Tuesday, 5 February 2019

اسلامی علم ایمبریالوجی کے حوالے سے ملحدین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب

اسلامی علم ایمبریالوجی کے حوالے سے ملحدین کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب

ایلیمنٹری کو جواب

تحریر ۔۔۔۔احید حسن۔خصوصی تعاون Talha Er
***********************************************
مسند احمد کی ایک روایت کے حوالے سے ملحد ایلیمنٹری نے اسلامی علم ایمبریالوجی پر ایک اور اعتراض کیا ہے۔ایلیمنٹری کا کہنا ہے کہ  اگر  مسند احمد کی اس حدیث کے مطابق یہ مان بھی لیا جائے کہ اسلام عورت کے نطفے یا انڈے یعنی Oocyte or female egg کا قائل ہے تو آگے حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ مرد کے نطفے یا سپرم سے بچے کی ہڈیاں اور عورت کے نطفے سے بچے کا گوشت اور خون بنتا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بات جدید علم ایمبریالوجی کے خلاف ہے۔آگے ایلیمنٹری نے میری ایمبریالوجی کے حوالے سے گزشتہ پوسٹ پر اعتراض کرتے ہوئے مجھے سائنس کی ٹانگ مروڑنے کا الزام بھی دیا ہے۔ایلیمنٹری صاحب میری گزشتہ پوسٹ کا کوئ علمی جواب تو نہیں دے سکے مگر اس پر اپنے غصے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔مجھے پتہ ہے کہ اس پوسٹ پر ایلیمنٹری سمیت بہت سے ملحدین شدید اذیت میں مبتلا ہیں اور میں ان کا دکھ درد اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔لیکن معذرت کے ساتھ میں اس دکھ درد میں ان سے ہمدردی اپنے مذہب اور قرآن و حدیث کی وجہ سے نہیں کر سکتا۔البتہ اگر ان کو کوئ اور تکلیف ہے تو جی بسم اللہ۔اب میں مسند احمد کی وہ روایت بیان کرتا ہوں جس کو بیان کر کے ایلیمنٹری نے اسلامی علم ایمبریالوجی پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔مسند احمد کی یہ روایت اپنے عربی متن کے ساتھ اس طرح ہے
ا ب ج جلد دوم مسند احمد
مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 2466
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَرَّ يَهُودِيٌّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ فَقَالَتْ قُرَيْشٌ يَا يَهُودِيُّ إِنَّ هَذَا يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَقَالَ لَأَسْأَلَنَّهُ عَنْ شَيْءٍ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا نَبِيٌّ قَالَ فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مِمَّ يُخْلَقُ الْإِنْسَانُ قَالَ يَا يَهُودِيُّ مِنْ كُلٍّ يُخْلَقُ مِنْ نُطْفَةِ الرَّجُلِ وَمِنْ نُطْفَةِ الْمَرْأَةِ فَأَمَّا نُطْفَةُ الرَّجُلِ فَنُطْفَةٌ غَلِيظَةٌ مِنْهَا الْعَظْمُ وَالْعَصَبُ وَأَمَّا نُطْفَةُ الْمَرْأَةِ فَنُطْفَةٌ رَقِيقَةٌ مِنْهَا اللَّحْمُ وَالدَّمُ فَقَامَ الْيَهُودِيُّ فَقَالَ هَكَذَا كَانَ يَقُولُ مَنْ قَبْلَكَ
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے گفتگو فرما رہے تھے، قریش کہنے لگے کہ اے یہودی! یہ شخص اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے، وہ کہنے لگا کہ میں ان سے ایک ایسی بات پوچھوں گا جو کسی نبی کے علم میں ہی ہو سکتی ہے، چنانچہ وہ آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) انسان کی تخلیق کن چیزوں سے ہوتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے یہودی! مرد کے نطفہ سے بھی ہوتی ہے اور عورت کے نطفہ سے بھی، مرد کا نطفہ تو گاڑھا ہوتا ہے جس سے ہڈیاں اور پٹھے بنتے ہیں اور عورت کا نطفہ پتلا ہوتا ہے جس سے گوشت اور خون بنتا ہے، یہ سن کر وہ یہودی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ سے پہلے پیغمبر بھی یہی فرماتے تھے۔
اس روایت کی بنیاد پر میں نے سوچا کہ سائنسی تحقیقات پڑھوں اور دیکھوں کہ اس حدیث کے حوالے سے جدید ایمبریالوجی کیا کہتی ہے۔پھر اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ پہلے تو اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف۔اس حوالے سے میں نے اس حدیث کی روایت اور سند کا مطالعہ کیا تو مجھ پر جو حقیقت منکشف ہوئ وہ عربی متن کے ساتھ درج ذیل ہے
قال الشيخ أحمد شاكر رحمه الله :

إسناده ضعيف ؛ لضعف حسين بن الحسن ، وهو الأشقر . والحديث في " مجمع الزوائد " ( 8 / 241 ) ، وقال : " رواه أحمد والطبراني والبزار بإسنادين ، وفي أحد إسناديه عامر بن مدرك ، وثقه ابن حبان ، وضعفه غيره ، وبقية رجاله ثقات ، وفي إسناد الجماعة عطاء بن السائب ، وقد اختلط " .

"مسند أحمد" تحقيق الشيخ أحمد شاكر ( 6 / 199 ) .

وكذا ضعفه محققو المسند ( 7 / 437 ) طبعة الرسالة ، وقالوا :

إسناده ضعيف ؛ لضعف حسين بن الحسن ، وهو الأشقر ، وعطاء بن السائب اختلط بأخرة ، ولم نقف على سماع أبي كدينة - وهو يحيى بن المهلب - منه ، هل كان قبل الاختلاط أم بعده ، وعبد الرحمن والد القاسم - وهو ابن عبد الله بن مسعود - لم يثبت سماعه لهذا الحديث من أبيه ، فهو إنما سمع من أبيه شيئاً يسيراً . انتهى .

ومع ضعف سند الحديث : فإن في متنه إشكالاً ، حيث ذُكر فيه أن لحم الجنين يكون من نطفة الأم ، وعظمه من نطفة الأب ، وظاهر النصوص : أن اللحم والعظم من مجموع النطفتين .
وقد سلف برقم (4142) ، وذكرنا هناك شواهده.
(1) لفظ: "قال " لم يرد في (س) .
(2) في هامش (س) : فجلس.
(3) إسناده ضعيف لضعف حسين بن الحسن، وهو الأشقر، وعطاء بن السائب اختلط بأخرة، ولم نقف على سماع أبي كدينة - وهو يحيى بن المهلب - منه، هل كان قبل الاختلاط أم بعده؟ وعبد الرحمن والد القاسم - وهو ابن عبد الله بن مسعود - لم يثبت سماعه لهذا الحديث من أبيه، فهو إنما سمع من أبيه شيئاً يسيراً.
وأخرجه البزار (2377) "زوائد"، وأبو الشيخ في "العظمة" (1088) من طريق محمد بن الصلت، عن أبي كدينة، بهذا الإسناد.
قال البزار: لا نعلم رواه عن القاسم هكذا إلا عطاء، ولا عنه إلا أبو كدينة.
وأخرجه الطبراني في "الكبير" (10360) من طريق معاوية بن هاشم، عن حمزة الزيات، عن عطاء بن السائب، به.
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس روایت کے بارے میں امام احمد کا کہنا ہے کہ اس روایت کے راویوں میں سے ایک حسین الاشقر یا حسین ابن الحسن منکر حدیث تھا۔احمد شاکر نے اپنی تخریج مسند احمد میں اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن کا اپنے والد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث سننا ثابت ہی نہیں ہے۔بزار کے مطابق یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ قاسم سے عطا اور عطا سے صرف ابی کدینہ نے ہی اس سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
لہذا یہ روایت اسی سند کے ساتھ مروی ہے اور اس میں موجود ایک منکر حدیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔
لہذا اس حدیث کو بنیاد بنا کر ملحدین کا اسلامی علم ایمبریالوجی پر اعتراض بالکل غلط ہے۔ملحدین کو اعتراض کا شوق ہے تو پہلے حوالے مستند لائیں جب کہ دوسری روایت جس میں حدیث میں عورت کے نطفے کو تسلیم کیا گیا ہے وہ بخاری کی ہے اور اس پر اختلاف نہیں۔وہ روایت کچھ اس طرح ہے
بَاب حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ حَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَائَ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُکَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْکُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَی أَبِيهِ أَوْ إِلَی أُمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا قَالَ ابْنُ سَلَامٍ ذَاکَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنْ الْمَلَائِکَةِ قَالَ أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنْ الْمَشْرِقِ إِلَی الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْکُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ کَبِدِ الْحُوتِ وَأَمَّا الْوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ وَإِذَا سَبَقَ مَائُ الْمَرْأَةِ مَائَ الرَّجُلِ نَزَعَتْ الْوَلَدَ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّکَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي فَجَائَتْ الْيَهُودُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فِيکُمْ قَالُوا خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَالُوا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِکَ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِکَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالُوا شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَتَنَقَّصُوهُ قَالَ هَذَا کُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ
حامد بن عمر بشر بن مفضل حمید حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کی خبر جب عبداللہ بن سلام کو پہنچی تو انہوں نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے اور کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین ایسی باتیں دریافت کروں گا کہ جنہیں نبی کے سوائے کوئی نہیں جانتا سب سے پہلی قیامت کی علامت کیا ہے؟ اور سب سے پہلی غذا جسے اہل جنت کھائیں گے کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ بچہ (کبھی) باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور (کبھی) ماں کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل نے مجھے ابھی ان کا جواب بتلایا ہے ابن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے خصوصی دشمن ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور اہل جنت کی سب سے پہلی غذا مچھلی کی کلیجی کا ٹکڑا ہوگا اور رہا بچہ کا معاملہ تو جب مرد کا نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آ جائے تو بچہ باپ کی صورت پر ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آ جائے تو بچہ عورت کا مشابہ ہوتا ہے انہوں نے کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (پھر) کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی بڑی افترا پرداز قوم ہے میرے اسلام لانے کا انہیں علم ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے میرے بارے میں دریافت کیجئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہود کو بلوا بھیجا جب وہ آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ) فرمایا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے آدمی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ہم میں سب سے بہتر اور بہترین آدمی کے لڑکے ہم میں سب سے افضل اور افضل کے لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ تو اگر عبداللہ بن سلام مسلمان ہو جائیں تو کیا تم بھی ہو جاؤ گے؟ انہوں نے کہا اللہ انہیں اس سے محفوظ رکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا تو انہوں نے وہی جواب دیا پھر عبداللہ بن سلام ان کے سامنے (باہر) نکل آئے اور کہا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ تو یہودیوں نے کہا یہ ہم میں سب سے بدتر اور بدتر کی اولاد ہیں اور ان کی برائیاں بیان کرنے لگے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ان سے اسی بات کا اندیشہ تھا۔
اس حدیث میں واضح طور پرعورت کے نطفے یا اووسائٹ کا وجود تسلیم کیا گیا ہے جب کہ دوسری روایت مسند احمد کی ہے جس میں مرد کے نطفے سے بچے کی ہڈیاں اور عورت کے نطفے سے بچے کا گوشت اور خون بننے کا تذکرہ ہے،ضعیف ہے۔
اور سائنس میری نظر میں مذہب کی لونڈی ہے۔جو بات اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے کی سائنس تحقیقات کے بعد انکار کرتے کرتے آخر اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جو اسلام کا نقطہ نظر ہوتا ہے۔ہی وجہ ہے کہ سائنس نے آج الحاد کی جڑیں ہلا دی ہیں اور خدا کے وجودکے اقرار سے نظریہ ارتقاء کی تردید تک سائنس آچکی ہے۔لہذا ہم حدیث و قرآن کے معاملے میں سائنس کو ایک طرف رکھتے ہیں۔سائنس پہلے وہ علم و ادراک حاصل کرے جو مذہب کا ہے پھر ملحدین سائنس کی بنیاد پر اسلام پر اعتراضات کریں۔
اس طرح اس ساری تحقیق کے بعد ملحدین کا اسلام پر یہ اعتراض صدا بصحرا ثابت ہوتا ہے۔امید ہے ایلیمنٹری صاحب یہ جواب پڑھ کر سکون فرمائیں گے۔اگر پھر کوئ مسئلہ ہو تو خدمت کے لیے ان شاء اللہ پھر حاضر ہوں گا۔

حوالہ جات۔۔۔۔

http://www.hadithurdu.com/01/1-2-1169/
مسند أحمد" تحقيق الشيخ أحمد شاكر ( 6 / 199 ) .
محققو المسند ( 7 / 437 ) طبعة الرسالة
Masa'il Ahmad Riwayatul-Ishaaq', 2/243]
Ahmad Shakir  takhreej of Musnad Ahmad, 6/200
http://shamela.ws/browse.php/book-25794/page-3351

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔