کیا ایک مجاہد حوروں کے لئے اپنے آپ کو اڑا دیتا ہے؟
لبرل و ملحدین کا اعتراض اور اسکا جواب
اب آخر میں اس پر بھی بات ہو کہ آیا ایک خود کش بمبار سچ مچ بہتر حوروں کے لالچ میں اپنے آپ کو اُڑا دیتا ہے؟
اول تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ بہتر حوروں والی خوش خبری اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے کے لئے ہے۔ جو کہ نصرت دین یا اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی جان دے دے۔ اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہوا ہے کہ قتال میں فدائی حملہ جائز ہے یا نہیں۔ اگر ہم اس کو جائز قرار دیں تو بھی یہ جائز جہاد میں ہی ہونا چاہئے جس میں نشانہ اسلامی شریعت کے اعتبار سے قتال کے لئے ایک جائز ٹارگٹ۔ یہ بحث کہ کہاں کہاں قتال جائز اور کہاں نہیں اس مضمون کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایک سادہ سی بات سمجھنی چاہئے کہ کسی کافر کو صرف کافر ہونے کی بنیاد پر قتل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کبھی اسلامی علمی تاریخ میں اسے جائز سمجھا گیا۔
دوم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ مجاہد ایک اعلیٰ مقصد کے لئے اپنی دنیوی زندگی قربان کردیتا ہے۔ وہ اعلیٰ مقصد، اللہ کی رضا، یہ امید کہ اس کی قربانی سے کمزوروں پر ظلم کم ہو گا،آنے والی نسلوں کو عدل والا ماحول ملے گا، اللہ کا قانون نافذ ہوجائے گا، اللہ اس کے تمام گناہ معاف کرے گا، اللہ اس سے راضی ہوگا وغیرہ۔ تو یہ جہاد والی قربانی پورے شعور کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس میں مجاہد دنیا میں موجود راحتوں کو قربان کر کے غیب پر ایمان کی بنیاد پر آخرت کی راحت کا طالب ہوتا ہے۔ اللہ جس سے راضی ہوتا ہے اس پر اپنا انعام کرتا ہے جس میں اس کی پروانہ رضامندی اور دیدار کے ساتھ جنت بھی شامل ہے۔ اسی جنت کی نعمتوں کا ایک حصہ پاکیزہ بیویاں بھی ہیں اور ایک شہید کے لیے بہتر بیویاں ہوں گی۔اسلام میں للہٰیت، اللہ کی رضا اور جنت کے حصول میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم کسی عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لئے کریں اور اللہ کے انعامات سے بے نیاز ہوجائیں۔ انسان ایک منطقی مخلوق ہے اور کسی بھی قربانی کی صورت میں یہ سوال اس کے ذہن میں ضرور اُٹھتا ہے کہ مجھے اس سے کیا ملے گا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوں جو بغیر کسی بھی دنیوی و اخروی فائدے کے قربانی دینے پر آمادہ ہوجائیں۔ ایسے بندے دنیا میں بہت ہی قلیل تعداد میں ہونگے اوراسلام صرف اس قلیل تعداد کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔ اس لئے اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ اللہ کا انعام بھی ملتا ہے۔ اور اللہ کے انعامات سے بے نیازی برتنا اللہ کی رضا کے منافی ہے۔ یہ سوال کہ مجھے کیا ملے گا ایک عین منطقی اور فطری سوال ہے اور اسلام اس سوال کو غیر فطری اخلاقیات کی بنیاد پر خود غرضی قرار نہیں دیتا۔ بلکہ یہ اسلام کا کمال ہے کہ انسان کے اندر فطری طور پرپائے جانے والے حرص کے جذبے کو ایک اعلیٰ مقصد کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔اسلام کا یہی کمال ہے جس کی وجہ سے مغربی استعمار سینکڑوں گنُا مادی قوت اور آتش و آہن برسانے کی صلاحیت کے باوجود اپنا خون چاٹنے پر مجبور ہوتا رہا ہے۔
الغرض معرکہ حق و باطل کے اس پورے مقدمے کو صرف ایک جملے میں اس طرح سے دہرانا کہ “یہ لوگ خودکش حملے اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر کافروں کو بم سے اڑا دیں انہیں جنت میں ۷۲ کنواریاں ملیں گی” جھوٹ اور مریضانہ ذہن کی نشاندہی کرتا ہے اور بس۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔