یہ لوگ خودکش حملے اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگروہ کافروں کو بم سے اڑا دیں گےتوانہیں جنت میں ۷۲ کنواریاں ملیں گی۔"
یہ اور اس طرح کے جملے مغربی استعمار کے وکلاء اور ان کے حمایتی دیسی لبرلوں اور ملحدوں کی طرف سے عام طور بولے اور پھیلائے جاتے ہیں۔
گویا کہ مسلم مقبوضہ جات میں مسلمانوں کی طرف سے جو مزاحمت ہورہی ہے اس کا پورا مقدمہ یہی ہے۔ نہ عراق پر امریکہ نے حملہ كيااور نہ افغانستان پر ۔نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ امریکی حمایت اور اقوم متحدہ کی توثیق سے اسرائیل نے پوری فلسطینی قوم کو یرغمال بنايا اورنہ ہی کبھی پوری فلسطینی قوم کو نکال کر ان کى جگہ یہودیوں کو لابسایا۔ نہ ہی اسرائیل نے کسی فلسطینی کو کوئی تکلیف پہنچائی۔ اللہ کے راستے میں قتال دراصل اپنی دنیا کی زندگی کو ایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربان کردینا ہے۔یہ ظلم کو قبول نہ کرنے کی ضد ہے۔ یہ حق کے لئے اپنی جان دینے کا جذبہ ہے۔ یہ ایک یقین ہے کہ اس دنیا کی زندگی سے زیادہ اہم حق ہے۔ لیکن بات کوگھُما کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے گویاکہ یہ پورا جھگڑا ہی بہتر حوروں کا ہے اور بس۔گویا مغربی استعمار کا مقابلہ کرنے والاایک بے شعور اور جنس زدہ قسم کا کوئی شخص ہے۔
اس طرح کی لغو باتیں کر کے اصل مسئلہ ہی کہیں دبا دیا جاتا ہے۔
چونکہ یہ موضوع ملحدوں اورمغربی استعمار کے وکلاء کی طرف سے بار بار آتا ہے اس لئے جنت کی کنواریوں پر بھی کھل کر بات كرلى جائے ۔ لیکن اس موضوع پر کچھ بھی عرض کرنے سے پہلے یہ بتادیں کہ بحث اور مناظرے میں ایک چكماديا جاتا ہے جس کا مقصد عام پر طور پرایک صحیح مؤقف کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس چكمے کو ریڈ ہیرنگ(Red Herring)کہتے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ پر سے بحث کے ارتکاز کو ہٹانے کے لئے درمیان میں کچھ ایسی بات کی جاتی ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر ایک غیر متعلقہ موضوع کی طرف چلی جاتی ہے۔بحث کے دورا ن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر عوامی ذہن فوراً متوجہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بہتر کنواری حوروں والا نکتہ بھی ایسا ہی ہے اس لئے اصل مسئلہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اسی کا بھر پور استعمال ہوتا ہے۔
مناظرے کو غلط طریقے سے جیتنے کے لئے ایک اور چال استعمال کی جاتی ہے جسے سٹرامین آرگیومنٹ(Straw man argument) کہتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کا مقدمہ بھی آپ خود بیان کرتے ہیں اور اس کی تردیدبھى خود کرکے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ میں نے ہرادیا۔ حالانکہ ایسا شخص فریق مخالف کے مقدمے کو نہیں بلکہ خود اپنے مقدے کو ہرا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ غور کریں تو اسلام کے مقابلے میں یہ دونوں چاليں ملحدین اور مغرب کے مفکرین کی طرف سے خوب استعمال ہوتی ہیں۔اسلام پر شدید ترین تنقید کرنے کے حوالے سے ایک دہریہ بہت مشہور ہے جس كا نام رچرڈ ڈاکنز ہے۔ یہ بندہ مسیحی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ مسیحیت پرزیادہ تنقید کرے۔ لیکن اس کے نشانے پر اکثر اسلام ہوتا ہے اور اس معاملے میں یہ بندہ ریڈ ہیرنگ استعمال کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔
جنت کی حور اور ملاحدہ کی ذہنی کیفیت
اب آتے ہیں قتال اور حوروں کے موضوع پر۔
قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو جنت کی نعمتیں عطا کرے گا اور ان نعمتوں میں پاکیزہ بیویاں بھی شامل ہيں۔جنت میں عطا کی جانی والے بیویوں کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہے۔
انہیں حور عین کہا گیا ہے۔ یعنی بڑی آنکھوں والی۔الرحمن ۷۲، الواقعۃ۲۲
جیسے حفاظت سے پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔الواقعۃ: ۲۳
جیسے یاقوت و مرجان: الرحمن ۵۸
عروب، شوہروں کی محبوبہ، دل لبھانے والی۔ سورہ واقعہ ۳۷
ہم عمر، سورہ واقعہ ۳۷
پاکیزہ بیویاں، آل عمران ۱۵، النساء ۵۷
نیچی نگاہوں والی، سورہ رحمن ۵۶
خَيْرَاتٌحِسَانٌ، اچھی اور خوبصورت، سورہ رحمن ۷۰
جنہیں کسی جن و انس نے نہ چھوا ہوگا۔ سورہ رحمن، ۵۶، ۷۴
۱نوجوان ،بھرے جسم والی ، سورہ نبأ ۳۳
اللہ نے انہیں خاص طور پر الگ سے بنایا ہوگا۔الواقعہ ۳۵
کنواریاں، الواقعہ ۳۶
احادیث میں مزید اس کی وضاحتیں آئی ہیں۔ لیکن یہاں پر جنت کی حوروں کی تمام خصوصیات بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ جب جنت کی بیویوں کی بات کی جاتی ہے تو مخالفین صرف ایک لفظ سے جنت کی پاکیزہ بیویوں کا ترجمہ کرتے ہیں اور وہ لفظ ہوتاہے “ورجن”(Virgin) یعنی کنواری۔ حالانکہ جس کے اندر طبعی سلامت روی کی تھوڑی سی رمق باقی ہووہ جنت کی بیوی کی جو تشریح قرآن میں آئی ہے اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ لیکن یہاں پر نظر “کنوارے پن” سے آگے جاتی ہی نہیں۔ اس طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان کو صرف اور صرف عورت کی بکارت سے واسطہ ہے۔ نہ اسے اس کی حسین اور بڑی آنکھوں والی ہونے سے کوئی واسطہ ہے، نہ اس کی محبت اور پاکیزگی سے کوئی غرض۔ یہ شاید عالم اسلام سے ملحدین اور مغرب کے شائقین کی توجہ حاصل کرنی کی ایک سستی سی کوشش ہے۔ ہم نے مضمون کے ابتداء میں ریڈ ہیرنگ پر جو بات کی تھی اس بات کو یہاں پیش نظر رکھیں۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک بھرپور عورت کا باکرہ ہونا ناقابل یقین حد تک انوکھی چیز ہے۔قانونی طور پر رضامندی کی عمر(age of consent) طے ہونے کے باوجود ان کے یہاں بچی کم عمری میں ہی اپنے کسی دوست یا بالغ رشتہ دار کے ساتھ بکارت کھوچکی ہوتی ہے۔ یا ان کے نزدیک عورت کا باکرہ ہونا ہی قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن جس کنواری حور کی بات کر رہا ہے وہ اپنے شوہر کی انتہائی محبوب، ہم عمر یعنی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھنے والی، نگاہیں نیچی رکھنے والی، یعنی اس کی نگاہیں اور دل صرف اپنے مرد کی طرف ہی متوجہ ہوں گے۔ پھر پاکیزہ اور ایسی پاکیزہ کہ اسے اس کے شوہر سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا تک نہ ہو۔ اس سب کے باوجود جنت کی بیویوں کی تشریح صرف پردہ بکارت سے کرنے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مغرب زدہ انسان کی سوچ کس سطح کی ہے اور وہ قرآن کو بھی اس سطح سے آگے سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔فری مارکيٹ معاشیات نے انسانوں کے دماغ کو جس طرح سے کرپٹ کیا ہےشاید یہ اسی کی ایک جھلک ہے۔ آخر فری مارکيٹ میں عورت بھی تو سامان تجارت ہی ہے چاہے وہ طوائف ہو یا خوبصورت کپڑوں میں ملبوس اپنی مسکراہٹ بیچنے والی کوئی ريسپشنسٹ یا پھر اپنی لوچ دار آواز میں کسی مرد کے غصے سے کمپنی کو بچانے والی کسٹمر کیئر یا کال سنٹر والی خاتون۔
یہ کرپٹ دماغ جیسے ہی جنت کی حور کا لفظ سنتا ہے اس کے دماغ میں کسی حیاباختہ عورت کی فحش فلم چلنے لگتی ہے اور وہ اللہ کے اس زبردست انعام کو اس سے بہتر انداز میں سمجھ نہیں پاتا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔
یہ اور اس طرح کے جملے مغربی استعمار کے وکلاء اور ان کے حمایتی دیسی لبرلوں اور ملحدوں کی طرف سے عام طور بولے اور پھیلائے جاتے ہیں۔
گویا کہ مسلم مقبوضہ جات میں مسلمانوں کی طرف سے جو مزاحمت ہورہی ہے اس کا پورا مقدمہ یہی ہے۔ نہ عراق پر امریکہ نے حملہ كيااور نہ افغانستان پر ۔نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ امریکی حمایت اور اقوم متحدہ کی توثیق سے اسرائیل نے پوری فلسطینی قوم کو یرغمال بنايا اورنہ ہی کبھی پوری فلسطینی قوم کو نکال کر ان کى جگہ یہودیوں کو لابسایا۔ نہ ہی اسرائیل نے کسی فلسطینی کو کوئی تکلیف پہنچائی۔ اللہ کے راستے میں قتال دراصل اپنی دنیا کی زندگی کو ایک اعلیٰ مقصد کے لئے قربان کردینا ہے۔یہ ظلم کو قبول نہ کرنے کی ضد ہے۔ یہ حق کے لئے اپنی جان دینے کا جذبہ ہے۔ یہ ایک یقین ہے کہ اس دنیا کی زندگی سے زیادہ اہم حق ہے۔ لیکن بات کوگھُما کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے گویاکہ یہ پورا جھگڑا ہی بہتر حوروں کا ہے اور بس۔گویا مغربی استعمار کا مقابلہ کرنے والاایک بے شعور اور جنس زدہ قسم کا کوئی شخص ہے۔
اس طرح کی لغو باتیں کر کے اصل مسئلہ ہی کہیں دبا دیا جاتا ہے۔
چونکہ یہ موضوع ملحدوں اورمغربی استعمار کے وکلاء کی طرف سے بار بار آتا ہے اس لئے جنت کی کنواریوں پر بھی کھل کر بات كرلى جائے ۔ لیکن اس موضوع پر کچھ بھی عرض کرنے سے پہلے یہ بتادیں کہ بحث اور مناظرے میں ایک چكماديا جاتا ہے جس کا مقصد عام پر طور پرایک صحیح مؤقف کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس چكمے کو ریڈ ہیرنگ(Red Herring)کہتے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ ایک سنجیدہ اور قابل غور مسئلہ پر سے بحث کے ارتکاز کو ہٹانے کے لئے درمیان میں کچھ ایسی بات کی جاتی ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر ایک غیر متعلقہ موضوع کی طرف چلی جاتی ہے۔بحث کے دورا ن بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر عوامی ذہن فوراً متوجہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ بہتر کنواری حوروں والا نکتہ بھی ایسا ہی ہے اس لئے اصل مسئلہ کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے اسی کا بھر پور استعمال ہوتا ہے۔
مناظرے کو غلط طریقے سے جیتنے کے لئے ایک اور چال استعمال کی جاتی ہے جسے سٹرامین آرگیومنٹ(Straw man argument) کہتے ہیں۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کا مقدمہ بھی آپ خود بیان کرتے ہیں اور اس کی تردیدبھى خود کرکے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ میں نے ہرادیا۔ حالانکہ ایسا شخص فریق مخالف کے مقدمے کو نہیں بلکہ خود اپنے مقدے کو ہرا رہا ہوتا ہے۔
اگر آپ غور کریں تو اسلام کے مقابلے میں یہ دونوں چاليں ملحدین اور مغرب کے مفکرین کی طرف سے خوب استعمال ہوتی ہیں۔اسلام پر شدید ترین تنقید کرنے کے حوالے سے ایک دہریہ بہت مشہور ہے جس كا نام رچرڈ ڈاکنز ہے۔ یہ بندہ مسیحی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ مسیحیت پرزیادہ تنقید کرے۔ لیکن اس کے نشانے پر اکثر اسلام ہوتا ہے اور اس معاملے میں یہ بندہ ریڈ ہیرنگ استعمال کرنے میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔
جنت کی حور اور ملاحدہ کی ذہنی کیفیت
اب آتے ہیں قتال اور حوروں کے موضوع پر۔
قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں واضح طور پر موجود ہے کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو جنت کی نعمتیں عطا کرے گا اور ان نعمتوں میں پاکیزہ بیویاں بھی شامل ہيں۔جنت میں عطا کی جانی والے بیویوں کی یہ خصوصیات بیان کی گئی ہے۔
انہیں حور عین کہا گیا ہے۔ یعنی بڑی آنکھوں والی۔الرحمن ۷۲، الواقعۃ۲۲
جیسے حفاظت سے پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔الواقعۃ: ۲۳
جیسے یاقوت و مرجان: الرحمن ۵۸
عروب، شوہروں کی محبوبہ، دل لبھانے والی۔ سورہ واقعہ ۳۷
ہم عمر، سورہ واقعہ ۳۷
پاکیزہ بیویاں، آل عمران ۱۵، النساء ۵۷
نیچی نگاہوں والی، سورہ رحمن ۵۶
خَيْرَاتٌحِسَانٌ، اچھی اور خوبصورت، سورہ رحمن ۷۰
جنہیں کسی جن و انس نے نہ چھوا ہوگا۔ سورہ رحمن، ۵۶، ۷۴
۱نوجوان ،بھرے جسم والی ، سورہ نبأ ۳۳
اللہ نے انہیں خاص طور پر الگ سے بنایا ہوگا۔الواقعہ ۳۵
کنواریاں، الواقعہ ۳۶
احادیث میں مزید اس کی وضاحتیں آئی ہیں۔ لیکن یہاں پر جنت کی حوروں کی تمام خصوصیات بیان کرنا مقصد نہیں ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ جب جنت کی بیویوں کی بات کی جاتی ہے تو مخالفین صرف ایک لفظ سے جنت کی پاکیزہ بیویوں کا ترجمہ کرتے ہیں اور وہ لفظ ہوتاہے “ورجن”(Virgin) یعنی کنواری۔ حالانکہ جس کے اندر طبعی سلامت روی کی تھوڑی سی رمق باقی ہووہ جنت کی بیوی کی جو تشریح قرآن میں آئی ہے اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے گا۔ لیکن یہاں پر نظر “کنوارے پن” سے آگے جاتی ہی نہیں۔ اس طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمان کو صرف اور صرف عورت کی بکارت سے واسطہ ہے۔ نہ اسے اس کی حسین اور بڑی آنکھوں والی ہونے سے کوئی واسطہ ہے، نہ اس کی محبت اور پاکیزگی سے کوئی غرض۔ یہ شاید عالم اسلام سے ملحدین اور مغرب کے شائقین کی توجہ حاصل کرنی کی ایک سستی سی کوشش ہے۔ ہم نے مضمون کے ابتداء میں ریڈ ہیرنگ پر جو بات کی تھی اس بات کو یہاں پیش نظر رکھیں۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایک بھرپور عورت کا باکرہ ہونا ناقابل یقین حد تک انوکھی چیز ہے۔قانونی طور پر رضامندی کی عمر(age of consent) طے ہونے کے باوجود ان کے یہاں بچی کم عمری میں ہی اپنے کسی دوست یا بالغ رشتہ دار کے ساتھ بکارت کھوچکی ہوتی ہے۔ یا ان کے نزدیک عورت کا باکرہ ہونا ہی قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن جس کنواری حور کی بات کر رہا ہے وہ اپنے شوہر کی انتہائی محبوب، ہم عمر یعنی اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھنے والی، نگاہیں نیچی رکھنے والی، یعنی اس کی نگاہیں اور دل صرف اپنے مرد کی طرف ہی متوجہ ہوں گے۔ پھر پاکیزہ اور ایسی پاکیزہ کہ اسے اس کے شوہر سے پہلے کسی جن و انس نے چھوا تک نہ ہو۔ اس سب کے باوجود جنت کی بیویوں کی تشریح صرف پردہ بکارت سے کرنے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مغرب زدہ انسان کی سوچ کس سطح کی ہے اور وہ قرآن کو بھی اس سطح سے آگے سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔فری مارکيٹ معاشیات نے انسانوں کے دماغ کو جس طرح سے کرپٹ کیا ہےشاید یہ اسی کی ایک جھلک ہے۔ آخر فری مارکيٹ میں عورت بھی تو سامان تجارت ہی ہے چاہے وہ طوائف ہو یا خوبصورت کپڑوں میں ملبوس اپنی مسکراہٹ بیچنے والی کوئی ريسپشنسٹ یا پھر اپنی لوچ دار آواز میں کسی مرد کے غصے سے کمپنی کو بچانے والی کسٹمر کیئر یا کال سنٹر والی خاتون۔
یہ کرپٹ دماغ جیسے ہی جنت کی حور کا لفظ سنتا ہے اس کے دماغ میں کسی حیاباختہ عورت کی فحش فلم چلنے لگتی ہے اور وہ اللہ کے اس زبردست انعام کو اس سے بہتر انداز میں سمجھ نہیں پاتا یا سمجھنا نہیں چاہتا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔