قوم کے مسائل۔
لبرلز اور سیکولرز دن رات قوم کے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ان کے نزدیک بڑے بڑے مسائل اور ان کا حل کیا ہے؟ زیل میں بیان ہے۔
۱۔ مولانا طارق جمیل کی بڑی گاڑی۔
یہ ملک و قوم کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک مولوی بندہ ہو کر اتنی بڑی گاڑی میں سفر کرتا ہے اس سے ملک کے معاشی ڈھانچے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ مولوی کو تو غریب ہونا چاہئیے یہ امیر مولوی پتا نہیں کہاں سے امپورٹ ہو رہے ہیں۔ لہٰزا اس گھمبیر مسلے سے نپٹنے کے لئے مولانا صاحب کی گاڑی بیچ کر ان کو مہران دلوا دی جاۓ اور باقی پیسوں کا ہم ویلنٹائنز ڈے منائیں گے۔
۲۔ مولوی کی مبلغ چھ ہزار روپیہ تنخواہ
مُلک و قوم کی ساری آمدنی تو مولوی کھا جاتے ہیں۔ کرتے کچھ ہیں نہیں بس پانچ وقت نماز پڑھا لی اور جمع پڑھا لیا۔ کبھی نماز جنازہ اور ختم شریف کروا دیا۔ بڑی بات ہوئ تو بچے کے کان میں ازان دے دی اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دے دی۔ اس سے زیادہ مولوی حضرات کا کام ہی کیا ہے؟ اور دیکھیے چھ سات ہزار تنخواہ عوام کی جیب سے۔۔۔۔! کیا یہ ملک و قوم کے ساتھ زیادتی نہیں؟ اس کے حل کے لیے مولویوں کی تنخواہ چھ ہزار سے کم کر کے پینتیس سو رکھ دی جاۓ۔ باقی پیسوں سے ہم نیو ائیر پارٹی کریں گے۔
۳۔ مذہبیوں کی اونچی شلوار
لوگ کہتے ہیں کہ ملک کے سائنسدان سائنسی ترقی میں کیوں پیچھے ہیں؟ اس قومی مسلے کی وجہ مذہبی لوگوں کی اونچی اور ڈھیلی ڈالی شلوار ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ہمارے نہایت قابل احترام اور نامور سائنسدان جناب پرویز ہود بھائ مریخ کے سفر پر روانہ ہونے والے ہی تھی کہ جاتے ہوۓ ان کی ٹانگ مولوی کے پائنچے میں اٹک گئ جس سے سفر ملتوی ہو گیا۔ پھر یہ مذہبی کہتے ہیں کہ ہم سائنس میں ترقی نہیں کر رہے۔ لہٰزا آپ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی جاتی ہے کہ مذہبی لوگ اپنی شلواریں نیچی رکھا کریں تاکہ سائنس میں ترقی ممکن ہو سکے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
۴۔ گرل فرینڈز کا نا ہونا۔
کہتے ہیں ایک کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور سوچیئے اگر زیادہ عورتوں کا ہاتھ ہو تو انسان کتنا کامیاب ہو سکتا ہے؟ ملک و قوم کا مسلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ مذہبی ہیں اور گرل فرینڈز نہیں رکھتے۔ جب پیچھے عورت کا ہی ہاتھ نہیں ہو گا تو ترقی کیا خاک ہو گی؟ کم از کم چھ سات گرل فرینڈز تو ہونی چاہئیں تاکہ ترقی کا اوج کمال حاصل ہو جاۓ۔ اوپر سے یہ لوگ چار چار شادیاں کر لیتے ہیں۔ حد ہے۔ اتنی شادیوں کا کیا فائدہ یہ تو عورت سے زیادتی اور مزید مسلہ ہے۔ اس لئیے بیویوں کو گرل فرینڈز میں کنورٹ کر دیا جاۓ۔ کیونکہ بیوی تو وہی رہتی ہے اور گرل فرینڈ جب دل کیا بدل بھی سکتے ہیں۔ ایِزی ماحول۔
۵۔ مسجد کا سپیکر۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آٹھ گھنٹے کی نیند صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے جس سے نکار ممکن نہیں۔ مگر مذہبیوں کو کیا پتا سائنس کیا ہوتی ہے؟ ابھی ہم رات کے بارہ ایک بجے سوتے ہیں اور جناب فجر کے وقت ازانیں دینے لگتے ہیں۔ اب زرا سادہ سا حساب لگا کر بتائیں کہ رات کے دو بجے اور صبح کے پانچ بج کر تینتالیس منٹ کے درمیان پورے آٹھ گھنٹے بنتے ہیں؟؟؟ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی سائنس کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جب سائنس کی اتنی توہین ہو گی تو ترقی کیا ہو گی؟ اوپر سے اس سے صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ہم تو اٹھنا نہیں چاہتے امی جان اٹھا دیتی ہیں زبردستی۔ لہٰزا ہمارے وقت کی مناسب سے ازان و اقامت کی اوقات رکھے جائیں۔ دو بجے سے لے کر دس بجے تک ہمارا سلیِپ ٹائم ہے۔ لہٰزا فجر دس بجے کے بعد ہو۔
اس کے علاوہ قوم ان جیسے بہت سارے مسائل میں گھری ہوئ ہے۔ اگر ان کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو قوم مزید تنزلی کی "منازل"طے کرتے کرتے پستی میں گر جاۓ گی۔
شکریہ۔
تحریر۔ بنیامین مہر
لبرلز اور سیکولرز دن رات قوم کے مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ان کے نزدیک بڑے بڑے مسائل اور ان کا حل کیا ہے؟ زیل میں بیان ہے۔
۱۔ مولانا طارق جمیل کی بڑی گاڑی۔
یہ ملک و قوم کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ ظاہر سی بات ہے ایک مولوی بندہ ہو کر اتنی بڑی گاڑی میں سفر کرتا ہے اس سے ملک کے معاشی ڈھانچے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ مولوی کو تو غریب ہونا چاہئیے یہ امیر مولوی پتا نہیں کہاں سے امپورٹ ہو رہے ہیں۔ لہٰزا اس گھمبیر مسلے سے نپٹنے کے لئے مولانا صاحب کی گاڑی بیچ کر ان کو مہران دلوا دی جاۓ اور باقی پیسوں کا ہم ویلنٹائنز ڈے منائیں گے۔
۲۔ مولوی کی مبلغ چھ ہزار روپیہ تنخواہ
مُلک و قوم کی ساری آمدنی تو مولوی کھا جاتے ہیں۔ کرتے کچھ ہیں نہیں بس پانچ وقت نماز پڑھا لی اور جمع پڑھا لیا۔ کبھی نماز جنازہ اور ختم شریف کروا دیا۔ بڑی بات ہوئ تو بچے کے کان میں ازان دے دی اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دے دی۔ اس سے زیادہ مولوی حضرات کا کام ہی کیا ہے؟ اور دیکھیے چھ سات ہزار تنخواہ عوام کی جیب سے۔۔۔۔! کیا یہ ملک و قوم کے ساتھ زیادتی نہیں؟ اس کے حل کے لیے مولویوں کی تنخواہ چھ ہزار سے کم کر کے پینتیس سو رکھ دی جاۓ۔ باقی پیسوں سے ہم نیو ائیر پارٹی کریں گے۔
۳۔ مذہبیوں کی اونچی شلوار
لوگ کہتے ہیں کہ ملک کے سائنسدان سائنسی ترقی میں کیوں پیچھے ہیں؟ اس قومی مسلے کی وجہ مذہبی لوگوں کی اونچی اور ڈھیلی ڈالی شلوار ہے۔ ابھی کل کی بات ہے ہمارے نہایت قابل احترام اور نامور سائنسدان جناب پرویز ہود بھائ مریخ کے سفر پر روانہ ہونے والے ہی تھی کہ جاتے ہوۓ ان کی ٹانگ مولوی کے پائنچے میں اٹک گئ جس سے سفر ملتوی ہو گیا۔ پھر یہ مذہبی کہتے ہیں کہ ہم سائنس میں ترقی نہیں کر رہے۔ لہٰزا آپ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی جاتی ہے کہ مذہبی لوگ اپنی شلواریں نیچی رکھا کریں تاکہ سائنس میں ترقی ممکن ہو سکے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
۴۔ گرل فرینڈز کا نا ہونا۔
کہتے ہیں ایک کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور سوچیئے اگر زیادہ عورتوں کا ہاتھ ہو تو انسان کتنا کامیاب ہو سکتا ہے؟ ملک و قوم کا مسلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ مذہبی ہیں اور گرل فرینڈز نہیں رکھتے۔ جب پیچھے عورت کا ہی ہاتھ نہیں ہو گا تو ترقی کیا خاک ہو گی؟ کم از کم چھ سات گرل فرینڈز تو ہونی چاہئیں تاکہ ترقی کا اوج کمال حاصل ہو جاۓ۔ اوپر سے یہ لوگ چار چار شادیاں کر لیتے ہیں۔ حد ہے۔ اتنی شادیوں کا کیا فائدہ یہ تو عورت سے زیادتی اور مزید مسلہ ہے۔ اس لئیے بیویوں کو گرل فرینڈز میں کنورٹ کر دیا جاۓ۔ کیونکہ بیوی تو وہی رہتی ہے اور گرل فرینڈ جب دل کیا بدل بھی سکتے ہیں۔ ایِزی ماحول۔
۵۔ مسجد کا سپیکر۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آٹھ گھنٹے کی نیند صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے جس سے نکار ممکن نہیں۔ مگر مذہبیوں کو کیا پتا سائنس کیا ہوتی ہے؟ ابھی ہم رات کے بارہ ایک بجے سوتے ہیں اور جناب فجر کے وقت ازانیں دینے لگتے ہیں۔ اب زرا سادہ سا حساب لگا کر بتائیں کہ رات کے دو بجے اور صبح کے پانچ بج کر تینتالیس منٹ کے درمیان پورے آٹھ گھنٹے بنتے ہیں؟؟؟ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولوی سائنس کی صریحاً خلاف ورزی کر رہا ہے۔ جب سائنس کی اتنی توہین ہو گی تو ترقی کیا ہو گی؟ اوپر سے اس سے صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ہم تو اٹھنا نہیں چاہتے امی جان اٹھا دیتی ہیں زبردستی۔ لہٰزا ہمارے وقت کی مناسب سے ازان و اقامت کی اوقات رکھے جائیں۔ دو بجے سے لے کر دس بجے تک ہمارا سلیِپ ٹائم ہے۔ لہٰزا فجر دس بجے کے بعد ہو۔
اس کے علاوہ قوم ان جیسے بہت سارے مسائل میں گھری ہوئ ہے۔ اگر ان کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو قوم مزید تنزلی کی "منازل"طے کرتے کرتے پستی میں گر جاۓ گی۔
شکریہ۔
تحریر۔ بنیامین مہر
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔