا یُؤدُہٗ}، {تؤیہ} یا وہ ہمزہ کے بغیر تھی۔ جیسے: {دَاوٗدَ}، {وَلَا تَلْوٗن}، {لَا یَسْتَوٗن}۔
٭ واؤ کو لفظ پر بوجھ سمجھ کر حذف کردیا گیا کیونکہ اس کا پڑھنا بھی ممکن نہ تھا۔ جیسے: یَدْعُ الدَّاعِ، وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ ، سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ، میں سے واؤ حذف ہوئی جو دراصل یدعو، یمحو، سندعوا تھے۔
(د) #حذف_اللام: پانچ الفاظ خواہ وہ مفرد تھے یا تثنیہ وجمع۔ ان میں اس لام کو حذف کردیا گیا جو دوسری لام کے ساتھ آیا۔ یہ پانچ الفاظ (الَّیْل)، (الَّائی)، (الّٰتِی)، (الَّاتِی)، (الَّذِیْ) ہیں۔ ان پانچ الفاظ کے علاوہ باقی میں لام کو رہنے دیا گیا جیسے: (اللَّطِیْفُ)، اللَّوَّامَۃُ)،( اللُّؤْلُؤُ) اور (اَللّٰہُمَّ)۔
(ہ) حذف النون: دو مقامات پر نون کو حذف کیا گیا جو {فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ} اور {وَکَذٰلِکَ نُــنْجِیِ الْمُؤْمِنِیْنَ} ہیں۔
#دوسرا_قاعدہ : الزیادۃ (اضافہ) : کلمہ میں کسی حرف کا حقیقی اضافہ اس طرح ہو کہ اسے نہ ملا کر پڑھا جاسکے اور نہ اس پر وقف ہوسکے۔ کبھی بعض حروف میں یہ اضافہ غیر حقیقی بھی ہوتا ہے پھر وقف میں وہ پڑھا بھی جاتا ہے جیسے: {لٰکِنَّا} کے لفظ میں الف کا اضافہ۔ یا ابتداء میں الف کا اضافہ جیسے: لفظ ابن کی ابتداء میں الف کا اضافہ، جب وہ سطر کے شروع میں آئے۔ رسم عثمانی میں جن حروف کا اضافہ کیا گیاہے وہ تین ہیں: الف، واؤ اور یاء۔
(ا) زیادۃ الالف: کچھ الفاظ میں واؤ جمع کے بعد الف کا اضافہ کیا گیا بشرطیکہ واؤ جمع فعل ضمیر سے متصل نہ ہو مثلاً: {تَاْمَنُوْا}، {کَفَرُوْا}، {اِعْدِلُوْا} وغیرہ۔ سوائے چند کے جیسے: {فإنْ فَائُ وْ} {عَتَوْ} ۔
٭ واؤ اصلی کے بعد الف کا اضافہ فعل مضارع معتل الآخر میں مرفوع یا منصوب واؤ کے بعد کیا گیا۔ جیسے: {یَدْعُوْا} {لِیَرْبُوَا} {نَبْلُوَا} سوائے ایک جگہ کے جو {عَسَی اللہُ أَنْ یَّعْفُوَ} ہے اس میں الف حذف کردی گئی۔
٭ جمع مذکر سالم میں جو واؤ علامت رفع ہے اسکے بعد الف کا اضافہ بھی کیا گیا۔ یا جو واؤ مذکر سالم کے قائم مقام آئی اس کا نون حذف کرکے وہاں الف کا اضافہ کردیا گیا۔ جیسے: {مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ}، {کَاشِفُوا الْعَذَابِ}، {صَالُوا النَّارِ}۔
٭ اسی طرح بعض مقامات پر الف کا اضافہ بغیر کسی قاعدے کے کیا گیا۔ مثلاً: {عٰلِیٰھُمْ}، {لِشَايْءٍ}، {مِائَۃٍ}، {لَااِلیَ اللہِ}، {مَلَائِہٖ}، {أَفَاِئنْ مَّاتَ} وغیرہ ،جو دراصل عَلَیْہِمْ، لِشَیْءٍ، مِئَۃٌ، لَإِلَی اللہِ، مَلَئِہٖ، أَفَئِنْ مَّاتَ تھے۔
٭ واؤ کے بعد الف کا بھی اضافہ ہوا جیسے: {تَفْتَؤُا}، {اٰتَوَکَّؤُا} {تَظْمَؤُا} شاید یہ الف، ہمزہ متطرفۃ ہے جو لفظ کے کنارے پرواؤ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح نون کے بعد الف کا اضافہ جیسے: {لَکِنَّا ہُوَا اللہُ}، {والظُّنُوْنَاْ}۔
(ب) زیادۃ الیاء: رسم عثمانی میں یاء کا اضافہ دو طرح سے کیا گیا ہے۔
٭ جس لفظ میں ہمزہ مکسورہ تھا خواہ اس سے پہلے الف ہی کیوں نہ آئی ہو وہاں یاء کا اضافہ کیا گیا۔ جیسے: {مِنْ وَّرَائ حِجَابٍ}، {مِنْ تِلْقَائ نَفْسِی}، {اِیْتَاءِ} وغیرہ ہیں۔ یا الف آئی ہو جیسے: {اَفَائِنْ مِّتَّ} یا {اَفَائِنْ مَّاتَ} میں۔
٭ وہ لفظ جس میں ہمزہ مکسورہ تھا اور نہ ہی الف۔ وہاں بھی یاء کا اضافہ اسی نوعیت کے دو کلموں میں کیا گیا۔جیسے: {بِاَیِّکُم} اور {بأییْدٍ} وغیرہ میں۔
(ج) زیادۃ الواؤ : الف اور یاء کی طرح چار الفاظ {یٰأُولِی}، {أُولُوا}{أُولَائِ}، {أولٰت} میں واؤ کا اضافہ بالاتفاق کیا گیا اور {سَاُورِیْکُمْ}، {وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ} میں واؤ کے اضافہ پر اختلاف کیا گیا ۔ پہلے میں واؤ کا اضافہ راجح کہا گیا اور دوسرے میں عملاً اس کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
تیسرا قاعدہ : قاعدہ ہمزۃ: رسم عثمانی میں عام عربی رسم الخط سے ہٹ کر ہمزہ کی کتابت کے لئے یہ چند منفرد طریقے اپنائے گئے۔ اس لئے کہ ہمزہ لفظ کی ابتداء یا وسط یا آخر میں ہوتا ہے ۔
(ا) ہمزہ ساکن: ہمزہ ساکن کو اس سے ما قبل حرف کی حرکت کے مطابق لکھا گیا۔
٭ … اس سے قبل زبر کی صورت میں اسے"الف"پر لکھا گیا۔ مثلاً: البأساء، اقرأ۔
٭… زیر کی صورت میں ہمزہ کو "ی"پر لکھا گیا۔ مثلاً: ائذن لی، جئنا۔بئر۔
٭… جبکہ پیش کی صورت میں اسے "و"پر لکھا گیا۔ مثلاً: اؤتمن، المؤتون۔
(ب) ہمزہ متحرک: ہمزہ متحرک کی کتابت الف پر ہونی چاہے اس پر زبرہو، زیرہو یا پیش ہو۔ مثلاً: أیُّوْبَ، إذَا، أنْزَلَ۔ لیکن اگر ہمزہ متحرک کلمہ کے وسط میں آئے تو اس کی حرکت کے موافق حرف پر اس کی کتابت کی گئی مثلاً: سأَلَ، سُئِل، نَقْرءُہٗ۔
ہمزہ اگر آخر میں آیا اوراس کا ماقبل ساکن تھا تو اس کی کوئی صورت بھی اختیار نہیں کی گئی بلکہ اسے علیحدہ لکھا گیا۔ جیسے: {دِفیءٌ}، اور {الخبْءٍ} وغیرہ۔
\
چوتھا قاعدہ : البدل: رسم عثمانی میں تین حروف الف، نون اور تاء تانیث کو بدل کر ان کی جگہ دوسرے حروف کو لکھا گیا۔مثلاً:
(ا) الف کو دو حروف یاء اور واؤ سے بدلا گیا۔
۱۔ الف کا یاء سے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو یاء سے بدل کر بھی لکھا گیا۔
٭ جب الف یاء سے بدلی گئی ہو۔یعنی اصل میں وہ یاء تھی تو وہ محض اپنے اصل کی تنبیہ کے لئے اور امالہ کے جواز کے لئے یاء کے ساتھ لکھ دی گئی۔ مثلاً: {ہوٰیہ}، {ہُدٰی}، {استسقٰیہ}، {أعطٰي}، {یٰاَسَفٰي}۔
نوٹ: اصل الف پہچاننے کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ اگر اسم ہے جیسے: فَتًی تو اس کا تثنیہ دیکھا جائے۔ جیسے: فَتَیَان۔ یا اگر لفظ فعل ہے تو اسے تاء ضمیر کی طرف مسند کیا جائے۔ جیسے: رمی سے رمیتَ۔
٭ لفظ اگر رباعی تھا تو اس میں الف ، کو یاء سے بدل دیاگیا جیسے: {المَوتٰی}، {السَّلْوٰی} اور {إحْدٰیہُمَا}۔
٭ الف اگر یاء سے بدلی ہوئی محسو س ہوئی تو اسے بھی یاء سے لکھ دیا گیا جیسے: {أتَی، یتامٰی، سکارٰی، مرضٰی، متٰی، بلٰی، توفیکم، إلی، علی} وغیرہ۔
الف کا واؤسے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو تفخیم کے لئے واؤ سے بدل کر لکھا گیا جب کہ اصلًا اس میں واؤ تھی اور اضافت بھی نہیں تھی۔ مثلاً:یہ چار عام الفاظ: الصلوۃ، الزکوۃ، الحیوۃ، الربو وغیرہ۔ جو اصل میں لصلٰاۃ، الزکاۃ، الحیاۃ اور الربا تھے۔ یا {بِالْغٰدٰوَۃِ}، {کَمِشْکٰوۃِ}، {مَنٰوَۃٍ} میں۔ مضاف ہونے کی صورت میں ان میں دو الفاظ پھر الف کے ساتھ لکھے جائیں گے۔مثلاً {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} اور {قدمت لحیاتی} لفظ صلوۃ واؤ کے ساتھ بعض مقامات پر مضاف ہوا ہے وجوہ قراءت کی بناء پروہ مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے: جیسے: {أَصَلٰوتُکَ تَأمُرُکَ} اور وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ} میں
(ب) نون:مختلف مقامات پر الف کی صورت میں لکھا گیا۔
٭ تنوین کو الف کی ہر اس صورت میں لکھا گیا جہاں اسم منصوب تھا اور اس میں ہاء تانیث کی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اسم ، مقصور تھا۔ مثلاً: {حکمًا وعلمًا}۔
٭ نون تاکید خفیفہ کو الف سے لکھا گیا جب اس کا ماقبل مفتوح تھا جیسے:{۔۔۔وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ۳۲} (یوسف:۳۲)، یا {لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِیَۃ} (العلق:۱۵)
٭ جن الفاظ کے نون کو الف لکھا گیا ان میں لفظ (إذن) بھی ہے۔ جیسے: {إذًا لأذَقْنٰک}، {وَقَدْ ضَلَلْتُ إذًا}اور {۔۔۔وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا} (الاسراء:۷۶) اس کو الف سے اس لئے بھی لکھا گیا کہ قراء حضرات کا اجماع ہے کہ اگر اس پر وقف کیا تو وہ الف ہوجائے گا۔
(ج) تاء تأنیث : تاء تانیث اسماء میں ہاء سے لکھی جاتی ہے۔ افعال میں نہیں۔ وصل کی صورت میں تا پڑھی جاتی ہے اور وقف کی صورت میں ہاء۔ یہی عام قاعدہ ہے۔ مثلاً: لفظ رحمۃ اس آیت میں:{۔۔۔وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہٖ۔۔۔} (ہود:۲۸) اورنعمۃ { ۔۔۔وَمَن یُبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّہِ۔۔۔} (البقرۃ:۲۱۱) اور لفظ کلمۃ: {۔۔۔ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ ۔۔۔} [/font](یونس:۱۹) وغیرہ۔ مگر تیرہ کلمات اس قاعدے سے مستثنیٰ قرار دئے گئے۔ جو درج ذیل ہیں:
رَحْمَتُ}، {نِعْمَتُ}، {سُنَّتُ}، {اِبْنَتُ}، {شَجَرَتُ}، {امْرَأْتُ}، {قُرَّتْ}، {بَقِیَّتُ}، {فِطْرَتُ}، {لَعْنَتُ}، {وَجَنَّتُ}، {وَمَعْصِیَتُ}، اور {کَلِمَتُ}۔
ان میں فرق یہ ہے کہ جو لفظ ہاء کے ساتھ لکھا گیا اس پر ہاء کا ہی وقف کریں گے اور وصل کی صورت میں اسے تاء کے ساتھ ملا دیں گے۔ اور جو تاء مفتوحہ کے ساتھ لکھا گیا وہ تاء وصل میں پڑھا جائے گا اور سانس کی تنگی، مقام تعلیم یا امتحان کی صورت میں وقف کے ساتھ۔
اصل حرکت کی وضاحت: چونکہ رسم عثمانی میں اعراب استعمال نہیں کئے گئے تھے اس لئے بعض مقامات پر لفظ کو غلط حرکت کے ساتھ پڑھے جانے کے اندیشے کے پیش نظر وہاں اصل حرکت کی طرف رہنمائی کے لئے اشارہ کے طور پر کچھ حروف کا اضافہ کیا گیا۔ مثلاً: ’سَاُورِیْکُمْ‘‘ میں بظاہر واؤ زائد لگتی ہے۔ لیکن حرکات کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ لوگ غلطی سے الف ہی پڑھ لیں یا اس پر زیر یا زبر پڑھ لیں گے۔ اس لئے الف کے بعد واؤ کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو کہ پیش کا قائم مقام ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’الف‘‘پر پیش ہے۔ یہ ’’واؤ‘‘پڑھی نہیں جائیگی۔ اسی طرح ’’أولٰٓئِکَ‘‘کی ’’واؤ‘‘بھی پیش کی قائم مقام ہے اور پڑھی نہیں جائیگی۔ ’’ذي القربی‘‘ میں ’’یا‘‘حالت جر کے قائم مقام ہے۔
_______________ #رسم_مصحف_توقیفی_ہے_یا _جتہادی؟
اس بارے علماء کی دو آراء ہیں۔ ایک گروہ کے مطابق رسم مصحف اجتہادی ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ رسم مصحف توقیفی ہے۔ پہلے گروہ میں علامہ زمخشری، علامہ ابن خلدون اور عمر بن عبد السلام وغیرہ شامل ہیں۔ ابن خلدون اس ضمن میں لکھتے ہیں:
"یہ ایک اجتہادی عمل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے، عام لوگوں کا اس بارے میں رائے دینا مناسب نہیں بلکہ ایک مجتہد کے مقابلے میں دوسرا مجتہد ہی کوئی رائے دے سکتا ہے"۔(مقدمہ ابن خلدون: ۱۶۵)
امام احمد الباقلانی کا خیال ہے:
"رسم مصحف میں ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جو معنی میں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔ان آراء کے مطابق علماء کے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ یہ رائے قرآن کی کتابت میں ترقی اور عمدگی کی طرف لے جانے میں مدد گار ثابت ہو گی اور اگر رسم عثمانی میں کچھ تبدیلی کی جائے تو اس سے عام قاری کو قرآن پڑھنے میں آسانی ہو گی"۔
لیکن جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ رسم مصحف توقیفی ہے اور اس کی مخالفت کرنا یا اسے ترک کر کے دوسرا رسم الخط اختیار کرنا درست نہیں۔ علامہ شیخ محمد بخیت اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
قران کا رسم الخط چونکہ نبی اکرمﷺ کی ہدایت کے مطابق ہے لہٰذا توقیفی ہے۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی:۱۲۳)
اس کی دلیل ایک اور واقعہ سے بھی ملتی ہے۔ ایک وفعہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ مصحف میں جس طرح کتابت کی جاتی ہے اس کو بدل کر دوسرے طریقے سے لکھا جائے یا نہیں؟تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: نہیں۔ (احسن البیان فی علوم القرآن: ۴۵)
اس رائے کو مزید تقویت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ایک قول سے ملتی ہے: رسم عثمانی کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ (مناہل العرفان ۱؍۳۷۰)۔
عبدالعزیز لداخ کا کہنا ہے:
اصحاب رسول رضی اللہ عنہم یا کسی بھی شخص کے لئے قرآن میں ذرہ برابر غلطی کرنا جائز نہیں۔ وقتِ کتابت ِقرآن رسول اللہﷺ نے جن حروف میں کسی بھی لفظ کا اضافہ اگر کیاتو وہ ان مختلف اسرار کی وجہ سے تھا جو آپﷺہی جانتے تھے۔ جس طرح قرآن کا نظم ایک معجزہ ہے اسی طرح قرآن کا رسم الخط بھی ایک معجزہ ہے۔(ایضاً)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ رسم عثمانی کو دیگر آثار قدیمہ کی طرح محفوظ کر لیا جائے تاکہ وقت ضرورت اس سے استفادہ کیا جا سکے اور عام لوگوں کی آسانی کے لئے قرآن کو ان کے معروف رسم الخط میں لکھا جائے۔ اس رائے کے مطابق کچھ عملی کوششیں کی گئیں۔ مثلاً: بچوں کے لئے ایسے سپارے چھاپے گئے جن میں ہر آیت رسم عثمانی کے ساتھ ساتھ عام رسم الخط میں بھی لکھی گئی تھی۔ بظاہر بات فائدہ مند لگ رہی تھی مگر حقیقتاً الٹا بوجھ بن گئی اور زیادہ غلطیاں ہونے لگیں۔ لہٰذا اس رائے کو ترک کر دیا گیااور رسم عثمانی ہی مسلمانوں میں معروف رہا اور ہے۔
ہر زبان کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے۔
وہ اسی زبان کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
دوسری زبان کے قواعد و اصول اس پر لاگو نہیں ہوتے۔
عربی زبان کا اپنا رسم الخط ہے۔
اس میں بعض حروف لکھے تو جاتے ہیں پڑھے نہیں جاتے۔
اور یہ دوسرے زبانوں میں بھی ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، انگلش میں، اگرknowledge کو دیکھا جائے۔تو کوئی یہ اعتراض کرے کہ، اس لفظ میںk اضافی ہے۔ یہ نہیں پڑھا جاتا۔ تو اسکو لکھنا بھی نہیں چاہیے۔
مزید مثالیں بہت ہیں، جیسے،
۔Philosophy, اگر کوئی کہے کہ یہاں
۔ph کی جگہf ہونا چاہیئے، کیو نکہ ف کی آواز آتی ہے۔
یاpsychology یا اور دیگر کئی مثالیں ہیں
اگر کوئی یہ اعتراض کرے تو اسے یہ ۔جواب ہی دیا جائے گا کہ بیٹا جا کر پہلی جماعت میں دوبارہ سے داخلہ لے لو اور اے بی سی سیکھو۔
پھر اعتراض کا نام اپنے گندے منہ پر لینے کے قابل ہوگے۔کیونکہ یہ اعتراض نہیں کہلاتا بلکہ حماقت کہلاتا ہے۔
بلکہ اسی طرح عربی زبان میں بھی۔
بعض حروف ہوتے ہیں جو رسم الخط میں لکھے تو جاتے ہیں جبکہ پڑھے نہیں جاتے۔
ان کو زائد کہنے والے کو یہی کہا جائے گا کہ پہلے عربی سیکھ لیں۔ تاکہ آپ سے بات ہو سکے۔
ا ب ت سیکھ لیں۔ قاعدہ پڑھ لیں۔
پھر قواعد پر بحث ہوگی۔
بلکل اسی قسم کے کی باتیں لکھ کر کوئی اگر ان پر اعتراضات کا لیبل لگا لے تو وہ اعتراض نہیں کہلاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ، عربی عربیوں کی اصل زبان ہے۔ انکے لیے ان حروف یا اعراب ،زبر زیر پیش کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہ عجمیوں کی آسانی کیلئے اضافی طور پر علامات لگائی گئی ہیں۔
مثلا مدارس میں طلبہ جب عربی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان پر اعراب نہیں لگے ہوتے۔
بغیر زبر زیر پیش کے بلکل صحیح عربی عبارات انتہائی روانی سے پڑھتے ہیں اور عربی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔کیونکہ ہم عربی سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اگر علامات موجود نہ بھی ہوں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کون سا لفظ یا جملہ کیسا ہے۔
وجہ یہی کہ زبان پر قدرت حاصل کی جا چکی ہوتی ہے۔ اگر وہی کتاب کسی عام بندے کو پڑھنے کیلئے دی جائے تو وہ نہیں پڑھ سکتا، چنانچہ جب اسلام پھیلنے لگا اور عجمی اقوام قوم در قوم اسلام میں داخل ہوتے گئے تو انکے لیے قرآن پڑھنے میں مشکلات پیش آئیں چنانچہ وقت کی ضرورت کے مطابق اصل زبان اور الفاظ اور حروف برقرار رکھتے ہوئے کچھ اشارات لگا دیے گئے جس سے عجمیوں کیلئے بھی عربی سیکھے بغیر قرآت کرنا آسان ہوگیا ۔ چنانچہ وہ نہ قرآن میں تحریف ہے نہ کمی زیادتی بلکہ ، بطور ذریعہ ایک سہولت کے پیش نظر علامات لگائی گئیں۔ اصل قرآن وہی ہے۔
اور ہم بغیر علامات کے روانی سے پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
البتہ اتنی سی بات ہے کہ اگر
لفظ اللّٰه کسی دوسرے لفظ کے ساتھ لگ جائے تو ، اللّٰه کا الف الگ سے نہیں پڑھا جاتا، بلکہ یہ پڑھنے میں گر جاتا ہے۔ یعنی پڑھا نہیں جاتا۔
عربی زبان والوں کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
البتہ غیر عربوں کیلئے فرق بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ اگر ،
اللّٰه کا الف نہ لکھا جائے تو اسکو ،
للّٰه لکھا جائے تو یہ عام شخص،
لِلّٰه پڑھے گا، یعنی لام سے شروع کرے گا۔ جوکہ درست نہیں،
تو اسکو رسم الخط کا حصہ مستقلا بنایا گیا، اور لکھا بھی جاتا ہے ، البتہ اس پر زبر نہیں ڈالا جاتا تو ، عام شخص اسکو اللّٰه ہی پڑھے گا ، اور لِلّٰه پڑھنے کی غلطی سے بچ جائے گا۔
اس سے کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔
مزید کوئ تشنگی باقی ہو تو اس مضمون پہ اور بات بھی کی جا سکتی ہے۔
منجانب۔۔۔۔۔ابو اسلام ابو اسلام،محمد طاہر رضا،معاذ بھائی،عاطف عمیر سعدی صاحب۔
لفظ الانسان کو قدیم نسخوں میں الف کے بغیر صرف انسان لکھا گیا۔جس پہ اسے اعتراض ہے کہ اس میں الف کا اضافہ جدید دور میں کیا گیا۔
مزید اس کا کہنا ہے کہ سورہ محمد آیت 4میں والذین قُتِلوا فی سبیل اللٰہ فلن یضل اعمالھم میں الف کے بغیر معنی بنتا ہے کہ کہ وہ قتل کیے گئے جب کہ الف کے ساتھ معنی بنتا ہے کہ وہ لڑے۔
مزید اس کا کہنا ہے کہ سورہ توبہ ایت آیت 47،سورہ ہود آیت 68،سورہ فرقان آیت 38،سورہ العنکبوت آیت 38،سورہ نجم آیت 51،سورہ الاعراف آیت 103،سورہ یونس آیت 75،83،سورہ ہود آیت 97،سورہ المومنون آیت 46،سورہ القصص آیت 32،سورہ زخرف آیت 46میں الفاظ کے صحیح تلفظ کے لئے الف کو ساکت کر دیا گیا ہے۔
اہل علم ساتھی علمی و تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔عین نوازش ہوگی۔
جواب۔۔۔۔۔
ملحد بغض اسلام میں اندھے ہو چکے ہیں
جتنے بھی عربی گرائمر کے قوانین مرتب کئے گئے ہیں وہ سب قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت عربی گرائمر کے لیے معیار ہے نہ کہ اس معیار پر بنائے گئے قوانین قرآن مجید پر اعتراضات کا باعث ہیں
جس ملحد کی عربی گرائمر پر گرفت مضبوط نہیں وہ جاہل دو چار قوانین پڑھ کر اعتراض کرنا شروع کر دے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ عربی گرائمر سیکھو پهر بات کرنا
عرب کے چوٹی کے کافر ہزار کوشش کے باوجود قرآن کو چیلنج نہیں کر سکے۔
یہ اعتراض جو سورہ محمد کی آیت 4کے بارے بیان کیا گیا ہے وہ ملحد کا پاگل پن ہے
قتلوا دو طرح آتا ہے معروف اور مجہول دونوں صورتوں میں الف لازمی آئے گا کیونکہ جمع ماضی کا صیغہ الف کے ساتھ آتا ہے تو جب معروف ہو گا تو معنی ہو گا انہوں نے قتال کیا یا وہ لڑے اور مجہول پڑھیں گے تو معنی ہو گا وہ قتل کئے گئے
یہاں الف سے ترجمہ نہیں بدلے گا بلکہ معروف و مجہول پڑھنے پر معنی بدلیں گے الف دونوں صورتوں میں لازم ہے۔
اضافی الف کوئی مسئلہ نہیں
ممکن ہے یہ رسم الخط ہو جس میں بعد میں زبر زیر پیش وغیرہ علامات کی طرح اضافہ کیا گیا ہو
اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
الحمد للہ
میں لفظ اللہ بغیر الف کے عربی رسم الخط ہے
اس طرح کے رسم الخط کو تبدیلی کہنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
یہ اعتراض بونگی کے سوا کچھ نہیں۔
کیونکہ یہ رسما لخط اردتا اپنایا گیا ہے اور اسکا اعتبار اسی وقت سے آج تک چلا آرہا ہے
یہ قرآنی خطاطی کوئی خانہ ساز نہیں ہے کہ جو کوئی جیسے چاہے لکھ ڈالے
بلکہ جس لفظ کو جہاںجیسے لکھوانے کا التزام کیا گیا تھ تو اسی التزام کے ساتھ اسکے آگے نقل کیا گیا
مثلا یہ ابراہیم کا لفظ
کہیں قرآن میں "ابرھم " ( ھ پر کھڑی زیر کے ساتھ ) لکھا ہے اور کہیں ابراھیم ( یا مدہ کے ساتھ )
اور اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا
اب ایسا کیوں کیا گیا ؟
تو مختلف قرات کا اعتبار کرتے ہوئے
مصحف عثمانی جب لکھوایا جا رہا تھا تو جس جگہ قرآت کا اختلاف ہوتا تھا تو اسکی املا اس طور پر کیجاتی تھی کہ دونوں قرات کا لحاظ ہو جائے
کیونکہ اس وقت تک نکتے ، زبر زیر ، پیش ، وغیرہتو ہوتے نہیں تھے بس خالی نقوش ہوتے ہے اس لیئے
اب یہ کہنا کہ کہ کمی یا زیادتی ہے تو یہ جہالت ہے۔
یہ سب باتیں گرائمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ املا سے تعلق رکھتی ہیں
اور اس سے معنی میں بالکل فرق نہیں پڑتا
یہ باتیں بالکل ایسا ہی ہے کہ طوطا "ط "کے ساتھ لکھنا چاہیئے یا "ت "کے ساتھ
تو اسکی اصل املا"ت "کے ساتھ ہے یعنی "توتا"
لیکن سبھی طوطا لکھتے ہیں
لیکن بہر حال گرائمرکا اس سے کوئی تعلق نہیں اس سے معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایک نیک شخص کی بیوی خواہ مخواہ اکثر اس سے جھگڑتی رہتی تھی تنگ آکر آخر ایک دن اس نیک شخص نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اے نیک بخت تو مجھے کیوں ستاتی ہے؟ کیا میں نے کبھی تیری کوئی حق تلفی کی ہے؟ تو عورت نے جواب دیا نہیں. آپ بہت اچھے ہیں مگر مجھے آپ سے صرف ایک شکایت ہے. پوچھا کیا؟ عورت نے کہا کہ جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو آپ کی داڑھی ہلتی ہے بس اسی وجہ سے میں آپ کو ستاتی ہوں. ملحد کا حال بھی اس عورت سے مختلف نہیں ہے اس کی بھی شکایت صرف ایک ہے کہ آپ مسلمان ہو ملحد کیوں نہیں ہو؟ ملحد سوال کرنا برائے جواب نہیں ہوتا بلکہ سوال برائے سوال ہوتا ہے. اور یہ مسئلے نہیں بلکہ ڈھکوسلے پوچھتاہے اقبال نے اس قسم کے لوگوں کی کیا خوب سرزنش فرمائ ہے. زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے. غضب ہے سطر قرآں کو چلیپا کردیا تونے. جہاں تک پوسٹ مذکور سوال کے جواب کا تعلق ہے تو میں اتنا عرض کروں گا قرآن کریم کا نازل کرنے والا رب تعالٰی ہے اور اسی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور جس کی حفاظت کا ذمہ رب العزت لے لے اس کو کوئی بری نیت سے دیکھ بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ اس میں ردو بدل کرسکے رہا الف زائدہ وساکتہ کا مسئلہ تو پیارے بطور لازم فاءدۃ الخبر عرض ہے کہ یہ عربی زبان ہے .،سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئیے، بڑے بڑے فصحاء و بلغاء عرب اعجاز قرآن کے دبدبے کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہو گئے ماوشما عجمی لوگ تو کسی گنتی میں نہیں ہیں قرآن میں کوئی بھی حرف بلا مقصد نہیں ہے یہی ہمارا عقیدہ ہے. . .اور ملحد کے اس قسم کے سوال سے وہی گمراہ ہوگا جو پہلے سے ہی دین سے دور ہوگا ورنہ ایک عام مسلمان بھی تخریج و تحریف قرآن کا قائل نہیں۔
لفظ اللہ میں شد کا اضافہ اسے الللہ بنادے گا ؟
اس بدھوکویہ نہیں پتہ کہ ال لہ میں دو لام ہیں جب دونوں کو آپس میں ضم کیا جائے گا تو ایک جزم اور ایک حرکت ملکر مشدد بنائیں گے
ابّ تشدید کے ساتھ اسکی اصل یہ "اَب "اور بَ"
جب دونوں کو ملائیں گے تو اب ہو جائے گا ( تشدید کے ساتھ )۔
عام عربی رسم الخط: عام عربی رسم الخط میں کلمات کو اعراب(Vocalization)اور حروف کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے جس میں پڑھنے والا اس کلمہ یا جملہ کو ایک ہی انداز میں پڑھ سکتا ہے جس کے معنی میں وسعت پیدا نہیں ہوپاتی۔ مثلاً مالک کا لفظ عام عربی میں ایسا ہی لکھا جاتا ہے اور اسے مالک ہی پڑھتے ہیں۔ اور قال کو قال ہی۔ اس رسم الخط کی مزید انواع میں خط رقعہ اور خط نسخ خاصے معروف ہیں۔
قرآن مجید کارسم الخط: یہ وہ خط ہے جوسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بالاتفاق کتابت قرآن مجید کے لئے اپنایا گیا اسے رسم عثمانی یا رسم المصحف کہتے ہیں۔ یہ خط گو عربی رسم الخط سے ملتا جلتا ہے مگر چند مخصوص مقامات پر آپ ﷺ کی ہدایات کے مطابق ضروری تبدیلیاں کی گئی جن سے الفاظ قرآن کے معانی میں وسعت پیدا ہو گئی ۔جیسے: ملک اور قل کے الفاظ ۔ اسے مَلِکِ بھی پڑھ سکتے ہیں اور مٰلِکِ بھی۔ یا قُلْ بھی پڑھا جا سکتا ہے اور قالَ بھی۔ اس طرح بلاشبہ ان کے معانی وسیع ہو گئے۔ ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم لکھتے وقت اس رسم الخط کا انتخاب کیا گیا چونکہ سیدنا عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ نے یہ زور دیا کہ رسم الخط وہی اختیار کیا جائے جس کی طرف آپ ﷺ نے راہنمائی فرمائی تھی۔ اسلئے اسے رسم عثمانی کہا گیا۔
اس خط کا فائدہ یہ ہوا کہ لکھے ہوئے قرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہو گیا۔ الفاظ کو مختلف انداز میں لکھنے اور پھر پڑھنے سے نص قرآن کی ادائیگی میں وسعت پیدا ہوگئی اور غلطی کا امکان ختم ہو گیا۔ قرآن علماء کے سینوں میں محفوظ تھا جو دوسرے سے بالمشافہہ سنداً اخذ کیا کرتے تھے۔ اس لئے قراءت میں اختلاف ممکن نہ رہا۔
عربی رسم اوررسم عثمانی کافرق : علماء نے ان دونوں خطوط میں بظاہر اختلاف یا فرق سے چھ قواعد مستنبط کئے ہیں۔
#پہلا_قاعدہ : #حذف: رسم عثمانی میں پانچ حروف کو بعض مقامات پر حذف کر دیا گیا ہے جبکہ عام عربی رسم الخط میں یہ حروف موجود ہیں۔جو درج ذیل ہیں: الف، واؤ ، یاء، لام، اور نو ن
(ا) #حذف_الالف : رسم عثمانی میں تین وجوہ کی بناء پر الف کو حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً:
حذف اشارہ : اشارہ سے مراد کہ یہاں الف کسی اور قراءت میں محذوف ہے ۔ جیسے: {مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۳ۭ} میں الف کا حذف۔ یا {وَاِنْ يَّاْتُوْكُمْ اُسٰرٰى تُفٰدُوْھُمْ} میں اُسٰرٰى کی سین پر الف کا حذف۔
امام حمزہ نے اسے اسرى یعنی سین ساکن اور راء کو بغیر الف کے پڑھا ہے۔ یا {تُفٰدُوْھُمْ} میں الف کو گرا کر {تَفْدُوْہُمْ} تاء زبر اور فاء جزم کے ساتھ بغیر الف کے پڑھا گیا جو امام ابن کثیر، ابو عمرو، ابن عامر اور حمزہ وخلف کی قراءت ہے۔
حذف اختصار: جمع مذکر و مؤنث سالم سے وہ الف جس کے بعد نہ تشدید ہو نہ ہمزہ، حذف کردی گئی۔ جیسے: {العٰلَمِینَ}، {وَالذّٰرِیٰتِ} {وَالْحٰفِظِیْنَ}، {وَالصّٰدِقِیْنَ}۔ اگر الف کے معاً بعد حرف مشدد آیا یا مہموز، تو پھر الف کو لکھا۔ جیسے: {الضّٰآلِّیْنَ} {وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ} یا {للِطَّآئِفِیْنَ} {وَالْقَآئِمِیْنَ} یا {أوْ ہُمْ قَآئِلُوْنَ}۔ اسی طرح فَعَّالین اور فَعَّالون کے وزن پر جو لفظ آیا ۔۔ سوائے چند ایک کے۔۔ اس میں بھی الف محذوف کر دیا۔ جیسے: {کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ}، {لِلأوّٰبِیْنَ}، {طَوّٰفُوْنَ} اور {الخرّٰصُوْنَ} میں ۔
حذف اقتصار: مراد یہ ہے کہ ایک مقام پر ایک لفظ میں یہ الف حذف ہوا مگر دوسرے مقام پر نہیں ہوا ۔ جیسے لفظ المیعاد میں الف کو اس آیت میں حذف کردیا گیا ہے۔ {وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعٰدِ} (الانفال:۴۲) جبکہ دوسرے مقامات پر یہ بدستور موجود ہے۔ اسی طرح {الْقَہَّار} کا لفظ سورۃ الرعد کی آیت :۱۶میں بغیر الف کے ہے اور دوسرے مقامات پر نہیں۔ اسی طرح یُسٰرِعُوْنَ، اِبْرَھِیْمَ، سَلٰمٌ، الْمَسْجِدِ، یُجٰدِلُوْکُمْ، بَلِّغْ، بَطَلَ، عَھَّدُ، تُرٰباً وغیرہ میں الف حذف شدہ ہے۔
رسم عثمانی میں الف کو اور متعدد جگہوں پر بھی حذف کیا گیا ہے۔ مثلاً: ہر وہ اسم جس کے آخر میں یاء ما قبل کسرہ آیا ہو وہاں بھی الف کو حذف کیا گیا۔جیسے{الصّٰبئین}، {طٰغِین} {غٰوِین} وغیرہ۔
جب الف، لام کے بعد درمیان میں آئے یا دو لاموں کے بعد آئے تو وہاں بھی الف حذف کیا گیا۔ جیسے: {الإصلٰح}، {عَلّٰمَ الغُیُوْبِ}، دو لاموں کے درمیان الف کے حذف کی مثال: {إلَّا فِیْ ضَلٰلٍ} {وَلَا خَلٰلٍ}۔ {کَلٰلَۃٍ}۔
ہر ایسا لفظ جس میں ہاء تنبیہ(warning) کی تھی یا نداء کی۔ اس سے الف حذف کیا گیا بشرطیکہ وہ لفظ کے آخر میں نہ ہو۔ جیسے: {ہٰتین} {ہٰذَا} یا {ہٰؤُلَآئِ}، {ھٰٓاَنْتُمْ} جبکہ ھا کے ساتھ موجود الف، انتم اور اولاء کا اپناہے۔
اسی طرح الف کا حذف {یاأیھا} کی یا سے ۔ اور اس کو یوں لکھاگیا (یٰٓأیُّھَا النَّاسُ) اسی طرح {یٰنِسٰآءَ النَّبِی} {یٰآدَمُ}، {یٰإبْرٰہِیْمُ} وغیرہ میں حرف ندا کو بھی بغیر الف کے لکھا گیا۔
(ب) #حذف_الیاء: الف کی طرح "ی"بھی متعدد مقامات پر حذف کی گئی۔ مثلاً:
متصل یاء المتکلم کو ان کلمات سے حذف کیا گیا، جیسے: أطِیْعُوْنِ، تَعْبُدُوْنِ، کِیْدُوْنِ، اِتَّبِعُوْنِ وغیرہ میں آخری نون دراصل نی ہے جس کی "ی"محذوف ہے اور "ن"کی زیر اس کی قائم مقام ہے۔
جب ایک یاء دوسری یاء کے ساتھ لفظ میں اکٹھی ہوگئی تو وہاں بھی ایک یاء گرا دی گئی خواہ وہ یاء ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے: {مُتَکِئِیْنَ}، {سَیِّآتِ} ۔ یا وہ ہمزہ کی صورت میں نہ تھی جیسے: {النَبِیّٖنَ} {الأمیّٖن}۔
٭ ہر اسم منقوص کے آخر میں جہاں رفع یا جر آنا تھا وہاں بھی یاء حذف کی گئی۔ جیسے: {بَاغٍ}، {ہَادٍ}، {وَالٍ}، {وَاقٍ}، {الدَّاعِ}، {والْبَادِ}۔
(ج) #حذف_الواو: واؤکو بھی متعدد مقامات پر حذف کیا گیا۔ مثلاً:
٭ جب ایک واؤ دوسری واؤ کے ساتھ ایک ہی کلمہ میں جمع ہوجائے تو وہاں ایک واؤ گرا دی گئی خواہ وہ ہمزہ کی صورت میں تھی جیسے {مَسْؤُلًا}، {وَلَا یُؤدُہٗ}، {تؤیہ} یا وہ ہمزہ کے بغیر تھی۔ جیسے: {دَاوٗدَ}، {وَلَا تَلْوٗن}، {لَا یَسْتَوٗن}۔
٭ واؤ کو لفظ پر بوجھ سمجھ کر حذف کردیا گیا کیونکہ اس کا پڑھنا بھی ممکن نہ تھا۔ جیسے: یَدْعُ الدَّاعِ، وَیَمْحُ اللہُ الْبَاطِلَ ، سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ، میں سے واؤ حذف ہوئی جو دراصل یدعو، یمحو، سندعوا تھے۔
(د) #حذف_اللام: پانچ الفاظ خواہ وہ مفرد تھے یا تثنیہ وجمع۔ ان میں اس لام کو حذف کردیا گیا جو دوسری لام کے ساتھ آیا۔ یہ پانچ الفاظ (الَّیْل)، (الَّائی)، (الّٰتِی)، (الَّاتِی)، (الَّذِیْ) ہیں۔ ان پانچ الفاظ کے علاوہ باقی میں لام کو رہنے دیا گیا جیسے: (اللَّطِیْفُ)، اللَّوَّامَۃُ)،( اللُّؤْلُؤُ) اور (اَللّٰہُمَّ)۔
(ہ) حذف النون: دو مقامات پر نون کو حذف کیا گیا جو {فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ} اور {وَکَذٰلِکَ نُــنْجِیِ الْمُؤْمِنِیْنَ} ہیں۔
#دوسرا_قاعدہ : الزیادۃ (اضافہ) : کلمہ میں کسی حرف کا حقیقی اضافہ اس طرح ہو کہ اسے نہ ملا کر پڑھا جاسکے اور نہ اس پر وقف ہوسکے۔ کبھی بعض حروف میں یہ اضافہ غیر حقیقی بھی ہوتا ہے پھر وقف میں وہ پڑھا بھی جاتا ہے جیسے: {لٰکِنَّا} کے لفظ میں الف کا اضافہ۔ یا ابتداء میں الف کا اضافہ جیسے: لفظ ابن کی ابتداء میں الف کا اضافہ، جب وہ سطر کے شروع میں آئے۔ رسم عثمانی میں جن حروف کا اضافہ کیا گیاہے وہ تین ہیں: الف، واؤ اور یاء۔
(ا) زیادۃ الالف: کچھ الفاظ میں واؤ جمع کے بعد الف کا اضافہ کیا گیا بشرطیکہ واؤ جمع فعل ضمیر سے متصل نہ ہو مثلاً: {تَاْمَنُوْا}، {کَفَرُوْا}، {اِعْدِلُوْا} وغیرہ۔ سوائے چند کے جیسے: {فإنْ فَائُ وْ} {عَتَوْ} ۔
٭ واؤ اصلی کے بعد الف کا اضافہ فعل مضارع معتل الآخر میں مرفوع یا منصوب واؤ کے بعد کیا گیا۔ جیسے: {یَدْعُوْا} {لِیَرْبُوَا} {نَبْلُوَا} سوائے ایک جگہ کے جو {عَسَی اللہُ أَنْ یَّعْفُوَ} ہے اس میں الف حذف کردی گئی۔
٭ جمع مذکر سالم میں جو واؤ علامت رفع ہے اسکے بعد الف کا اضافہ بھی کیا گیا۔ یا جو واؤ مذکر سالم کے قائم مقام آئی اس کا نون حذف کرکے وہاں الف کا اضافہ کردیا گیا۔ جیسے: {مُرْسِلُوا النَّاقَۃِ}، {کَاشِفُوا الْعَذَابِ}، {صَالُوا النَّارِ}۔
٭ اسی طرح بعض مقامات پر الف کا اضافہ بغیر کسی قاعدے کے کیا گیا۔ مثلاً: {عٰلِیٰھُمْ}، {لِشَايْءٍ}، {مِائَۃٍ}، {لَااِلیَ اللہِ}، {مَلَائِہٖ}، {أَفَاِئنْ مَّاتَ} وغیرہ ،جو دراصل عَلَیْہِمْ، لِشَیْءٍ، مِئَۃٌ، لَإِلَی اللہِ، مَلَئِہٖ، أَفَئِنْ مَّاتَ تھے۔
٭ واؤ کے بعد الف کا بھی اضافہ ہوا جیسے: {تَفْتَؤُا}، {اٰتَوَکَّؤُا} {تَظْمَؤُا} شاید یہ الف، ہمزہ متطرفۃ ہے جو لفظ کے کنارے پرواؤ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح نون کے بعد الف کا اضافہ جیسے: {لَکِنَّا ہُوَا اللہُ}، {والظُّنُوْنَاْ}۔
(ب) زیادۃ الیاء: رسم عثمانی میں یاء کا اضافہ دو طرح سے کیا گیا ہے۔
٭ جس لفظ میں ہمزہ مکسورہ تھا خواہ اس سے پہلے الف ہی کیوں نہ آئی ہو وہاں یاء کا اضافہ کیا گیا۔ جیسے: {مِنْ وَّرَائ حِجَابٍ}، {مِنْ تِلْقَائ نَفْسِی}، {اِیْتَاءِ} وغیرہ ہیں۔ یا الف آئی ہو جیسے: {اَفَائِنْ مِّتَّ} یا {اَفَائِنْ مَّاتَ} میں۔
٭ وہ لفظ جس میں ہمزہ مکسورہ تھا اور نہ ہی الف۔ وہاں بھی یاء کا اضافہ اسی نوعیت کے دو کلموں میں کیا گیا۔جیسے: {بِاَیِّکُم} اور {بأییْدٍ} وغیرہ میں۔
(ج) زیادۃ الواؤ : الف اور یاء کی طرح چار الفاظ {یٰأُولِی}، {أُولُوا}{أُولَائِ}، {أولٰت} میں واؤ کا اضافہ بالاتفاق کیا گیا اور {سَاُورِیْکُمْ}، {وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ} میں واؤ کے اضافہ پر اختلاف کیا گیا ۔ پہلے میں واؤ کا اضافہ راجح کہا گیا اور دوسرے میں عملاً اس کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
تیسرا قاعدہ : قاعدہ ہمزۃ: رسم عثمانی میں عام عربی رسم الخط سے ہٹ کر ہمزہ کی کتابت کے لئے یہ چند منفرد طریقے اپنائے گئے۔ اس لئے کہ ہمزہ لفظ کی ابتداء یا وسط یا آخر میں ہوتا ہے ۔
(ا) ہمزہ ساکن: ہمزہ ساکن کو اس سے ما قبل حرف کی حرکت کے مطابق لکھا گیا۔
٭ … اس سے قبل زبر کی صورت میں اسے"الف"پر لکھا گیا۔ مثلاً: البأساء، اقرأ۔
٭… زیر کی صورت میں ہمزہ کو "ی"پر لکھا گیا۔ مثلاً: ائذن لی، جئنا۔بئر۔
٭… جبکہ پیش کی صورت میں اسے "و"پر لکھا گیا۔ مثلاً: اؤتمن، المؤتون۔
(ب) ہمزہ متحرک: ہمزہ متحرک کی کتابت الف پر ہونی چاہے اس پر زبرہو، زیرہو یا پیش ہو۔ مثلاً: أیُّوْبَ، إذَا، أنْزَلَ۔ لیکن اگر ہمزہ متحرک کلمہ کے وسط میں آئے تو اس کی حرکت کے موافق حرف پر اس کی کتابت کی گئی مثلاً: سأَلَ، سُئِل، نَقْرءُہٗ۔
ہمزہ اگر آخر میں آیا اوراس کا ماقبل ساکن تھا تو اس کی کوئی صورت بھی اختیار نہیں کی گئی بلکہ اسے علیحدہ لکھا گیا۔ جیسے: {دِفیءٌ}، اور {الخبْءٍ} وغیرہ۔
\
چوتھا قاعدہ : البدل: رسم عثمانی میں تین حروف الف، نون اور تاء تانیث کو بدل کر ان کی جگہ دوسرے حروف کو لکھا گیا۔مثلاً:
(ا) الف کو دو حروف یاء اور واؤ سے بدلا گیا۔
۱۔ الف کا یاء سے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو یاء سے بدل کر بھی لکھا گیا۔
٭ جب الف یاء سے بدلی گئی ہو۔یعنی اصل میں وہ یاء تھی تو وہ محض اپنے اصل کی تنبیہ کے لئے اور امالہ کے جواز کے لئے یاء کے ساتھ لکھ دی گئی۔ مثلاً: {ہوٰیہ}، {ہُدٰی}، {استسقٰیہ}، {أعطٰي}، {یٰاَسَفٰي}۔
نوٹ: اصل الف پہچاننے کا قاعدہ یہ ہے کہ لفظ اگر اسم ہے جیسے: فَتًی تو اس کا تثنیہ دیکھا جائے۔ جیسے: فَتَیَان۔ یا اگر لفظ فعل ہے تو اسے تاء ضمیر کی طرف مسند کیا جائے۔ جیسے: رمی سے رمیتَ۔
٭ لفظ اگر رباعی تھا تو اس میں الف ، کو یاء سے بدل دیاگیا جیسے: {المَوتٰی}، {السَّلْوٰی} اور {إحْدٰیہُمَا}۔
٭ الف اگر یاء سے بدلی ہوئی محسو س ہوئی تو اسے بھی یاء سے لکھ دیا گیا جیسے: {أتَی، یتامٰی، سکارٰی، مرضٰی، متٰی، بلٰی، توفیکم، إلی، علی} وغیرہ۔
الف کا واؤسے بدل: کچھ الفاظ میں الف کو تفخیم کے لئے واؤ سے بدل کر لکھا گیا جب کہ اصلًا اس میں واؤ تھی اور اضافت بھی نہیں تھی۔ مثلاً:یہ چار عام الفاظ: الصلوۃ، الزکوۃ، الحیوۃ، الربو وغیرہ۔ جو اصل میں لصلٰاۃ، الزکاۃ، الحیاۃ اور الربا تھے۔ یا {بِالْغٰدٰوَۃِ}، {کَمِشْکٰوۃِ}، {مَنٰوَۃٍ} میں۔ مضاف ہونے کی صورت میں ان میں دو الفاظ پھر الف کے ساتھ لکھے جائیں گے۔مثلاً {وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ} اور {قدمت لحیاتی} لفظ صلوۃ واؤ کے ساتھ بعض مقامات پر مضاف ہوا ہے وجوہ قراءت کی بناء پروہ مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے: جیسے: {أَصَلٰوتُکَ تَأمُرُکَ} اور وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ} میں
(ب) نون:مختلف مقامات پر الف کی صورت میں لکھا گیا۔
٭ تنوین کو الف کی ہر اس صورت میں لکھا گیا جہاں اسم منصوب تھا اور اس میں ہاء تانیث کی نہیں تھی اور نہ ہی وہ اسم ، مقصور تھا۔ مثلاً: {حکمًا وعلمًا}۔
٭ نون تاکید خفیفہ کو الف سے لکھا گیا جب اس کا ماقبل مفتوح تھا جیسے:{۔۔۔وَلَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ۳۲} (یوسف:۳۲)، یا {لَنَسْفَعاً بِالنَّاصِیَۃ} (العلق:۱۵)
٭ جن الفاظ کے نون کو الف لکھا گیا ان میں لفظ (إذن) بھی ہے۔ جیسے: {إذًا لأذَقْنٰک}، {وَقَدْ ضَلَلْتُ إذًا}اور {۔۔۔وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا} (الاسراء:۷۶) اس کو الف سے اس لئے بھی لکھا گیا کہ قراء حضرات کا اجماع ہے کہ اگر اس پر وقف کیا تو وہ الف ہوجائے گا۔
(ج) تاء تأنیث : تاء تانیث اسماء میں ہاء سے لکھی جاتی ہے۔ افعال میں نہیں۔ وصل کی صورت میں تا پڑھی جاتی ہے اور وقف کی صورت میں ہاء۔ یہی عام قاعدہ ہے۔ مثلاً: لفظ رحمۃ اس آیت میں:{۔۔۔وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہٖ۔۔۔} (ہود:۲۸) اورنعمۃ { ۔۔۔وَمَن یُبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّہِ۔۔۔} (البقرۃ:۲۱۱) اور لفظ کلمۃ: {۔۔۔ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ ۔۔۔} [/font](یونس:۱۹) وغیرہ۔ مگر تیرہ کلمات اس قاعدے سے مستثنیٰ قرار دئے گئے۔ جو درج ذیل ہیں:
رَحْمَتُ}، {نِعْمَتُ}، {سُنَّتُ}، {اِبْنَتُ}، {شَجَرَتُ}، {امْرَأْتُ}، {قُرَّتْ}، {بَقِیَّتُ}، {فِطْرَتُ}، {لَعْنَتُ}، {وَجَنَّتُ}، {وَمَعْصِیَتُ}، اور {کَلِمَتُ}۔
ان میں فرق یہ ہے کہ جو لفظ ہاء کے ساتھ لکھا گیا اس پر ہاء کا ہی وقف کریں گے اور وصل کی صورت میں اسے تاء کے ساتھ ملا دیں گے۔ اور جو تاء مفتوحہ کے ساتھ لکھا گیا وہ تاء وصل میں پڑھا جائے گا اور سانس کی تنگی، مقام تعلیم یا امتحان کی صورت میں وقف کے ساتھ۔
اصل حرکت کی وضاحت: چونکہ رسم عثمانی میں اعراب استعمال نہیں کئے گئے تھے اس لئے بعض مقامات پر لفظ کو غلط حرکت کے ساتھ پڑھے جانے کے اندیشے کے پیش نظر وہاں اصل حرکت کی طرف رہنمائی کے لئے اشارہ کے طور پر کچھ حروف کا اضافہ کیا گیا۔ مثلاً: ’سَاُورِیْکُمْ‘‘ میں بظاہر واؤ زائد لگتی ہے۔ لیکن حرکات کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس بات کا امکان تھا کہ لوگ غلطی سے الف ہی پڑھ لیں یا اس پر زیر یا زبر پڑھ لیں گے۔ اس لئے الف کے بعد واؤ کا اضافہ کر دیا گیا۔ جو کہ پیش کا قائم مقام ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’’الف‘‘پر پیش ہے۔ یہ ’’واؤ‘‘پڑھی نہیں جائیگی۔ اسی طرح ’’أولٰٓئِکَ‘‘کی ’’واؤ‘‘بھی پیش کی قائم مقام ہے اور پڑھی نہیں جائیگی۔ ’’ذي القربی‘‘ میں ’’یا‘‘حالت جر کے قائم مقام ہے۔
_______________ #رسم_مصحف_توقیفی_ہے_یا _جتہادی؟
اس بارے علماء کی دو آراء ہیں۔ ایک گروہ کے مطابق رسم مصحف اجتہادی ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ رسم مصحف توقیفی ہے۔ پہلے گروہ میں علامہ زمخشری، علامہ ابن خلدون اور عمر بن عبد السلام وغیرہ شامل ہیں۔ ابن خلدون اس ضمن میں لکھتے ہیں:
"یہ ایک اجتہادی عمل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے، عام لوگوں کا اس بارے میں رائے دینا مناسب نہیں بلکہ ایک مجتہد کے مقابلے میں دوسرا مجتہد ہی کوئی رائے دے سکتا ہے"۔(مقدمہ ابن خلدون: ۱۶۵)
امام احمد الباقلانی کا خیال ہے:
"رسم مصحف میں ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جو معنی میں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔ان آراء کے مطابق علماء کے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ یہ رائے قرآن کی کتابت میں ترقی اور عمدگی کی طرف لے جانے میں مدد گار ثابت ہو گی اور اگر رسم عثمانی میں کچھ تبدیلی کی جائے تو اس سے عام قاری کو قرآن پڑھنے میں آسانی ہو گی"۔
لیکن جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ رسم مصحف توقیفی ہے اور اس کی مخالفت کرنا یا اسے ترک کر کے دوسرا رسم الخط اختیار کرنا درست نہیں۔ علامہ شیخ محمد بخیت اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
قران کا رسم الخط چونکہ نبی اکرمﷺ کی ہدایت کے مطابق ہے لہٰذا توقیفی ہے۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی:۱۲۳)
اس کی دلیل ایک اور واقعہ سے بھی ملتی ہے۔ ایک وفعہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ مصحف میں جس طرح کتابت کی جاتی ہے اس کو بدل کر دوسرے طریقے سے لکھا جائے یا نہیں؟تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: نہیں۔ (احسن البیان فی علوم القرآن: ۴۵)
اس رائے کو مزید تقویت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ایک قول سے ملتی ہے: رسم عثمانی کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ (مناہل العرفان ۱؍۳۷۰)۔
عبدالعزیز لداخ کا کہنا ہے:
اصحاب رسول رضی اللہ عنہم یا کسی بھی شخص کے لئے قرآن میں ذرہ برابر غلطی کرنا جائز نہیں۔ وقتِ کتابت ِقرآن رسول اللہﷺ نے جن حروف میں کسی بھی لفظ کا اضافہ اگر کیاتو وہ ان مختلف اسرار کی وجہ سے تھا جو آپﷺہی جانتے تھے۔ جس طرح قرآن کا نظم ایک معجزہ ہے اسی طرح قرآن کا رسم الخط بھی ایک معجزہ ہے۔(ایضاً)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ رسم عثمانی کو دیگر آثار قدیمہ کی طرح محفوظ کر لیا جائے تاکہ وقت ضرورت اس سے استفادہ کیا جا سکے اور عام لوگوں کی آسانی کے لئے قرآن کو ان کے معروف رسم الخط میں لکھا جائے۔ اس رائے کے مطابق کچھ عملی کوششیں کی گئیں۔ مثلاً: بچوں کے لئے ایسے سپارے چھاپے گئے جن میں ہر آیت رسم عثمانی کے ساتھ ساتھ عام رسم الخط میں بھی لکھی گئی تھی۔ بظاہر بات فائدہ مند لگ رہی تھی مگر حقیقتاً الٹا بوجھ بن گئی اور زیادہ غلطیاں ہونے لگیں۔ لہٰذا اس رائے کو ترک کر دیا گیااور رسم عثمانی ہی مسلمانوں میں معروف رہا اور ہے۔
ہر زبان کا اپنا رسم الخط ہوتا ہے۔
وہ اسی زبان کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔
دوسری زبان کے قواعد و اصول اس پر لاگو نہیں ہوتے۔
عربی زبان کا اپنا رسم الخط ہے۔
اس میں بعض حروف لکھے تو جاتے ہیں پڑھے نہیں جاتے۔
اور یہ دوسرے زبانوں میں بھی ہوتے ہیں، مثال کے طور پر، انگلش میں، اگرknowledge کو دیکھا جائے۔تو کوئی یہ اعتراض کرے کہ، اس لفظ میںk اضافی ہے۔ یہ نہیں پڑھا جاتا۔ تو اسکو لکھنا بھی نہیں چاہیے۔
مزید مثالیں بہت ہیں، جیسے،
۔Philosophy, اگر کوئی کہے کہ یہاں
۔ph کی جگہf ہونا چاہیئے، کیو نکہ ف کی آواز آتی ہے۔
یاpsychology یا اور دیگر کئی مثالیں ہیں
اگر کوئی یہ اعتراض کرے تو اسے یہ ۔جواب ہی دیا جائے گا کہ بیٹا جا کر پہلی جماعت میں دوبارہ سے داخلہ لے لو اور اے بی سی سیکھو۔
پھر اعتراض کا نام اپنے گندے منہ پر لینے کے قابل ہوگے۔کیونکہ یہ اعتراض نہیں کہلاتا بلکہ حماقت کہلاتا ہے۔
بلکہ اسی طرح عربی زبان میں بھی۔
بعض حروف ہوتے ہیں جو رسم الخط میں لکھے تو جاتے ہیں جبکہ پڑھے نہیں جاتے۔
ان کو زائد کہنے والے کو یہی کہا جائے گا کہ پہلے عربی سیکھ لیں۔ تاکہ آپ سے بات ہو سکے۔
ا ب ت سیکھ لیں۔ قاعدہ پڑھ لیں۔
پھر قواعد پر بحث ہوگی۔
بلکل اسی قسم کے کی باتیں لکھ کر کوئی اگر ان پر اعتراضات کا لیبل لگا لے تو وہ اعتراض نہیں کہلاتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ، عربی عربیوں کی اصل زبان ہے۔ انکے لیے ان حروف یا اعراب ،زبر زیر پیش کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یہ عجمیوں کی آسانی کیلئے اضافی طور پر علامات لگائی گئی ہیں۔
مثلا مدارس میں طلبہ جب عربی کتابیں پڑھتے ہیں تو ان پر اعراب نہیں لگے ہوتے۔
بغیر زبر زیر پیش کے بلکل صحیح عربی عبارات انتہائی روانی سے پڑھتے ہیں اور عربی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔کیونکہ ہم عربی سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اگر علامات موجود نہ بھی ہوں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کون سا لفظ یا جملہ کیسا ہے۔
وجہ یہی کہ زبان پر قدرت حاصل کی جا چکی ہوتی ہے۔ اگر وہی کتاب کسی عام بندے کو پڑھنے کیلئے دی جائے تو وہ نہیں پڑھ سکتا، چنانچہ جب اسلام پھیلنے لگا اور عجمی اقوام قوم در قوم اسلام میں داخل ہوتے گئے تو انکے لیے قرآن پڑھنے میں مشکلات پیش آئیں چنانچہ وقت کی ضرورت کے مطابق اصل زبان اور الفاظ اور حروف برقرار رکھتے ہوئے کچھ اشارات لگا دیے گئے جس سے عجمیوں کیلئے بھی عربی سیکھے بغیر قرآت کرنا آسان ہوگیا ۔ چنانچہ وہ نہ قرآن میں تحریف ہے نہ کمی زیادتی بلکہ ، بطور ذریعہ ایک سہولت کے پیش نظر علامات لگائی گئیں۔ اصل قرآن وہی ہے۔
اور ہم بغیر علامات کے روانی سے پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
البتہ اتنی سی بات ہے کہ اگر
لفظ اللّٰه کسی دوسرے لفظ کے ساتھ لگ جائے تو ، اللّٰه کا الف الگ سے نہیں پڑھا جاتا، بلکہ یہ پڑھنے میں گر جاتا ہے۔ یعنی پڑھا نہیں جاتا۔
عربی زبان والوں کیلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔
البتہ غیر عربوں کیلئے فرق بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ اگر ،
اللّٰه کا الف نہ لکھا جائے تو اسکو ،
للّٰه لکھا جائے تو یہ عام شخص،
لِلّٰه پڑھے گا، یعنی لام سے شروع کرے گا۔ جوکہ درست نہیں،
تو اسکو رسم الخط کا حصہ مستقلا بنایا گیا، اور لکھا بھی جاتا ہے ، البتہ اس پر زبر نہیں ڈالا جاتا تو ، عام شخص اسکو اللّٰه ہی پڑھے گا ، اور لِلّٰه پڑھنے کی غلطی سے بچ جائے گا۔
اس سے کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔
مزید کوئ تشنگی باقی ہو تو اس مضمون پہ اور بات بھی کی جا سکتی ہے۔
منجانب۔۔۔۔۔ابو اسلام ابو اسلام،محمد طاہر رضا،معاذ بھائی،عاطف عمیر سعدی صاحب۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔