Sunday, 24 February 2019

عجائبات کائنات ۔۔۔۔ دوسرا حصہ اور آخری حصہ

عجائبات کائنات ۔۔۔۔ دوسرا حصہ اور آخری حصہ
محمد یاسر فروری 23, 2019

۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج ۔۔۔۔۔۔
ہماری زمین پر روشنی اور حرارت کا ذریعہ، بہتی اور بھڑکتی گیسوں کا اُبلتا ہوا سمندر، مُحققینِ فلکیات کی تحقیق و محتاط اندازے کے مطابق ایک سو بیس کھرب میل کی وسیع و عریض مسافتوں تک اپنی کششِ ثقل سے خلائی اجسام کو گرفت میں رکھنے والا ہمارا سورج۔سب سے پہلے یہ سمجھا جائے کہ ہمارا سورج ایک ستارہ ہے۔

نہایت اہم معلومات
“زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں، ایک عام ستارے کی عمر چند ارب سال ہوتی ہے۔ستارہ جتنا بڑا ہوگا اس کی عمر اسی قدر کم ہوگی اور سائز میں جتنا چھوٹا ہوگا ایندھن کم استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی عمر اسی قدر زیادہ ہوگی۔ستارے گیس اور گرد کے ان بادلوں میں جنم لیتے ہیں جنہیں ہم نیبیولا کہتے ہیں۔نیبیولا یا سحابیہ کے اندر گرد اور گیس کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس ٹکراؤ کی وجہ سے گرد اور گیس سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں یوں ایک ستارے کا بچہ پیدا ہوتا ہے جسے پروٹوسٹار کہا جاتا ہے۔۔۔اب یہ پروٹو سٹار “نیم ستارہ” اپنے اندر کے دباؤ کی وجہ سے بہت زیادہ کثیف اور لامنتہا درجہ حرارت کو پہنچ جاتا ہے۔بالآخر اس نیم ستارے کا درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر خود کار ایٹمی دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔جب کسی بھی پروٹوسٹار کے اندر خود کار دھماکے شروع ہو جائیں تو اس وقت وہ ایک مکمل ستارہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ پا لیتا ہے۔جیسا کہ ہم نے اوپر یہ پڑھا کہ زیادہ تر ستارے ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ہر ستارے کے اندر ارتقائی مراحل چل رہے ہوتے ہیں ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہے، درجہ حرارت اور کثافت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن سے تبدیل ہوئی ہیلئم بھی ہائیڈروجن کے ساتھ جلنے لگ جاتی ہے، جس سے ستارے کی گرمی اور حدت مزید بڑھ جاتی ہے، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جلی ہوئی ہیلئم کی راکھ کاربن کی صورت میں ستارے کے مرکز میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ہیلئم سے بنی راکھ یعنی کاربن جب ستارے کے مرکز میں ایک خاص مقدار سے تجاوز کرتی ہے تو ستارہ ایک دھماکے سے پھول کر بہت بڑا “red giant” یعنی سرخ دیو کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اپنی جسامت سے کئی گنا تک بڑا ہو جاتا ہے۔اگر ستارہ ہمارے سورج جیسا ہو تو سکڑنے لگتا ہے اور سفید بونا سیارہ بن جاتا ہے، جس کے ایک چائے کے چمچ کے برابر مادے کا وزن کئی ٹن تک ہو سکتا ہے۔۔اس کے بر عکس اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑا ہو تو ایک اور دھماکہ ہوتا ہے یہ دھماکہ کائنات کے دور دراز تک کے علاقوں کو روشن کر دیتا ہے اسے “سُپر نووا” Super nova کہا جاتا ہے۔سپرنووا کا شکار ستارہ اپنی موت کے وقت ہمارے سورج سے ایک سو ارب گنا زیادہ روشنی اور توانائی خارج کرتے ہیں۔اس دھماکے کے بعد وہ ستارہ ایک “سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔جی ہاں آپ درست ہیں سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول۔۔۔وہی بلیک ہول جو انسانی سوچ اور سمجھ کا اختتام ہے۔مزید یہ بھی جانتے چلیں کہ جو ستارہ اپنی موت کے قریب ہے اگر وہ ہمارے سورج سے ڈیڑھ سو گنا بڑا ہو تو دھماکہ سُپر نووا سے بھی بڑا ہوتا ہے، جسے ہائپر نووا Hyper nova کہا جاتا ہے۔ہائپر نووا اس قدر قیامت خیز دھماکہ ہوتا ہے کہ ایک منٹ میں ہائپر نووا اتنی توانائی خارج کرتا ہے جتنی توانائی ہمارا سورج ساٹھ ارب سالوں میں خارج کرے، ہائپر نووا سے اس قدر خطرناک اور طاقتور شعائیں نکلتی ہیں جو کہ ساڑھے سات ہزار نوری سال دور سے ہی ہماری زمین پر زندگی کا صفایا کر سکتی ہیں۔یعنی اگر ہماری زمین سے ساڑھے سات ہزار نوری سال کی دوری پر کقئی ہائپر نووا کا دھماکہ ہوتا ہے تو سورج سے زیادہ روشنی اس دھماکے کی ہو سکتی ہے یہاں اور اس کی مہلک شعائیں جنہیں Gama ray bursts کہا جاتا ہے زمین پر قیامت برپا کر دیں۔
ایک ہزار برس قبل ہوئے ایک سپر نووا کا مشاہدہ آپ اپنی چھت سے کم از کم چھتیس انچ “36inchs” فوکل لینتھ والی دوربین سے کر سکتے ہیں۔جس جگہ سپرنونوا کا وہ دھماکہ ہوا تھا آج وہاں کھربوں میلوں پر پھیلے رنگ برنگی گیسوں کے عظیم بادل دکھائے دیتے ہیں، جن کو “Messier 1” یا “Crabe nebula” کا نام دیا گیا ہے۔

میرا خیال ہے اب ہم کافی حد تک ستاروں کی تخلیق و تباہی کو سمجھ چکے ہیں۔حال ہی میں کچھ برس پہلے پلوٹو سے بھی دور ایک اور سیارہ دریافت ہوا جسے سیڈنا کا نام دیا گیا۔بہت زیادہ دوری کے سبب اس سیارے کے بارے میں کچھ خاص معلومات حاصل نہیں ہو سکیں تاہم جس قدر ہوئیں وہ انسانی عقل کو حیران کر دینے کے لئے کافی ہیں۔زمین کا تین سو پینسٹھ دن کا ایک سال آپ کے ذہن میں ہوگا ۔۔۔لیکن کیا آپ سوچ سکتے ہیں اس سیارے کا ایک سال کتنے عرصے میں پورا ہوتا ہے؟ سیڈنا گیارہ ہزار کم و بیش سال میں سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے، یعنی زمین پر گیارہ ہزار سال گزرنے کے بعد اس سیارے پر ایک سال مکمل ہوتا ہے۔اس کا مدار سورج کے گرد نہایت عجیب ہے۔۔۔سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کا سورج سے کم سے کم فاصلہ دو سو ایسٹرونومیکل یونٹ 200AU ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹ 1200AU تک پھیل جاتا ہے.یہ بات علم میں رہے کہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ میں پندرہ کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ ہوتا ہے(زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ ایک ایسٹرونومیکل یونٹ کہلاتا ہے) اردو میں ایسٹرونومیکل یونٹ کو فلکیاتی اکائی بولا جاتا ہے۔اب آپ بارہ سو ایسٹرونومیکل یونٹس 1200AU کو پندرہ کروڑ کلومیٹر سے ملٹی پلائی یعنی ضرب دیں تو جواب کچھ یوں آئے گا کہ ایک سو اسی ارب کلومیٹر دور تک سورج اس سیارے کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے اور یہ صرف پلوٹو سے تھوڑا پرے کا علاقہ ہے۔۔۔اس سے آگے سورج کی گرفت میں کئی ایک برفانی دنیائیں خلاء میں گھوم رہی ہیں جن تک سورج کی روشنی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں، جب کہ روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔روشنی اور حرارت کا یہ منبع ہائیڈروجن اور ہیلیم گیس سے ڈھکا ہوا ہے۔سورج کے قبضہ میں یعنی حجم کے اعتبار سے اس قدر بڑا علاقہ ہے کہ اگر نظام شمسی کے تمام سیارے، ڈیڑھ سو سے زائد معلوم چاند، دُمدار ستارے اور باقی کے سب خلائی اجسام “جو سورج کی کششِ ثقل کے تابع ہیں” کو اکٹھا کیا جائے۔۔۔تو سورج کی طرف سے گھیرے میں لیا گیا علاقہ ان سب کے مقابلے میں 99.86 % ہے۔سورج ایک سیکنڈ میں لاکھوں ٹن مادے کو توانائی میں تبدیل کر دیتا ہے، اس دنیا میں سائنسی عروج سے لے کر آج تک جتنے بھی کیمیائی و ایٹمی ہتھیار بنے ہیں۔۔۔سورج ایک سیکنڈ میں اس سے کہیں زیادہ توانائی پیدا کر کے روشنی اور حرارت کی شکل میں خلاء میں بکھیر دیتا ہے۔سورج کی کششِ ثقل اس قدر طاقت ور ہے کہ زمین پر آپ کھڑے ہوں اور سورج پر آپ کی ایک عام کپڑے والی شرٹ رکھ دی جائے تو آپ سے زیادہ آپ کی شرٹ کا وزن ہوگا۔

سورج کی سطح سے سورج کا مرکز تقریباً چھ لاکھ پچانوے ہزار سات سو کلومیٹر ہے، زمین کے مرکز کا درجہ حرارت پانچ ہزار چار سو 5400 سینٹی گریڈ ہے اور سورج کی سطح کا درجہ حرارت پانچ ہزار پانچ سو پانچ ڈگری سینٹی گریڈ ہے، سورج کا مرکز کتنا گرم ہوگا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سورج کے مرکز کا درجہ حرارت ایک سو پچاس لاکھ ڈگری سینٹی گریڈ ہے، یعنی پندرہ ملین ڈگری سینٹی گریڈ!۔۔۔سورج کی عمر یہی کوئی چار سو ساٹھ کروڑ سال بتائی جاتی ہے، مطلب ساڑھے چار ارب سال کے لگ بھگ۔ہماری زمین سمیت نظام شمسی کا ہر سیارہ، ہر چاند، ہر دمدار ستارہ اور ہر خلائی جسم سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ سورج ایک جگہ پر کھڑا ہوا ہے، ساکت ہے۔۔۔ایسا بالکل نہیں! بلکہ سورج بھی ہر وقت ان تمام objects کو لئے ایک لمبے سفر پر روان دواں رہتا ہے۔

گلیسٹِک سینٹر جسے انگلش میں “GC” لکھا جاتا ہے۔۔۔یہ وہ جگہ ہے جو ہماری کہکشاں ملکی وے کا مرکز ہے۔اس جگہ ایک بہت بڑا بلیک ہول موجود ہے جس کی کششِ ثقل ہماری پوری کہکشاں کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ہمارے نظام شمسی جیسے چالیس لاکھ سے بھی زیادہ نظام شمسی اس بلیک ہول میں سما سکتے ہیں۔۔۔ہمارا سورج اور ہمارے سورج سے چھوٹے بڑے کئی کروڑ ستارے، ان ستاروں کے اپنے سیارے اور چاند، گیسوں کے عظیم الشان بادل nebulas غرض ہماری کہکشاں کے کئی ہزار کھربوں میل کے وسیع علاقے میں پھیلی کروڑوں دنیائیں اسی بلیک ہول کے کی کششِ ثقل کے کنٹرول میں ہیں۔ایک نئی اور محتاط تحقیق کے مطابق سورج ایک سیکنڈ میں دو سو اکیاون کلومیٹر “251km” کی رفتار کے ساتھ اس بلیک ہول سے پچیس ہزار چھ سو”25600″ نوری سال کے فاصلے پر رہتے ہوئے ملکی وے کہکشاں کے گرد چکر لگا رہا ہے۔اگر اس رفتار سے کسی سواری پر سورج کی طرف جائیں تو صرف دو ہفتوں میں ہم زمین سے سورج پر پہنچ کر پھر واپس زمین پر آ جائیں گے۔اس رفتار سے سورج تقریباً بارہ “12” صدیوں میں ایک نوری سال “lightyear” کے برابر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے، یعنی ساٹھ کھرب میل۔

سورج چلتا رہتا ہے۔۔۔رکتا نہیں، جلتا رہتا ہے بجھتا بھی نہیں۔جہاں عقل و سائنس کے حقائق ماننے لازم ہیں وہیں انسان کی محدود عقل یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یہ کسی محدود وُسعت و طاقت والی عام ذات کا کام نہیں ہے، یہ ضرور اس ذات کی طرف سے بچھائی ہوئی، سجائی ہوئی کائنات ہے جو خود میں یکتا ہے، بے مثال ہے، لاجواب ہے جب چودہ سو سال پہلے نا سائنس تھی نا یورپی ترقی و ناسا کا وجود تھا، نا روس کی ٹیکنالوجی تھی نا جاپان کے ایجاد کردہ خلائی اجسام کی حرکات و سکنات کو جانچنے والے سینسرز ایجاد ہوئے تھے۔۔۔تب عرب کے صحرا میں، ایک چھوٹی سی بستی میں محمد صل اللہ علیہ وسلم پر سورج، چاند زمین اور پوری کائنات کے راز بذریعہ وحی کھولے جا رہے تھے۔جی ہاں یہ بتایا جا رہا تھا کہ “کائنات کی ہر چیز اپنے اپنے مدار میں چکر لگا رہی ہے” القرآن.قرآن پاک نے بتایا کہ سورج اپنی روشنی خود پیدا کرتا ہے، چاند کی اپنی روشنی نہیں ہے۔یہ بات گلیلیو گلیلی نے چار سو سال پہلے کہی لیکن قرآن نے یہی بات چودہ سو سال قبل بتا دی تھی۔
سورج ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر کم و بیش پچیس کروڑ سال میں پورا کرتا ہے۔ایک ہفتے میں ایک فلکیاتی اکائی “پندرہ کروڑ کلومیٹر” کا فاصلہ طے کرنے والا سورج پچیس کروڑ سال میں کتنا سفر طے کرتا ہوگا۔ایک صدی “سو سال” میں سورج پانچ سو ارب میل سے کچھ زائد کا فاصلہ طے کرتا ہے۔پچیس کروڑ سالوں میں پچیس لاکھ صدیاں بنتی ہیں۔۔۔مطلب آپ پانچ کھرب میل کا فاصلہ “پچیس لاکھ” بار کریں تو اسی کے برابر سورج ملکی وے کے گرد گھوم کر ایک “کہکشانی سال” مکمل کرتا ہے۔جسے انگلش میں “Galactic year” یا “Cosmic year” بھی کہا جاتا ہے۔سورج کی عمر کے حساب سے دیکھا جائے تو اس اعداد و شمار کے مطابق سورج نے اپنی پیدائش سے لے کر ابھی تک کہکشاں ملکی وے کے صرف اٹھارہ چکر ہی لگائے ہیں اور انیسواں چکر نصف ہونے میں یہی کوئی پندرہ کروڑ سال باقی ہیں۔۔۔اگر ابتداء سے سورج کی یہی رفتار رہی ہے تو۔

اس سے بھی دلچسپ اعداد و شمار بتاتا چلوں کہ سورج اپنے مدار پر چکر لگاتے ہوئے پچیس لاکھ صدیوں میں لگ بھگ دو ہزار ایک سو نوری سال “light year” کا فاصلہ طے کرتا ہے۔۔۔مطلب دو سو اکیاون “251” کلومیٹر فی سیکنڈ یا نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی تیز رفتار سے سفر کرتے ہوئے سورج پچیس کروڑ سالوں میں دو ہزار ایک سو “2100” نوری سال کا فاصلہ طے کرتا ہے۔
ان اعداد و شمار کے بعد محدود انسانی عقل شکست خوردہ حالت میں ہتھیار پھینک چکی ہے اور ہاتھ اٹھائے اپنی بے بسی کا اظہار کر رہی ہے۔۔۔کہ بالفرض اگر ہم سورج جتنی رفتار سے سفر کر سکیں تو پچیس کروڑ سال میں نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر کے ہم صرف دو ہزار نوری سال کے لگ بھگ کا فاصلہ طے کریں گے۔۔۔اور ابھی تک کی درفایت شدہ کائنات کتنے نوری سال تک پھیلی ہوئی ہے، معلوم ہے آپ کو؟
جس جگہ آپ کھڑے ہو کر اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہیں۔۔۔چاروں اطراف آپ کی نظر جہاں جہاں تک جاتی ہے وہ اپ کا مشاہداتی علاقہ کہلائے گا۔۔۔ہم اس کائنات میں زمین اور زمین کے گرد و نواح سے جھانکتے ہیں تو آپ زمین کو مرکز بنا کر چاروں اطراف کے مشاہداتی کائنات کا علاقہ نوری سال میں بیان کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔۔۔ترانوے “93” ارب نوری سال تک کے فلکیاتی جنگل میں انسان کی نظریں پہنچ چکی ہیں۔ہے نا حیران کن بات کہ کہاں پچیس کروڑ سالوں میں سورج نو لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دو ہزار ایک سو نوری سال کا سفر طے کرتا ہے۔۔۔اور کہاں ترانوے ارب نوری سال کے دنگ کر دینے والے فاصلے جن کو انسان صرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی سکتا ہے۔اور یہ کائنات کا صرف وہ حصہ جہاں تک انسانی دور بینوں کی نگاہیں پہنچی ہیں۔مزید کائنات کیا ہے؟ کہاں تک ہے؟ محدود ہے یا لا محدود ہے؟ جواب ندارد
صرف سورج ہی نہیں بلکہ سورج کے کنٹرول میں ہر چیز سورج کے ساتھ اربوں سالوں سے انجان راستوں کی مسافر بنی ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کسی پُرسکون جگہ پر لیٹ کر ان ستاروں سے باتیں کیجئے گا، ان کو اپنا دوست سمجھ کر چند لمحے ان کے لئے نکالئے گا۔۔۔پھر دیکھئے گا کہ لامُنتہاء مسافتوں کے یہ مسافر سیارے، سیارچے، ستارے اور کہکشائیں آسمان پر رات کے وقت چمکتے، دمکتے اور اپنی منزل کی جانب آگے بڑھتے ہوئے آپ کو اپنی رودادِ سفر بھی سنائیں گے اور عجائباتِ کائنات کی حیرانگیوں سے آپ کے دل و دماغ کو بھی جھنجھوڑیں گے۔اگر کبھی موقع ملے اور آپ مصنوعی روشنیوں سے دور کہیں پہاڑی وادیوں میں رات گزاریں تو غور کیجئے گا کہ چاند سے خالی راتوں میں آپ ہزاروں ستاروں کو کسی دور بین کا سہارا لئے بغیر اپنی آنکھ سے دیکھ سکیں گے اور ہزاروں لاکھوں نوری سال کے فاصلے ہونے کے باوجود ان ستاروں کی دودھیا سفید، نیلی، نارنجی، سرخ اور سنہری روشنیاں برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنا جلوہ بکھیرتے ہوئے آپ کو دنیا وما فیہا سے غافل کر دیں گی۔آپ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کائنات صرف عجائب خانہ ہی نہیں بلکہ تصویرِ فنکار بھی ہے! رنگوں بھرے گیسی بادلوں یعنی نیبیولاز میں ٹِمٹماتے ستارے تو کہیں روشنیاں بکھیرتی دلکش کہکشائیں۔
کائنات کے جو مظاہر ہم نے دیکھے ہیں یا دیکھیں گے، یہ کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ کائنات کس قدر وسیع و عریض ہے، حسین و جمیل ہے اور عجیب و غریب ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور سوچ بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ اس کائنات کو بنانے والا اپنی ذات میں اکیلا ہے، اپنی صفات میں اکیلا ہے۔۔۔جس طرح اس کی بادشاہت کی کوئی حد نہیں، جس طرح ہمارے لئے اس کی ذات کو مکمل طور پہ سمجھنا ممکن نہیں بالکل اسی طرح ہمارے لئے عجائبات و تخلیقاتِ کائنات کو بھی مکمل طور پہ سمجھنا ناممکنات میں سے ہے۔لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اس راستے پر آگے بڑھنا چھوڑ دیں۔۔ہمیں اپنے اندر کے تجسس کو سواری بنا کر بہت آگے بڑھنا ہے۔۔۔ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ “یہ کائنات بنائی ہی اس لئے گئی ہے کہ اس کو کھوجا جائے۔انسان ہونے کا حق بھی اسی سے ادا ہوگا کہ ہم عقل سے بالاتر اس کی تخلیقات دیکھ کر بول اٹھیں کہ بے شک وہ لفظ جو ہم بار بار اس کے نام کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، اس کی ذات اس لائق ہے کہ اس کے لئے ایسے الفاظ بولے جائیں۔۔۔اور وہ لفظ “تعالی” ہے، جس کا معنی ہے وہ بلند و بالا ہے…!

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔