کیا میثاق مدینہ ایک سیکولر معاہدہ تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ میں یہود سے کیے گئے معاہدے میثاق مدینہ کا آئینی اور مذہبی تجزیہ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
میثاق مدینہ میں 53دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی سیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔لہذا اس معاہدے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت تسلیم کی گئ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مذہبی انسان ہی نہیں بلکہ ایک مذہب کے سربراہ تھے اور اس معاہدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت کو تسلیم کر کے درحقیقت ایک مذہب یعنی اسلام کی سیادت تسلیم کی گئ۔پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ ایک سیکولر معاہدہ کیا جب کہ سیکولرازم میں دین حکومت اور معاملات سے الگ کیا جاتا ہے جب کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سربراہ تسلیم کیا گیا بلکہ مشرکین مکہ کے خلاف ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا گیا جس کا مطب مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت اور اسلام کے مرکز یعنی مدینہ منورہ کی حفاظت تھی۔پھر ایک ایسا معاہدہ جو ایک مذہب اور مذہبی مرکز کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا جائے کس طرح سیکولر ہو سکتا ہے جب کہ سیکولرازم میں مولوی کو مسجد تک محدود سمجھا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔
اگرہم اس معاہدے کے مقاصد کی طرف توجہ دیں تو درج ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں۔
سلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔
ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔
بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔
ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔
اب جب معاہدے کا مقصد ہی مسلمانوں اور مدینہ یعنی ایک مذہب کی بیرونی دشمن سے حفاظت اور سکون سے تبلیغ اسلام ہے تو پھر کس طرح اس معائدے کو سیکولر قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ سیکولرازم میں مذہب کی حفاظت اور دفاع تو دور کی بات،مذہب کس حکومت و معاملات میں وجود ہی برداشت نہیں کیا جاتا۔لگتا ہے کہ سیکولر اور ملحد اسلام دشمنی میں سیکولرازم کی تعریف بھی بھول گئے ہیں۔اب سیکولرازم کی تعریف بھی ملحد و سیکولر ہم سے پوچھیں گے۔سبحان اللٰہ۔
اب اس معاہدے کے بنیادی نکات پڑھ لیجئے۔
منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس معاہدے کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ پہلے حصے کا تعلق انصار و مہاجرین سے ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے
مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
معاہدے کی شرائط پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ یہود اور مسلمان سب کے فیصلے میں ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت تسلیم کی جارہی ہے،اسلام کے دشمنوں یعنی قریش مکہ کو پناہ دینے سے انکار کا معاہدہ کیا جا رہا ہے،ایک دوسرے دشمن یعنء یہود سے امن کا معاہدہ کر کے اپنے مذہب اور شہر کی حفاظت کی جا رہی ہے تو اور اس معاہدے کی مذہبی اہمیت بتانے کے لیے اور کیا ڈارون سے گزارش کی جائے۔
اب اس معاہدے کی اہمیت کس اندازہ لگائے۔ان نکات پر 1ہجری میں میثاق مدینہ طے ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقی و اشاعت میں مصروف ہوئے۔ دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو گئے اور ایک مرکزی نظام قائم ہو گیا۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکمران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فتح تھی۔یہ فتح درحقیقت ایک مذہب یعنی اسلام کی فتح تھی۔اس معاہدے میں واضح طور پر مذہب کے دفاع،مذہب کی آزادی اور ایک زبردست مذہبی شخصیت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی کی شق شامل ہے تو اب کیا سیکولرازم کی تعریف تبدیل ہوگئ ہے کہ اب ایک انتہائ اہم مذہبی معاہدے کو بھی سیکولر معاہدہ تسلیم کیا جائے گا؟
آج ترقی یافتہ ممالک کے دساتیر میں امریکہ کے دستور کو 7000الفاظ کا مختصر ترین مثالی دستور قرار دیا جاتا ہے مگر 1400سال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا 730الفاظ پر مشتمل میثاق مدینہ اس سے کہیں زیادہ جامع، موثر اور مکمل دستور ہے جس میں تمام آئینی طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف ریاستی وظائف کی ادائیگی کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ اقلیتوں سمیت تمام افراد و طبقات معاشرہ کے حقوق کو تحفظ دیا گیا اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حقیقی بنیادوں کو واضح کر دیا گیا۔
بیچارے ملحدین بڑے نازک مزاج لوگ ہیں۔اسلام کے امن کے معاہدے میں بھی نا خوش اور اسلامی جہاد میں بھی نا خوش۔ان کو اسلام میں کیڑے نکالنے کی عادت ہے جو صرف ارتقا کی پہلی کہانی اور ڈارون کی قبر سے دریافت ہوسکتے ہیں یا رچرڈ ڈاکنز کے دماغ سے۔
حوالہ جات۔۔۔
ابو داؤد السجستانی ۔ سنن ۔ دار احیائے السنۃ النبویہ۔ بیروت
↑ ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
↑ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعہ الثانیہ 1978ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ ، دارالارشاد ، بیروت
↑ ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
میثاق مدینہ میں 53دفعات شامل تھیں۔ اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی سیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔لہذا اس معاہدے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت تسلیم کی گئ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مذہبی انسان ہی نہیں بلکہ ایک مذہب کے سربراہ تھے اور اس معاہدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت کو تسلیم کر کے درحقیقت ایک مذہب یعنی اسلام کی سیادت تسلیم کی گئ۔پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ساتھ ایک سیکولر معاہدہ کیا جب کہ سیکولرازم میں دین حکومت اور معاملات سے الگ کیا جاتا ہے جب کہ یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سربراہ تسلیم کیا گیا بلکہ مشرکین مکہ کے خلاف ایک دفاعی معاہدہ بھی کیا گیا جس کا مطب مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت اور اسلام کے مرکز یعنی مدینہ منورہ کی حفاظت تھی۔پھر ایک ایسا معاہدہ جو ایک مذہب اور مذہبی مرکز کی حفاظت کے لیے تشکیل دیا جائے کس طرح سیکولر ہو سکتا ہے جب کہ سیکولرازم میں مولوی کو مسجد تک محدود سمجھا جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے وقت مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے۔
اگرہم اس معاہدے کے مقاصد کی طرف توجہ دیں تو درج ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں۔
سلمانوں کا تحفظ اور اسلامی ریاست کو بیرونی خطرات سے بچانا۔
ان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قریش کے زخم خوردہ تھے اس لیے یہاں آ کر ہر طرح سے اطمینان کر لینا چاہتے تھے تاکہ یہاں آباد کسی غیر قوم کے اختلافات رکاوٹ نہ بن سکیں۔
بلا رکاوٹ تبلیغِ اسلام ہو سکے۔
ان وجوہات کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودیوں کے تینوں قبائل سے ہجرت کے پہلے ہی سال ایک سمجھوتہ کر لیا جو میثاق مدینہ یا منشور مدینہ کہلاتا ہے۔
اب جب معاہدے کا مقصد ہی مسلمانوں اور مدینہ یعنی ایک مذہب کی بیرونی دشمن سے حفاظت اور سکون سے تبلیغ اسلام ہے تو پھر کس طرح اس معائدے کو سیکولر قرار دیا جا سکتا ہے جب کہ سیکولرازم میں مذہب کی حفاظت اور دفاع تو دور کی بات،مذہب کس حکومت و معاملات میں وجود ہی برداشت نہیں کیا جاتا۔لگتا ہے کہ سیکولر اور ملحد اسلام دشمنی میں سیکولرازم کی تعریف بھی بھول گئے ہیں۔اب سیکولرازم کی تعریف بھی ملحد و سیکولر ہم سے پوچھیں گے۔سبحان اللٰہ۔
اب اس معاہدے کے بنیادی نکات پڑھ لیجئے۔
منشور کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس معاہدے کے دو حصے نظر آتے ہیں۔ پہلے حصے کا تعلق انصار و مہاجرین سے ہے۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں
تمام مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
مسلمان آپس میں امن و اتحاد قائم رکھیں گے جو اسلام کی بنیاد ہے۔
اگر ان میں کوئی اختلاف ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کریں گے
مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق و فرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا۔
فوجی خدمت سب کے لیے ضروری ہوگی۔
قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
تمام مہاجرین کو ہر معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی جبکہ اس منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
تمام معاملات کے لیے اور آپس میں اختلافات کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔
مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔
بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔
ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا رضا مندی سے خوں بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔ کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔
مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔
قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔
یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
اسلامی ریاست کی سربراہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی قیادت و سیادت تسلیم کریں گے۔ اس طریقے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسلمان اور یہودیوں کی متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہو گئے۔
ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
شہر مدینہ میں ایک دوسرے فریق کے ساتھ جنگ کرنا حرام ہے۔
معاہدے کی شرائط پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ یہود اور مسلمان سب کے فیصلے میں ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیادت تسلیم کی جارہی ہے،اسلام کے دشمنوں یعنی قریش مکہ کو پناہ دینے سے انکار کا معاہدہ کیا جا رہا ہے،ایک دوسرے دشمن یعنء یہود سے امن کا معاہدہ کر کے اپنے مذہب اور شہر کی حفاظت کی جا رہی ہے تو اور اس معاہدے کی مذہبی اہمیت بتانے کے لیے اور کیا ڈارون سے گزارش کی جائے۔
اب اس معاہدے کی اہمیت کس اندازہ لگائے۔ان نکات پر 1ہجری میں میثاق مدینہ طے ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کر کے اسلام کی ترقی و اشاعت میں مصروف ہوئے۔ دوسری طرف اندرونی معاملات اور مذہبی آزادی برقرار رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور خدشات دور ہو گئے اور ایک مرکزی نظام قائم ہو گیا۔ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حکمران تسلیم کر لیا۔ یہ اس معاہدے کی سب سے اہم دفعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظیم فتح تھی۔یہ فتح درحقیقت ایک مذہب یعنی اسلام کی فتح تھی۔اس معاہدے میں واضح طور پر مذہب کے دفاع،مذہب کی آزادی اور ایک زبردست مذہبی شخصیت یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی کی شق شامل ہے تو اب کیا سیکولرازم کی تعریف تبدیل ہوگئ ہے کہ اب ایک انتہائ اہم مذہبی معاہدے کو بھی سیکولر معاہدہ تسلیم کیا جائے گا؟
آج ترقی یافتہ ممالک کے دساتیر میں امریکہ کے دستور کو 7000الفاظ کا مختصر ترین مثالی دستور قرار دیا جاتا ہے مگر 1400سال قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا 730الفاظ پر مشتمل میثاق مدینہ اس سے کہیں زیادہ جامع، موثر اور مکمل دستور ہے جس میں تمام آئینی طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف ریاستی وظائف کی ادائیگی کا طریق کار طے کر دیا گیا۔ اقلیتوں سمیت تمام افراد و طبقات معاشرہ کے حقوق کو تحفظ دیا گیا اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حقیقی بنیادوں کو واضح کر دیا گیا۔
بیچارے ملحدین بڑے نازک مزاج لوگ ہیں۔اسلام کے امن کے معاہدے میں بھی نا خوش اور اسلامی جہاد میں بھی نا خوش۔ان کو اسلام میں کیڑے نکالنے کی عادت ہے جو صرف ارتقا کی پہلی کہانی اور ڈارون کی قبر سے دریافت ہوسکتے ہیں یا رچرڈ ڈاکنز کے دماغ سے۔
حوالہ جات۔۔۔
ابو داؤد السجستانی ۔ سنن ۔ دار احیائے السنۃ النبویہ۔ بیروت
↑ ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
↑ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعہ الثانیہ 1978ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ ، دارالارشاد ، بیروت
↑ ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
↑ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔