ملحد ایاز نظامی کا قرآن پر ایک اور اعتراض اور اس کا جواب
(تحریر ڈاکٹر احید حسن)
***********************************************
ایک عالم دین کے حوالے سے ایاز نظامی کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔ملحدین کی عادت ہے کہ قرآن پاک و احادیث کی غلط اور اپنی من پسند تشریح بیان کر کے اور مسلمانوں اور علماء کے ذاتی افعال و اقوال کو پوری شریعت کے طور پر لے کر عوام کو دین سے ورغلانے اور ملحد بنانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے کچھ دن پہلے ایاز نظامی نے ایک اور پوسٹ کی ہے جس کے مطابق ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔ان کی یہ بات ایک حوالے سے سچ ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت ان ظالموں،فسادیوں اور کافروں کے لیے نہیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں،قتل و غارت کرتے ہیں، اور اللٰہ تعالٰی کے حکم میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن جو کفار اہل امن،اہل صلح اور معاہدے والے ہوں ان کے لئے قرآن پاک میں امن کی ایک نہیں کئ آیات موجود ہیں۔اب میں امن کے حوالے سے قرآن پاک و احادیث کے موقف کی مکمل حوالہ جات کے ساتھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
: نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی ،مطلق العنانی اور اقتدار پسندی کے جوے تلے کراہ رہی یہ خلق خدا ایک ایسی فضا میں سانس لینے پر مجبور تھی جس پر جنگل قانون کی حکمرانی تھی ، گویا معاشرہ میں ظلم کا ایک نظام تھا جس کو رائج کر کے رکھا گیا تھا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں میں امن وسلامتی کے قیام کے لئے جو اقدامات فرمائے اور اس سلسلہ میں جو کوششیں فرمائیں ، ’’میثاق مدینہ ‘ ‘ نامے دستوری بل اس کا منھ بولتا ثبوت ہے ، جسے آپ ؐ نے سن ۱ھ موافق 523ء میں مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے کے فورا بعد پا س کیا تھا، جس میں کل 52؍ دفعات تھے ،جن میں سے پچیس دفعات مسلمانوں کے امور سے خاص تھے ،جبکہ دیگر ستائیس دفعات کا تعلق مسلمانوں اور دیگر ادیان ومذاہب کے پرستاروں بالخصوص یہود اور بت پرستوں کے مابین باہمی تعلقات سے تھا۔
یہ دستو رجہاں ایک طر ف قبائلی لعنت سے امت اسلامی کی براء ت کا اعلان کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس دستور میں مختلف قومو ں کے درمیا ن معاشرتی ہم آہنگی ،عہد وپیمان کے توڑنے والوں کو روکنے ، حفاظت مسلم کا احترام ، مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے غیر مسلم اقلیتوں اور ذمیوں کی حمایت وپاسدار ی ، انکو فطری آزادی کی فراہمی اور انہیں ان ہی کی منشاء کے مطابق اپنے مذہبی فرائض ودینی شعائر کو انجام دینے کی ایسی کھلی اجازت کہ اسلامی حکومت کے زیر سایہ کسی فرقہ پر کوئی مضائقہ و تنگی کا امکان بھی باقی نہ رہے ،معاشرتی امن و سلامتی اور دیتوں کی پوری پوری ضمانت و گارنٹی ،ہر طرح کی عدالتی کارروائیوں کے لئے شرعی عدالت سے ہی رجوع کرنے کی صراحت بھی تھی ۔ اس قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ہ عقیدہ و اظہار رائے کی آزاد ی ہر قوم و فرقہ کو حاصل ہو گی جبکہ حکومت کی مدافعت کیلئے مالی تعاون کرنا سب کی ذمہ داری ہوگی اور جہاں تک مالی استحکا م کی بات ہے تو اس کا حق و اختیار تمام انسانی جماعتوں کو بلا تفریق مذہب وملت دیاجائے گا۔
اسلام امن کا مذہب ہے اور بیگناہ قتل و غارت کو روکتا ہے۔حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لہو ولعب کی غرض سے جانوروں کے قتل کو بھی حرا م قراردیا ،حضرت شرید بن سوید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چڑیا کا بے فائدہ قتل کیا ،روز قیامت وہ چڑیا خداکی بارگاہ میں بلند آواز سے (شکایتاً)کہے گی اے اللہ مجھے فلاں شخص نے بے فائدہ قتل کیا تھا نہ کہ کسی مقصد ومنفعت کے لئے ،(نسائی؍حدیث: 4446) جیسا کہ حضرت محمد ؐ نے طبعی ماحول کے لوازمات کے تحفظ کی تاکید فرمائی،کیونکہ انہیں لوازمات کے باعث خدا کی اٹھا رہ ہزار مخلوقات کا آپس میں تواز ن قائم ہے۔
انسان جانور کیا،اسلام نے تو بیوجہ درختوں کے کاٹنے کی بھی ممانعت کی۔یہ حدیث پڑھیں
حضرت عبد اللہ حبشیؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ؐنے فرمایا :جس نے بیری کا کوئی درخت کاٹا اللہ اس کا سر (جس طرح اس نے درخت کاٹ کر زمین میں جھکا دیا تھا اسی طرح ) جہنم میں جھکا دیں گے۔ (ابوداؤد؍حدیث نمبر: 5239)۔
سنن ابو داؤد میں امام ابن داؤد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر ہے اس کی تقدیری عبارت یوں ہوگی’’ من قطع سدرۃً فی فلاۃٍ یستظل بہا ابن السبیل ،والبہائم عبثاً، وظلماً بغیر حقٍ یکون لہ فیہا،صوب اللہ رأسہ فی النار‘‘ یعنی جس کسی نے چٹیل میدان میں لگے بیڑی کا ایسا درخت جس کے سایہ میں مسافر یا چوپائے آرام کرتے ہوں ظلماً،یا بے فائدہ یابغیر کسی حق جو اس کا اس سے وابستہ ہو تو ایسے شخص کے سرکو اللہ تعالیٰ جہنم میں پست کردے گا ۔(سنن ابو داؤد؍ج؍4؍ص361)۔
نظامی کا اعتراض ہے کہ قرآن امن کا درس نہیں دیتا۔یہ آیات پڑھیں
ظلم وزیادتی کو اسلام نے بہر صورت و بہر شکل حرام قراردیا ہے ،اللہ عز وجل کا ارشاد ہے : اور حدسے تجاوز مت کرو اللہ قانون شرعی سے تجاوز کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (سورہ بقرہ: آیت :190) اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران : آیت :57)۔
قرآن براہ راست ظلم و ستم سے روک رہا ہے۔
اسلام پر اعتراضات کرنے والے پہلے اسلام کا مطالعہ تو کر لیں۔اندھے ہوکر تعصب میں اعتراضات نہ کریں۔یہ پڑھیں
اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران : آیت :57) حضرت ابوذر غفاریؓ سے ایک حدیث قدسی مروی ہے جس میں فخر رسالت ؐ اللہ تعالیٰ سے نقل فرماتے ہیںَ : میرے بندوں میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرا م رکھا ہے ،لہٰذا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو(مسلم شریف؍حدیث نمبر2577)۔
اب اس حدیث کی تشریح پڑھیں کہ اسلام مسلم اور کافر دونوں سے ظلم کرنے سے روک رہا ہے۔یہ پڑھیں
علامہ ابن تیمیہ ؒ حدیث کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ ہر طرح کی بھلائی عدل وانصاف کے دائرہ میں آتی ہے جبکہ شر کی ہر قسم ظلم ہی ظلم کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر چیز میں اور ہر فرد کے ساتھ عدل وانصاف فرض اور ظلم ہر چیز میں اور ہر فر د کے ساتھ حرام ہے ۔لہٰذا کسی شخص کا کسی کے ساتھ ظلم کرنا سرے سے جائز ہی نہیں خواہ وہ مظلو م مسلمان ہویا کافر یا ظالم (ابن تیمیہ ؍مجموع الفتاویٰ؍166/18؍ مطبوعہ ملک فہد اکیڈمی سعودی؍1416ھ)نیز حدیث کے الفاظ’’ یا عبادی انی حرمت الظلم علیٰ نفسی و جعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا‘‘ کی بابت علامہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ خطاب صرف مسلمانوں سے نہی ں بلکہ خدا کے تمام بندوں سے ہے تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے (بحوالہ سابق)۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
ارشاد خدواندی ہے : اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس نے پھیلایا ہو قتل کرڈالے ،تو گویا اس شخص نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس شخص نے کسی شخص کو بچا لیا تو گو یا اس نے تمام آدمیوں کو بچالیا (سورہ مائدہ: آیت: 32)۔
قرآن ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دے رہا ہے۔
انسانیت سے حسن سلوک اور امن کا درس کون دے رہا ہے۔یہ پڑھیں۔یہ قرآن کی آیات پڑھیں
اللہ پاک کا ارشاد ہے : ہم نے توریت میں بنی اسرائیل سے قول و قرار لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت مت کرنا،اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت گزاری کرنا،اسی طرح اہل قرابت یعنی رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا،اور عوام الناس سے خوش خلقی سے پیش آنا یا ان سے اچھی طرح بات کرنا(سورہ بقرہ:آیت 83)اور فرما یا : اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو ،اور اہل قرابت ،یتیموں،محتاجوں کے ساتھ بھی ،پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ،ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر یعنی مسافر کے ساتھ بھی ،اور انکے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں یعنی غلاموں اور باندیوں کے ساتھ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں اور اپنی شیخی بگھاڑ تے ہوں(سورۃ النساء ؍آیت:36)۔
اب کون کہ سکتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت موجود نہیں۔
یہ پڑھیں کہ قرآن امن کا درس دے رہا ہے
اور جن کا خون کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو،یہ خداکا تمہارے لئے تاکیدی حکم ہے تاکہ تم سمجھ سکو یعنی حقیقت حال سے واقف ہو سکو(سورہ انعام :آیت : 152)۔
قرآن نے سوا قتل کے قصاص کے سوا حملہ آور کافر کے سب کا قتل روک دیا۔قرآن کی آیات واضح بتا رہی ہیں۔اب کون کہ سکتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔
یہ آیت پڑھیں۔قرآن تو صلح کرنے والے کافروں سے بھی امن کا درس دے رہا ہے
حتیٰ کہ صلح پسند غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے دین حق کے سلسلہ میں نہ جنگ کریں اور نہ تمہیں گھروں سے نکالیں ،اچھا سلوک کرنے اور ان کے ساتھ عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاب کرنے والوں کو پسند فرماتاہے (سور ہ ممتحنہ ؍8)۔
قرآن نے امن کی وضاحت کردی کہ جو کافر جنگ نہ کرے،مسلمانوں کو گھروں سے نہ نکالے ان سے امن اور اچھا سلوک ہوگا۔
اور جو مسلمانوں پر ظلم کرے تو ان کے بارے میں فرمایا
ان سے لڑو یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ۔
ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے
وان جنحوا للسلم فاجنح لہا
اگر یہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ۔
اب قرآن صلح کرنے والے کافروں سے صلح کی ترغیب دے رہا ہے۔کون کہتا ہے کہ قرآن امن کا درس نہیں دیتا۔
قرآن تو دشمن سے بھی عدل و انصاف کی ترغیب دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ دشمنی میں بھی کسی سے ظلم نہ کرو۔یہ پڑھیں
ایسے لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات وبراری کو ضروری قراردیا ہے ،اللہ کا فرمان ہے : اے ایمان والوں اللہ کے لئے پوری پابندی کرنے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،اور کسی خاص گروہ سے عداوت تم کو اس بات پر نہ اکسائے کہ تم اس کے ساتھ عدل نہ کرو،عدل کیا کرو کیونکہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (سورہ مائدہ؍آیت نمبر: 8)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے مقابلے میں امن کو کرنا پسند کرتے تھے یہ پڑھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کے ایک معائدے کے بارے میں کیا فرمایا
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : میں عبد اللہ بن جدعان کی رہائش گاہ پر ایک ایسے معاہد ہ (حلف الفضول) میں شریک تھا جس کے بدلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور جس کے لئے اس دور اسلام میں بھی اگر مجھے آواز دی گئی تو میں ضرور لبیک کہوں گا (بیہقی ؍سنن کبریٰ؍حدیث نمبر:13080؍معرفۃ السنن والآثار؍حدیث نمبر:13232)۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ نہیں کی ان کے ساتھ عدل اور انصاف کی تلقین کے لئے دیکھئے سورۃ الممتحنۃ:59 , آیت:8
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
اب واضح کہا جارہا ہے کہ جو جنگ نہیں کرے گا صلح کرے گا نہ گھر سے نکالے گا تو اس سے جنگ نہ کرو۔
اسلام میں کوئ مولوی نمونہ نہیں۔مجھے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کردیں کہ کوئ مولوی نمونہ ہے۔قرآن تو کہتا ہے
کہ تمہارے لئے اللہ تعالی کے رسول بہترین نمونہ ہیں۔
اور کسی کو نمونہ کہا گیا ہے تو ثابت کردیں۔
کیا آپ اسلام سے یہ ثابت کر کے دے سکتے ہیں کہ پیغمبر کے سوا کوئ بھی غلطی سے محظوظ نہیں؟پھر قرآن و احادیث کو چھوڑ کر ایک مولوی کی بات کی بنیاد پر قرآن پر اعتراض کیوں؟
کیا میں نے جو آیات پیش کی ہیں وہ براہ راست امن کی تلقین نہیں کر رہی۔
کیا ہر کسی کا ذاتی فعل شریعت کہلائے گا؟سبحان اللٰہ۔یہ اسلام ہے الحاد نہیں۔
قرآن نے واضح طور پر کہ دیا کہ جو اللٰہ تعالٰی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے صحابہ کا فعل ہے وہ حجت ہے۔
آپ یہ چاہتے ہیں کہ کافر جو ظلم پوری دنیا میں کر رہے ہیں کرتے رہیں مسلمان امن کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔کافر آئیں۔لاکھوں مار کے چلے جائیں۔مسلمان دو آیات پڑھ کر پھونک مار کر سکوں کریں؟
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
اور کڑوا کڑوا تھو..وہ حساب نہ کیجیے
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا
بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ
وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا
الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
﴿التوبة ٢٩﴾
ان لوگوں کو قتل کرو جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان
نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا
ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں یہاں تک
کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اس سے امن کی تلقین ہے جو امن و صلح پر آئے اس سے نہیں جو ظلم کرے
یہ جو آیات آپ بیان کر رہے ہیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو اسلام سے جنگ کے قصور وار تھے اس کا سیاق وسباق پڑھا اپ نے؟
یہ آیات مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئ جو نہ صرف اسلام کی واضح تعلیمات کے منکر تھے بلکہ کئ بار اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے مرتکب ہوئے۔
ایاز نظامی کیا چاہتے ہیں کہ مسلمان فیڈر لے کر دودھ پیتے رہیں؟اور کافر ان کی نسلیں مٹاتے رہیں؟
نظامی صاحب مسلمان اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ اپنی جانیں مٹانے قتل و غارت کرنے والے کو دو امن کی آیات سنا کر درود کی ایک تسبیح پڑھ کر سو جائیں۔
میں نے قرآن سے ثابت کر دیا کہ قرآن پاک میں امن کی بہت سی آیات موجود ہیں۔
لیکن ملحدین کو عادت ہے کہ اپنی مرضی کا مطلب تلاش کرتے ہیں قرآن پاک و حدیث سے۔
دیکھئے سورۃ البقرۃ:1 , آیت:27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
جو عہد توڑے فساد کرے اس سے جنگ کا کہا گیا۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
جو اللہ کے رسول سے پھر جاتا ہے، وہ فساد کرتا ہے۔ دیکھئے سورۃ البقرۃ:1 , آیت:205
اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔
اب جو فساد کرے قتل و غارت کرے اس سے جنگ کا کہا گیا۔پہلے فساد سے روکا گیا۔جو نہ کرے تو پھر کہا گیا
فساد کرنے والوں کے لئے اللہ حکم دیتا ہے کہ انکو ختم کردیا جائے۔ یقینا"یہ عمل "صاحب اختیار"لوگوں کے حکم سے ہونا چاہیے۔ دیکھئے سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:33
بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔
آپ کیا چاہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے آکر مسلمانوں کے گلے کاٹے اور قرآن ان کو صبر و شکر کی تلقین کرتا رہے۔
امن کے قیام پر زور اور فساد سے دور رہنے کی تاکید، کے اسکے بغیر اللہ کے برکت یعنی ترقی اور بڑھوتری و اضافہ ممکن نہیں۔ دیکھئے سورۃ الاعراف:6 , آیت:56
اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے۔
قرآن تو ہر صورت امن کی تلقین کرتا ہے جب تک دوسرا جنگ نہ کرے۔یہ پڑھیں
قرآن کریم، صرف انفرادی برابری کی تلقین نہیں کرتا بلکہ قوموں میں کنٹریکٹ کرنے میں بھی برابری کا حکم دیتا ہے، دیکھئے سورۃ الانفال:7 , آیت:58
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔
یہ پڑھیں۔سورہ نسا آیت 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں(الاماناتYour trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
قرآن نے تو یہاں تک کہا کہ ہر مذہب کے لوگوں کا فیصلہ ان کی شریعت کے مطابق کیا جائے۔کیا دنیا کا کوئ اور مذہب اتنی اجازت دیتا ہے؟
یہ پڑھیں
اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس ( موجودہ قرانی حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں
آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیے: ”وما کان لنفس ان توٴمن الا باذن اللّٰہ ․․․․ افأنت تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین“ (سورة یونس آیت نمبر۱۰۰) اور کسی نفس کے بس کی بات نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر مسلمان ہوجائے پس کیا اے ہمارے رسول اور اے مسلمانو! تم لوگوں سے نفرت کرتے رہوگے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یعنی ایمان نہ لانے کی صورت میں بھی ان سے نفرت نہ کرو۔ اور اسی سورة میں ایک دوسری آیت ۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”انما ینہاکم اللّٰہ عن الذین قاتلواکم فی الدین واخرجواکم من دیارکم وظاہروا علی اخراجکم ان تولّواہم ومن یتولہم فاولٰئک ہم الظالمون“ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے دوستی کرنے سے صرف ان لوگوں سے جنھوں نے مسلمانوں کو قتل کیا صرف دین اسلام کی اتباع کی وجہ سے اور تم کو یعنی مسلمانوں کو تمہارے گھروں سے نکال دیا اور ان لوگوں کی مدد کی جنھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور جو لوگ یعنی مسلمان اور جو لوگ دشمنان اسلام سے ان کی اسلامی دشمنی اور مسلم دشمنی کے باوجود ان سے دوستی رکھتے ہیں پس وہ خدا کے نزدیک ظالم ہیں اس لئے قرآن کریم صرف ان لوگوں سے قتل وقتال کی اجازت دیتا ہے جو یا تو مسلمانوں کے دین و ایمان کومٹانے پر تلے ہوں یا مسلمانوں کو جانی مالی نقصان پہنچاتے ہوں لیکن کسی بھی حال میں امن پسند شہریوں چاہے وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھنے والے ہوں قتل و قتال کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دنیا میں امن وآشتی کا پیغام دینا ہے کیونکہ اسلام کا پیغامبر ہی رحمة للعالمین اور شفیع المذنبیں ہے۔
قرآن کریم تو ہمیشہ صلح کو جنگ وجدل پر ترجیح دیتا ہے کسی بھی حال میں بلاکسی قوی سبب کے جنگ پر اپنے متبعین کو نہیں اکساتا ہے (صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا طرز عمل) مثال کے طورپر سورة انفال میں آیت نمبر ۶۱-۶۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللّٰہ انہ ہو السمیع العلیم وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللّٰہ ہو الذی ایدک بنصرہ وبالموٴمنین“ اوراگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو، تو بھی جھک اسی طرف اور بھروسہ کر اللہ پر بے شک وہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے اوراگر وہ چاہیں کہ تجھ کو دغا دیں تو تجھ کو کافی ہے اللہ اسی نے تجھ کو دیا زور اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔ قرآن کریم کا مقصد خونریزی کرنا اور دہشت گردی پھیلانا نہیں بلکہ اس کا مقصد قوت کے استعمال سے اعلائے کلمة اللہ اور قانون فطرت کا نفاذ ہے وہ ہرحال میں دنیاکو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے چاہے اس کیلئے کچھ مقدار میں قوت ہی کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔ دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچانے کیلئے تھوڑی سی قربانی کو درست قرار دیتا ہے جس طرح سے ایک ماہر وحاذق طبیب دواء سے مریض کے ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں عمل جراحی(Operation) کے ذریعہ مریض کو تھوڑی سی پریشانی میں ڈال کر پوری زندگی کیلئے امن وامان کی راہ اس کیلئے ہموار کردیتا ہے پس یہ ہے اسلام میں قوت کے استعمال یا جہاد کا منشاء جس طرح سے ڈاکٹر یا طبیب عمل جراحی کو کوئی بھی معقول انسان مریض پر ظلم و ستم کرنا قرار نہیں دیتا اسی طرح سے قرآنی، خدائی اور نبوی طریق پر جہاد کو دہشت گردی یا انسانیت کے خلاف ظلم و ستم قرار نہیں دیا جاسکتا قرآن کریم مظلوموں اور عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھتا ہے جیساکہ سورة نساء کی آیت نمبر ۷۵ میں باری تعالیٰ کاارشاد ہے ”ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللّٰہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ہذہ القریة الظالم اہلہا واجعل لنا من لدنک ولیاً واجعل لنا من لدنک نصیراً“ ظاہر ہے ایسے معذوروں مظلوموں کی حفاظت کیلئے قوت کا استعمال اگر لازمی ہوتو اس کا استعمال کرنا پڑے گا ورنہ اپنے پاس قوت ہونے کی صورت میں بھی مظلومین کی مدد نہ کرنا اپنے فرض سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا جس کی پاداش میں ایسے شخص کیلئے عذاب الٰہی حرکت میں آسکتا ہے اور وہ مظلومین کی کسی اور ذریعہ سے مدد کراسکتا ہے۔
درج بالا تفصیل کی موجودگی میں یہ بات صاف۔ واضح ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیات ان لوگوں کے بارے میں نہیں جو فساد کریں لیکن جو مائل بہ امن ہوں ان کے لیے ایک نہیں بلکہ کئ آیات ہیں۔ملحدین قرآن پاک پر اپنی بد نیتی پر مبنی تشریح بیان کر کے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے۔
ہذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/قران-کیا-کہتا-ہےِ؟.7570/
www.fikrokhabar.com
http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1441881365 04-Alami Dahshat Gardi_MDU_04_April_2006.htm
(تحریر ڈاکٹر احید حسن)
***********************************************
ایک عالم دین کے حوالے سے ایاز نظامی کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔ملحدین کی عادت ہے کہ قرآن پاک و احادیث کی غلط اور اپنی من پسند تشریح بیان کر کے اور مسلمانوں اور علماء کے ذاتی افعال و اقوال کو پوری شریعت کے طور پر لے کر عوام کو دین سے ورغلانے اور ملحد بنانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے کچھ دن پہلے ایاز نظامی نے ایک اور پوسٹ کی ہے جس کے مطابق ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔ان کی یہ بات ایک حوالے سے سچ ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت ان ظالموں،فسادیوں اور کافروں کے لیے نہیں جو زمین میں فساد کرتے ہیں،قتل و غارت کرتے ہیں، اور اللٰہ تعالٰی کے حکم میں رکاوٹ بنتے ہیں لیکن جو کفار اہل امن،اہل صلح اور معاہدے والے ہوں ان کے لئے قرآن پاک میں امن کی ایک نہیں کئ آیات موجود ہیں۔اب میں امن کے حوالے سے قرآن پاک و احادیث کے موقف کی مکمل حوالہ جات کے ساتھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
: نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انسانیت ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی ،مطلق العنانی اور اقتدار پسندی کے جوے تلے کراہ رہی یہ خلق خدا ایک ایسی فضا میں سانس لینے پر مجبور تھی جس پر جنگل قانون کی حکمرانی تھی ، گویا معاشرہ میں ظلم کا ایک نظام تھا جس کو رائج کر کے رکھا گیا تھا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں میں امن وسلامتی کے قیام کے لئے جو اقدامات فرمائے اور اس سلسلہ میں جو کوششیں فرمائیں ، ’’میثاق مدینہ ‘ ‘ نامے دستوری بل اس کا منھ بولتا ثبوت ہے ، جسے آپ ؐ نے سن ۱ھ موافق 523ء میں مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے کے فورا بعد پا س کیا تھا، جس میں کل 52؍ دفعات تھے ،جن میں سے پچیس دفعات مسلمانوں کے امور سے خاص تھے ،جبکہ دیگر ستائیس دفعات کا تعلق مسلمانوں اور دیگر ادیان ومذاہب کے پرستاروں بالخصوص یہود اور بت پرستوں کے مابین باہمی تعلقات سے تھا۔
یہ دستو رجہاں ایک طر ف قبائلی لعنت سے امت اسلامی کی براء ت کا اعلان کرتا ہے وہیں دوسری طرف اس دستور میں مختلف قومو ں کے درمیا ن معاشرتی ہم آہنگی ،عہد وپیمان کے توڑنے والوں کو روکنے ، حفاظت مسلم کا احترام ، مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے غیر مسلم اقلیتوں اور ذمیوں کی حمایت وپاسدار ی ، انکو فطری آزادی کی فراہمی اور انہیں ان ہی کی منشاء کے مطابق اپنے مذہبی فرائض ودینی شعائر کو انجام دینے کی ایسی کھلی اجازت کہ اسلامی حکومت کے زیر سایہ کسی فرقہ پر کوئی مضائقہ و تنگی کا امکان بھی باقی نہ رہے ،معاشرتی امن و سلامتی اور دیتوں کی پوری پوری ضمانت و گارنٹی ،ہر طرح کی عدالتی کارروائیوں کے لئے شرعی عدالت سے ہی رجوع کرنے کی صراحت بھی تھی ۔ اس قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ہ عقیدہ و اظہار رائے کی آزاد ی ہر قوم و فرقہ کو حاصل ہو گی جبکہ حکومت کی مدافعت کیلئے مالی تعاون کرنا سب کی ذمہ داری ہوگی اور جہاں تک مالی استحکا م کی بات ہے تو اس کا حق و اختیار تمام انسانی جماعتوں کو بلا تفریق مذہب وملت دیاجائے گا۔
اسلام امن کا مذہب ہے اور بیگناہ قتل و غارت کو روکتا ہے۔حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لہو ولعب کی غرض سے جانوروں کے قتل کو بھی حرا م قراردیا ،حضرت شرید بن سوید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی چڑیا کا بے فائدہ قتل کیا ،روز قیامت وہ چڑیا خداکی بارگاہ میں بلند آواز سے (شکایتاً)کہے گی اے اللہ مجھے فلاں شخص نے بے فائدہ قتل کیا تھا نہ کہ کسی مقصد ومنفعت کے لئے ،(نسائی؍حدیث: 4446) جیسا کہ حضرت محمد ؐ نے طبعی ماحول کے لوازمات کے تحفظ کی تاکید فرمائی،کیونکہ انہیں لوازمات کے باعث خدا کی اٹھا رہ ہزار مخلوقات کا آپس میں تواز ن قائم ہے۔
انسان جانور کیا،اسلام نے تو بیوجہ درختوں کے کاٹنے کی بھی ممانعت کی۔یہ حدیث پڑھیں
حضرت عبد اللہ حبشیؓ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ؐنے فرمایا :جس نے بیری کا کوئی درخت کاٹا اللہ اس کا سر (جس طرح اس نے درخت کاٹ کر زمین میں جھکا دیا تھا اسی طرح ) جہنم میں جھکا دیں گے۔ (ابوداؤد؍حدیث نمبر: 5239)۔
سنن ابو داؤد میں امام ابن داؤد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مختصر ہے اس کی تقدیری عبارت یوں ہوگی’’ من قطع سدرۃً فی فلاۃٍ یستظل بہا ابن السبیل ،والبہائم عبثاً، وظلماً بغیر حقٍ یکون لہ فیہا،صوب اللہ رأسہ فی النار‘‘ یعنی جس کسی نے چٹیل میدان میں لگے بیڑی کا ایسا درخت جس کے سایہ میں مسافر یا چوپائے آرام کرتے ہوں ظلماً،یا بے فائدہ یابغیر کسی حق جو اس کا اس سے وابستہ ہو تو ایسے شخص کے سرکو اللہ تعالیٰ جہنم میں پست کردے گا ۔(سنن ابو داؤد؍ج؍4؍ص361)۔
نظامی کا اعتراض ہے کہ قرآن امن کا درس نہیں دیتا۔یہ آیات پڑھیں
ظلم وزیادتی کو اسلام نے بہر صورت و بہر شکل حرام قراردیا ہے ،اللہ عز وجل کا ارشاد ہے : اور حدسے تجاوز مت کرو اللہ قانون شرعی سے تجاوز کرنے والے کو پسند نہیں کرتا (سورہ بقرہ: آیت :190) اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران : آیت :57)۔
قرآن براہ راست ظلم و ستم سے روک رہا ہے۔
اسلام پر اعتراضات کرنے والے پہلے اسلام کا مطالعہ تو کر لیں۔اندھے ہوکر تعصب میں اعتراضات نہ کریں۔یہ پڑھیں
اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران : آیت :57) حضرت ابوذر غفاریؓ سے ایک حدیث قدسی مروی ہے جس میں فخر رسالت ؐ اللہ تعالیٰ سے نقل فرماتے ہیںَ : میرے بندوں میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرا م رکھا ہے ،لہٰذا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو(مسلم شریف؍حدیث نمبر2577)۔
اب اس حدیث کی تشریح پڑھیں کہ اسلام مسلم اور کافر دونوں سے ظلم کرنے سے روک رہا ہے۔یہ پڑھیں
علامہ ابن تیمیہ ؒ حدیث کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہو ئے فرماتے ہیں کہ ہر طرح کی بھلائی عدل وانصاف کے دائرہ میں آتی ہے جبکہ شر کی ہر قسم ظلم ہی ظلم کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہر چیز میں اور ہر فرد کے ساتھ عدل وانصاف فرض اور ظلم ہر چیز میں اور ہر فر د کے ساتھ حرام ہے ۔لہٰذا کسی شخص کا کسی کے ساتھ ظلم کرنا سرے سے جائز ہی نہیں خواہ وہ مظلو م مسلمان ہویا کافر یا ظالم (ابن تیمیہ ؍مجموع الفتاویٰ؍166/18؍ مطبوعہ ملک فہد اکیڈمی سعودی؍1416ھ)نیز حدیث کے الفاظ’’ یا عبادی انی حرمت الظلم علیٰ نفسی و جعلتہ بینکم محرما فلا تظالموا‘‘ کی بابت علامہ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ خطاب صرف مسلمانوں سے نہی ں بلکہ خدا کے تمام بندوں سے ہے تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرسکے (بحوالہ سابق)۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
ارشاد خدواندی ہے : اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس نے پھیلایا ہو قتل کرڈالے ،تو گویا اس شخص نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جس شخص نے کسی شخص کو بچا لیا تو گو یا اس نے تمام آدمیوں کو بچالیا (سورہ مائدہ: آیت: 32)۔
قرآن ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دے رہا ہے۔
انسانیت سے حسن سلوک اور امن کا درس کون دے رہا ہے۔یہ پڑھیں۔یہ قرآن کی آیات پڑھیں
اللہ پاک کا ارشاد ہے : ہم نے توریت میں بنی اسرائیل سے قول و قرار لیا کہ سوائے اللہ کے کسی کی عبادت مت کرنا،اورماں باپ کی اچھی طرح خدمت گزاری کرنا،اسی طرح اہل قرابت یعنی رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا،اور عوام الناس سے خوش خلقی سے پیش آنا یا ان سے اچھی طرح بات کرنا(سورہ بقرہ:آیت 83)اور فرما یا : اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ،والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو ،اور اہل قرابت ،یتیموں،محتاجوں کے ساتھ بھی ،پاس والے پڑوسی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی ،ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر یعنی مسافر کے ساتھ بھی ،اور انکے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ میں ہیں یعنی غلاموں اور باندیوں کے ساتھ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنے کو بڑا سمجھتے ہوں اور اپنی شیخی بگھاڑ تے ہوں(سورۃ النساء ؍آیت:36)۔
اب کون کہ سکتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت موجود نہیں۔
یہ پڑھیں کہ قرآن امن کا درس دے رہا ہے
اور جن کا خون کرنا اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل مت کرو،یہ خداکا تمہارے لئے تاکیدی حکم ہے تاکہ تم سمجھ سکو یعنی حقیقت حال سے واقف ہو سکو(سورہ انعام :آیت : 152)۔
قرآن نے سوا قتل کے قصاص کے سوا حملہ آور کافر کے سب کا قتل روک دیا۔قرآن کی آیات واضح بتا رہی ہیں۔اب کون کہ سکتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔
یہ آیت پڑھیں۔قرآن تو صلح کرنے والے کافروں سے بھی امن کا درس دے رہا ہے
حتیٰ کہ صلح پسند غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کے ساتھ جو تم سے دین حق کے سلسلہ میں نہ جنگ کریں اور نہ تمہیں گھروں سے نکالیں ،اچھا سلوک کرنے اور ان کے ساتھ عدل وانصاف کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ انصاب کرنے والوں کو پسند فرماتاہے (سور ہ ممتحنہ ؍8)۔
قرآن نے امن کی وضاحت کردی کہ جو کافر جنگ نہ کرے،مسلمانوں کو گھروں سے نہ نکالے ان سے امن اور اچھا سلوک ہوگا۔
اور جو مسلمانوں پر ظلم کرے تو ان کے بارے میں فرمایا
ان سے لڑو یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ۔
ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے
وان جنحوا للسلم فاجنح لہا
اگر یہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ۔
اب قرآن صلح کرنے والے کافروں سے صلح کی ترغیب دے رہا ہے۔کون کہتا ہے کہ قرآن امن کا درس نہیں دیتا۔
قرآن تو دشمن سے بھی عدل و انصاف کی ترغیب دے رہا ہے اور کہتا ہے کہ دشمنی میں بھی کسی سے ظلم نہ کرو۔یہ پڑھیں
ایسے لوگوں کے ساتھ عدل وانصاف اور مساوات وبراری کو ضروری قراردیا ہے ،اللہ کا فرمان ہے : اے ایمان والوں اللہ کے لئے پوری پابندی کرنے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،اور کسی خاص گروہ سے عداوت تم کو اس بات پر نہ اکسائے کہ تم اس کے ساتھ عدل نہ کرو،عدل کیا کرو کیونکہ یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (سورہ مائدہ؍آیت نمبر: 8)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے مقابلے میں امن کو کرنا پسند کرتے تھے یہ پڑھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امن کے ایک معائدے کے بارے میں کیا فرمایا
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : میں عبد اللہ بن جدعان کی رہائش گاہ پر ایک ایسے معاہد ہ (حلف الفضول) میں شریک تھا جس کے بدلہ میں مجھے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور جس کے لئے اس دور اسلام میں بھی اگر مجھے آواز دی گئی تو میں ضرور لبیک کہوں گا (بیہقی ؍سنن کبریٰ؍حدیث نمبر:13080؍معرفۃ السنن والآثار؍حدیث نمبر:13232)۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
جنہوں نے مسلمانوں سے جنگ نہیں کی ان کے ساتھ عدل اور انصاف کی تلقین کے لئے دیکھئے سورۃ الممتحنۃ:59 , آیت:8
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
اب واضح کہا جارہا ہے کہ جو جنگ نہیں کرے گا صلح کرے گا نہ گھر سے نکالے گا تو اس سے جنگ نہ کرو۔
اسلام میں کوئ مولوی نمونہ نہیں۔مجھے قرآن و حدیث سے یہ ثابت کردیں کہ کوئ مولوی نمونہ ہے۔قرآن تو کہتا ہے
کہ تمہارے لئے اللہ تعالی کے رسول بہترین نمونہ ہیں۔
اور کسی کو نمونہ کہا گیا ہے تو ثابت کردیں۔
کیا آپ اسلام سے یہ ثابت کر کے دے سکتے ہیں کہ پیغمبر کے سوا کوئ بھی غلطی سے محظوظ نہیں؟پھر قرآن و احادیث کو چھوڑ کر ایک مولوی کی بات کی بنیاد پر قرآن پر اعتراض کیوں؟
کیا میں نے جو آیات پیش کی ہیں وہ براہ راست امن کی تلقین نہیں کر رہی۔
کیا ہر کسی کا ذاتی فعل شریعت کہلائے گا؟سبحان اللٰہ۔یہ اسلام ہے الحاد نہیں۔
قرآن نے واضح طور پر کہ دیا کہ جو اللٰہ تعالٰی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے صحابہ کا فعل ہے وہ حجت ہے۔
آپ یہ چاہتے ہیں کہ کافر جو ظلم پوری دنیا میں کر رہے ہیں کرتے رہیں مسلمان امن کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔کافر آئیں۔لاکھوں مار کے چلے جائیں۔مسلمان دو آیات پڑھ کر پھونک مار کر سکوں کریں؟
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
اور کڑوا کڑوا تھو..وہ حساب نہ کیجیے
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا
بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ
وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا
الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
﴿التوبة ٢٩﴾
ان لوگوں کو قتل کرو جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان
نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا
ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں یہاں تک
کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔
اس سے امن کی تلقین ہے جو امن و صلح پر آئے اس سے نہیں جو ظلم کرے
یہ جو آیات آپ بیان کر رہے ہیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو اسلام سے جنگ کے قصور وار تھے اس کا سیاق وسباق پڑھا اپ نے؟
یہ آیات مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئ جو نہ صرف اسلام کی واضح تعلیمات کے منکر تھے بلکہ کئ بار اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے مرتکب ہوئے۔
ایاز نظامی کیا چاہتے ہیں کہ مسلمان فیڈر لے کر دودھ پیتے رہیں؟اور کافر ان کی نسلیں مٹاتے رہیں؟
نظامی صاحب مسلمان اتنے سادہ بھی نہیں ہیں کہ اپنی جانیں مٹانے قتل و غارت کرنے والے کو دو امن کی آیات سنا کر درود کی ایک تسبیح پڑھ کر سو جائیں۔
میں نے قرآن سے ثابت کر دیا کہ قرآن پاک میں امن کی بہت سی آیات موجود ہیں۔
لیکن ملحدین کو عادت ہے کہ اپنی مرضی کا مطلب تلاش کرتے ہیں قرآن پاک و حدیث سے۔
دیکھئے سورۃ البقرۃ:1 , آیت:27
(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
جو عہد توڑے فساد کرے اس سے جنگ کا کہا گیا۔
کون کہتا ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیت نہیں۔یہ پڑھیں
جو اللہ کے رسول سے پھر جاتا ہے، وہ فساد کرتا ہے۔ دیکھئے سورۃ البقرۃ:1 , آیت:205
اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔
اب جو فساد کرے قتل و غارت کرے اس سے جنگ کا کہا گیا۔پہلے فساد سے روکا گیا۔جو نہ کرے تو پھر کہا گیا
فساد کرنے والوں کے لئے اللہ حکم دیتا ہے کہ انکو ختم کردیا جائے۔ یقینا"یہ عمل "صاحب اختیار"لوگوں کے حکم سے ہونا چاہیے۔ دیکھئے سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:33
بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔
آپ کیا چاہتے ہیں کہ جس کا جی چاہے آکر مسلمانوں کے گلے کاٹے اور قرآن ان کو صبر و شکر کی تلقین کرتا رہے۔
امن کے قیام پر زور اور فساد سے دور رہنے کی تاکید، کے اسکے بغیر اللہ کے برکت یعنی ترقی اور بڑھوتری و اضافہ ممکن نہیں۔ دیکھئے سورۃ الاعراف:6 , آیت:56
اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے۔
قرآن تو ہر صورت امن کی تلقین کرتا ہے جب تک دوسرا جنگ نہ کرے۔یہ پڑھیں
قرآن کریم، صرف انفرادی برابری کی تلقین نہیں کرتا بلکہ قوموں میں کنٹریکٹ کرنے میں بھی برابری کا حکم دیتا ہے، دیکھئے سورۃ الانفال:7 , آیت:58
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔
یہ پڑھیں۔سورہ نسا آیت 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں(الاماناتYour trust) انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان (امانات) کے اہل ہیں، اور جب تم ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
قرآن نے تو یہاں تک کہا کہ ہر مذہب کے لوگوں کا فیصلہ ان کی شریعت کے مطابق کیا جائے۔کیا دنیا کا کوئ اور مذہب اتنی اجازت دیتا ہے؟
یہ پڑھیں
اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس ( موجودہ قرانی حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں
آیات قرآنی ملاحظہ فرمائیے: ”وما کان لنفس ان توٴمن الا باذن اللّٰہ ․․․․ افأنت تکرہ الناس حتی یکونوا موٴمنین“ (سورة یونس آیت نمبر۱۰۰) اور کسی نفس کے بس کی بات نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر مسلمان ہوجائے پس کیا اے ہمارے رسول اور اے مسلمانو! تم لوگوں سے نفرت کرتے رہوگے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یعنی ایمان نہ لانے کی صورت میں بھی ان سے نفرت نہ کرو۔ اور اسی سورة میں ایک دوسری آیت ۹ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”انما ینہاکم اللّٰہ عن الذین قاتلواکم فی الدین واخرجواکم من دیارکم وظاہروا علی اخراجکم ان تولّواہم ومن یتولہم فاولٰئک ہم الظالمون“ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو منع کرتا ہے دوستی کرنے سے صرف ان لوگوں سے جنھوں نے مسلمانوں کو قتل کیا صرف دین اسلام کی اتباع کی وجہ سے اور تم کو یعنی مسلمانوں کو تمہارے گھروں سے نکال دیا اور ان لوگوں کی مدد کی جنھوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور جو لوگ یعنی مسلمان اور جو لوگ دشمنان اسلام سے ان کی اسلامی دشمنی اور مسلم دشمنی کے باوجود ان سے دوستی رکھتے ہیں پس وہ خدا کے نزدیک ظالم ہیں اس لئے قرآن کریم صرف ان لوگوں سے قتل وقتال کی اجازت دیتا ہے جو یا تو مسلمانوں کے دین و ایمان کومٹانے پر تلے ہوں یا مسلمانوں کو جانی مالی نقصان پہنچاتے ہوں لیکن کسی بھی حال میں امن پسند شہریوں چاہے وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھنے والے ہوں قتل و قتال کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام کا مقصد ہی دنیا میں امن وآشتی کا پیغام دینا ہے کیونکہ اسلام کا پیغامبر ہی رحمة للعالمین اور شفیع المذنبیں ہے۔
قرآن کریم تو ہمیشہ صلح کو جنگ وجدل پر ترجیح دیتا ہے کسی بھی حال میں بلاکسی قوی سبب کے جنگ پر اپنے متبعین کو نہیں اکساتا ہے (صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کا طرز عمل) مثال کے طورپر سورة انفال میں آیت نمبر ۶۱-۶۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللّٰہ انہ ہو السمیع العلیم وان یریدوا ان یخدعوک فان حسبک اللّٰہ ہو الذی ایدک بنصرہ وبالموٴمنین“ اوراگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو، تو بھی جھک اسی طرف اور بھروسہ کر اللہ پر بے شک وہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے اوراگر وہ چاہیں کہ تجھ کو دغا دیں تو تجھ کو کافی ہے اللہ اسی نے تجھ کو دیا زور اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔ قرآن کریم کا مقصد خونریزی کرنا اور دہشت گردی پھیلانا نہیں بلکہ اس کا مقصد قوت کے استعمال سے اعلائے کلمة اللہ اور قانون فطرت کا نفاذ ہے وہ ہرحال میں دنیاکو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہے چاہے اس کیلئے کچھ مقدار میں قوت ہی کا استعمال کیوں نہ کرنا پڑے۔ دنیا کو ایک بڑی تباہی سے بچانے کیلئے تھوڑی سی قربانی کو درست قرار دیتا ہے جس طرح سے ایک ماہر وحاذق طبیب دواء سے مریض کے ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں عمل جراحی(Operation) کے ذریعہ مریض کو تھوڑی سی پریشانی میں ڈال کر پوری زندگی کیلئے امن وامان کی راہ اس کیلئے ہموار کردیتا ہے پس یہ ہے اسلام میں قوت کے استعمال یا جہاد کا منشاء جس طرح سے ڈاکٹر یا طبیب عمل جراحی کو کوئی بھی معقول انسان مریض پر ظلم و ستم کرنا قرار نہیں دیتا اسی طرح سے قرآنی، خدائی اور نبوی طریق پر جہاد کو دہشت گردی یا انسانیت کے خلاف ظلم و ستم قرار نہیں دیا جاسکتا قرآن کریم مظلوموں اور عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھتا ہے جیساکہ سورة نساء کی آیت نمبر ۷۵ میں باری تعالیٰ کاارشاد ہے ”ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللّٰہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ہذہ القریة الظالم اہلہا واجعل لنا من لدنک ولیاً واجعل لنا من لدنک نصیراً“ ظاہر ہے ایسے معذوروں مظلوموں کی حفاظت کیلئے قوت کا استعمال اگر لازمی ہوتو اس کا استعمال کرنا پڑے گا ورنہ اپنے پاس قوت ہونے کی صورت میں بھی مظلومین کی مدد نہ کرنا اپنے فرض سے انحراف کرنے کے مترادف ہوگا جس کی پاداش میں ایسے شخص کیلئے عذاب الٰہی حرکت میں آسکتا ہے اور وہ مظلومین کی کسی اور ذریعہ سے مدد کراسکتا ہے۔
درج بالا تفصیل کی موجودگی میں یہ بات صاف۔ واضح ہے کہ قرآن پاک میں امن کی کوئ آیات ان لوگوں کے بارے میں نہیں جو فساد کریں لیکن جو مائل بہ امن ہوں ان کے لیے ایک نہیں بلکہ کئ آیات ہیں۔ملحدین قرآن پاک پر اپنی بد نیتی پر مبنی تشریح بیان کر کے عوام کو گمراہ نہیں کر سکتے۔
ہذا ما عندی۔واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/قران-کیا-کہتا-ہےِ؟.7570/
www.fikrokhabar.com
http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1441881365 04-Alami Dahshat Gardi_MDU_04_April_2006.htm
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔