تحریر : محمّد سلیم
کافی دنوں سے بھینسا اور سید امجد حسین کی طرف سے ایک اعتراض کیا جا رہا تھا کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے حصرت صفیہ بنت حیی رض سے خیبر کے مقام پر بغیر عدت کے چار ماہ دس دن گزارے صحبت کر لی تھی جو قران کی خلاف ورزی ہے ۔
مشہور عالمِ دین جناب محمّد علی مرزا صاحب نے ایک ویڈیو کے ذریعے نہ صرف اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے بلکہ الحاد کے منفی ہتھکنڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے کہ کس طرح واضح حدیثیں چھوڑ کر مختصر الفاظ پر مبنی حدیثیں لے کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔
بھینسے نے اس مکمل اور جامع جواب کو تسلیم کرنے کے بجائے کھمبا نوچتے ہوئے پھر دوبارہ پرانے اعتراض پہ جمپ لگا دی کہ اس کا مطلب اسلام میں غلام عورتوں کے حقوق آزاد عورتوں سے کم ہیں ؟ بالکل ایسا ہی ہے ۔ اس کا انکار کس مسلمان نے کیا ؟
پہلے انجینئر محمّد علی مرزا کا جواب قارئین کی نذر کر دوں پھر اگلے اعتراض پہ بات کرتے ہیں ۔
طلاق یافتہ آزاد خواتین کی عدت قران میں تین حیض بیان ہوئی ہے ۔
سورہ البقرہ آیت 228
وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ﴿۲۲۸﴾
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں۔ اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے ﴿۲۲۸﴾
بیوہ خواتین کی عدت قرآن میں چار ماہ دس دن آئی ہے ۔
سورہ البقرہ آیت 234
وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ﴿۲۳۴﴾
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ اور جب (یہ) عدت پوری کرچکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۲۳۴﴾
ان دونوں معاملات میں ایک استثنیٰ یہ ہے کہ اگر عورت حاملہ ہے تو عدت کا حکم بدل جائے گا ۔ یعنی ایک عورت کا حمل طلاق یا شوہر کے فوت ہونے کے اگلے دن ظاہر ہو گیا تو اب اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک رہے گی ۔ اور اگر وہ پہلے سے حاملہ تھی اور طلاق یا شوہر کے فوت ہونے کے اگلے دن بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو عدت بھی اسی دن ختم ہو جائے گی اور وہ نیا نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔
اس کا حکم سورہ الطلاق آیت نمبر 4میں آیا ہے ۔
وَالّٰٓـىٴِۡ يَٮِٕسۡنَ مِنَ الۡمَحِيۡضِ مِنۡ نِّسَآٮِٕكُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشۡهُرٍ وَّالّٰٓـىٴِۡ لَمۡ يَحِضۡنَ ؕ وَاُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنۡ يَّضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ ؕ وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مِنۡ اَمۡرِهٖ یُسْرًا ﴿۴﴾
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (ان کی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (ان کی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچّہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا ﴿۴﴾
اب سوال یہ ہے کہ جو اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ صفیہ بنتِ حیی سے متعلق ہے جو بطور لونڈی لائی گئی تھیں ۔ اور قرآن میں اس بابت جو احکامات ہیں وہ آزاد عورتوں سے متعلق ہے ۔
اسلام کے اصولوں کے مطابق جو حکم قرآن میں نہ ملے اسے حدیث سے اخذ کیا جاتا ہے جیسے گدھے کے گوشت کی حرمت اور زانی کی سزا رجم قرآن میں نہیں ہے مگر ان احکامات پہ امت کا کوئی اختلاف نہیں ۔ پھر اگر حدیث میں بھی کوئی حکم نہ ملے تو اس کے لئے اجماع کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
لونڈی کی عدت مشکواہ کی حدیث نمبر 3338اور مسند احمد میں واضح کی گئی ہے جو کہ صرف ایک حیض ہے ۔
اب آجائیں صفیہ بنت حیی کے معاملے پر ۔ ان کے معاملے میں جو حدیثیں بھینسا اور سید امجد حسین لگا رہے ہیں ان میں جان بوجھ کر ان حدیثوں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں ان کی عدت پوری ہو جانے کی وضاحت نہ ہو ۔ حالانکہ کہ صحیح بخاری ہی کی کتاب المغازی حدیث نمبر 4211میں ان کی عدت اور حیض سے پاک ہو جانے کا ذکر موجود ہے ۔ اس حدیث کا اسکرین شاٹ بھی دے دیا گیا ہے مختصراً الفاظ یہاں بھی بتا دیتا ہوں ۔
"لہٰذا نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے انہیں(صفیہ) اپنے لئے منتخب فرمایا ۔ آپ انہیں لے کر روانہ ہوئے حتیٰ کہ سد صہباء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہو چکی تھیں ۔ رسول ﷲ صلی علیہ وسلم نے ان سے خلوت فرمائی ۔"
اسی ضمن کی ایک دوسری حدیث میں انہیں ام سلیم کے حوالے کیئے جانے کا ذکر ہے ۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کے حیض سے پاک ہونے تک انتظار کیا تاکہ ان کی عدت پوری ہو جائے ۔
اب اس وضاحت سے یہ سارا کا سارا اعتراض زمین بوس ہو جاتا ہے ۔ مگر بجائے اس کے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے وہی پرانا اور دقیانوسی اعتراض دوبارہ جڑ دیا گیا کہ اسلام میں لونڈی کو آزاد عورت کے برابر مقام نہیں دیا جاتا ۔ اس اعتراض کی وضاحت تو میں کئی مرتبہ اپنی پوسٹس میں کر چکا ہوں کہ مسلمانوں میں جنگی قیدیوں کو سزائیں دینے کا رواج ہے نہ کہ ان سے ہمدردی جتانے کا ۔ وہ مسلمانوں کو تحفے تحائف تقسیم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں نہیں پکڑے گئے بلکہ قتل و غارت کی منصوبہ بندی میں ناکام ہو کر گرفتار ہوئے ہیں ۔ لہٰذا ان کے معاملات آزاد لوگوں جیسے ہو کیسے سکتے ہیں ؟
کہتے ہیں کہ یہ انسانی ہمدردی کے خلاف ہے کہ ایک عورت کا باپ اور شوہر مرا ہے اور مسلمان اس عورت کے ساتھ سیکس کرتے ہیں ۔ سبحان ﷲ ۔ یہاں یہ اعتراض تو اس سے بھی پہلے بنتا ہے کہ مسلمانوں نے ان کے شوہر اور باپ کو مارا ہی کیوں ؟ مگر یہ اعتراض یہ کبھی نہیں کریں گے کیوں کہ جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ لڑنے آئے تھے ۔ اور اگر اخلاقی اعتبار سے کسی لونڈی کے شوہر اور باپ کو قتل کرنے پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا تو اس لونڈی سے ہم بستری پر اعتراض کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟ یہ الفاظ کے کھیل ہم سے نہ کھیلیں ہم روز کھیلتے ہیں ۔
پھر مزید اعتراض یہ ہے کہ لونڈی کی عدت کا حکم بھی قرآن سے دکھاؤ ۔ سبحان ﷲ ۔ ہو ملحد اور باتیں پرویزیوں جیسی ؟ ہم مسلمان قران و حدیث کے قائل ہیں ناکہ صرف قرآن کے ۔ ہمارے لئے نبی کا حکم اور ﷲ کا حکم ایک جیسا درجہ رکھتا ہے جس کا حکم خود ہمیں قرآن دیتا ہے ۔
سورہ النساء آیت 59
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا ﴿۵۹﴾
مومنو! ﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر ﷲ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں ﷲ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے ﴿۵۹﴾
یہاں ﷲ تعالیٰ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ﷲ کے حکم کی فرماں برداری کرو اور وہ حکم تمہیں رسول بتا دیں گے ۔ مگر ایسا نہیں کہا بلکہ نبی کو اختیار دیا ۔ لہٰذا یہ ڈیمانڈ کہ صرف قرآن سے لاؤ پوری کرنے لائق نہیں بلکہ منہ پہ مار دینے لائق ہے ۔ میرے نزدیک تو وہ شخص بھی اپنے ایمان کی خیر منائے جسے پرویزی مجبور کرے کہ حدیث کے بجائے قران سے حکم دکھاؤ اور وہ اس کے مطالبے پر قران سے حکم ڈھونڈتا پھرے ۔
پھر یہ کیوں بھول گئے کہ اعتراض بھی تو حدیث پر ہی کیا تھا ۔ اگر حدیث تمہارے لئے قابلِ اعتبار نہیں تو صفیہ رض والی حدیث کیسے قابلِ بھروسہ ہو گئی ؟
جواب مل گیا ؟ منہ دھو کر سو جاؤ اب ۔
کافی دنوں سے بھینسا اور سید امجد حسین کی طرف سے ایک اعتراض کیا جا رہا تھا کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے حصرت صفیہ بنت حیی رض سے خیبر کے مقام پر بغیر عدت کے چار ماہ دس دن گزارے صحبت کر لی تھی جو قران کی خلاف ورزی ہے ۔
مشہور عالمِ دین جناب محمّد علی مرزا صاحب نے ایک ویڈیو کے ذریعے نہ صرف اس اعتراض کا جواب دے دیا ہے بلکہ الحاد کے منفی ہتھکنڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے کہ کس طرح واضح حدیثیں چھوڑ کر مختصر الفاظ پر مبنی حدیثیں لے کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے ۔
بھینسے نے اس مکمل اور جامع جواب کو تسلیم کرنے کے بجائے کھمبا نوچتے ہوئے پھر دوبارہ پرانے اعتراض پہ جمپ لگا دی کہ اس کا مطلب اسلام میں غلام عورتوں کے حقوق آزاد عورتوں سے کم ہیں ؟ بالکل ایسا ہی ہے ۔ اس کا انکار کس مسلمان نے کیا ؟
پہلے انجینئر محمّد علی مرزا کا جواب قارئین کی نذر کر دوں پھر اگلے اعتراض پہ بات کرتے ہیں ۔
طلاق یافتہ آزاد خواتین کی عدت قران میں تین حیض بیان ہوئی ہے ۔
سورہ البقرہ آیت 228
وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ﴿۲۲۸﴾
اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنی تئیں روکے رہیں۔ اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو چھپائیں۔ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔ اور خدا غالب (اور) صاحب حکمت ہے ﴿۲۲۸﴾
بیوہ خواتین کی عدت قرآن میں چار ماہ دس دن آئی ہے ۔
سورہ البقرہ آیت 234
وَالَّذِيۡنَ يُتَوَفَّوۡنَ مِنۡكُمۡ وَيَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا يَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ اَرۡبَعَةَ اَشۡهُرٍ وَّعَشۡرًا ۚ فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا فَعَلۡنَ فِىۡٓ اَنۡفُسِهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ﴿۲۳۴﴾
اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ اور جب (یہ) عدت پوری کرچکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ﴿۲۳۴﴾
ان دونوں معاملات میں ایک استثنیٰ یہ ہے کہ اگر عورت حاملہ ہے تو عدت کا حکم بدل جائے گا ۔ یعنی ایک عورت کا حمل طلاق یا شوہر کے فوت ہونے کے اگلے دن ظاہر ہو گیا تو اب اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک رہے گی ۔ اور اگر وہ پہلے سے حاملہ تھی اور طلاق یا شوہر کے فوت ہونے کے اگلے دن بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو عدت بھی اسی دن ختم ہو جائے گی اور وہ نیا نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔
اس کا حکم سورہ الطلاق آیت نمبر 4میں آیا ہے ۔
وَالّٰٓـىٴِۡ يَٮِٕسۡنَ مِنَ الۡمَحِيۡضِ مِنۡ نِّسَآٮِٕكُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشۡهُرٍ وَّالّٰٓـىٴِۡ لَمۡ يَحِضۡنَ ؕ وَاُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنۡ يَّضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ ؕ وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مِنۡ اَمۡرِهٖ یُسْرًا ﴿۴﴾
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (ان کی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (ان کی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچّہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا ﴿۴﴾
اب سوال یہ ہے کہ جو اعتراض اٹھایا گیا ہے وہ صفیہ بنتِ حیی سے متعلق ہے جو بطور لونڈی لائی گئی تھیں ۔ اور قرآن میں اس بابت جو احکامات ہیں وہ آزاد عورتوں سے متعلق ہے ۔
اسلام کے اصولوں کے مطابق جو حکم قرآن میں نہ ملے اسے حدیث سے اخذ کیا جاتا ہے جیسے گدھے کے گوشت کی حرمت اور زانی کی سزا رجم قرآن میں نہیں ہے مگر ان احکامات پہ امت کا کوئی اختلاف نہیں ۔ پھر اگر حدیث میں بھی کوئی حکم نہ ملے تو اس کے لئے اجماع کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
لونڈی کی عدت مشکواہ کی حدیث نمبر 3338اور مسند احمد میں واضح کی گئی ہے جو کہ صرف ایک حیض ہے ۔
اب آجائیں صفیہ بنت حیی کے معاملے پر ۔ ان کے معاملے میں جو حدیثیں بھینسا اور سید امجد حسین لگا رہے ہیں ان میں جان بوجھ کر ان حدیثوں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں ان کی عدت پوری ہو جانے کی وضاحت نہ ہو ۔ حالانکہ کہ صحیح بخاری ہی کی کتاب المغازی حدیث نمبر 4211میں ان کی عدت اور حیض سے پاک ہو جانے کا ذکر موجود ہے ۔ اس حدیث کا اسکرین شاٹ بھی دے دیا گیا ہے مختصراً الفاظ یہاں بھی بتا دیتا ہوں ۔
"لہٰذا نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے انہیں(صفیہ) اپنے لئے منتخب فرمایا ۔ آپ انہیں لے کر روانہ ہوئے حتیٰ کہ سد صہباء پہنچے تو وہ حیض سے پاک ہو چکی تھیں ۔ رسول ﷲ صلی علیہ وسلم نے ان سے خلوت فرمائی ۔"
اسی ضمن کی ایک دوسری حدیث میں انہیں ام سلیم کے حوالے کیئے جانے کا ذکر ہے ۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کے حیض سے پاک ہونے تک انتظار کیا تاکہ ان کی عدت پوری ہو جائے ۔
اب اس وضاحت سے یہ سارا کا سارا اعتراض زمین بوس ہو جاتا ہے ۔ مگر بجائے اس کے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے وہی پرانا اور دقیانوسی اعتراض دوبارہ جڑ دیا گیا کہ اسلام میں لونڈی کو آزاد عورت کے برابر مقام نہیں دیا جاتا ۔ اس اعتراض کی وضاحت تو میں کئی مرتبہ اپنی پوسٹس میں کر چکا ہوں کہ مسلمانوں میں جنگی قیدیوں کو سزائیں دینے کا رواج ہے نہ کہ ان سے ہمدردی جتانے کا ۔ وہ مسلمانوں کو تحفے تحائف تقسیم کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں نہیں پکڑے گئے بلکہ قتل و غارت کی منصوبہ بندی میں ناکام ہو کر گرفتار ہوئے ہیں ۔ لہٰذا ان کے معاملات آزاد لوگوں جیسے ہو کیسے سکتے ہیں ؟
کہتے ہیں کہ یہ انسانی ہمدردی کے خلاف ہے کہ ایک عورت کا باپ اور شوہر مرا ہے اور مسلمان اس عورت کے ساتھ سیکس کرتے ہیں ۔ سبحان ﷲ ۔ یہاں یہ اعتراض تو اس سے بھی پہلے بنتا ہے کہ مسلمانوں نے ان کے شوہر اور باپ کو مارا ہی کیوں ؟ مگر یہ اعتراض یہ کبھی نہیں کریں گے کیوں کہ جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ لڑنے آئے تھے ۔ اور اگر اخلاقی اعتبار سے کسی لونڈی کے شوہر اور باپ کو قتل کرنے پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا تو اس لونڈی سے ہم بستری پر اعتراض کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟ یہ الفاظ کے کھیل ہم سے نہ کھیلیں ہم روز کھیلتے ہیں ۔
پھر مزید اعتراض یہ ہے کہ لونڈی کی عدت کا حکم بھی قرآن سے دکھاؤ ۔ سبحان ﷲ ۔ ہو ملحد اور باتیں پرویزیوں جیسی ؟ ہم مسلمان قران و حدیث کے قائل ہیں ناکہ صرف قرآن کے ۔ ہمارے لئے نبی کا حکم اور ﷲ کا حکم ایک جیسا درجہ رکھتا ہے جس کا حکم خود ہمیں قرآن دیتا ہے ۔
سورہ النساء آیت 59
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا ﴿۵۹﴾
مومنو! ﷲ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر ﷲ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں ﷲ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے ﴿۵۹﴾
یہاں ﷲ تعالیٰ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ﷲ کے حکم کی فرماں برداری کرو اور وہ حکم تمہیں رسول بتا دیں گے ۔ مگر ایسا نہیں کہا بلکہ نبی کو اختیار دیا ۔ لہٰذا یہ ڈیمانڈ کہ صرف قرآن سے لاؤ پوری کرنے لائق نہیں بلکہ منہ پہ مار دینے لائق ہے ۔ میرے نزدیک تو وہ شخص بھی اپنے ایمان کی خیر منائے جسے پرویزی مجبور کرے کہ حدیث کے بجائے قران سے حکم دکھاؤ اور وہ اس کے مطالبے پر قران سے حکم ڈھونڈتا پھرے ۔
پھر یہ کیوں بھول گئے کہ اعتراض بھی تو حدیث پر ہی کیا تھا ۔ اگر حدیث تمہارے لئے قابلِ اعتبار نہیں تو صفیہ رض والی حدیث کیسے قابلِ بھروسہ ہو گئی ؟
جواب مل گیا ؟ منہ دھو کر سو جاؤ اب ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔