Tuesday, 5 February 2019

کیا قرآن کا واقعہ ذوالقرنین سکندر اعظم کی سوانح حیات رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے؟

کیا قرآن کا واقعہ ذوالقرنین سکندر اعظم کی سوانح حیات رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے؟

دانیال تیموری کو جواب
حصہ اول

تحریر۔۔۔احید حسن
مستشرقین و ملحدین کا قرآن پاک پر ایک اور سنگین اعتراض ہے۔وہ یہ کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ سکندر اعظم کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے۔اس کے لیے ملحدین نے ابن اسحاق اور ابن ہاشم کا حوالہ دیا ہے جو اس واقعے کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سکندر اعظم کو ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔یہ بات واضح رہے کہ یہ محض ان کی ذاتی رائے ہے۔نہ قرآن پاک اور نہ ہی احادیث میں اور نہ ہی کسی صحابی کے قول میں یہ کہا گیا ہے کہ سکندر اعظم ہی ذوالقرنین تھا۔اور ہمارے لیے صرف قرآن پاک و احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی علیہم  کا قول و عمل ہی حجت ہے۔جب تک ابن ہشام اور ابن اسحاق کے اس قول کی تائید کوئ صحیح حدیث یا کسی صحابی کے قول سے نہیں ہوتی،ہم اسے نہیں مان سکتے۔اور ابن ہشام نے یہ بات اپنی حدیث کی کتاب میں نہیں بلکہ اپنی سیرت کی کتاب میں کی ہے۔وہ کہانی جس کی بنیاد پر ابن ہشام نے اپنا یہ مفروضہ پیش کیا ہے،وہ وہب ابن منہ نے پیش کی ہے جو کہ جھوٹے تاریخی واقعات اور کہانیاں بیان کرنے کے لیے مشہور ہے۔اگر ابن ہشام اپنی یہ رائے کسی اور شخص کے حوالے سے بھی پیش کر دیں تو بھی یہ ایک حقیقت نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے کہلائے گی جب تک قرآن پاک و احادیث اور صحابہ کے قول سے اس کی تائید نہیں ہوجاتی اور نہ ہی یہ کوئ فقہی مسئلہ ہے جس پراکیلے ابن اسحاق اور ابن ہشام اپنی رائے دیں اور اسے مان لیا جائے۔
     ملحدین کہتے ہیں کہ ذوالقرنین کا مطلب دوسینگوں والا ہے اور یہ لفظ سکندر اعظم کی خاص ہیئت کی وجہ سے سکندر اعظم کے لیے استعمال ہوتا تھا۔حقیقت یہ ہے کہ قرن کا مطلب عربی میں صرف سینگ کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس کا دوسرا معنی صدی یعنی ایک زمانہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کے مفسرین نے اسے ذوالقرنین ہی رہنے دیا اور اکثر مفسرین اس کی بحث میں نہیں پڑے۔کچھ صحابہ کہتے ہیں کہ  ذوالقرنین کے بالوں کے سینگوں کی طرح نظر آنے کی وجہ سے اسے ذوالقرنین کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی صحابی نے ذوالقرنین کو سکندر اعظم قرار نہیں دیا۔حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ذوالقرنین بادشاہ نہیں تھا۔اب ذوالقرنین کا سکندر اعظم ہونا تو دور کی بات،حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسے صحابہ اسے بادشاہ بھی تسلیم نہیں کرتے۔
     اہل علم میں یہ بھی مشہور ہے کہ ذوالقرنین ایک نہیں بلکہ دو تھے اور کچھ اہل علم سکندر اعظم کو ذوالقرنین ثانی قرار دیتے ہیں اور دونوں کے درمیان دوہزار سال یا اس سے کم کا واقعہ ہے یعنی ان کے مطابق قرآنی ذوالقرنین سکندر اعظم سے دوہزار سال پہلے گزر چکے ہیں۔لیکن یہ بھی محض ذاتی آراء ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین  یا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ذوالقرنین سکندر اعظم ہے۔ملحدین و مستشرقین ذوالقرنین کو سکندر اعظم ثابت کرنے کے لیے سیرت ابن ہشام کا حوالہ دیتے ہیں جب کہ ابن ہشام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ہزار سال بعد پیدا ہوئے۔
  دوسری بات یہ ہے کہ سکندر اعظم ایک غیر مسلم اور بت پرست تھا جب کہ قرآن کے ذوالقرنین ایک مسلم تھے۔قرآن میں کہیں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ ذوالقرنین کتنا عرصہ زندہ رہے اور نہ ہی ان کے زمانے کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ ذوالقرنین سکندر اعظم نہیں ہے کیونکہ سکندر غیر مسلم تھا جس نے اسکندریہ زیر تعمیر کیا اور تینتیس برس کی عمر میں فوت ہوا۔وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے 323 سال پہلے موجود تھا۔جب کہ ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے،اس کے بارے میں کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں تھا اور ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوا اور وہ پیدل حج پر بھی گئے۔لیکن یہ بھی محض ایک حکایت ہے اور قرآن و حدیث اس معاملے میں خاموش ہیں۔اہل علم میں اس بات پر اختلاف ہے کہ ذوالقرنین ایک پیغمبر تھے یا ایک نیک غلام یا ایک بادشاہ لیکن قرآن کے نقطۂ نظر کے مطابق سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ وحدانیت پرست مسلم تھے۔لہذا درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے کہ وہ کون تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ تبع پیغمبر تھے یا نہیں اور میں نہیں جانتا کہ ذوالقرنین پیغمبر تھے یا نہیں(الحاکم،البیہقی،البانی نے اپنی صحیح البانی میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے)۔
بت پرست سکندر اعظم اور مسلم ذوالقرنین کے درمیان واضح فرق مسلم علماء اچھی طرح جانتے ہیں۔ابن کثیر نے اپنی البدایہ والنہایہ (1/493) میں لکھا ہے
"یہ کہا جاتا ہے کہ قتادہ نے کہا کہ ذوالقرنین سکندر اعظم تھے اور ان کا والد پہلا قیصر تھا اور وہ سام ابن نوح کی اولاد میں سے تھے۔لیکن سکندر اعظم فلپ کا بیٹا تھا۔حافظ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس کا شجرہ نسب ابن رومی ابن الاسفر،ابن العیس،ابن اسحاق ابن ابراہیم الخلیل لکھا ہے۔وہ مقدونی،یونانی،مصری اور اسکندریہ شہر کا بانی تھا جس کے حالات زندگی کی بنیاد پر یونانی اپنا کیلینڈر مرتب کرتے ہیں۔لیکن سکندر اعظم پہلے سکندر یا ذوالقرنین کے بہت بعد آیا۔سکندر اعظم حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے تین سو سال پہلے آیا۔فلسفی ارسطو اس کا وزیر تھا اور یہ وہی تھا جس نے دار ابن دار یعنی فارس کے بادشاہ دارا کو قتل کیا،ان کی زمین پر حملہ کیا اور ان کے بادشاہوں کو زلیل کیا۔
ہم نے اس کی طرف توجہ کی ہے کیونکہ لوگ ذوالقرنین اور سکندر اعظم کو ایک سمجھتے ہیں جس سکندر کا استاد ارسطو کئ غلطیاں کرتا ہے۔جب کہ ذوالقرنین ایک نیک غلام اور بادشاہ تھا جب کہ سکندر اعظم ایک مشرک تھا اور اس کا وزیر ایک فلسفی تھا۔دونوں کے درمیان دوہزار سال کا وقفہ تھا لہذا دونوں کا موازنہ کرنا غلط ہے۔دونوں بالکل ایک جیسے نہیں ہیں،ان میں کوئ بات مشترک نہیں لیکن ان بیوقوفوں کے ذہن کے جو ان کو ایک سمجھتے ہیں۔"
سکندر اعظم کی زندگی پر مبنی کتاب رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ اسلام کے بعد کے زمانے کی ایجاد ہے۔ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے سائنسی طریقوں کے مطابق یہ شامی نسخہ چھٹی سے دسویں صدی عیسوی کی ایجاد ہے۔خود ایک یورپی ماہر بج۔۔۔Budge....کے مطابق رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے سائنسی طریقوں کے مطابق ساتویں صدی سے نویں صدی عیسوی کے زمانے کا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جون 632ء میں وفات پا چکے تھے اور قرآن اس سے پہلے ہی ذوالقرنین کا تذکرہ کر چکا تھا۔صحیح ناموں کے تلفظ اور ذخیرہ الفاظ کی بنیاد پر یورپی ماہر رائٹ۔۔۔۔Wright....کا کہنا ہے کہ رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ عربی نسخے سے دسویں صدی عیسوی میں بنایا گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا زمانہ اس سے تین سے چار سوسال پہلے کا ہے۔نوڈلک۔۔۔۔Nodlele....کے مطابق شامی نسخہ چھٹی صدی عیسوی کے آخر کا ہے اور یہ پہلوی نسخے سے بنایا گیا۔شامی نسخہ اسلامی دنیا میں سکندر اعظم کے بارے میں کئ غیر قرآنی روایات کا ایک بڑا زریعہ ہے۔
اس طرح بذات خود رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے کا زنانہ یورپی ماہرین کی نظر میں مشکوک ہے جس کی بنیاد پر قرآن کو اس سے واقعہ ذوالقرنین نقل کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔
سکندر اعظم کا خیال تھا کہ وہ وہ مصری یونانی دیوتا ایمن زیئس کا بیٹا ہے۔ 200 قبل مسیح کے کئ عربی سکے دریافت ہوئے ہیں جس  میں سکندر اعظم کے سر پر بالوں کو دوسینگوں کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔
یونانی یہودیوں اور عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئ سوسال قبل ایک وحدانیت پرست قرار دے رکھا تھا جو کہ بعض مورخین کی نظر میں اپنے مذہب کو معتبر بنانے اور رومیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہانہ تھا۔لیکن یہود کی کتابوں میں سکندر اعظم کو سکندر کیا گیا ہے جب کہ قرآن بلکہ یہاں تک کہ حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے اقوال میں بھی یہ لفظ کسی بھی شخصیت کے لیے استعمال نہیں ہوا اور اسلامی تاریخ  کے 99•99 % علماء بھی ذوالقرنین کو سکندر اعظم قرار نہیں دیتے۔اگر سب مانتے تھے کہ ذوالقرنین ہی سکندر اعظم ہیں تو ابن ہشام اور ابن اسحاق کے علاوہ کسی اور عالم یا صحابی نے اس واقعے کے حوالے سے سکندر کا نام تک کیوں نہیں لیا۔عیسائیوں کی لیجنڈ اور ہمارا قرآن دونوں ایک ہی اللٰہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔فرق یہ ہے کہ انجیل تبدیل ہوگئ اور رومیوں کی حکومت اور تاریخ سے متاثر ہوکر اس میں ذوالقرنین کو سکندر اعظم قرار دیا گیا جب کہ  قرآن اس سے محفوظ ہے۔اگر دونوں میں باہم کوئ مماثلت ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے نقل کی گئ بلکہ اس وجہ سے ہے کہ ان سب کا نازل کرنے والا ایک اللٰہ تعالٰی ہے۔ اگر نعوذ بااللہ قرآن نے یہ واقعہ یہود سے یا رومانس آف الگزینڈر سے لیا بھی ہے تو پھر باقی سب کتابوں اور رومانس آف الگزینڈر کے برعکس ذوالقرنین کے لیے سکندر اعظم کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا۔ الگزینڈر لیجنڈ کا ایتھوپیائ نسخہ بھی سکندر اعظم کو دوسینگوں والا بادشاہ قرار دیتا ہے۔
نولڈیک  سکندر اعظم کو ذوالقرنین قرار دیتا ہے۔اس کی بنیاد پر قرآن پاک پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر سے لیا گیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ  نولڈیک تلفظ اور ذخیرہ الفاظ اس کو چھٹی صدی عیسوی کے آخر کا کہتا ہے جب کہ  رومانس آف الگزینڈر کے شامی نسخے کی زیادہ مستند اور سائنسی تکنیک ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ظاہر کرتی ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود نہیں تھا۔یہی وہ بات ہے جو خود بج اور رائٹ کہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سکندر اعظم کو عرب میں سوا انتہائ پڑھے لکھے یہود کے کوئ نہیں جانتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات واقعہ ذوالقرنین کی  مکی سورہ کہف کے نزول سے پہلے کسی عالم یہودی سے ملاقات ثابت نہیں اور یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھ کر یہ جاننا چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللٰہ تعالٰی کے رسول ہیں یا نہیں اور ان کو وجہ سے یہ بتایا جاتا ہے یا نہیں۔اگر یہ واقعہ وہاں موجود مکے والوں کو پتہ پوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئ اور بتا چکا ہوتا تو یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آزمانے کے لیے یہ سوال ہر گز نہ کرتے۔فرض کرلیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علم نعوذ بااللہ کسی یہودی عالم سے حاصل کیا تو اب دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسا عالم تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری چھپے تعلیم حاصل کی اور مکہ والوں کو پتہ بھی نہیں چلا یا رومانس آف الگزینڈر کا کونسا سکندر اعظم اور ذوالقرنین کا علم تھا جو نعوذ بااللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب سے حاصل کیا جو مکہ والوں کو پتہ نہیں تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یعنی کفار مکہ،منافقین اور یہودی اس بات پہ پر کیوں خاموش رہتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات میں نقسی تلاش کتے گٹ  مودودی کے مطابق کچھ علماء نے سائرس اعظم کو ذوالقرنین قرار دینے کی کوشش کی ہے جب کہ اس کا ثبوت کوئ نہیں۔محمد علی کے مطابق ذوالقرنین کے لفظ کا مطلب دوسینگوں والا یا روزناموں والا یا دو نسلوں والا بنتا ہے۔
مزید ملحدین اعتراض کرتے ہیں کہ پہلی صدی عیسوی کے یہودی مورخ جوزیفس کے مطابق ایلنز۔۔۔Alans...کی ایک قوم سکندر بادشاہ کے ساتھ ایسے راستوں سے گزری۔ جن کو اس نے لوہے کے دروازوں سے بند کر دیا۔اگر دیکھا جائے تو یہاں جوزیفس نے بھی غلطی کی۔کیونکہ اس وقت کے یہود نے بھی غلطی سے ذوالقرنین کو سکندر اعظم سمجھ رکھا تھا اور اس سے منسوب سب باتوں کو سکندر اعظم سے منسوب کر دیا جیسا کہ جوزیفس فلیویس نے کیا۔اور جب قرآن نے حقیقی ذوالقرنین کا تذکرہ کیا تو ملحدین و مستشرقین نے یہ الزام لگا دیا کہ قرآن نے یہ واقعہ رومانس آف الگزینڈر اور جوزیفس سے لیا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے اس حقیقت کو واضح کر کے بیان کیا اور اس کی اصلاح کی جس کو یہود سکندر اعظم سے منسوب کر چکے تھے۔اب اگر کوئ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ رومانس آف الگزینڈر یا جوزیفس سے لیا تو اس پر لازم ہوگا کہ وہ رومانس آف الگزینڈر یا فلیویس جوزیفس کی Antiquity of jews کا کوئ شامی یا عربی نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ثابت کردے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ  ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے مطابق رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد کا ہے جب کہ جوزیفس کی کتاب کا پہلا مکمل یونانی متن دسویں صدی عیسوی میں پیش ہوا جب کہ قرآن اس سے پہلے ہی ذوالقرنین کا تذکرہ کر چکا تھا۔لہذا جولین کی دلیل کہ رومانس آف الگزینڈر کا شامی نسخہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں میسر تھا،غلط ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھائی لاکھ احادیث میں سے ایک بھی حدیث میں ذوالقرنین کو سکندر اعظم قرار نہیں دیا گیا۔اگریہود میں مشہور یہ بات حقیقت تھی کہ ذوالقرنین ہی سکندر اعظم ہے تو کیوں قرآن پاک،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے یہ بات اس کا تذکرہ نہ کر کے مسترد کی۔اگر یہ بات حقیقت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ اس کا۔ تذکرہ لازمی فرماتے۔مقریزی (1460_1380ء) اپنی کتاب Al_Khotatt میں کہتے ہیں کہ ذوالقرنین یمن کے بادشاہ تھے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ یونانی سکندر اعظم یا ایرانی سائرس تھے۔مزید برآں ذوالقرنین سے منسوب یاجوج  ماجوج کی قوم سے لڑائی اور ان کے خلاف ایک دیوار کی تعمیر کی نسبت سائرس اعظم کی طرف بھی کی جاتی ہے۔لہذا قرآنی واقعات کے بارے میں محض تاریخ کو دیکھ کر اندازہ اور فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ذوالقرنین کی طرح اگر سکندر کی طرف سے بھی تانبے اور زنک کی ایک باڑ ایک جنگجو قوم کے خلاف بنانے کی بات کی جائے تو یہ بات تاریخ سائرس اعظم کے بارے میں بھی کہتی ہے اور ان باڑوں کی تعمیر جنگ میں کوئ بھی بادشاہ کر سکتا ہے۔اگرچہ خود سکندر اعظم اور سائرس کی طرف سے ان باڑوں کی تعمیر مکمل تصدیق شدہ نہیں اور اس کا کوئ ثبوت نہیں لیکن پھر بھی محض مشابہت کی بنیاد پر یہ کہنا کہ یہ واقعہ فلاں سے اخذ کیا گیا،غلط ہے کیونکہ جنگ کے زمانے میں باڑ کی تعمیر کوئ بھی کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے بیان کیے گئے حقائق اور تفصیل واضح کر رہی ہے کہ اس بات کا کوئ ثبوت نہیں کہ قرآن کا واقعہ ذوالقرنین نعوذ بااللہ رومانس آف الگزینڈر یافلیویس جوزیفس کی Antiquity of jews سے لیا گیا ہے۔کوئ ایک بھی حتمی ثبوت اس الزام کا آج تک مستشرقین و ملحدین پیش نہیں کر سکے۔
)جاری ہے)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔